loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۱۲}

عبودیت اور آزادی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

پچھلی اقساط میں ہم نے بیان کیا کہ انسان کے لیے جہاں پر جسمانی آزادی ضروری ہے اور اہمیت رکھتی ہے وہیں پر انسان کے لیے معنوی اور باطنی آزادی بھی اہم ہے۔ باطنی آزادی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اس کا جواب اشارتاََ پہلے گزرا ہے اس قسط میں مختصر طور پر بیان کیا جاۓ گا کہ معنوی آزادی کیسے حاصل ہوتی ہے۔ دین کے متون میں معنوی آزادی حاصل کرنے کا ایک نسخہ بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان عبد بن جاۓ۔ اگر انسان خدا کا عبد بن جاۓ تو اسے معنوی آزادی حاصل ہو جاتی ہے لیکن اگر انسان اپنے نفس کا عبد، معاشرے کا عبد، یا کسی دوسرے انسان کا عبد بن گیا تو یہ آزادی اسے حاصل نہ ہوگی۔ قرآن کریم میں انسان کی کامل ترین اور سب سے اعلی صفت یہ قرار دی گئی ہے کہ وہ ’’عبد الہی‘‘ ہے۔ انسان اور باقی ساری مخلوقات در اصل ایک خالق کی عبد ہیں۔ عبادت بھی اس لیے نہیں کہ اللہ تعالی کو معبود بننے کا شوق ہے یا اسے ہماری عبادات کی ضرورت ہے۔ عبادت خود انسان کے کمال کے لیے ہے۔ اور اس کا حکم انسانی عقل دیتی ہے کہ اس خالق کی عبادت کی جاۓ جس نے ہمیں وجود عطا کیا۔ قرآن کریم میں عبادت الہی انجام دینے پر عقلی دلیلیں قائم کی گئی ہیں اور ’’اولی الالباب‘‘ و ’’ذوی العقول‘‘ کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ فرمایا گیا کہ انسان کیوں عبادت انجام دیں؟

دین کی نظر میں نادان

ہمارے معاشرے میں بے وقوف ہونے کے اپنے ہی معیار ہیں لیکن قرآن کریم میں اس شخص کو «سفیہ» یعنی نادان اور بے وقوف قرار دیا ہے جو عبادت انجام نہیں دیتا۔

«وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّة اِبۡرٰهيمَ اِلَّا مَنۡ سَفِه نَفۡسَه»؛اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا۔[1] بقرہ: ۱۳۰۔

ہمارا معاشره اس شخص کو بہت بڑا زیرک اور دانا سمجٍتا ہے جو کبھی اپنا نقصان نہیں کرتا، جبکہ دین نے کسی اور معیار پر دانا اور نادان قرار دیا ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر دنیا کے پیچھے پڑوگے تو آخرت کا نقصان ہوگا، اور اگر آخرت کے پیچھے پڑوگے تو لامحالہ دنیوی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہم یہاں پر ایک مثال دیتے ہیں اگر ایک انسان زکوۃ یا خمس کا مال نہ نکالے اور بہت زیرکی سے اپنا مال بچا لے تو ظاہری طور پر تو اس نے خود کو مادی نقصان سے بچا لیا لیکن روایات کی زبان میں اس نے بے وقوفی کی ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دین اور دنیا ہر دو کو ایک ساتھ نہیں چلا سکتے مگر یہ کہ آپ کو دین کو فوقیت دینا ہوگی۔ شریعت اور عبودیت کے پابند ہو جائیں تو یہ دونوں جمع ہو سکتے ہیں۔ اور اگر ہم شریعت اور عبودیت کو مدنظر رکھیں تو بہرحال ہمیں اپنی دنیا کو قربان کرنا ہوگا اور یہی دانائی اور عین عقل کے مطابق ہے۔

عبادت کا فلسفہ

انسان کو اللہ تعالی کی عبادت کیوں کرنی چاہیے؟ اس پر عقلی دلیل اس طرح سے بنائی جاتی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر مخلوق اپنے خالق کی مطیع ہے۔ اور ہر معلول بھی اپنی علت کا مطیع ہوتا ہے۔ اگر معلول کسی بھی وجہ سے اپنی علت سے جدا ہو جاۓ اور اس کا مطیع نہ رہے تو وہ نابود ہو جاتا ہے۔ مثلا سورج کی کرن تب تک روشنی دے گی جب تک وہ سورج سے بلاواسطہ طور پر مربوط ہے۔ اگر اس کرن کا ایک لحظے کے لیے بھی سورج سے رابطہ منقطع ہو جاۓ یہ کرن، کرن نہیں رہتی۔ اس لیے ہر موجود کا کمال اس میں ہے کہ نظام تکوینی کی اساس پر چلتے ہوۓ اپنے طے شدہ مسیر اور ہدف کی طرف حرکت کرے۔ اور اگر اس مسیر کی مکمل اطلاعات اس کو مہیا نہیں ہیں تو اللہ تعالی کو چاہیے کہ اسے رہنمائی کرے۔ انسان کا کمال بھی اس میں ہے کہ اپنے خالق سے مربوط رہے اگر یہ ربط ٹوٹ جاۓ تو یہ عبد کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ جب ہم انسان کی ذات کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو اسے اپنی حقیقت، اس جہان کی حقیقت یا حتی دوسرے انسانوں سے ارتباط برقرار کرنے کی کیفیت اور جہان سے ارتباط برقرار کرنے کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں۔ یہ امر باعث بنتا ہے کہ انسان ایک ایسی ذات کی طرف رجوع کرے اور رہنمائی لے جو دانا، اور عالمِ مطلق ذات ہے۔ اور وہ اللہ تعالی ہے۔ جب انسان خالقیت اور اللہ تعالی کے مولا و آقا ہونے کو قبول کر لیتا ہے، اپنے اور جہان کے محتاج ہونے کو سمجھ کر عملی طور پر اس ذات اقدس کا عبد اور مطیع ہو جاتا ہے ، تو تب جا کر بہترین کمال کو حاصل کر لیتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں انسان کے سب سے اعلی ترین کمال کی طرف جب اشارہ فرمایا تو اسی امر کی طرف متوجہ کروایا۔ انسان کا کمال یعنی عبودیت۔

«سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا»؛ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔[2] اسراء: ۱ نزول وحی اور کتاب الہی کے نازل کیے جانے کا مدار بھی عبودیت کو قرار دیا گیا۔«اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ»؛ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی۔[3] کہف: ۱۔ «فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی»؛پھر اللہ نے اپنے بندے پر جو وحی بھیجنا تھی وہ وحی بھیجی۔[4] نجم: ۱۰۔ حضرت خضرؑ کے بلند مقام کی طرف جب قرآن کریم میں اشارہ ہوا تو ان کی عبودیت کی طرف متوجہ کرایا گیا۔«فَوَجَدَا عَبۡدًا مِّنۡ عِبَادِنَاۤ»؛وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا۔[5] کہف: ۶۵۔ پس اگر کوئی انسان حضرت خضرؑ بنا ہے، یا خاتم النبیﷺ بنا ہے تو ان سب کی دلیل عبودیت ہے۔ حقیقی عبدِ خدا بن جانا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تشہد میں بھی پہلے رسول اللہ ﷺ کے ’’عبد‘‘ ہونے اور پھر ان کے رسول ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ جب انسان اللہ تعالی کا عبد بن جاتا ہے تو وہ ہر قسم کے غیر خدا سے آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ ہرگز کسی دوسری ذات کا غلام نہیں بن سکتا، نا اپنے نفس کا اور نا کسی دوسرے انسان کا۔

حقیقی آزادی کا حصول

انسان کی فطرت میں اللہ تعالی نے دو چیزیں رکھ دی ہیں۔
۱۔ اللہ تعالی کا بندہ ہونا۔
۲۔ کسی غیر اللہ کا غلام نہ ہونا۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے واقعی میں عبدِ خدا بن کر دکھایا، وہ کسی بھی غیر خدا کے آگے کبھی نہ جھکے اور کوئی بھی چیز ان کو نہ خرید سکی۔ کیونکہ انہوں نے اس عظیم ذات کو درک کر لیا تھا کہ جس کے آگے تمام ذاتیں حقیر اور کوچک ہیں۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:«عَظُمَ الخَالِقُ فِی أَنفُسِهِم فَصَغُرَ مَا دُونَهُ فِی أَعیُنِهِم»؛خالق کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ اس کے ماسوا ہر چیز ان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔[6] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۲۳۲، خطبہ۱۹۱۔ امیرالمومنینؑ اپنے فرزند امام مجتبیؑ کو وصیت فرماتے ہیں:«وَ لَا تَکُن عَبدَ غَیرِکَ وَ قَد جَعَلَکَ اللّهُ حُرّاً»؛ خدا کے سوا کسی کے عبد مت بنو، کیونکہ خداوند نے تمہیں آزاد پیدا کیا۔[7] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۴۰۳، مکتوب۳۱۔ یہی وجہ تھی کہ مولا علیؑ نے افتخار کرتے ہوۓ فرمایا کہ میری عزت اس میں ہے کہ میں عبدِ خدا ہوں۔«إلهی کفى بی عزا أن أکون لک عبدا، و کفى بی فخرا أن تکون لی ربا»؛ خدایا! میرے لیے باعث عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں، اور میرے لیے باعث افتخار ہے کہ تو میرا پروردگار ہے۔[8] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۹۴، ص۹۴۔

انسان کے لیے باعث فخر وہ باتیں نہیں جو ہمارے معاشروں میں فخر کا باعث سمجھی جاتی ہیں۔ انسان کا کمال اور بلند ترین مقام یہ ہے کہ عبد بن جاۓ۔ اور اگر عبد بن گیا تو حقیقی اور معنوی آزاد کہلاۓ گا۔[9] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، ص ۴۸ تا ۵۰۔

Views: 108

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: خانہ کعبہ آزادی کا سمبل
اگلا مقالہ: نبوت اور قانون الہٰی