loading
{ دروس ولايت فقیہ:قسط۶}

عقیدے کی آزادی اور جہاد 

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ تحریروں میں ذکر ہوا کہ اللہ تعالی نے انسان کو عقیدہ کے حصول میں تکوینی طور پر آزاد رکھا ہے۔ سب انسان دین قبول کرنے میں آزاد ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ذکر ہوا کہ تشریعی طور پر انسان مؤظف ہے کہ حقیقی دین کو قبول کرے۔ ان مذکورات کو مدنظر رکھتے ہوۓ بعض اوقات دشمنان اسلام اور بعض اپنے نادان دوست یہ اشکال کرتے ہیں کہ اسلام تو تلوار کے زور پر پھیلایا گیا۔ اسلام کے تمام عقیدے جنگ اور جہاد کے ذریعے لوگوں پر تحمیل کیے گئے۔ جو شخص مسلمان نہیں ہوتا اور کلمہ نہ پڑھتا اسے قتل کر دیا جاتا۔ مسلمانوں کا جتھا قبیلوں پر حملہ کرتا جو قبیلہ اسلام قبول کر لیتا اسے بخش دیا جاتا اور جو انکار کر دیتا ان کو جنگ میں جہاد کے نام پر قتل کر دیا جاتا۔ اب اشکال یہ ہے کہ آپ لوگ تو کہتے ہیں کہ اسلام میں عقیدہ کے انتخاب میں سب کو اختیار حاصل ہے پھر جہاد کا کیا معنی؟ اسلام تو سارا پھیلا ہی جنگوں سے ہے۔ بدر، احد، خندق اور دیگر جنگیں اسلام کی تاریخ کی گواہ ہیں۔

جہاد پر اشکال کا جواب

تاریخ صدرِ اسلام اس بات کی شاہد ہے کہ اسلام جنگ و جہاد سے نہیں بلکہ برہان اور استدلال سے پھیلا ہے۔ کیونکہ تاریخ تو یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے با وفا ساتھیوں نے تیرہ سال تک مکہ میں سخت ترین مشکلات کو تحمل کیا۔  ان تیرہ سالوں میں کچھ لوگوں نے مکہ اور بعض دیگر جو مدینہ سے مراسم حج کے لیے آتے انہوں نے اسلام قبول کیا۔ اس دور میں جو مسلمان ہوتا اس کے لیے ہر طرف سے گھیرہ تنگ کر لیا جاتا کسی نے بھی اپنے ذاتی منافع اور مفاد کے لیے یا زور زبردستی نہیں اسلام قبول کیا تھا بلکہ الٹا جس نے اسلام قبول کیا اسے سخت ترین حالات سے گزرنا پڑا لیکن پھر بھی وہ اپنے ایمان پر ڈٹا رہا۔ ان لوگوں نے دعوت اور تبلیغ کی بنا پر اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے اس سے پہلے کہ ان کو کوئی قدرت حاصل ہوتی ہر طرف سے ان پر جنگیں مسلط کر دی گئیں۔ پہلے بدرِ صغری، بعد میں بدرِ کبری اور پھر جنگ احد ہوئی۔ کیا ان جنگوں کی ابتدا رسول اللہ ﷺ نے کی تھی؟ کیا رسول اللہ ﷺ مکہ کے مشرکین پر چڑھائی کرنے گئے تھے؟ جی نہیں! بلکہ مشرکین مکہ اپنا لاؤ لشکر اکٹھا کر کے مدینہ کے اطراف میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے آۓ۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے کے لیے اجازت دی اور آیت نازل ہوئی:«أذن للذین یقاتلون بأنهم ظلموا»؛ جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے۔[1] حج: ۳۹۔ ایسا نہیں کہ مسلمانوں نے مشرکوں پر جنگ تحمیل کی ہو اور ان پر حملہ کر کے ان کو زبردستی طور پر مسلمان کرنے کی کوشش کی ہو بلکہ یہ مشرکین مکہ تھے جنہوں نے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کر کے مدینہ کے مسلمانوں پر حملہ کیا۔ اللہ تعالی نے ان مظلوم مسلمانوں جو کہ مشرکین مکہ کے شر سے وہاں سے ہجرت کر کے مدینہ آۓ تھے، کو دفاع کی اجازت دی تاکہ اسلامی حکومت کا اور اپنا دفاع کر سکیں۔

جہاد ابتدائی اور جہاد دفاعی

اسلام میں جہاد کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ جہاد دفاعی
۲۔ جہاد ابتدائی
جہاد دفاعی سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دفاع کے لیے، دشمن کے ہجوم اور حملے سے خود کو بچانے کے لیے تلوار اٹھائی ہے۔

اور جہاد ابتدائی سے مراد یہ ہے مسلمانوں نے ولی مسلمین کے حکم سے کافروں کی طرف پیشقدمی کی۔ ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور اس دعوت کی راہ میں جو غیر منطقی موانع یا رکاوٹیں تھیں ان کو جنگ کر کے ختم کیا۔ لیکن بعض علماء کرام نے اس تقسیم کو رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جہاد ابتدائی اسلام میں نہیں ہے۔ اسلام میں صرف جہاد دفاعی ہے۔ اسی قول کو صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ نے بھی اختیار کیا اور اپنی تحلیل میں بیان فرمایا ہے کہ جسے جنگ ابتدائی کہا گیا ہے دراصل وہ بھی جنگ دفاعی ہی ہے۔[2] طباطبائی، محمد حسین، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۲، ص۸۹۔

علامہ طباطبائیؒ کی تحلیل

علامہؒ فرماتے ہیں کہ انسان کا اولین اور اساسی ترین حق یہ ہے کہ اس کو آزادی کے ساتھ سالم زندگی نصیب ہو۔ یہ حق اسے پاک انسانی فطرت سے حاصل ہوا وہ فطرت جو خدائی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی۔«فأقم وجهک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله». پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے۔[3] روم: ۳۰۔ غیر مسلم ممالک کے حکمرانوں اور ستم کاروں نے عوام پر اپنے ناجائز تسلط کو باقی رکھنے کے لیے اس حق کو لوگوں سے سلب کر لیا، مختلف طریقوں اور بہانوں، منفی پروپیگنڈوں اور حق کے متضاد تبلیغات سے لوگوں سے تفکر کی فرصت چھین لی۔ انہیں فطری تقاضوں کے مطابق تفکر کرنے سے روک کر فتنہ و آشوب سے اسلام کی تبلیغات سے روشناس ہونے میں مانع بنے۔ دین کی ہدایت جو تمام انسانوں کی فطرت کا تقاضا ہے، کو اپنے ملکوں میں پہنچنے میں مانع بنے۔ تاریخ بشریت میں سب حکمرانوں نے انبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں یہی سب کچھ کیا۔ اس لیے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوا:«قاتلوهم حتی لا تکون فتنة». اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔[4] انفال: ۳۹۔ فتنہ اور آشوب کو ختم کرنے کے لیے جنگ کا حکم صادر ہوا، تاکہ لوگوں کی اسیر شدہ فطرت کو آزاد کیا جا سکے، ان تک فطری اور منطقی بات پہنچائی جاۓ، ابلاغ دین کا کام ہو اور لوگ اپنے اختیار اور انتخاب سے حق کو اپنائیں۔«و ما علینا الا البلاغ المبین»؛ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔[5] یس: ۱۷۔ لوگ حق بات کو سنیں اور آزادانہ طور پر انتخاب کریں۔ ستمکار اور فاسق طواغیت اس اختیار کو اپنی عواموں سے نہیں چھین سکتے۔ اگر حق بات پہنچنے میں مانع بنیں گے تو اسلام ان موانع کو دور کرے گا اور انسانوں کے آزادی عقیدہ کے حق کو ان کو عطا کرے گا۔ پھر اس کے بعد لوگوں کی مرضی ہے دین اسلام کو اختیار کریں یا نہ کریں:«فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر»؛ پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔[6] کہف: ۲۹۔ جب فاسق حکمرانوں کی ایجاد کردہ رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں اور دین اپنی روشن دلیلیں قائم کرتا ہے جو ہر قسم کے ابہامات سے پاک ہیں تو فطرت انسانی ان تعلیمات کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ لوگ اپنی میل اور رغبت سے اسلام کی طرف بڑھتے ہیں اور دین الہی پھیلتا ہے۔

جنگ ابتدائی کی درست تفسیر

معلوم ہوا کہ جنگ ابتدائی نہ صرف یہ کہ دین اسلام کو دوسروں پر ٹھونسنے کا نام نہیں بلکہ آزادی کے عین موافق ہے اور ایک طرح کا دفاع ہے نا کہ حملہ۔ کیونکہ جنگ ابتدائی میں غیر مسلم معاشروں پر حاکم غیر منطقی افراد جو کہ فتنہ گری میں مشغول ہو کر حقیقی دین عوام تک پہنچانے میں مانع بن رہے ہوتے ہیں، اور لوگوں کی آزادی عقیدہ کو سلب کیے ہوتے ہیں ان کو برطرف کیا جاتا ہے اور لوگوں کو کاملا اختیار دیا جاتا ہے جو ان سے سلب تھا۔ پہلے وہ لوگ ان ظالم حکمرانوں کی وجہ سے فطری اور حقیقی دین اختیار کرنے سے قاصر تھے لیکن اب وہ کاملا اختیار اور مرضی سے دین الہی کو انتخاب کر سکتے ہیں۔ اگر ان کی فطرت زندہ ہے تو فطری تقاضے کے مطابق اسلام کو قبول کر کے دنیوی اور اخروی سعادت کو پالیں گے۔ لذا انسان کے فطری حق کے دفاع کے لیے یہ اقدام اٹھانا ضروری ہے ورنہ یہ مسلط افراد عام عوام تک اس حقیقی دین کی رسائی میں رکاوٹ بلکہ مزاحمت ایجاد کرتے ہیں، اس مزاحمت کو دفع کرنے کے لیے جہاد ضروری قرار پاتا ہے لذا یہاں پر بھی جہاد، جہاد دفاعی ہی ہے نا کہ ابتدائی۔

دین کا ابلاغ، انبیاء کرامؑ کی ذمہ داری

تمام انبیاء کرامؑ اسی کام کے لیے مبعوث ہوۓ کہ وہ لوگوں کے دلوں کو شکوفا کریں ان کی فطرت کو زندہ کریں ورنہ کس نبیؑ نے کسی شخص پر اپنے نظریات ٹھونسے ہیں؟ تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ اللہ تعالی کے نبی نے دین کی کسی بات کو منوانے کے لیے زور زبردستی سے کام لیا ہو۔ انبیاء کرام کا کام «و یثیروا لهم دفائن العقول» ہے۔ انبیاء اس لیے مبعوث ہوۓ ہیں کہ وہ انسانوں کے اندر مدفون فطرت کو ابھاریں۔[7] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۔ 

لوگوں کی سوچ اور دل اللہ تعالی کی امانتیں ہیں، انبیاء کرامؑ اس لیے آۓ ہیں کہ ان امانتوں کی حفاظت کریں ان کو خدا تک پہنچانا ضروری ہے۔ اگر لوگوں پر حاکم فاسق حکمران ان دلوں پر حکومت کرنے لگ گئے تو ان امانتوں میں خیانت ہو جاۓ گی۔ اور فطرت انسانی مردہ ہو جاۓ گی۔ اس لیے حضرت موسیؑ نے فرعونیوں کو فرمایا:«أن ادوا ألی عباد اللہ انی لکم رسول أمین»؛(اس رسول نے کہا) کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو، میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں۔[8] دخان: ۱۸۔ لوگوں پر امین انبیاء کرامؑ کو بنایا گیا ہے۔ اگر لوگوں کی فکری اور عقیدے کی آزادی کو کسی انسان نے چھینا ہوا ہو تو یہاں پر انبیاء کرامؑ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان افراد کو اس ظالم انسان کے جبر سے آزاد کرائیں اور ان کو فطری دین کی دعوت دیں۔[9] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۴ تا ۳۷۔

Views: 153

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عقیدے کی آزادی
اگلا مقالہ: خانہ کعبہ آزادی کا سمبل