loading

{حدیث یوم}

دینی معارف میں حسد کی مذمت

تدوين :بلال حسين

امام علی ؑ فرماتےہیں:

الحسودلا شفاء لہ [1]آمدی، عبد الواحد بن محمد،ج :1، ص :55۔

ترجمہ:حسدایک ایسامرض ہےجس کاکوئی علاج نہیں۔

تشريح:

انسان کو اپنےزندگی میں جن مہم مسائل کےبارےمیں متوجہ رہناچاہیےان میں سےایک حسادت ہے۔حسد ایک ایسی صفت ہےکہ جب ہم  اس کےبارےمیں روایات کو ملاحظہ کرتےہیں تو یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ بدترین  اخلاقی صفات میں سے ایک ہے۔امیر المؤمنینؑ سے روایات میں یہ تعبیر ہے کہ یہ شرالامراض میں سے ایک ہے،یادوسرےبعض تعابیر میں آپؑ سےنقل ہےکہ فرماتےہیں:الحسد لا شفاءلہ،حسد ایک ایسامرض ہےجس کاکوئی علاج نہیں۔حسادت کا  معنی یہ ہےکہ انسان اگرکسی دوسرےشخص میں کوئی نعمت دیکھےتو یہ آرزو کرےکہ اس کا یہ نعمت ختم ہوجائے،اس کی تمام خواہش یہ ہو کہ اس شخص کی یہ نعمت زائل ہوجائے،ہمارےپاس حسد ایک حسد ہےاور ایک غبطہ۔

غبطہ حسد کابرعکس ہے،یہ بہت اچھاہےاور اس کا معنی یہ ہےکہ انسان دیکھتاہےخدانےکسی کو کوئی نعمت عطا کی ہےتووہ یہ بولتاہےکہ انشاءاللہ خدا مجھےبھی یہ نعمت عطاکرےگااسے غبطہ  کہاجاتاہے،لیکن حسد کامعنی یہ ہےکہ انسان کسی دوسرےسےاس نعمت کف ختم ہونےکاآرزو کرے۔

حسد ان بری صفات میں سے ایک ہےکہ جوہرقسم کےانسانوں  میں پائی جاتی ہےاور یہ ہر عمر کےانسانوں  میں ہوتی ہے،مرد،عورت،جوان،بوڑھے،جاہل،عالم۔۔۔۔سب میں یہ صفت پائی جاتی ہے۔سب سےزیادہ یہ صفت علماء میں پائی جاتی ہے،گویاعلم میں یہ چیز پائی جاتی ہےکہ انسان کوحاسدمیں پھنسادیتاہے،اس بارےمیں ایک واضح مثال بیان کروں،کبھی انسان یہ کہتاہےکہ فلاں شخص سالم ہےاورمیں سالم نہیں  ہوں،اس کادل چاہتاہےاس کادل چاہتاہےکہ دوسرا بھی مریض ہوجائے، واقعا یہ خود اپنی جگہ ایک مصیبت ہےیاکس کےپاس مال ودولت ہےانسان یہ آرزوکرےکہ وہ وقت کب آئےگاکہ یہ شخص بھی فقیر ہوجائے کہ میں اس کےفقیرہونےکو دیکھ لوں۔

کوئی شخص عزت   دارہے،دوسراکوئی کہتاہےکہ کب میں اس کی ذلت کو دیکھ  سکوںگا؟کب اس سےیہ نعمت زائل ہوگی؟کسی کےپاس مقامومنصب ہےدوسرا اس کےنیچےکام کرنےوالاہے،کوئی خوبورت ہےدوسرانہیں ہے،خلاصہ یہ کہ حسادت خداوندمتعال کی نعمتوں کےتعدادکےمطابق ہے۔کسی حافظہ بہت  اچھا ہے،کسی کا ستعداد اچھاہے،کوئی بہت زیادہ طاقتورہے،کوئی بہت اچھاخطیب ہےدوسرےاس سےحسد کرتےہیں۔

