loading

{نصوص الحکم فی شرح فصوص الحكم فارابی}

علامہ حسن زادہ آملی کے نصائح

استاد: آیت اللہ حیدر ضیائی
تحریر : سید محمد حسن رضوی

نصوص الحکم فی شرح فصوص الحکم کے اختتام پر علامہ حسن زادہ آملی رحمہ اللہ نے ۳۳ معارف ذکر کیے ہیں ۔ انسان کی زندگی ایک حیاتِ ممتد ہے جس کی وجہ سے اس کو خلیفۃ اللہ کہتے ہیں۔ انسان جو ادراک کرتا ہے تو ادراک کرنے والی ذات اس کی کی حقیقت ہے نہ کہ اس کے اعضاء و جوارح۔ اگرچے ہم اپنے محاوراتِ روز مرہ میں کہتے ہیں کہ میری آنکھ نے دیکھا لیکن حقیقت میں ذاتِ نفس نے دیکھا کیونکہ نفس کے بغیر آنکھ اصلاً نہیں دیکھ سکتی۔ حقیقتِ انسان اصل مدرِک ہے نہ کہ اس کے قُوی و اعضاء۔ انسان کھاتا پیتا ہے، ذائقہ چکھتا ہے وغیرہ یہ سب نفسِ انسانی انجام دے رہا ہے اور وہی حقیقت میں کھاتا پیتا اور چکھتا وغیرہ ہے۔ اس لیے جب انسان سے بدن جدا ہوجاتا ہے اور میت بن جاتا ہے تو بدنِ انسانی ان میں سے کسی ایک کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔  حقیقتِ انسانی ان سب کو علم حضوری کے طور پر درک کرتا ہے نہ کہ علم حصولی کے طور پر۔ علم حصولی میں صورتِ اشیاء انسان کے پاس متحقق ہوتی ہے نہ کہ بذاتِ خود اشیاء، مثلاً ہم ایک کتاب دیکھتے ہیں تو کتاب کی صورت ہمارا معلومِ اول ہے اور خارج میں موجود کتاب معلومِ دوم اور ثانی و بالعرض ہے کیونکہ اگر اس کتاب کی صورت ہمارے ذہن میں نہ ہوتی تو ہمیں اس کتابِ خارجی کا علم نہ ہوتا اور نہ اس کی طرف ہماری توجہ ہوتی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خودِ صورت کتاب جو ذہن میں ہے اس کو بھی کسی اور صورت کے توسط سے نفس جانتا ہے یا براہ راست جانتا ہے؟! یقیناً براہ راست نفس اس صورت کا علم رکھتا ہے ورنہ تسلسل لازم آئے گا۔ اس لیے صورت کتاب کا علم حضوری طور پر نفس کو ہوتا ہے۔ پس نفس حقیقی مدرِک ہے نہ کہ اعضاء و جوارح۔ عینک لگا کر ہم دیکھتے ہیں تو عینک نہیں دیکھتی بلکہ عینک کے توسط سے ہم یعنی نفس دیکھتا ہے۔ اس اعتبار سے انسان کے تمام ادراکات حضوری ہیں نہ حصولی۔ کیونکہ حصولی میں جو صورت منتقل ہوئی ہے اس صورت سے نفس کا تعلق حضوری ہے نہ کہ حصولی۔

انسان کا مقامِ لا یقف:

انسان اللہ تعالیٰ کی وہ خلقت ہے جو مقامِ لا یقف رکھتا ہے۔ انسان کے علاوہ جتنی اللہ تعالیٰ نے خلقت خلق کی ہے وہ بندگلی میں ہے جو جس طرح خلق ہوئی اس کے لیے ایک مقام ہے جس سے آگے وہ خلقت نہیں جا سکتی۔ لیکن انسان مقام لا یقف رکھتا ہے۔

نفسِ ناطقہ انسانی مجرد ہے  جیساکہ برہان سے ثابت ہوتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی نے اپنی کتاب گنجینہ گوہر روان میں ۶۵ برہان نقل کی ہیں جو نفس کے تجرد پر دلالت کرتی ہیں جوکہ متکلمین، فلاسفہ و عرفاء اور خود سے چند استدلال قائم کر کے ذکر کیے ہیں۔ ان میں مزید ۶ کا اضافہ کر ۷۱ استدلال علامہ حسن زادہ آملی نے ذکر کی ہیں۔ نفس کے آلاتِ ادراکات ’’قُوَی‘‘ ہیں۔ ہمارے پاس تین چیزیں ہیں: ۱۔ نفس، ۲۔ قُوَیِ نفس، ۳۔ اعضاء و جوارح ۔جب ہم کہتے ہیں کہ نفس اپنے آلات سے درک کرتا ہے تو ان آلات سے مراد ’’قُوَی‘‘ ہیں اور اعضاء و جوارح ’’مَحل‘‘ ہے۔

دوزخی جہنم کو خود لے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا بلکہ جہنمی خود دنیا سے اپنے ساتھ جہنم لے کر آتا ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اگر جہنم میں کسی جہنمی کو بھیجے تو آخر ایسا کیوں ہے؟! اصل میں اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ خود انسان اپنے ہمراہ اس دنیا سے جہنم لے کر آتا ہے۔ انسان کے اعمال تجسم ہوتے ہیں جس کے لیے بہترین اصطلاح تمثلِ اعمال ہے۔ انسان کے اعمال کا ظاہر اس دنیا سے مربوط ہے اور باطن مربوط اگلے جہاں سے وابستہ ہے۔ کیونکہ اگلے جہان کو یوم تبلی السرائر کہا گیا ہے۔ انسان کے ظاہر و باطن کی بہترین مثال وہ خواب ہیں جو ہم دیکھتے ہیں۔ ہم خواب دیکھتے تو معبِّر کے پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ ظاہِر خواب مراد نہیں ہے بلکہ اس خواب کا باطن مقصود ہے اور معبر باطن ِ خواب کو جانتا ہے جیساکہ عزیر مصر نے خواب دیکھا کہ پتلی سات گائے سات موٹی گائیں کو کھا گئی، اس کی خواب کا ظاہر واضح تھا لیکن باطن کسی کو معلوم نہیں تھا ۔ حضرت یوسفؑ نے اس خواب کے باطن کو قحط سے تعبیر کرتے ہوئے بیان کیا۔اسی طرح ہمارے ظاہری اعمال ہیں کہ دنیا میں رکوع و سجود پر مشتمل نماز ہے لیکن اس نماز کا ایک باطن ہے جو متجسم ہو کر ہمارے سامنے آئے گا۔ اسی طرح ظاہر شراب پی رہے ہیں یا یتیم کا ظاہراً مال کھا رہے ہیں لیکن حقیقت میں باطن میں آگ کھا رہے ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {إِنَّ الَّذينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَسَيَصْلَوْنَ سَعيرا}. [1]نساء: ۱۰۔قرآن میں اسی طرح آیا ہے کہ تمہیں آخرت میں جو ملے گا وہ خود تمہارے اعمال ہوں گے: { إِنَّما تُجْزَوْنَ ما كُنْتُمْ تَعْمَلُون‏ }. [2]تحریم: ۷ انسان اپنے باطن میں اعمال کما کر اور کسب کر کے جاتا ہے اور اس کو تمثل و تجسم دیکھتا ہے۔ پس دوزخی اپنے ساتھ جہنم کو لے کر آتا ہے ۔

تمام کمالات و خیرات ’’نور‘‘ ہے اور ان میں اکمل معرفتِ الہٰی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ کمالات سنخِ وجود میں سے ہے، خیرات سنخِ وجود میں سے ہے۔ شرور سنخِ عدم سے ہے۔ نور یعنی وہ جو خود روشن ہو اور دوسروں کو روشن کرتا ہے ۔ اسی طرح وجود خود ظاہر ہے اور دوسری ماہیت کو روشن کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ’’وجود‘‘ خود ذاتًا ظہور رکھتا ہے اور ماہیت وجود کی برکت سے وجود پاتی ہیں، قرآن کریم میں اللہ تعالی کو نور کہا گیاہے جیساکہ ارشا د ہوتا ہے:{ اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ }. [3]نور: ۳۵۔پس ہر موجود اس لیے نور ہے چونکہ سنخِ وجود سے تعلق رکھتا ہے۔

علم حصولی ہے یا حضوری، علم اجمالی ہے یا تفصیلی، علم فعلی ہے یا انفعالی ہے، علم کسبی ہے یا لدنی ہے۔ علم کسبی یا لدنی کو اگر لیں تو علم کسبی وہ علم ہے جو انسان زحمت و مشقت کر کے کسب کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں علم لدنی وہ علم ہے جو عطائی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اندرونِ انسان میں ودیعت کیا جاتا ہے۔ ان دونوں علم میں فرق ایک مثال سے جان سکتے ہیں جو علامہ حسن زادہ آملی نے بیان کی ہے کہ آپ ایک کنواں کھودتے ہیں جس میں پانی نہیں نکلتا تو آپ دس ہزار لیٹر اس میں پانی ڈال دیتے ہیں لیکن دوسرا کنواں ہے جس میں پانی زمین سے پھوٹ پڑتا ہے لیکن صرف ایک لیٹر ہے جسے آپ نکالیں تو زمین مزید پانی نکل آتا ہے اور اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسا کنواں بہتر ہے؟ یقیناً دوسرا جس میں زمین سے پانی پھوٹ رہا ہے کیونکہ خالص پانی کا منبع ہے اور نہ ختم ہونے والا ہے جبکہ دس ہزار لیٹر والا پانی ختم ہو جانے والا ہے۔ علم لدنی کی مثال زمین سے نکلنے والے پانی کی ہے اور علم کسبی کی دس ہزار لیٹر والے کنواں کی سی ہے۔ علم لدنی انسان کے اندرون میں علم عنایت ہوتا ہے نہ علم کسبی کی مانند ہے جس میں بیرون سے اندرون علم منتقل کیا جاتا ہے۔ سورہ کہف میں علم لدنی کا تعارف اس معنی میں وارد ہوا ہے: فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا آتَيْناهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنا وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا. [4]کہف: ۶۵۔علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ یہ آیت فقط جناب خضرؑ کے لیے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا فیض ہر اہلیت رکھنے والے کے لیے جاری ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ میں نے اس آیت کریمہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک دعا الہام لی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:  اللّهمّ أعْطِنِي رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ وَعَلِّمْنِي مِنْ لدنكَ عِلْمًا.علم کسبی کے حصول کا طریقہ اور نظام تو ہمیں معلوم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہے کہ علم لدنی کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا نفس آئینہ کی مانند ہے جو جتنا پاکیزہ و طاہر و صاف ہو گا اس میں حقائق اتنی ہی بہتر اور شفاف منعکس ہوں گے۔ تزکیہ نفس کے ذریعے سے علم لدنی کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔نفس امارہ کو کچل دیں تو اس عالم ِ ہستی کے اسرار ہماری اہلیت کے مطابق عیاں ہونا شروع ہو جائیں گے۔ پس ہم علم لدنی کو شکار کریں۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں:

هر كه خاموش شد گويا شد

 هر كه چشم سر بست بينا شد

 هر كه گوش دل گشود دانا شد

هر كه را حضور است نور است

هر كه را مراقبت است سرور است

بدن کا نفس میں ہونا:

لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نفس بدن کے اندر مقید ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ بدن نفس میں ہے نہ کہ نفس بدن میں ۔ کیونکہ نفس اوربدن ایک حقیقت ہیں ، اگر نفس کے مرتبہِ بالا کو دیکھیں تو نفس ناطقہ ہے اور اگر مرتبہِ نازلہ دیکھیں تو یہ ہمارا بدن ہے۔

اتحاد عاقل و معقول:

یہ اتحاد فقط عقل و عاقل و معقول کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد حس و محسوس، اتحادِ وہم و موہوم یا بعنوان کلی کہیں تو اتحاد عالم و معلوم ہے۔ عقل کے بارے میں اس لیے کہتے ہیں کیونکہ حس و وہم و خیال میں سب سے بالاتر اور اشرف ہے اس لیے اتحاد عقل و عاقل و معقول کہا جاتا ہے۔ اتحاد عاقل و معقول یا اتحاد عالم و معلوم سےمراد یہ نہیں ہے کہ خارج میں جو اشیاء ہیں ہم وہ اور وہ ہم بن جاتے ہیں !! شیخ الرئیس نے کتاب اشارات میں اس نظریہ کا ردّ کیا ہے کہ اگر انسان خارج میں گائے دیکھتا ہے تو کیا انسان اور گائے ایک ہو جاتے ہیں !! لیکن علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ شیخ الرئیس اپنی دوسری کتاب میں اس نظریے کو قبول کیا اور جو اشارات میں تمسخر بنایا اس سے رجوع کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معلوم بالذات ہے جوکہ ہمارے نفس میں صورتِ شیء ہے اور ایک معلوم بالعرض ہے جوکہ خارج میں موجود ہے۔۱۔  ایک جہت وجودی ہے ،۲۔  ایک جہت ماہوی ہے، ۳۔ ذہن میں جو صورت ہے اس صورت کی ایک ماہیت ہے ، ۴۔  ایک وجود، ۵۔  اسی طرح خود انسان یعنی میں ایک وجودرکھتا ہوں ، ۶۔  ایک ماہیتِ انسان۔ خارج میں موجودستون کی صورت جو ذہن میں ہے اور میرا وجود یہ دو نوں ایک ہیں۔ کیونکہ جو خارج میں ہے وہ معلوم بالعرض ہے اور جو معلوم میرے نفس میں ہے وہ معلوم بالذات ہے۔ پس خارج میں ستون اور گائے جو موجودہے وہ میں نہیں بنتا  بلکہ ان کی صورت جو ذہن میں منتقل ہوئی ہے وہ میرے وجود کے ساتھ متحد ہے۔ عالم کا وجود اور صورتِ ذہنی جوکہ معلوم ہے وہ متحد ہوتے ہیں۔ یہ اتحادِ عالم و معلوم جس طرح ہے اسی طرح عمل اور عامل اسی طرح ہے، مثلا ہم نے نماز پڑھی تو وہ نماز کی کیفیت اور صورت تو ختم ہو گئی ، ماہ رمضان کے روزے ختم ہو گئے لیکن ان کا اثر نفس میں باقی رہ جاتا ہے۔ پس علم اور عمل انسان ساز ہیں جوہماری وجود کے ساتھ عجین و مخلوط ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ہم غذا کھاتے ہیں تو وہ غذا ہمارے وجود میں ہضم ہو کر ہمارے بدن کا حصہ بن جاتا ہے اور ہمارے بدن کے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں۔ پس جس طرح غذا مادی ہضم ہو کر ہمارے بدن کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے اسی طرح غذائے معنوی ہمارے وجود کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے۔قیامت حقیقت میں ہمارے اندرون میں ہے جوکہ جنت اور جہنم کا ظرف ہے اور یہ ہمارے اندرون میں ہے۔

انسان کامل اور قرآن و کَون:

قرآن کریم انسان کامل کی کتبی صورت ہے بالکل اسی طرح جیسے جہان اور عالم انسان کامل کی صورتِ عینی ہے۔ ایک ہمارے پاس قرآن ہے ، ایک جہان اور ایک انسان۔ جوکچھ اس عالم کَون میں ہے اس کے تمام نمونے انسان میں ہے۔ جوکچھ کَون میں ہے وہ قرآن میں ہے۔ پس قرآن میں تمام کَون ہے لیکن کتبی صورت میں اور انسان میں تمام کَون ہے لیکن عینی طور پر۔ ۱۔ عالم امکان با تمام موجودات، ۲۔ قرآن، ۳۔ انسان کامل۔ عالم امکان انسان کامل کی تکوینی صورت ہے اور قرآن انسان کامل کی صورتِ تدوینی ہے۔ پس عالم انسان کامل میں اجمالاً ہے اور انسان کامل تفصیلی طور پر دیکھیں تو یہ کَون ہے۔ انسان کامل قرآن ناطق ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسی انسان کامل کی تدوینی صورت قرآن کریم ہے جوکہ قرآن صامت ہے۔ اس لیے علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ قرآن کریم انسان کامل کی صورتِ تدوینی و کتبی ہے۔ جوکچھ قرآن میں ہے وہ سب انسان کامل میں ہے اور جو کچھ انسان کامل میں ہے وہ قرآن کریم میں کتبی صورت میں ہے۔

امام علیؑ فرماتے ہیں کہ اگر امیر و رئیس بننا چاہتے ہو تو دوسروں پر احسان و نیکی کا برتاؤ کرو۔ [5]صدوق، محمد بن علی، خصال، ج ۲، ص ۴۲۰۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر کوئی اپنے مومن بھائی کی حاجت کو روا کرنے کے لیے قدم بڑھائے تو وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے والے کی مانند ہے اور اس شخص کی مانند ہے جو جنگ بدر و اُحد میں راہِ الہٰی میں اپنے خون میں خلطاں ہو۔ [6]ابن شعبہ ، حسن بن علی، تحف العقول، ص ۳۰۳۔

سالک الی اللہ اور تمثلات:

سالک خواب میں مختلف حقائق کو تمثلات کی صورت میں دیکھتا ہے۔ تمام تمثلات اسی حقیقت سے متناسب رکھتے ہیں۔ اگر شجر پاک، خوب اور بہترین ہو تو انسان خواب میں بہترین اشیاء دیکھتا ہےاور خوش باش اٹھتا ہے۔ اگر شجر ناپاک اور برا ہو تو انسان بھیانک چیزیں خواب میں دیکھتا ہے۔ یہ تمثلات باطنی ہیں اور انسان اپنے باطن میں دیکھتا ہے۔ دوسروں کو وہ دکھائی نہیں دیتا جو یہ شخص اپنے باطن میں دیکھ رہا ہے۔ انسان جس طرح خواب میں دیکھتا ہے اسی طرح بیداری میں بھی دیکھتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد علامہ طباطبائی فرماتے تھے کہ انسان اپنے نفس کی جتنی شدید مراقبت کرے اس کے تمثلات اتنے واضح اور شفاف ہوتے ہیں۔

اسماء الہٰی کے اثرات:

ہر اسم کی انسان جتنی نگہداشت کرتا ہے وہ انسان میں متحقق ہوتا ہے، مثلا اسمِ محیی نے جناب عیسیؑ میں غلبہ پیدا کیا تو وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے، اسم شافی نے جناب عیسیؑ پر غلبہ حاصل کیا تو وہ مریضوں کو شفاء دیتے تھے۔خواجہ عبد اللہ انصاری کی کتاب منازل السائرین کی متعدد شرح ہیں جن میں سے ایک عبد الرزاق کاسانی کی شرح معروف ہے اور دوسری تلمسانی کی شرح معروف ہے۔ کاسانی نے اس کتاب کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عرفاء نے یہ تجربہ کیا ہے کہ ’’یا حی یا قیوم یا من لا الہ الا انت ‘‘ کو کثرت سے پڑھنے سے عقل زندہ ہو جاتی ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے تھے کہ اس ذکر ’’ یا حی یا قیوم یا لا الہ الا انت‘‘ کو کم سے کم ہر روز ۲۰ منٹ ضرور پڑھا جائے۔ ہر اسم کے اثرات ہیں جو ذکر کرنے والے کے اندر اثرات ظاہر ہوتے تھے۔علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ صدام لعین جب آئے روز بم مارتا تھا تو میں نے ارادہ کیا کہ میں اسم ممیت کے آثار کو ظاہر کروں اور اس کے مقدمات میں نے فراہم کیے لیکن امام زمانؑ کے سامنے شرمندہ ہوا کہ ان کے علم میں یہ سب چیزیں ہیں لیکن وہ اقدام نہیں فرما رہے۔ اس لیے پھر اس کام کو ترک کر دیا کیونکہ ہر شیء کی حکمت اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ اگر کسی انسان میں تصرف کی قوت ہو تو بھی وہ تصرف نہیں کرتا کیونکہ بیکار اور فضول کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

مدرِک و مدرَک اور صورتِ مثالی سے ربط:

اگر ہم جانتے ہیں کہ ہم امام علیؑ سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو مدرِک ’’مدرَک کی صورتِ مثالی‘‘ سے تعلق قائم کر لیتا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا چاہتا ہے تو انسان اپنی ظرفیت و قابلیت کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ربط قائم کرتا ہے۔ پس مدرِک مدرَک کی صورت مثالی سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ جناب مریمؑ کے لیے اس لیے جناب جبریلؑ متمثل ہوئے کیونکہ وہ حضرت جبریلؑ کی فکر کر رہی ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ حالت احتضار میں محتضر مختلف چیزیں دیکھ رہا ہوتا ہے، اس لیے فقہی احکام میں وارد ہوا ہے کہ محتضر کے سامنے مجنب نہ آئے، حائض خاتون نہ آئے ۔ کیونکہ ممکن ہے ولاءِ امام علیؑ اور محبتِ اہل بیتؑ کا نتیجہ محتضر دیکھ رہا ہو اور ان ہستیوں کے مشاہدہ کے وقت طہارت کا ماحول ہونا چاہیے۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ یہ خصوصیت محتضر کو حاصل نہیں ہے بلکہ انصراف ضروری ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ انسان حالتِ احتضار میں ہے یا حالتِ بیداری یا حالت خواب میں بلکہ انسان کے لیے انصراف کا ہونا ضروری ہے۔

حکمت کے دو معنی ہیں: ۱۔ حکمتِ نظری یعنی اشیاء کی حقیقت جیسی ہے ویسا اس کی معرفت حاصل کرنا، ۲۔ حکمت عملی: محکم کام کرنا اور پختہ عمل انجام دینا۔ رسول اللہ ﷺ نے امام علیؑ کے لیے فرمایا کہ میں حکمت کا شہر ہے جوکہ جنت ہے اور اے علیؑ آپ اس حکمت کا دروازہ ہیں۔ یہاں حکمت سے مراد محکم عمل ہے جس کا نتیجہ جنّت و بہشت ہے۔اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک حکیم ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کے اسماء میں سے ایک حکیم ہے۔ معنی جنت ان سب موارد میں صدق کرتا ہے۔قرآن کریم کے بارے میں امام موسی کاظمؑ کی روایت ہے :  اقْرَأْ وَ ارْقَ . [7]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۶۱۱۔

انسان ہمیشہ باقی رہنا :

روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: لِقَوْلِ النَّبِيِّ ص مَا خُلِقْتُمْ لِلْفَنَاءِ بَلْ خُلِقْتُمْ لِلْبَقَاءِ وَ إِنَّمَا تُنْقَلُونَ مِنْ دَارٍ إِلَى دَار. [8]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۷۸۔ مِثل شیء عرض میں ہے اس شیء کے اور مِثال اس شیء کے طول میں ہے۔ انسان حیوان ناطق ہے تو زید انسان ہے پس زید حیوان ناطق ہے، یہ مِثل ہے نہ کہ مثال۔ اگر آپ دھوپ میں ایک ڈنڈا زمین پر گاڑیں تو اس کا سایہ بنے گا ۔ یہ سایہ مثال ہے اسی شیء یعنی ڈنڈے گا۔ اللہ تعالیٰ کی مِثل نہیں ہے لیکن مثال ہے۔ رجب برسی نے حدیث قدسی نقل کی ہے جس میں مَثلی وارد ہے نہ کہ مِثلی : عبدي أطعني اجعلك مَثَلي أنا حي لا أموت، اجعلك حيّا لا تموت، أنا غني لا أفتقر أجعلك غنيّا لا تفتقر، أنا مهما أشأ يكن أجعلك مهما تشأ يكن‏. [9]حافظ برسی، رجب بن محمد، مشارق انوار الیقین، ص ۱۰۴۔ ایک اور حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے جسے ابن فہد حلی نے ذکر کیا ہے:  يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا غَنِيٌّ لَا أَفْتَقِرُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ غَنِيّاً لَا تَفْتَقِرُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا حَيٌّ لَا أَمُوتُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ حَيّاً لَا تَمُوتُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ*- أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِشَيْ‏ءٍ كُنْ فَيَكُونُ. [10]ابن فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی، ص ۳۱۰۔ پس بہشت میں انسان بھی مقام کن فیکون پرفائز ہو سکتا ہے۔علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں انسان حکمت و عرفان کی برکت سے کن فیکون کے مقام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ عرفاء مقامِ کن تک پہنچے ہیں۔ اس سے بھی آگے کا ایک مقام ہے جس پر رسول اللہ ﷺ فائز ہیں جوکہ ذاتِ الہٰی میں فناء ہونا ہے۔ حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے:  رسول اللَّهِ ص قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَا زَالَ الْعَبْدُ يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَكُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَ يَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَ رِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَ لَئِنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ وَ إِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ. [11]شعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، ص ۸۱۔ یہ مقام مقامِ کن سے بالاتر ہے۔

انسان کا تمام وجودات کا جامع ہونا:

انسان ایک عجیب موجود ہے جوکہ تمام عالمِ وجود کا آئینہ ہے۔ ہر شیء جو اس کائنات و عالم میں متحقق ہے اس کا نمونہ انسان کے اندرمتحقق ہے۔ انسان کامل عرش سے فرش تک احاطہ رکھتا ہے انسان عالمِ عقل کا نمونہ اس کا مجردِ تام ہونا ہے اور عالم خیال کا نمونہ تجردِ ناقص ہے اور عالم مادی کا نمونہ بدنِ انسان ہے۔ پس انسان کامل کا وجود عرش سے فرش تک ہے۔ انسان کا وجود ایک جنبہ ِ مادی ہے اور ایک جنبہِ الہٰی رکھتا ہے۔ انسان کا جنبہِ مادی یا فرشی اس کا عبد ہونا ہے ۔انسان کا جنبہِ الہٰی ہونا یہ ہے کہ انسان مردوں کو زندہ کرتا ہے، کوڑھ مریضوں کو شفاء دیتا ہے جیساکہ جناب عیسیؑ کے بارے میں قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔

۲۷ رجب ۱۴۴۳ ھ کی مناسبت سے چند کلمات:

علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ شخصیت رسول اللہ ﷺ کا میں نے بہت مطالعہ کیا ہے اور متعدد آیات و احادیث و کتب کی ورق گردانی کی ہے لیکن کسی جگہ وہ اس فضیلت سے بلند تر فضیلت نہیں دیکھی جو امام رضاؑ سے کتاب  میں سید ابن طاووس نے نقل کی ہے جس میں امام رضاؑ ایک دعا میں اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہوئے فرماتے ہیں: صَلِّ عَلَى مَنْ شُرِّفَتِ الصَّلَاةُ بِالصَّلَاةِ عَلَي. [12]ابن طاووس، سید علی، المجتنی من الدعاء المجتبی، ص ۲۳۔اللہ تعالیٰ نے اپنی نماز کو رسول اللہ ﷺ پر درود و صلوات کے ساتھ مشرف و جمع کیا ہے ۔نماز اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس کے ارکان اجزاءِ بدن کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں روح یہی صلواتِ ہے رسول اللہ ﷺ پر ۔ شیعہ و سنی متفق ہیں کہ نماز میں رسول اللہ ﷺ پر درود کے بغیر نماز باطل ہے اور نماز نہیں ہو گی۔ یہ فضیلت و مقام رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے کہ نماز کی جان کی ان کی ہستی اور ان کا تذکرہ ہے جس کے بغیر پوری نماز ناقص و غیر قبول ہے۔

دنیا میں جسمانی امراض اور معنوی مرتبہ:

علامہ طباطبائی آخری عمر میں حافظہ کھو بیٹھے تو کیا یہ ان کے معنوی کمال و مرتبہ سے متصادم ہے؟ یقیناً نہیں کیونکہ جسم کے اجزاء و اعضاء کے کام کی ایک مدت ہے اور اس نے فناء ہونا ہے۔ جسمانی امراض کا معنوی کمالات و مراتب سے کوئی منافات نہیں ہے۔ امام صادقؑ کے عظیم شاگرد ابو بصیر نابینا تھے تو کیا ان کا نابینا ہونا ان کے باطنی و معنوی کمال اور بلند مرتبہ ہونے ٹکراتا ہے؟! یقیناً نہیں ۔ پس ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی بیماری یا حادثہ ہو جس کی بناء پر قوی حافظہ والا اپنے حافظہ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نشاءت دنیا میں یہ مسائل اور آزمائش طاری ہوتی ہے لیکن معنوی مرتبہ کمال کی بلندی پر فائز رہتا ہے۔ شہداء اسلام دھماکوں میں چور چُور ہو گئے لیکن ان کی عظمت بلندی اور مرتبہ اپنی جگہ محفوظ ہے۔ قدیم  تہران فضلاء و عرفاء و علماء سے پُر تھا جبکہ آج کل تہران فقیر اور خالی ہے۔ تہران میں علامہ حسن زادہ آملی کے استاد حاج عبد النبی تھے جوکہ جامع العقول و المنقول تھے اور انتہائی قوی حافظہ اور عرفان مرتبہ رکھتے تھے ۔ آخری عمر میں نابینا ہو گئے لیکن نابینا ہونا ان کے معنوی مقام و مراتب سے متصادم نہیں ہے۔

قُربِ فرائض کثرت کا وحدت میں اور قُربِ نوافل وحدت کا کثرت میں جمع ہونا ہے۔عرفاء کہتے ہیں کہ اگر کوئی کثرت میں وحدت کو ملاحظہ کرتا ہے تو وہ کانا یعنی ایک آنکھ رکھتا ہے اور اسی طرح اگر کوئی کثرت کو وحدت میں ملاحظہ کرتا ہے تو وہ بھی کانا اور ایک آنکھ سے نابینا ہے لیکن جو وحدت کو کثرت میں اور کثرت کو وحدت میں ملاحظہ کرتا ہے وہ کامل آنکھیں رکھتا ہے۔ پس ہمیں فرائض اور نوافل ہر دو کو انجام دینا چاہیے ۔

نصیحت ۱۷:جہنم کا احاطہ کرنا

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذابِ وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحيطَةٌ بِالْكافِرين‏. [13]عنکبوت: ۵۴۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کافرین کا احاطہ کیے ہے ۔ اسی دنیا میں کافرین کو جہنم نے گھیرا ہوا ہے لیکن ظہور اور بروز روزِ قیامت ہو گا ۔ پس کافرین کا احاطہ جہنم نے اسی دنیا میں کیا ہوا ہے۔

نصیحت ۱۸:اسرارِ قرآن جاننے اور سر پر رکھنے میں فرق

قرآن کو سر و راز کو پکڑنے کی کوشش کرو نہ کہ فقط سر پر رکھنے کی کوشش کرو۔ سَر پر قرآن کو رکھنے میں بھی پیغام ہے جوکہ یہ ہے کہ بارِ الہٰا جو کچھ قرآن میں ہے وہ میرے سر میں قرار دے، جیساکہ ہم عادی محارہ جات میں سر آنکھوں پر رکھنے کا مطلب اطاعت کرتے ہیں۔ اسی طرح قرآن سر پر رکھنا پیغام ہے کہ اس کے معارف کامیرے سر سے تعلق قائم ہو اور میرا سر اس کی تعلیمات و معارف کے سامنے جھکا ہوا اور اطاعت کی صورت میں ہو۔ پس اصل اسرارِ قرآن ہیں جن کو پکڑنے اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسرار ہمارے وجود سے باہر ہیں جن سے ہم نے تعلق قائم کرنا ہے۔بالاتر یہ ہے کہ ہم اسرار کو اصل قرار دیں اور اس کا اہتمام کریں۔

نصیحت ۱۹:

قرآن کریم معادِ انسان ہے۔ ہم اس کائنات میں ہمیشہ نہیں رہنے والے۔ دنیا کے بارے میں امام علیؑ فرماتے ہیں:  الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ، وَالنَّاسُ فِيهَا رَجُلَانِ: رَجُلٌ بَاعَ فِيهَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا وَرَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا؛  دنیا گزر گاہ ہے نہ کہ جائے قرار ہے، اس دنیا میں لوگ دو طرح کے ہیں: ایک وہ شخص ہیں جس نے اس دنیا میں اپنے آپ کو بیچ ڈالا اور دنیا میں ہلاکت سے دوچار ہو گیا، دوسرا وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو خرید لیا اور دنیا سے اس کو چھڑا دیا۔ [14]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۹۳، حکمت قصار: ۱۳۳۔  قرآن کریم کے توسط سے ہم آخرت کو پا لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں۔

نصیحت ۲۳:حقائق کو کشف کرنے کے طریقے

انسان یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ حقائق کو کشف کرے۔ حقائق کو کشف کرنے کی راہ و طریق دو ہیں: ۱۔ راہِ علوم کسبی جیساکہ ہم درس پڑھ رہے ہیں اور درس و تدریس و تحقیق و تعقل کے ذریعے حقائق کو کشف کریں، ۲۔ راہِ علوم وہبی: علومِ وہبی میں انسان اپنے نفس کو شفاف کرتا ہے اور حقائق ان کے لیے جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ہمارا نفس شیشہ کی مانند ہے کہ اس پر اگر گرد و غبار نہ ہو تو وہ اپنی قابلیت و استعداد کے مطابق حقائق کو اپنے نفس میں جلو گر دیکھتا ہے۔ پس مانع ہماری طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقائق آشکار کیے گئے ہیں لیکن ہمارے نفس پر حجاب و پردے پڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا حقائق کو کشف کرنے کے یہ دو طریقے ہیں: علوم کسبی اور علوم وہبی۔ کہا جاتا ہے کہ اسکندر نے نقاشی کے لیے اہل چین اور اہل خُتَن کا انتخاب کیا اور ایک کمرے میں انہیں جمع کیا اور ایک پردہ ان کے درمیان آویزاں کیا  اور کہا کہ پردے کی جو طرف تم لوگوں کے سامنے اس کو نقاشی کیا جائے۔ اہل چین نے دیوار نقش و نگار بکھیرے اور اہل خُتَن نے اسی کو دیوار میں کندہ کیا ۔ بادشاہ آیا اور اس نے پردہ اٹھایا تو جو کچھ اہل چین نے دیوار پر بنایا تھا بعینہٖ وہی سب کچھ اہل خُتَن نے دیوار پر کندہ کیا ہوا تھا۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ علوم کسبی و وہبی میں یہی فرق ہے۔ وہی جو درس و فکر و مباحثہ سے انسان اپنے نفس میں نقش کرتا ہے وہی علوم وہبی کے ذریعے نفس کے اندر کندہ ہوتا ہے اور نفس کا حصہ بن جاتا ہے۔ پس علوم وہبی کندہ صورت میں ہوتے ہیں اس لیے نفس میں گہری تاثیر رکھتے ہیں۔ پس علوم کسبی کے ذریعے حقائق کشف ہوتے ہیں لیکن علوم وہبی کی تاثیر اور حیثیت جداگانہ ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان درس و تدریس و مطالعہ و مباحثہ ترک کر کے نماز و دعا و ذکر و وِرد کے لیے مسجد یا خانقاہ میں مقید ہو جائے !! بلکہ ہر دو جمع کرے کیونکہ اسی میں کمال ہے۔ ہر دو راہ کا اختیار کرنا ضروری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ نے بشر کے لیے حقائق کو کشف کرنے کا نظام خلق فرمایا ہے۔

اگر انسان مراقبت خوب کرے اور حواس کے مدرَکات نفس کو مشغول نہ کریں ، یعنی آنکھ، کان وغیرہ نفس کو مشغول نہ کرے تو انسان بیداری میں حقائق کو کشف کرے گا ۔ یہاں تک کہ انسان کی نیند کم ہو جائے گی اور وہ بیدار میں حقائق کا مشاہدہ کرے گا۔ لہٰذا انسان جو حقائق خواب میں دیکھتا ہے وہی حقائق اس کو بیداری میں دکھائی دیں گے۔

نصیحت ۲۴: تناسخ کی اقسام ، ملکی اور ملکوتی

تناسخ کی دو اقسام ہیں:۱۔ تناسخ ملکی ، ۲۔ تناسخ ملکوتی۔  ان دونوں کا باہمی کوئی ربط نہیں ۔ صرف لفظی طور پر کلمہِ تناسخ استعمال ہو رہا ہے۔ تناسخ ملکی باطل ہے اور تناسخ ملکوتی حق ہے۔

۱۔ تناسخ ملکی: 

یہ ہے کہ انسان ایک بدن اور ایک روح رکھتا ہے اس دنیا میں مر جاتا ہے۔ مرنے کے بعد جب روح اس کے بدن سے جدا ہو جائے تو وہ روح کسی اورنطفے سے تعلق پیدا کر لیتی ہے۔ اگر انسان کی روح نیک تھی تو وہ دوبارہ کسی انسانی نطفہ سے تعلق پیدا کر لیتی ہے اور اگر روح بُری تھی تو وہ کسی حیوان کے نطفہ سے تعلق قائم کر لیتی ہے۔ ہندو اس تناسخ ملکی کے قائل ہیں۔ یہ باطل اور فاسد خرافاتی نظریہ ہے ۔ اس کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ سیر قہقرائی ہے ۔ انسان جس نے اس دنیا میں زندگی بسر کی ہے اور وہ قوت سے فعلیت تک پہنچ چکا ہے وہ کیسے ممکن ہے فعلیت سے دوبارہ قوت کی طرف پلٹ سکتا ہے؟!!پس سیر قہقرائی باطل ہے۔ یہاں رَجعت اور مردوں کو زندہ کرنے کے حوالے سوال پیدا ہوتا ہے جس کی تفصیل علامہ حسن زادہ آملی نے رتق و فتق کی مباحث میں تفصیل سے ذکر کی ہے اور علامہ حسن زادہ آملی رَجعت کی وہ تفسیر جو ہمارے معاشرے میں معروف ہے اس کو قبول نہیں کرتے۔

۲۔ تناسخ ملکوتی:

تجسم یا تمثل اعمال ہے۔ یعنی اس دنیام میں جو اعمال انجام دیئے جاتے ہیں، جیسے نماز ، صوم وغیرہ ہے وہ ہمارے باطن میں ظہور و بروز کرتے ہیں اور اثر انداز ہوتے ہیں۔

نصیحت ۲۵:اخلاق فاضلہ و رذیلہ

ہر انسان کے اخلاق فاضلہ جنت کی ایک شاخ ہے اور اخلاقِ سیئہ جہنم کی ایک شاخ ہے۔ امام معصومؑ سے روایت وارد ہوئی ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں: عَنِ الْعَالِمِ ع أَنَّهُ قَالَ السَّخَاءُ شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ أَغْصَانُهَا فِي الدُّنْيَا فَمَنْ تَعَلَّقَ بِغُصْنٍ مِنْهَا أَدَّتْهُ إِلَى الْجَنَّةِ وَ الْبُخْلُ شَجَرَةٌ فِي النَّارِ أَغْصَانُهَا فِي الدُّنْيَا فَمَنْ تَعَلَّقَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا أَدَّتْهُ إِلَى النَّارِ أَعَاذَنَا اللَّهُ وَ إِيَّاكُمْ مِنَ النَّارِ. [15]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ، ج ۸، ص ۱۷۱۔

نصیحت ۲۶:انسان کامل کا بقیہ انسانوں سے جدا ہونا

انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بعض انسان کامل ہیں اور بعض ناقص ہیں۔ جو فرق انسان کا حیوان کے ساتھ ہے اسی طرح انسانِ کامل  کا دوسرے انسانوں سے فرق ہے۔گویا کہ حقیقی انسان فقط انسان کامل ہے جوکہ خلیفۃ اللہ ہے اور ہم اس کے مقابلے میں حیوانی مرتبہ پر ہیں۔ 

نصیحت ۲۷:زمین کا حجت سے خالی نہ ہونا

ہر عصر میں زمین پر حجتِ الہٰی ہونا ضروری ہے اور اس خلیفۃ اللہ اور حجتِ الہٰی و انسان کامل کا جسم عنصری میں ہونا ضروری ہے۔ اس معنی پر کثیر دلائل ہیں اور بہترین دلیل قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَليفَةً. [16]بقرۃ: ۳۰۔ اس آیت پر دقت کریں کہ اللہ تعالیٰ نے نہ جملہ ماضی ذکر کیا ہے اور نہ کان کے ذریعے مطلب بیان کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جملہ اسمیہ ذکر کیا ہے جو حال پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ سے حال اور ہر عصر میں خلیفہ کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔

نصیحت ۲۸:امامت نبوت کا تتمہ

امامت حقیقت میں نبوت کا تتمہ ہے اور نبوت کا ایک ادامہ اور سلسلہ ہے۔ نبوت میں شریعت لائی جاتی ہے اور نبی اکرم ﷺ کے ذریعے سے نبوت و رسالت کا اختتام ہوا۔ جس طرح نبی معصوم ہے اسی طرح امام کا معصوم ہونا ضروری ہے کیونکہ نبوت کا تتمہ ہے۔

نصیحت ۲۹:انسان کی استطاعت

انسان استطاعت رکھتا ہے تمام اشیاء کو کشف کرے۔ اشیاء اگر مادی ہیں تو انسان تجرید کے ذریعے ادراک کرے گا اور مادی خصوصیات کو مادہ سے جدا کر کے جانے گا جبکہ مجردات سے بذاتہ آگاہ ہوتا ہے۔

نصیحت۳۰:دین انسان کے کامل ہونے سبب

دین الہٰی حقیقت میں انسان کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ عقول تکمیل شدہ ہیں جو اپنے نیچے والوں کو اوپر لاتے ہیں کیونکہ خود کامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے عقول کو کامل خلق کیا اور ان میں کسی قسم کا رشد نہیں ہے جبکہ انسان مستکمل ہے جو تدریجاً اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اگر انسان نے نیچے سے اوپر جانا ہے اور کمال حاصل کرنا ہے تو کون اس کو راہ بتائے گا ؟ انسان کو دین راہ بتاتا ہے۔ اس کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہر ملک میں مختلف کارخانے ہیں جن سے مختلف چیزیں صادر ہوتی ہیں۔ صنعتی کارخانوں سے بننے والی اشیاء کے اعتبار سے کارخانے مختلف ہوتے جاتے ہیں۔ کارخانے میں بننے والی چیز جب مکمل ہو جاتی ہے تو اس کو پیک کر کے دکانوں میں پہنچائی جاتی ہے اور لوگ خریدتے ہیں۔ کارخانوں میں جب ایک شیء بن جاتی ہے اور پیک کر کے جب ڈبے میں ڈالی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ایک کتابچہ ڈالا جاتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ یہ کتابچہ اس بننے والی چیز کا قرآن ہے جس کے مطابق اس چیز کو چلایا جائے گا اور ہدایات رقم کی جاتی ہیں کہ کیا کیا اس چیز کے ساتھ کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ اگر اس کتابچے کے مطابق ہم بننے والی جنس مثلا فریج کے ساتھ سلوک کریں تو دیر پا وہ جنس مثلا فریج قائم رہتا ہے اور کام کرتا رہتا ہے۔ لیکن اگر ہم کتابچے کے مطابق عمل نہ کریں اور فریج سے اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل کریں تو وہ فریج جل جائے گا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کتابچے کے مطابق عمل نہیں کیا تو کس کا نقصان ہوا؟ کیا جس نے فریج بنایا اس کا ؟! یا جس نے فریج بیچا اس کا ؟! نہیں بلکہ کتابچے کے مطابق عمل نہ کرنے کا نقصان ہمیں ہی اٹھانا پڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کثیر خلقت کو خلق کیا ہے اور انسان ان میں سے ایک ہے جس کو چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا ہے۔ اگر قرآن کریم کے مطابق عمل کریں تو انسان کامیابی کے ساتھ کمال کی طرف جاتا جائے گا لیکن اگر قرآن پر عمل نہ کرے تو خالق کا نقصان نہیں ہے بلکہ خود انسان کا نقصان ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَقالَ مُوسى‏ إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَميعاً فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَميد. [17]ابراہیم: ۸۔  پس انسان کمال چاہتا ہے اور نقص سے کامل ہونا چاہتا ہے اور کامل ہونے کی راہ اور طریق و طریقہ ’’دین‘‘ ہے۔ اگر دین پر عمل نہ کیا جائے تو نقص بڑھتا جائے گا اور کمال حاصل نہیں ہو گا۔انسان کو چاہیے کہ حور العین کے پیچھے نہ بھاگتا پھرے بلکہ دیکھے کہ سورہ فاتحہ کی بسم اللہ سے والناس کی آخری سین تک چاہیے اور نہ ہونا چاہیے پر عمل کرے۔علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ قرآن کریم انسان کے لیے’’ بس‘‘ ہے یعنی باء بسم اللہ سے آخر سینِ والناس تک کرنے والے اعمال پر عمل کرے اور ترک کرنے والے اعمال کو ترک کرے۔

نصیحت۳۱:وجودِ الہٰی اور آثارِ الہٰی غیر متناہی 

اللہ تعالیٰ کا وجود غیر متناہی ہے لہٰذا اس کے آثار بھی غیر متناہی ہیں۔ ہر ذات جو رکھتی ہے اسی کے مطابق اس کے آثار ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِماتُ رَبِّي وَ لَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَدا. [18]کہف: ۱۰۹۔  اسی طرح ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے: وَلَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيم‏. [19]لقمان: ۲۷۔اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو کلمہ سے بھی تعبیر کیا ہےجیساکہ اس آیت کریمہ میں کلمات اللہ کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح جناب عیسیؑ کو کلمہ کہا گیا ہے: إِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبين‏. [20]آل عمران: ۴۵۔پس کلمات الہٰی شمار نہیں کیے جا سکتے ۔ نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں: أُوتِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ خَوَاتِمَه‏. [21]طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج ۶، ص ۵۴۔ طریحی لکھتے ہیں کہ اس سے مراد قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حروفِ قرآن میں کلمات کو سمو دیا ہے جس کا وجود عینی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ قرآن کریم کا ہر حرف ۷۰ معنی رکھتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ناصر خسرو کے زمانے تک ۷۰۰ تفاسیر لکھی گئی ہیں اور تاقیامت معلوم نہیں کہ کتنی تفاسیر لکھی جائیں گی۔ اس کے باوجود قرآن کریم کے معانی کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ رسول اللہ ﷺ قلیل الفاظ میں کثیر معانی بیان فرماتے تھے۔

معرفتِ قرآن کریم

علامہ حسن زادہ آملی نے پوری الکافی کی آٹھ جلدوں کی اعراب گزاری کی ہے۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں:سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ع يَقُولُ آيَاتُ الْقُرْآنِ خَزَائِنُ فَكُلَّمَا فَتَحْتَ خِزَانَةً يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَنْظُرَ مَا فِيهَا. [22]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۶۱۸۔ قرآن میں علومِ اول و آخر ہیں جیساکہ قوت القلوب میں ابو طالب مکی نے بیان کیا ہے۔ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: لَقَدْ تَجَلَّى اللَّهُ لِخَلْقِهِ فِي كَلَامِهِ وَ لَكِنْ لَا يُبْصِرُونَ. [23]ابن ابی جمہور، محمد بن زین العابدین ، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۶۱۱۔ قونوی اور اس طرح کے دیگر بزرگانِ عرفاء نے اس حدیث کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔ اس کلام کو مزید تائید   آدمِ اولیاء اللہ امام علیؑ کے نہج البلاغہ میں فرمان سے ہو جاتی ہے۔ عرفاء امام علیؑ کو آدمِ اولیاء اللہ کہتے ہیں جس سے مراد  تمام اولیاء اللہ کے ولی ہے کہ امام علیؑ نہج البلاغہ فرماتے ہیں: فَتَجَلَّى لَهُمْ سُبْحَانَهُ فِي كِتَابِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا رَأَوْهُ بِمَا أَرَاهُمْ مِنْ قُدْرَتِه‏. [24]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۰۴، خطبہ ۱۴۷۔ قرآن کریم کا ظاہر اور بواطن ہیں ۔ عرفاء باطنِ قرآن سے باخبر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کے لیے ایک ’’مطلَّع‘‘ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ بعض آیات ایسی ہیں جن کی روشنی میں دیگر آیات کی تفسیر کی جائے گی، مثلاً قرآن کریم میں اللہ سبحانہ کی جسمانیت پر مشتمل آیات ہیں لیکن انہی آیات کے درمیان آیت ہے : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَهُوَ اللَّطيفُ الْخَبير. [25]انعام: ۱۰۳۔یہ آیت بقیہ آیات کے لیے ’’مطلِّع‘‘ ہے جس کے ذریعے جسمانیت کو ظاہر کرنے والی آیات کی تفسیر کی جائے گی۔قرآن کریم کے مراتب ہیں جن میں نیچلا مرتبہ ’’اس کی قراءت اور آواز ‘‘ ہے۔ اس سے بھی نیچلا مرتبہ  قرآن کریم کا عربی زبان میں کتابت و نقش ہے جسے بغیر وضو کے ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ جب قرآن کریم کے سب سے نیچلے مرتبہ کو بغیر وضو کے ہاتھ نہیں لگا سکتے تو کیسے حقائق قرآن کو بغیر طہارت کے لمس کر سکتے ہیں۔ و ضو کے ساتھ قرآن پڑھنے اور بغیر وضو کے پڑھنے کے باقاعدہ آثارِ تکوینی ہیں۔ قرآن کریم کو آنکھوں سے دیکھ کر پڑھیں کہ اس کے آثارِ تکوینی ہیں۔ اگر کوئی قرآن پڑھ نہیں سکتا تو وہ قرآن کھول کر پڑھے، جیساکہ حدیث میں وارد ہوا ہےکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: مُجَالَسَةُ الْعُلَمَاءِ عِبَادَةٌ وَ النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ ع عِبَادَةٌ ، وَالنَّظَرُ إِلَى الْبَيْتِ عِبَادَةٌ ، وَالنَّظَرُ إِلَى الْمُصْحَفِ عِبَادَةٌ ، وَالنَّظَرُ إِلَى الْوَالِدَيْنِ عِبَادَةٌ. [26]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱، ص ۲۰۴۔ حدیث میں والدین کی طرف دیکھنے کو بھی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم پر اس کے ساتھ ساتھ عمل کرنا ضرروی ہے ورنہ قرآنی ہدایت کا کوئی اثر نفس پر برپا نہیں ہو گا۔ امام علیؑ اپنے فرزند محمد بن حنفیہ سے فرماتے ہیں:  و عليك بتلاوة القرآن و العمل به و لزوم فرائضه و شرائعه و حلاله و حرامه و أمره و نهيه. [27]فیض کاشانی، محمد محسن، وافی، ج ۹، ص ۱۷۰۴۔

منابع:

منابع:
1 نساء: ۱۰۔
2 تحریم: ۷
3 نور: ۳۵۔
4 کہف: ۶۵۔
5 صدوق، محمد بن علی، خصال، ج ۲، ص ۴۲۰۔
6 ابن شعبہ ، حسن بن علی، تحف العقول، ص ۳۰۳۔
7 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۶۱۱۔
8 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۷۸
9 حافظ برسی، رجب بن محمد، مشارق انوار الیقین، ص ۱۰۴۔
10 ابن فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی، ص ۳۱۰۔
11 شعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، ص ۸۱۔
12 ابن طاووس، سید علی، المجتنی من الدعاء المجتبی، ص ۲۳۔
13 عنکبوت: ۵۴۔
14 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۹۳، حکمت قصار: ۱۳۳۔
15 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ، ج ۸، ص ۱۷۱۔
16 بقرۃ: ۳۰۔
17 ابراہیم: ۸۔
18 کہف: ۱۰۹۔
19 لقمان: ۲۷۔
20 آل عمران: ۴۵۔
21 طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج ۶، ص ۵۴۔
22 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۶۱۸۔
23 ابن ابی جمہور، محمد بن زین العابدین ، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۶۱۱۔
24 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۰۴، خطبہ ۱۴۷۔
25 انعام: ۱۰۳۔
26 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱، ص ۲۰۴۔
27 فیض کاشانی، محمد محسن، وافی، ج ۹، ص ۱۷۰۴۔
Views: 620

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قوت خیال حقیقت کے آئینے میں
اگلا مقالہ: شرح مناجات خمس عشر