loading

{ مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى }

مکاشفات کی اقسام اور مراتب

درس: مقدمة شرح فصوص الحکم (داؤد قيصرى)
استاد: آيت الله حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

فصل سابع:  

لغت میں کشف سے مراد  رفعِ حجاب ہے۔ ہم اس عالم یعنی نشات طبیعت عالم مادہ میں حجاب میں ہے۔ اصلاح میں عالم مادہ کے ماوراء سے معانی غیبیہ اورصوری غیبیہ  کا ہمارے لیے آشکار ہونا کشف ہے۔ ایک حواس ظاہری ہیں جوکہ مجرد ہیں کیونکہ علم ہیں اور یہ مشروط ہیں اعضاء بدن اور رکاوٹ نہ ہونےسے۔ جبکہ دوسرا حواسِ باطنی ہے وہ بھی پانچ ہیں جو ہم رکھتے ہیں۔ پس  ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم اس حجاب کو ہٹا لیں اور عالم ماوراءِ طبیعت کو مشاہدہ کریں، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً ؛  } [1]انفال: ۲۹۔

کشف کی انواع:

کشف کی دو اقسام ہیں۔ ان میں سے ایک کشف صوری اور دوسری کشف معنوی ہے۔ کشف صوری کا صورت اور شکل و شمائل کے ہمراہ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ممکن ہے علمی ہو بلکہ ممکن ہے فقط بو ہو جیسے جناب اویس قرنی رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور پھر چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ نےان کی خوشبو کو احساس کیا۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ شب معراج اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے کمر پر رکھا تو میں نے ٹھنڈک کا احساس کیا اور تمام عالم کے حقائق میرے لیے آشکار ہو گئے۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ یا انگلی نہیں ہوتی لہٰذا یہ ہاتھ مادی نہیں ہے۔ بلکہ یہ برزخی عنایات ہیں۔

 کشف صوری:

کشف صوری میں متعدد امور ’’اہل مکاشفہ یعنی جو مکاشفہ کرتا ہے‘‘  کے لیے مادی صورتوں میں متمثل ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ’’امورِ حقیقی‘‘ فقط مشاہدہ نہیں کیے جاتے بلکہ بقیہ انسان معنوی حواس کے ذریعے یعنی  پانچوں حواس کے ذریعے سے حس کرتا ہے، مثلا ممکن ہے کشف صوری آوازوں سے متعلق ہوتے ہیں ، ممکن کشف صوری کا تعلق لمس سے مربوط ہو۔ کشف صوری میں بعض اوقات قوتِ باصرہ معنوی سے صورتیں دیکھتا ہے، جیسے رسول اللہ ﷺ جناب جبریلؑ کو دحیہ کلبی کی صورت میں دیکھتے تھے، یا ممکن ہے کہ ’’ایک امر‘‘ آواز کی صورت میں متمثل ہو، مثلا شہد کی مکھی کی آواز سنائی دے۔ ایسی صورت میں اس امرِ حقیقی کو انسان جان لیتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ فقط حس سے احساس کر رہا ہو لیکن وہ اصل حقیقت کو نہ جانے۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام حسینؑ کے اصحاب شبِ عاشور اس طرح عبادت کر رہے تھے کہ ان سے مکھی کی مانند آوازیں آ رہی تھیں۔ بعض اوقات کشفِ صوری میں انسان ایک معنوی بو محسوس کرتا ہے، جیسے جناب اویس قرنی رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے مدینہ تشریف لائے لیکن شرفِ ملاقات حاصل نہیں ہو سکا اور اطاعتِ والدہ کی وجہ سے آنحضرتﷺ کے پلٹنے سے پہلے واپس جانا پڑا۔رسول اللہ ﷺ جب واپس پلٹے تو فرمایا کہ میں ایک بہترین خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ بعض اوقات کشف صوری میں انسان دودھ پیتا دیکھتا ہے جس کو علماء نے کسبِ علم سے تعبیر کیا ہے۔ کشف صوری بعض اقات حوادث سے متعلق ہوتے ہیں، مثلا دیکھا کہ زید سفر سے واپس آ گیا ہے اور فلاں کام کر رہا ہے، یا آئندہ کی خبر انسان حاصل کرتا ہے اور خبر دیتا ہے۔بعض اوقات انسان معنوی لمس کا احساس کرتا ہے، جیساکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو بہترین صورت میں دیکھا اور اسی طرح دو مثالی جسد کے اتصال و ملنے کا احساس کرنا، جیساکہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کی کمر پر رکھا اور ان کے سینے میں اس کی ٹھنڈک آنحضرتﷺ نے محسوس کی ۔ ٹھنڈک اطمنیان و سکون سے عبارت ہے۔ جب یہ ہاتھ رکھا گیا تو آپﷺ فرماتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین جو بھی تھا وہ میرے لیے آشکار ہو گیا۔ اگرچے یہ اہل سنت کتب میں روایات وارد ہوئی ہیں لیکن ہاتھ رکھنے سے متعلق روایت تفسیر قمی میں امام باقرؑ سے ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:{ حَدَّثَنِي خَالِدٌ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَسَارٍ [سَيَّارٍ] عَنْ مَالِكٍ الْأَسَدِيِّ عَنْ إِسْمَاعِيلَ الْجُعْفِيِّ قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَاعِداً، وَ أَبُو جَعْفَرٍ × فِي نَاحِيَةٍ ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ مَرَّةً وَإِلَى الْكَعْبَةِ مَرَّةً، ثُمَّ قَالَ:{ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى‏ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى}[2]اسراء: ۱ ، وَكَرَّرَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: أَيَّ شَيْ‏ءٍ يَقُولُونَ أَهْلُ الْعِرَاقِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ يَا عِرَاقِيُّ ؟ قُلْتُ يَقُولُونَ: أَسْرَى بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْبَيْتِ الْمُقَدَّسِ ، فَقَالَ: لَا لَيْسَ كَمَا يَقُولُونَ، وَ لَكِنَّهُ أَسْرَى بِهِ مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ، وَ أَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَ قَالَ مَا بَيْنَهُمَا حَرَمٌ، قَالَ: فَلَمَّا انْتَهَى بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى تَخَلَّفَ عَنْهُ جَبْرَئِيلُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : يَا جَبْرَئِيلُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ تَخْذُلُنِي ، فَقَالَ : تَقَدَّمْ أَمَامَكَ- فَوَ اللَّهِ لَقَدْ بَلَغْتَ مَبْلَغاً- لَمْ يَبْلُغْهُ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ قَبْلَكَ- فَرَأَيْتُ مِنْ نُورِ رَبِّي وَ حَالَ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ السَّبَخَةُ [التَّسْبِيحَةُ]،- قُلْتُ: وَ مَا السَّبَخَةُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَأَوْمَى بِوَجْهِهِ إِلَى الْأَرْضِ وَ أَوْمَى بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ- وَ هُوَ يَقُولُ جَلَالُ رَبِّي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ يَا مُحَمَّدُ! قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَبِّ- قَالَ فِيمَ اخْتَصَمَ الْمَلَأُ الْأَعْلَى‏ ، قَالَ قُلْتُ سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لِي إِلَّا مَا عَلَّمْتَنِي- قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ- أَيْ يَدَ الْقُدْرَةِ  بَيْنَ ثَدْيَيَّ- فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ كَتِفِي- قَالَ فَلَمْ يَسْأَلْنِي عَمَّا مَضَى وَ لَا عَمَّا بَقِيَ إِلَّا عَلِمْتُهُ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ اخْتَصَمَ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قَالَ قُلْتُ: يَا رَبِّ فِي الدَّرَجَاتِ وَ الْكَفَّارَاتِ وَ الْحَسَنَاتِ- فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ قَدِ انْقَضَتْ نُبُوَّتُكَ وَ انْقَطَعَ أَكْلُكَ فَمَنْ وَصِيُّكَ فَقُلْتُ يَا رَبِّ قَدْ بَلَوْتُ خَلْقَكَ- فَلَمْ أَرَ مِنْ خَلْقِكَ أَحَداً أَطْوَعَ لِي مِنْ عَلِيٍّ فَقَالَ وَ لِي يَا مُحَمَّدُ فَقُلْتُ يَا رَبِّ إِنِّي قَدْ بَلَوْتُ خَلْقَكَ- فَلَمْ أَرَ فِي خَلْقِكَ أَحَداً أَشَدَّ حُبّاً لِي مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع قَالَ: وَ لِي يَا مُحَمَّدُ فَبَشِّرْهُ بِأَنَّهُ رَايَةُ الْهُدَى- وَ إِمَامُ أَوْلِيَائِي وَ نُورٌ لِمَنْ أَطَاعَنِي- وَ الْكَلِمَةُ الَّتِي أَلْزَمْتُهَا الْمُتَّقِينَ، مَنْ أَحَبَّهُ فَقَدْ أَحَبَّنِي وَ مَنْ أَبْغَضَهُ فَقَدْ أَبْغَضَنِي، مَعَ مَا أَنِّي أَخُصُّهُ بِمَا لَمْ أُخُصَّ بِهِ أَحَداً، فَقُلْتُ يَا رَبِّ أَخِي وَ صَاحِبِي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي، فَقَالَ إِنَّهُ أَمْرٌ قَدْ سَبَقَ أَنَّهُ مُبْتَلًى- وَ مُبْتَلًى بِهِ مَعَ مَا أَنِّي قَدْ نَحَلْتُهُ وَ نَحَلْتُهُ وَ نَحَلْتُهُ- وَ نَحَلْتُهُ أَرْبَعَةُ أَشْيَاءَ عَقَدَهَا بِيَدِهِ- وَ لَا يُفْصِحُ بِهَا عَقْدَهَا؛  } [3]قمی، علی بن ابراہیم، تفسير قمی، ج‏۲، ص ۲۴۴۔

غیب کی خبریں دینا کمال نہیں:

اگر کوئی پیش آنے والے حوادث کی خبر دے یا گھروں کے یا ممالک کے واقعات بیان کر دے تو یہ کوئی ہنر یا کمال نہیں ہے کیونکہ ’’مرتاضِ ہندی‘‘ بھی یہ کام کر لیتے ہیں۔ ریاضت سے انسان یہ کام کر لیتا ہے، اگر ریاضت مشروع اور طبق شریعت ہو تو یہ بہترین ہے ، اسی طرح ممکن ہے کہ ریاضت غیر شرعی ہو جیسے مرتاضِ ہندی کرتا ہے۔علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ  ضروری ہے کہ قوتِ نفس اور طہارتِ نفس میں فرق کریں ، ان دونوں میں عموم خصوص مطلق ہے۔ ہر نفسِ طاہر قوی ہے لیکن اس کا برعکس نہیں ہے کیونکہ ہر نفسِ قوی طاہر نہیں ہوتا، جیسے مرتاضِ ہندی طاہر نہیں ہے لیکن قوت رکھتا ہے۔ یہاں ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ مرتاضِ ہندی نہ توحید و نبوت و امامت و قیامت پر اعتقاد رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک قوی نفس رکھتا ہے اور غیب کی خبر دیتا ہے کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ نفس یہ قوت حاصل کر لے اور مستقبل کے حوادث کی خبر دے۔ اس لیے یہ چیز بہت اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔ اصل کمال اللہ تعالیٰ کو طلب کرنا اور اس کی ذات سے تعلق قائم کرنا ہے۔ اس لیے عرفاء ان سب امور کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کرتے ہیں اور اسی کو چاہتے ہیں۔

مرتاض ہندی کا واقعہ:

آیت اللہ لنگرودی کہتے ہیں کہ میں نے سنا تھا مرتاضِ ہندی و پاکستانی بہت عجیب اور تعجب آور حرکات انجام دے دیتے ہیں، مثلا غیبی خبر کو دے دینا، یا سالہاسال ایک عمل انجام دینے کی وجہ سے ایک قوت حاصل کر لینا وغیرہ۔ میں جب پڑھتا تو یقین نہیں کرتا تھا اور ان کو خیالی باتیں شمار کرتا۔ اسی اثناء میں مجھے کسی مقابلے یا پروگرام کے لیے ہندوستان اور پاکستان کا سفر کرنا پڑا اور میں نے ہر دو ملک میں ایسے مرتاض سے ملاقات کی اور دیکھا کہ انہوں نے آتی ہوئی ٹرین کو ہاتھ کی طاقت سے روک دیا۔ ایسے افراد ہندوستان اور پاکستان میں ہوتے ہیں۔ آیت اللہ لنگرودی نے واپسی پر ’’ارمغان ‘‘ کے نام کتاب لکھی اور تمام ایسے واقعات اور ان افراد کے حالات کو لکھا۔ ایسے افراد امامؑ کے آس پاس بھی موجود ہوتے تھے۔ کتب میں واقعات وارد ہوئے ہیں کہ ایک شخص نے غیر معمولی واقعہ کر دکھأیا اور لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے ایمان ڈگمگانے لگے۔ امامؑ نے اس کی ہتھیلی کھولی تو اس میں کسی نبی کی ہڈی تھی جس کی بناء پر وہ یہ عمل انجام دے رہا تھا۔ اسی طرح وارد ہوا ہے کہ ایک ریاضت کرنے والے شخص امامؑ کی خدمت میں آیا اور ہردنیا کے مختلف ممالک میں پیش آنے والے حال کے واقعات بتانے لگا۔ لوگ جو پوچھتے وہ فورا بتا دیتا۔ امامؑ نے پوچھا کہ یہ قوت کیسے حاصل کی؟ اس نے کہا کہ میں نے زندگی میں عہد کیا تھا کہ جو میرا دل چاہے گا میں اس کے برخلاف عمل انجام دوں گا۔ امامؑ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو اسلام قبول کیوں نہیں کرتے۔ اس نے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔ امامؑ نے فرمایا: کیوں؟ کہا: کیونکہ میرا دل نہیں مانتا، امامؑ نے فرمایا: تمہارا نظریہ تو یہ تھا کہ جو تمہارا دل نہ کرے تو اس کے برخلاف عمل انجام دو گے۔ اس نے یہ سنا تو شہادتین زبان پر جاری کیے اور مسلمان ہو گیا۔ امامؑ نے اپنی ہتھیلی بند کی اور فرمایا: اب بتاؤ کہ اس میں کیا ہے؟ اس نے بھر پور کوشش کی لیکن وہ بتا نہیں سکا۔ لوگ بہت حیران ہوئے کہ جب تک مسلمان نہیں ہوا تھا تب تک تو سب خبریں بیان کر رہا تھا اور اب جب مسلمان ہو گیا تو یہ صلاحیت اس سے سلب ہو گئی!! اس کی وجہ اس کی شیطانی ریاضات تھیں جن سے نکل کر وہ نورِ ایمان میں آگیا اس لیے شیطانی قوت اس سے سلب ہو گئی۔

جس طرح کشفِ صوری کا تعلق امورِ مادی سے ہے اس طرح امورِ معنوی سے ہے۔ الکافی میں شیخ کلینی نے الکافی میں باب الایمان و الیقین قائم کیاہے۔ الکافی میں معتبر حدیث میں وارد ہوا ہے کہ نماز فجر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان کو دیکھا جس کے بارے میں بعض احادیث میں آیا ہے کہ وہ حارثہ بن مالک بن نعمان تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ کس حالت میں صبح کی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے یقین کی حالت میں صبح کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے علامتِ یقین دریافت کی تو اس نے بیان کیا کہ میں بہشت اور جہنم ہر دو دیکھ رہا ہوں۔ مولوی نے مثنوی میں زید بن حارثہ کے نام سے بہترین طریقہ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے: 

گفت پیغامبر صباحی زید را

کیف اصبحت ای رفیق با صفا

گفت عبدا مؤمنا باز اوش گفت

کو نشان از باغ ایمان گر شکفت

گفت تشنه بوده‌ام من روزها

شب نخفتستم ز عشق و سوزها

تا ز روز و شب گذر کردم چنان

که ز اسپر بگذرد نوک سنان

که از آن سو جملهٔ ملت یکیست

صد هزاران سال و یک ساعت یکیست

هست ازل را و ابد را اتحاد

عقل را ره نیست آن سو ز افتقاد

گفت ازین ره کو ره‌آوردی بیار

در خور فهم و عقول این دیار

گفت خلقان چون ببینند آسمان

من ببینم عرش را با عرشیان

هشت جنت هفت دوزخ پیش من

هست پیدا همچو بت پیش شمن

یک بیک وا می‌شناسم خلق را

همچو گندم من ز جو در آسیا

که بهشتی کیست و بیگانه کیست

پیش من پیدا چو مار و ماهیست

این زمان پیدا شده بر این گروه

یوم تبیض و تسود وجوه

پیش ازین هرچند جان پر عیب بود

در رحم بود و ز خلقان غیب بود

الشقی من شقی فی بطن الام

من سمات الجسم یعرف حالهم

تن چو مادر طفل جان را حامله

مرگ درد زادنست و زلزله

جمله جانهای گذشته منتظر

تا چگونه زاید آن جان بطر

زنگیان گویند خود از ماست او

رومیان گویند بس زیباست او

چون بزاید در جهان جان و جود

پس نماند اختلاف بیض و سود. [4]مثنوی، گنج نور، دفتر اول، بخش ۱۵۸۔

کشف صوری  کا دنیاوی حوادث سے تعلق

اہل عرفان کا تعلق دنیا سے نہیں ہے اور نہ وہ جنت و بہشت کے پیچھے ہیں بلکہ ان کی ہمت سے اس سے بالاتر ہے۔ کشف صوری یا تو حوادثِ دنیوی سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔ اگرچے کشفِ صوری کی وجہ سے دنیوی حوادث سے باخبر ہو جاتے ہیں لیکن وہ اس طرف زیادہ توجہ نہیں رکھتے کیونکہ ان کی ہمت اس سے بلند و عالی ہے اور وہ اپنی ہمتیں دنیوی جاہ و جلال اور ثروت و مال کے حصول کے لیے استعمال نہیں کرتےبلکہ وہ اپنی تمام ہمتوں کو اخروی امور کے حصول کے لیے صرف کر دیتے ہیں۔اگر کشفِ صوری دنیاوی حوادث سے متعلق نہ ہو تو تو مکاشفات کے ذریعے سے مکاشف آخرت کے حقیقی امور کو جانا لیتا ہے اور روحانی حقائق سے باخبر ہوتا ہے۔ یہ مکاشفات ’’ارواحِ عالیہ‘‘ اور ’’ملائکہِ سماوی و ارضی‘‘ سے ہوتا ہے۔ ایسے صوری مکاشفات قلیل ہوتے ہیں جن میں غیبی معانی سے باخبر کیا جاتا ہے۔

کشف صوری کے مراتب:

کشفِ صوری کے مراتب ہیں۔ بعض مراتب میں تمام کے تمام حجاب ہٹ جاتے ہیں جبکہ  بعض مراتب میں تمام نہیں بلکہ بعض حجاب ہٹتے ہیں اور بعض حجاب حائل رہتے ہیں۔ان مراتب میں مشاہدہ کرنے والا ’’اعیانِ ثابتہ‘‘  کا مشاہدہ علمِ الہٰی میں کرتا ہے جوکہ تمام مراتب میں سب سے بالاتر مرتبہ ہے۔ اس کے بعد مشاہدہ کرنے والا اعیان ثابتہ کو عقلِ اول میں مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر عقل میں مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اعیانِ ثابتہ کو لوحِ محفوظ اور باقی نفوسِ مجردہ میں مشاہدہ کرتا ہے۔ پھر وہ کتابِ محو و اثبات میں مشاہدہ کرتا ہے۔ پھر وہ باقی ارواحِ عالیہ ، کتبِ الہٰیہ عرش و کرسی و سماوات و عناصر و مرکبات میں مشاہدہ کرتا ہےکیونکہ ان میں سے ہر مرتبہ کتاب الہٰی ہے جو اعیان و حقائق میں سے جو اس کے ماتحت ہے اس کو شامل ہے۔ یہ کتابِ الہٰی تکوینی ہے جس میں کلمات کو اللہ تعالیٰ نے خلق کیا ہے۔اسی لیے قرآن کریم نے جناب عیسی ؑ کو کلمہ سے تعبیر کیا ہے۔

کشف صوری کا سماعت سے تعلق:

اوپر جو تشریح گزر چکی ہے وہ کشفِ صوری جو مشاہدہ سے تعلق رکھتا ہے کے بارے میں تھی۔ اب کشفِ صوری سماعت کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ کیونکہ کشف صوری فقط دیکھنے اور مشاہدہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ تمام حواس سے تعلق رکھتا ہے۔ قوت القلوب میں دیلمی نے اختتام کتاب میں ایک طولانی روایت نقل کی ہے جو معارف کا ایک سمندر ہے ۔ اس روایت میں یا احمد ، یا احمد تکرار کے ساتھ بار بار آتا ہے۔ کشفِ صوری سماعت میں مکاشف سننے کے طریق سے کشف کرتا ہے، مثلاً بغیر واسطہ کے کلامِ الہٰی سننا ، موسیؑ کا اللہ تعالیٰ کا کلام سننا، رسول اللہ ﷺ کا معراج کے وقت سنا، خاص اوقات میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا ، جیساکہ حدیث میں وارد ہوا ہے{ لِي مَعَ اللَّهِ وَقْتٌ لَا يَسَعُهُ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَلَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ }.[5]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۸، ص ۳۶۰۔

 تمام موجودات نطق کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نطق کرتے ہیں حتی حیوانات و حشرات جیساکہ قرآن کریم میں چیونٹی کے نطق کا بیان وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمانؑ کو منطقِ طیر کی تعلیم عنایت فرمائی جیساکہ قرآن کریم میں اس کی تصریح وارد ہوئی ہے۔ کشفِ سمائی حضرت جبریلؑ کا فقط محتاج نہیں ہے بلکہ ممکن ہے نفوس عالیہ، موجودات حتی درخت سے آواز سنائی جا سکتی ہے جیساکہ درخت سے جناب موسیؑ کے لیے آواز آئی ۔ سماعت بواسطہِ جبریلؑ بھی ہوتا ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا قرآن کریم کا سننا، پھر عقلِ اول کا کلام سماعت کرنا اور دیگر عقول کے کلام کو سماعت کرنا، پھر نفسِ کلیہ کے کلام کو سماعت کرنا اور ملائکہِ سماوی اور ملائکہِ ارضی کے کلام کو سماعت کرنا۔ ملائکہ میں مدبراتِ امر جنہیں مُثُل افلاطونی یا رب النوع یا شرعی زبان میں مؤکل کہا جاتا ہے کو ملائکہِ سماوی کہتے ہیں جوکہ ہر نوع کی تدبیر کرتے ہیں، مثلاً بکری کا فردِ مجرد ہے جس کے افراد کثیر ہیں اور اس فرد کو جو فرشتہ تدبیر کرتا ہے اس کا تعلق مدبراتِ امر میں سے ہے ۔ اسی طرح تمام انواع کی تدبیر کی جاتی ہے۔

کشفِ صوری کا تعلق حواسِ باطنی سے ہے ۔ حواس ظاہری کی اصل حواس باطنی ہے، بالکل اسی طرح جیسے روح کا منزلِ نازلہ بدن ہے اور روح منزل عالی ہے ۔ حواسِ باطنی اصل ہے اور حواس ظاہری فرع ہے اس اصل کی۔

 مکاشفات کا منبع و سرچشمہ:

انسان کی مختلف جوانب کو مدنظر رکھتے ہوئے نام ہیں: ۱۔ اگر بدن کی تدبیر کو مدنظر رکھیں جیسے علی گاڑی چلاتا ہے جس کی وجہ سے اس کو ڈرائیور کہہ دیا جاتا ہے۔ پس ایک حقیقت ہے لیکن مختلف حیثیات سے اس کے مختلف نام پڑ جاتے ہیں، اسی طرح ایک حقیقت ہے لیکن جب وہ بدن کی تدبیر کرے تو اس کو نفس کہتے ہیں اور  جب ادراکِ اجمالی کرے تو اس کو قلب کہتے ہیں۔ مکاشفاتِ صوری کا منبع قلب ہے۔اسی طرح ایک عقلِ نظری ہے اور ایک عقلی عملی ہے۔قرآن کریم میں متعدد آیات اس معنی پر ہیں اور احادیث فراوان ہیں۔

اگر حجاب ہٹ جائیں تو حواسِ روحانی باطنی اور حواس ظاہری باہمی طور پر متحد ہو جاتے ہیں ، جیساکہ درختِ حنانہ کا نالہ و آہ و فغان رسول اللہ ﷺ نے سنا اور تصرف کر کے بقیہ کو بھی سنایا۔ پس ان حواسِ ظاہری کے ذریعے سے انسان اس کا مشاہدہ کرتا ہے جس کا مشاہدہِ حواسِ باطنیہ کے ذریعے کیا۔ مرتبہِ روح میں اتحاد ہے ظاہری اور باطنی کا۔ عقلِ اوّل کل اشیاء ہے اور تمام حقائق کو رکھتا ہے البتہ اجمالی طور پر۔ فلاسفہ ایک قاعدہ رکھتے ہیں کہ بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء و لیس منہا، بسیطِ واقعی فقط اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس کے بعد جو بھی بسیط ہے وہ واقعی نہیں ہے کیونکہ بسیطِ محض فقط اللہ تعالی ہے۔ بسیطِ محض کل اشیاءاس لیے ہے کیونکہ بعض اشیاء رکھتا ہو اور بعض نہ رکھتا تو اس سے لازم آئے گا کہ وجدان اور فقدان سے مرکب ہو اور بدترین ترکیب وجدان و فقدان ہے۔

سیر و سلوک کے مراتب :

مکاشفات کے اعتبار سے سیر و سلوک کے سالک کے مراتب ہیں۔ عرفاء بیان کرتے ہیں کہ ابتداء میں سالک اذکار اور بعض اعمال انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ابتدائی مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ اگر سالک ابتدائی ہے تو وہ مکاشفاتِ صوری کو عالم مثال متصل یا خیال مقید میں کشف کرتا ہے۔ سالک تدریجاً ارتقاء پیدا کرتا ہے اور جیسے جیسے سالک کے ملکات میں اضافہ اور پختگی و استحکام آتا ہے اور اثرِ ملکہ قوی سے قوی تر ہوتا جاتا ہے تو سالک اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اگلے جہاں کے حقائق کو کشف کر سکے۔ لہٰذا جب اگلے مرتبہ میں سالک پہنچتا ہے تو پھر وہ اذکار کا محتاج نہیں رہتا بلکہ جب جاننا چاہے تو جان سکتا ہے، جیساکہ الکافی میں آئمہ اہل بیت ؑ کے لیے باب ہے کہ آئمہؑ جب چاہتے ہیں کہ جان لیں تو جان لیتے ہیں۔ پس سالک جب قوت پیدا کرتا ہے اور مراتب طے کرتا ہے تو پھر اپنے نفس سے خارج عالم مثال منفصل میں کشف کرتا ہے کیونکہ جہانِ مادی میں ہر شیء متحقق ہونے سے پہلے عالم مثال منفصل میں وجود رکھتی ہے جہاں تک سالک رسائی حاصل کرتا ہے۔

اس کے بعد سالک اگلے مقام پر فائز ہوتا ہے  اور لوحِ محفوظ کو کشف کر لیتا ہےجہاں تمام حقائق بدونِ تبدّل موجود ہیں جبکہ لوحِ محو و اثبات میں حقائق متغیر ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد علمِ الہٰی کے محضر میں منتقل ہوتا ہے اور اعیانِ ثابتہ یعنی علمِ الہٰی سے مطلع ہوتا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَلا يُحيطُونَ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِما شاء}. [6]بقرہ: ۲۵۵ اس کے بعد اس سے اوپر کا مرحلہ ہے اور وہ ذاتِ الہٰی ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اسماء کے توسط سے مشاہدہ کر سکتا ہے لیکن بدونِ اسماء ممکن نہیں ہے مشاہدہ اور اسماءِ الہٰی لا محدود ہیں۔ اسماءِ ربوبی کے ذریعے انسان مشاہدہِ الہٰی کو تحمل کر سکتا ہے۔ اسماءِ الہٰی عینِ اعیانِ ثابتہ ہیں۔ اسماء اور اعیان کے درمیان لازم ملزوم کی نسبت ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے۔ شیخ اکبر نے فصِ شیثی میں بیان کیا ہے کہ نہ مقامِ ذات الہٰی کی طمع رکھو اور نہ اپنے نفس کو بیکار میں تھکاؤ کیونکہ اس مقام تک رسائی ممکن نہیں ہے۔مقامِ ذات سے اللہ تعالیٰ نے محذور کیا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: { وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ }. [7]آل عمران: ۳۰انسان کے لیے شہود کا آخری مرتبہ ’’اعیانِ ثابتہ‘‘ ہے جس کے بعد کشفِ صوری کے ذریعے مشاہدہ ممکن نہیں ہے۔

کشف معنوی:

کشف صوری کی طرح کشف معنوی کے بھی مراتب ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:

۱۔قوتِ حدس:

قوتِ مفکرہ میں معانی کا ظاہر ہونا بغیر عقلی براہین کے مقدمات اور قیاسات کی ترکیب کے اس طرح سے کہ ذہن مطالب سے مبادئ میں ایک لحظہ میں منتقل ہو جائے۔ اس کو ’’حدس‘‘ کہتے ہیں۔ قوت مفکرہ اور قوت متخیلہ یا قوت متصرفہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے۔ اگر قوتِ متصرفہ قوتِ عقل کے زیرِ نظر کام کرے تو اس کو قوتِ مفکرہ کہتے ہیں اور اگر قوتِ واہمہ کے ماتحت کام کرے تو اسی قوتِ متصرفہ کو قوتِ متخیلہ کہتے ہیں۔ اگر ایک حقیقتِ واحدہ انسان کے باطن میں جلوہ گر ہو بغیر کسی مقدمات کے، صغری و کبری و نتیجہ کے بغیر حقیقت آشکار ہو تو اس کو ’’حدس‘‘ کہتے ہیں۔ حدسِ بازاری اور اس نوعِ حدس میں فرق ہے۔ حدسِ بازاری کو گمان کہتے ہیں۔ بغیر مقدمات کے اگر ایک حقیقت آشکار ہو اور خود کو نمایاں کرے تو اس کو ’’حدس‘‘ کہتے ہیں اور حدس کرنے والے کو صاحب حدس کہتے ہیں۔ بعض اوقات حکمتِ نظری کے دائرہ میں برہان سے ۔سیروسلوک میں ’’جذبہ‘‘ اسی طرح ہے کہ جذبہ میں ایک لمحہ میں مراحل طے کرتا ہے۔حکمت عملی یا عرفانِ عملی میں ایک ’’سلوک‘‘ ہے اور ایک ’’جذبہ‘‘ ہے۔ سلوک میں ایک مرحلہ کے بعد دوسرا مرحلہ، پھر اگلا مرحلہ ۔ بلا شک و شبہ سلوک سخت اور پُر مشقت ہے جبکہ ’’جذبہ‘‘ میں ایک لحظہ میں مراحل طے کر لیتا ہے، مثلاً شیخ رجب علی خیاط، کہ انہیں ایک حادثہ پیش آیا جس کے بعد ان کی چشمِ برزخی کھل گئی ہے۔ پس ایک سلوک ہے اور ایک جذبہ ہے۔ اسی طرح علم کی دنیا میں ہے۔ علم کی دنیا میں ایک برہان ہے اور ایک حدس۔ برہان میں ہم صغری و کبری لے کر آتے ہیں ان میں قواعدِ قیاس و برہان کی رعایت کرتے ہیں اور پھر نتیجہ لیتے ہیں۔ اگر ان شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو برہان نتیجہ آور نہیں ہے۔ یقینًا برہان زحمت آور ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’حدس‘‘ مثلِ جذبہ ایک لحظہ میں نتیجہ کو دریافت کر لیتا ہے اور اچانک معلوم کر لیتا ہے۔حدس لوامعِ انوار میں سے ہے۔

۲۔قوتِ عاقلہ:

قوتِ عاقلہ مفکرہ کو استعمال کرتا ہےجوکہ روحانی قوت ہے ہے جس میں ،اس کو ’’نورِ قدسی‘‘ کہتے ہیں۔ پس کشف معنوی کا دوسرا مرتبہ ’’عقل‘‘ ہے۔قوتِ مفکرہ جسمانی ہے جوکہ معانی غیبیہ کو کشف کرنے والے نور کے لیے کبھی حجاب بن جاتی ہے۔ مرتبہِ حدس کشف کے ادنی ترین مراتب میں سے ہے۔اس لیے کہاجاتا ہے کہ ’’فتح‘‘ دو قسم کا ہے، فتح وہی کشف ہے: ۱۔ نفس میں فتح، نقلی اور عقلی طور پر علمِ تام عطاء ہونا، ۲۔ روح میں فتحکہ اس میں معرفت وجوداً عطا ہوتی ہے نہ کہ نقلاً و عقلاً عطا ہوتی ہے۔

۳۔مرتبہِ قلب:

کشفِ معنوی کا تیسرا مرحلہ ’’قلب‘‘ ہے جس کو ’’الہٰام‘‘ کہا جاتا ہے۔ حکماء اور عرفاء انسان کے مراتب کے قائل ہیں اور مرتبہ کے نام انہوں نے رکھے ہیں۔ حکماء مراتب اس طرح ذکر کرتے ہیں: عقل ہیولانی، عقل بالملکہ، عقل بالفعل ، عقل بالمستفاد (یہ مراحل محدودِ نظر میں ہیں)، محو، طمس، محق۔عرفاء کی اصطلاح میں مراتب اس طرح ہیں:  طبع، نفس، قلب، روح، سر، خفی، اخفی۔ھفت شہر عشق را عطار گذشت، ما ہنوز اندرخم یک کوچہ ایم۔

۴۔ مرتبہ روح:

قلب اور روح میں فرق تفصیل اور اجمال کا ہے۔ قلب میں حقائق مفصلاً متحقق ہوتے ہیں جبکہ ’’روح‘‘ میں اجمالی طور پر متحقق ہوتے ہیں۔ البتہ یہاں اجمال سے مراد ادب میں موجود کلمہِ اجمال نہیں ہے بلکہ اجمال سے مراد اسی تفصیل کا ملکہ و قوت کا ہونا ہے۔ قلب موضعِ تفصیل اور روح موضعِ اجمال ہے۔ مرتبہِ روح میں شہودِ روحی ہوتا ہے جکہ روح کے مراتب کے آسمانوں کے لیے چمکتے سورج کی مانند ہے۔ اس مرتبہ میں اللہ تعالیٰ سے بغیر واسطہ سے معانی غیبیہ کو دریافت کرتا ہے لیکن یہ اخذ کرنا حسب استعداد ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ سے معانی غیبیہ اخذ کرنے کے بعد اپنے ماتحت کو افاضہ کرتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اگر کمَّل ہو یا اقطاب میں سے کوئی قطب ہو تب وہ اللہ تعالیٰ سے براہِ راست اخذ کرے گا معانی غیبیہ کو۔ لیکن اگر ان میں سے نہیں ہے تو پھر وہ قطب کے واسطے سے اللہ سے معانی غیبیہ کو اخذ کرتا ہے حسب استعداد اور اس کی ذات سے قرب کے مطابق۔

۵۔ مرتبہ سر:

کشف صوری کی کشف معنوی کے مراتب ہیں۔ کشف معنوی کے مراتب میں سے ایک ’’سر‘‘ ہے۔ مرتبہِ سرّ سے مراد کانالِ وجودی ہے یعنی ہر کسی کا اپنا حصہِ وجودی۔ ہر کوئی اپنی ظرفیت کے مطابق حصہِ وجودی رکھتا ہے۔ ممکن ہے کوئی ایک چھوٹے سے چشمہ کے مطابق وجود رکھتا ہو اور بعض دریا جتناحصہِ وجودی رکھتے ہیں اور کوئی بحر بیکراں کی مانند جیسے رسول اللہ ﷺ کا وجود انتہائی وسعت رکھتا ہے۔ یہ مراتب وجودِ عینی ہیں۔ نیز ہر وجودکے اعتبار سے اللہ تعالیٰ رب ہے۔جو انسان بھی ربّ کہتا ہے تو وہ اپنے حصہِ وجودی کے مطابق رب کہتا ہے۔

۶۔ مرتبہِ خفی:

اسماء الہٰی مرتبہِ واحدیت تفصیل کے طور پر ہیں ۔ مرتبہِ واحدیت سے اوپر احدیت ہے۔

۷۔ مرتبہِ اخفی:

مرتبہِ اخفی کا تذکرہ شارح نے نہیں کیا ۔ اخفی کا تعلق مرتبہِ احدیت سے ہے جہاں حقائق اجمالی طور پر متحقق ہیں۔

ہر وصف انسان کے اندر راسخ نہ ہو تو اس کو ’’حال‘‘ کہتے ہیں اور جو راسخ ہو اس کو ’’مقام‘‘ کہتے ہیں۔پس اگر ایک وصف ’’ملکہ ‘‘ بن جائے تو اس کو مقام کہتے ہیں جس میں سالک کا علم ’’علمِ حق‘‘ کے ساتھ متصل ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے فرع کا تعلق اصل کے ساتھ ہوتا ہے۔ اہل حال کثیر ہیں لیکن اہل مقام نادر ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی حال کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا دوست مر جاتا ہے اور وہ اس کے جنازے میں شرکت کرتا ہے اور جب اس کو قبر میں اترتا ہے تو اپنا وقتِ موت یا دآ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ تحوّل اور حالت قبرستان کے اندر تک ہے۔ جیسے وہ باہر آتا ہے اور اپنی روز مرہ زندگی میں گم ہوتا ہے تو اس کی یہ حالت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کو ’’حال‘‘ کہتے ہیں۔ اہل مقام وہ ہیں جن پر حالت مسلسل طاری رہتی ہے۔

دنیا میں دو افراد حال و مقام کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں۔ چنانچہ اگر ایک عارف نے ایک دستور اپنے استاد سے لیا اور ایک اثر و نتیجہ اخذ کیا اور وہی دستور آپ حاصل کر لیں تو ضروری نہیں ہے کہ آپ بھی وہی نتیجہ یا مقام حاصل کریں بلکہ ممکن ہے اس سے بالاتر یا اس سے پائین تر مرتبہ کو پائیں۔پس ہر کوئی اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق کشف صوری یا معنوی کو حاصل کرتا ہے۔

