loading

قوت خیال  حقیقت کے آئینہ میں

تحریر: سید محمد حسن رضوی

2021-09-24

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اور ظاہری باطنی ارتقاء کرنے والی خلقت بنایا ہے۔ کائنات انسان کے لیے ایک ایسی کتاب ہے جس کے ساتھ انسان چارناچار وقت گزارتا ہے لیکن اس کتابِ تکوینی کو پڑھنے اور سمجھنے والے لوگ قلیل ہیں۔ اگر کتابِ تکوینی کے مطابق زندگی بسر کرنے اور جہانوں کی سیر کرتے ہوئے سلوک کی منازل طے کرنے کی بات آ جائے تو ایسے با ہمت  افراد آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیتے ہیں۔ تکوینی حقائق اور انسانی زندگی کا ایک اہم رخ قوت خیال ہے جس سے مختلف علوم اپنے انداز اور طریقوں سے بحث کرتے ہیں لیکن قرآن آیات اور احادیث مبارکہ سے استفادہ کرتے ہوئے اور حکماء کی فکری جولانیوں سے گزرتے ہوئے آئینہِ عرفان میں اس کا مطالعہ ایسا منظر پیش کرتا ہے جیسےحقیقت کا متلاشی معارف کے متلاطم بحر کی تہوں میں اترتا چلا گیا ہو۔ 

انسانی وجود میں خیالات و وہمیات کے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو مادی زندگی کی رونقوں میں نعمات و مصائب میں مبتلا کر کے ارتقاء کی راہ ہموار کی ہے۔ یہی نعمات، کثرتِ مشغولیت اور مختلف آلام و مصائب بعض اوقات انسان کو اس کے اصل ہدف سے غافل کر دیتے ہیں اور غافل انسان اپنی غفلت کے سبب نقصان در نقصان کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ سبحانہ کو ہی فراموش کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو فراموش کردینے سے انسان اپنی شناخت بھی نہیں کر پاتا کیونکہ آیات و روایات شاہد ہیں کہ اللہ تعالی کی معرفت اور انسان کی اپنے نفس کے بارے میں شناخت آپس میں گہرا ربط اور تعلق رکھتے ہیں۔ انسان اگر  اپنی شناخت کر لے تو یہ معرفت اسے اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی معرفت کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔ چنانچہ آیات و روایات میں اپنے اوپر دقت کرنے اور اپنے افعال و خوراک و کردار پر نظر رکھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ یہ عمل اسی وقت انجام پا سکتا ہے جب انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرے اور حقیقت کے مطابق اپنی شناخت حاصل کرے۔  اگر ہم اپنے آپ کو پہچان لیں تو یہی معرفت اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی یاد کا سبب بن جائے گی۔ امیر المؤمنین× سے تکرار کے ساتھ یہ کلمات قدیمی کتبِ احادیث میں وارد ہوئے ہیں:  > مَنْ‏ عَرَفَ‏ نَفْسَهُ‏ عَرَفَ رَبَّهُ ؛ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچانا<۔ [1]آمدی، عبد الواحد بن محمد، تصنیف غرر الحکم، ص ۲۳۲۔  اس سے مربوط دیگر احادیث مصباح الشریعۃ ، غرر الحکم اور بحار الانوار میں محدثین نے نقل کی ہیں۔ قرآن کریم کی آیت عکس نقیض اور عکس مستوی کی صورت میں اس مطلب کو ثابت کرتی ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے: { وَلا  تَكُونُوا كَالَّذينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُون‏  ؛  اور تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں اپنا آپ بھولا دیا، یہی لوگ فاسقین ہیں }۔[2]سورہ حشر: آیت ۱۹۔  اس آیت کریمہ کا عکس نقیض امام علی× کی یہی حدیث مبارک بنتی ہے جیساکہ بزرگان تحریر کیا ہے۔[3]طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۶، ص ۱۷۰۔ پس انسان جتنا علم و دانش سے بہرہ مند ہوتا جاتا ہے اتنا اس کی انسانیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ 

نفس ناطقہ کا برزخی تجرد

نفس ناطقہِ انسانی ایک مرتبہ تجرّدِ عقلی رکھتا ہے اور مرتبہ تجرد برزخی۔ تجردِ نفس کو ثابت کرنے والے بعض دلائل برزخی نفس ناطقہ کو ثابت کرتے ہیں اور بعض دلائل تجرد عقلی کو ثابت کرتے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی اپنی کتاب ’’گنجینہ ِگوہر روان‘‘ میں اس حصے کے معارف لے کر آئے ہیں جو تجردِ نفس ناطقہ کے مرحلہِ فوق سے تعلق رکھتے ہیں اور مرتبہِ بالا سے مربوط ہیں۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طور پر نفس ناطقہ کے تین مراتب ہو گئے :
۱) تجردِ برزخی، یہ نفس ناطقہ کا ایک مرتبہ ہے۔
۲)تجردِ عقلی، یہ نفس ناطقہ کا ایک اور مرتبہ بلند ہے۔
۳) تجردِ ما فوق، یہ نفس ناطقہ کا مرحلہِ بالا ہے۔

جہاں تک خیال کا تعلق ہے تو علمی دنیا میں خیال، مثال اور برزخ ہم معنی کلمات ہیں جن کے یکساں معانی ہیں۔ البتہ یہی خیال یا برزخ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے:
۱) خیال منفصل:
یہ نوعِ خیال ہماری جان و نفس سے خارج اور جدا ایک ظرف۔ قوس نزول مین اس ظرف یا موطن کو عالم مثال کہتے ہیں اور قوسِ صعودی میں اس کو عالم برزخ کا نام دے دیا جاتا ہے۔قوس نزول وہ کہلاتا ہے جو اللہ سبحانہ سے شروع ہوتا ہے اور پست ترین مخلوقات تک آتا ہے اور قوسِ صعودی وہ کہلاتا ہے جس میں ابھی ہم ہے یعنی پست ترین موجودات سے شروع ہوتا ہے اور لقاء اللہ پر ختم ہوتا ہے۔
۲) خیال متصل:
یہ نوعِ خیال  ہمارے نفس کے ساتھ متصل ہے۔ ہر دو  کا تذکرہ آگے کی سطور میں آئے گا۔

۱گر ایسا موجود ہو جو مادہ نہ رکھتا ہو لیکن مادہ کے عوارض جیسے طول، عرض ، شکل و رنگ رکھتا ہو تو ایسا موجود خیالی، مثالی یا برزخی کہلائے گا۔ عربی لغت میں برزخ کا یہ معنی وارد ہوا ہے:  البرزخ هو الحاجز بين الشيئين؛ برزخ یعنی دو چیزوں کے درمیان رکاوٹ یا مانع۔ برزخ دو چیزوں کے درمیان واسطہ ہوتا ہے ۔ البتہ واسطہ سے منظور واسطہِ طولی ہے ، جیسے آپ نے کبھی روڈ کے کنارے ایک درخت دیکھا تھا جوکہ ابھی آپ کے ذہن میں موجود ہے، بالکل اسی انداز اور اسی کیفیت و خصوصیات کے ساتھ جیساکہ آپ نے اس کو دیکھا تھا۔ بعض اوقات آپ درخت کا معنی تصور کرتے ہیں جس میں آپ کا خارج میں موجود درخت سے کوئی تعلق اور ربط نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات ایسا نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر درخت کو درک کرنے کے مرتبہ میں ہم تین چیز رکھتے ہیں:
۱۔ یہ درخت خارج میں بمعنی درختِ مادی موجود ہے۔
۲۔ دوسرا ادراک ہمارا درخت کا خیالی اور برزخی ادراک ہے۔ کیونکہ ذہن میں اس کا مادہ تو نہیں آتا بلکہ فقط اس کی شکل اور اس کی خصوصیات آتی ہیں۔
۳۔ تیسرے مرتبہ پر عقلی معنی کو ہم تصور کرتے ہیں۔ 

وہ درخت جو بزرخی اور خیالی مرتبہ پر ہم نے ادراک کیا ہے وہ دو درختوں کے درمیان حاجز اور مانع ہے۔ اس طرح سے کہ یہی خیالی درخت ایک جہت سے خارج میں موجود درخت سے شباہت رکھتا ہے اور دوسری جہت سے خارج میں موجود درخت کا غیر ہے۔اس اعتبار سے خیالی درخت کو دیکھیں کہ یہ شکل ، عرض، طول وغیرہ رکھتا ہے خارجی درخت سے مشابہ ہے اور اس اعتبار سے دیکھیں کہ خیالی درخت کوئی مادہ نہیں رکھتا خارجی درخت سے جدا اور اس کا غیر ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی رحمہ اللہ  وجودِ خیالی یعنی برزخی کو بین الطلوعین سے تشبیہ دیتے ہیں اس طرح سے کہ ایک رات ہوتی ہے جس میں سیاہ اندھیرا ہوتا ہے اور ایک دن ہوتا ہے جس میں ہر طرف اجالا اور روشنی پھیلی ہوتی ہے جبکہ بین الطلوعین نہ رات ہے اور نہ دن ہے۔ یا بین الطلوعین شب بھی ہے اور دن بھی ہے۔ 

قوس صعودی اور قوس نزولی

اللہ تعالیٰ نے جب پہلی اور ابتدائی مجرد موجودات کو خلق فرمایا تو تنزل دے کر صورتِ مثالی عطا کی اور اس کے بعد تنزّل دے کر مادی موجودات کی صورت میں پیدا فرمایا۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: { يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ في‏ يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّون‏‏  ؛  وہ آسمان سے زمین تک امر کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر اس دن اس کی طرف اوپر آتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے }۔[4]سورہ سجدہ: آیت ۵۔   اس آیت کریمہ کا پہلا حصہ  { يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْضِ }قوس نزولی کو بیان کر رہا ہے اور دوسرا حصہ { ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ في‏ يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّون‏‏ }قوس صعودی کو۔ اس بناء پر ہم تجردِ نفس کے دو حصوں کے قائل ہو جائیں گے: ۱۔ مرحلہِ عقلی ، ۲۔ مرحلہِ تجردِ خیالی جسے مثالی بھی کہا جاتا ہے، جیساکہ سابقہ سطور میں ہم نے درخت کی مثال دی تھی جس میں ذہن میں درخت کا ادراک موجود ہے اور یہ ادراک علم بھی ہے اور مجرد بھی ہے ۔ جہاں جزئیات کے ادراک کی بات ہے جو شکل و مقدارتو رکھتے ہیں لیکن مادہ نہیں رکھتے ۔ اس کے برخلاف ادراک عقلی کلیات کا ادراک ہے جو نہ مقدار رکھتے ہیں نہ مادہ۔ 

پس برزخ بمعنی خیال ہے ۔ خیال دو قسم کا ہوتا ہے: ایک خیالِ متصل ہے اور دوسرا خیالِ منفصل۔ خیالِ متصل خود ہم سے متصل ہے جبکہ خیالِ منفصل ہمارے وجود سے باہر سے مربوط ہے۔ وہ خیال جو ہمارے نفس سے باہر ہے اسے قوسِ نزول میں مثال اور قوسِ صعود میں برزخ کہا جاتا ہے۔ برزخ کو لغت میں جو چیزوں کے درمیان حائل واسطہ کہا جاتا ہے اور اسی سے علمی اصطلاح میں استفادہ کرتے ہوئے برزخ کو دو چیزوں کے درمیان واسطہِ طولی سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ نہ یہ چیز یہ ہے اور نہ وہ ہے۔ بلکہ وہ یہ بھی ہے اور وہ وہ بھی ہے۔ بالفاظِ دیگر ان دو میں سے کسی ایک کی حد میں یہ نہیں آتی۔ لیکن اس کے باوجود ان میں سے ہر ایک سے یہ مشابہ ہے، مثلا وہ درخت جو خارج میں موجود ہے وہ طبیعی درخت ہے اور درخت کی وہ صورت جو ذہن میں ہے وہ خیالی اور مثالی ہے۔ درخت کی حقیقتِ کلی کو عقل سے تعبیر کیا جائے گا۔ صورتِ خیالی شکل ، صورت  رکھنے کی وجہ سے  خارج میں موجود طبیعی درخت سے مشابہ ہے اور مادہ کے اوصاف نہ رکھنے یعنی مادہ، قوت، وزن، حجم، مکان، زمان وغیرہ نہ رکھنے کے اعتبار سے درختِ عقلی سے مشابہ ہے۔دوسرے انداز سے اگر ہم صورتِ خیالی کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ صورتِ خیالی چونکہ مقدار و شکل رکھتی ہے اس اعتبار سے شجر عقلی سے مغایر ہے کیونکہ درختِ عقلی نہ مادہ رکھتا ہے اور نہ شکل۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ صورتِ خیالی تجردِ برزخی ہے۔

قوتِ خیال 

قوتِ خیال تمام قُوَی کی مانند نفسِ ناطقہ کے ساتھ قائم ہیں بلکہ نفسِ ناطقہ کے شؤون میں سے ایک شان ہے۔ نفس ناطقہ خود ایک عظیم اور بزرگ جہان ہے ۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ بزرگ ترین جہان ہے جو انتہائی حیرت انگیز ہے۔جس انسان کے مختلف اعضاء اور قوتیں ہیں، مثلا دل، دماغ، آنکھ، کان وغیرہ اسی طرح انسان کے پاس خیال، وہم اور حافظہ وغیرہ ہے۔ ہر ایک کا اپنا کام ہے ۔ انسانی نفس ان میں ہر ایک کا خاص کام اور اس کا اثر ہے۔ جہاں تک خیال کا تعلق ہے تو خیال صورت کشی کا کام کرتا ہے۔ خیال فطری طور پر معانی کو شکل و صورت عطا کرتا ہے، مثلا ہماری جبلّت اور سرشت میں قوتِ سامعہ یعنی سننے کی قوت ہے اور قوتِ باصرہ کی طبیعت دیکھنا ہے، اسی کرح قوتِ خیال نفسِ ناطقہ کی کیمرہ مشین ہےجو مثالی طور پر عکس بناتی ہے اور اس کو آشکار کرتی ہے۔ جس طرح ہر قوت کا اپنا کام اور اپنا وظیفہ ہے اسی طرح قوتِ خیال کا کام معانی کو شکل اور صورت دینا ہے اور یہ کام کوئی اور انسانی قوت نہیں کرتی۔ پس نفسِ ناطقہ موطنِ خیال میں معانی کو شکل و صورت دیتی ہے جبکہ صنعتی دستگاہ فقط محسوسات سے عکس اور تصویر لیتی ہےاور اس کی صورت کشی کرتی ہے، مثلا کوئی شخص اپنے دشمن کو دیکھتا ہے اور عداوت و دشمنی کے معنی کو ایک حیوان اور درندہ کی شکل میں مجسم کر تا ہے۔ پس قوت خیال کا حسِ مشترک وغیرہ سے فرق واضح ہو گیا، حس مشترک محسوسات سے بنے والی تصویر کشی اور عکس کو ظاہر کرتی ہے جبکہ قوت خیال معانی کو شکل و صورت دیتی ہے۔

مادی اور مجرد (غیر مادی)

حکماء نے اس جہان کے موجودات کو مادی اور مجرد میں تقسیم کیا ہے۔ موجوداتِ مجرد یا تو مجردِ عقلی ہیں یا مجردِ خیالی۔ موجوداتِ مادی اپنے نام سے ہی مشخص اور واضح ہے کہ یہ وہ موجودات ہیں جو مادہ سے متعلق ہیں، مثلاً دیوار، لوہا، قالین وغیرہ۔ اس کے مقابلے میں مجرد موجودات ہیں جو مادہ سے عاری اور خالی ہیں۔ مجرد موجودات کو علمی اصطلاح میں ’’مفارق‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس تعبیر کے مقابلے میں مادی موجودات کو ’’مُقارِن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر مجرد موجودات یقیناً مادہ سے تو خالی ہیں لیکن اگر مقدار سے بھی خالی اور بے نیاز ہوں تو اس خصوصیت کے مجرد ’’مجردِ عقلی‘‘ کہتے ہیں۔ اگر مجرد مادہ سے تو خالی ہے لیکن مقدار سے خالی نہیں بلکہ مقدار رکھتا ہے تو ایسی خصوصیت کے مالک مجرد کو ’’مجردِ خیالی یا مجردِ برزخی‘‘ کہتے ہیں۔

تجردِ خیال

قوتِ خیال مجرد ہے۔ اگر ہم اپنے نفس میں غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ہم متعدد طرح کی قوتِ ادراک کے مالک ہیں جن میں سے ایک قوتِ خیال ہے۔

Views: 57

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: معرفت نفس قرآن و برہان کی روشنی میں
اگلا مقالہ: علامہ حسن زادہ آملی کے نصائح