علماء کےبارےمیں روایات نقل ہے کہ قیامت کےدن حساب وکتاب سےپہلےجہنم  جانےوالوں جانےوالوں میں سےایک گروہ علماء ہیں،وہ علماء جوحسودہوتےہیں (العلماء اذحسدوا)

یہاں پر ایک تحلیل ہےکہ شیطان کے مہم ترین راستےتین ہیں:

۱۔شہوت کاراستہ ہے

۲۔غضب کاراستہ ہے

۳۔ نفس ہوی ہوس  ہے

اس تحلیل کےبارےمیں غورکریں ،دیکھیں  حسدکن برےاوصاف کانتیجہ ہے!علماء اخلاق قوۃشہوت کو قوۃ بھیمیہ سے تعبیرکرتےہیں،یعنی انسان اور حیوان قوۃ شہوت میں مشترک ہے۔اور قوۃ غضب  سےقوۃ سبعیہ تعبیر کرتےہیں کہ یہ بھی انسان اورحیوان  کےدرمیان مشترک ہیں،لیکن جو چیزانسان میں موجود ہے اورحیوان میں نہیںہےاور وہ ہوی اور ہوس ہے،شیطانی آرزوئیں،انسان آرزوکرتاہےکہ کوئی مقام پیداکرے،آرزوکرتاہےکہ مال ودولت ملے، اس کی خواہش ہوتی ہےکہ ایساویساگھر اس کے پاس ہو،گھر کےسامان ماڑرن ہوں،یہ چیزیں انسان میں موجود ہوتی ہے۔ایک اہم مطلب یہ ہےکہ  ان تینوں قوات کےدرمیان،قوۃ غضب ،قوۃ شہوت سےبہت زیادہ خطرناک ہے،یعنی جتنا قوۃ غضب انسان کو سقوط کی طرف لےجاتا ہے،قوۃ شہوت اسےسقوط کی طرف نہیں لےجاتا!!اورقوۃ ہوی ہوس قوۃ غضب سےخطرناک ہے،ایک اور تعبیریہ ہے کہ قوۃ شہوانیہ خود انسان پرظلم ہے،قوۃ غضب دوسرےپر ظلم ہےاور ہوی ہوس ،ا للہ تعالی پر ظلم ہے،جو انسان ہوی ہوس میں گرفتارہواس میں  شرک ہوتاہے،وہ خداوند عالم کےبارے میں بہت بڑا ظالم ہے۔

اس باےمیں روایات بھی ہیں  فرماتےہیں:ان الظلم  ثلاثۃ  ظلم لا یغفر و ظلم لایترک وظلم عسی اللہ أن یترکہ [2]آمدی، عبد الواحد بن محمد ، غرر الحکم ج:1 ، ص: 180۔

ایک ظلم ایساہے کہ خداوند متعال کبھی پھی اسے معاف نہیں کرتایہ وہی شرک ہے،ایک ظلم ایساہےکہ وہ اس ظلم سےنجات نہیں پاتایہ وہ ظلم ہے جسےانسان دوسرےپرکرتاہے،انسان اس ظلم سےرہائی نہیں پاتاجب تک جس کےحق میں یہ ظلم کیاہےاسےراضی  نہ کرے،ایک ظلم ایساہےکہ عسی اللہ ان یترکہ: شاید خدا  اسے معاف کرےجیسے شہوانی مسائل کہ امید ہےخدا اسےمعاف کردے۔

