loading

{حدیث یوم}

خوشامد اور چاپلوسی کی مذمت

تدوين:بلال حسين

امام علی ؑ فرماتےہیں:

إِيَّاكَ وَ اَلْمَلَقَ فَإِنَّ اَلْمَلَقَ لَيْسَ مِنْ خَلاَئِقِ اَلْإِيمَانِ .[1]آمدی، عبد الواحد بن محمد ،غرر الحكم ج :1 ، ص: 170۔

ترجمہ:

چاپلوسی سےپرہیزکرو،کیونکہ چاپلوسی  ایمان  کی خصلتوں میں سے نہیں ہے۔

تشریح:

اخلاقی اقتدار کےمعنی و مفہوم سےاگراپنےمقصد کوپوراکرنےکےلئےغلط فائدہ  اٹھایاجائےتومعنی بدلیں گےاورنہ ہی اپناکام صحیح کام شمارہوگا،بلکہ اس کے معنی وہی ہیں جواسلامی تعلیمات میں بیان ہوئےہیں اور اور اس شخص کاکام بھی غلط ہے،اگرچہ اس نےاپنی عقل  کی مخالفت کرتےہوئےہیں اپنی نفسانی خواہش کی فرمانبداری کرکےاپنےآپ کومغالطہ میں ڈالنےکی کی کوشش کی  ہےمثلا احادیث میں خوش مزاجی اور اچھےسلوک کےبارےمیں تاکیدہوئی ہے،اچھےاخلاق کےدنیااور آخرت میں حاصل ہونےوالےفائدےبیان ہوئےہیں اورخوش مزاجی کےمعنی اورمصادیق ذکرکیےگئےہیں۔آدمی کی توجہ رہنی چاہیے کہ خوش  مزاجی  کےبجائےخوشامد اور چاپلوسی نہ   کرے ۔یعنی  درحقیقت  وہ ایک اچھےمعنی ومفہوم کےبہانےسےغلط  فائدہ اٹھارہاہے۔خوش مزاجی ،اچھاسلوک  اور انکساری کرنی چاہیے،لیکن اس مقصدسےکہ  سامنےوالےآدمی کی خوشامدکی جائےاوراپنامفادحاصل کرنےکےلئے اس کی چاپلوسی اور تعریف کی جائے یہ بری  صفت اورلائق مذمت کام ہے۔ہوسکتاہےکہ دیکھنےوالوں کوبعض کام بظاہر اخلاقی اقدارمحسوس ہوں،لیکن کیونکہ  عمل کرنےوالے شخص کی نیت اور مقصدمیں فرق ہےتواس  وہ کام اخلاقی اقدار میں  سےشمار نہیں ہوگا،بلکہ اس   میں  بری صفات پائی  جاتی ہیں جیسےلالچ،طمع،حرص،چاپلوسی اوروشامدگوئی،وہ ان جیسی بری صفات  کی بنیاد پر ظاہری طورپر اپنے سامنے والےآدمی سےخوش مزاجی اور خاکساری  کیساتھ خوش مزاجی کیساتھ سلوک نہیں کرتا،اور ان کےسامنےانکساری اختیار نہیں کرتا،کیونکہ وہ صرف اس  آدمی  سےبظاہر اچھا سلوک کرتاہے،جس سے اس  کااپنامفاداورمطلب ہو،مثلا پیسے،مال اورمقام کی لالچ ہو،لیکن  جس سےاسےکوئی فائدہ  مطلوب نہ ہو تووہاں نہ انکساری کرتاہےاورنہ اخلاقی اقدارکاخیال رکھتاہے،بلکہ وہاں پروہ بدسلوک اوربدمزاج بن جاتاہے۔

Views: 8

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم