loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۸}

خانہ کعبہ آزادی کا سمبل

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

خانہ کعبہ کے بہت سے نام ہیں۔ ان میں سے ایک معروف نام «بیت العتیق» ہے۔ بیت العتیق یعنی آزادی کا گھر۔ چونکہ خانہ کعبہ آزادی کا سمبل ہے اس لیے اسے بیت عتیق کہا جاتا ہے۔ امام باقرؑ سے روایت منقول ہے جس میں وارد ہوا ہے:«لانه بیت حر عتیق من الناس و لم یلملکه احد»؛امامؑ فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کسی ہمیشہ آزاد رہا ہے اور کوئی بھی ستمگر اس پر قبضہ نہیں جما سکا [1] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۹۹، ص۵۹۔ اس لیے اسے بیت عتیق کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ خانہ کعبہ اسلام میں آزادی کا سمبل قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو ہر آن آزادی کی طرف متوجہ رکھنے کے لیے واجب قرار دیا گیا کہ خانہ کعبہ یعنی آزادی کے گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ یا مثلا بہت سے کام قبلہ رخ کر کے انجام دیے جائیں جیسا کہ قرآن کریم کی تلاوت ہے۔ قرآن کریم نے آزادی کے اس سمبل کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا ہے اور مسلمانوں کو دور دراز زمینوں سے دعوت دی کہ وہ آئیں اور اس آزادی کے سمبل کے گرد طواف لگائیں اور اس کی تقدیس انجام دیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:«فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ»؛ اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو۔[2] بقرہ: ۱۴۴۔

قبلہ کی طرف رخ کرنے کی حکمت

دین اسلام نے مسلمانوں کو بہت سے کاموں کو قبلہ رخ ہو کر انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ اعمال کو بیت عتیق سے مربوط کیا جاۓ۔ مثلا نماز کے بارے میں حکم دیا کہ نماز بجالانے کے لیے سب مسلمان قبلہ رخ ہوں یعنی ایک جماعت ہو کر ایک وقت میں اس آزادی کے سمبل کی طرف کھڑے ہو جائیں اور عبادت خدا بجا لائیں۔ نماز یعنی عبادت، عبادت یعنی عبدِ خدا بننا۔ عبادت قبلہ رخ ہو کر کیوں انجام دیں بھلا؟ اس لیے کہ اگر آپ عبدِ خدا ہیں تو آزاد ہیں ورنہ نہیں! نماز کو آزادی کے سمبل کی طرف رخ کر کے قائم کریں۔ اسی طرح بعض افعال کے بارے میں حکم آیا کہ ان کاموں کو انجام دیتے ہوۓ قبلہ رخ مت ہوں بلکہ حرام قرار دیا۔ جیسا کہ بیت الخلاء میں قبلہ رخ ہونا یاقبلہ کی طرف پشت کرنا منع ہے۔ اس سب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ انسان کی عبادات اور افعال کو خانہ کعبہ سے ربط دیا جاۓ، حتی فرمایا کہ اگر انسان اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہو تو اس کو قبلہ رخ لٹا دو، خانہ کعبہ کی طرف بار بار متوجہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ یہ در اصل اس امر کے لیے ہے کہ شخصِ مسلمان ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ رہے کہ اپنی آزادانہ حیات کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالی نے اسے آزاد خلق کیا ہے اور اپنی آزادی کو کسی قیمت غلامی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ اور بالخصوص اپنی معنوی اور فکری آزادی کے بارے میں ہمیشہ متوجہ رہے کہ ناقص فاسد نظریات، و عقائد اسے گمراہ کر کے اپنا اسیر نہ بنا لیں۔

آزادی ۔ انبیاء الہیؑ کا درس

سب سے پہلے انسانوں کو آزادی کا درس انبیاء الہیؑ نے دیا۔ انبیاء الہیؑ خود آزادی خواہ تھے اور لوگوں کو بھی آزاد ہونے کی تلقین کرتے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نبیؑ نے وقت کے زمانے کے ستمگروں سے مبارزہ کیا۔ اگر ستمگروں سے آشتی کرتے تو ممکن تھا راحت بخش زندگی گزارتے تاہم فکری غلامی کے ہمراہ۔ جو کہ حقیقی آزادی کے برخلاف تھا اس لیے نا صرف خود اپنی ذات کو ستمگروں سے نجات دیتے بلکہ اپنی امتوں کو بھی نجات دینے کی کوشش کی۔ بالخصوص رسول اکرمﷺ کہ جنہوں نے انسانوں کو حقیقی آزادی کا معنی بتایا اور حقیقی آزادی امتوں کو عطا بھی کی۔ صاحبِ تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں:

’’بعض افراد کا خیال ہے کہ آزادی، ڈیموکریسی اور حقیق بشر کو مغربیوں نے سب سے پہلے بیان کیا ہے، جبکہ اسلام نے ۱۴۰۰ سال پہلے ان معارف کو قوی مبانی اور بہترین طریقے سے بیان کیا ہے۔ لیکن مغربیوں نے غلط پروپیگنڈے سے یہ بات معاشروں اور قوموں کے ذہن میں ڈال دی کہ حقوقِ بشر کو سب سے پہلے ہم نے بیان کیا ہے۔‘‘[3] طباطبائی، محمد حسین، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۶، ص۵۰۶۔

یہ اس دور کی بات ہے کہ جب اس طرح کی باتیں حوزہ جات علمیہ میں بہت مستور تھیں۔ بہت کم افراد ان مطالب کی طرف متوجہ تھے۔ لیکن علامہ طباطبائیؒ نے آج سے نصف صدی پہلے ان مطالب کو نا صرف بیان کیا بلکہ بصورت مشہود، برہانی، عقلی اور تحلیلی صورت میں پیش کیا اور طلاب دینی و مومنین پر ایک طرح سے احسان کیا۔ اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہ موضوعات مغربی دنیا اور عالم اسلام میں بہت شدت سے زیر بحث ہیں۔ مغربی دنیا دعوی کرتی ہے کہ ہم نے دنیا کو آزادی کا درس پڑھایا ہے، تاہم یہ وہ آزادی ہے کہ جو طبیعت انسانی کے سرکش ہونے کا ذریعہ بنتی ہے اور درحقیقت آزادی نہیں بلکہ نفس کی غلامی ہے۔ اگر اس کو کوئی آزادی کا نام دیتا ہے تو دراصل خود بھی دھوکے میں ہے اور اگلے کو بھی دھوکہ دے رہا ہے۔ لیکن وہ آزادی جس کی انسانی فطرت کو احتیاج ہے اس کو اسلام نے ۱۴۰۰ سال پہلے بیان کر دیا۔[4] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۹ تا ۴۱۔

منابع:

منابع:
1 مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۹۹، ص۵۹۔
2 بقرہ: ۱۴۴۔
3 طباطبائی، محمد حسین، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۶، ص۵۰۶۔
4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۹ تا ۴۱۔
Views: 120

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عقیدے کی آزادی اور جہاد ابتدائی
اگلا مقالہ: عبودیت اور آزادی