علماء اخلاق اور مطلب بیان کرتےہیں کہ قوۃ شہوانی کا میوہ لالچ اورکنجوسی ہے جس انسان یہ دیکھناچاہتاہےکہ آیا واقعااس کا قوۃ شہوانی قوی ہے یا نہیں  تو وہ یہ دیکھیں کہ کیاوہ خود،کھانےپینےکی چیزوں میں لالچی ہے یا نہیں ،مال کےبارے میں لالچی ہےیا نہیں ،جنسی لذات ،اور مقام ومنصب کے بارےمیں لالچی ہےیانہبں لالچ اور کنجوسی شہوت  کے دو میوہ ہیں،عجب اور تکبر غضب  کے دومیوہ ہیں۔ جس شخص کا قوۃ غضبیہ قوی ہو وہ انسان متکبر اور خودپسند ہوتاہے،وہ کسی کےاحترام کاقائل نہیں ،عام طورپر جولوگ زیادہ غصہ والا اورلڑاکو ہوتےہیں،وہ عجب اور متکبر ہوتےہیں،یہ لوگ کسی کےعزت واحترام کا قائل نہیں ہوتے،بلکہ یہی کہتےہیں کہ جو کچھ ہےمیں خودہوں اور یہی بات صحیح ہےجو میں بتاتاہوں۔ہوی ہوس کا نتیجہ اور پھل ،کفر اور بدعت ہے،اگر انسان ہوی ہوس میں گرفتارہوجائےاور اس پر کنٹرول نہ کرے،اسکی انتہاء کفرپر ہوجاتی ہے؛خدا کی آیات کو جھٹلائےگا،اور بدعت کو ایجاد کرےگا۔

حسد کیاہےایسے سمجھنےکےلئےیہ بولا جائےکہ حسد ان چھ صفات کانتیجہ ہے،یعنی اگرکوئی شخص لالچ اور کنجوس ہو،عجب اور متکبر ہو،کفر اور بدعت بھی ہو،ان چیزوں سے جوچیزنکل آتی ہےوہ حسد ہے۔

دیکھیں حسد کتنی بری صفت ہے؟اسی لئے روایات میں ہےکہ حسد شرالامراض واخبث الرذائل [3] آمدی، عبد الواحد بن محمد،غرر الحکم ج:1 ، ص: 29۔ہے،ایک بیان یہ ہےکہ حسد ان اوصاف سے متولد ہوتاہے،لالچی انسان حسود ہوتاہے،کنجوس انسان حسود ہوتاہے۔جو انسان لالچی نہیں ہے وہ حسادت بھی نہیں کرتاہے،اور جو انسان لالچی اور حریص ہوتاہے،اس کا دل یہ چاہتاہےکہ دوسروں کےچیزیں بھی اسےمل جائے،لیکن جو انسان لالچی نہیں ہے،وہ اس پر قانع نہیں ہے،جس اسے خدانےعطا کیاہےیہتانسان کسی سےحسد نہیں کرتا،لیکن جس انسان کےپاس عجب ہووہ حسود ہےوہ صرف اور صرف خودکوپسندکرتاہے،اگریہ دیکھیں  کہ کوئی اس سےزیادہ ترقی کررہاہےوہ اس سے تحمل نہیں  کرسکتا۔

شرک  اور کفربھی اسی طرح ہے،یہ چیزیں حسد کاسبب ہے،یہ صفات بہت ہی برےصفات ہیں ہم سورۃ فلق میں جو پڑھتےہیں (ومن شر حاسد اذا حسد ) یہ اس لئےہے کہ حسد سےبری کوئی چیزنہیں ہے،یہ واقعہ ذکرہے:ابلیس  أتی باب فرعون وقرع الباب ؛[4] نظام الدين نیسابوری، حسن بن محمد، تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان ج:1 ، ص : 115۔شیطان فرعون کےگھرپرآیا اور دروازے پردستک دی، فرعون نےکہاکون ہو؟قال ابلیس لوکنت الھا لما جھلتنی؛تم خدا ہونےکےدعویدارہو،تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتاہےکہ دروازہ پرکےپیچھے کون ہے؟فلما دخل ؛جب وہ اندر داخل ہوا،قال فرعون؛أتعرف فی الارض شرا منی ومنک،توفرعون نےابلیس سےسوال کیا،کیا تمہیں  کسی ایسےموجودکوجانتےہوجوتم اورمجھ سےزیادہ بدترہو؟شیطان نےکہا:جی ہاں!فرعون نےکہا کون ہے؛شیطان نےکہا؛الحاسد؛وہ شخص جوحسد کرتاہے۔

کچھ اور روایات میں ہےکہ بنی آدم میں حسدسےبڑھ کرکوئی بری صفت نہیں ہے،ابھی ایک اخلاقی مطلب کوبیان کرناچاہتاہوں لیکن اس سےپہلےاور مطلب بیان کروں گا کہ کبھی فقہی لحاظ سےسوال ہوتاہےکہ حسد کاکیا حکم ہے؟

مرحوم صاحب جواہر الکلام کی جلد ۴۱،صفحہ۵۲ پرلکھتاہے:یہ خود اپنی جگہ گنا  ہےکہ انسان اپنےنفس میں آرزو کرےکہ  کسی اور کےپاس جو نعمت ہو وہ ختم ہوجائے ،کوئی اچھا ہے،وہ اپنےنفس میں آرزو کرے کہ کب اس کاحافظہ زائل ہوگا ؟کوئی اچھاخطیب ہے،بہت اچھا تقریر کرتاہے،تووہ اپنےنفس کےاندر یہی آرزوکرتاہےکہ کب اس کا زبان بند ہوجائے،کب ہوگاکہ بات بھی نہ کرسکے؟! مرحوم صاحب جواہر نےصراحتابیان  کیاہےکہ یہ چیز جب تک نفس کےاندر ہےوہ بھی گناہ ہےاگرچہ افعال کےذریعہ ظاہر بھی نہ ہواہو،اور اگر اظہارہوجائے تو اس شخص کی عدالت  بھی ختم ہوجاتی ہے۔

مرحوم شہید ثانی نےمسالک میں لکھاہے: اگریہ اظہار ہوجائے تو یقینا ایک حرام فعل ہے،بس یہی کہہ دے کہ کب فلان شخص مریض ہوگا،یا فقیرہوگااور اس کی عزت ختم ہوجائےگی، اس کی نعمت   کی زائل ہونےکی یہی تمنا کرناحسدکی علامت ہے،اور اگروہ انسان خود دوسرےکی نعمت کوختم کرناشروع کردےتویہ  اس کی  بات ہی دوسری ہے۔

کوئی انسان عزت والاہے،دوسرااس کےدرپےہوکہ اس کی عزت کوختم کردے!اس سےزیادہ گناہ کاکام یہ ہےکہ انسان کسی گروہ  کوختم کرنےکےدرپےہو؛مثلا علماء کو بےاعتبارکرنےکےدرپےہو،کہ افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارےمعاشرےمیں  یہ چیزیں پائی جاتی ہے،یہ تو حسد کی بری صفت  سےبھی مقایسہ  نہیں  کرسکتا،چونکہ واقعا یہ قابل توصیف نہیں ہے،کچھ لوگ کسی بھی طریقہ سےمعاشرےمیں علماء کو بدنام کرنےکی کوشش کرتےہی،نظام اسلامی  کو بدنام کرنے کی کوشش میں ہے،یہ ایسی چیزیں  ہیں کہ جو  کسی خاص  عنوان میں داخل نہیں ہے،ہمیں  اپنے نفس  کی اصلاح  کےلئے بہت زیادہ کوشش  کرنی چاہیے۔بہرحال  انسا   ن  جب درس اور کام سے فارغ  ہوتاہے،تورات کی تاریکی  میں توفیق پیداکرے خدا کی محضر میں خود کامحاکمہ کرے،خودکواپنےجیسے دوسرےافراد کو دیکھیں ،کہ کہیں ہمارے اندربھی اپنےدوستوں اور جاننےوالوں  کےبارےمیں ایسی غلط فکر نہ کرے۔

Views: 5

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم