loading

معرفتِ نفس قرآن و برہان کی روشنی میں

كتاب: سرح العيون في شرح العيون
مؤلف: آيت الله علامه حسن زاده آملى
تدريس: آيت الله شيخ حسن رمضانى
تحرير: سيد محمد حسن رضوى
2021-08-31

سرح العیون فی شرح العیون علامہ حسن زادہ آملی ؓ کی معروف کتاب ہے جوکہ ان کی آخری تحریروں میں سے ایک ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ نے اس کتاب میں نفس انسانی سے مربوط تمام قرآنی، برہانی اور عرفانی مطالب کو انتہائی نفیس اور بہترین انداز میں تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب علامہ حسن زادہ آملیؒ کی بہترین کتب میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں نفسِ انسانی کے اہم مسائل کو ’’عین‘‘ کی صورت میں درج کیا گیا ہے اور اس عین سے متعلق کلی مطلب کو تحریر کیا گیا ہے ۔ تقریباً ۶۶ عیون علامہ حسن زادہ آملی ؒ نے تحریر کی ہیں۔ اس کے بعد علامہؒ نے ہر ہر عین کی شرح کی ہے۔ اس وجہ سے اس کا نام ’’سرح العیون فی شرح العیون‘‘ رکھا گیا ہے۔

فہرست مقالہ

عین    ۱۸:نفس کے مختلف قُوَی

يو) عَيْنٌ فِي تَعْدِيْدِ الْقُوَى النَّفْسَانِيَّةِ وَمَا دُوْنَهَا عَلَى سَبِيْلِ التَّصْنِيْفِ: رُبَّمَا يَتَوَّهَمُ أَنَّ النَّفْسَ قُوَّةٌ واحدةٌ تُدْرِكُ الْمُدرَكات المختلفة بِطُرُوِّ الإِضَافَاتِ وَالشُّرُوْطِ وَالإِعْدَادَاتِ عَلَيْهَا، وَالْحَقُّ أَنَّ النَّفْسَ جَوْهَرٌ وَاحِدٌ، وَلَهَا قُوَى مُنْبَعِثَةٌ عَنْهَا، بَلْ كُلَّهَا شُئُونُهَا وَإِنَ كَانَتْ مُنْبَثَّةً فِي أَعْضَائِهَا، وَهَذِهِ الْقُوَى بِمَنْزِلَةِ أَجْزِاءِ النَّفْسِ الْإِنْسَانِيَّةِ قَبْلَ أَنْ صَدَرَت وَانْبَسَطَتْ عَنْهَا وَانْفَصَلَتْ فِي أَجْزَاءِ الْبَدَنِ كُلّ قُوَّةٍ فِي مَوْضِعٍ يَلِيْقُ بِهَا. وَمَعْنَى التَّصْنِيْفِ هَيهُنَا أَنَّ هَذِهِ الْقُوَى لَا يَتَمَيَّزُ بَعْضُهَا عَنْ بَعْضٍ بِفُصُولٍ ذَاتِيَّةٍ كَمَا فِي الْأَنْوَاعِ النَّبَاتِيَّةِ وَالْحَيْوَانِيَّةِ بَلِ امْتِيَازُهَا بِعَوارِضَ إِنْسَانِيَّةٍ مِنْ تَقَدُّمِ بَعْضِهَا عَلَى بَعْضٍ، وَاسْتِخْدَامِ بَعْضِهَا قَبْلَ بَعْضٍ. [1]آملی، حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون،ص ۱۶، طبعہ: ۷، ۱۴۴۰ھ۔

’’بدن‘‘  نفس کا مرتبہِ نازلہ ہے۔ بدن کا نفس سے تعلق حقیقی ہے۔ نفس مرتبہِ عالی ہے جس کا مرتبہِ نازلہ بدن ہے۔ نفس کی متعدد قوتیں ہیں جن کے ذریعے سے نفس افعال انجام دیتا ہے، مثلا قُویِ عاقلہ، متخیلہ …۔  ان میں سے ہر ایک قوت کا اپنا امتیاز ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نفس اور ان قُوَی میں فرق ہے، جیسے آپ جب قوتِ بصارت کو استعمال کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا۔ان تمام قُوَی اور ان کے افعال کی نسبت انسان اپنے نفس کی طرف دیتا ہے۔ یہ تمام قوتیں نفس کے ذریعے قائم ہیں اور نفس ان قوتوں کا حقیقی مالک اور قیّوم ہے۔ نفس خود ، اپنی قوتوں اور اپنے افعال سے غائب نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ہماری گفتگو علم کے بارے میں ہے اور ایک مرتبہ علم بالعلم کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے جہل بسیط اور جہل مرکب ہے۔ جہل مرکب وہ ہے جو اس بات سے جاہل ہے کہ میں جاہل ہوں۔ اسی طرح علم بسیط اور علم مرکب ہے۔ پس ہماری گفتگو ایک مرتبہ علم بسیط کے بارے میں ہے اور ایک مرتبہ علم مرکب کے بارے میں ہے۔ 

نفس علم رکھتا ہے اس کا اعتراف ہر کوئی کرتا ہے جوکہ قطعی اور واضح ہے۔ البتہ علم بالعلم پر دقت کرنے کی ضرورت ہے۔ علم بالعلم کہ میں جانتا ہوں کہ میں اپنے آپ سے غافل نہیں ہوں، میں جانتا ہوں کہ میں اپنے قُوَی سے جاہل نہیں ہوں بلکہ ان کا عالم ہوں، میں جانتا ہوں کہ میں اپنے افعال سے غافل نہیں ہوں۔ توجہ ہے تو احساس ہوتا ہے، اگر توجہ نہ ہو تو احساس نہیں ہو گا۔ اخوند اسفار میں کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ تعالی کے بارے میں علم رکھتے ہیں لیکن علم بالعلم نہیں رکھتے، یعنی یہ علم نہیں ہے کہ ہمیں علم ہے۔ پس ہم سب علم بالحق رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہم علم رکھتے ہیں۔ کیونکہ خود اللہ تعالی کے جداول میں سے ایک جدول ہے۔ ہم سب حامدِ الہٰی ہے جو اللہ تعالی کی حمد کر رہے ہیں ۔حمد کمالات اور محامد پر ہوتے ہیں، کیا ہم کوئی کمال تصور کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمالات میں سے کمال نہ ہو !! کیونکہ ہر کمال اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اس لیے ہر حمد حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی حمد ہے۔ حتی پہاڑ، سمندر کسی خوبصورت منظر کے کمال پر جب ہم عش عش کر اٹھتے ہیں تو یہ کمال ِ الہٰی کی حقیقت میں حمد ہے۔ حقیقت میں حامد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ پس ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم رکھتا ہے، ہر ایک حمد کرتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں حامد ہوں۔ یہی بات من عرف نفسہ عرف ربہ میں ہے۔

نفس کا جوہر اور اپنی قُوی کا علم حضوری ہونا:

نفس جوہر ہے اور اس کے مجرد ہونے کے دلائل مطلق طور پر اس کے جوہر ہونے پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے نفس بذاتِ خود احساس کرتا ہے کیونکہ ہر جوہرِ مجرد عقل و عاقل و معقول ہے۔ہر مجرد ایک نوع شعور و علم رکھتا ہے جبکہ مادی ظلمت و جہالت اور بے شعوری ہے۔ دیوارِ مادی ایک طرف سے دوسری طرف کا علم نہیں رکھتی۔ لیکن مجرد ایک نوع شعور رکھتا ہے، ایک نوع علم رکھتا ہے۔ ساتویں نمبر(۷)  عین میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ بدن حقیقت میں نفس کا مرتبہِ نازلہ ہے اور سترہ (۱۷) نمبر عین میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ نفس واحد ہوتے ہوئے بھی اپنی تمام قُوَی کا مالک ہے  اور اپنے تمام قُوَی کے تمام افعال کو اپنے فعل میں شامل ہے۔ کیونکہ نفس جب ان قُوَی کو استعمال کرتا ہے تو وہ ان سب کا علم بھی رکھتا ہے کیونکہ شیء کا استعمال کرنا فرع ہے کہ اس کا کہ وہ اس کا علم رکھتا ہے ۔ پس نفس جب ان قُوَی کا استعمال کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس ان تمام قُوَی کا اور ان قُوَی کے افعال اور ان کی محل و جگہ  اور تمام آلات کا علمِ حضوری رکھتا ہے۔ نفس کسی واسطہ سے ان کا علم نہیں رکھتا بلکہ بغیر کسی تصور اور صورت کے واسطے کے ان سب قُوَی اور اس کے افعال کا علم رکھتا ہے جوکہ علم حضوری ہے۔ نفس کا علم ’’علم بسیط‘‘ ہے نہ کہ علم مرکب یعنی علم بالعلم۔نفس کا اپنے آپ کو اور اپنی قُوَی اور اس کے افعال کا جاننا علم بسیط ہے نہ کہ علم بالعلم۔  یہ ساری بحث نظری ہے ورنہ عرفا ن میں آئیں تو ہر ذرہ کہے گا میں سمیع ، بصیر ، علیم ہوں کیونکہ ہر شیء کا اس کے احاطہ کے مطابق شعور و علم ہے۔

عین : ۱۹

يط) عين في أن النفس تدرك بعض الأشياء بقواها، وبعضها بذاتها: قد تقدّم في الثالثة أن الغنسان لا يدرك نفسه إلا بنفسه. وكذلك النفس تدرك الكليات بذاتها، وإن كانت آلاتها معدّاتها في ذلك. وتُدرِكُ الجزئيّات بآلاتها، بمعنى أن القوى تنشأ منها وهي تفاصيل ذاتها وشروح هوياتها ففعلها فعل النفس بلا شائبة مجاز، كما تقدم في العين السابعة عشرة؛ فتُدرِكُ اشياء بذاتها، وآخرى بآلاتها، ولكن كل محسوس فهو معقول في الحقيقة، وإن وقَعَ الاصطلاحُ على تسمية الإدراك الجزئي بواسطة الحسّ بالمحسوس، فتدبَّرْ.

پس نفس کلیات کا بذاتِ خود ادراک کرتا ہے اگرچے نفس کے آلات اس معاملے میں اس کے معدّات ہیں۔  نفس جزئیات کو بذاتِ خود نہیں بلکہ آلات کے ذریعے سے ادراک کرتا ہے، اس طرح سے کہ نفس سے قُوَی جنم لیتے ہیں جوکہ ذاتِ نفس کی تفاصیل ہیں اور نفس کی ہویات کی شروح ہیں۔ پس فعلِ نفس ان قُوَی کا فعل ہے  جیساکہ عین ۱۷ میں گزر چکا ہے۔ پس نفس اشیاء کو اپنی ذات کے ذریعے درک کرتا ہے اور دوسرا اپنے آلات کے ذریعے درک کرتا ہے لیکن ہر محسوس حقیقت میں معقول ہے۔ 

بعض امور کو نفس بذاتہا درک کرتا ہے اور بعض امور کو قُوَی اور اعضاء کے ذریعے سے درک کرتا ہے۔ نفس خود  اپنا ادراک جب کرتا ہے تو وہ کسی قُوَی سے مدد نہیں لیتا بلکہ خود اپنا علم رکھتا ہے۔ نفس ممکن ہے اشیاء سے غافل ہو لیکن اپنے آپ سے غافل نہیں ہے، مثلا اگر آپ زید جوکہ خارج میں جزئی ہے اس کا ادراک کرنا چاہیں تو آپ قُوَی کے بغیر اس کا ادراک نہیں کر پائیں گے۔ اس جزئی کو ادراک کرنے کے لیے یا تو وہ اپنے قُوی کو استعمال کرے گا یا محلّ قُوی کو استعمال میں لائے گا لیکن اگر اپنا ادراک کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے نفس کسی قُوی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔

نفس کا عقل و عاقل و معقول ہونا:

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ معقولات کے بارے میں کیا کہیں گے؟ اس جواب میں عرض کرتے ہیں کہ معقولات کو ذاتِ نفس براہ راست درک کرتی ہے۔ نفس عینِ عقل ہے ، نفس عقل و عاقل و معقول ہے۔ اس مورد میں نفس کسی قُوَی کا محتاج نہیں ہے ۔ قُوَی سامعہ و باصرہ … شئوونِ نفس ہے، نازلہِ نفس ہیں، تفصیلاتِ نفس ہے۔    قُوَی کے محالّ یعنی جگہیں بھی نازلہِ نفس ہیں، ان کی مثال خادم کی سی ہے، نفس کے سامنے قُوَی اور ان کے محل خادم ہیں جنہیں نفس استعمال کرتا ہے اور یہ ہمیشہ نفس کی خدمت میں رہتے ہیں۔ اگرچے قُوَی اور محلِ قُوَی بذاتِ خود نفس نہیں ہیں لیکن ان کو نفس سے جدا نہیں کر سکتے ۔ یہ قُوَی مُعدِ نفس اور آلاتِ نفس ہیں۔ بعض گمان کرتے ہیں کہ نفس اور قُوَی اس طرح سے الگ الگ ہیں جیسے مالک اور خادم، نفس خود نہیں سنتا بلکہ قُوَی سنتے ہیں پھر نفس سنتا ہے۔ پس سننے کی نسبت نفس کی طرف دینا مجازی ہے!! صحیح یہ ہے کہ نفس ہی سنتا ہے ، نفس ہی دیکھتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ قُوَی سنتا ہے، دیکھتا ہے اور نفس حقیقت میں درک نہیں کرتا!! کیونکہ ایسی صورت میں تو  کہنا چاہیے تھا کہ نفس اصلًا نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے بلکہ جو دیکھتا اور سنتا ہے وہ قُوَی ہے!! ایک اور مثال سے اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ جب آپ فون سنتے ہیں تو آپ سن رہے ہوتے ہیں یہ فون سن رہا  ہوتا ہے؟!! یقینًا آپ سن رہے ہوتے ہیں ، اس لیے اگر لائن کٹ جائے تو ہم کہیں گے کہ میں نہیں سن پا رہا کیونکہ لائن کٹ گئی ہے نہ کہ فون نہیں سن پا رہا !! پس نفس ھو ھو قُوَی نہیں ہے لیکن قُوَی کو خادم کے طور پر بھی نہیں لے سکتے ۔ بلکہ نفس قُوَی کے توسط سے سنتا ہے، دیکھتا ہے ، قُوَی نفس کے مقابلے میں مستقل طور پر جداگانہ ایک شیء نہیں ہے بلکہ قُوَی نفس کی تفاصیل ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مأمور ہیں۔ چار فرشتے پورے جہان چلا رہے ہیں۔ کیا یہاں کوئی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ جبریل ؑ اللہ ہے؟! اسی لیے قرآن کریم نے قبضِ روح کو کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دی ہے اور کبھی جناب عزرایل ؑ کی طرف۔ نفس کا جو رابطہ قُوَی کے ساتھ ہے اسی کی مانند اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے ربط و تعلق ہے۔ جس طرح نفس قُوَی کے توسط سے سنتا ہے اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ روح کو جناب عزرائیلؑ کے توسط سے قبض کرتا ہے۔  اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں جہاں آیاتِ الہٰی تکوینی ہے۔

عین :۲۰

ك) عين في أن الغذاء المادي مُعِدّ النفس لأنّ تصنع بدنها بإذن بارئها: تقدّم في السابعة أن الإنسان مجموع النفس والبدن، ويحصل منهما نوع كامل جسماني، فهما موجودان بوجود واحد. فالإنسان ثابت سيّال أي شيء ذو طرفين، أحدهما متبدّل داثر فانٍ وهو كالفرع، والآخر ثابت باق وهو كالأصل، وكلّما كملت النفس في وجودها صار البدن أصفى وألطف وأشدّ اتصالا بالنفس، وصار الاتحاد بينهما أقوى؛ فغذاء النفس المادي (یعنی غذاء مادیِ نفس،  نہ کہ نفسِ مادی) لا يقع بدل ما يتحلّل في بدنها من حيث إنه بدنها مطلقا (یعنی مطلقِ بدن نہ کہ فقط بدن عنصری)، بل الغذاء مع أن ضروبه سدنة الاسم الباقي من معدات المغتذى في أن يصنع بدنه؛ فالأبدان متفاوتة طولا (بدنِ عنصری ایک بدن ہے، خواب میں کوئی اور بدن نظر آتا ہے، برزخی بدن جدا ہے۔ یہ سب ایک طول میں بدن ہیں) والتفاوت بالنقص والكمال، لا ينسلخ النفس عن بدنها العنصري آو البرزخي آو العقلي على مراتبه بحسب مراتب النفس في النشئات الثلاث (یعنی نفس ایک ہے لیکن ابدان مختلف ہے، پس نفسِ واحد مختلف ابدان کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے، یہ تناسخ ملکی نہیں بلکہ تناسخ ملکوتی ہے). فشبهة الآكل والمأكول مدفوعة رأسا (شبہ یہ ہے کہ آخرت میں کیا یہی بدن ہو گا جو کھانا پیتا ہے، یہ شبہ سب سے کمزور ترین شبہ ہے لیکن اس کو پورے معاشرے میں پھیلا دیا گیا)، والعين بعيدة القعر جدَّا.

انسانی زندگی پر غذا کے اثرات:

انسان کے اوپر غذا کے اثرات واضح ہیں۔ ضروری ہے کہ انسان کی روح شریف و عظیم و عزیز ہونی چاہیے۔ کھانے پینے کی تاثیر بدن پر تو بہت واضح ہے۔ لیکن کیا یہ تاثیر فقط اس بدنِ عنصری پر منحصر ہے یا نہیں بلکہ انسان کے متعدد ابدان ہیں جن پر اس کی تاثیر نمایاں ہوتی ہے؟ مثلا خواب میں انسان بدن دیکھتا ہے ، برزخ میں انسان متعدد ابدان رکھے گا، قیامت میں متعدد ابدان انسان کے ہوں گے، کیا ان ابدان پر خوراک اور کھانے پینے کی تاثیر ہے یا نہیں؟ کیا روٹی گوشت سبزی وغیرہ کے اثرات ان دیگر بدن پر نہیں جیساکہ بدنِ عنصری پراس کی تاثیر ہے، لہٰذا یہ کہیں کہ یہ خوراک و کھانا پینامُعدّ ہے  ۔ ابن عربی کا ایک جملہ ہے جسے ذکر کر کے اسے خوب کوسہ جاتا ہے اور مخالفین خوب توہین کرتے ہیں وہ یہ جملہ ہے کہ فواتح جنت کا پکنا جہنم کی حرارت ہے۔ ملاصدرا نے ابن عربی کے کلام سے فائدہ اٹھایاہے۔ ایک جملہ یہ ہے کہ جہنم کا ظاہر دنیا اور دنیا کا باطن جہنم ہے۔ دنیا کا ظاہر عین باطنِ جہنم ہے۔ دنیا خسیس ترین اور نازل ترین مرتبہ عالمِ وجود ہے۔ دنیا پائین ترین نشاۡت ہے۔ جہنم کی دنیاوی صورت یہی دنیا ہے اور جہنم کی اخروی صورت دوزخ ہے۔ دنیا مزرعہِ آخرت ہے۔ دنیا قوس نزول کے اعتبار سے پست مقام ہے لیکن یہاں سے مقامِ صعود کی طرف آغاز ہوتا ہے۔ پس یہاں مبدأِ معراج اور مبدأ مَتجر ہے۔ دنیا وہی جہنم ہے، یہاں کی حرارت ہے وہ نضج فواکہ و میوہِ جنت ہے۔ دنیا میں آپ ایک چاقو لیں اس سے سبزی کاٹ کر حرارت ایجاد کی جا سکتی ہے اور اسی سے قتل کیا جا سکتا ہے، پس ایک حرارت سے جنت اور دوسری حرارت سے جہنم تشکیل پا رہی ہے۔ ایک حرارت نور اور ایک نار کا سبب ہے۔ اسی لیے جن کے پاس نار ہے وہ نور کے طلبگار ہوں گے، جیساکہ سورہ حدید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُوراً فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ }. [2]حدید: ۱۳۔

 اس دنیا میں ہم جو خوراک کھاتے پیتے ہیں یہ بدنِ عنصری کی تشکیل و قوت کا باعث ہے لیکن دیگر ابدان کے لیے معدّ ہے۔ علم روح کو مشخص کرتی ہے اور اعمال بدنِ برزخی کو معین کرتے ہیں۔ پس بدنِ برزخی و قیامت کے اعتبار سے یہ خوراک معدّ ہے کیونکہ اس خوراک سے اگلے عالم کے لیے حرارت پیدا ہوتی ہے۔اگر ظہورات کو دیکھیں تو روح ید اللہ ، عین اللہ ، لسان اللہ قرار پاتی ہے نہ بدن ۔  ایک مثال دی جاتی ہے کہ آپ لوبیا لیں اور اس کو آپ ایک برتن میں رکھیں جس میں اس کا اندر نظر آر رہا ہو، آپ اس کو پانی وغیرہ دیں اور مٹی میں ڈال دیں تو دیکھیں گے کہ جیسے لوبیا نشو ونما پاتا چلا جاتا ہے لوبیا اپنا وجود مٹاتا چلا جاتا ہے، یہاں تک لوبیا جڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایک پودا مٹی سے باہر نکل آتا ہے جس سے کسی سو لوبیا نکلتے ہیں۔ بدن بھی اسی طرح ہے جوکہ نطفہ سے بنا ہے، جیسے جیسے یہ نطفہ رشد کرتا ہے وہ بدن کو نشوونما دیتا جاتا ہے، پھر اسی بدن سے روح کی خلقت جنم لیتی ہے۔ یہ بدن جیسے جیسے نشوونما پاتا ہے روح کے لیے کئی سو بدن کو تشکیل دیتا جاتا ہے ، بالکل ایسے جیسے لوبیا فنا ہو کر پودے کو جنم دیتا ہے اور پودا متعدد لوبیا کے وجود کا باعث بنتا ہے۔

عین: ۲۱

كا) عين في أن نفس الحيوان مجرّدة تجرّدا غير تام: هذا البحث وإن كان خارجا من جهة عن القصد، ولكنّه يعين في البحث عن تجرّد النفس الناطقة. الحيوانات ليس لها نفس ناطقة، وإلا يلزم القصسر الدائم المستلزم للقبح واللغو في فعل الحكيم؛ لأنه على ذلك أوجد شيئا – أي تلك القوة الناطقة العاقلة في الحيوانات – لم يظهر أثره، ولم يبرز فعليّته قطّ. تعالى عن ذلك علوا كبيرا بل الحيوانات لها نفوس مجردة غير تامّة على مراتب أمزجتها. فإن نفوس الحيوانات التي لها قوة التخيّل بالفعل ليس ماديّة. فهي مدركة لذواتها على الوجه الجزئي لأن ذواتها لها ليست لغيرها، ولك ما كان وجوده له لا لغيره فهو مدرك لذاته، ولا يلزم من ذلك كونها جواهر عقليّة؛ إذ التجرّد عن المادة أعمّ من العقلية والعام لا يوجب الخاص، وهذا مراد الأوائل من أن للحيوانات نفوسا مجردة، وأما قوله سبحانه :{ أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ }،[3]فصلت: ۲۱۔ ففيه سرٌّ ربوبي ورمز ملكوتي، فتدبّر. اعلم أن شيخ الرئيس كان في أول الأمر ينكر تجرد النفس الحيوانية، ثم اعترف به، وقد نقلنا عبارته في الدرس الحادي عشر من كتابنا دروس اتحاد عقال به معقول؛ وراجع النكتتين 240 و 925 من كتابنا هزار ويك نكته أيضا.

اس عین میں حیوان کے نفس کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔مدرَک (جسے درک کیا جاتا ہے) یا تو صوری ہے یا غیر صوری۔ اگر مدرَک صوری ہو تو وہ یا تو مادہ کا محتاج ہے اس کو محسوسات کہتے ہیں یا مادہ کا محتاج نہیں ہے ، اس کو تخیلات کہتے ہیں  ۔ نیز اگر مدرَک   غیر صوری ہو تو یا تو وہ جزئی ہوگا یا کلی۔اگر مدرَک غیر صوری جزئی ہو تو اس کو وہمیات کہتے ہیں ، مثلاً باپ کا اپنے بیٹے سے محبت کرنا ، محبت کی نہ کوئی شکل و صورت ذہن میں بنتی ہے اور نہ محبت کا مادہ ہوتا ہے۔ اگر مدرَک غیر صوری کلی ہو تو اس کو معقولات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس مدرَک یا حسی، خیالی، موہوم اور معقول ہوتا ہے۔ متخیل و موہوم مجرد ہیں لیکن مجرد تام نہیں ہیں ، خصوصا متخیل اگرچے مادہ نہیں رکھتا لیکن خصوصیات مادہ رکھتا ہے جس کی وجہ سے یہ تجرد تام نہیں۔ اس کو تجرد برزخی یا مثالی بھی کہتے ہیں۔ اگر انسان حس نہ رکھتا ہو تو وہ ادراکِ حسی سے محروم رہ جائے گا ۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:  { وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصَارَ وَ الْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ؛  اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکم سے نکالا تو تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے سماعت اور قوت بصارت اور دل قرار دیئے تاکہ تم شکر کر سکو}.   [4]نحل:۷۸۔

حیوانات کا وجودِ برزخی:

حیوانات حتی حشرات تخیل اور وجود برزخی رکھتے ہیں۔ حتی بہت سی جڑی بوٹیاں دوستی، نفرت، محبت، قربت وغیرہ کے احساسات کی مالک ہیں۔ اگر درختوں کی جڑوں پر دقت کریں تو معلوم ہو گا جڑیں اس طرف بڑھتی ہیں جہاں پانی ہے اور ان کے اگنے کی زمین فراہم ہے۔ پس یہ جڑیں بھی ایک نوعِ ادراک رکھتی ہیں۔ بعض جو مادیِ محض ہیں اور وہ بھی ایک نوع ادراک رکھتی ہیں۔ پس ہر شیء اپنی ظرفیت کے مطابق ادراک رکھتی ہے اور ادراک ہے تو تسبیح ہے۔  البتہ یہ تجردِ نطقی نہیں رکھتے ۔ کیونکہ اگر یہ تجردِ نطقی رکھتے تو ہمیں یہ نطق کرتے دیکھائی دیتے لیکن وجدانًا ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر کوئی استثنائی مورد ہمیں نطق کرتا مل جائے تو یہ کلی حکم کا باعث نہیں بنتا کیونکہ النادر کالعدم ہے۔ 

حیوان کے نفس کی بحث ہماری اصلِ بحث سے خارج ہے لیکن چونکہ نفس ناطقہ کا ایک مرحلہ نفسِ حیوانی ہے اس لیے اس سے بحث کرنا مفید ہے۔ حیوانات نفس رکھتے ہیں لیکن نفس ناطقہ نہیں رکھتے۔ اگر حیوانات نفس ناطقہ رکھتے تو کبھی تو اس کے آثار ہمیں دکھائی دیتے !! اللہ تعالیٰ حکیم ذات ہے، اگر حیوانات کے لیے نفس ناطقہ ہوتا تو یہ حکمتِ الہٰی کے خلاف تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی ایسی شیء خلق نہیں کی جس کا کوئی اثر ظاہر نہ ہو۔ اگر حیوانات کے لیے نفس ناطقہ ہوتا تو اس کے آثار دکھائی دیتے کیونکہ اللہ تعالیٰ عبث شیء خلق نہیں کرتا جس کی ضرورت اصلا حیوان کو نہیں اور نہ اس کا کوئی اثر ظاہر ہوتا ہے۔

عین: ۲۲

كب) عين في تجرّد النفس الإنسانية تجرّدا غير تام: الحقّ أن القوة الخيالية مجردة تجردا غير تام؛ أي إنها جوهر قائم لا مفي محل من البدن وأعضائه، ولا هي موجودة في جهة من جهات هذا العالم الطبيعي، وإنما هي مجردة عن هذا العالم واقعة في عالم جوهري متوسط بين العالمين عالم المفارقات العقلية وعالم الطبيعيّات المادية. وكثير من الأدلة الدالة على تجرد النفس ناظر إلى هذا النحو من التجرد ؛ وهي الأدلة التي قد أخذت فيها الأشباح والمقادير بلا مادية طبيعية، وهي متحققة في صقع النفس لأنها من مدركاتها، ومدركاتها كلها متحققة في ذاتها تحقق الفعل بفاعله، والمنتشى بمُنشئه، وأما تلك الأدلة وشرحها فتطلب في رسالتنا العربية الموسومة بـ الحجج البالغة على تجرد النفس الناطقة، ورسالتنا الأخرى بالفارسية الموسومة بـ گنجينه گوهر روان. فيثبت بها أن للنفس في مقام خيالها الذي هو مثالها، ويعبّر عنه بالمثال المتصل قبال المثال المنفصل عنها المتحقق في نضد العالم ونظامه تجرّدا غير تامّ، ويسمّى تجرّدا برزخيًّا، وتجرّدا خياليًّا. ويتفرّع على هذا النحو من التجرّد كثير من أحكام النفس الأخروية، فتبصّر.

شرح:

قوتِ خیال مجرد ہے لیکن یہ تجردِ غیر تام ہے۔ قوت خیال کی صورت میں نفس ِ انسانی مجرد اور حيوانات ہےلیکن یہ تجرد تجردِ غیر تام ہے۔انطباقِ صغیر ایک موطنِ کبیر میں منطبق ہوتا ہے۔ محال ہے کہ ایک بڑی چیز ایک چھوٹی چیز میں سماں جائے۔ عالم خیال اس مادی عالم سے وسیع تر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں کو یہ قوت دی ہے کہ وہ مادی جہاں کو اپنے اندر سماں لے لیکن مادہ انسان کے پاس منتقل نہیں ہوتا ۔ امام رضاؑ سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ امامؑ نے سائل کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو آنکھ کس قدر چھوٹی ہے اس چھوٹی خلقت میں کسی قدر بڑی اور وسیع کائنات سماں جاتی ہے۔ لیکن دوسرے ایک موقع پر امامؑ سے سائل نے پوچھا کہ کیا ایک اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ایک بڑی چیز چھوٹی چیز میں سماں جائے، تو امامؑ نے فرمایا کہ قدرتِ الہٰی محال سے تعلق قائم نہیں کرتی۔ پس پہلے مورد میں امامؑ کا جواب جدلی نوعیت کا تھا جس میں سائل کا تعلق عام افراد اور کوتاہ ذہنیت رکھنے والوں سے تھا جن کے لیے جدلی جوابات کفایت کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے مورد میں سائل صاحب فکر تھا اس لیے کو عقلی جواب دیا۔  فلسفی اپنے ادراکات کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔ عرفان کی پہنچ فلسفی کے ادراکات سے بالاتر ہے۔ ستون حنانہ جس نے رسول اللہ ﷺ کے فراق میں نالہ و فغاں کیا اس کو فیلسوف درک نہیں کر سکتا۔

عالم مثال کا غیر مادی ہونا:

پس عالم مثال مادی نہیں ہے جیساکہ فلاسفہِ مشاء نے گمان کیا ہے اگرچے ابن سینا نے رائے سے رجوع کر لیا تھا۔ عالم مثال اسی لیے مادی نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر ہم اس کو مادی مان لیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ عالم مادہ میں کبیر کو صغیر میں بند کر دیا جائے جبکہ   عالم مادہ میں انطباعِ کبیر در صغیر محال ہے۔ اس کی تفصیلی دلائل علامہ حسن زادہ آملی ؒ نے  اپنی ’’الحجة البالغة على تجرد النفس الناطقة ‘‘ میں تحریر کی ہیں ۔ ان متعدد ادلہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نفس کے لیے تجردِ غیر تام ہے جوکہ مقامِ خیال پر ہے۔ اس کو تجردِ نفس خیالی اور ’’تجرُّدِ برزخی‘‘ بھی کہتے ہیں۔کیا اللہ تعالیٰ نے بہشت و فردوس مٹی، سیمنٹ وغیرہ سے بنائی ہے؟! بعض اس بات کے قائل ہیں کہ جنت مادی چیزوں سے بنی ہے جس کی تشکیل مٹی، سیمنٹ، پتھر ، لوہے، سونا ، چاندی، تانبا وغیرہ سے بنی ہے اور نصوص کے ظاہر سے یہی آشکار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’حقائقِ معرفتی‘‘ ہے جس کے مطابق ہے انسان خود اپنی بہشت اور جہنم بناتا ہے۔ انسان کی نیات ِ فاسد اور اعمال فاسد جہنم کی آتش کو بھڑکانے کا باعث بنتی ہیں۔ حقیقت انسان اپنی لگائی آگ میں جلتا ہے ، وقودها الناس ، وقود اس کوئلے کو کہتے ہیں جو تیزی کے ساتھ بھڑک اٹھے۔ لوگ ہیں جو جہنم کے شعلہ کو تیز کرتے ہیں اپنے اعمال اور نیات فاسدہ کے توسط سے۔ پس جنت بھی سیمنٹ و لوہے وغیرہ سے نہیں بلکہ انسان کے اعمال و نیات صالحہ سے تشکیل پاتی ہے۔ 

انسان کے لیے تجردِ غیر تام ، تجرد تام اور فوق تام ہے۔ کیونکہ انسان حد لا یقف نہیں رکھتا اور وہ مقامِ عقول سے بالاتر ہے، جیساکہ حدیثِ معراج کے ذیل میں جناب جبرئیلؑ کے کلمات اس طرح سے ذکر کیے گئے ہیں: { وَلَوْ دَنَوْتُ أَنْمُلَةً لَاحْتَرَقْت؛ اگر ایک قدم آگے بڑھو تو جل کر راکھ ہو جاؤں گا }. [5]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۸، ص ۳۸۲۔ پس انسان ہے جو عقول سے بلند پرواز کر سکتا ہے، اس لیے انسان کے لیے حد ہے جو لا یقف ہے۔ عالم عقول یعنی عالم مفارقات میں وجودات مجرد تام رکھتے ہیں۔ عالم عقول میں چار فرشتے بنیادی فرشتے ہیں: ۱۔ جبرئیلؑ جن کے سپرد علم ہے، ۲۔ میکائیل جن کے سپرد حیات ہے، ۳۔ اسرافیل ، جن کے سپرد رزق ہے ، ۴۔ عزرائیل، جن کے سپرد موت ہے۔ 

عین: ۲۳

كج) عين في تجرّد النفس الناطقة الإنسانية تجرّدا تامّا عقليًّا: وقد أقاموا حُجَجًا كثيرةً في صُحُفِهِم المكرّمة على تجرّدها ذلك، تجدها في رسالتنا المذكورتَيْن، أَقْوَيهَا أنَّها وِعَاءُ الْعِلم. قال الوصي × لتملميذه كميل الكامل النخعي كما النهج: { يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا }، وبالجملة أنّ الحجج البالغة ناطقة بأن النفس الإنسانية جوهر رحاني النسج والسوس. قال القاضي البيضاوي في تفسير كريمة: { وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ في‏ سَبيلِ اللَّهِ أَمْواتٌ بَلْ أَحْياءٌ وَ لكِنْ لا تَشْعُرُون[6]بقرہ: ۱۵۴۔من أنوار التنزيل: فيها دلالة على أن الأرواح ججواهر قائمة بأنفسها مغايرة لما يحسّ به من البدن بتقى بعد الموت دراكة، وعليه جمهور الصحابة والتابعين، وبه نطقت الآيات والسنن.

شرح:

تجردِ نفس پر حکماء نے کثیر دلائل ذکر کیے ہیں جن کو ہم نے اپنے دو رسالوں میں تحریر کیا ہے۔ ایک رسالہ عربی زبان میں ہے اور دوسرا فارسی زبان میں۔ ان تمام ادلہ میں سب سے قوی ترین دلیل یہ ہے کہ نفسِ انسانی وعاءِ علم ہے، علم کا ظرف ہے۔ نفس کے مجرد ہونے پر بہترین دلیل  روح اور نفس کا ظرفِ علم ہونا ہے۔ روح وہی نفس ہے البتہ فرق یہ ہے کہ اگر بلحاظ عدم تعلق ہو تو روح کہا جاتا ہے اور نفس بدن سے تعلق کے اعتبار سے ہے۔ امام علیؑ نے اپنے شاگرد کامل جناب کمیل کو فرمایا تھا کہ یہ قلوب ظروف ہیں اور ان میں بہترین وہ قلوب ہیں جو ظرف واقع ہوں۔ قلب یعنی وسط، جنگ میں جب دشمن کے عین وسط میں حملہ کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے قلبِ دشمن پر حملہ کیا گیا ہے۔ قلب مرکزِ انسان ہے اور اس اعتبار سے بہترین ہے کہ یہ معنی کی نگہداری کرتا ہے۔ قلبِ انسان مادی نہیں بلکہ مجرد ہے۔ علم کی حفاظت یہی دل کرتا ہے۔ علم مجرد ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ جتنا علم بڑھتا جاتا ہے ظرف یعنی نفس انسانی میں اتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ مادہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اگر ظرف میں مظروف زیادہ آ جائے تو وہ ظرف کو تنگ کر دیتا ہے جبکہ علم اور مجرد کی خصوصیت جدا ہے کہ جتنا اس میں اضافہ ہوتا جائے اتنا نفس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

علم مجرد ہے لیکن اگر یہ تنزل کرے تو صورت اور شکل اختیار کر کے ظاہر ہوتا ہے جیساکہ ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ وافر پانی دکھائی دے تو یہ علم کی طرف اشارہ ہے۔ یہ صورت کا اختیار کرنا علم کا تنزل پیدا کرنا ہے۔ ورنہ علم مجردِ محض ہے۔ بین ظرف اور مظروف سنخیت کا ہونا ضروری ہے۔ ظرف و مظروف سنخیت رکھتے ہیں۔ شبِ قدر کی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت ہے۔ صورت کے اعتبار سے ۱۹ یا ۲۱ یا ۲۳ کی شبِ ماہ رمضان ہے۔ لیکن اس کی حقیقت کو دیکھیے تو روایت میں وارد ہوا ہے کہ ہماری جدہ سیدہ فاطمہ ؑ شبِ قدر ہے۔ انسان کامل شبِ قدر ہے جن میں سے ایک جناب سیدہؑ ہیں۔ تفسیر فرات میں امام صادقؑ سے منقول ہے:{ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ‏ أَنَّهُ قَالَ‏: إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، اللَّيْلَةُ فَاطِمَةُ، وَالْقَدْرُ اللَّهُ، فَمَنْ عَرَفَ فَاطِمَةَ حَقَّ مَعْرِفَتِهَا فَقَدْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ الْقَدْر }.[7]فرات، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، ص ۵۸۱۔ اولیاء اللہ خود اپنی چاہت نہیں رکھتے بلکہ جو اللہ تعالیٰ چاہتا وہی یہ چاہتے ہیں۔ اگر کسی کی اپنی چاہت ہو وہ ولی نہیں ہو سکتا۔ پھر لیلۃ القدر کی تمام معرفت ممکن نہیں ہے جیساکہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے: { عَنْ رسول الله : يَا عَلِيُّ مَا عَرَفَ اللَّهَ إِلَّا أَنَا وَأَنْتَ، وَمَا عَرَفَنِي إِلَّا اللَّهُ وَأَنْتَ، وَمَا عَرَفَكَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَا }.[8]حلی، حسن بن سلیمان ، مختصر البصائر، ص ۳۳۶۔

تفسیر بیضاوی میں سورہ بقرہ آیت ۱۵۴ جس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہونے والوں کی حیات کا ذکر ہے کہ ذیل میں بیضاوی لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اس مطلب پر دلالت موجود ہے کہ ارواح (چاہے شہید ہوں یا غیر شہید) جواہر ہیں جو بأنفسہا قائم ہیں اور بدن جس کو حس کرتا ہے اس سے مغایر ہے۔ بدن مادی ہے لیکن روح مادی نہیں ہے۔ مبنی کے اعتبار سے یہ مطلب اگرچے شہید اور غیر شہید ہر دو کو شامل ہے لیکن اسی اعم مبنی کے ذریعے بیضاوی نے شہید کی حیات کو ثابت کیا ہے۔ علامہ طباطبائی نے المیزان میں اس آیت کے ذیل میں مطلب کو ذکر کیا ہے البتہ تھوڑا اختلاف کے ساتھ آیت کی تفسیر  کی ہے۔

عین: ۲۴

كد) عين في أن للنّفس الناطقة الإنسانية فوق التجرّد العقلائي: للنفس درجات من التجرد كالتجرّد البرزخي وهو تجرّدها في مقالم الخيال، والتجرد التام العقلي، والتجرد الأتم الذي هو فوق التجرد العقلي. وعنى كونها فوق التجرد أن ليس لها حدّ يقف إليه ومقام تنتهي إليه، أي ليس لها وحدة عدديّة بل وحدة حقّة حقيقيّة ظليّة. قال الوصي × كما في النهج: { كُلُّ وِعَاءٍ يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيهِ إِلَّا وِعَاءَ الْعِلْمِ فَإِنَّهُ يَتَّسِعُ بِه‏ }، وسائر أدلته العقلية والنقلية مذكور في الرسالتين. وإلى فوق تجردها العقلائي أشار في غرر الفرائد بقوله:

وإنها بحت وجود ظلّ حق
عندي وذا فوق التجرد أنطلق

ولعلّ مراده من > بحت وجود < غلبة أحكام الوجود على ماهيّتها، وإلا فكلّ ممكن على الإطلاق زوج تركيبي، والفرد هو الوجود الصمدي لا غير، فافهم.

نفس کے تجرد کے اعتبار سے درجات ہیں جو کہ تجردِ غیر تام، تجرد تام عقلی اور فوق عقلی یعنی تجردِ اتم  ہے۔ فوق التجرد سے مراد یہ ہے کہ نفسِ ناطقہ کی کوئی ایسی حد نہیں ہے جس پر وہ توقف کرے، اور ایسا مقام نہیں ہے جس پر وہ منتہی ہو۔ مرتبہِ قوق تجرد میں وحدتِ عددی نہیں بلکہ وحدتِ حقہ حقیقی ظلی ہے۔ اس کی عقلی و نقلی ادلہ علامہ حسن زادہ آملی نے اپنی دو کتابوں میں درج کی ہیں جن کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔ حکیم سبزواری نے فوقِ تجرد کی طرف اس شعر کے ذریعے اشارہ کیا ہے:

وإنها بحت وجود ظلّ حق
عندي وذا فوق التجرد أنطلق

اس شعر میں بحتِ وجود سے مراد یہ نہیں ہے کہ نفسِ ناطقہ ماہیت نہیں رکھتا، یہ بات درست نہیں بلکہ ’’بحتِ وجود‘‘ سے مراد فوقِ تجرد ہے۔ نفس ناطقہ ماہیت رکھتا ہے لیکن حق تعالی کے تحت الشعاع ہے۔ اگر ہم نفس ناطقہ کی ماہیت کے نہ ہونے کے قائل ہو جائیں تو یہ اللہ تعالی کے نعوذ باللہ مساوی قرار دینا ہے جوکہ کاملاً غلط ہے۔ پس نفس ناطقہ ماہیت رکھتا ہے لیکن یہ ماہیت ظل حق ہے۔ پس نفس ناطقہ لا یقف  ہے لیکن حد رکھتا ہے  اور تعین رکھتا ہے اور تعین ایک نوعِ حق ہے۔ پس حکیم سبزواری نے تصریح کی کہ ’’بحت وجود‘‘ سے مراد فوقِ تجرد ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ’’بحت وجود‘‘ سے مراد احکامِ وجود کا ماہیت کے اوپر غالب ہونا ہے۔ ورنہ ہر ممکن الوجود علی الاطلاق زووجِ ترکیبی رکھتی ہے ۔ وجودِ صمدی فقط اللہ سبحانہ کا ہے۔ پس انسان کے نفس ناطقہ کے مراتب ہیں ، سورہ مؤمنون میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ انسان کا آغاز نطفہ سے ہوا اور جب علقہ، مضغہ ، جسم سوی کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے:{ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ }.[9]مؤمنون: ۱۴۔ انسان کا ایک مرحلہ مادی ہے، دوسرا تجردِ برزخی جسے مجردِ ناقص کہتے ہیں ، تیسرا تجردِ عقلانی ہے جوکہ تجردِ تام کہلاتا ہے۔ روح و عقل تجردِ تام ہے ، جیسے عقول، ملائکہ وغیرہ۔ فرشتے کو لے لیں کہ جب وہ تمثل اختیار کرے تو بشر کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے لیکن برزخی مرحلہ سے پہلے وہ عقل ہے یعنی تجردِ تام ہے جہاں سے وہ مرحلہِ برزخی میں تمثل کرتا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِيًّا }.[10]مریم: ۱۷۔

تجردِ تام کے بعد ایک مرحلہِ تجرد ہے جسے تجردِ فوق عقلانی کہتے ہیں جو بشر کے ساتھ مختص ہے جس پر فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے جیساکہ ابن شہر آشوب نے روایت نقل کی ہے: وَلَوْ دَنَوْتُ أَنْمُلَةً لَاحْتَرَقَتْ.[11]ابن شہر آشوب، محمد بن علی،مناقب آل ابی طالب ع، ج ۱، ص ۱۷۹۔ پس یہ سب مراتب انسانی میں سے ایک مرتبہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى‏ فكانَ قابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى ‏}.[12]نجم: ۹-۸۔ نفس ناطقہِ انسانی پہلے دنو اور قربت پیدا کرتا ہے اور پھر چپکتا ہے جیساکہ لوہے کے ساتھ مقناطیس قریب ہو کر چپک جاتا ہے۔امام علیؑ کی مناجات ِ شعبانیہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:   إِلَهِي هَبْ لِي كَمَالَ الِانْقِطَاعِ إِلَيْكَ وَأَنِرْ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا بِضِيَاءِ نَظَرِهَا إِلَيْكَ حَتَّى تَخِرَقَ أَبْصَارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلَى مَعْدِنِ الْعَظَمَةِ وَتَصِيرَ أَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِكَ إِلَهِي.[13]ابن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۷۸۔   فتدلی  سے مراد مقامِ احدیت ہے۔ 

عین: ۲۵

كه) عين في أن للنّفس لا تفسد بفساد بدنه العنصري: شيئية الشيء بصورته، وصورة الإنسان جوهر مجرد عن المادة الطبيعية وأحكامها كما أن أدلّة تجرّدها كلّها ناطقة بذلك، والفساد والتلاشي والاضمحلال من طواري المركبات الطبيعية؛ وأما هو بريء عن التركيب وموجود نوري بسيط فلا يتطرّق إليه البوار والهلاك أصلا، فالنفوس الشخصية وإن لم تكن أزليّة ولكنّها باقية ببقاء فاعلها الأزلي الأبدي، فشبهة جواز إعادة المعدوم على ما سوّدت طائفة الكراريس زعما منهم أن القول بحشر الأجساد متوقف عليه والموت إعدام، كشبهة الآكل والمأكول.

امام علیؑ معرفتِ نفس کے بارے میں فرماتے ہیں: مَعْرِفَةُ النَّفْسِ أَنْفَعُ الْمَعَارِف‏۔ [14]آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۷۱۲، ح:۱۵۱۔ کائنات میں معرفتِ نفس سے قریب اور بہترین طریقہ معرفتِ الہٰی کا موجود نہیں ہے۔  رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه‏‏۔ [15]قاضی عیاض،منسوب الی الامام الصادق ع،  مصباح الشریعۃ، ص ۱۳۔ اللہ تعالیٰ کی آیاتِ آفاقی اور انفسی ہیں۔ عوالم اللہ تعالیٰ کے ظل ہیں اور اللہ تعالیٰ ذی ظل ہے، عوالم بدن ہیں تو ان کی جان ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔

شیء کی شیئیت کا صورت سے ہونا:

شیء کی شیئیت اس کی صورت کے  ساتھ ہے، جیسے بیڈ یا کرسی کو اس شکل میں صورت ڈھالتی ہے۔ ہر شیء کی شیئیت اس کی صورت کی بدولت ہے۔  صورت سے مراد شکل و شمائل نہیں ہیں بلکہ یہاں صورت ایک جوہر ہے جوکہ مادہ سے مجرد ہے ۔ لہٰذا انسان اگر خواب میں اپنے آپ کو اس بدن میں دیکھے تو اس نے اپنی حقیقت نہیں دیکھی کیونکہ  انسان کی حقیقت اس کی صورت ہے۔ پس بدن اور نفس ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ انسان کا نفس اس کی صورت ہے نہ کہ بدن ۔ انسان کی شیئیت اس کی صورت ہے اور اس کی صورت جوہرِ مجرد ہے۔  انسان کے بدن پر ہلاکت، فساد اور مرنا ، فناء ہونا  طاری ہوتا ہے لیکن نفس ان میں سے کسی کے ساتھ ملحق نہیں ہوتا کیونکہ نفس مجرد ہے اور وہ بدن کے بعد باقی رہتا ہے۔ اس کے باوجود نفس ازلی نہیں ہے لیکن دائمی اور ابدی ہے جو کبھی فاسد اور فناء نہیں ہوتا۔اگر انسان کی شیئیت اس کے بدن سے ہوتی تو بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے انسان بھی منعدم ہو جاتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بدن کا کچھ حصہ اس سے کٹ جائے تو بھی انسان باقی رہتا ہے۔ پس انسان کی شیئیت بدن سے نہیں اس کی صورت سے ہے اور یہاں صورت سے مراد اس کا نفس ہے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا نفس بدن میں حلول کیے ہوئے ہے؟ کیا نفس بدن کا جزء ہے؟ کیا نفس بدن کے اندر ہے؟ ان میں سے کوئی بات درست نہیں ہے کیونکہ نفس نہ بدن ہے اور نہ بدن کا جزء ہے اور نہ بدن ظرف اور نفس مظروف ہے۔ اس لیے بدن کے چلے جانے کے باوجود نفس باقی رہتا ہے۔ بدن ذرہ ذرہ ہو کر ہوا میں بکھر جائے و بھی نفس باقی رہتا ہے۔ اگر نفس کا قُوَی سے تعلق جان لیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا کائنات سے ربط و تعلق بھی معلوم ہو جائے گا۔ احادیث مبارکہ میں نفس کی معرفت کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ آیت اللہ حسن زادہ آملی نے بڑھاپے میں اس موضوع کی اہمیت کی وجہ سے زحمت اٹھاتے ہوئے کتاب ’’سرح العیون فی شرح العیون‘‘ لکھی جس میں ۶۶ عین تحریر کیے اور پھر انہی کی شرح کی ہے۔ ۶۶ عیون قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ ۶۶ عدد اللہ کا عدد ہے۔ سَرح کا مطلب ہے آنکھوں کو گھومانا ہے۔ عیون کو اس طرح سے تحریر کیا ہے کہ ان کا باہمی ربط ہے اور پھر ان کی تفصیلی شرح بعد میں کی ہے۔

نفس کی نشوونما اور لوبیے کی مثال:

ادلہِ تجرد نفس ثابت کرتے ہیں کہ نفس مادی نہیں ہے اور بدن کے چلے جانے کے بعد باقی رہتا ہے۔ ہر نفس ہر بدن کے ساتھ تعلق نہیں کرتا بلکہ مزاجِ بدن باعث بنتا ہے کہ کس نوعیت کے نفس کا کس بدن سے تعلق قائم ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ بدن میں نفس خلاصہ کے طور پر سما جائے  بلکہ نفس کا بدن سےایک  نوعِ تعلق ہے، مثلاً آپ ایک لوبیا لیں اور ایک گلاس میں اس کو ڈال دیں جس میں اس کی نشوونما آپ دیکھ رہے ہوں، آپ ملاحظہ کریں گے کہ جیسے جیسے لوبیا اگنا شروع کرے لوبیا کی جڑیں مٹی میں جاتی جائیں گی، جیسے جیسے جڑیں بڑھتی جائیں گی لوبیا سے پودا بڑھتا جائے گا یہاں تک لوبیا کا وجود پودے اور جڑ میں منحل ہو کر ختم ہو جائے گا۔ اس مثال میں لوبیا کی مثال بدن کی سی ہے کہ جیسے جیسے پودا بڑھتا جاتا ہے لوبیا بوسیدہ اور ختم ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح جیسے جیسے نفس بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے بدن بوڑھا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جیسے پودا رہ گیا اور لوبیا ختم ہو گیا اسی طرح بدن مضمحل ہو کر ختم ہو جائے گا جبکہ نفس باقی رہ جائے گا۔ نفس کا تعلق بدن کے ساتھ استکمالی ہے جوکہ طلبِ کمال کرتا رہتا ہے۔ بدن جب نفس سے جدا ہوتا ہے تو بدن کو آداب و احکامِ شریعت کے مطابق مٹی میں دفنا دیا جاتا ہے جبکہ نفس باقی رہ جائے گا۔ نفس کا استکمال فقط دنیا میں نہیں ہے بلکہ برزخ و قبر میں بھی استکمال ہے ۔ یہاں پر بحثِ کلامی معاد کے اعتبار سے ابھاری جاتی ہے کہ متکلمین قائل ہیں کہ نفس استکمال حاصل کر کے معاد میں اسی بدن جو مٹی میں دفنایا گیا سے تعلق قائم کرے گا جبکہ حکماء اسلامی اس بات کے قائل ہیں کہ نفس استکمال کے بعد قیامت میں اس بدنِ عنصری جوکہ دفنا دیا گیا سے تعلق قائم نہیں کرے گا بلکہ ہر عالم میں اسی کے تناسب سے بدن ہو گا جس سے وہ تعلق قائم کرے گا۔ اس مقام پر یہ اعتقاد طبقِ آیات و احادیث ضروری ہے کہ نفس بدن کے ہمراہ ہو گا ۔ قرآن کریم نے جدلی اسلوب اختیار کرتے ہوئے فرمایا ہے: {  قُلْ يُحْييهَا الَّذي أَنْشَأَها أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَليم‏ [16]یس: ۷۹۔یہ جدلی خطاب ہےکہ جس ذات نے پہلی مرتبہ تمہیں خلق کیا تھا وہی تمہیں زندہ کرے گا۔ لیکن کونسے بدن میں ؟ یہی بدن جو مٹی میں دفن ہو گیا اور مٹی مٹی ہو گیا یا کوئی اور بدن۔ اس مسئلہ میں قرآن کریم کی یہ آیت بہترین فیصلہ کرتی ہے: {   أَ وَ لَيْسَ الَّذي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ بِقادِرٍ عَلى‏ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلى‏ وَ هُوَ الْخَلاَّقُ الْعَليم‏‏ }، [17]یس: ۸۱۔ اس آیت میں واضح بیان فرمایا کہ انہی کی مثل وہ خلق فرمائے گا۔ یہاں معاد جسمانی اور اعادہِ معدوم جیسی مباحث کی گنجائش نہیں رہتی۔ افلاطون سے منقول ہے کہ اس کو کہا گیا کہ آپ کو کہاں کیسے دفن کیا جائے  ؟ انہوں نے جواب دیا: جب میں مر جاؤں تو میں تمہارے ہاتھ میں نہیں ہوں گا جو تمہارے ہاتھ میں ہو گا وہ میں نہیں ہوں اس لیے جہاں چاہو اس کو دفن کر دو۔ یہ بدن تو ایک لباس کی مانند تھا جس کو ایک مدت میں نے استعمال کیا اور موت کے ذریعے اس لباس سے جدائی ہو گئی۔پس نفس بدونِ بدن نہیں ہے بلکہ ہر نشات اور ہر جہاں میں بدن ہے۔ ہر عالم کے ساتھ سازگار بدن نفس کو عنایت ہو گا۔ الکافی کی روایت ہے کہ متکبرین کو ذرات کی شکل میں خلق کیا جائے گا۔ اگر یہی بدن اگر محشور ہو تو پھر ذرات، چیونٹی وغیرہ کا بیان کیا ہے؟!! پس اگلے جہاں کا بدن عنصری نہیں جوکہ مٹی، پانی اور دیگر عنصر سے مل کر نہیں بنا ہوا۔ اس کی تفصیل معاد کے باب میں بیان کی جاتی ہے۔جس طرح شبہِ آکل و مأکول باطل شبہ ہے اسی طرح شبہِ اعادہِ معدوم بھی باطل شبہ ہے کیونکہ نفس تو معدوم ہوا نہیں ہے کہ اعادہِ معدوم کی بات کی جائے ۔ جب انسان ایک مسئلہ کو صحیح طرح نہیں سمجھ پاتا تو اس طرح کے فاسد شبہات کا شکار ہوتا ہے۔ یہ شبہ کہ انسان کا بدن مٹی میں دفنایا اور وہی خربوزہ کاشت کیا اور اس کو کھایا تو یہ سب چیزیں کہاں اور نفسِ ناطقہ جو مجرد، جوہر اور باقی ہے وہ کہاں!!

عین ۲۷۔ نفس کا قوت سے فعلیت میں آنا

كز) عين في خروج النفس من القوة إلى الفعل ومخرجها: النفس تنتقل انتقالا جوهريا من طور الى طور ، فهى فى ارتقائها من النقص إلى كمالها الممكن لها لابد لها من مخرج مفارق لأن الصور العلمية عارية عن المواد خالية عن القوة والاستعداد ، فوعائها مسانخ لها ، فالواهب والمتهب أيضا عاريان عن المادة وأحكامها ، فخروج النفس من القوة إلى الفعل مسلك الى اثبات المفارق. كما سلكه الفارابى فى رسالة اثبات المفارقات. والفاعل موجود قبل فعله بالفعل ، فالمفارق أقوى من فعله ومن متهبه . ثم ان معطى الشى ء يجب أن يكون واجده أولا ، فجميع الصور العقلية العلمية حاصلة للمفيض بالفعل ، فالمفارق خزانة الصور العلمية : { وَإِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَ ما نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم‏ }. [18]حجر: ۲۱۔

انسان اس دنیا میں آیا تو قرآن کریم کے مطابق کچھ جانتا نہیں تھا پھر حواس کو استعمال کر کے ابتدائی مراحلِ زندگی طے کرتا ہے۔ انسان کو فعلیت کی ضرورت ہے۔ کیا انسان خود سے اپنے دوش پر کمال اور ارتقاء پیدا کرتا ہے یا نہیں بلکہ اپنی ذات سے باہر دیگر امور اور ذوات کا محتاج ہے جن کے ذریعے انسان فعلیت کی طرف سفر کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان فقط اپنے دوش پر فعلیت کے مراحل طے نہیں کر سکتا بلکہ وہ بیرونی عنایات کا محتاج ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون }. [19]نحل: ۷۸۔ انسان جب دنیا میں آیا تو کچھ نہیں جانتا تھا پھر آہستہ آہستہ اس نے جاننا شروع کیا اور بڑھنا شروع کیا ۔یہاں تک کہ انسان عقل سے تعلق قائم کر لیتا ہے اور عقول کے مراحل طے کرتا ہے۔ ہر انسان ایک استعداد اور صلاحیت رکھتا ہے لیکن بالقوۃ جسے فعلی کرنے کی ضرورت ہے اور اسی کو فعلیت کہتے ہیں۔ تمام انسان یکساں صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ بعض ممکن ہے ۷۰ فیصد استعداد رکھتے ہوں، ممکن ہے کوئی ۸۰ فیصد، کوئی ۴۰ فیصد وغیرہ ۔ لہٰذا سب اپنی ذات کے مطابق جتنی استعداد رکھ سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس سے ایک ذرہ کم استعداد انہیں نہیں دی لیکن سب کو بالقوۃ استعداد دی ہے جسے فعلی کرنے کی ضرورت ہے۔انسان کی خواہشات و تمنائیں بھی اسی استعداد اور صلاحیت کے مطابق ہے۔ انسان نے جو کمایا اور حاصل کیا ہے اسی کے مطابق چاہتا ہے اور خواہش کرتا ہے۔ اگر ایک سے پوچھا جائے کہ تمہیں اگر بادشاہ بنا دیا جائے تو تم کیا کرو گے مثلاً وہ جواب دیتا ہے میں فلاں فلاں کروں گے۔ ہر شخص کے جوابات اس کے مطابق ہوں گے جو استعداد اس نے حاصل کی ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَلا نُكَلِّفُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَها‏؛اور ہم کسی نفس کو اس کی وسع اور طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے }. [20]مؤمنون: ۶۲۔ ’’وسع‘‘ سے مراد ہے کہ ہر شخص خود ایک وسعت اور طاقت و استعداد رکھتا ہےاور اسی وسع کے مطابق ہر انسان کو تکلیف اور ذمہ داری دی گئی ہے۔ سب استعداد میں نہ برابر ہیں اور نہ تکلیف میں برابر ہیں۔ جس کی جتنی وسعت ہے اور جتنی استعداد ہے تکلیف اور ذمہ داری بھی اتنی ہی ہے۔ ہر کوئی استعداد کے مطابق خاص تکلیف رکھتا ہے۔ عدلِ الہٰی کا بھی یہی تقاضا ہے۔ کیونکہ اگرایک کے پاس ایک شیء کی استعداد ہے ہی نہیں تو اس کو کیسے اس سے غیر مربوط تکلیف دی جا سکتی ہے!! پس اللہ تعالیٰ کا نظام انہی گوناگوں اور متفاوت و مختلف استعداد اور اس کے نتیجہ میں تکلیفِ خاص کی صورت میں چل رہا ہے۔ لہٰذا سب انسان برابر نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ دو شخص تھے انہیں دو مرغے دیئے گئے جن میں سے ایک موٹا صحت مند تھا اور دوسرا کمزور اور پتلا۔ اب انہوں نے خود تقسیم کیا تو پہلے نے اپنے لیے موٹا اور صحت مند مرغا اپنے لیے رکھ لیا اور کمزور دوسرے کو دے دیا۔ دوسرے نے اعتراض کیا اور کہا کہ تم نے انصاف نہیں کیا۔ اس نے کہا : اچھا ، ٹھیک میں نے انصاف نہیں کیا لیکن اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟ اب اس نے سوچتے ہوئے کہا میں خود کمزور اور پتلا مرغا رکھتا اور صحت مند مرغا تمہیں دے دیتا، اس پر دوسرے نے جواب دیا کہ میں نے بھی تو یہی کام کیا ہے جو تم چاہتے تھے۔ پس ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق ہی سوچتا، خواہش کرتا ہے لیکن وہ استعداد جو اس نے حاصل کی جبکہ ایک خاص منزل تک ہر کوئی پہنچ سکتا ہے۔

مفارقات اور عقل فعال سے مراد:

حکمت میں ’’مفارقات‘‘ سے مراد وہ موجودات ہیں جو نہ ذاتًا مادی ہیں اور نہ فعلًا مادی ہیں۔ یہ مادہ سے کاملًا مفارق ہیں اس لیے انہیں مفارقات کہتے ہیں۔  اسی طرح عقلِ فعّال سے مراد جناب جبریلؑ ہیں جوکہ بشریت کے معلم ہیں اور سر تا پا عقل و فعال ہیں۔ کائنات میں علم کے صدور کا منبع جناب جبریلؑ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علم کے لیے جناب جبریلؑ کو مؤکل قرار دیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے فیضِ علم حاصل کر کے مخلوق تک پہنچا رہا ہے اور جب سے خلق ہوئے ہیں تا ابد جبریلؑ  ہیں جو علم عنایت کر رہے ہیں اور ہر شیء کے پاس جو علم ہے وہ علم حقیقت میں مدلولِ جبریلؑ ہے چاہے ۔ اسی طرح کائنات میں حیات جہاں جہاں ہے وہ مدلولِ جناب اسرافیلؑ ہے کہ ان کے صور کے توسط سے اللہ تعالیٰ نے حیات دی ہے۔ اسی طرح جہاں موت ہے وہ مدلولِ جناب عزرایلؑ ہے اور جہاں رزق کی بات ہے تو ہر رزق مدلولِ میکایلؑ ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ رزّاق ہے لیکن وہ میکایلؑ کے توسط سے رزق دے رہا ہے اور میکایلؑ مجریٰ ِ رزق ہیں۔ جناب اسرافیلؑ کو اللہ تعالیٰ نے مؤکل قرار دیا ہے حیات کے لیے۔ عرفان میں اسرافیلؑ کو تمام فرشتوں سے بالاتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ حیات کا موجب بنتے ہیں ۔ حتی جناب جبریلؑ سے اوپر شمار کرتے ہیں ۔تمام فرشتوں پر مقدم جناب اسرافیلؑ ہیں۔ عرفان میں سب سے بالاتر حیات ، اس کے بعد علم اور علم کے بعد قدرت اور قدرت کے بعد کو شمار کرتے ہیں۔ یہ تمام فرشتے عقول کہلاتے ہیں اور تمام فرشتے فعّال ہیں یعنی جن امور کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں خلق کیا ہے اس کام میں مسلسل مصروف ہیں اور ایک ذرہ کوتاہی سے کام نہیں لیتے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ تمام عقول فعّال ہیں۔

علامہ حسن زادہ آملی کا ایک واقعہ:

علامہ حسن زادہ آملی اپنا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک کتاب لینے گیا تو میرا رجحان دیکھ کر دکاندار نے ایک کتاب دی اور کہا میں اس کتاب کو کتاب کی صورت میں نہیں بیچوں گا بلکہ اس کی جلد اور صفحہ صفحہ کر کے بیچوں گا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہا کیونکہ یہ کتاب کتبِ ضالہ میں سے ہے اور اس کو بیچنا حرام ہے اس لیے میں اس کے حصے کر کے بیچوں گا۔ علامہ کہتے ہیں میں نے پوچھا کیا اس میں گمراہی کی بات ہے؟ اس نے کہا کہ اس میں جناب جبریلؑ کو عقلِ فعّال کہا گیا ہے۔علامہ کہتےہیں میں نے اس سے کہا کہ جبریلؑ عقل رکھتے ہیں یا دیوانہ ہیں؟ اس نے کہا عقل رکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ عقل کبھی کبھی رکھتے ہیں یا ہمیشہ عاقل ہیں؟ اس نے کہا کہ ہمیشہ عاقل ہیں۔ پھر پوچھا کہ آپ زیادہ عقل رکھتے ہیں یا وہ؟ اس نے کہا کہ وہ تو سر تا پا عقل ہیں یقیناً وہ زیادہ عقل رکھتے ہیں۔ پھر پوچھا کہ جبریلؑ آوارہ پھرتے رہتے ہیں یا ان کا کوئی کام کاج ہے؟ اس نے کہا یقیناً ان کا کام ہے۔ پھر پوچھا کہ ان کا کام اہمیت کا حامل ہے یا بیکار ادھر ادھر کے کام ہیں؟ کہا کہ اس کا کام مفید اور اہمیت کا حامل ہے۔ پھر پوچھا کہ وہ کام میں ہر وقت مصروف ہیں یا فارغ پھرتے رہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ ہر وقت کام میں مسلسل مصروف ہیں۔ اس پر علامہ حسن زادہ آملی نے اس کو کہا کہ آپ نے پہلے جبریلؑ کے عقل ہونے کا اعتراف کیا اور اب فعّال کہہ کر مسلسل ان کے اہمیت کے حامل کام میں مصروف ہونے کا اعتراف کر رہے ہو!! اسی کو عقلِ فعّال کہتے ہیں۔

نفس کا حامل علم ہونا:

نفس قوت سے فعلیت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ نفس کو حاملِ علم ہونا ضروری ہے۔ نفس مختلف مراحل سے گزرتا ہےاور عقل فعال، عقل مفارق کی مانند بحث اس کے ذیل میں آتی ہیں۔اللہ تعالیٰ انسان کو مختلف مراحل سے گزارتا ہے۔ عقل مفارق اللہ تعالیٰ کے علم کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔ نفس فقیر ہے اور عالم ہونے کے لیے محتاج ہے اور ضروری ہے کہ وہ قُوَی رکھتا ہو اور معرفت کو حاصل کرے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {  وَإِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم‏‏ ؛اورکوئی شیء نہیں ہے مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم جو بھی نازل کرتے ہیں وہ فقط معلوم مقدار کے مطابق ہے}. [21]حجر: ۲۱۔اس آیت کریمہ میں کثیر مطالب ہیں۔ اس آیت کریمہ کے سیاق کو ملاحظہ کریں تو گذشتہ آیات میں زمین کے پھیلاؤ اور پہاڑوں کے قرار دینے اور زمین پر رزق و زندگی کا تذکرہ ہے۔ لہٰذا ایک تفسیر سیاق کی صورت میں ہے کہ زندگی اور رزق سے جو تعلق رکھتا ہے اس کے خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ دوسری نگاہ سے دیکھیں تو ’’شیء‘‘ سے جامع معنی لیں اور ہر شیء اللہ تعالیٰ کے پاس موجود ہے اور جو نازل کرتے ہیں وہ مقدارِ معلوم ہے۔ حضرت موسیؑ کے بارے میں امام صادق ؑ سے روایت وارد ہوئی ہے کہ حضرت موسیؑ نے اللہ تعالیٰ سے تقاضا کیا :  {  حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْرُورٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ سُلَيْمَانَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الصَّادِقُ × لَمَّا صَعِدَ مُوسَى × إِلَى الطُّورِ فَنَادَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: يَا رَبِّ أَرِنِي خَزَائِنَكَ، فَقَالَ: يَا مُوسَى إِنَّمَا خَزَائِنِي إِذَا أَرَدْتُ شَيْئاً أَنْ أَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ }.[22]صدوق، محمد بن علی، التوحید، ص ۱۳۳، حدیث: ۱۷۔ پس اس آیت کریمہ کے ذیل میں مختلف معانی وارد ہوئے ہیں جس کی وجہ آئمہؑ کا راوی کے عقل کی مقدار کے مطابق گفتگو کرنا ہے۔ لہٰذا جس سطح اور عمق کا ظرف ہوتا امامؑ اس کے مطابق ان مطالب کو بیان فرماتے ۔ ذریع محاربی کا واقعہ اس پر بہترین شاہد ہے۔
علامہ حسن زادہ آملی نے اس آیت کو متعدد جہات سے شاہد کے طور پر پیش کیا ہے جس میں سے ایک جہت یہی علمی پہلو ہے۔ بعض نفس الامر سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم یا اعیانِ ثابتہ مراد لیا ہے کہ اگر اس کے مطابق ہے تو واقعیت ورنہ واقعیت نہیں ہے۔ خواجہ طوسی نے نفس الامر سے مراد عقلِ مفارق لیا ہے کہ اس کے مطابق اگر ہمارا علم ہو تو مطابق واقعیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم ایک مخفی چیز کو روشن کرتا ہے۔ نفس الامر قبل از ارادہِ الہٰی ہے جوذاتِ اشیاء  کو کشف کرتا ہے۔ نفس الامر وہی ماہیات ہیں جسے فلسفہ میں ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ محتاجِ سبب ہے۔ علم یعنی ظاہر کرتا ہے، علم کا تعلق معلوم سے ہے۔ یہ اشیاء معلوم بالعرض ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم ہے اور عالم لا معلوم ہے۔ کیا عالم بدونِ معلوم ہو سکتا ہے؟! یقیناً نہیں ، پھر روایت عالم لا معلوم سے کیا مراد ہے؟ پس معلوم سے مراد یہ اشیاءِ خارجی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے علم سے جس معلوم کا تعلق ہے وہ نفس الامر ہے۔ پس ایک مرتبہ علمِ علمی ہے اور ایک مرتبہ عینی ہے۔ ایک مرتبہ علم ہے جب ذات کے ساتھ مختص ہے اور اس کے بعد ذاتِ باری تعالیٰ میں علم اعیان ثابتہ کے مرحلہ میں متحقق ہوتا ہے اور اس کے بعد اعیانِ خارجیہ کے مرحلہ میں وجود عینی کی صورت میں متحقق ہوتا ہے۔ اس کو ہم اس طرح مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح ایک انجینئر ایک عمارت کو بنانے کے لیے پہلے اپنی ذہن میں نقشہ بناتا ہے اس کے بعد اس کو بیرونی جہان میں اسی کے مطابق تعمیر کرتا ہے۔ علم سلطان ہے اور اس کے بغیر اقتدار نہیں ہے۔ حیات کے بعد علم ہے اور علم کے بعد قدرت ہے۔ اللہ تعالیٰ حی ہے اور حیات کے بعد عالم ہے اور علم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی ترتیب کو قدرت و اقتدار کا نظام قرار دیا ہے۔ قرآن کریم نے اس کو ’’خلق‘‘ سے تعبیر کرتا ہے جبکہ فلاسفہ اس کو ’’صدور‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور عرفاء اس کو ’’تجلی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔بعض نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صدور صحیح ہے اور نہ تجلی بلکہ فقط خلق صحیح ہے؟!! ہمارا فقط لفظ سے اختلاف نہیں کیونکہ تینوں صورتوں میں آپ ایک ہی معنی لے رہے ہیں۔ اصل اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کو بھی نازل کیا ہے اور بارش کو بھی نازل کیا ہے۔ہر شیء کی اصل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس اعتبارسے قرآن یا باران میں فرق نہیں کیونکہ ہر شیء اللہ تعالیٰ کے قبضہِ قدرت میں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اس لیے ہمیں عطا کیاہے۔ اصل واوّلا و بالذات  اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور ثانیاً و بالعرض ہمارے پاس ہے۔ وجود بھی اسی طرح ہےکہ اللہ تعالیٰ کے پاس وجود بالذات ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ثانیاً و بالعرض ہمیں عنایت کیا ہے  اور ہمیں خلق کیا ہے۔ قرآن میں ملکوت سے مراد مبالغہِ ملک ہے کہ ہر شیء کی اصل اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہمارے پاس اصطلاحات متعدد اور گوناگوں ہیں۔ حدیث قدسی ہے:  {  كُنْتُ كَنْزاً مَخْفِيّاً فَأَحْبَبْتُ أَنْ اعْرَفَ فَخَلَقْتُ الخَلْقَ لِاعْرَف‏ }.[23]شریف شیرازی،  محمد ہادی، الکشف الوافی فی شرح اصول الکافی، ص ۴۴۹۔ذاتِ باری تعالیٰ میں اسی حرکتِ حبی نے اشیاء کو اس طرح نکھار کر وجود بخشا۔

عین ۲۸۔ نفس کا اشیاء کے حقائق کو درک کرنا

كح) عين في إدراك النفس حقائق الأشياء: إن مسألة كون النفس عاقلة لصور الأشياء المعقولة من أغمض المسائل الحكمية. فاعلم أن التجلى من الذات لا يكون أبدا إلا بصورة استعداد المتجلى له ، غير ذلك لا يكون ، و كيفية فيضان الصور العقلية على النفوس النطقية على سبيل الفناء فى القدسى والبقاء به . أى النفس بسبب الاتصال التام بالمبدء وفنائها عن ذاتها وبقائها به ترى الاشياء كما هى عليها فى الخارج . اللهم ارنا الاشياء كما هى.

نفسِ انسانی حقائق کو درک کر سکتا ہے۔ شیخ الرئیس کا کہنا ہے کہ اشیاء کی حقیقت انسان کی دسترس سے باہر ہے۔ شیخ الرئیس کی مراد منطق و استدلال کی دنیا سے اشیاء کی حقیقت تک دسترس مشکل ہے۔ بلا شک و شبہ کنہِ حقیقت تک تو نہیں پہنچا جا سکتا لیکن یہ ہمارے موردِ بحث سے باہر ہے۔ ہماری یہاں بحث درکِ وجودِ اشیاء اور ان کی خصوصیات ہے۔ ہم فکر و تعقل کے ذریعے جانتے ہیں کہ ہم ہیں اور کائنات کا مبدأ و معاد ہے۔ لیکن حقائقِ اشیاء حقیقتِ ماہوی کو درک کریں تو شیخ الرئیس کا کہنا ہے کہ یہ ہم نہیں جان سکتے۔ الکافی میں روایت ہے کہ عقل وہ ہے جس سے رحمن کی عبادت ہوتی ہے اور جنتیں اس سے کسب کی جاتی ہے، امام صادقؑ فرماتے ہیں:  { أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ: … مَا عُبِدَ بِهِ الرَّحْمَنُ وَاكْتُسِبَ بِهِ الْجِنَان ‏}.[24]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۵۔ اس روایت میں پہلی عقلِ نظری ہے اور دوسرا عقل عملی ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ہے کہ ہم نے انس و جن کو عبادت کے لیے خلق کیا یعنی معرفت کے لیے، پس یہ دلیل ہے کہ روایت میں پہلے حصے سے مراد عقل نظری ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {  وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُون‏‏؛اور میں نے جن اور انس کو فقط اس لیے خلق کیا ہے تاکہ وہ عبادت کریں }. [25]ذاریات: ۵۶۔ لیکن اہم چیز یہ ہے کہ یہاں معصوم ؑ نے ہمارے لیے عقل کی حقیقت بیان نہیں کی بلکہ عقل کی خصوصیات ذکر ہیں۔ پس ہم جن چیزوں کی معرفت حاصل کرتے ہیں تو ہم حقیقت میں اس شیء کی خصوصیات حاصل کرتے ہیں۔

اشیاء کی حقیقت نہیں جانی جا سکتی؟!

کیا واقعی ہم اشیاء کی حقیقت کو جان نہیں سکتے؟ یقیناً حقائق کو درک کیا جا سکتا ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں سے ایک دعا حقائق کو اسی طرح جاننے کی ہے جیساکہ وہ ہیں۔ حقائق کو جاننے کی ایک راہ تزکیہ و تہذیب نفس ہے کہ انسان سیر و سلوک کی منازل طے کرے اور جہانِ طبیعت سے جہانِ مثال اور وہاں سے عقل اور عقل سے اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ وصل ہو تو حقائق تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اگر انسان منطق و فلسفہ ، صغری کبری، برہان وغیرہ کے ذریعے حقائق تک رسائی حاصل کرنا چاہے تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی پہاڑ کی چوٹی پر زمینی راستے کے پیچ و خم اور خطرات سے گزرتے ہوئے پہنچنا چاہے اور یقیناً اگر کوئی اس طریقہ سے پہنچنا چاہے تو بہت نادر افراد پہنچ سکے ہیں ورنہ اس راستے سے حقائق تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن اگر پہاڑ کی چوٹی تک پرواز کر کے جائے تو سیر و سلوک کا طریق ہے جس میں انسان پرواز کرتا ہے اور تزکیہ نفس اور عبادات کے ذریعے سے حقائق تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا عبد بن کر علم الہٰی سے تعلق قائم کرتا ہے اور اشیاء کی حقیقت تک پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شیء کی حقیقت کو محیط ہے۔ پس لا محدود علمِ الہٰی سے تعلق قائم کرنے سے اشیاء کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم الہٰی کا احاطہ کر لیا !! اس کی مثال ہم انٹرنیٹ سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نیٹ پر جائے تو کیا وہ نیٹ پر جو معلومات موجود ہیں سب کو جان لیتا ہے یا فقط اتنی مقدار جتنے معلومات میں وہ داخل ہوا ہے؟ یقیناً انٹرنیٹ کی دنیا میں فقط ان معلومات کو درک کر پاتا ہے جن تک اس نے رسائی حاصل کی ہے نہ کہ انٹرنیٹ کی تمام معلومات۔ قرآن کریم نے اس کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے تحت جتنا علم دینا چاہتا دیتا ہے نہ کہ انسان تمام علم کا احاطہ کر لے۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: { وَلا يُحيطُونَ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِما شاءَ؛ اوروہ اس کے علم میں سے کسی حصے کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر اس نے جو چاہا ہے اس کے  }. [26]بقرہ: ۲۵۵۔

تجلی کی اقسام  شاہدی اور شہودی:

اللہ تعالی جب کسی ذات میں تجلی کرتا ہے تو تجلی دو طرح کی ہے۔ تجلی یعنی قلبِ انسان میں واردات ، اشراق۔ تجلی انواع واقسام کی ، مثلا تجلی ذاتی وغیرہ ۔  فصوص الحکم ابن عربی نے فص شیثی میں ذکر کی ہیں۔ اجمالی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ذات انسان میں اللہ تعالی دو طرح کی تجلی کرتا ہے:
۱۔تجلی شاہدی: انسان کی ذات سے باہر عالم عین میں اللہ تعالی کا اپنی تجلیات کو ظاہر کرنا ہے۔
۲۔
تجلی شہودی: انسان کے قلب میں اللہ تعالیٰ کا تجلی کرنا اور اس کے قلب میں ظاہر کرنا ۔
تجلی کی جتنی بھی انواع ہیں ان کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ تجلی حسبِ استعداد ہوتی ہے۔ جس میں جتنی استعداد ہے اسی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ تجلی کرتا ہے۔ اسی تجلی نے کائنات میں ہر شیء کو ظاہر کیا ہے، جیسے سورج نے پوری کائنات کو روشن کیا ہے ۔ لیکن تجلی استعداد کے مطابق ہوتا ہے، ایک استعداد اس ذات کی ہے جوکہ تجلی اعظم یعنی رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ ہیں جیساکہ زیارت روزِ بعثت میں تجلی اعظم کہا گیا ہے۔ ایک طرف یہ استعداد اور اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کا متجلی ہونا اور ایک استعداد مچھر مکھی کی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ متجلی ہوتا ہے اور جس ذات کے لیے متجلی ہوا وہ متجلی لہ کہلاتا ہے۔ پس کوئی سلمان و ابو ذر وغیرہ ہیں اور کوئی ابو لہب و ابو جہل و یزید وغیرہ۔نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں: { الْحَمْدُ لِلَّهِ الْمُتَجَلِّي لِخَلْقِهِ بِخَلْقِهِ وَ الظَّاهِرِ لِقُلُوبِهِمْ بِحُجَّتِه‏}.[27]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۲۸، خطبہ ۱۰۸۔ پس انسان عبادت اور تزکیہ نفس کے ذریعے سے بلندی کی طرف حرکت کرتا ہے اور مٹی و کیچڑ سے نجات پا جاتا ہے ، اس لیے انسان کے لیے ’’فلاح‘‘ ہے۔ کسان مٹی میں بیج بوتا ہے اور جو خاک کے اندر نشوونما دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے جیساکہ سورہ واقعہ میں ہے کہ حقیقی زارع اللہ تعالی ہے۔ عربی میں ایک لفظ ہے ’’فلاح‘‘ اور ایک لفظ ہے ’’زارع‘‘۔ اردو میں ہر دو کا معنی کسان کر دیا جاتا ہے۔ ’’فلاح‘‘ انسان ہے جو خاک و کیچڑ سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بیج بوتا ہے، یا سورہ واقعہ کے مطابق ہم نے زوجہ سے مباشرت کی اور ’’امناء‘‘ کیا یعنی منی کے قطرات رحم میں منتقل کیے لیکن اللہ تعالیٰ ہے جو رحم میں انسان کو نشوونمام دیتا ہے اور بشر بناتا ہے۔ پس کھیت میں جو بوتا ہے وہ فلاح ہے لیکن خاک میں جو بساتا اور اگاتا ہے وہ زارع اللہ تعالی ہے ۔ ہم پانی پیتے ہیں لیکن پانی بناتا، بہاتا اور برساتا اللہ تعالی ٰ ہے۔ ہم فقط آبِ منی بہاتے ہیں لیکن بشر اور انسان اللہ تعالیٰ بناتا ہے۔ لہٰذا انسان یہ ارتقاء اللہ تعالی ٰکے بغیر اس کی عبادت کے بغیر طے نہیں کر سکتا۔

عین ۲۹۔ نفس انسانی کا مادہ ہونا:

كط) عين: في أن الإدراك منوع:كل فرد من أفراد الانسان مشترك فى معنى النوع الانسانى و ماهيته , و معنى تعريف النفس الذى تقدم فى الثانية ، ولكن الحركة فى الجوهر واشتداده باتحاد المغتذى بغذائه وجودا – أى اتحاد المدرك بالمدرك – تعطى ذلك الحكم الحكيم أعنى أن الادراك منوع. وبعبارة أخرى: أن الجوهر النفسانى الإنسانى مادة للصور الادراكية ، وأن ذلك الجوهر يتحصل بتلك الصور الإدراكية جوهرا آخر كماليا بالفعل من الانواع المحصلة التى يكون لها نحو آخر من الوجود غير الوجود الطبيعى الذى لهذه الأنواع المحصلة الطبيعية. فظاهر الانسان نوعٌ تحته أفراد، وباطنه جنس تحته أنواع: { يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْواجا }[28]نبأ: ۱۸۔ ، {  وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت‏ }. [29]تکویر: ۵۔

اگرچے انسان اس نشاءت میں نوع ہے لیکن آخرت میں جنس ہے جس کے ماتحت انواع ہیں۔انسان علم اور معرفت کے ذریعے خود کو بناتا ہے۔ علم انسان ساز ہے ، اگر علم مطابقِ واقع ہو اور علم اس کو واقعیت تک پہنچائے تو یہ انسان ہے۔ اگر علم مطابقِ واقع نہ ہو تو ایسی صورت میں لا محالہ اس کا اثر عمل پر ظاہر ہو گا اور انسان شیطنت یا حیوانیت کی طرف جائے گا اور اس طرح سے انسان ’’انسان‘‘ نہیں رہے گا بلکہ حیوان یا بہیمہ و مویشی ہو گا۔ پس انسان علم و عمل کے ساتھ اپنے آپ کو بناتا ہے۔ انسان کے اعتقادات اور افکار اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عقلاء متقدمین نے ممکنات کی ایک فہرست اس طرح سے بنائی ہے کہ اس کائنات میں وجوداتِ ممکنات مرکب ہیں یا بسیط۔ اگر مرکبات ہیں تو جمادات ہیں یا نباتات ہیں یا حیوانات اور ان میں سے ہر کی متعدد انواع ہیں۔حیوانات میں سے ایک نوع اس دنیا میں ایک انسان ہے ۔لہٰذا قدماء نے انسان کو ’’حیوان ناطق‘‘ قرار دیا جیساکہ بقیہ انواع کو اسی طرح سے ایک ترکیب کی صورت میں بیان کیا ہےاور ان کا ایک نام رکھا ہے۔ اسیرِ شہوت و شکم کے بارے میں نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں : { فَالصُّورَةُ صُورَةُ إِنْسَانٍ وَالْقَلْبُ قَلْبُ حَيَوَان }.[30]سید رضی، نہج البلاغہ، ص 1۱۶۸، خطبہ ۸۷۔ اگر انسان قوتِ غضب کا استعمال تجاوز کی حد تک کرے تو وہ ایک درندہ کی صورت اختیار کر جائے گا۔ اسی طرح اگر انسان پر شیطنت غالب آ جائے تو یہ شیطان بن جاتا ہے جیساکہ ابلیس کا وجود اسی طرح تشکیل پایا ہے۔ اگرچے عمل انسان کے لیے بہت ضروری ہے لیکن اس سے پہلے علم ہے ، فکر ہے، اندیشہ و آئیڈیالوجی ہے۔ اس وجہ سے عمل کی بازگشت بھی علم و ادراک کی طرف ہوتی ہے ۔قرآن کریم میں اگرچے پسرِ نوحؑ کے بارے میں اللہ سبحانہ نے فرمایا : {  قالَ يا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ ؛ اس نے کہا: اے نوحؑ وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے، اس غیر صالح عمل انجام دینے والا ہے۔}. [31]ہود : ۴۶۔ پسرِ نوحؑ کے عملِ غیر صالح کا اصل سبب اس کا گمراہ ہونا اور فاسد افکار و نظریات تھے۔ اس لیے انسان کا علم اس کو بناتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {  فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسانُ إِلى‏ طَعامِه‏‏؛ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے کی طرف دقتِ نظر کرے}. [32]عبس: ۲۴۔ انسان کی غذا گوشت و چاول و گندم نہیں ہے بلکہ اس جہت سے انسان کی خوراک ہے کہ انسان کی خوراک و غذا علم ہے۔ اس لیے انسان کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، مرتبہ عقل ہیولانی، مرتبہ عقل ملکہ، مرتبہ عقل بالفعل ، عقل بالمستفاد۔ پس اگر انسان ’’انسان‘‘ نہیں ہے تو وہ یا تو بہیمہ و مویشی ہو گا یا درندہ ہو گا یا شیطان۔ اللہ تعالیٰ نے عبادات واجب قرار دی ہیں لیکن ان عبادات میں اصل منزل تقوی قرار دیا گیا ہے۔ تقویٰ علم و عمل کے ہمراہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت‏‏‏؛ اور جب وحشی جانوروں کو حشر کیا جائے گا}. [33]تکویر: ۵۔بعض نے اس سے ظاہری وحشی درندے مراد لیا ہے اور اس کو حشرِ عمومی مراد لیا ہے۔  اس کی ایک تفسیر وہ انسان کی گئی ہے جو انسان تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو درندہ اور چوپایہ بنایا اور اسی صورت میں وہ حشر ہو گا۔ پس انسان کی انسانیت کا معیار اور ثواب و عقاب کا ملاک ’’عقل‘‘ ہے۔ اگر عقل انسان کی بقیہ قُوَی پر غالب آ جائے تو یہ انسان ہے اور اگر کوئی اور انسانی قوت عقل پر غالب آ جائے تو جو قوت غالب آئی ہے انسان بھی وہی ہے۔ نبی اکرم ﷺ سے روایت منقول ہے جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں: { الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، وَمَلْعُونٌ مَنْ فِيهَا إِلَّا عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً أَوْ ذَاكِراً اللَّهَ تَعَالَى‏‏ }.[34]دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب الی الصواب، ج ۱، ص ۱۴۔انسان کا علم اور ادراک اس دنیا میں جس سطح کا ہو وہ اسی سطح اور مقام کا انسان ہے۔ اس دنیا میں رہنے والا ملعون ہے سوائے اس کے کہ جو عالم ہے یا کسبِ علم کر رہا ہے یا اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہے۔

عين ۳۰۔ انسان کے حواس ظاہری و باطنی:

ل) عين في الحواس الظاهرة والباطنة: والحواس جواسيس النفس ، ولكل واحدة منها شأن يختص بها ، و يخدم كل واحدة منها غيرها من الحواس الأخرى . وهى كلها كغيرها من القوى شبكة النفس تصطاد بها فى نومها ويقظتها حقائق ما فى الملك والملكوت ، وترتبط بكل واحدة عالما يخص بها ويناسبها ، فتحشر بالظاهرة مع الشهادة ، وبالباطنة مع الغيب من المثال والعقل وما فوقهما جميع الشروط فى إدراك الحواس الظاهرة مع طول مباحثها العويصة ، يختص بهذه النشأة التى تلينا؛ لأنّ الإنسان النائم مثلا يُدرِك بمثل تلك الحواس، وليس واحد من تلك الشروط دخيلا فى ذلك ، فلا مدخلية لخصوص آلة البصر مثلا فى الرؤية بل الرؤية لها مراتب من البصرية الى رؤيته سبحانه { ألم يعلم بأن الله يرى }، ثم أدر حال الحواس الأخرى ومراتبها كذلك. اللمس منغمر فى الطبيعة ، وهو أول الحواس الذى به يصير الحيوان حيوانا. والذائقة والشامة أيضا متوغلة فى المادة كاللامسة بخلاف السمع والبصر ، ثم السمع أكثر تجرُّدا من البصر ، كما أن اللمس أشد انغمارا فى الطبيعة من غيره. والمطلب المهم فى الأبصار أن تعلم أن القائل بخروج الشعاع ، ليس مراده خروج الشعاع من البصر إلى المرئى كما اشتهر شهرة لا أصل لها ، بل بالعكس كما نصّ به ابن هيثم فى المناظر والمرايا. الحس المشترك يسمى لوح النفس ولوح النقش أيضا ويسمى بالحس المشترك ؛ لأنه مصب مدركات الحواس الظاهرة كلها ، وهى كالجداول المتصلة به تؤدى اليه ما اقتنصته ، وأيضا لأنه كمرآة ذات وجهين ينتقش فيه ما يصطاده الانسان من الشهادة والغيب. وهو مظهر الاسم الشريف ( يا من لا يشغله شأن عن شأن) ، الخيال خزانة الصور ، والقوة الحافظة خزانة المعانى الجزئية ، والمتصرفة جالسة بينهما ومتصرفة فيهما بالتركيب والتفصيل فى الصور و المعانى ، فإذا كانت بيد تصرف العقل تسمّى مفكرة ومتفكرة ، وإذا كانت بيد تصرف الوهم تسمى مخيلة ومتخيلة . والفكر منطقى ، لا الفكر عند جمهور الناس. والحافظة هى المتذكرة المسترجعة والذاكرة ، كل واحدة باعتبار.  كثيرٌ من العلوم منتهيةٌ إلى الحواس ، بمعنى أنّها مُعدّة لاقتناصها ، وإلّا فالصور العلمية كلّها فائضة من العالم القدسى. ثم إِن الخمس الظاهرة والخيال والوهم إذا استعملها العقل فى الطاعات فهى مع العاقلة أبواب الجنة الثمانية ، وإلّا فهى أبواب جهنم السبعة: {وإن جهنم لموعدهم لها سبعة أبواب لكلّ باب منهم جزء مقسوم }.

قُوَی مدرِکہ دو ہیں ۔ قُوَی مدرِکہ میں سے ایک ’’صوری‘‘ ہے اور دوسرا ’’معنوی‘‘ ہے۔قُوَی مدرِکہ صوری دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: ۱۔ ’’محسوس‘‘ : اس سے مراد وہ صورت ہے جو مشروط بالمادۃہے ، ۲۔ ’’مخیل‘‘: اس سے مراد وہ صورت ہے جو مادہ سے مشروط نہیں ہے۔ دوسرا قُوَی مدرِکہ ’’معنوی‘‘ ہے۔ اگر معانی ہوں تو معانی جزئیہ ہو تو اس کو موہوم کہتے ہیں اور اگر کلی ہو تو معقول ۔

تمام قُوَی جال اور دام کی مانند ہیں جو ’’حقائقِ ملکی اور ملکوتی‘‘ کو شکار کرتے ہیں، فرق نہیں پڑتا کہ انسان بیدار ہے یا سو رہا ہے اور خواب میں دیکھ رہا ہے۔ظاہری حواس اس مادی جہاں سے مربوط ہے جبکہ باطنی حواس غیر مادی جہاں سے مربوط ہیں۔ پس انسان قُوَی کے ذریعے انسان مختلف جہانوں کے حقائق کو درک کرتا ہے۔ ان قُوَی میں سے ہر ایک قوت کسی نہ کسی عالم سے مربوط ہے۔حواس کے ذریعے سے انسان عالمِ مادی کے حقائق درک کرتا ہے، قوت خیال سے عالم خیال کے حقائق درک کرتا ہے اور قوتِ عقل کے ذریعے سے عالم عقل کے حقائق کو درک کرتا ہے۔ اسی طرح غیب کو انسان درک کرتا ہے۔ غیب مطلق سے مراد اعیان ثابتہ اور اسماء و صفات ہے جسے صقع ربوبی اور عالم ربوبی بھی کہتے ہیں۔ ایک غیب وہ ہے جس تک کسی کی رسائی ممکن نہیں حتی رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اطہارؑ کے لیے بھی غائب ہے اور یہ فقط اللہ سبحانہ کے ساتھ مختص ہے ۔ غیب الغیوب تک رسائی ممکن نہیں ہے، غیبِ مطلق تک رسائی ممکن ہے جوکہ اسماء و صفاتِ الہٰی سےمربوط ہے۔ غیبِ مطلق سے نیچے غیبِ نسبی یعنی غیبِ عقول اور غیبِ مثال آتا ہے اور اس کے بعد شہادتِ مطلق آتا ہے۔ ہر غیب اپنے ما تحت کی مناسبت سے غیب ہے اور اپنے اوپر والے کے اعتبار سے غیب نہیں ہے۔ اگر نیچے سے اوپر جائیں تو کہیں گے کہ شہادتِ مطلق(ناسوت) ، شہادتِ نسبی (ملکوت) ، غیب مطلق (جبروت) اور اس کے بعد غیب الغیوب (لاہوت)۔

حس مشترک:

حسِ مشترک کو ’’ لوح نفس ‘‘ بھی کہتے ہیں اور لوحِ نقش بھی کہتے ہیں۔ نفس کے آلات میں سے ایک ’’حس مشترک‘‘ ہے۔ حواس ظاہری تمام کے تمام مدرکات اسی کے حوالے کرتے ہیں اس لیے اس کو حس مشترک کہتے ہیں۔ حواس خمسہ ان نالیوں کی مانند ہیں جو ایک حوض میں جا گرتی ہیں۔ حس مشترک حوض کی مانند ہے جس کے سپرد یہ نالیاں اپنے حصہ کا پانی کر دیتی ہیں۔ حس مشترک آئینے کی مانند ہے جس کی دو اطراف ہیں اور اس آئینہ میں ہر وہ چیز منعکس ہوتی ہے جسے انسان شکار کرتا ہے اپنے حواس سے۔ حس مشترک مظہر ہے اسمِ الہٰی ’’یَا مَنۡ لَا يَشۡغَلُه شَأۡن عن شأنه‘‘۔[35]شیخ طوسی، محمد بن حسن ، مصباح المتہجد، ج ۱، ص ۵۰۴۔ یہ سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ایک لحظہ میں سب خلقت کا عادلانہ حساب کیسے کرے گا؟ امامؑ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ابھی اسی وقت سب خلقت کو رزق دے رہا ہے؟!! انسانوں کو ، پرندوں  کو ، حیوانات و حشرات کو ، مجرد غیر مجرد سب کو اللہ تعالیٰ برابر رزق دے رہا ہے۔ حتی ایک چھوٹے سے ذرے اور ایک باریک سے کیڑے کو رزق دے رہا ہے اور اس سے بھی غافل نہیں ہے۔ ایک کے ساتھ مشغول ہونے سے اللہ تعالیٰ دوسرے سے غافل نہیں ہوتا اسی طرح اللہ تعالیٰ حساب کتاب میں ایک کے ساتھ مشغول ہو تو دوسرے سے غافل نہیں ہوتا۔ جو اللہ تعالیٰ کے وحدت الوجود کے قائل نہیں ہے ان کے لیے اس مسئلہ کو حل کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک وجود لا محدود ہے جوکہ لطیف اور بسیط ہے نہ کہ کثیف ۔ اس کثرت کے ماوراء وحدت ہے جوکہ حلول نہیں ہے کیونکہ حلول انتہائی پست نظریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ خود واسع ہے اور چونکہ حقیقتِ وسیع ہے اس لیے علیم ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایک حقیقت ہے۔

انسان ایک لحظے میں تمام حواس کو استعمال کرے اور پنچگانہ حواس سے استفادہ کرے ، مثلا دیکھنے، سونگھنے، چکھنے، لمس کرنے اور سننے کو ایک ساتھ استعمال کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ نفسِ ناطقہ خود حسِ مشترک ہے۔ ہر قوتِ نفس ایک عضو یا ایک آلہ سے وابستہ ہے، مثل ایک حوض کے اطراف سے تمام نالیاں اسی میں گر رہی ہیں۔ حس مشترک اسی طرح ہے۔ قدماء حس مشترک کے قائل ہیں جبکہ متأخر قائل نہیں ہیں۔

حس مشترک ایک ایسی حدِ وسط ہے جو عالم بالا سے اخذ کرتی ہے اور دوسری طرف سے عالمِ سفلی سے اخذ کرتی ہے۔اعصاب کے ذریعے دماغ اور دماغ سے حس مشترک کے پاس عالم سفلی سے منتقل ہوتا ہے۔ انسان جب آنکھیں بند کر لیتا ہے تو عالم رؤیا میں کچھ دیکھتا ہے اور اس کو کچھ القاء کیا جاتا ہے تو قوتِ خیال اس کی تصویر کشی کر کے حس مشترک کے حوالے کرتا ہے ۔ انسان یہ گمان کرتا ہے کہ شاید باہر سے کچھ اخذ کیا ہے جبکہ انسان کو اس کے اندرون سے عطا ہوا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مرض کا شکار ہوتا ہے یا مزاج میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اندرون سے حس مشترک پر مختلف تصاویر رونما ہوتی رہتی ہیں جو حقیقت سے ربط اور تعلق نہیں رکھتیں جبکہ انسان گمان کر رہا ہوتا ہے کہ اس کے حواس ظاہری سے کچھ حس مشترک میں منتقل ہوا ہے۔ پس حس مشترک اندرون اور بیرون کے درمیان واسطہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس میں فرق کرے۔ مکاشفات اندرون سے حس مشترک کو حقائق منتقل کرتا ہے۔ اگر کسی سودا زیادہ ہے تو اس کے اندرون سے حس مشترک پر امور منعکس ہوتے رہیں گے جو حقیقت نہیں رکھتے ۔ مکاشفات اس سے جدا ہیں۔ مکاشفات میں اگرچے اندرون سے حقائق انسان کے اندرون میں القاء ہوتے ہیں جو حس مشترک پر ظاہر ہوتے ہیں۔آیت اللہ کشمیری سے استاد نے سوال کیا کہ کشف و شہود بیرون سے انسان کو القاء ہوتے ہیں یا اندرون سے القاء ہوتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اندرون سے نہیں بلکہ بیرون سے القاء ہوتا ہے۔ اس کے بعد استاد اپنے استاد علامہ حسن زادہ آملی کے پاس گئے اور سید عبد الکریم کشمیری کے سوال جواب بیان کیے تو علامہ نے فرمایا کہ سید کشمیری سے فقط دستور لیں اور وہ صاحب مکاشفہ ہیں لیکن تحلیل کی قوت نہیں رکھتے کیونکہ تحلیل کے مردِ میدان نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ انسان مکاشفات کرے لیکن فرق نہ کر پائے کہ یہ اندرون سے ہے یا بیرون سے؟ !  کیونکہ سید عبد الکریم کشمیری نے عرفانِ نظری نہیں پڑھا اس لیے اپنے مکاشفات کی تحلیل دقیق طور پر نہیں کر پاتے لیکن دستورات کی دنیامیں وارد تھے۔

قوتِ خیال و حافظہ:

خیال خزانے حسِ مشترک ہےاور حافظہ قوتِ واہمہ کا خزانہ ہےیعنی معانی جزئیہ کا خزانہ ہے۔حافظہ کو مختلف اعتبار سے متذکرۃ ، مسترجعہ اور ذاکرہ بھی کہتے ہیں۔

قوتِ متصرفہ:

نفس کی قوتوں میں سے ایک قوتِ متصرفہ ہے جوکہ قوتِ خیال اور قوت حافظہ کے درمیان میں موجو د ہے۔ اگر قوتِ متصرفہ پر عقل حاکم ہو جائے تو اس کو مفکرہ یا متفکرہ کہتے ہیں اور اگر وہم غالب آ جائے اور وہ اس قوت میں تصرف کرے تو اس کو مخیلہ یا متخیلہ کہتے ہیں۔ یہاں فکر سے مراد فکرِ منطقی ہے نہ کہ لوگوں کے استعمال کے مطابق لفظِ فکر مراد ہے۔ کثیر اور متعدد علوم حواس پر موقوف ہیں کیونکہ یہی حواس ہیں جو اس علوم کو پکڑنے اور کسب کرنے کے لیے آمادگی پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے: ’’مَن فَقَدَ حِسًّا فَقَد عِلۡمًا‘‘۔اگر کوئی مادر زاد نابینا ہو تو وہ آنکھوں سے کسب کرنے والے علوم سے محروم رہے گا۔ اگرچے نابینا خواب دیکھتا ہے لیکن وہی دیکھتا ہے جو اس نے بقیہ حواس سے کسب کیا ہے۔ نیز اولیات اور فطریات چونکہ حواس سے درک نہیں ہوتے اس لیے ان کو حاصل کر سکتا ہے لیکن حواس پر موقوف علوم سے محروم رہے گا۔

جنت اور جہنم کے دروازے:

جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات دروازے ہیں  جیساکہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے :{وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعين‏ لَها سَبْعَةُ أَبْوابٍ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ‏ }.[36]حجر: ۴۳-۴۴ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دروازے عرفی و عوامی معنی کے مطابق ہیں یا نہیں بلکہ اس کا معنی کچھ اور ہے؟ اس کے جواب میں ذکر کرتے ہیں کہ عربی لغت میں دروازہ یا باب ایسی راہ کو کہتے ہیں جس میں وارد ہونے کی وجہ سے مقصد تک انسان رسائی حاصل کرتا ہے۔ انسان مقصد یا منزل تک پہنچنے کے لیے جس راہ کو اختیار کرتا ہے اس کو باب سے تعبیر کیا جاتا ہے، جیساکہ معروف حدیث نبوی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ‏ وَعَلِيٌّ ع بَابُه.[37]قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۱، ص ۶۸۔اس حدیث میں شہر اور باب کا معنی آیا عرفی ہے؟! اگر حدیث پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ یہاں باب سے مراد وہ راہ ہے جس سے علم الہٰی سے بہرہ مند ہوا جا سکتا ہے۔ جو اس راہ سے وارد نہ ہو تو وہ علم الہٰی سے تعلق پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت کردہ علم ہے۔ امام علیؑ رسول اللہﷺ کے علم سے مربوط ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے وابستہ ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کے علم سے فقط ایک صورت میں استفادہ ہو سکتا ہے جب امام علیؑ کا دامن تھاما جائے اور اس راہ سے آیا جائے۔ اس لیے امام علیؑ کو باب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے منسوب حدیث میں وارد ہوا ہے: إنّ لكلّ شي‏ء بابا، وباب العبادة الصّيام‏.[38]قطب الدین راوندی، ضیاء الشہاب فی شرح شہاب الاخبار، ص ۴۲۰، حدیث: ۶۷۳۔ اگر ہم اس کو ملاحظہ کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ جنت کے آٹھ دروازوں سے مراد آٹھ حقیقتیں اور ان کی راہیں ہیں اور اسی طرح جہنم کے درجات ہیں۔انسان علم اور عمل کے ذریعے راہ پر چلتا ہے۔ آئمہؑ جنت کےباب ہیں یعنی وہ راہ ہیں جس سے جنت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ روایات میں آئمہؑ حتی قم کے بارے میں جنت کا باب ہونا وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قُوی دیئے ہیں ، جیسے حواس ظاہری، خیال و وہم و عقل وغیرہ جن کو استعمال کر کے انسان جنتّی یا جہنمی کرتا ہے۔ اسی طرح ایک اور طریق امام نور اور امامِ نار کی تقسیم ہے کہ جو امام نور کی اتباع کرے جنت تک پہنچ جائے گا اور جو امام نار کے پیچھے چلے گا وہ جہنم میں جائے گا۔ امام نار میں سے ہر ایک جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ ایک تعبیر کے مطابق جنت کے آٹھ دروازوں سے مراد پانچ حواس ظاہری اور خیال و وہم ہے جب وہ عقل کے ماتحت ہو۔ البتہ یہ ایک معنی ہے نہ کل معنی کہ ہم آٹھ دروازہِ جنت کو اس معنی میں منحصر قرار دے دیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ماہِ رمضان میں جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ یقیناً اس سے مراد مادی دروازے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت روزے کی صورت میں ہو تو جہنم کے دروازے بند ہو جائیں گے اور جنت کے دروازے کھل جائیں گے۔ جہنم کے دروازے ان کے لیے کھلے رہیں گے جو روزہ نہیں رکھتے یا معصیت کی وادیوں میں گم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان میں مقدمات فراہم کیے ہیں اور اس قدر عنایات نازل کی ہیں کہ انسان اطاعتِ الہٰی کرے تو یقیناً بہشتی ہو جائے گا۔ ماہِ رمضان میں دقت کریں تو اسلامی معاشرے میں اکثر بیشترسحری کے وقت بیدار ہو جاتے ہیں مختلف عبادات، مناجت، دعاؤں وغیرہ میں مشغول ہوتے ہیں ۔ یہ خود عنایتِ الہٰی ہے۔ ماہِ رمضان ختم ہوتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ منظر غائب ہو جاتا ہے اور سحری کے وقت بیداری دیکھنے کو نہیں ملتی۔ پس ایسی صورت میں ماہِ رمضان کے بعد ایسے افراد کے لیے دوبارہ جہنم کے دروازے کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔پس دروازوں سے مراد عرفی اور عوامی معنی نہیں ہے بلکہ ایسا معنی مراد ہے جو جنت و جہنم کی حقیقت سے سازگار ہوں۔

عین ۳۲۔ انسانی خواب اور قوتِ مصوّرہ:

لب) عين في المصوَرة: المصورة تطلق عند الأطباء على الخيال الذى هو خزانة الحس المشترك، وتطرّق هذا المعنى إلى الكتب العقلية أيضا كقول الشيخ فى الثانى من رابعة نفس الشفاء : ( إن القوة المصورة التى هى الخيال هى آخر ما يستقرّ فيه صور المحسوسات. وتطلق عند الفلاسفة على الطابعة)، ففى كليات القانون: ( وأما المصورة الطابعة فهى التى يصدر عنها بإذن خالقها تبارك وتعالى الأفعال المتعلقة بنهايات مقاديرها). وما قاله المحقق الطوسى فى التجريد: ( والمصورة عندى باطلة)، وتبعه الشارح العلامة، ففيه تأمل وبحث.

اگر خواب میں عالمِ بالا سے کچھ عنایت ہو تو قوتِ خیال اس کو صورت دیتی ہے، مثلاً آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ دودھ پی رہے ہیں تو دودھ تمثلِ علم ہے ۔ علم صورت نہیں رکھتا کیونکہ علم ایک امرِ معنوی ہے۔ اگر اس علم جوکہ امرِ معنوی ہے اس کو قوتِ خیال کے ذریعے صورت دی جائے تو یہ دودھ یا پانی کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ بعض افراد دودھ پینے کی صورت میں تمثل کرتے ہیں اور بعض کے لیے پانی پینے کی صورت میں تمثل ہوتا ہے۔ بعض نے دودھ پینے کو ’’عشق‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مثنوی میں پانی کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ۱۔ بحر دودھ ، ۲۔ بحر پانی ، ۳۔ بحر شہد،وغیرہ۔بحرِ شیر کو عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے حتی عمومی زندگی میں ماں کا بچے کو دودھ پلانا اس کے قلب میں عطوفت و محبت کے پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے۔ عشق، وُدّ، محبت، مستی وغیرہ امرِ معنوی ہے جس کو قوتِ خیال جب تصویر کشی کرتا ہے تو دودھ سے تصویر کشی کرتا ہے۔

اسی طرح قوتِ مصورہ مادہ کو تصویر دیتا ہے، مثلاً رحمِ مادر میں نطفہ صورتِ علقہ ، مضغہ و اعضاء و جوارح وغیرہ میں ڈھلتا ہے تو قوتِ مصورہ ہے جو یہ تصویر کشی کرتا ہے اور انسان کے مادہِ جسمانی کو صورت دیتا ہے اور نقش و نگار بناتا ہے۔ خواجہ طوسی اور علامہ حلی ان کی اتباع میں قوتِ مصورہ کے قائل نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کو مصوّر قرار دیتے ہیں ۔ لیکن انہوں نے عجلت میں یہ حکم لگایا ہے جوکہ درست نہیں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کا مصوّر نہ ہونا لازم نہیں آتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم اور اسی کی ربوبیت میں یہ انجام پاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف موت دینے کی نسبت دی جاتی ہے تو کیا ہم جناب عزرائیلؑ کا انکار کر دیں؟! یقیناً ایسا نہیں ہو سکتا ، لہٰذا قوتِ مصورہ کا اپنا کردار ہے جو انسانی جسم پر نقش نگار قائم کرتا ہے لیکن یہ واسطہ ہے۔ جنین رحمِ مادر میں روح سے تعلق قائم ہونے سے پہلے نفسِ مادر کے ماتحت ہے لیکن جب روحِ انسانی سے جنین کا تعلق قائم ہو جاتا ہے تو پھر نفسِ انسان کے ماتحت میں یہ رشد پاتا ہے۔ اسی طرح قوتِ مصورہ کا مالک روح کے تعلق سے پہلے نفسِ مادر ہے اور بعد از تعلقِ روح خود اس جنین کا نفس اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس قوت کا مالک ہوتا ہے اور تصویر کشی کرتا ہے۔ فلاسفہ طبیعی علم طبیعات میں  اس کو قوتِ مصورہ کو ’’طابعہ‘‘ یعنی چاپ کرنے والی قوت نام دیتے ہیں۔

عین ۳۳۔ مادی صورت کیسے مجرد بنتی ہے؟

لج) عين في الإنشا والانتزاع: تحقق صور الأشياء المادية عند النفس، بانشاء النفس إيَاها، لا بانتزاعها عنها. فهذا بالنسبة إلى الصور التى يصح للنفس أن ينشئها، أى تكون النفس مظهرها، وأما بالنسبة الى الصور المحيطة العلمية النورية الإلهية فالنفس مظهرها على ما أشير إليه فى الثامنة و العشرين، فالأول بالنسبة إلى ما هى فائقة عليه، والثانى بالنسبة إلى ما هو فائق عليها وذهب المشاء إلى أن للنفس صفة عزرائيلية تنتزع صور الأشياء المادية نزعا، وتجردها عن قشورها المادية تجريدا ذا مراتب. ثم الكلام كل الكلام فى النيل بمعنى تجريد المحسوس حتى يصير معقولا، فتدبر.

فلسفہ مشاء کے نزدیک آنکھ باہر موجود شخص کو درک کرتی ہے اور حسی ادراک کے ذریعے آنکھ درک کرتی ہے جس کو محسوس کہتے ہیں۔ یہاں سے انسان ذہن میں ایک صورت منتقل ہوتا ہے اور عقل پھر تجرید کر کے کلی معنی لیتی ہے۔ تجرید کا عمل عقل انجام دیتی ہے اور اس طرح ایک مفہوم مختلف مصادیق پر صدق کرتا ہے۔ فلسفہ مشاء میں اس سلسلہ کا تذکرہ تکرار سے ملتا ہے۔ذہن میں منتقل ہونے والا یہ تصور یا تو مادی ہے یا مجرد ۔ اگر مادی جہان سے آیا ہے اور مادی ہی ہے جس میں فقط وزن نہیں ہے بقیہ تمام خصوصیات مادی نہیں ہیں تووہ عقل کی دسترس میں آ کر کیسے مجرد ہو سکتا ہے؟! ظرف اور مظروف میں سنخیت ہونا ضروری ہے، اس لیے اگر نفس میں ایک تصور آتا ہے تو نفس مجرد ہے اور جہاں سے یہ صورت حاصل ہو رہی ہے وہ مادی جہان ہے، پس کیسے خارج سے ایک صورت کیسے نفس میں منعکس ہو سکتی ہے اور پھر عقل کی مدد سے کیسے مجرد ہو سکتی ہے !!پس مشاء قائل ہیں کہ خارج میں صورت ہے بعینہ وہی نفس کو حاصل ہوتی ہے بغیر کسی فرق کے !! لیکن صحیح ہے کہ خارج میں جو صورت ہے اور نفس جو انشاء و ایجاد کرتی ہے اس میں فرق ہے لیکن اسی صورت کو نفس ایجاد کرتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اخوند نے مشاء کے نظریہ کا انکار کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ نور جب آنکھ میں پڑتا ہے اور آنکھ کا نظام اور سیلول مغزی تک پہنچاتا ہے ۔ سیلول مغزی تک یہ مادی ہی ہےجہاں یہ صورتِ مادی محفوظ ہوتی ہے۔ یہاں سے نفس انسانی ایک صورتِ خیالی کو خود اخذ کرتی ہے اور اس سے مشابہ صورت کو نفس میں ایجاد کرتی ہے جبکہ وہ مادی صورت دماغ اور سیلول مغزی میں محفوظ ہوتا ہےاور اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔ لہٰذا نفس ایک تصویر خود کھینچتی ہے جسے صورتِ خیالی کہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر نفس خود ایک جدید تصویر یا صورت خلق کرتی ہے دماغ سے جسے صورتِ خیالی کہتے ہیں۔ اس کو اصطلاح میں ’’انشاء‘‘ کہتے ہیں۔ خارج میں جو مادی اشیاء ہیں وہ دماغ تک پہنچتے ہیں اور وہاں سے نفس ایک تصویر کھینچتا ہے۔ اس کے بعد عقل خیال سے صورت کو اختیار کرتی ہے اور اس طرح معنی کلی حاصل ہوتا ہے۔ پس نفس نے تجرید نہیں کیا بلکہ وہ صورت پہلے ہی مجرد تھی ۔ ملا صدرا نے نظریہِ تجرید کو ردّ کیا اور نظریہ انتزاع کو پیش کیا۔ پس نفس خارج سے دماغ اور سیلولِ مغزی سے انشاء کرتا ہے ، جس کا مطلب ہے نفس نے نیچے سے معنی کو لیا ہے اور اس کو اوپر کی طرف کھینچا ۔ اس لیے یہ صورت مجرد تھی نہ کہ نفس نے تجرید کی۔ پھر عقل معنی کلی کو یہاں سے اخذ کرتی ہے۔ انتزاع کا مطلب اخذ کرنا، جدا کرنا اور لینا کے ہیں۔ انشاء ما دون اور نیچے سے اخذ کرنا ہے اور اوپر سے تلقّی کرنا ہے۔

پس خارج میں جو اشیاء ہیں حواس کی مدد سے وہ درک ہوتی ہیں ، مثلاً آنکھ نے دیکھا تو آنکھ اپنے دیکھنے کے مراحل سے گزار کر اس صورت کو دماغ تک پہنچتے ہیں اور دماغ میں منطبع ہوتی ہے جہاں دماغ کے سیلز میں یہ محفوظ ہو جاتی ہے ۔ جب تک یہ صورت فقط دماغ تک ہے انسانی نفس کو فہم حاصل نہیں ہوتا اور کچھ علم انسان کو نہیں ہوتا۔ دماغ میں اس صورت کے محفوظ ہونے کے بعد نفس قوتِ خیال کی مدد سے اسی جگہ یعنی دماغ یا اس کے سیلز سے ایک تصویر کھینچتی ہے یا اس سے مشابہ تصویر خلق کرتی ہے اور خلق کرنے کے بعد اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے ۔ اس جگہ صورت مجرد ہو جاتی ہے۔ پس مادی صورت خود منتقل ہو کی مجرد نہیں ہوتی بلکہ نفس جب تصویر کھینچتی ہے تو اس وقت صورت نفس میں مجرد ہوتی ہے۔ اب اگر دماغ کے سیلز وقت کے ساتھ تبدیل ہو جائیں تو بھی انسانی ذہن میں وہ صورت محفوظ باقی رہتی ہے۔ نفس کا تصویر یا صورت کو ایجاد کرنے کے مرحلہ کو مرحلہِ انشاء سے تعبیر کرتے ہیں۔ پھر قوت عقل کی مدد سے عقل اسی مقامِ خیال سے معنی کو انتزاع کرتی ہے اور اس طرح یہ عقل کو تلقّی ہوتی ہے۔یہ نظام ہے کہ انسان پائین اور سب سے نیچلے مرتبہ سے حقائق کو درک کرتے ہوئے اوپر جائے۔ اسی طرح بعض اوقات بالا سے انسان کو معانی عطا کیے جاتے ہیں جسے قوتِ خیال اسی معنی سے مناسبت صورت میں تصویر کشی کرتی ہے اور حس مشترک پر منقش یا منعکس کرتی ہے۔ پس انسان کو بالا سے معانی القاء ہوتے ہیں اور پائین مرحلہ سے صورت انشاء ہوتی ہے جو قوتِ عقل کی مدد سے منتزع ہوتی ہے اور معنی کے مرحلہ تک پہنچتی ہے۔علامہ حسن زادہ آملی کو آغاز طلبگی میں خواب میں امام رضاؑ نے علوم عنایت کیے ۔ البتہ اسی وقت تمام علوم علامہ حسن زادہ آملی کو منتقل نہیں ہوئےبلکہ تحصیل علم کے ذریعے سے انہوں نے ان علوم کو کسب کیا اور جب تہران میں تمام علماء سے استفادہ کیا اور علوم پر دسترس حاصل ہوئی تو امام رضاؑ سے متعلق خواب کی تعبیر عملی ہوئی ، جیساکہ ہم قرآن کریم میں سورہ یوسف میں پڑھتے ہیں کہ یوسفؑ نے بچپنے میں سورج و چاند اور گیارہ ستاروں کو سجدے کرتے خواب میں دیکھا لیکن اس کی تعبیر اس وقت سامنے آئی اور پوری ہوئی جب عزیز مصر بنے اور تمام واقعات ان کے لیے انجام پائے۔

پس مادی اشیاء کی صورتوں کے اعتبار سے نفس ان صورتوں کو  ایجاد کرتا  اور ظاہر کرتا ہے لیکن صورتِ محیطہ علمیہ جوکہ نوریِ الہٰی ہوتی ہیں جو بالا سے نفس کو عنایت ہوتے ہیں اس کے اعتبار سے نفس ان صورِ علمی محیطی کے لیے مظہر ہے جیساکہ ۲۸ نمبر عین میں گزر چکا ہے۔مادی اشیاء کی صورتوں میں نفس ان صورتوں پر فائق ہے لیکن بالا سے جو عنایت ہوتا ہے وہ نفس پر فائق ہیں۔

عین ۳۴۔ نفس کا سہو و نسیان :

لد) عين في سهو النفس ونسيانها ثم تذكرها: البحث عما تحواه هذه العين، ينجر الى تحقيق الحق فى معنى نفس الأمر. وقد صنفنا رسالة فى نفس الأمر حافلة لجميع ما يجب أن يشار اليها فى هذه العين، وقد طبعت مرتين.

اس کے لیے نفس الامر سے ہمیں بحث کرنا ہو گی۔ نفس الامر سخت اور مشکل ترین بحث ہے کہ ہر ایک کے بس میں نہیں کہ وہ اس موضوع سے بحث کر سکے۔ بعض نے نفس الامر میں نفس سے مراد ذاتِ شیء کیا ہے جسے علامہ طباطبائی نے قبول نہیں اور اس کو نظریہ کو ردّ کیا ہے۔ نفس الامر کا ایک معنی یہ کیا جاتا ہے کہ وعاء عام لثبوت الأشیاء فیھا ، یعنی ایک ظرفِ عمومی ہے جس میں اشیاء ثابت ہیں چاہے وہ خارج میں ہوں یا ذہن میں یا ان دونوں سے اعم ۔ خواجہ طوسی نے نفس الامر سے مراد عقل فعّال لیا ہے۔ یعنی تمام موجوداتِ عالم صورت رکھتی ہیں اور وہ صورت بمعنی فعلیت نفس الامر کے عین مطابق ہے۔ جناب قیصری شرح فصوص کے مقدمات میں ذکر کرتے ہیں کہ نفس الامر یعنی علم الالہ کا عالم، یعنی تعیُّنِ ثانی میں تمام اشیاء ثبت ہے، اس میں صورتِ اشیاء حقیقت اشیاء علمِ الہٰی میں ثبت ہے۔ قیصری  پھر اشارہ کرتے ہیں حکماء مشاء کے نظریہ کی طرف کہ وہ نفس الامر کو عقل فعّال کہتے ہیں حقیقت میں نفس الامر کا مرتبہِ نازلہ ہے۔ بعض نے نفس الامر سے مراد نفسِ کل مراد لیا ہے۔ بعض نے نفس الامر سے مراد انسانِ کامل لیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کو امامِ مبین میں قرار دیا ہے ۔ نفس الامر میں ہے یعنی انسان کامل کے مطابق ہے۔ نفس الامر جہانِ علم الالہ سے شروع ہوتا ہے۔ پس نفس الامر  مظہر یا حاملِ علم خدا ہے۔ ایک تفسیر نفس الامر کی یہ ہے کہ نفس الامر علم الہٰی ہے۔ عرش الہٰی یعنی علم الہٰی، حامل عرشِ الہٰی یعنی حامل علم الہٰی  کہ حامل علم الہٰی آٹھ ہیں جن میں سے چار گذشتہ صاحبان شریعت ہیں یعنی ابراہیمؑ ، نوحؑ، موسیؑ اور عیسیؑ اور چار شریعتِ محمدیﷺ میں سے ہیں اور وہ محمد ﷺ ، علیؑ ، حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ چار کوہِ بلند اس امت میں اور چار دیگر امتوں میں تھے ۔

سہو اور نسیان میں فرق یہ ہے کہ مدرِک سے زائل ہو جائے لیکن حافظہ میں باقی رہ جائے ، اس کو نسیان کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر مدرِک سے زائل ہو جائے اور حافظہ میں بھی باقی نہ رہے تو اس کو ’’سہو‘‘ کہا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مدرِک سے زائل ہو گیا اور حافظہ میں باقی ہے تو حافظہ سے مراد کیا ہے ؟ حافظہ سے مراد یہی نفس الامر ہے کہ نفس الامر میں موجود ہے۔ نفس الامر کا معنی علامہ حسن زادہ آملی کے مطابق وعاء ثبوتِ اشیاء ہے اور پھر اس کے بعد اگلے مرتبہِ عقل فعّال میں ، اس کے بعد اگلے مرحلے …۔

نفس الامر بمعنی ذات الشیء:

نفس الامر کو ذات الشیء جب کہا جاتا ہے تو اس معنی میں نفس الامر اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھی شامل ہو جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا واجب ہونا۔  حتی اس معنی میں نفس الامر تمام وجودات کو ، حتی معدومات کو بھی شامل ہو جاتا ہے۔ عدم کا نفس الامر یہ ہے کہ ذاتِ عدم متحقق نہ ہو ، کسی صورت عدم متحقق نہیں ہوتا۔ ابن عربی فتوحات میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود نفس الامر کے تابع ہے، کیونکہ نفس الامر کا معنی اللہ تعالیٰ کو بھی شامل ہوتا ہے۔ ہمارا نفس الامر یہ ہے کہ ہم انسان ہوں جبکہ حق تعالیٰ کے نفس الامر سے مراد اس کا موجود ہونا ہے۔ شریک باری تعالیٰ کے نفس الامر سے مراد ہے کہ شریک باری تعالیٰ قابلیتِ وجود نہیں رکھتا ۔  اللہ تعالیٰ ہمارے نفس الامر کے مطابق ہم سے خطاب فرماتا ہے۔ ہمارا نفس الامر حدِ عدم پر ہے جہاں سے ہم آگے بڑھے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { إِنَّما أَمْرُهُ إِذا أَرادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُون‏ }. [39]یس: ۸۲۔ یہاں امر كو اللہ تعالیٰ نے کن فیکون کہا۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں اشياء كي صورتِ علمیِ ہے۔ پس تین پہلو ہمارے سامنے ہیں:  ا۔ شیء، ۲۔ کَونِ عینی، ۳۔ کَونِ ذہنی۔

’’ہستی‘‘ میں اصالت و اصیل ’’وجود‘‘ ہے اور ’’چیستی‘‘  میں اصالت ’’ماہیت‘‘ ہے۔ تحقق میں اصالت وجود ہے کیونکہ بے وجود کوئی شیء متحقق نہیں ہو سکتی۔ نفس الامر میں ہماری بحث ہستی یا تحقق سے نہیں ہے بلکہ نفس الامر میں ہماری بحث شیئیت اور چیشتی سے ہے ۔  ہم نفس الامر میں شیئیت سے بحث کرتے ہیں۔ تحقق سے صرفِ نظر کریں تو ہم دیکھیں کہ شیئیتِ دیوار شیئیتِ انسان سےمختلف ہے۔ شیئیت کو مدنظر رکھیں تو اصالت ’’ماہیت‘‘ کو حاصل ہے۔ اگر خارج میں تحقق چاہیں تو تحقق بدونِ وجود ممکن نہیں ہے۔ اس لیے تحقق میں اصالت ’’وجود‘‘ کو حاصل ہے۔ نفس الامر کو ہم ماہیت کہہ سکتے ہیں۔  ذات الہٰی خود وجود ہے اس لیے ’’لا يُعَلَّل‘‘ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو بہت سے مسائلِ فکری جیسے خیر و شر، سعادت و شقاوت وغیرہ حل ہو جائیں گے۔ اس لیے نفس الامر کی بحث کو بہت دقت سے سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ خیر محض ہے جہاں شر کا گزر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس جہان و عالم میں شر موجود ہے تو اس شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف شر کی نسبت نہیں دی جا سکتی کیونکہ وہ خیر محض ہے۔ لیکن دوسری طرف شر کا انکار نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی طرف شر کی نسبت دیں تو کیا لازم آتا ہے؟! کیونکہ اللہ تعالیٰ خیر محض  ہے اس لیے نسبت نہیں دی جا سکتی۔ پس یہ بحث نفس الامر کی طرف پلٹتی ہے۔ اسی طرح وحدت و کثرت کی بحث ہے کہ وحدت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور کثرت کہاں سے ہے؟ کثرت کا ربط کس کی طرف دیں؟ یہ سب مباحث نفس الامر کی طرف پلٹتی ہے۔ اللہ تعالی ثابت ہے جس میں کسی قسم کا تغیر نہیں برپا ہو سکتا تو پھر تغیر کی نسبت کس کی طرف دیں؟ ! اس کا ربط و تعلق بھی نفس الامر سے ہے۔ اللہ تعالیٰ لا محدود ہے اور بقیہ محدود تو کیا لا محدود سے محدود صادر ہو گا؟! محدود کو کس طرف نسبت دیں ؟ اس کا تعلق نفس الامر سے ہے۔

عین ۳۵۔ علم حصولی اور علم حضوری:

له) عين في العلمين الحصولي والحضوري للنفس: علم النفس مطلقاً حضوري، والصور التي أنشاتها على وزان المعلومات الخارجية وهي حاكية عنها تسمى بلحاظ المحاكاة حصولية ووجودًا ذهنيًا أيضًا. والحصولي مقسم للتصور والتصديق. العلم الحصولي صورة كلية ومقوّماتها أيضا أمور كلية كالجنس والفصل، وأما العلم الحضوري فهو هوية شخصية غير محتاج الحصول إلى تقدم معنى جنسي أو فصلي، فالحصولي حضوري محاكٍ، والحضوري غير محاك لأنه عين المعلوم، كعلم الجوهر المجرد بذاته فإنه عقل وعاقل ومعقول. وأما العلم الحضوري الذي يقول به أهل الحكمة الدائمة من أن نفس الصورة المنتزعة من الأشياء الخارجية حاضرة عند النفس من دون اتحاد بالعالم فهو بمعزل عن التحقيق. واعلم أن المعلوم بالذات هو الصورة النورية المتحققة في حاق ذاتك ؛ والمعلوم بالعرض هو الشيء الخارج عنك ، لكن لا مطلقا بل من حيث إنه محكي تلك الصورة المعلومة بالذات ، أي وقع بين النفس وبينها نحو إضافة ونسبة

فلسفہ مشاء و ارسطو میں وارد ہوا ہے کہ اگر عالم اور معلوم کے درمیان فاصلہ نہ ہو بلکہ معلوم بنفسہ عالم کے نزدیک حاضر ہو تو اس کو علم حضوری کہتے ہیں۔ اگر عالم اور معلوم کے درمیان فاصلہ اور واسطہ ہو جوکہ صورت ہے جوکہ معلوم کو عالم کے ساتھ نسبت دیتا ہے اس کو علم حصولی کہتے ہیں کیونکہ صورتِ معلوم عالم کے پاس حاصل ہوئی ہے۔ یہ فلسفہِ مشاء کے نزدیک تھا۔ اگر ہم دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ علم مطلق طور پر حضوری ہے بلکہ مجرد کے نزدیک مجرد کا حاضر ہونا علم ہے۔ کیونکہ عالم مجرد ہے، علم مجرد ہے اور معلوم بھی مجرد ہے۔ لہٰذا مجرد کو مجرد حاصل ہونا یا حاضر ہونا علم کہلاتا ہے۔ مجرد کا عالم (مجرد) کے پاس بنفسہ حاضر ہے یا بواسطہ حاضر ہے۔ اگر صورت واسطہ ہو تو بلا شک و شبہ خارج عالم کے پاس حاضر نہیں ہوتا لیکن خارشی شیء کی صورت عالم کو حاصل ہوتی ہے جوکہ واسطہ بن رہی ہے کہ عالم کو اس شیء کا علم ہو جائے۔ پس صورتِ شیء حاصل ہے عالم کو یا حاضرہے ۔ اگر ہم حضور کو نہ مانیں تو تسلسل لازم آتا ہے۔ علم حصولی ہو یا علم حضوری ہر دو میں علم حاضر ہے کیونکہ جب صورت واسطہ بنتا ہے کہ خارجی کا علم ہو تو یہ صورت عالم کے پاس حاضر ہوتی ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ یہ صورت حاضر نہیں ہے تو پھر ہم ایک واسطہ کے محتاج ہو جائیں گے جس کے ذریعے صورت کو حاضر کریں اور اگر وہ واسطہ حاضر نہیں حاصل ہے تو پھر  اس واسطہ کو حاضر کرنے کے لیے ایک اور واسطہ کے محتاج ہوں گے اور اس طرح یہ سلسلہ لا محدود صورت میں چلتا رہے گا ۔ پس حقیقتِ علم ’’مجرد‘‘ ہے۔ ملاکِ علم حضور ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا علم حضوری ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے ایک شیء بھی غائب نہیں ہے۔ نفس کے پاس جو علم ہے وہ مطلق طور یعنی حضوری ہو یا حصولی ہر دو صورتوں میں حضوری ہے۔ علم حضوری کی صورت میں تو واضح ہے لیکن حصولی کی صورت میں اس لیے حضوری ہے کیونکہ نفس کو خارجی شیء کی جو صورت حاصل ہوئی ہے وہ صورت نفس کے پاس حاضر ہے۔ علم مجرد ہے چنانچہ نفسِ انسانی جن صورتوں کو انشاء کرتا ہے جوکہ خارجی معلومات سے حکایت کرتی ہیں وہ وجودِ ذہنی کے اعتبار سے حکایت کرنے کے اعتبار سے حصولی کہلاتا ہے جوکہ تصور و تصدیق میں تقسیم ہوتا ہے۔  علم حصولی اگر حضوری ہے تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ پھر علم حصولی اور علم حضوری میں فرق کیا ہوا؟ اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ علم حصولی حضوری بھی ہے اور حکایت بھی کرتا ہے خارجی معلومات سے جبکہ علم حضوری فقط حضوری ہے جوکہ حکایت نہیں کرتا کیونکہ عالم عین معلوم ہے، جیسے جوہرِ مجرد کا اپنی ذات کے بارے میں۔  

فلسفہِ مشاء کے نزدیک علم حضوری کا مصداق فقط ایک ہے اور وہ نفس یا ذات کا اپنے آپ کو جاننا کہ میں ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ مشاء اللہ تعالی کے بارے میں بھی اسی نظریے کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے وجود کا علم حضوری ہے اور بقیہ تمام معلومات حصولی ہے۔ فلسفہِ صدرا میں علم حضوری کاوسیع عریض مصداق ہے۔ ایک تو وہی مصداق ہے جس کا تذکرہ مشاء نے کیا ہے یعنی عالم کا اپنے وجود کا علم۔ دوسرا مصداق علت کا معلول کا علم ہونا کیونکہ اپنی ذات کا علم اگر حضوری ہے تو پھر اسی سے معلول نے ظاہر ہوا اس لیے اس کا علم بھی حضوری ہے۔ تیسرا معلول کا اپنے وجود کا علم ہونا۔اس طور پر ہر معلول اپنی علت کو جانتا ہے اور مخلوق اپنے خالق کا علم رکھتی ہے لیکن مخلوق کی توجہ اس طرف نہیں ہے ۔ اس طور پر کہا جاتا ہے کہ ’’علم معلوم اور عالم‘‘ متحد ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے غذا اگر مغتذی یعنی کھانے والے کے ساتھ اتحاد پیدا نہ کرے تو اصلا معدہ تک نہیں جائے گی یا معدہ کے بعد ہضم نہیں ہو گی۔ جب غذا ہضم ہو جاتی ہے تو اس وقت غذا کا بدن کے ساتھ اتحاد ہوتا ہے۔ انسان جب توسلِ حقیقی کرتا ہے تو ایک نوعِ ربط قائم کرتا ہے۔ اسی طرح نماز جب پڑھی جاتی ہے تو علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ جب تک سلام کا جواب نمازی وصول نہ کر لے تو اس کی نمازپرواز نہیں کرتی۔ 

نور یعنی وجود، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:  { اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ في‏ زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكادُ زَيْتُها يُضي‏ءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلى‏ نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ عَليم}  [40]نور: ۳۵۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں و زمین کا نور ہے ۔ اس آیت کے اختتام پر دقت کریں کہ وہ ہر شیء کا علم رکھتا ہے اور کوئی شیء اس سے غائب نہیں ہے۔

عین ۳۷: کمال انسانی اور صورِ خیالی:

لز) عين في علم النفس بالصور: إدراك النفس في المحسوسات أنما هو من إنشاء النفس، وكذلك الأمر في الصور الخيالية، بالوهم يخلق كل إنسان في قوة خياله ما لا وجود له إلا فيها. والعقل البسيط خلّاق المعقولات التفصيلية. فتلك الصور الحسية والخيالة قائمة بالنفس قيام الفعل بفاعله، لا قيام المقبول بقابله. وأما إدراكها الحقائق العقلية فقد تقدم في الثامنة والعشرين، إنه من فناء النفس في العقل القدسي، ومن الغوص في هذه العين يُقتنَى أن كل محسوس فهو معقول، وأن كل ما هو شرط في الإحساس فهو بالحقيقة مُعِدّ النفس للإنشاء كشرائط الإبصار مثلا فإن حقيقة الإبصار إنشاء النفس صورة خيالية حاضرة عندها في عالم التمثل مجردة عن المادة الطبيعية، ونسبة النفس إليها نسبة الفاعل المنشىء للفعل إلى ذلك الفعل، لا نسبة القابل المستكمل بكمال إلى ذلك الكمال، وتلك الشرائط كوضعٍ مخصوصٍ بين المبصِر والمبصَر، وعدم حاجزٍ بينهما وغيرهما من مٌعِدّات النفس لإنشائها تلك الصورة المثالية.

کمال ِ انسانی کسی خاص گروہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع اور جامع ہے۔ اس لیے کمال کو ہم فلاسفہ یا عرفاء یا کسی اور گروہ میں مقید نہیں کر سکتے۔ جس طرح جاہل و عاصی اپنے آپ کو رحمت الہٰی سے دور کر لیتا ہے اسی طرح ہم کمال اور رحمت الہٰی کو مقید نہیں کر سکتے۔ جس طرح فقہ و تفسیر و کلام وغیرہ کے علوم میں وارد ہوں اور آہستہ آہستہ انسان زحمت و محنت سے فقیہ و مفسر و متکلم وغیرہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح علم عرفان ہے کہ سالہا سال استاد بزرگ کے سامنے زانؤ تلمذ طے کرے تو قدم بہ قدم علمِ عرفان انسان کے ہاتھ آتا جاتا ہے اور علمی طور پر مسائل عرفانی سے واقف ہو جاتا ہے۔ اب کسی نے عرفان کا ایک حرف بھی کسی استاد سے نہیں پڑھا اور عرفان پر تنقید کرنے آ جائے تو یہ جہالت کے علاوہ کچھ نہیں۔ ابن عربی کا کلام اصطلاحات اور عرفانی قضایا و مسائل سے پُر ہے اب اگر عرفان کی تعلیم کسی استاد سے حاصل نہیں کی تو انسان ابن عربی کی گفتگو کو اصلا سمجھ نہیں سکتا، مثلا ابن عربی نے مختلف عرفانی مسائل میں ’’عین فلاں‘‘ کو ذکر کیا ہے۔ اب یہاں عین کا معنی واضح نہ ہو اور نہ معلوم ہو کہ ابن عربی کس معنی کو بیان کرنا چاہ رہے ہیں تو انسان سوء فہم کی بناء پر کفر کے فتاوی لگانے لگ جائے گا۔ پس کوئی شخص استاد ، راہِ علم پر چلے بغیر اور ریاضت و محنت کے بغیر کسی جگہ نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے برعکس اگر انسان حقیقی معنی میں طلب کرے، استاد کے محضر میں حاضر ہو اور زحمت و مشقت اٹھائے تو انسان منزل مطلوب کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم ثبوت و کشف کے اعتبار سے کشف تام ہے جوکہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا اور رسول ﷺ کے لیے کشف تام ہے۔ لیکن مقامِ ترویج و نشر و بیان میں سطح انسانی کے مطابق فہم و کشفِ حقائق قرآنی ہے۔ قرآن کسی صورت بھی عرفان و برہان کے مقابل میں نہیں ہے۔ لہٰذا انسان قرآن کو مسموع صورت میں لیتا ہے نہ کہ مکشوف صورت میں۔ جب مبانی محکم ہو جائے اور انسان وہم و گمان اور خیال وغیرہ پر قابو پا لیتا ہے تو قرآن مکشوف ہونے لگتا ہے۔ اگر ایک امر یقینی دوسرے امرِ یقینی کے ساتھ ضم ہو تو نتیجہ یقینی ہوتا ہے۔ لیکن ایک امرِ یقینی اور ایک امرِ وہمی یا خیالی کے ساتھ درمیان ضمیمہ و اتصال ہو تو نتیجہ وہمی و خیالی ہو گا۔ اس لیے قرآن کریم کو مکشوف کرنے کے لیے وہم و خیال سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔

خواب کی تین اقسام:

روایاتِ اہل بیتؑ میں وارد ہوا ہے کہ خوا ب تین طرح کے ہیں: ۱۔ حدیثِ نفس، یعنی نفس کی گفتگو ، ۲۔ القاء شیطانی، یعنی نفس سے باہر سے انسان کے باطن میں امور کو منتقل کیا جائے، ۳۔ القاء رحمانی، اللہ تعالیٰ یا فرشتے انسان کے نفس میں القاءات کرتے ہیں۔ معصومؑ کے لیے مکاشفات عینِ حقیقت و حقائق ہے لیکن غیر معصوم کے لیے مکاشفات خواب اور رؤیا ہے۔ صرف مکاشفات غیر معصوم کے لیے حجت نہیں ہیں کیونکہ اس میں عصمت نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی ہستی معصوم ہے اگر وہ مکاشفہ یا بدون مکاشفہ دیکھے تو عصمت ہمراہ ہونے کی بناء پر وہ واقع اور حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ پس غیر معصوم کے لیے مکاشفات کی شناخت کے لیے میزان و معیار کی حاجت و ضرورت ہے۔ پہلا میزان اس کا استاد اور شیخ ہے حتی اگر انسان کسی مکاشفہ کے واقع کے مطابق ہونے کا احتمال دے تو بھی اپنے استاد یا شیخ کی طرف رجوع کرے اور اس سے تصدیق کرائے ورنہ مکاشفہ پر اعتماد نہ کرے۔ اگر پہلا میزان کسی کے لیے مہیا نہ ہو تو ’’کشف تامِ محمدی ﷺ ‘‘ یعنی قرآن کریم ہے۔ ہر وہ شیء جو قرآن کریم کی صریح مخالفت کرے وہ باطل اور فاسد ہے۔ ہر مشکوک مورد میں انسان توقف کرے اور آہستہ آہستہ شک کے مورد سے نکل آئے گا اور یہی توقف اور احتیاط انسان کو بچا لے گی۔انہی موازین میں سے ایک عقلی و نظری علوم ہیں جیسے اسلامی فلسفہ و منطق اور عقلانیت ہے کہ اس کے برخلاف حقیقت نہیں ہو سکتی۔ اس لیے عرفان فوق العقل ہو سکتا ہے لیکن عقل کے مخالف نہیں ہو سکتا۔ عرفان ہر گز صریح طور پر عقل کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ کسی کی عقل ضعیف ہے اور وہمیات کا شکار ہے تو اسے عرفان عقل سے ٹکراتا نظر آ سکتا ہے۔ ورنہ عرفان عقل کے موافق یا عقل کے ما فوق ہو گا۔

حقائق کے ادراک کی کئی راہیں ہیں جن میں سے ایک عقل ہے۔ البتہ عقلِ متعارف واحد ذریعہ نہیں ہے کیونکہ بہت سے حقائق ہیں جو اس عقل سے قابل ادراک نہیں ہیں۔ وہ عقل جسے احادیث میں نور میں کہا گیا ہے وہ اس عقل ِ متعارف سے بالاتر ہے۔ عقل جزوی ہے جو انسان کو بدنام کرتی ہے ورنہ عقلِ نورانی قرآن و عرفان کی تائید کرتی ہے۔ فلاسفہ کی مثال ایسی ہے کہ ایک باغ کی طرف کئی کھڑکیاں کھلتی ہوں تو کوئی آئے اور وہ ایک کھڑکی کھول دے اور بقیہ کھڑکیاں بند پڑی ہیں۔ اگر فلاسفہ سے مراد متعارف فلاسفہ ہیں تو اگرچے وہ اہل برہان و اہل استدلال ہیں لیکن تمام سعی و کوشش کر کے جو حقائق انہوں نے بیان کیے ہیں وہ دنیائے حقائق کی ایک کھڑکی کھولنا ہے۔لیکن اگر فلاسفہ سے مراد فارابی، ابن سینا ، ملا صدرا اور خواجہ طوسی، علامہ طباطبائی ، امام خمینی ، علامہ حسن زادہ آملی ، آیت اللہ جوادی آملی  جیسی شخصیات ہیں تو بلا شک و شبہ انہوں نے حقائق کی دنیا کو آشکار کیا کیونکہ ان کا فلسفہ متعارف فلاسفہ سے بالاتر ہے۔  ان ہستیوں نے قرآن و عرفان و برہان کو ممتزج کیا ہے اور اہل سلوک ہونے کے ساتھ ساتھ معنویت کو استدلال و قرآن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی ؒ فرماتے ہیں کہ ملا صدرا اور اس طرح کی شخصیات نے ہم تک یہ مطالب بیان کیے ہیں ۔ انہوں نے عزم و ارادہ کیا کہ جو سمجھا اور دیکھا اس کو بیان کیا ہے چاہے لوگ گالیاں دیں اور فتوے لگائے جائیں لیکن انہوں نے بیان کرنے کا عزم کیا اور اسی برکت سے یہ معارف ہم تک پہنچے ہیں۔ حقیقت میں ان میں ہر ایک نے اپنی طینت کے مطابق اپنے وظیفہ کو انجام دیا ہے۔ علامہ طباطبائی نے اپنے دائرہ میں تمام وظائف انجام دیئے اور معارف ہم تک پہنچےہیں۔ ان ذمہ داری کو ادا کرنے کی پاداش میں خوب ان پر تہمتیں لگی ہیں۔ علامہ طباطبائی نے قرآن بالقرآن روش کو متعارف کروایا تو آقای حکیمی نے کہا کہ یہ وہی ’’حسبنا کتاب اللہ‘‘ ہے !! علامہ طباطبائی ولایت اور اہل بیتؑ کے سامنے اس قدر خاضع تھے کہ فرماتے تھے کہ میں اصلاً ان کے مقابلے میں جاہلِ کامل ہو اور کچھ نہیں جانتا ۔ علامہ طباطبائی اہل بیتؑ میں جذب و فناء تھے۔ قرآن، عقلِ نورانی اور عرفان و ذوق ایک ہی ہیں۔ عقل ان کی تائید کرتی ہے۔ امام صادقؑ سے الکافی میں روایت منقول ہے : فَإِذَا كَانَ تَأْيِيدُ عَقْلِهِ مِنَ النُّورِ كَانَ عَالِماً حَافِظاً ذَاكِراً فَطِناً فَهِماً ، فَعَلِمَ بِذَلِكَ كَيْفَ وَلِمَ وَحَيْثُ ، وَعَرَفَ مَنْ نَصَحَهُ وَمَنْ غَشَّهُ فَإِذَا عَرَفَ ذَلِكَ عَرَفَ مَجْرَاهُ وَمَوْصُولَهُ وَمَفْصُولَه‏. [41] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۵۸۔قرآن ، برہان اور عرفان میں کسی جگہ تعارض نہیں ہے۔ یہ ہم ہیں کہ جنہیں ان میں تعارض نظر آتا ہے ورنہ ان میں تعارض نہیں ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں وارد ہوا ہےکہ امام حسینؑ نے فرمایا: وَقَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ع: كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أَرْبَعَةِ أَشْيَاءَ: عَلَى الْعِبَارَةِ ، وَالْإِشَارَةِ ، وَاللَّطَائِفِ ، وَالْحَقَائِقِ ، فَالْعِبَارَةُ لِلْعَوَامِّ وَالْإِشَارَةُ لِلْخَوَاصِّ وَاللَّطَائِفُ لِلْأَوْلِيَاءِ وَالْحَقَائِقُ لِلْأَنْبِيَاءِ ع. [42]شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۴۱۔ عقل محدودِ جزئی ہے جو عقلِ کلی نورانی سے دور کرتی ہے ۔نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے: الدُّنْيَا حَرَامٌ عَلَى أَهْلِ الْآخِرَةِ ، وَالْآخِرَةُ حَرَامٌ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا ، وَهُمَا مَعاً حَرَامَانِ عَلَى أَهْلِ اللَّهِ. [43]ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۱۱۹۔

عین ۳۹: نفس کا تذکر کے باب سے عالم ہونا:

لط:  عين في أن علم النفس سبيل التذكر أم لا: الانسان هو الكون الجامع الذى تم العالم بوجوده الخارجى لانه روح العالم , و انما تأخر نشأته العنصرية فى الوجود العينى لأنه لما جعلت حقيقة متصفة بجميع الكمالات جامعة لحقائقها وجب ان يوجد الحقائق كلها فى الخارج قبل وجوده حتى يمر عند تنزلاته عليها فيتصف بمعانيها طورا بعد طور من أطوار الروحانيات والسماويات والعنصريات إلى أن يظهر فى صورته النوعية الحسية. والمعانى النازلة عليه من الحضرات الاسمائية لابد أن تمرّ على هذه الوسائط أيضاً إلى أن تصل اليه و تكمله و لولا هذا المرور لما امكن العروج للكمل. وما يقال من ان علم النفس تذكرى لا تفكرى إشارة الى هذا المعنى، لا إلى أن النفس كانت قبل التعلق بالأبدان عالمة بالمعلومات و تلك العلوم غير ذاتية لها، فلا جرم زالت بسبب استغراقها فى تدبير البدن ثم ان الأفكار كالتذكرات لتلك العلوم الزائلة , فيكون العلم تذكرا، ولا إلى أنها وجدت فى النشأة العنصرية مرة أخرى ثم عرض له النسيان بواسطة التعلق بنطفة أخرى، ومرور الزمان عليها إلى أوان تذكره كما على رأى أهل التناسخ .

نفس كا علم آيایاد آوری یا تذکر بناء پر ہے یا نہیں۔ بعض قائل ہیں کہ نفس کا علم تذکر کے باب سے ہے کہ جب انسان کا تعلق مادی جہاں سے ہوا تو وہ سب کچھ فراموش کر گیا۔ قرآن کریم میں ’’حتی نعلم ‘‘ کی تعبیر آئی ہے جس کا معنی بنتا ہے کہ یہاں تک ہم جان لیں ۔ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے ، دراصل یہ دیگر افراد کو بتلانے کے لیے اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے۔ کیا معرفت ’’تذکاری ‘‘ ہے جیساکہ شہید صدرؒ نے فلسفتنا کی ابتداء میں اس سے بحث کی ہے؟ حقیقت ہے کہ معرفت تذکاری نہیں ہے۔ کیا ہم جزئی طور پر ، روحِ جزئی طور پر یعنی زید ، نقی ، تقی وغیرہ کی صورت میں اس جہان سے پہلے موجود تھے اور پھر اس جہان میں جب بدن ایک مرحلہ تک پہنچا تو نقی ، تقی ، جعفر ، زید وغیرہ کو جزئی جزئی طور پر کہا کہ تم فلاں بدن کے ساتھ ملحق ہو جاؤ اور تم فلاں بدن کے ساتھ؟! اس بات کو محققین قبول نہیں کرتے ۔بدن کے وجود اور آغاز سے پہلے نفوس ایک جہان میں تھے جہاں وہ سب باتیں جانتے تھے لیکن جب بدن کے ساتھ تعلق جڑا تو وہ فراموش کر گئے!! اس بات کو بہت سے محققین قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح ایک نظریہ یہ ہے کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم تھے لیکن کسی اور بدن کے ساتھ جیساکہ تناسخ کا عقیدہ رکھنے والے کہتے ہیں۔نفوس کا قدیم ہونا بلا شک باطل ہے۔

انسان کامل ’’کونِ جامع‘‘ ہے جس کے وجودِ خارجی کے بغیر عالم تام نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ عالم کی روح ہے اور جانِ جہان ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا میں یہ کیوں متأخر ہے؟! اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کامل کو ایک ایسی حقیقت قرار دیا گیا جو تمام کمالات سے متصف ہے اور تمام حقائق کو شامل اور جامع ہے تو ضروری تھا کہ خارج میں تمام کے تمام حقائق اس کے وجود سے پہلے پائے جائیں یہاں تک کہ وہ اپنے تنزلات کی صورت میں ان سب حقائق پر سے گزرے اور وہ ان کے معانی کے ساتھ مرحلہ بہ مرحلہ ، طورا من اطوار متصف ہو۔

عین ۴۰:طالب اور مطلوب میں سنخیت کا ہونا:

م ) عين في المناسبة بين مدركات النفس وبين مدركاتها، والمناسبة بين النفس وبين الغيب الإلهي لا يطلبه دون مناسبة ما بينهما، وتلك المناسبة أمر جامع بينهما يشتركان فيه اشتراكا يوجب رفع الامتياز لا مطلقا، بل من جهة ما يضاهي به كل منهما ذلك الأمر الجامع، ومن حيث يشتركان فيها. ولما كان طالب شيء لا يطلبه دون مناسبة ما بينهما فالنفس الناطقة إذا صارت مستعدّة مثلا نحو قبول الصور العلمية عن الجوهر المفارق المفيض فاضت الصور العلمية بحسب تلك المناسبة من الجوهر المفارق على النفس، فاعلم أن حقائق الأشياء في الحضرة العلمية بسيطة فلا ندركها على نحو تعيّنها فيها إلا من حيث توحّدنا وأحديّتنا فإن البسيط لا يدركه إلا بسيط. وكذلك يجب التناسب بين النفس والغيب الإلهي حتى تنال بهجته الكبرى، والقوى المدركة مع أنها من شؤون النفس لكلّ واحدة منها غذاء من سنخها وجنسها، والعلم بسرّ تلك المناسبات صعب مستصعب إلا لمن تنور قلبه بالأنوار الآلهية.

طالب اور مطلوب میں مناسبت، سنخیت اور تناسب ہونا ضروری ہے۔ طالب اور مطلوب ایک امرِ جامع میں مشترک ہیں جو ان میں امتیاز کو دور کرتا ہے لیکن یہ مطلق طور پر نہیں ہے۔ بلکہ فقط اسی امرِ جامع کی جہت سے ہےجس کے اعتبار سے وہ ۔ لہٰذا طالب اور مطلوب میں ایک جہت سے مغایرت ضروری ہے اور ایک جہت سے عینیت ہونا ضروری ہے۔ جب طالب بغیر مناسبت اور سنخیت کے طلب نہیں کر سکتا تو نفسِ ناطقہ جب ایک شیء کو قبول کرنے کی استعداد سے ہمکنار ہوتا ہے اور تیار ہوتا ہے کہ صورِ علمی کو قبول کرے تو اس کا مطلب ہے کہ نفس ناطقہ اور جس صورتِ علمی کو وہ قبول کر رہا ہے ان دونوں میں سنخیت اور مناسبت و تناسب پایا جاتا ہے۔ حدیث مبارک میں وارد ہوا ہے: الْعِلْمُ نُورٌ يَقْذِفُهُ اللَّهُ فِي قَلْبِ مَنْ يَشَاء؛علم نور ہے جسے اللہ اس کے شخص کے قلب میں قرار دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے. [44]فضیل بن عیاض، مصباح الشریعۃ (منسوب از طرف امام صادقؑ) ، باب ۶، ص ۱۶۔  عرضِ ذاتی وہی انسان ہے لیکن ایک تعینِ خاص کی صورت میں، مثلاً انسان درزی ہے تو درزی ہونا عرضِ ذاتی ہے ۔ درزی وہی انسان ہے لیکن تعینِ خاص کی صورت میں۔ مجہولِ مطلق کو طلب کرنا محال ہے، مثلا ایک شخص نے گھوڑا خریدا لیکن ابھی اس نے گھوڑا نہیں دیکھا تھا کہ وہ گم گیا ، کیا وہ شخص اس گھوڑے کو ڈھونڈ سکتا ہے؟! یقیناً نہیں کیونکہ گھوڑا مجہولِ مطلق ہے جس کو تلاش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی نشانی یا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اسی طرح ہر شیء سے ہر شیء صادر نہیں ہو سکتی بلکہ سنخیت کا ہونا ضروری ہے۔ہر کسی کو جس مقصدا ور کام کے لیے خلق کیا گیا ہے اس کی محبت اور رغبت اس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے قرار دی ہے۔ ہر کوئی ہر کام نہیں کر سکتا ۔ پس ایک اثر، ایک سنخیت انسان کے وجود میں ہو جس کے پیچھے پیچھے وہ بڑھتا چلا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر چیز ہر ایک کے دل میں قرار دے دی جائے۔ ضروری ہے کہ ذات نفس الامر میں اس کی قابلیت رکھتا ہو۔ اگر نطفہ میں قرار پائے تو ضروری ہے رحم اس کو قبول کرے ، اگر وہ قبول نہ کرے تو ہزار بار نطفہ کے استقرار کی کوشش کی جائے وہ مستقر نہیں ہو گا۔ قابلیت ذاتی ہے کسبی نہیں ہے۔ معارف کی دنیا میں یہ نکتہ مشکل ترین نکات میں سے ہے کیونکہ اس سے جبر کا شائبہ پیدا ہوتا ہے جبکہ یہ اختیار کے منافی نہیں ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اس نوعیت کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہر شیء میں قابلیت ذاتی ہے کسبی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ذات جس کی قابلیت رکھتی ہے فقط اسی کو قبول کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو ہر کسی نے قبول نہیں کیا جبکہ ان کے اردگر د جہاں ان پر ایمان لانے والے تھے وہاں ابو لہب اور ابو جہل بھی تھے۔ یہ بحث انتہائی اہم اور شیرین ہے کہ اگر یہ حل ہو جائے تو بہت سے مسائل و شبہات انسان کے لیے حل ہو جائیں۔ پس سنخیت، تناسب، قابلیت اور لیاقت ہو تو ذات قبول کرتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قابلیت ، لیاقت و صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت و صلاحیت اس ذات کو کیوں دی اور دوسرے کو کیوں نہیں دی ؟! قرآن کریم میں اسی قابلیت عنایت کرنے کا ذکر ہے اور اسی قابلیت کے مطابق اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: { قالَ رَبُّنَا الَّذي أَعْطى‏ كُلَّ شَيْ‏ءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى‏؛ اس نے کہا: ہمارا ربّ وہ ہے جس نے ہر شیء کو اس کی خلقت عطا کی ہے پھر اس کو ہدایت دی }. [45]طہ: ۵۰۔  الله تعالیٰ نے جو ذوات خلق کی ہیں ہر ذات کو قابلیت اور صلاحیت دی ہے۔ ذات انسان میں بھی سب برابر نہیں ہیں بلکہ افرادِ انسان مختلف قابلیت اور صلاحیت کے مالک ہیں۔ کہا جاتا ہے: الأسماءُ تَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ.

بعض علماء ہیں جو سنخیت کا انکار کرتے ہیں اور دلیل کے طور پر حضرت ابراہیمؑ کا واقع لے کر آتے ہیں کہ آگ گلستان بن گئی ۔ یہاں آگ اور گلستان سنخیت نہیں رکھتے۔ اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ انقلاب دو قسم کا ہے: ۱۔ انقلاب مادہِ مشترک کے ساتھ، جیسے موم کے ذریعے آپ مختلف صورتیں بنا سکتے ہیں ، مثلاً مجسمہ انسان بنانا، حیوان بنانا، یہاں ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ موم نے یہ بنایا بلکہ انسان جو ماہر اور فن سے آراستہ ہے اس نے موم کی مدد سے مختلف صورتیں بنائی ہیں۔ یہاں انسان سے یہ صورتیں صادر ہوئی ہیں جبکہ موم اس میں ایک سبب بن رہا ہے ورنہ اصل ذات جس سے یہ صورتیں صادر ہو رہی ہیں وہ انسان ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے لیے آگ کو گلستان بنا دیا نہ کہ خود آگ نے گلستان کو تحقق دیا۔ پس یہاں سنخیت پر اعتراض تب ہوتا جب آگ سے گلستان صادر ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے گلستان کو صادر کیا ہے۔ ایک فاعل علی الاطلاق ہے اور ایک مادہِ مشترک ہے۔ فاعل مطلق اس مادہِ مشترک سے جس طرح چیز کو صادر کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ مادہِ مشترک کے دو معنی ہیں: ۱۔ جسے ہم ہیولا کہتے ہیں ، ۲۔ نفسِ رحمانی ، عرفان میں مادہِ مشترک سے یہی نفسِ رحمانی مراد ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ الفاظ کے صدور کا اختیار آپ کے پاس ہے ، اب آپ ان الفاظ سے بہترین جملات ترکیب دیں یا بدترین کلام تشکیل دیں۔ الفاظ کا یہ مجموعہ مادہِ مشترک کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے قبضہِ قدرت میں نفس رحمانی ہے جس سے وہ آگ صادر فرمائے یا گلستان، یہاں سنخیت فاعل اور مادہِ مشترک کے درمیان ہے۔ پس آگ اور گلستان نہیں بلکہ فاعل اور مادہِ مشترک میں سنخیت ملاحظہ کی جائے گی۔ آج سائنس اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ایٹم کے عناصر کو مختلف کریں تو اس سے مادی مختلف اجسام تشکیل پاتے چلے جاتے ہیں۔ بعض عناصر کی ترکیب سے مٹی بنتی ہے ، بعض کی ترتیب اوپر نیچے کریں تو اس سے پانی بن جاتا ہے ، بعض دیگر کی ترتیب سے گلستان ، آگ ، پہاڑ وغیرہ بنتا ہے۔ پس یہاں سنخیت فاعل علی الاطلاق اور مادہِ مشترک کے درمیان ملاحظہ کی جائے گی۔ مادہ مشترک سے فاعل جس کو صادر کرنا چاہے صادر کر سکتا ہے۔ اسی طرح سورج کی مثال دی جاتی ہے کہ سورج کالے کپڑے کو سفید اور سفید چہرے کو سیاہ کرتا ہے تو یہاں سے بعض یہ سمجھے کہ یہ قاعدہِ واحد کے خلاف ہے !! ان کے اشتباہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ یہاں پر سورج کو فاعل سمجھ رہے ہیں کہ سورج ہے کہ جو کپڑے کو سفید کر رہا ہے یا سفید چہرے کو سیاہ کررہا ہے !! حقیقت میں اگر ہم سورج کو فاعل قرار دے بھی دیں تو سورج زیادہ سے زیادہ روشنی اور حرارت کو صادر کرتا ہے نہ کہ کسی شیء کو سفید یا سیاہ کرتا ہے۔ کالے کپڑے میں یہ خاصیت ہے کہ وہ سورج کی روشنی سے سفید ہو جاتا ہے اور چہرے کی یہ خاصیت ہے کہ سفید رنگ سورج کی تپش سے سیاہ ہو جاتا ہے نہ کہ یہاں سفید و سیاہ کے عمل کی انجام دہی کی نسبت سورج کی طرف دی جائے گی ۔ لہٰذا یہ قاعدہِ واحد کی مخالفت نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ قاعدہ واحد کا صحیح تصور پہلے کیا جائے اور اسے صحیح سمجھا جائے۔قرآن کریم میں سنخیت کے قاعدہ پر دلیل سورہ اسراء کی یہ آیت ہے: { قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى‏ شاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدى‏ سَبيلا }. [46]اسراء: ۸۴۔ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے مطابق عمل انجام دیتا ہے۔ بعض احادیث میں  امام جعفر صادق ؑ سے وراد  ہوا ہے کہ شاکلہ سے مراد نیت ہے جیساکہ الکافی میں مذکور ہے۔ [47]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳ ،ص ۴۶۔ ہر قسم کی نیت ہر ایک سے صادر نہیں ہو سکتی ۔ شاکلہ کی بناء پر ہی نیت صادر ہوتی ہے۔ انصارِ امام حسینؑ کا شاکلہ ہی یہ تھا کہ وہ نیت اور ارادہ سے نصرتِ امام حسینؑ جنم دیں۔ جبکہ شمر لعین اور ابن ملجم لعین وغیرہ نے اپنے شاکلہ کے مطابق نیتِ بد کی ۔ یہ سب ایک سنخ سے نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ جس شاکلہ اور سنخ سے ہیں اس کا زمین آسمان کا فرق ہے ابو جہل و ابو لہب کے شاکلہ و سنخ سے۔ یہ سب ایک سنخ سے نہیں ہیں اور نہ ایک شاکلہ سے ہیں۔ احادیث میں اسی طرح ایک اور قبیل سے یہ معنی وارد ہوا ہے کہ بعض علیین سے ہیں اور بعض سجین سے ہیں۔ اس لیے سب ایک سنخ سے نہیں ہیں۔ شہید مطہری نے بہت سی چیزوں پر نقد کی ہے اور کئی جگہوں میں اپنی نقد پر برحق ہیں اور بعض جگہوں پر ان کی نقد کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ شہید مطہری کی شخصیت کے دو مرحلے ہیں، ایک مرحلہ ان کا جوانی اور مطالعات کا ہے جس میں انہوں نے عرفان اور بعض عرفانی نظریات پر بھی اعتراض کیے ہیں لیکن ایک شہید مطہری کی شخصیت آخری عمر میں ہے جس میں انہوں نے متونِ فلسفی کو تدریس کیا اور عرفان سے لگاؤ حاصل کیا ۔ اس لیے آخری عمر کی تحریروں اور تقاریر میں شہید مطہری نے شدت سے فلسفہ اور عرفان کا دفاع کیا ہے۔ ہمارے پیش نظر شہید مطہری کا یہی دوسرا مرحلہ ہے۔

عین۴۲۔

مب ) عين في أن النفس مع بساطتها كيف تقوى على التعقلات الكثيرة: اتصاف موجود بصفات متعددة متقابلة يدلّ على سعة وجوده، وشدّة توحّده، وسطوة تأكّده في الوجود من حيث إنه لا يزول بعروض الأضداد واتصافه  بها، كما يوصف الحق (سبحانه) بالأول والآخر، وبالظاهر والباطن، وبالقابض والباسط ونظائرها. وقال بعض الشايخ من أهل العرفان: إن الله لا يعرف إلا بجمعه بين الأضداد في الحكم عليها بها (بالأضداد)، والنفس الإنسانية هي مظهره الأتمّ، ولو لم يكن بينه (تعالى) وبين النفس من المناسبة، والمضاهاة ما لم يكن بينه وبين غيرها لما شرط معرفته بمعرفتها، بل بينهما تمام هذه المناسبة، ومعنى التمام هو فوق التنزية والتشبيه فافهم. هذا ما حكم به ذوق العرفان، ويعاضده منطق البرهان، فتدبّر.

عینِ سابقہ میں امکانِ وقوعی کا بیان تھا کہ دفعہ واحد میں یہ کثرت قابل تعقل ہے ۔ اس عین میں اس کی کیفیت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ سابقہِ عین میں ہم نے کہا تھا کہ یہ محال نہیں ہے بلکہ ممکن ہے ، جبکہ یہاں ہم اس عین میں یہ مطالعہ کریں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ گذشتہ عین میں امکان کا تذکرہ تھا جبکہ اس عین میں ’’لِمّ‘‘ اور کیفیت و راہ کار کا تذکرہ ہے۔ سعہِ وجودی لِمِّ داستان و قصہ ہے۔ اگر ایک حقیقت ہو اور وہ محدود ہو تو اس کا اثر بھی محدود ہے۔ لیکن اگر ایک حقیقت کی حدود لا محدود ہے یا بہت وسیع ہے تو اگرچے یہ ایک حقیقت ہے لیکن آپ اس کے مختلف آثار و شؤون ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کو لا محدود مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو محدود ماننے سے اس کی ذات میں فقدان کی نسبت لازم آتی ہے اور اللہ سبحانہ فاقد نہیں ہے۔ پس جب محدود نہیں ہے اور سعہِ وجودی رکھتا ہے تو پھر یہ ممکن ہے کہ جب وہ محی ہے تو اسی وقت ممیت ہےوغیرہ، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { إِنَّ اللَّهَ واسِعٌ عَليم‏ }. [48]بقرہ: ۱۱۵۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات واسع ہے اس لیے ہر شیء اور ہر ذرہ ذرہ سے باخبر ہے۔  لہٰذا سعہِ وجودی کے لیے ممکن ہے کہ دفعہِ واحد میں تمام امور انجام دے دیتے۔ آنِ واحد میں مختلف امور انجام دے سکتا ہے۔ انسان ایسی مشین بناتا ہے جوکہ بیک وقت کئی کام انجام دے دیتی ہے تو ان سب کے خالق کے لیے کیوں ممکن نہیں ہے۔ نفسِ انسانی اسی اساس پر اللہ تعالیٰ نے خلق فرمایا ہے۔ آپ جب دیکھ رہے ہیں اسی وقت سُن بھی رہے ہیں ، جب سُن رہے ہیں اسی وقت دل و پھیپھڑے وغیرہ سب کام کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وارد ہوا ہے : ٍ يَا مَنْ لَا يَشْغَلُهُ شَأْنٌ عَنْ شَأْن‏. [49]شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ج ۱، ص ۳۰۶۔۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی کی حدود میں خلق فرمایا ہےجو ایک امر میں مشغول ہو تو دوسرے سے غافل نہیں ہوتا ۔ اس کو کہتے ہیں کہ انسان مَثلِ الہٰی ہے۔ مِثل نہیں بلکہ مَثل ۔انسان دائرہِ سُرَاح ہے جسے کوئی شیء محدود نہیں کرتا ۔ انسان مختلف امور آنِ واحد میں انجام دے سکتا ہے۔ ہماری بحث یہاں دفعہِ واحد اور آنِ واحد میں انجام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی نفس کو ایسا خلق کیا ہے کہ وہ دفعہِ واحد اور آنِ واحد میں کئی کام کر سکتا ہے۔ امام علیؑ نے حارث ہمدانی سے فرمایا:
يَا حَارِ هَمۡدَانَ مَن‏ۡ يَمُت‏ۡ يَرَنِي‏
مِنْ مُؤْمِنٍ أَوْ مُنَافِقٍ قُبُلا.
[50]قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۲۶۶۔
امام علیؑ کے لیے یہ سب امر ایک آن میں انجام دینا ممکن ہے کہ وہ ہر مرنے والے مومن اور کافر کو نظر آئیں ۔ اس فرق کے ساتھ کہ تجلیِ امیر المؤمنین ؑ مومن کے لیے رحمت اور کافر کے لیے شدت و تکلیف کا باعث ہے۔اگر فرشتوں پر دقت کریں تو ان میں بھی یہی امر آپ ملاحظہ کریں گے، مثلاً حضرت جبریلؑ کو اللہ تعالیٰ نے علم کے عطا کے لیے مؤکل قرار دیا ہے۔ حضرت جبریلؑ اب فارغ نہیں بیٹھے !! ان کے مختلف امور اور ذمہ داریوں میں سے ایک وحی لانا تھا نہ کہ تمام کام فقط یہی تھا۔ اس لیے دنیا میں کوئی بھی علم ہو اور کسی بھی شبعہ سے تعلق رکھتا ہو اگر اس کو علم حاصل ہوتا ہے تو وہ جنابِ جبریلؑ ایک آن اور دفعہِ واحد میں عطا کر رہے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زندگی کے لیے اسرافیلؑ اور موت کے لیے عزرایلؑ اور رزق کے لیے میکایلؑ کو مؤکل فرمایا ہے اور یہ ایک آن میں دفعہِ واحد میں کثیر افراد کو زندگی، موت اور رزق دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی نفس کو بھی یہی صلاحیت عنایت کی ہے اور اسی اساس پر خلق فرمایا ہے۔

معنی تام تنزیہ اور تشبیہ میں جمع کرنا ہے جبکہ فقط تنزیہ معنیِ ناقص ہے اور فقط تشبیہ بھی معنیِ ناقص ہے۔

عين۴۳۔ وحدت کا کثرت سے متحد ہونا

مج) عين في أن النفس كيف تقوى على توحيد الكثير وتكثير الواحد: أما قوتها على توحيد الكثير فهي بصيرورتها عالما عقليا متحدا بكل حقيقة، مصداقا لكلّ معنى معقول لكونه عقلا بسيطا فعّالا لتفاصيل العلوم النفسانية. هذا الوجه كما في الحكمة المتعالية. وعند الجمهور بالوجهين الاخرين ، أحدهما: بالتحليل والثانى: بالتركيب ، أما بالتحليل فلأنها إذا حذفت عن الأشخاص الداخلة تحت النوع مشخصاتها ، وسائر العوارض اللاحقة بها ، بقيت الحقيقة النوعية ماهية متحدة وحقيقة واحدة. وأما بالتركيب فلأنها إذا اعتبرت المعنى الجنسى والفصلى أمكنها أن يقترن الفصل بالجنس بحيث تحصل منهما حقيقة متحدة اتحادا طبيعيا لا صناعيا . وأما قوتها على تكثير الواحد فهى : أن تميز ذاتها عن عرضها ، وجنسها عن فصلها ، وجنس جنسها عن جنسها بالغة ما بلغ ، وفصل فصلها وفصل جنسها عن فصلها بالغة ما بلغت ، وتميز لازمها عن مفارقها ، وقريبها عن بعيدها ، والغريب منها عن الملائم ، فيكون الشخص الواحد فى الحس واحدا لكنه فى العقل أمور كثيرة ، ولذلك يكون إدراك العقل أتم الإدراكات . بل العقل يتغلغل فى ماهية الشىء وحقيقته ، ويستنتج منها نتيجة مطابقة لها من كل الوجوه . وأما الإدراكات الحسية فإنها مشوبة بالجهل فإن الحسّ لا يدرك إلا ظاهر الشىء وأما باطنه وماهيته فذلك مما لا يحيط الحسّ به. وبالجملة أن التحليل والتركيب من خواصّ العقل الإنسانى ، وليس ذلك لغيره من القوى فإنها تدرك الكثير كثيرا كما هو ، والواحد واحدا كما هو ، ولا يمكنها أن تدرك الواحد البسيط بل الواحد من حيث هو جملة مركبة من أمور وأعراضها ، ولا يمكنها أن تفصل العرضيات وتنزعها من الذاتيات . ومن قوتها على تكثير الواحد ، تجسيمها بقوتها الخيالية للعقليات وتنزيلها فى قوالب الصور المثالية. [51]آملی، حسن زادہ ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۱۸-۱۹، عین ۴۳، مج۔

اللہ تعالیٰ نے امام مبین میں سب چیزوں کو احصاء کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتى‏ وَ نَكْتُبُ ما قَدَّمُوا وَ آثارَهُمْ وَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ أَحْصَيْناهُ في‏ إِمامٍ مُبين‏ } [52]یس: ۱۲۔ حکمت متعالیہ کے مطابق کثرت کو وحدت کے ضمن لے آیا گیا ہے ۔ یہاں بحث دو حصوں میں تقسیم ہے: پہلی بحث فلسفہِ توحید سے متعلق ہے اور دوسری بحث تکثیرِ واحد سے متعلق ہے۔ ایک خورشید جو تمام کرہِ ارض پر ضوء افشانی کرتے ہوئے مدیریت کرے اور اپنے نور کے ماتحت لے کر آئے۔ فرق نہیں پڑتا کہ سورج کے ماتحت قطب شمالی ہے یا قطب جنوبی یا وسطِ دنیا ، سب کو ایک خورشید نے گھیرا ہوا ہے۔ سورج اپنی گردش سے پوری زمین کو زندگی عطا کر رہا ہے اور زمین کا ایک ایک ذرہ سورج کے تحتِ پوش ہے۔ عقلِ فعّال اسی طرح ہے۔ عرش کی چار قسمیں قرآن نے بیان کی ہیں: ۱۔ عرش کریم، اس سے مراد عقل کل ہے، ۲۔ عرش عظیم، ۳۔ عرش مجید، ۴۔ عرش ۔ نفس ناطقہ انسانی اس مرتبہ پر پہنچ سکتا ہے جیسے انسان کامل ۔

فلاسفہِ مشاء کے نزدیک کثرت کو دو طرح سے بیان کرتے ہیں:
۱۔ تحلیل: تمام انسان کو دیکھیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جیسے زید و بکر وغیرہ ۔ ان کے مشخصات کو آپ سلب کر لیں تو ایک حقیقت میں یہ باقی رہ جائیں گے تو یہ توحیدِ کثیر ہے کیونکہ ایک نوعِ انسانی باقی رہ جائے گی۔
۲۔ ترکیب: حیوانیت اور ناطقیت کو مرکب کریں تو اس سے انسان بنتا ہے۔ بالفاظ دیگر جنس اور فصل کو مرکب کریں تو نوع  جوکہ حقیقتِ واحدہ ہے وہ سامنے آ جائے گی۔ یہاں کثرت سے وحدت کی طرف آئے ہیں۔ یہاں اتحادِ طبیعی ہے۔ ایک اتحادِ صناعی ہے جیسے فیکٹری سے اجزاء سے مرکب اشیاء نکلتی ہیں ۔ یہاں ترکیب سے مراد ترکیبِ صناعی نہیں بلکہ ترکیبِ حقیقی ہے جس میں ایک نوع اور ایک حقیقت سامنے آتی ہے ۔ اس کو ترکیبِ طبیعی بھی کہتے ہیں۔

نفس ناطقہِ انسانی کے بارے میں دو بیان ذکر ہوئے: ۱۔ بیان ِ عرفانی: اس اعتبارسے انسان کامل کی طرف عرفان ناظر ہے اور انسانِ کامل میں اللہ تعالیٰ نے ہر شیء کو احصاء کیا ہے اور ایک ہوتے ہوئے کثیر کو لیے ہوئے ہیں۔ کائنات میں ہر صورتِ کونی انسان کامل کا میوہ اور ثمرہ ہے۔ انسان کامل توحید کثیر اور کثیر واحد ہے۔  ۲۔ دوسرا بیان فلسفی ہے جس میں ذکر ہوا کہ تکثیرِ واحد اس طرح سے ہے کہ آپ نے لیبارٹری دیکھی ہو گی جس میں ایک عنصر کو دوسرے عنصر سے ملاتے ہیں۔ ان کثیر عناصر کی تحلیل و تجزیہ کرنا تکثیر واحد ہے۔ فلسفہ میں جنس و فصل میں ایک نوع کو تحلیل کرنا تکثیرِ واحد ہے۔ ایک انسان سے جنس و فصل ، ایک انسان سے جنس الاجناس ، ایک انسان سے ذاتی و عرضی کی تقسیمات لانا توحیدِ کثیر ہے کہ ایک کو کثیر میں تحلیل کرتے ہیں۔ اسی طرح کثیر کو واحد میں لانا تکثیرِ واحد ہے۔ انسان اعراضِ لازم کو مفارق سے جدا کرتا ہے، اعراضِ قریب کو بعید سے جدا کرتا ہے، مثلاً ضحک عرضِ قریب ہے اور پاؤں پر چلنا عرضِ بعید ہے۔ ۔ مباحث منطق میں خصوصا اس کو ذکر کیا جاتا ہے جیساکہ ابن سینا نے منطق الشفاء میں تفصیل سے اس کو ذکر کیا ہے۔ سائنسی علوم میں کیمسٹری میں اسی طرح مختلف عناصر سے ایک مرکب اور ایک مرکب کو مختلف عناصر میں تحلیل کیا جاتا ہے تو یہ بھی توحیدِ کثیر اور تکثیرِ واحد کہلائے گا۔ اس طرح آپ غور و فکر کر کے بہت سی مثالیں لا سکتے ہیں۔ انسان اس پر قادر ہے کہ وہ تجزیہ و تحلیل کرے اور مختلف اجزاء کو ایک قالب میں ڈھالے۔ ہم ایک شخص کو حس کے اعتبار سے ایک احساس کرتے ہیں لیکن عقل میں وہ کثیر امور ہے کیونکہ عقل تمام تر ادراکات کو درک کرتی ہے۔ تجربہ فقط مشاہدہ کا نام نہیں ہے بلکہ ہر کامیاب تجربہ میں ایک قیاسِ منطقی مخفی ہے اور یہ قیاسِ خفی کی بناء پر صحیح نتیجہ لیا جا رہا ہے۔حس فقط ظواہر کو درک کرتی ہے جبکہ شیء کی ماہیت اور حقیقت کو عقل درک کرتی ہے ۔ خلاصہِ کلام تحلیل و تجزیہ اور ترکیب عقلِ انسانی کی خاصیت ہے ، دیگر قوتیں یہ کام نہیں کر سکتیں۔ دیگر قوتیں کثیر کو کثیر اور واحد کو واحد درک کرتی ہے۔ ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ واحدِ بسیط کو درک کر سکے  اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ وہ عرضیات کو ذاتیات سے جدا کر سکے ۔ یہ عقل ہے جو ذاتیات کو عرضیات سے جدا کر لیتی ہے۔ پس عقلِ انسانی جب ایک چیز کو اس کے عناصر میں تحلیل کرے تو یہ توحیدِ تکثیر ہے اور اگر عقل انسانی مختلف عناصر کو ایک ترکیب میں ڈھالے تو یہ تکثیرِ واحد ہے۔ معبِّر صورتِ خیالی کو معنی دیتی ہے۔ خواب ایک امرِ معنوی ہے جوکہ صورت میں ڈھل گئی۔ اب معنی ایک ہے جو کئی صورتوں میں ڈھل گئی ، معبِّر اس تکثیر کو واحد کی طرف پلٹاتا ہے۔

عين۴۴۔ انسانِ طبیعی ، مثالی، عقلی و الہی

مد) عين في أن الإنسان طبيعي ومثالي وعقلي وإلهى: كما أنت إنسان طبيعي كذلك أنت إنسان مثالي وعقلي وإلهي، فإن ما نزل من العلم إلى العين ما نزل بلكيته؛ بل ملكوته بيد من له الملك والملكوت، فتنبّه بأنك جدول من البحر الصمدي كسائر الكلمات النورية الوجودية.

ہم عدمِ محض سے نہیں آئے بلکہ ہر چیز ایک سابقہ رکھتا ہے اور اس کا اختتام عالم الالہ پر ہوتا ہے۔ عالم الالہ سے عالم عقول میں آتا ہے جسے مفارقات بھی کہتے ہیں۔ عالم عقول سے عالم مثال اور پھر عالم مثال سے عالم طبیعت میں چیز رونما ہوتی ہے۔ انسان کو لے لیں ، جب انسان عالم الالہ کے مرحلہ میں تھا تو وہ انسانِ الہٰی کہلاتا ہے ، جب عالم عقل میں منتقل ہوا تو وہاں انسانِ عقلی کہلاتا ہے اور انسانِ عقلی سے عالم مثال میں آیا تو انسان مثالی کہلایا اور عالم طبیعت میں انسان طبیعی کہلایا۔ یہ درست ہے کہ عالم ناسوت یعنی عالم طبیعت میں انسان کی کچھ خصوصیات ہیں لیکن انسان ان خصوصیات کے مارواء ایک حقیقت ہے۔ اب ہم عالم طبیعت سے عالم مثال اور عالم مثال سے عالم عقلی اور عالم عقلی سے عالم الالہ کی طرف سفر کریں گے۔ پس انسان جس طرح انسانِ طبیعی ہے ، اسی طرح انسان مثالی ، انسان عقلی اور انسانِ الہٰی بھی ہے۔ آپ فرض کریں کہ آپ کے پاس ۴۰ لاکھ روپے ہے اور آپ زید کو تجارت کے لیے دیتے ہیں۔ اب آپ سے جب یہ رقم منتقل ہو گئی تو کچھ آپ کے ہاتھ میں باقی نہیں رہا۔ انسان اس طرح سے عالم الالہ سے عالم طبیعت میں نہیں اترا کہ اگر ہم ابھی عالم طبیعت میں ہیں تو بالاعوالم میں کچھ نہیں ہے اور وہ ہمارے وجود سے خالی ہو گئے ہیں!! حقیقت میں ہماری جڑ اور ریشہ عالم الالہ میں ہی ہے اور ہمارا عالم طبیعت میں سر باہر نکلا ہوا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہر شیء کی ملکوت ہے ۔ اس ذات کے قبضہ قدرت میں ہر شیء کی ملکوت ہیں جس کی ملکیت میں ملکوت ہے۔ ہم اس نہرِصمدی کے ذخیرہ میں سے ایک نہر ہیں جیساکہ تمام نوری وجودی کلمات ہیں۔ انسان عالم طبیعت میں اپنی نشات کے اعتبار سے اپنے بارے میں خبر دے گا کہ میرا فلاں جگہ گھر ہے ، فلاں بازار ہے وغیرہ۔ اسی طرح انسان عالم مثال کے اعتبار سے اپنے بارے میں ہم مطلع کرے گا کہ وہ ارواح اور امثالِ برزخیہ کے ساتھ محشور ہو گا۔ اسی طرح انسان عالمِ عقلی کے اعتبار سے اپنے بارے میں امکانِ اشرف کی صورت میں جواب دے گا۔ شیخ اشراق نے عالم عقلی کے اثبات کے لیے امکانِ اشرف کی بات کی ہے۔ عالم طبیعت جس میں تغیر و تبدل برپا ہو رہا ہے اس سے بالا عالم ’’عالم عقلی‘‘ ہے جوکہ ثابت اور محکم ہے اور حقیقت عالم عقلی میں ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عالم مادہ سے پہلے عالم عقول میں خلق کیا ۔ فیض الہٰی الاشرف فالاشرف کے ضابطہ کے تحت نازل ہوا ہے۔ یہ قوسِ نزولی کے اعتبار سے ہے۔ اب قوسِ صعودی کے اعتبار سے ملاحظہ کریں تو اخس سے اشرف کی طرف ترتیب وار جائیں گے۔ اخس سے ہم اس کے بعد جو اشرف ہے اس کی طرف سفر کریں گے اور اس کے بعد جو اشرف ہے جوکہ عالمِ عقلی ہے اس کی طرف سفر کریں گے اور اس کے بعد جو اس سے بھی اشرف تر ہے یعنی عالم الالہ اس کی طرف سفر کریں گے۔قوسِ نزولی میں اشرف تر سے اشرف ، پھر اس اشرف سے اس کے بعد والے اشرف جو اوپر کے مقابلے میں اخس ہے ۔ پس اشرف سے اخس کی طرف ترتیب وار آئیں گے یہاں تک کہ اخس الاخس عالم طبیعت ہے۔

طفرہ محال ہے۔ طفرہ سے مراد ہے کہ مراحل طے کیے بغیر ایک لحظہ میں اوپر سے فورا نیچے منتقل ہو جائے یا درمیانی فاصلے کو طے کیے بغیر یا پُر کیے بغیر نیچلے مرتبہ پر ظاہر ہو جانا طفرہ ہے۔ طفرہ عقلی طور پر محال ہے۔ اگر انسان عالم الالہ سے نزول کرے عالم طبیعت کی طرف تو ضروری ہے کہ درمیان میں موجود مراحل کو حتمی طور پر طے کرے۔ قوسِ صعود کے اعتبار سے اخس سے اشرف کی طرف جائیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ قوس صعود میں ایک آن میں اخس سے اشرف تر یعنی عالم الالہ تک رسائی حاصل ہو جائے کیونکہ طفرہ محال ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَ ما نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم }.[53]حجر: ۲۱۔

عين۴۶۔ قوت قدسیہ کا اثبات

مو) عين في إثبات القوة القدسية: أكثر أهل العلم لا يتجاوزون عن طور الفكر ، والآحاد منهم مرزوقون بالحدس ، والأوحدى منهم له القوة القدسية. والفكر حركة ، والحدس انتقال دفعى. وأما صاحب القوة القدسية فأمره أرفع من الحدس بمراحل ، وهو متى شاء أن يعلم علم . والمرزوق بها إما نبى أو وصى ، أو عبد آتاه الله من لدنه علما وأيده بروح منه. وابتدء من الغبى وانته إلى الغنى عن العلم والفكر ، أى إلى صاحب القوة القدسية كما فعل في الثاني عشر من ثالث الأشارات: ( أَ لستَ تَعلم أنّ للحدس وجودا ، وأن للانسان فيه مراتب في الفكر : فمنهم غبي لا يعود عليه الفكر برادة ، ومنهم من له فطانة الى حد ما ويستمتع بالفكر ، ومنهم من هو أثقف من ذلك وله إصابة فى المعقولات بالحدس ، وتلك الثقافة غير متشابهة فى الجميع بل ربما قلت وربّما كثرت ، وكما أنّك تجد جانب النقصان منتهيا إلى عديم الحدس فأيقن أن الجانب الذى يلى الزيادة يمكن انتهاؤه إلى غني في أكثر أحواله عن التعلم والفكر) . والقوة القدسية كالفكر والحدس ذات درجات: { تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى‏ بَعْض‏ٍ [54]بقرۃ: ۲۵۳۔ }.[55]آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۰۔

سب سے ابتدائی مرتبہ ’’غبی‘‘ ہونا ہے اور سب سے بالا مرتبہ ’’غنی‘‘ ہونا ہے یعنی قوتِ قدسی کا حامل ہونا ہے۔ اس طرف توجہ رہے کہ سب صاحبانِ قوتِ قدسیہ ایک مرتبہ نہیں رکھتے بلکہ ان کے بھی مراتب ہیں۔ نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ رکھتے ہیں اور بقیہ انبیاء و رسلؑ بھی مراتب رکھتے ہیں۔ سب سے نیچلا مرتبہ غبی ہے اور سب سے بالا مرتبہ ’’قوتِ قدسیہ‘‘ ہے۔اکثر اہلِ علم فکر کے مرحلہ سے تجاوز نہیں کرتے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں حدس کی قوت عنایت ہے اور ان چند میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں قوتِ قدسی اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ فکر ایک حرکت ہےجبکہ حدس انتقالِ دفعی کو کہتے ہیں۔ جبکہ صاحبِ قوتِ قدسی کا مرحلہ صاحبِ حدس سے بالاتر ہے۔ صاحبانِ قوتِ قدسی کی شان احادیث میں اس طرح وارد ہوئی ہے:{عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ× قَالَ: إِنَّ الْإِمَامَ إِذَا شَاءَ أَنْ يَعْلَمَ عُلِّم }.[56]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۶۴۱۔پس صاحبانِ فکر کے مراتب ہے اور اسی طرح صاحبانِ حدس کے بھی مختلف مراتب ہیں حتی کہ صاحبانِ قوتِ قدسی کے بھی مختلف مراتب ہیں۔ انہی اعلیٰ اور اسفل کے درمیان مختلف قسم کے مراتب ہیں۔ ہر کوئی اپنے مراتب کے مطابق عمل انجام دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت اور استعداد و صلاحیت اسی فرد کے مطابق عنایت کی ہے۔

عین ۴۷: نفس عاقلہ اور چالیس کا عدد

 مز – عين فى ان النفس العاقلة تحدث فى الأربعين غالبا : تأثير الأربعين فى أطوار الانسان و احواله معجب جدا , ولسان الاثار فى ذلك أعجب. و فيها أن الأنبياء بعثوا الى الخلق بعد مضى أربعين سنة من عمرهم ، و فى مفتاح الصدر القونوى: الكامل ينتهى بكامل نشأته فى أول يوم أو ساعة من سنة أربعين أو سنة احدى و أربعين من عمره، وفى نبراس المتأله السبزوارى:
فالأربعون مدة الأطوار *** لخلقة الانسان ذى الأسرار
كل من الاطوار فيه تَعَجُّلٌ *** و العقل أربعين عاما يكمل
ولعل المراد من حدوث النفس العاقلة فى الأربعين , طر و حالة و منة و صفة خاصة للنفس فى الأربعين عاما , فتدبر . و فى اللوطى من فصوص الحكم : ما بعث نبى الا بعد تمام الأربعين لان أحكام النشأة العنصرية غالبة على أحكام النشأة الروحانية فى تلك المدة.
[57]آملی، حسن زادہ، مسائل عیون النفس، ص ۲۱۔

نفسِ ناطقہ انسانی فعال رہتا ہے۔ امورِ خیالی اور امور وہمی پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ عجیب و غریب تخیلات و وہمیات میں نفس مشغول رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے بچے سے پوچھا گیا کہ دنیا کو کس نے بنایا ، اس نے جواب دیا میرے باپ نے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے والد کو گھر میں فعال اور متحرک دیکھا تو اس کے خیال و وہم نے یہ تصویر ایجاد کی کہ دنیا اس کے باپ نے بنائی ہے۔ انسان تخیلات کی مدد سے مختلف ذہنی تصویر کشی کرتا رہتا ہے اور وہمیات کے ذریعے سے اپنے نفس کو مختلف چیزوں میں مشغول رکھتا ہے اور خیال و وہم کی اساس پر ذہنی دنیا کو آباد کرتا ہے۔ ایک عالم ربانی کہتے ہیں کہ انسان کے پاس دس بھیڑ ، ۲۰ گدھے ، ۳۰ گھوڑے، ۴۰ گائے ، ۵۰ شتر …انسان پہلے دس سال بھیڑ بکریوں کی طرف کھاتا پیتا ہے اور کھیل کود کر کے سو جاتا ہے۔ پھر ۱۰ سے ۲۰ سال میں شہوت اوج پر ہوتی ہے اور شہوت و حُسن و زیبائی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اس لیے بھیڑ بکریوں سے ترقی کے گدھے کے مرحلہ میں آ جاتا ہے، پھر ۲۰ سے ۳۰ سال میں اسے کچھ کر دکھانے اور اپنی صلاحیتوں اور من مانی چیزوں میں دوڑ لگانے میں گزر جاتے ہیں جوکہ گھوڑے کی خصوصیات ہیں، ۳۰ سے ۴۰ سال میں اسے عزت و وقار کی فکر لاحق ہوتی ہے اس لیے ان سالوں میں گائے کے مرحلے میں رہتا ہے اور پھر ۴۰ سے ۵۰ سال میں اونٹ والا کام کرتا ہے، یعنی اب ہوشیار بیدار ہو گیا ہے اور دور اندیشی سیکھ لیتا ہے کیونکہ اونٹ دور کی چیزیں صحرائی طوفانوں میں بھی دیکھ لیتا ہے۔ انسان کی زندگی اسی طرح سے گزرتی ہے۔

چالیس کے عدد کی اہمیت:

چالیس کا عدد اہمیت کا حامل عدد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اکثر انبیاءؑ کو چالیس کی عمر مبعوث کیا۔ انسانی زندگی میں ۴۰  سال اور اس کے بعد کے سال اہمیت کے حامل مرحلہِ زندگی ہیں۔ احادیث میں ۴۰ کے عدد کو اہمیت دی گئی ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے: { مَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً ظَهَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِه }. [58]شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۲۴۹، فصل ۵۰۔ چالیس دن عمل کرنے کے اثرات نفسِ انسانی پر انتہائی گہرے ہیں۔ مسلسل چالیس دن ایک عمل انجام دینے سے نفس میں وہ عمل ملکہ حاصل کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح دستورِ سیر و سلوکی کو چالیس دن انجام دے تو اس کے اثرات واضح طور پر انسان ملاحظہ کرتا ہے۔ روایات میں ۴۰ دن کا تذکرہ کر کے مختلف ہدایت و رہنمائی کی گئی ہے۔ حتی بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن مسلسل گوشت کھانا ترک نہ کیا جائے۔ پس چالیس کا عدد کمال اور فعلیت تک پہنچنے کا عدد ہے۔قیصری لکھتے ہیں کہ کامل پہلے روز سے لے کر چالیس سال تک کمال کے مراحل طے کرتا ہے اور چالیس سال کے پہلے دن یا چالیس سال مکمل ہونے پر اپنے کمال تک پہنچ جاتا ہے۔ سبزواری لکھتے ہیں شعر کی شکل میں کہ چالیس سال خلقت کے مراحل کی مدت ہے، لہٰذا انسان کب چالیس سال تک پہنچے گا تاکہ خلقتِ انسانی کے اسرار کا حامل ہو سکے۔ یقیناً جو اس تلاش میں ہو تو چالیس سال کی عمر میں کمال تک پہنچ جائے گا۔ حکیم سبزواری نے شعر میں تُجعل لکھا ہے جس سے مراد ہے کہ انسان مختلف اطوار میں خلق ہوا ہے جس میں سے ایک انسان کا چالیس سال کا ہوناہے۔ چالیس سے پہلے کمال تک پہنچنے کی خواہش جلدی اور عجلت کرنا ہے کیونکہ چالیس سال میں عقل کامل ہوتی ہے۔ ممکن ہے حکیم سبزواری کی مراد چالیس سال میں عقل کے کمال سے یہ ہے کہ انسانی نفس کو چالیس سال مکمل ہونے پر خاص صفت اور خصوصیت حاصل ہوتی ہے جو اس سے پہلے حاصل نہیں ہوتی۔ انسانی نفس ایک حقیقت سے زیادہ نہیں لیکن اس نفسِ انسانی کے مراتب ہیں ۔ یہاں یہ گمان نہ ہو کہ چالیس سال میں نفسِ ناطقہ کے علاوہ ایک اور خلقت نفس کے ساتھ چسپاں ہوتی ہے !! نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ یہی ایک حقیقتِ نفس مراتب طے کرتی ہے اور مرتبہ میں اس کی خصوصیات اور صفات ہیں۔ فصوص الحکم میں شیخ اکبر فصّ لوطیؑ میں لکھتے ہیں کہ اللہ نے کسی نبی کو چالیس سال مکمل ہونے سے پہلے مبعوث نہیں کیا۔ حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیؑ اور ان کی مثل انبیاءؑ اس ضابطے سے مستثنی ہیں کیونکہ ان کے احوال ایسے تھے کہ ان کے لیے اس استثناء کی ضرورت تھی ورنہ اللہ تعالیٰ نے انبیاءؑ کو چالیس سال مکمل ہونے کے بعد مبعوث کیا ہے کیونکہ نشاتِ عنصری کے احکام روحانی نشات کے احکام پر اس مدت میں غالب آتے ہیں۔

عین ۴۸: دونوں کَون میں مطابقت

 مح –  عين في تطابُق الكَونَيْنِ: أى الكون الجامع الذى هو الإنسان ، والكون الكيانى الذي هو العالم ، وفي الأوّل نظائر جميع ما في الثاني، فإن التوازي بينهما هو شرط المعرفة ، { سَنُريهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ وَ في‏ أَنْفُسِهِم‏ } الاية [59]فصلت: ۵۳۔ ، وفى الأثر الرضوى – صلوات الله عليه -: قد علم أولوا الألباب أن ما هنالك لا يعلم الا بما هيهنا . تضمنت الصحائف فى تطابق نسختى آدم و العالم لطائف ، وتفصيله هو الوجود كله . وفي قصيدتي ينبوع الحيوة :
تصفّحت أوراق الصحائف كلّها *** فلم أَرَ فِيهَا غَير مَا فِى صَحِيفَتِي. [60]آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۱، عین: ۴۸۔

اس عین میں بیان کیا گیا ہے کہ انسانِ کامل کَونِ جامع ہے۔  اللہ تعالیٰ عالم کبیر میں قرار دیا ہے وہ سب انسان جوکہ عالم صغیر ہے میں قرار دیا ہے اور ان دونوں نسخوں میں باہمی طور پر مطابقت پائی جاتی ہے۔ جوکہ کچھ عالم کبیر کیانی میں ہے وہ عالم صغیر میں ہے اور دونوں میں مطابقت پائی جاتی ہے۔ ملاکِ معرفت یہی تطابق ہے۔ اگر تطابق نہ ہوتی تو اصلاً انسان معرفت حاصل نہ کر سکتا کیونکہ مجہولِ مطلق کی صورت میں معرفت حاصل نہیں ہوتی ، مثلاً آپ ایک اونٹ خریدتے ہیں اوروہ گم جاتا ہے جبکہ آپ کے پاس کوئی علامت یا شیء نہیں جس کی وجہ سے آپ کہیں کہ ان اونٹوں میں سے یہ اونٹ میرا ہے !! یقیناً جہل مطلق کی صورت میں آپ اونٹ کی شناخت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح اگر انسان کے اندر عالم کبیر کے نمونے نہ ہوں تو انسان کسی صورت معرفت حاصل نہ کر سکتا۔جس کی معرفت ہم نے حاصل کرنی ہے اس کی نشانی ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے قرار دی ہے۔ سورہ یس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے{ وَ كُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْناهُ في إِمامٍ مُبين }. [61]یس: ۱۲۔ہر چیز انسان کامل سے ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت انسان کامل کے کانال سے ہر شیء تک پہنچتی ہے۔ سر سے قدم تک خون کی سرایت دل کے توسط سے ہے جوکہ خون کو پمپ کرتا ہے اور سر سے قدم کے ناخن تک خون گردش کرتا ہے۔ انسانِ کامل جہان کا قلب و دل ہے۔ { سَنُريهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ وَ في أَنْفُسِهِم }[62]فصلت: ۵۳۔ آفاق سے مراد عالم کبیر ہے جس میں آیات ہیں وہی نفس جوکہ عالم صغیر ہے میں بھی ہے۔ انسان نطفہِ امشاج سے ہے جوکہ رحمن جل جلالہ کی صورت پر ہے۔ بعض فرشتے معصوم ہیں جبکہ بعض فرشتے معصیت کار ہیں اور بعض فرشتے نصف معصوم ہیں۔ وہ فرشتے جو عاصی اور معصیت کار ہیں انہی کو شیاطین کہتے ہیں کیونکہ ابلیس ملائکہ میں شمار کیا جاتا تھا لیکن عاصی اور معصیت کار کہلایا ۔ فرشتوں طول سے نیچے تک ملاحظہ کریں تو فرشتے سماوی ہیں اور فرشتے زمینی ہیں۔ فرشتے سماوی پاک و معصوم ہیں لیکن جو فرشتے خاکی اور زمینی ہیں وہ معترض ہو سکتے ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو خلیفہ بنایا تو جن فرشتوں نے اعتراض کیا تو یہ فرشتے بوئے خاکی دے رہے تھے اس لیے یہ مقربین میں سے نہیں تھے بلکہ زمینی فرشتے تھے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ فرشتے گناہ نہیں کرتے تو کیا تمام فرشتے گناہ نہیں کرتے؟! سماوی اور مقربین فرشتے گناہ نہیں کرتے لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی فرشتہ گناہ نہیں کرتا ۔ فرشتوں کے طبقات و مراتب ہیں۔ فرشتوں پر قرآن کریم کے مطابق ایک نوعِ تکلیف عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا قرآ ن کریم کی زبان اور اسلوب واضح طور پر بعض فرشتوں کو حکم دے رہی ہے ۔ فُطُرس کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ وہ گناہ نہیں کر سکتا تو ایسا نہیں بلکہ فطرس جس سنخِ فرشتوں میں سے تھا وہ عاصی و معصیت کار ہو سکتے تھے۔ لہٰذا فطرس سے گناہ صادر ہو سکتا تھا۔ شیطنتِ قوت وہمی جن ہے، شیطنت قوت خیالی جن ہے، قوتِ عاقلہ فرشتہ مجرد ہے۔ تمام فرشتے مجرد نہیں ہے بلکہ زمین پر فرشتے مادی ہیں ۔ انسان کے بدن میں عضلات میں انرجی جو برپا کریں یا انسان کو گرنے سے روکیں یہ مادی فرشتے ہیں۔

عین ۴۹: نفسِ انسان کی سعادت

مط – عين فى سعادة النفس : قد أجاد الفارابى فى المدينة الفاضلة بقوله : السعادة هى أن تصير نفس الانسان من الكمال فى الوجود الى حيث لا تحتاج فى قوامها الى مادة ، و ذلك أن تصير فى جملة الأشياء البريئة عن الأجسام ، و فى جملة الجواهر المفارقة للمواد ، و أن تبقى على تلك الحال دائما أبدا، قوله سبحانه : قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ أَنَا آتيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ [63]نمل: ۴۰۔، وقال الوصى عليه السلام: والله ما قلعت باب خيبر و قذفت به أربعين ذراعا لم تحس به أعضائى بقوة جسدية و لا حركة غذائية و لكن أيدت بقوة ملكوتية و نفس بنور ربها مضيئة، ولا حاجة الى التمسك بالايجاد والأعدام فان قرص الشمس ، وقطره أعظم من ألف مثل قطر الأرض يتحرك كل جزء منه فى ثانية واحدة ، عشرة أمثال قطر الأرض ، فلا يبعد أن يفعل النفوس المستضيئة بنور ربها نحو الاتيان بالعرش من اليمن الى الشام ، و القذف المذكورين بطرفة العين . والعين كثيرة المناهل والله هو المفيض على الاطلاق . ومن كلمات الشيخ السامية فى الخامس و العشرين من سابع الاشارات: لا يقعن عندك أن السعادة فى الاخرة نوع واحد ، ولا يقعن عندك أنها لا تنال أصلا الا بالاستكمال فى العلم وإن كان ذلك يجعل نوعها نوعا أشرف ، ولا يقعن عندك أن تفاريق الخطايا باتكة لعصمة النجاة ، بل إنما يهلك الهلاك السرمد ضرب من الجهل ، وإنما يعرض للعذاب المحدود ضرب من الرذيلة وحد منه و ذلك فى أقل أشخاص الناس . ولا تضع الى من يجعل النجاة وقفا على عدد ومصروفة عن أهل الجهل والخطايا صرفا الى الأبد ، واستوسع رحمة الله. [64]آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۲، عین: ۴۹۔

معروف یہ ہے کہ مشاء انسان کا کمال اور سعادت فلسفہ کے حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ الرئیس خود فلسفہ مشاء کے مبانی کے تحت رہتے ہوئے مطالب ذکر کرتے ہیں لیکن بہت سے مطالب میں مشاء کے مبانی سے کنارے پر ہوتے ہوئے عرفانی روش و مبانی کو بیان کیا ہے۔ابن سینا بیان کرتے ہیں کہ یہ گمان نہ ہو کہ قیامت میں سعادت فقط علم اور علمی جستجو سے حاصل ہو گی، اگرچے علم کی راہ سے انسان اشرف و اکمل ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر علم کے ساتھ سعادت کے اسباب کو جمع کیا جائے تو انسان کئی گنا بلند پرواز کرتا ہے۔علم اور جہل کے درمیان تضاد کی نسبت ہے۔ بعض نے علم اور جہل میں تناقض کی نسبت بیان کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جہل مرکب اور علم کے درمیان تضاد کی نسبت ہے جبکہ جہل بسیط اور علم میں تناقض کی نسبت ہے۔ تضاد میں ہر دو امر وجودی ہوتے ہیں۔ جہل مرکب امرِ وجودی ہے ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک علم ہے اور ایک علم نما ہے جوکہ جہل مرکب ہے۔ جہل بسیط میں اصلا انسان کچھ نہیں جانتا اور جہالت میں کچھ اس کے پاس نہیں جس کے مقابلے میں علم ایک امرِ وجودی ہے ۔ اس لیے کہا گیا کہ جہل بسیط کے مقابلے میں علم ایک امرِ وجودی ہے جبکہ جہل بسیط امرِ عدمی ہے۔  سعادت کی راہ فقط علم میں منحصر نہیں ہے بلکہ کئی راہیں ہیں جو سعادت سے ہمکنار کرتی ہیں اور علماء کے علاوہ کثیر خلق خدا سعادت سے انہی راہوں کے ذریعے ہمکنار ہوتے ہیں۔علم کو عمومی تقدم تہذیب پر حاصل ہے اور بے علم بے نوری اور بغیر روشنی کے ہیں۔ یہ علم عمومی ہے نہ کہ علم خصوصی۔ سعادت جس علم میں منحصر نہیں وہ علمی خصوصی ہے ورنہ علم عمومی سعادت کے لیے ضروری ہے اور اس علم عمومی کے بغیر کسی قسم کی سعادت نہیں ہے۔

عین ۵۰: نفس کا اپنے مثالی ابدان کو انشاء کرنا

ن – عين فى انشاء النفس أبدانها المثالية ، و ظهورات الكمل فى العوالم : الإنسان له الاقتدار بأن ينشىء أمثال نفسه ، ويرسلها إلى أماكن وعوالم مختلفة بلا تراخ زمانى . وتسمّى تلك الأبدان المثالية أبدالا . فإن العارف الكامل المتصرف فى الوجود يخلق بهمته صورا خارجة عن الخيال ، موجودة فى الأعيان الخارجية ، قائمة به ، قيام الفعل بفاعله . وما هو المشهور من أن البدلاء يحضرون فى آن واحد فى أماكن مختلفة مثلا و يقضون حوائج عباد الله ، كان على هذا السر المستسر ، فافهم . على أن صاحب الأمر أعلى شأنا وأرفع مقاما من صاحب الهمة فانه الواصل بمقام كن : إِنَّما أَمْرُهُ إِذا أَرادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُون [65]یس: ۸۲۔، اِقرأ وارقَه. [66]آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۲، عین: ۴۹۔

معروف یہ ہے کہ مشاء انسان کا کمال اور سعادت فلسفہ کے حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ الرئیس خود فلسفہ مشاء کے مبانی کے تحت رہتے ہوئے مطالب ذکر کرتے ہیں لیکن بہت سے مطالب میں مشاء کے مبانی سے کنارے پر ہوتے ہوئے عرفانی روش و مبانی کو بیان کیا ہے۔ابن سینا بیان کرتے ہیں کہ یہ گمان نہ ہو کہ قیامت میں سعادت فقط علم اور علمی جستجو سے حاصل ہو گی، اگرچے علم کی راہ سے انسان اشرف و اکمل ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر علم کے ساتھ سعادت کے اسباب کو جمع کیا جائے تو انسان کئی گنا بلند پرواز کرتا ہے۔

عین ۵۱: خواب کی حقیقت

نا) عين في الرؤيا: الرؤيا الصادقة ارتباط النفس بمباديها العالية النورية , فتعقل الحقائق أولا ثم تتخيلها نزولا , أي تصوُّرُهَا بحسن صناعتها في صقع ذاتها بقوتها المتخيلة على صور تناسب تلك المعاني , كما إذا تعلّمت شيئا فإنما تتخيلة أوّلا ثم تعقله صعودا ، فهما متعاكسان. من الأدلة التى أقاموها على أن النفس جوهر مفارق هو ما يدركه الانسان فى مناماته من المغيبات الصادقة , لا يتأتى مثلها له فى اليقظة غالبا . و الارتباط المذكور انما يتاتى من حيث انصراف النفس عن هذه النشأة , فان تحقق الانصراف فى اليقظة يتحقق مثل الرؤيا ايضا , كما يرزق بها السالك كثيرا . و فى الروايات أن الرؤيا الحسنة جزء من النبوة و ذلك الجزء فيها متفاوت باعتبار مراتب الرائى . و المباحث فى الرؤيا تطلب فى رسالتنا فى الرؤيا . 

روایات اہل بیتؑ میں وارد ہوا ہے کہ خواب تین طرح کے ہیں :
۱۔ انسان کا اپنے نفس میں اپنے اعمال کو دیکھنا: انسان نے اپنے نفس میں جو اعمال، تمنائیں، خواہشات و آرزو کسب کیے ہیں ان کو انسان دیکھتا ہے۔ انسان دن بھر جو اعمال و افعال انجام دیتا ہے اور اس کا نفس جن چیزوں میں مصروف رہتا ہے اسی کو خواب میں مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کو حدیثِ نفس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان نے جو خواب میں دیکھا وہ اس کی آرزوئیں اور خواہشات تھا۔ اکثر بیشتر خواب اسی قبیل سے ہیں جنہیں اضغاث الاحلام بھی کہتے ہیں۔
۲۔ القاءات شیطانی: انسان کے اندرون میں منشأ شیطنت قوتِ واہمہ ہے جس کو بیرونی شیطانی استعمال کرتے ہیں۔ انسان کے اندرون میں شیاطین القاءات کرتے ہیں جنہیں خواب میں انسان دیکھتا ہے۔ نوعِ شری انسان کے نفس میں القاء کرتے ہیں جوکہ خواب کی صورت میں انسان دیکھتا ہے۔
۳۔ القاءات رحمانی: اسے رؤیا صادقہ بھی کہتے ہیں ۔ واقع اور حقیقت سے انسان کو آشنا کرایا جاتا ہے۔ عالم رؤیا میں انسان کو حقائق سے آشنا اور وابستہ کیا جاتا ہے۔ انسان ان کے ذریعے مبادئ عالیہ تک راہ اختیار کرتا ہے۔ عالم واقع اور متنِ واقع سے انسان کا ارتباط ، کیونکہ خارج میں جو حقائق متحقق ہوتے ہیں وہ اس سے پہلے عالم بالا میں متحقق ہوتے ہیں۔ انسان ممکن ہے وہ تمام خصوصیات کو دیکھتا ہے جو مستقبل میں متحقق ہونے ہیں یا نہیں بلکہ انسان کو جو عالم بالا سے حقائق میں سے جو حقیقت کا علم عنایت ہوا ہے انسان کی قوتِ خیال نے اسے ایک تصویر میں ڈھال دیا جسے انسان مشاہدہ کرتا ہے، مثلاً خواب میں پانی یا دودھ پیتا ہے ، یہ علم سے کنایہ ہے۔ برزخی صورتِ علم یہی پانی اور دودھ ہے۔ علم مطلقِ دانائی ہے جبکہ معرفت خاص قسم کی دانائی ہے۔ اسی طرح پانی مطلقِ دانائی ہے جبکہ دودھ معرفتِ خاص سے عبارت ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ انسان علم کی راہ اختیار کیے ہوئے ہو اس وقت خواب میں پانی یا دودھ دیکھنا علم عنایت ہونے سے تعبیر ہے۔ اگر انسان تاجر ہے یا کسی اور شبعہِ زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور خواب میں پانی یا دودھ دیکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے مستقبل میں بہت منافع اور فائدہ ملنے والا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں میں نے عالمِ رؤیا میں دیکھا کہ میرے پاس ایک کتاب لائی گئی تھی جس کا ایک کونا پرانا اور فرسودہ تھا۔ صبح ہوئی تو کوئی بالکل ویسی ہی کتاب جس کا ایک کونا پرانا تھی میرے پاس لے کر آیا۔ اسی طرح علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنوئیں میں ہوں اور وہاں گوشت اور بدبو ہی بدبو ہے، میں جتنا زمین کو کھودوں اتنا ہی گوشت اور بدبو سامنے آئے۔ خواب سے بیدار ہوا تو سوچا کہ یہ کیسا خواب ہے !! صبح ایک شخص دروازے پر آیا جس کے پاس ایک سیاہ رنگ کا تھیلا تھا جس میں مختلف کتابیں تھیں۔ وہ کتابیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں ۔ بندہ نے کہا کہ میں کچھ گمراہ کن کتابیں لایا ہوں ، آپ ان کتبِ ضالہ کو پڑھیں اور ان کا جواب دیں ۔علامہ کہتے ہیں میں نے سوچا کہ عموماً فلسفہ و عرفان کی کتب کو کتبِ ضالہ کہتے ہیں ، اس لیے میں نے سوچا دیکھ لوں کہ شاید کوئی کام کی کتاب ہو تو وہ رکھ لوں۔ کہتے ہیں میں تھیلے کو ٹٹولنا شروع کیا دیکھا کہ اول سے آخر تک تمام کی تمام کتابیں شریعتی کی ہیں۔ میں نے اس بندے کو کہا کہ یہ کتابیں ہمارے بس کی نہیں کسی اور کے پاس لے جائیں۔ علامہ کہتے ہیں اس سے میں خواب کا منظر سمجھ گیا۔ البتہ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ شریعتی کی کوئی کتاب درست نہیں ہے !! بلکہ بہت سی اس کی باتیں اچھی اور بہترین ہیں لیکن صحیح باتوں کے ساتھ اشتباہات انتہائی خطرناک قسم کے ہیں۔

               اگر انسان کی قوت خیال کسی حقیقت سے مربوط معنی کو تصویر دے دے تو یہاں تعبیر کی ضرورت ہے اور معبِّر اس تصویر کے ماوراء عطاء شدہ معنی سمجھ لیتا ہے اور اس معنی کو خواب دیکھنے والے کے سامنے آشکار کرتا ہے، جیساکہ جناب یوسفؑ کو اللہ تعالیٰ نے خوابوں کی تعبیر و تأویل کی تعلیم عنایت کی تھی۔ اگر کوئی لا زمان اور لا مکان تک رسائی حاصل کر لے تو واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ان سے واقف ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جس شخص کا عالمِ بالا سے رابطہ ہوا ہے وہ ان واقعات سے باخبر ہو جاتا ہے جس سے اس دنیا میں رہنے والے سارے انسان بے خبر ہیں۔ اگرچے جب وہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو سب جان لیتے ہیں لیکن عالم بالا تک رسائی حاصل کرنے والا پہلے باخبر ہو جاتا ہے۔ قزوین کا ایک واقعہ ہے جس میں ایک خاتون اور اس کے بچے ایک گھر میں رہتے تھے اور اس کا شوہر وفات پا چکا تھا۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ اس خاتون نے گھر بیچ دیا اور تیس ہزار تومان کا گھر بیچا ۔ وہ پیسے بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گئے اور حالات اتنہائی خراب ہو گئے ۔ اس خاتون نے خواب میں شوہر کو دیکھا اور شوہر کو سب حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ گھر بھی ہم نے بیچ دیا اور جو پیسے ملے وہ بھی اب آہستہ آہستہ ختم ہو گئے اور اب ہمارے پاس گزر بسر کے لیے کچھ نہیں بیچا ۔ شوہر نے کہا کہ آخر گھر کیوں بیچا جبکہ میں نے گھر کی چھت کی طرف جانے والی سیڑھی کے اندر تیس ہزار تومان چھپائے تھے تاکہ مشکل حالات کام آئیں۔خاتون خواب سے بیدار ہوئی تو سوچنے لگی اور محکم فیصلہ کیا کہ اپنے سابقہ گھر جائے گی اور وہاں اس رقم کو تلاش کرے گی۔ اس کا سابقہ گھر ایک یہودی نے خریدا تھا ۔ جب خاتون نے دروازہ کھٹکھٹایا تو یہودی نے پوچھا کون ہے؟ اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس نے کہا کہ کیا چاہتی ہو؟ اس نے کہا کہ اپنے پیسے لینے آئی ہوں۔ اس نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں لیے؟ اس نے کہا: کیونکہ مجھے علم نہیں تھا۔ یہودی نے کہا کہ اب تمہیں کس نے بتایا ہے؟ اس نے کہا میرے شوہر نے۔ یہودی نے کہا کہ تم نے تو بتایا تھا کہ تمہارا شوہر مر چکا ہے!! خاتون نے کہا : اس نے مجھے خواب میں بتایا ہے۔ یہ سننا تھا کہ یہودی نے زور سے دروازہ بند کیا اور بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ خاتون نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور دونوں میں سخت لہجے میں بحث ہونے لگی جس کے نتیجے میں محلے والے جمع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ جھگڑا زور پکڑتا گیا یہاں تک کہ پولیس درمیان میں آ گئی اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اس رقم کو دیکھنے کے لیے جو گھر خراب کیا جائے گا اس کے صحیح کرنے کی ذمہ داری خاتون کی ہو گی۔ خاتون نقصان کا خمیازہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا اور بلاآخر چھت کی طرف جانے والی چوتھی سیڑھی کو توڑا گیا۔ دیکھا تو وہاں ایک مٹکا تھا جس میں پورے تیس ہزار تومان تھے۔ وہ خاتون سرور اور خوشی میں اس کی طرف بڑھی اور لے کر چل پڑی۔ درمیان میں عدالت کے اہلکار آ گئی اور کہا کہ یہ رقم دفینہ شمار ہو گی اور دفینہ حکومت کا مال ہوتا ہے جس میں تمہارا ایک حصہ ہو گا ۔ خاتون نے عدالت کے خلاف مقدمہ پیش کیا۔ کچھ دنوں کے بعد عدالت نے خاتون کے خلاف فیصلہ سنایا اور اس پر دفینہ کا حکم جاری کیا۔ خاتون اس پر مطمئن نہیں ہوئی اور سپریم عدالت میں کیس لے گئی۔ وہاں اس پر کیس چلا اور بالآخر عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ دفینہ کا حکم اس مال پر جاری ہوتا ہے جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ اس مال کا تو مالک ہے کیونکہ یہ خاتون کا گھر تھا۔ لہٰذا تمام مال اس کو واپس کر دیا گیا۔ یہ واقعہ ایران کے اخباروں میں پر چھپا۔

               پس اس طرح کے سچے خواب عالم بالا سے ارتباط کے نتیجہ میں میسر آتے ہیں۔ بعض اوقات عالم بالا سے معنی حقیقی عنایت ہوتا ہے لیکن خیال اس کو صورتگری کر دیتا ہے۔ یہاں معبِّر کی ضرورت پڑتی ہے جوکہ صورت سے معنی تک رسائی حاصل کرتا ہے اور حقیقی معنی خواب دیکھنے والے کو بتایا دیتا ہے۔ معبِّر صورت سے معنی تک اس لیے پہنچ جاتاکیونکہ وہ صورت اور معنی میں ربط اور تعلق جانتا ہے ۔خیال ہر معنی کو ہر شکل و صورت نہیں دیتا بلکہ خیال ہمیشہ اس معنی سے مناسب اور سازگار صورت دیتا ہے، مثلاً خواب میں دیکھتا ہے کہ پانی ہر طرف ہے اور دیکھنے والا تعلیم کے شعبہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ علم اور اس کے مقدمات سے دوچار ہو گا۔ لیکن اگر وہ خواب میں پانی پیتا ہے تو علم کو حاصل کر لینا ہے۔ اگر پانی نہیں پیا تو علم حاصل نہیں ہوا بلکہ مقدمات میں مشغول ہے۔  اس مسئلہ میں ایک بہترین کتاب تعطیر الأنام فی تعبیر المنام ہے جوکہ عبد الغنی نابلسی کی ہے۔ اس کی پہلی فصل میں اچھے کلی ضوابط درج ہیں۔

               خواب میں انسان جس طرح عالمِ بالا سے معنی لیتا ہے اور قوت خیال اس معنی سے سازگار تصویر کشی کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان خارجی تصاویر حواس کے ذریعے لیتا ہے اور خواب میں وہ تصاویر نیچے سے اوپر کی طرف سفر کرتے ہوئے عقلی معنی حاصل کر لیتی ہیں اور انسان ان عقلی معانی کو خواب میں دیکھتا ہے۔ ایسا بھی انسان کے لیے متحقق ہوتا ہے۔ اس لیے عالم بالا اور عالمِ سفلی ہر دو کی جانب سے معانی تک کا سفر انسان کے لیے ہو سکتا ہے۔ عالم سفلی سے عالم بالا کی طرف سفر کرتا ہے اور عالم بالا سے خیال کی طرف نزول کرتا ہے ، خواب میں ہر دو ایک دوسرے کے برعکس عمل رونما ہوتا ہے۔

               انسان کا عالمِ بیداری میں اس نشاءت دنیا سے انصراف کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ جس طرح خواب میں حقائق متحقق ہوتے ہیں اسی طرح انسان بیداری کے عالم میں بھی اپنی اس دنیاوی نشات سے منصرف ہو کر عالم حقیقت اور عالم بالا کی طرف نگاہ کر سکتا ہے اور حقائق کو کو دیکھتا ہے۔

عین ۵۲: موت عمومی اور موت خصوصی

نب) عین فی أن موت الإنسان هو انقطاعه عن غيره وارتقاؤه إلى بارئه المتوفى إيّاه: قد علمت أن النفس الانسانية جوهر روحانى النسج و السوس , لا تفسد بفساد بدنه العنصرى , فالموت ليس بعدم و فناء , و الاماتة ليست باعدام و افناء بل هو تفريق صفة الوصل بين الروح والجسم , و تفريق بيننا و بين ما هو غيرنا . و فى الأثر عنه – صلى الله عليه و آله و سلم : خلقتم للبقاء لا للفناء (وفى آخر) خلقتم للأبد و إنما تنتقلون من دار الى دار ( و فى آخر ): الأرض لا تأكل محل الايمان( والتفريق مروى عن الامام الصادق عليه السلام فى تحف ابن شعبة . قوله تعالى شأنه ): الله يتوفى الأنفس حين موتها و التى لم تمت فى منامها فيمسك التى قضى عليها الموت و يرسل الأخرى إلى أجل مسمى إن فى ذلك لايات لقوم يتفكرون، (الموت جار على جميع ما سوى الله ، وهذا الموت بمعنى فناء كل سافل فى عاليه , و توجه كل سافل الى عال ، ورجوع كل شى ء الى أصله ، و عود كل صورة الى حقيقتها . ثم من يخاف الموت فهو فى الحقيقة يخاف نفسه , و العاقل بمعزل عن تقية الموت . و الله سبحانه لا يرضى بموت أحد سيما الانسان إلا لأجل حيوة أخرى مستأنفة فى وراء هذه النشأة.

ایک مرگ عمومی ہے اور ایک مرگ خاص ہے جوکہ انسانوں کے ساتھ مختص ہے۔ انسانوں کے ساتھ مختص موت کے بارے میں ہم نے کثرت سے سنا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنا تُرْجَعُون‏، [67]عنکبوت: ۵۷۔ اگر نفس سے مراد ہم ذات لیں تو یہ موتِ عمومی سے تعبیر ہے، اسی طرح اگر اس سے مراد وہ ذوات لیں جو بدن رکھتے ہیں تو اس سے مراد موتِ خاص ہے کیونکہ جو موجودات زندہ ہیں ان کے لیے موت ہے۔ اس سے پہلے جو موت کا تذکرہ ہوا اس سے مراد مرگِ عمومی ہے کیونکہ ما سوی اللہ موت سے ہمکنار ہو گا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر ماتحت اپنے ما فوق میں فانی ہو جائے گا، مثلاً اگر آپ ایک مچھر یا مکھی کو مارتے ہیں تو اس کی روح اپنے نوع میں فناء ہو جائے گی اور اس کا بدن اسی مادہ اصلی میں منتقل ہو جائے گا۔ اس کو حشرِ عمومی کہتے ہیں۔  موج دوبارہ دریا کی طرف پلٹ جائے گی کیونکہ اسی دریا سے یہ موج اٹھی تھی۔ یہی ’’إنّا للہ وإنا الیہ راجعون‘‘۔  ملاصدرا کا ایک رسالہ ہے جس کا نام رسالۃ فی الحشر، اس میں ملا صدرا نے برہان، عرفان اور قرآن کی مدد سے موتِ عمومی کو ثابت کیا ہے ۔ اس کو معاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ معاد یعنی عود الی اللہ ۔ متکلمین نے معاد کا مطلب کیا ہے: عود الروح مرة ثانية إلى البدن؛ روح کا دوسری مرتبہ بدن کی طرف پلٹنا معاد کہلاتا ہے۔ متکلمین کا یہ نظریہ تو تناسخ کو بیان کرتا ہے جوکہ قرآن کریم اور تعلیمات اہل بیتؑ سے سازگار نہیں۔ معاد کا مطلب ہے کہ اللہ کی طرف پلٹنا۔

               ہم جس موت سے آشنا ہیں وہ انسان کی موت ہے۔ موت سے مراد ہر شیء کا اپنی اصل کی طرف پلٹنا ہے۔ تمام موجودات کو موت ہے یعنی وہ اپنی اصل کی طرف پلٹ جائے گی۔ صرف انسان ’’انا للہ‘‘ نہیں کہتا بلکہ ہر شیء ’’انا للہ‘‘ کہتا ہے۔  ہر چیز اپنے ما فوق میں فناء ہوتی ہے۔ یہ فناء ہونا موتِ عمومی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: كُلُّ مَنْ عَلَيْها فان‏. [68]رحمن: ۲۶۔ ہر شیء فانی ہے۔ ’’فانٍ‘‘ مشتق ہے اور مشتق زمانہِ حال میں حقیقت ہے جبکہ ماضی و مستقبل میں مجاز ہے۔ پس مستقبل میں یقیناً مجاز ہے۔ ابھی حال میں ہر شیء فانی اور ھالک ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: َ كُلُّ شَيْ‏ءٍ هالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ. [69]قصص: ۸۸۔ ہر شیء ہلاک ہے اس کی ذات میں جس کو اہل بصیرت جانتے ہیں۔ یہ موتِ عمومی ہے ۔ فناء کا مطلب ہے کہ ایک نشاءت میں غروب ہونے کے بعد ما فوق مرتبہ پر طلوع کرنا ہے۔ اس کو حشرِ عمومی کہتے ہیں ۔ ہر مرتبہِ دانی مرتبہِ عالی پر فناء ہے۔

               انسان سے جو موت مختص ہے اس کو مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ انسان حقیقت میں موت سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے آپ سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ انسان نے جو اپنے اعمال انجام دیئے ہیں اور جو اپنے نفس میں کسب کیا ہے انسان حقیقت میں اس سے گھبراتا اور ڈرتا ہے۔ اگر حقیقتِ موت معلوم ہو جائے اور اس جہاں کی عظمت معلوم ہو جائے تو ہر کوئی موت کی طرف بڑھنا چاہے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے انسان ایک ملک کا باڈر عبور کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس پاسپورٹ اور ویزا نہیں ہے ۔ یہاں باڈر عبور کرنے سے انسان نہیں گھبراتا بلکہ ڈر اس کا ہے کہ اس کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے اور ویزا نہیں ہے۔ اس لیے موت شیرین ہے اور موت انسان کے لیے لذت بخش ہے اصل میں انسان اپنے ناخالص اعمال اور اپنے جرائم سے گھبراتا ہے۔ پاک اور پاکیزہ انسان موت سے نہیں گھبراتا ۔ بلکہ موت کی طرف اشتیاق اور رغبت سے بڑھتا ہے تاکہ اس دنیا کا باڈر اور مرز عبور کر کے دوسرے جہاں میں منتقل ہو جائے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ‏ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى‏ رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّة. [70]فجر: ۲۷-۲۸۔  عاقل انسان کبھی موت سے نہیں گھبراتا ۔ حقیقت موت پست اور ادنی مرتبہ سے بالا اور ما فوق جہاں میں منتقل ہونا ہے جوکہ ڈر و خوف کا مقام نہیں ہے بلکہ خوشی اور راحت ہے۔ کیا کوئی ناخالص سے خالص ہونے اور پست سے بالا مقام کی طرف جاتے ہوئے گھبرائے گا؟!اللہ تعالیٰ نے اس لیے انسان کے لیے موت قرار دی ہے تاکہ انسان دوسرے جہاں میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرے۔ اس دنیا میں انسان کا بدن بوسیدہ ہو گیا، کئی امراض میں جکڑا گیا، تمنائیں اور خواہشات پوری نہیں ہوئیں، اسے پھر سے تازہ نیا بدن چاہیے جو امراض سے خالی ہو، جو بڑھاپے سے خالی ہو ، اس کے لیے انسان کو نئی زندگی نئے جہاں میں شروع کرنے کی ضرورت ہے اور اس نئی زندگی کا نام موت ہے۔

امامؑ کی دعاؤں میں ہے کہ بار الہٰا میں جب اپنے اعمال پر نگاہ کرتا ہوں تو مایوس ہو جاتا ہوں اور جب تیری رحمت پر نگاہ کرتا ہوں تو طمع ابھر آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے مخاطب کرتے ہوئے ہر گز نہ کہے کہ میں نے کوئی عملِ خیر انجام دیا ، یا کوئی کام کیا ہے ۔ اس لیے طمع اور رجاء میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔ دعا میں امامؑ نے رجاء نہیں طمع کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ رجاء میں اپنے عمل کی بنیاد پر امید رکھنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی عمل انسان کا اس قابل نہیں ہے اس کو انسان پیش کر سکے ۔ اس لیے طمع کا لفظ آیا ہے۔یہاں بحثِ فضل ہے۔ فضلِ الہٰی کی وجہ سے طمع اور تمام کی تمام امید باندھی ہوئی ہے۔ ورنہ میں خود کسی قسم کا استحقاق نہیں رکھتا اور کسی قسم کا حق نہیں رکھتا۔

عین ۵۳: دو نشاءت میں انسان کی قبر:

نج) عين في أن وزان القبر في النشأتين وزان الإنسان فيهما: القبر لغة الغلاف . قال الشاعر :خط بها قبرا لأبيض ماجد، والقبر الدنيوى المادى معروف , و البدن المادى الدنيوى قبر , و البدن الصورى البرزخى ايضا قبر و اغبرة الشواغل الضاغطة للنفس ايضا قبر , و صور تجسم الاعمال المحيطة فى البرزخ بالروح قبر . و القبور فى هذه النشأة متشابهة , و فى الاخرة متخالفة . و المتشابهة على معنيين : أحدهما القبور الترابية مثلا و الانسان من حيث هو انسان ليس بمقبور فيها , و ان كنا لا ننكر امكان اشراف بعض النفوس الكاملة على المقبور فيها , و اطلاق القبر على تلك الحفر على التوسع فى التعبير . و ثانيهما انها متشابهة بمعنى أن أفراد الانسان الذى هو نوع واحد متماثلة فى صدق معنى الانسان عليها صورة فهى قبور متشابهة , قوله سبحانه : ( و ما أنت بمسمع من فى القبور)  والقبر الحقيقى للانسان ليس بخارج عنه بل هو ذو مراتب , ففى هذه النشأة أفراد متشابهة , و فى الاخرة أنواع متخالفة فقبر هو روضة من رياض الجنة , و قبر هو حفرة من حفر النار: و إذا القبور بعثرت.

قبر لغت میں غلاف کو کہتے ہیں ، مثلاً تلوار کو غلاف میں رکھا جاتا ہے ، انسان کی روح کا بدن اس کا غلاف ہے۔ عرب شعراء نے بھی شعر میں قبر بمعنی غلاف استعمال کیا ہے ۔ قبر کی مختلف اقسام ہیں: انسان بزرخ و قیامت میں جنس اور اس کے ماتحت انواع ہے ۔قبر میں انسان اسی طرح ہے۔
۱۔ قبر دنیوی مادی: یہ قبر معروف ہے۔ انسان کا جسم مادی قبر ہے۔
۲۔ بدنِ صوری برزخی بھی قبر ہے۔
۳۔ انسانی نفس جن امور میں شدید مشغول ہوتا ہے اور ان مشاغل میں ایک نوع دفن ہو جاتا ہے تو یہ نفس کی قبر ہے۔ شواغل ضاغط سے مراد وہ مشاغل ہیں جو انسان پر فشار اور دباؤ کا باعث بنتے ہیں اور نفس کو اپنے دباؤ میں لا کر نفس کو بیچارہ کر دیتے ہیں۔ یہ مشاغل قبر ہیں نفس کے لیے۔
۴۔ تجسم اعمال کی صورتیں جو برزخ میں روح کا احاطہ کیے ہوئے ہیں یہ صورتیں قبر ہیں۔

اس نشاءت میں قبور ایک دوسرے کے متشابہ ہیں لیکن آخرت میں ایک دوسرے سے جدا اور متفاوت ہیں۔ اس جہاں میں دو طرح سے تشابہ ہے : ۱۔ مٹی والی قبر، یہ قبر جسمِ مادی کی قبر ہے۔ افلاطون سے پوچھا کہ آپ کو موت کے بعد کہاں دفن کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جہاں تمہارا دل چاہے وہ دفن کرو کیونکہ جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک یہ میرا بدن ہے، جب مر جاؤں گا تو یہ میرا بدن نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ بعض نفوسِ کاملہ ان قبروں میں اپنے اجساد پر اشراف رکھتے ہیں۔ ۲۔ انسان چونکہ ایک دوسرے کے مشابہ ہے بدن کے اعتبار سے ، کیونکہ ایک سر، دو آنکھیں وغیرہ رکھتے ہیں اس لیے یہ ایک نوع ہیں جوکہ ایک دوسرے سے متماثل ہے۔ انسان کا متشابہ صورت ہونا قبر ہے جوکہ ایک دوسرے سے مشابہ ہے۔  اس مطلب کی طرف قرآن کریم نے سورہ فاطر آیت ۲۲ میں اشارہ کیا ہے: وَ ما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُور. [71]فاطر: ۲۲۔ قبر حقیقی وہ قبر ہے جس سے انسان نہیں نکل سکتا ۔ یہ قبر مراتب رکھتی ہے۔ اس مادی نشاءت میں افراد ایک دوسرے مشابہ ہیں لیکن آخرت میں ایک دوسرے سے مختلف انواع ہیں۔ پس قبر آخرت میں یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑوں میں سے ایک گڑا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَت‏. [72]انفطار: ۴۔

عین۵۵: برزخی تکامل:

نه) عین في التكامل البرزخي:التكامل البرزخى حق بلا دغدغة ، ولكنه من أغمض المسائل العقلية، لأنّ الاستكمال لا يتحقق الا بالخروج من القوة الى الفعل ، وهو لا يكون بلا استعداد مادى ، وبعد انقطاع النفس عن نشأة الحركة كيف يتصوّر فيها الاستكمال ؟ وغاية ما تَيَسَّر لنا من التحقيق هى ما حررناها فى النكتة السابعة والثلاثين وستمائة من كتابنا ألف نكتة ونكتة . ثم كما أن مسألة التكامل البرزخى من المسائل العويصة , كذلك مسألة تجدد الأحوال و الأفعال لأهل الجنة و النار مع أن الاخرة دار الصور الصرفة و لا مادة و لا قوة هناك فتدبر . ثم يتبع التكامل البرزخى مسألة الخلود، وهذه عقبة أخرى .والله ولى التوفيق.

بعض فلاسفہ قائل ہیں کہ اس دنیا کے بعد انسان کے لیے تکامل کی گنجائش نہیں ہے ۔وہ افراد جو فلسفہ و عرفان کے مخالف ہیں اور بغیر تحقیق کے تہمات و سوء ظن کا شکار ہوتے ہیں ان کا یہ نسبت دینا اشتباہ ہے کہ فلاسفہ و عرفاء قائل ہیں کہ اس دنیا کے بعد تکامل کی کوئی راہ باقی نہیں ہے !! یہ بات قطعاً درست نہیں ہے کیونکہ فلاسفہ و عرفاء قائل ہیں کہ تکاملِ برزخی حق ہے جیساکہ آیت اللہ علامہ حسن زادہ آملی تاکید کے ساتھ یہ بات بیان کرتے ہیں۔ علامہ کی نظر میں اگر ہم اپنی تحقیقات پر فقط اکتفاء کریں اور زبانِ وحی کا سہارا نہ لیں تو ممکن ہے کہ ہم تکاملِ برزخی سے جاہل رہیں لیکن آیات و روایات سے ہمیں یہ رہنمائی ملی کہ تکامل برزخی ہے۔ لہٰذا عقل نے وحی سے استفادہ کرتے ہوئے ان حقائق کا ادراک کیا ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَإِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَ ما نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم‏ }[73]حجر:۲۱۔:پس ہر شیء اللہ سبحانہ کی جانب سے نازل ہو رہی ہے اور ہر شیء مقدار کے مطابق عنایت ہوتی ہے ۔ اس لیے دنیا کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے یہ فیوض جاری ہیں۔ ہم مفیض نہیں ہے بلکہ مُعدّ ہیں ۔ ہم زمینہ فراہم کر سکتے ہیں نہ کہ ہم افاضہ و عطا کر سکتے ہیں۔ افاضہ و عطاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ اعداد یعنی زمینہ فراہم کرنا ہمارے ذمہ ہے، مثلاً آپ قلم کی مدد سے لکھتے ہیں تو کیا قلم نے تحریر کو جنم دیا ہے ؟! ہر گزر ایسا نہیں ہے بلکہ علم کا کاغذ پر افاضہ قلم کے توسط سے ہے۔ مراتبِ کمال اور مراتبِ اکملیت میں فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی ذات کو سب عنایات فرمایا اور ان کی ہستی کے ذریعے خلقت کو افاضہ کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ مراتبِ کمال پر فائز تھے لیکن اکملیت کے مراتب اب بھی طے ہو رہے ہیں کیونکہ کامل تو یہ ہستیاں تھی لیکن کمالات لا محدود ہیں اس لیے ارتقاء اور کامل کا سفر اکملیت کی صورت میں جاری ہے۔

               بعض افراد واقعات کو تحریف کر کے بتاتے ہیں اور تعارض کی صورت ایجاد کرتے ہیں جوکہ کسی صورت درست روش نہیں ہے ۔ٹی وی پر ایک چینل میں ایک عالم دین واقعات میں تحریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آیت اللہ خوشوقت اور علامہ حسن زادہ آملی دونوں سید علی قاضی طباطبائی کے شاگرد ہیں۔ سید علی قاضی ، آقای خوشوقت اور علامہ حسن زادہ آملی کے بھائی کی راہ جدا تھی اور علامہ حسن زادہ کی راہ جدا تھی کیونکہ سید قاضی نے علامہ حسن زادہ کے بارے میں پیغام بھجوایا کہ تم کیسے ہماری راہ کے ہو سکتے ہو جبکہ اپنے گھر والوں پر رحم نہیں کرتے!! یہ واقعہ میں تحریف کرنا ہے ۔ کہاں یہ جملہ کہ تم ہماری راہ پر نہیں !! اور اوپر سے یہ کہ گھر والوں پر رحم نہیں کرتے!! حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ ایک مسئلہ ایک مرتبہ پیش آیا اور اس کے بعد کبھی پیش نہیں آیا اور وہ بھی یہ تھا کہ علامہ حسن زادہ آملی نے ایک دن اپنے بچوں کا ڈانٹ دیا نہ کہ اپنی خانم کو ۔ تب ان کے لیے سید قاضی طباطبائی نے یہ پیغام پہنچایا کہ وہ اس روش کے ساتھ کیسے مقامِ سیر و سلوک کی چاہتا رکھتا ہے۔ صرف ایک مرتبہ یہ پیغام دینا تھا اس کے بعد علامہ حسن زادہ آملی نے کبھی اپنے اہل خانہ کو ڈانٹا نہیں ۔ (استاد رمضانی کہتے ہیں) میں ہر روز کی طرح ایک دن ان کے گھر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت بچوں نے خوب شور مچایا ہوا تھا اور کھیل کود و شرارت میں مصروف تھے، میں نے آگے بڑھ کر علامہ ؒ کے محضر کے احترام میں بچوں سے خاموش ہونے کا کہا ۔ میرا یہ کہنا تھا کہ علامہ حسن زادہ آملی نے سختی سے مجھے کہا کہ انہیں کچھ نہ کہو ، تمہارا ان سے کیا کام ہے ، تم انہیں کھیلنے دو۔ انہیں تو اصل میری خانم برداش کرتی ہے اور حقیقت میں اسی برداشت کی بناء پر وہ حقیقت میں حسن زادہ ہے میں نہیں۔ اس لیے یہ بچے ہمیں تو کچھ نہیں کہہ رہے ۔ یہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ۔ اس لیے علامہ حسن زادہ آملی اس قدر محتاط تھے کہ بچوں کی کے کھیل کود پر کسی صورت انہیں کچھ نہ کہتے اور صبر و تحمل کی عظیم تصویر بن جاتے۔ یہ کل واقعہ تھا جسے اس شخص نے ٹی وی پر بیٹھ کر غلط بیان کیا اور تحریف کر کے سید علی قاضی اور علامہ حسن زادہ کی راہوں میں تعارض کر کے ذکر کیا جبکہ دونوں کی راہ ایک ہے اور سید علی قاضی بھی علامہ کے اساتیذ میں سے ہیں۔

مسئلہِ خلود: 

خلود قرآن کریم اور احادیث کے صریح احکام اور واضح نظریات میں سے ہے۔ البتہ عقلِ عرفی اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ ایک انسان نے اگر ۳۰ سال زندگی بسر کی ہے تو وہ اس کی جنت یا جہنم ہمیشہ کے لیے ہو !! ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنے سال جرائم اتنے سال عقوبت و سزا ۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ نے جس طرح سے اس بحث کو مطرح کیا ہے اس کے مطابق خلود مشکل مسائل میں سے ہے۔ اگر ہم عقلِ عرفی کو مانیں تو قرآن کریم کا انکار لازم آتا ہے اور اگر ہم قرآن کریم کی صریح آیات مبارکہ کو قبول کریں تو یہ نظریہ عرف عام کو سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ظاہری طور پر عقل عرفی اور بیاناتِ وحی میں تناقض نظر آتا ہے۔               نفسِ انسانی قابلیت رکھتی ہے اور جو جیسی قابلیت رکھتا ہے اسے وہی عطا ہوا ہے۔ اللہ تعالی سے ہر شیء جو صادر ہوئی ہے وہ حساب کتاب کے مطابق ہے ۔ یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو ایسی قابلیت دی ہے کہ وہ انبیاء ؑ میں شمار ہوتا ہے اور ایک کے پاس اشقی الاشقیاء کی قابلیت ہے ۔ یہ قابلیت کس نے دی؟ یقیناً مخلوق اللہ سبجانہ کی ہے اور اس کی جانب سے قابلیت ہے۔ پس متفاوت قابلیت کا ہونا کس اساس پر ہے؟

               اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کی طرف سے قابلیت کا ملنا یقیناً حکمت کے تحت ہے۔ جو ذات جیسی صلاحیت و استعداد رکھتی تھے وہ اللہ سبحانہ نے اسے عنایت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہر دو کی مدد اور ہر دو کے لیے فیض جاری ہوتا ہے۔ ایک کے لیے جنت اور دوسرے کے لیے جہنم تشکیل پائی جاتی ہے۔ پس ہر شیء کو بذاتِ خو د اس شیء کے مطابق اللہ تعالیٰ پروان چڑھاتا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ باقی رہتا ہے کہ ایک شیء کو قابلیتِ شیء کس نے دی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو مشکل ترین مسائلِ معرفتی میں سے ہے ۔ کیونکہ اس مسئلہ کو ہر کوئی صحیح نہیں سمجھ سکتا ۔ کیونکہ ہر ذات کی ذاتیات ذاتی ہے جنہیں وجود اللہ سبحانہ نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات عین وجود ہے جبکہ غیر اللہ کی ذات عین وجود نہیں ہے بلکہ ذات جدا ہے اور اس ذات کو وجود اللہ سبحانہ کی جانب سے ہے ۔اس کی مثال اس طرح سے دی جاتی ہے کہ آپ حروفِ تہجی لکھتے ہیں تو دال کو جیم کی طرح لکھیں؟! لکھی سکتے ہیں لیکن پھر وہ دال یا جیم نہیں رہے گا۔ پس آپ دال کو دال لکھتے ہیں اور جیم کو جیم کیونکہ ان حروف کا تقاضا ہے کہ اس طرح سے لکھے جائیں ۔ وجود تحریرمیں لانے والے آب ہیں اور آپ نے اس کے تقاضوں کے تحت اسے لکھا ہے۔ اسی طرح طبیب ہے جو مریض کا نسخہ لکھتا ہے لیکن کیا طبیب سب کا نسخہ یکساں لکھتا ہے یا نہیں بلکہ مریض کا مزاج اور مرض جس کا تقاضا کرتا ہے اس کے مطابق طبیب نسخہ لکھے گا۔ یہاں طبیب مجبور نہیں ہے بلکہ مریض کے تقاضوں کے تحتت نسخہ لکھ رہا ہے۔ اللہ سبحانہ مجبور نہیں ہے لیکن ہر ذات کو اس کے اندرون کے مطابق وجود عطا کرتا ہے اور وہ ذات اپنے اندرون کی اساس پر نشوونما پاتی ہے۔ اگر کوئی اس مسئلہ کو بہترین انداز میں سمجھ لے تو بحثِ خلود اس کے لیے حل ہو جائے گی۔

               ہر چیز کا سرآغاز جیساہے اس کا انجام بھی ویسا ہے۔ یہ دنیائے معرفت کا ایک ضابطہ ہے: غایات تابع ہیں ابتداء کے ۔ علامہ حسن زادہؒ فرماتے ہیں کہ الہٰی!  تمام لوگ اپنے انجام سے ڈرتے ہیں جبکہ حسن اپنے آغاز سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ ہر شیء اپنی قابلیت کے مطابق حرکت کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے اوراختیار سے ٹکراتا بھی نہیں ہے۔ پس قابلیت کی اساس پر نشوونما کا اختیار کے ہمراہ آنا کوئی منافات نہیں رکھتا ۔ وارد ہوا ہےکہ عمر سعد لعین واقعہ کربلا کے بعد امام سجادؑ کے پاس آیا اور تقاضا کیا کہ ایسا عمل بتائیں جس سے اپنے اس جرم کا ازالہ کر سکوں ؟ امام سجادؑ نے اسے نماز غفیلہ کی تعلیم فرمائی۔ جناب زینبؑ نے جب یہ سنا تو امام سجادؑ کی خدمت میں شکوہ کیا کہ اسے کیوں راہِ نجات کی طرف رہنمائی فرمائی ۔ امام سجادؑ نے فرمایا: میرا وظیفہ ہدایت و رہنمائی ہے لیکن پریشانی کی بات نہیں کیونکہ اس کو اس کی توفیق نہیں ملے اور یہ موفق نہیں ہو گا۔ یہاں اختیار رکھتا ہے عمر بن سعد لیکن وہ سوءِ خبث کی وجہ سے اس کو اختیار سے ترک کرے گا۔ ذوات کی یہی قابلیت اعیانِ ثابتہ سے تعبیر ہے۔ پس ہر ذات کا اپنی ذاتیات کی اساس پر تحقق پانا اور نشوونما پانا کسی صورت نظریہِ اختیار سے نہیں ٹکراتا ۔

               ذاتِ اصلی نہ کسبی ہے اور نہ قابل تغییر ہے۔ لیکن ایک قابلیت ایسی ہے جو کسبی ہے اور قابل تغییر بھی ہے، مثلاً اللہ سبحانہ نے قابلیت کی اساس پر علم عطا کیا اور اس کو پروان چڑھایا ۔ علم کا حصول کسبی ہے اور قابل تغییر ہے۔ لیکن وہ ذاتِ اصلی کی قابلیت جوکہ اس کی ذاتیات میں سے ہے وہ نہ کسبی ہے اور نہ قابل تغییر ہے۔ لہٰذا ایسا ہوتا ہے کہ ذات گوہر اور بہترین ہے لیکن جو اس نے کسب کیا ہے وہ بد ہے اور گناہوں سے آلودہ ہے ۔ لہٰذا اس نے جس کو کسب کیا وہ بد اور برائی ہے۔ اسی طرح ایسا ہو سکتا ہے کہ ذاتِ اصلی بد ہو لیکن جو کسب کیا وہ خیر اور بہترین ہے۔               ذاتِ اصلی کی ذاتیات جعل نہیں ہوئی اور نہ کسی نے عطا نہیں کی ۔ یعنی وہ اپنی ذاتیات کی مناسبت سے ازلی ہے جو کسی نے جعل اور عطا نہیں کی کیونکہ یہ ذات جو اپنی ذاتیات کے ہمراہ ہے اس کو اللہ سجانہ نے وجود دیا ہے اور اس ذات کو اللہ سبحانہ معدوم کر سکتا ہے۔ پس ذات کو وجود اور عدم سے ہمکنار اللہ تعالیٰ نے کیا ہے لیکن یہ ذات اپنی ان ذاتیات کے ہمراہ ذات بنی یہ کسبی ، عطائی اور دینے والی نہیں ہے ۔ ہاں اس ذات کو وجود یا عدم دینے کی بات آئے تو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا۔ اس بناء پر جو اپنی ذاتِ اصلی کے مطابق وجود میں آئے تو وہ اسی کا تقاضا کرے گی جو اس کی ذاتیات کا تقاضا ہے ۔ اس لیے جو اس کی ذاتیات سے باہر ہے اس کے نہ ہونے پر وہ نہ حسرت کا شکار ہو گی اور نہ تمنا کرے گی۔ اس طرف توجہ رہے کہ ذات اصلی کی ذاتیات کے مطابق خلقت ہے لیکن دوسرے درجہ میں کسبی ہے۔

عین۵۶: روح کا بعد از موت بدن کی حفاظت کرنا:

نو) عين فى أن النفس لها أن تخلف فى مادة بدنها العنصرى صورة تُستبقِى المادة على طبيعتها: قد علمت أن النفس جوهر روحانى النسج و السوس، وله أنحاء التعلقات والتصرفات فى العوالم، فلا بأس أن تفارق هذا البدن، وتخلف فيه صورة تستبقى المادة على طبيعتها بإشرافها عليه كأصحاب الكهف وأترابهم.[74]آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۵۔

اگر نفسِ انسانی قوت و تقویت پیدا کر لے تو باذن اللہ مرنے کے باوجود مادی بدن کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور اسے بوسیدہ کرنے اور مٹی مٹی ہونے سے بچا سکتا ہے۔ نفس کے پاس یہ قوت ہے کہ وہ مرنے کے بعد مادی بدن کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اگر نفس قوی نہ ہو تو پھر اپنے بدن کو بوسیدہ ہونے سے نہیں بچا سکتا۔ اس کی مثال اصحابِ کہف کی دی جا سکتی ہے کہ وہ تین سو سال بعد اٹھے تو ان کے بدن سالم تھے ۔ممکن ہے کہ کہا جائے کہ یہ تو نیند میں تھے اور سوئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کو موت حاصل نہیں ہوئی لیکن یہاں ایک قول ان کے مرنے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے ہیں۔ یہ قول ترجیح رکھتا ہے کہ اصحابِ کہف کی وفات ہو گئی اور اس کے بعد انہیں اللہ تعالیٰ نے تین سو سال بعد دوبارہ زندہ کیا جبکہ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ سوئے ہوئے تھے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو سورہ کہف میں بیان کیا ہے:{ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنينَ عَدَدا ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى‏ لِما لَبِثُوا أَمَدا…وَكَذلِكَ أَعْثَرْنا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لا رَيْبَ فيها؛تو ہم نے غار میں کئی برسوں تک ان کے کانوں پر پردہ ڈالا رکھا، پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کون سا گروہ اپنے ٹھہرے رہنے کی مدت کو شمار کر سکتا ہے …اور اسی طرح ہم لوگوں کو ان (احوال) سے باخبر کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچھا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ (بستی والے) لوگ ان (اصحافِ کہف) کے معاملہ میں آپس میں جھگڑ رہے تھے (کہ کیا کیا جائے؟) تو (کچھ) لوگوں نے کہا کہ ان پر (یعنی غار پر) ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ہی ان کو بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جو لوگ ان کے معاملات پر غالب آئے تھے وہ بولے کہ ہم ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ) بنائیں گے }.[75]کہف: ۱۱-۱۲-۲۱۔ یہ آیات بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک نوعِ موت سے ہمکنار کیا اور اگر ہم نیند بھی قرار دیں تو روایات میں وارد ہوا ہے کہ نیند موت کا بھائی ہے۔ابن سینا قائل ہیں کہ اصحاب کہف تکراری واقعہ ہے جوکہ فقط انہی اصحابِ کہف کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ وہ اصحاب کہف ایک مصداق تھے۔

رجعتِ عرفانی اور رجعت کلامی میں فرق:

ایک رجعتِ کلامی ہے اور ایک رجعتِ عرفانی ہے۔ رجعتِ عرفانی سے مراد ہےمقامِ  صُراح یا مقامِ اطلاق ہے جس میں عوالم سابقہ و لاحقہ میں نفسِ انسانی جا سکتا ہے۔ نفسِ انسانی جس عالم میں بھی ہو وہ اس عالم میں محدودو مقید نہیں ہے بلکہ سابقہ اور لاحقہ عوالم میں جا سکتا ہے۔رجعتِ کلامی کے مطابق آئمہؑ اس مادي دنیا میں پلٹیں گے ۔ رجعتِ کلامی زیادہ قابل دفاع نہیں ہے کیونکہ جو روایات اس باب میں آئی ہیں وہ بالمعنی اور فہمِ رواۃ ہے ورنہ یہ رجعت کا بہت مختصر اور تنگ معنی ہے جوکہ محال نہیں ہے لیکن قابل دفاع نہیں ہے کیونکہ اس پر برہان نہیں ہے۔ ایک اور معنی رجعت کا یہ ہے کہ مختلف اطوار و ادوار میں ہونا اور جانا ہے۔ احادیث مبارکہ زیادہ تر بالمعنی اور فہمِ رواۃ کی صورت میں منتقل ہوئی ہیں۔ اس لیے راوی نے کلامِ معصومؑ کو جیسا سمجھا وہ نقل کیا ہے ۔ آیا ’’راوی‘‘  کلامِ معصوم کو صحیح سمجھا یا نہیں یا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس لیے رجعت سے مربوط روایات کی صرف مادی دنیا میں بازگشت تشریح کرنا ممکن ہے فہمِ رواۃ ہے ورنہ رجعتِ عرفانی کے دو معنی بھی ان احادیث سے مراد ہو سکتا ہے ۔

عین ۵۷: مزاجِ عنصری اور روحانی:

نز) عين فى المزاج العنصرى والروحانى: النفس لها مركب آخر غير هذا المركب العنصرى، من جنس الدار التى تنتقل اليها فان للقوى الروحانية بحسب الفعل والانفعال واجتماعاتها امتزاجات روحانية تحصل منها هيأة وحدانية مسماة بالمزاج الروحانى، وهو لا يبطل ببطلان المزاج الجسمانى كما لا يوجب فناء تعين البدن فناء النفس الناطقة. وتلك الهيأة الوحدانية مصدر للاحكام والآثار الناتجة منها، والصورة الملكية تابعة لها، كما أن الصورة الطبيعية تابعة للمزاج الحاصل من العناصر المختلفة والكيفيات المتقابلة، والأحكام الظاهرة عليها إنما هى بحسب ذلك المزاج. [76]آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۵۔

نفس کا ایک اور مرکب ہے جو اس مرکبِ عنصری سے جدا ہے ۔ مزاج اجسام  فعل و انفعال سے حاصل ہوتا ہے۔ بدن کی طرح روحی مزاج بھی ہے۔ بعض عالم ، صابر، سخی ہوتے ہیں ۔ یہ حقیقت میں روحانی مزاج ہے۔ امام باقرؑ سے منقول ہے کہ سب سے بہترین مزاجِ روحانی علم و حلم کا باہمی اختلاط ہے کہ حلیم عالم کسی سے بھی اکتاتا نہیں ہے اور سب کے ساتھ تحمل و بردباری کے ساتھ پیش آتا ہے۔علامہ طباطبائیؒ حلم وعلم کے بلند و بالا پہاڑ تھے ۔ کوئی ان سے بے جا بحث کرتا یا بے جا طعن تشنیع کرتا کسی صورت غضب کا شکار نہیں ہوتے تھے۔پس روحانی مزاج کے بھی آثار ہیں۔روحانی مزاج سے جسمانی مزاج ختم نہیں ہو جاتا ۔ اس لیے اگر بدن فناء ہو جائے تو نفسِ ناطقہ فناء نہیں ہوتا۔ صورتِ ملکوتی نفس سے وابستہ روحانی مزاج اور اس ایک ہیئت کے تابع ہے جو تمام احکام و آثار کا مصدر ہے بالکل اسی طرح جیسے صورتِ ملکی مزاجِ بدنی کے تابع ہے۔

عین ۶۰: قیامت کی پانچ انواع:

س) عين فى أنواع الساعة والقلب وغيرهما : للنفس أنواع خمسة من الساعة أى القيامة { إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْ‏ءٌ عَظِيْم‏ٌ }، تلك الأنواع منها ما هو فى كل ساعة وآن، ومنها الموت الطبيعى ، ومنها الموت الارادى ، ومنها ما هو موعود منتظر للكلّ ، ومنها ما هو بالفناء للعارفين. وكذلك أنواع القلب خمسة: القلب النَفَسى ، القلب الحقيقى المتولد من مشيمة جمعية النفس ، القلب المتولد من مشيمة الروح أى القلب القابل للتجلى الوجودى الباطنى ، القلب الجامع المسخر بين الحضرتين ، والقلب الأحدى الجمعى ، كما أن اقسام كل واحد من : الذكر أعنى حقيقة الحمد ، والعرش ، والنون ، والحضرات ، والنكاحات خمسة . فراجع الى النكتة 663 من كتابنا الف نكتة ونكتة.[77]آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۶۔

عرفاء کی نظر میں پانچ عوالم ہیں جنہیں حضراتِ خمس کہتے ہیں:
۱۔ غیبِ مطلق:  ذاتِ الہٰی۔
۲۔ شہادت مطلق: عالم مادہ کو شہادتِ مطلق کہا جاتا ہے۔
۳۔ شہادت نسبی:عالم مثال میں جناب جبریلؑ حضرت مریمؑ کے لیے متمثل ہوئے اور آیت کریمہ میں ’’لھا‘‘ کی لام سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ تمثل فقط حضرت مریمؑ کےلیے متمثل ہوئے ۔ بقیہ کے لیے متمثل نہیں ہوئے۔ یہ شہادت نسبی اس لیے ہے کہ عالم مادہ بھی نہیں ہے اور عالم عقل بھی نہیں بلکہ عالم مثال ہے جہاں جناب جبریلؑ متثمل ہوئے۔
۴۔  غیبِ نسبی: ۔
۵۔ کونِ جامع : یعنی انسان کامل جوکہ ان تمام عوالم تک رسائی رکھتا ہے۔

انہی حضراتِ خمس (پانچ عوالم) کے مقابل پانچ قیامت ہیں۔ پس پانچ قیامتیں متصور ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جسے قیامت کہتے ہیں وہ قیامتِ کبری ہے۔ اس کے مقابلے میں قیامتِ صغری ہے کہ جو مر جاتا ہے اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے ۔ قیامتِ کبری ثبوتی ہے جس میں اذا الشمس کورت ہے اور قیامتِ صغری ثبوتی ہے جو مر جاتا ہے اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان قیامت اثباتی ہے ، یعنی قیامتِ کبری اثباتی اور قیامتِ صغری اثباتی ۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ موتوا قبل ان تموتوا، یہ قیامتِ صغری اثباتی ہے جس میں انسان مرنے سے پہلے اپنے نفس میں ہوائے نفس کو مار دے ۔ قیامتِ کبری اثباتی سے مراد نفس کے اندر تحوّل ایجاد ہو جائے اور انسانی اختیاری موت مر کر جنت و جہنم کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ قیامت کبری اثباتی میں انسانی نفس بہشت و جہنم کا مشاہدہ کرنے لگ جاتا ہے ،جنت کی نعمات اس کے سامنے آشکار ہو جائیں اور جہنم کا مشاہدہ کرنے لگ جائے ، جیساکہ جناب زید بن حارثہ ؓکا الکافی میں واقعہ وارد ہوا ہے :مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى وَ عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْوَابِشِيِّ وَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مِهْزَمٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ:‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص صَلَّى بِالنَّاسِ الصُّبْحَ فَنَظَرَ إِلَى شَابٍّ فِي الْمَسْجِدِ وَ هُوَ يَخْفِقُ وَ يَهْوِي‏ بِرَأْسِهِ مُصْفَرّاً لَوْنُهُ قَدْ نَحِفَ جِسْمُهُ وَ غَارَتْ عَيْنَاهُ فِي رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا فُلَانُ قَالَ أَصْبَحْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مُوقِناً فَعَجِبَ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنْ قَوْلِه‏ وَ قَالَ إِنَّ لِكُلِّ يَقِينٍ‏ حَقِيقَةً فَمَا حَقِيقَةُ يَقِينِكَ‏ فَقَالَ إِنَّ يَقِينِي‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ الَّذِي أَحْزَنَنِي وَ أَسْهَرَ لَيْلِي وَ أَظْمَأَ هَوَاجِرِي فَعَزَفَتْ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا وَ مَا فِيهَا حَتَّى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّي وَ قَدْ نُصِبَ لِلْحِسَابِ وَ حُشِرَ الْخَلَائِقُ لِذَلِكَ وَ أَنَا فِيهِمْ وَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَنَعَّمُونَ فِي الْجَنَّةِ وَ يَتَعَارَفُونَ وَ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ وَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ وَ هُمْ فِيهَا مُعَذَّبُونَ مُصْطَرِخُونَ وَ كَأَنِّي الْآنَ أَسْمَعُ زَفِيرَ النَّارِ يَدُورُ فِي مَسَامِعِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِأَصْحَابِهِ هَذَا عَبْدٌ نَوَّرَ اللَّهُ قَلْبَهُ بِالْإِيمَانِ ثُمَّ قَالَ لَهُ الْزَمْ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ فَقَالَ الشَّابُّ ادْعُ اللَّهَ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أُرْزَقَ الشَّهَادَةَ مَعَكَ فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِ النَّبِيِّ ص فَاسْتُشْهِدَ بَعْدَ تِسْعَةِ نَفَرٍ وَ كَانَ هُوَ الْعَاشِرَ.[78]کلینی، محمد بن حسن، الکافی، ج ۳، ص ۱۳۷۔ پانچویں قیامت یہ ہے کہ انسان ہر لحظہ طلوع و غروب رکھتا ہو جیساکہ زمین سورج کے گرد مسلسل حرکت میں ہونے کے باعث ہر لحظہ طلوع و غروب مختلف خطوں میں ہو رہی ہے۔

قلب بھی اسی طرح ہے کہ اس کی پانچ اقسام ہے جو جدا جدا خصوصیت رکھتا ہے۔ اسی طرح پانچ قسم کے نکاح ہیں جن میں سے ہم ایک نوع کا نکاح جانتے ہیں جن میں فعل و انفعال ہے ۔ان کی تفصیل مصباح الانس میں موجود ہے۔

اقسامِ قلب:

عین ۶۰ کے ضمن میں قلب کی اقسام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ عرفاء کی نظر میں عوالم پانچ ہیں ، اسی طرح قیامت کی بھی پانچ قسمیں ہیں ۔ انہی میں سے قلب کی بھی پانچ قسمیں ہیں جنہیں ’’فرغانی شارح تائیہ ابن فارض ‘‘نے منتہی المدارک میں بیان کیا ہے اور وہاں سے فنّاری نے مصباح الانس میں اس کو ذکر کیا جہاں سے علامہ حسن زادہ آملی نے سرح العیون میں اس کو نقل کیا ہے۔ قلب کی پانچ قسمیں درج ذیل ہیں:
۱۔ قلبِ نفسی: انسان ریاضت اور مقامات طے کر کے نفسِ انسانی تفرُّق سے نجات پیدا کر کے تجمُّع کو حاصل کر لے اور مادی مشغولیت و دنیاوی کثرت اس کو متاثر نہ کرے۔ اس کو صاحبِ دل بھی کہتے ہیں۔ مقامِ جمعی تک جو پہنچ جائے وہ صاحب دل کہلاتا ہے۔ یہ قلب کا پہلا مرتبہ ہے جس میں نفس کثراتِ خطورات اور کثرتِ تعلقات سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور مقامِ جمعی کو پا لیتا ہے۔جس کا قلب کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف یعنی تفرُّق کا شکار ہوتا ہے اس کو نفسِ مضطرب کہتے ہیں۔ اضطراب کی وجہ کثرتِ خیالات اور دنیا کے ساتھ کثرت تعلقات ہیں جس کو تفرُّق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۲۔ قلبِ حقیقی: روح کا مرتبہ نفس کے مرتبہ سے بالاتر ہے۔ بینِ روح اور بینِ نفس ایک لقاح اور ازدواج کی صورت پیدا ہوتی ہے جس سے ایک قلب وجود میں آتا ہے اور یہ قلبِ حقیقی کہلاتا ہے۔ یہ نفس کے رحم (مشیمہ) سے متولد ہوتا ہے ۔ مشیمہ سے مراد َحِم ہے جہاں سے یہ قلبِ حقیقی پیدا ہوتا ہے۔ پس روح اور نفس کے درمیان باہمی نکاح اور ازدواج سے نفس کے اندر سے قلبِ حقیقی متولد ہوتا ہے۔ نفس جب مقامِ جمعی تک پہنچ جاتا ہے تو روح اس کی طرف مائل ہوتی ہے اور روح کے نفس کے ساتھ اس میلان و میلاپ سے قلبِ حقیقی جنم لیتا ہے۔ پس نفس ماں اور روح باپ کا کردار ادا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں مشیمہِ نفس سے قلبِ حقیقی متولد ہوتا ہے۔
۳۔ قلب قابل تجلیِ وجودی باطنی: روح سے بالاتر مقام ’’مقامِ سرّ‘‘ ہے۔ تیسرا مرتبہِ قلب روح اور سرّ کے باہمی میلان و ملاپ سے روحِ کے مشیمہ (رحم) سے قلب قابل جنم لیتا ہے۔ اس صورت میں قلب محل تجلیِ باطنی بن جاتا ہے۔ اس میں روح ماں اور سرّ باپ کا کردار ادا کرتا ہے اور مشیمہِ روح سے یہ قلب متولد ہوتا ہے۔
۴۔ قلب جامع مسخر ِ حضرتین: جب باطن و ظاہر آپس میں تعلق پیدا کرے تو یہاں سے اس نوع کا قلب جنم لیتا ہے۔
۵۔ قلب احدی جمعی محمدی ﷺ: وہ قلب جو قاب قوسین او ادنی تک رسائی حاصل کر لے۔پھر قرآن کریم بیان فرماتا ہے:{
ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى‏ }.[79]نجم: ۸۔  تدلَّی کا ایک معنی آویزاں ہونے کے ہیں جس میں ایک شیء کے قریب دوسری شیء ہوتی ہے تو وہ پہلی شیء سے چپک جاتی ہے اور اس کے ذریعے آویزاں ہو جاتی ہے۔

اقسامِ عرش:

جس طرح عوالم پانچ قسم کے ہیں، اسی طرح قیامت اور قلب بھی پانچ قسمیں ہیں۔ اسی طرح ذکر اور عرش و نکاح کی بھی پانچ قسمیں ہیں۔ عرش کی پانچ قسمیں درج ذیل ہیں:
۱۔ عرش عظیم:اس سے مراد عرشِ جسمانی کہتے ہیں۔ کرسی سے مراد موجودہ اصطلاحات کے مطابق کہکشاں اور جس نے کرسی کا احاطہ کیا ہے وہ ہے جو کہکشاں سے بالاتر ہے۔
۲۔ عرش كريم:
۳۔عرش مجيد:
۴۔عرش ہویت: اس سے مراد عرشِ ھُو ہے جوکہ ماء پر ہے۔ ماء سے مراد حیات ہے۔ وہ عرش جس پر ہویتِ الہٰی مسلط ہے۔
۵۔عرشِ رحمانی: اس سے مراد قلبِ انسان کامل محمدی ﷺ ہے۔ قلبِ مومن عرشِ رحمان ہے ۔ یہاں قلبِ مؤمن سے مراد قلب محمدی ﷺ مراد ہےجوکہ تمام مراتب کو لیے ہوئے ہے۔

نون کی پانچ اقسام:

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:{ ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُون‏}.[80]قلم: ۱۔
۱۔ نونِ اول ام الکتاب اور تعیُّنِ اول ہے ۔
۲۔ نون دوم سے مراد عمیاء ہے۔ جسے کہا جاتا ہے ۔ یہ مقام صدرِ اول ہے ۔   آغازِ خلقت ہے لیکن ہم آغاز خلقت سے واقف نہیں ہیں اور اس کے بارے میں سوالات کے جوابات ہمارے دائرہ سے باہر ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ خلقت سے پہلے آپ کا ربّ کہاں تھا ؟ آپ ﷺ نے تشبیہ معقول بالمحسوس کے اسلوب سے جواب دیا : وہ عماء میں تھا، نہ ہوا سے اوپر تھا نہ زمین کے نیچے تھا۔ یہاں مراد تجرد کی طرف اشارہ ہے۔ نونِ دوم عماء ربوبیت سے عبارت ہے۔
۳۔ نونِ سوم سے مراد خماء عبودیت: اعیانِ قوابل جوکہ اسماءِ فواعل کے مقابل میں ہے۔
۴۔ نونِ چہارم سے مراد نفسِ کلی جسے ام الکتاب المبین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۵۔ نون پنجم سے مراد عالم وجودی ہے جسے عالم محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

نکاح کی پانچ اقسام:

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے: { وَمِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُون‏ }.[81]ذاریات: ۴۹۔ نکاح سے مراد فعل و انفعال ہے۔ ہم نکاح کی ایک قسم سے آشنا ہے جوکہ نکاح حیوانی و نباتی ہے۔بالاترین مرتبہ سے نیچلے مرتبہ تک اللہ تعالیٰ نے زوجین اور تناکح کا سلسلہ قائم کیا ہے۔
۱۔ اولین اسماء جنہیں غیبِ ہویت اور حضرتِ کونیہ کی مفاتیح کہا جاتا ہے کا جمع ہونا توجہِ ذاتی الہٰی کے ساتھ، اس اعتبار سے کہ اسماءِ اصلیہ جمع ہوتے ہیں ظہور ، بطون ، وجوب  اور امکان کی نسبت سے۔ ۔ بالاترین نکاح کا مرتبہ اسماء کا باہمی تناکح ہے۔
۲۔ نکاح دوم: نکاحِ روحانی ہے جس سے مراد عالم معانی میں جمع کا واقع ہونا ہے تاکہ ارواح تولید ہوں ۔ دوسرا تناکح معانی اعیانی ہے جس میں اعیانِ ثابتہ میں معنی دیگر معنی سے ربط قائم کرتا ہے
۳۔ نکاحِ سوم سے مراد طبیعی ملکوتی ہے کہ اجتماع کا وقوع مرتبہِ طبیعت میں ارواح کی توجہات کے اعتبار سے ہو۔  تیسری قسم تناکح روحی ہے جس میں دو عقلِ مجرد فعل و انفعال انجام دیتے ہیں ۔
۴۔ چوتھی قسم تناکح مثالی ہے۔
پانچویں قسم عالم طبیعت میں اشیاء کا باہمی تناکح ہے۔ بالاترین سے پائین ترین مرتبہ تک تناکح وجود رکھتا ہے۔[82]فنّاری، حمزہ، مصباح الانس فی شرح مفاتیح الغیب، ص ۴۰۰۔

حمد کی پانچ اقسام:

حمد کی پہلی قسم بالاترین مرتبہِ حمد اللہ تعالیٰ کی اپنے بارے میں حمد کرنا ہے جسے حمدِ ذاتی کہتے ہیں۔اس کے بعد دوسری قسم حمدِ صفاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ صفات کو ظاہر فرماتا ہے۔ اس کے بعد تیسری قسم حمدِ افعالی ہے جس میں فعل الہٰی لائق حمد ہے۔ چوتھی قسم حمدِ حالی ہے۔ پانچویں قسم حمدِ لسانی ہے۔

عین ۶۱: علم و عمل کا جوہر ہونا:

سا – عين فى أن العلم والعمل جوهران: الإنسان ليس إلا علمه وعمله ، وهما يتّحدان بالنفس اتحادا وجوديًا بل الأمر أشمخ من الاتحاد. ولك أن تقول من حيث أنهما يتّحدان بالنفس وجودا فهما فوق المقولة. والعلم مشخص الروح الإنسانى والعمل مشخص بدنه الأخروى ، وهذا سر مكنون ، وهو الفتاح العليم. [83]آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۶۔

عالم طبیعت میں ہر شیء کی اساس پانی پر ہے۔ مادی دنیا میں زندگی کی بقاء پانی پر ہے۔ جہاں پانی ہے وہاں ہمیں حیات نظر آتی ہے جس کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ پانی پر زندگی موقوف ہے۔ انسانی جسم جس طرح پانی پیتا ہے اور روٹی کھاتا ہے اور بیماری سے نجات پا کر صحت حاصل کرتا ہے اسی طرح روح بھی پانی پیتی ہے ، خوراک و غذا کھاتی ہے اور بیماری سے چھٹکارا پا کر صحت مند و تندرست ہوتی ہے۔  روح کا پینا علم اور کھانا عمل ہے۔ روح کے لیے پانی جسے وہ پی کر اپنی پیاس بجھاتی ہے اور زندگی حاصل کرتی ہے وہ علم ہے اور جس روٹی اور خوراک کو کھا کر روح صحت مند تندرست و توانا ہوتی ہے وہ غذا عمل ہے۔

روح کی حیات جس پر موقوف ہے وہ علم وعمل ہے۔  روح کی حیات  و زندگی شعور اور  علم پرموقوف  ہے۔ روح میں حیات اور علم میں عینیت ہے۔ حرکت ہے تو علم ہے اس لیے شکمِ مادر میں جب بچہ مستقر ہو جائے تو آیات و دعا پڑھنا چاہیے کیونکہ اس کا اثر ہے اور وہ حرکت کے ساتھ علم حاصل کرتا ہے۔ شکم مادر میں بچہ چیزیں سنتا ہے لیکن پیدائش پر فراموش کر دیتا ہے۔ علامہ طباطبائی کے بارے میں شہید مطہری بیان کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے میں جب اپنی ماں کے شکم میں تھا اور وہ تلاوت کرتی تھیں تو وہ آیات مجھے ابھی بھی یاد ہیں۔ انسانی وجود علم پر حیات پاتا ہے اور اس کی وسعت و نشوونما علم پر موقوف ہے۔نفس ناطقہ سب سے پہلے عقل ہیولانی کے مرحلہ پر ہوتا ہے جہاں وہ کچھ نہیں جانتا لیکن جان سکتا ہے اور حواس کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون‏ }.[84]نحل : ۷۸۔  شکمِ مادر سے انسان جب باہر ہوتا ہے تو عقل ہیولانی کے ہمراہ ہوتا ہے اور سماعت و بصارت سے علم حاصل کرتا ہے اور دل کے اثرات اس پر نمایاں ہوتے ہیں تاکہ انسان شکر کر سکے۔ پھر عقل بالملکہ ، پھر عقل بالفعل اور پھر عقل بالمستفاد کے مرحلہ پر فائز ہوتا ہے۔

فلسفہِ مشاء کے مطابق علم کیفِ نفسانی اور عمل مقولہِ یفعل یا أن ینفعل ہے لیکن حکمتِ متعالیہ اس کو قبول نہیں کرتی بلکہ علم و عمل جوہر ہے بلکہ جوہر و عرض سے مافوق ہے۔ پس فلسفہ مشاء کا نظریہ قبول نہیں کہ علم و عمل اعراض میں سے ہے ۔ بعض نے یہ کہا کہ یہ دونوں جوہر ہیں لیکن یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ جوہر و عرض  ماہیت کی قبیل سے ہے جبکہ علم و عمل دونوں وجود کی قبیل سے ہے اس لیے علم و عمل جوہر نہیں بلکہ نور ہے۔ حقیقتِ علم و معرفت نور و وجود ہے نہ کہ جوہر و اعراض یا ماہیت۔ ایک فعل یا عمل کی نسبت انسان کی طرف اس وقت ہوتی ہے جب انسان کی اس عمل کی طرف توجہ ہو اور وہ اختیاری حالت میں اسے انجام دے۔ اس لیے اگر انسان سوتے ہوئے ایک چیز پر ہاتھ یا پاؤں مارتا ہے اور وہ ٹوٹ جاتی ہے تو یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ اس نے توڑا ہے کیونکہ اس کی توجہ نہیں تھی۔ پس انسان آفرین یا ناآفرین کا مستحق اس وقت ہوتا ہے جس اس کی توجہ ہو اور وہ اختیار سے انجام دے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے تھے کہ یہ لفظ ناآفرین تھا جو نَفرین مخفف ہو گیا۔ پس نِفرین غلط ہے ، اصل ناآفرین ہے جو آفرین کے مقابلے میں ہے اور مخفف ہو کر نَفرین بن گیا ۔ اس لیے نِفرین پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ انسانی عمل جس کی اس کی طرف نسبت دی جا سکتی ہے وہ انسان کی روح کے بدن کو مشخص کرتا ہے۔ علم سے روح کی صورت اور عمل سے بدن مشخص ہوتا ہے ۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ عالم کا عمل جاہل کی ستَّر سال کی عبادت سے افضل ہے ۔ یہاں عالم سے مراد کفایہ و مکاسب کی اصطلاحات کا حافظ اور بہترین ضمیریں پلٹانے والا اور بہترین تدریس کرنے والا نہیں ہے کہ یہ کفایہ و فلسفہ پڑھنے والا سو جائے تو جاہل کی راتوں کی عبادت سے افضل ہے!! ہر گز یہ مراد نہیں ہے بلکہ عالم سے مراد وہ شخص ہے جو معرفت اور شعور کی بنیاد پر عمل انجام دیتا ہے۔ جس کے عمل کی بنیاد علم اور شعور و بصیرت ہو اس کی نیند جاہل کی عبادت سے فضیلت رکھتی ہے۔

عزت اور شرف میں فرق ہے۔ عزت و شرف میں واؤ تفصیلی نہیں ہے بلکہ ہر دو فعل کا معنی جدا ہے۔ ہر عمل کے دو بُعد ہوتے ہیں: ۱۔ انجام دینا، ۲۔ ترک کر دینا، اگر انسان کسی عمل کو ترک کرے تو یہ عزت ہے اور انجام دینا شرف ہے۔ اعمالِ حسنہ کو انجام دینا شرف اور اعمالِ بد کو ترک کر دینا عزت ہے۔

عین ۶۲: جزا کا عینِ عمل ہونا

(سب) عين فى أن الجزاء فى طول العلم والعمل ، بل هو أنفسهما: كلّ ما يلاقيه الإنسان فى الآخرة ليس إلا غايات أفعاله ، وصور أعماله ، وآثار ملكاته : { وَما تُجْزَوْنَ إِلاَّ ما كُنْتُمْ تَعْمَلُون‏ }،[85]صافات: ۳۹۔ فإنّ العلم والعمل مقوِّما النفس ومشخّصاها ، والمعرفة بذر المشاهدة ، والملكات موادّ الصور البرزخية من الأبدان المكسوبة والمكتسبة { جَزاءً وِفَاقًا }،[86]نبأ: ۲۶۔  { كُلَّما رُزِقُوا مِنْها مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقاً قالُوا هذَا الَّذي رُزِقْنا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً }، [87]بقرہ: ۲۵۔   > إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ‏ تُرَدُّ إِلَيْكُمْ  < ، [88]مجلسی، محمد باقر ، بحار الانوار، ج ۳، ص ۹۰، باب ۴۔  { إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ }. [89]ہود: ۴۶۔

دین کے پانچ معانی ہیں جن میں سے ایک معنی ’’جزاء‘‘ ہے۔ مالک یوم الدین یعنی روزِ جزاء کا مالک۔ بقیہ چار معانی جزاء کا نتیجہ ہے ۔ یہ تمام معانی درج ذیل ہیں :
۱۔ دین بمعنی ذلیل ہونا
۲۔ دین بمعنی عزت دار ہونا
۳۔ دین بمعنی انقیاد اور سر تسلیم خم کرنا
۴۔ دین بمعنی معصیت انجام دینا
۵۔ دین بمعنی جزاء

حقیقت میں یہ سب معانی جزاء کا نتیجہ ہیں کیونکہ جزاء انہی ذلیل و عزت سے ہمکنار اعمال کا نتیجہ ہے۔ جزاء عینِ عمل ہے۔ جہنم سوائے عصیان کے کچھ نہیں اور بہشت سوائے اطاعت کے کچھ نہیں ہے۔ جزاء علم و عمل کے طول میں ہے بلکہ نفسِ عمل جزاء ہے۔ ایک چہرہ دنیاوی ہے اور ایک چہرہ اخروی ہے۔ دنیاوی طور پر دیکھیں تو عمل ہے اور اخروی اعتبار سے دیکھیں تو جزا ہے۔ ہمارے اعمال اخروی بدن اور ہمارا علم ہماری صورت بن جائے گا۔روز قیامت اور قبر میں انسان اپنے علم و عمل کے دسترخوان پر ہو گا۔ منحرف افکار و نظریات باطل اور فاسد اعمال کی انجام دہی کا باعث بنتے ہیں اور ہر دو جہنم کا باعث ہیں۔ جزاء کو علم و عمل کا طول کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں علم اور عمل دکھائی دیتا ہے لیکن آخرت میں جزاء کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ورنہ جزاء عینِ علم و عمل ہے۔ آخرت میں انسان جس کو پائے گا وہ فقط اس کے اعمال کے نتائج ، اس کے اعمال کی صورتیں اور اس کی ملکات کے آثار ہیں ، جیساکہ آیات کریمہ میں وار ہوا ہے: تمہیں کچھ جزاء نہیں ملے گی سوائے جو تم عمل انجام دیتے رہے ہو  }، [90]صافات: ۳۹۔پس یہاں تین مراتب میں اس مطلب کو بیان کیا گیا ہے:
۱۔ علم و عمل کے طول میں جزاء ہے۔
۲۔ جزاء عینِ علم و عمل ہے۔
۳۔ جزاء خودِ انسان ہے ۔ آخرت میں انسان کی روح اور اخروی بدن یہی جزاء ہے۔
۴۔ جنّت و جہنم سوائے انسان کے کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا انسانِ جہنمی کو لے کر آنے کا مطلب جہنم کو لے کر آنا ہے۔ اسی طرح انسانِ بہشتی کو لے کر آنے کا مطلب بہشت کو لانا ہے۔ چنانچہ جہنم سے فرار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی بہشت بہشتی سے چھن سکتی ہے۔

سورہ ہود میں جناب نوحؑ کے بیٹے کے بارے وارد ہوا ہے کہ وہ عمل غیر صالح ہے۔ حضرت نوحؑ کو اللہ سبحانہ نے فرمایا تھا کہ تمہارے اہل کو میں نجات دوں گا۔ جب نوحؑ کا بیٹا غرق ہوا تو انہوں نے بارگاہِ الہٰی استدعاء کی کہ یہ میرے اہل سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے اہل سے نہیں ہے کیونکہ یہ عملِ غیر صالح ہے۔ اس آیت کریمہ کے مطابق پسرِ نوحؑ کی شخصیت کو عمل غیر صالح قرار دیا گیا جوکہ اس مطلب سے سب سے زیادہ سازگار معنی ہے ۔ بعض نے عمل کو مضاف قرار دیا ہے غیر صالح کی طرف جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ بیٹا غیر صالح شخص کا عمل ہے ۔ یعنی نعوذ باللہ حضرت نوحؑ کی زوجہ نے کسی شخص کے ساتھ زنا کیا جس کے نتیجہ میں یہ بیٹا پیدا ہو!! یہ بات درست نہیں اور باطل ترین قول ہے۔ بلا شک وشبہ حضرت نوحؑ کی زوجہ بد تھی لیکن بدکردار اس پہلو سے نہیں تھی۔ دو نبیوں کو اپنی قوم میں ناکامی کا بڑے پیمانے پر سامنے کرنا پڑا کیونکہ ان کی زوجہ اور گھرانہ مکمل طور پر ان کے ساتھ نہیں تھا جیساکہ حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی زوجات کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ اسی طرح کامیاب ترین نبی حضرت عیسیؑ اور رسول اللہ ﷺ ہیں چونکہ ان کے گھرانے کے خواتین کامیاب اور پاکیزہ ترین خواتین تھیں یعنی جناب مریمؑ اور جناب فاطمہ ؑ و جناب خدیجہؑ ۔ انہی میں حضرت موسیؑ کو شامل کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی والدہ نے بھی بہت بڑی قربانی دی۔ پس گھرانہ کا اثر گہرے طور پر سامنے آتا ہے۔قاعدہ و ضابطہ ہے کہ تمام اچھے کام کسبی ہیں جبکہ تمام برے اور فاسد کام اکتسابی ہیں۔ ملکاتِ خوب کو مکسوبہ اور ملکاتِ بد کو مکتسبہ کہا گیا ہے۔

عین ۶۳: تجسم اعمال اور جسم دہری کا بیان

سج) عين فى تجسم الأعمال: التجسم من الجسم بمعناه الدهرى ، ويعبّرون عن تجسّم الأعمال بتمثل الأعمال، وبتجسد الاعمال , وبتجسُّم الأعراض أيضا، لأنّ الأعمال وإن كانت بحسب صورها العنصرية أعراضا، ولكنّ الملكات الحاصلة منها متجسّمة فى صقع النفس قائمة بها قيام الفعل بفاعله، فإن خزانة سعى أعمال الانسان هو الإنسان نفسه، { وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلاَّ ما سَعى‏ } [91]نجم: ۳۹.
باش تا از خواب بيدارت كنند *** در نهاد خود گرفتارت كنند
أوائل المقالات للمفيد فى مسائلة القبر: > قيل انما سمى ملكا الكافر ناكرا و نكيرا لأنه ينكر الحق و ينكر ما يأتيانه به و يكرهه، وسمى ملكا المؤمن مبشرا وبشيرا لأنّهما يبشرانه من الله تعالى بالرضا و الثواب المقيم، وأن هذين الاسمين ليسا بلقب لهما وانهما عبارة عن فعلهما. < انتهى . وهذا التفسير كلام كامل فى غاية الجودة . ونعم ما قيل بالنظم الفارسى:
دگر باره بوفق عالم خاص *** شود اعمال تو اجسام و اشخاص. [92]آملی، علامہ حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۲۷۔

اس عین میں تجسم اعمال سے متعلق مطالب کو ذکر کیا گیا ہے۔ تجسم اعمال کو تمثل اعمال اور تجسُّدِ اعمال سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب تجسُّمِ اعمال کہا جاتا ہے تو تجسُّم سے مراد جسمِ مادی نہیں بلکہ جسم دہری ہوتا ہے۔ جسم مادی اور جسم دہری میں فرق یہ ہے کہ جسمِ مادی طول، عرض اور عمق میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جسمِ دہری قائم بالذات ہوتا ہے۔ اس دنیا میں روح کا تعلق جسمِ مادی کے ساتھ ہے جبکہ آخرت میں روح کا بدن ’’جسم دہری‘‘ ہو جوکہ قائم بالذات ہو گا۔اللہ تعالیٰ پر جسم مادی کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جسم مادی سے پاک اور منزہ ہے البتہ جسم دہری کے معنی میں اللہ تعالیٰ کو جسم کہا جا سکتا ہے جیساکہ ملا صدرا نے ذکر کیا ہے۔ جسم دہری کا مطلب قائم بالذات ہے اور اللہ سبحانہ قائم بالذات ہے جس کی وجہ سے علمی اصطلاح کا اطلاق ذاتِ باری تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ بعض کم فہم لوگ فلاسفہ کی اصطلاحات پر دقت نہ کرنے کی وجہ سے جب دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر جسم کا اطلاق کیا ہے تو فوراً لعن طعن شروع کر دیتے ہیں جوکہ غیر شرعی و غیر اخلاقی امر ہے۔ پہلے مراد سمجھنی چاہیے اس کے بعد نظر دینی چاہیے۔ پس حکماء اللہ تعالیٰ کے مادی جسم جوکہ تین جہات رکھتا ہے کہ قائل نہیں ہیں لیکن جسمِ دہری بمعنی قائم بالذات کے قائل ہیں۔

۔

عین ۶۴: انسان کا نوع اور جنس ہونا

سد – عين فى ان الانسان فى هذه النشأة نوع تحته أفراد , و فى الاخرة جنس تحته أنواع: تذكر ما فى الثالثة والخمسين، ثم اعلم أنّ النفس الانسانية فى هذه النشأة صورة الهيولى، وفى الاخرة هيولى الصور الأخروية، فإنّ ملكات العلوم والأعمال موادّ الصور البرزخية، وتلك الصور إما أبدان مكسوبة، إن كانت المواد حسنة، وإما ابدان مكتسبة، إن كانت سيئة { لَها ما كَسَبَتْ وَعَلَيْها مَا اكْتَسَبَت‏ }، [93]بقرہ: ۲۸۶۔ وتلك الملكات كالأرواح لِتَلك الأظلال، أعني أجسادها البرزخية وأبدانها الأخروية، وروح الأرواح هى النفس الانسانية، تفصيلها يطلب فى الدرس 23 من كتابنا دروس اتحاد العاقل بالمعقول، فالإنسان نوع ٌواحدٌ متفق الافراد فى هذا العالم، وأما فى الاخرة فأنواعه متكثّرة لا تحصى بحسب صور تناسب ملكاتها. وفى القرآن : { وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت‏ [94]تکویر: ۵۔ وفى النهج: > صُورَةُ إِنْسَانٍ‏ وَالْقَلْبُ قَلْبُ حَيَوَان‏ <. [95]آملی، علامہ حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۲۷۔

۔

منابع:

منابع:
1 آملی، حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون،ص ۱۶، طبعہ: ۷، ۱۴۴۰ھ۔
2 حدید: ۱۳۔
3 فصلت: ۲۱۔
4 نحل:۷۸۔
5 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۸، ص ۳۸۲۔
6 بقرہ: ۱۵۴۔
7 فرات، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، ص ۵۸۱۔
8 حلی، حسن بن سلیمان ، مختصر البصائر، ص ۳۳۶۔
9 مؤمنون: ۱۴۔
10 مریم: ۱۷۔
11 ابن شہر آشوب، محمد بن علی،مناقب آل ابی طالب ع، ج ۱، ص ۱۷۹۔
12 نجم: ۹-۸۔
13 ابن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۷۸۔
14 آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۷۱۲، ح:۱۵۱۔
15 قاضی عیاض،منسوب الی الامام الصادق ع،  مصباح الشریعۃ، ص ۱۳۔
16 یس: ۷۹۔
17 یس: ۸۱۔
18, 53 حجر: ۲۱۔
19 نحل: ۷۸۔
20 مؤمنون: ۶۲۔
21 حجر: ۲۱۔
22 صدوق، محمد بن علی، التوحید، ص ۱۳۳، حدیث: ۱۷۔
23 شریف شیرازی،  محمد ہادی، الکشف الوافی فی شرح اصول الکافی، ص ۴۴۹۔
24 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۵۔
25 ذاریات: ۵۶۔
26 بقرہ: ۲۵۵۔
27 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۲۸، خطبہ ۱۰۸۔
28 نبأ: ۱۸۔
29, 33 تکویر: ۵۔
30 سید رضی، نہج البلاغہ، ص 1۱۶۸، خطبہ ۸۷۔
31 ہود : ۴۶۔
32 عبس: ۲۴۔
34 دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب الی الصواب، ج ۱، ص ۱۴۔
35 شیخ طوسی، محمد بن حسن ، مصباح المتہجد، ج ۱، ص ۵۰۴۔
36 حجر: ۴۳-۴۴
37 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۱، ص ۶۸۔
38 قطب الدین راوندی، ضیاء الشہاب فی شرح شہاب الاخبار، ص ۴۲۰، حدیث: ۶۷۳۔
39 یس: ۸۲۔
40 نور: ۳۵۔
41 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۵۸۔
42 شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۴۱۔
43 ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۱۱۹۔
44 فضیل بن عیاض، مصباح الشریعۃ (منسوب از طرف امام صادقؑ) ، باب ۶، ص ۱۶۔
45 طہ: ۵۰۔
46 اسراء: ۸۴۔
47 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳ ،ص ۴۶۔
48 بقرہ: ۱۱۵۔
49 شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ج ۱، ص ۳۰۶۔
50 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۲۶۶۔
51 آملی، حسن زادہ ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۱۸-۱۹، عین ۴۳، مج۔
52 یس: ۱۲۔
54 بقرۃ: ۲۵۳۔
55 آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۰۔
56 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۶۴۱۔
57 آملی، حسن زادہ، مسائل عیون النفس، ص ۲۱۔
58 شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۲۴۹، فصل ۵۰۔
59, 62 فصلت: ۵۳۔
60 آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۱، عین: ۴۸۔
61 یس: ۱۲۔
63 نمل: ۴۰۔
64 آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۲، عین: ۴۹۔
65 یس: ۸۲۔
66 آملی، حسن زادہ، عیون مسائل النفس، ص ۲۲، عین: ۴۹۔
67 عنکبوت: ۵۷۔
68 رحمن: ۲۶۔
69 قصص: ۸۸۔
70 فجر: ۲۷-۲۸۔
71 فاطر: ۲۲۔
72 انفطار: ۴۔
73 حجر:۲۱۔
74 آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۵۔
75 کہف: ۱۱-۱۲-۲۱۔
76 آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۵۔
77 آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۶۔
78 کلینی، محمد بن حسن، الکافی، ج ۳، ص ۱۳۷۔
79 نجم: ۸۔
80 قلم: ۱۔
81 ذاریات: ۴۹۔
82 فنّاری، حمزہ، مصباح الانس فی شرح مفاتیح الغیب، ص ۴۰۰۔
83 آملی، حسن زادہ ،سرح العیون فی شرح العیون،  ص ۲۶۔
84 نحل : ۷۸۔
85, 90 صافات: ۳۹۔
86 نبأ: ۲۶۔
87 بقرہ: ۲۵۔
88 مجلسی، محمد باقر ، بحار الانوار، ج ۳، ص ۹۰، باب ۴۔
89 ہود: ۴۶۔
91 نجم: ۳۹.
92 آملی، علامہ حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۲۷۔
93 بقرہ: ۲۸۶۔
94 تکویر: ۵۔
95 آملی، علامہ حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۲۷۔
Views: 886

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نفس انسانی کی قوتیں
اگلا مقالہ: قوت خیال حقیقت کے آئینے میں