مزاجِ روحانی اور مکاشفات:

انسانوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ جس کا مزاجِ روحانی معتدل ہو گا اس کے لیے مکاشفات صحیح تر و اتم ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ معتدل مزاج رکھتے تھے جس کی بناء پر ان کے بدن کا سایہ نہیں تھا۔بدن کی طرح جان کا بھی مزاج ہے۔ مزاج جتنا اعتدال کے قریب ہو سالم اور قوی تر ہے۔ اکثر امراض مزاج کے اعتدال سے خارج ہونے کی بناء پر ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ جس طرح بدن مزاج رکھتا ہے اسی طرح یہ جہاں یہ عالم بھی مزاج رکھتا ہے۔ مزاجِ بدن فاسد کو قبول نہیں کرتی۔ ایک خوراک چند گھنٹے پڑے رہے تو اگرچے کچھ فاسد ہوئی ہے لیکن پھر بھی کھانے کے قابل ہوتی ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ مزاجِ بدن اصلاً فاسد خوراک کو قبول نہیں کرتا ۔ عالم بھی بھی مزاج رکھتا ہے اور اس کا مزاج فساد کو قبول نہیں کرتا ۔ اس لیے یہی جہاں یہی عالم فاسد کے فسادات کی گواہی دے گا۔ اگر عالم میں انسان سالم رہے اور عمل صالح انجام دے تو مزاجِ عالم کے مطابق زندگی بسر کی اس لیے عالم ایسے شخص کو قبول کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مفاسد برپا کرتا رہے تو مزاجِ عالم اس کو قبول نہیں کرتا۔ مولانا رومی کہتے ہیں کہ یہ جہاں پہاڑ کی مانند ہے کہ جو صدا دو گے وہی پلٹ کر سنو گے۔مزاجِ جسمانی کے مقابلے میں مزاجِ روحانی ہیں ۔

تصرف کی قوت رکھنے والے:

بعض ایسے ہوتے ہیں جو کائنات میں تصرّف کا اختیار رکھتے ہیں، مثلاً مردوں کو زندہ کرتے ہیں ،نابینا کو بینا کرتے ہیں، کوڑھ مرض سے شفاء دیتا ہیں، گھر میں جو ذخیرہ کیا ہے اس کی خبر دیتے ہیں جیساکہ حضرت عیسیٰؑ کے یہ معجزات و افعال قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔ یہ سب اسماءِ الہٰی کے مظاہر ہیں۔ قرآن کریم میں ’’باذن اللہ‘‘ کا تذکرہ ہے ۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ یہ ’’بإذن اللہ‘‘ اسم لفظی نہیں ہے بلکہ اس سے مرادبافتِ وجودی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان وجودات کو یہ خصوصیت دی ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ اذن ’’اذنِ تکوینی‘‘ ہے۔اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ قوتِ خیال کے ذریعے کیا کیا تصرفات کرتے ہیں اور بناتے تباہ کرتے ہیں۔ البتہ عارف جو تصرف کا اختیار رکھتا ہے وہ خارج میں تصرف کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خارج میں تصرفات کو ایجاد کیا۔اسی طرح بقیہ انبیاءؑ اور آئمہؑ ہیں۔شیخ اکبر فصِ اسحاقی میں کہتے ہیں کہ العارف يخلق بهمته۔ بعض طیّ الارض کی قدرت رکھتے ہیں ، جیساکہ قرآن کریم نے آصف برخیا کا تذکرہ کیا ہےکہ آنکھ کے چھپکنے سے پہلے ہی تخت کو انہوں نے حاضر کر دیا ۔ حضرت سلیمانؑ نے اس لیے خود یہ عمل انجام نہیں دیا کہ ان کا مرتبہ اس سے اعلیٰ و اشرف ہے ۔ یہ امور تو ان کے ماتحت انجام دے لیتے ہیں۔یہ اولیاء یا تو براہ راست ان امور کو انجام دیتے ہیں اسمِ حاکم کی خاصیت کے سبب سے اور بعض ارواحِ ملکوتی میں کسی روح کے توسط سے انجام دیتے ہیں۔

وحی اور الہام میں فرق:

احادیث قدسیہ کو وحی نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ الہام کے ذریعے عنایت کی گئی تھیں۔ وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ وحی فرشتے کے ذریعے سے نازل ہوتی ہے جبکہ الہام اس طرح نہیں ہے۔ نیز وحی میں فرشتے کو شہود کیا جاتا ہے جس کی بناء پر وحی کشف شہودی صوری ہے جوکہ کشف معنوی کے مقابلے میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ جناب جبریلؑ کو دیکھتے تھت اور وحی لیتے تھے اس لیے وحی کشفِ صوری ہے جبکہ الہام کشف معنوی ہے۔پس کشف صوری کے ساتھ ساتھ کشف معنوی بھی رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ وحی نبوت کے خواص میں سے ہے جو ظاہر سے تعلق رکھتی ہے جبکہ الہام ولایت کے خواص میں سے ہے۔ آئمہ ؑنبوت تو نہیں رکھتے تھے لیکن ولایت کے مرتبہ پر فائز تھے۔ وحی نازل کی جائے تو اس کی تبلیغ و نشر کرنا وظیفہ نبی ہوتا ہے جبکہ الہام کی تبلیغ وظیفہ نہیں ہے۔

انواعِ کشف اور معیارِ حق :

کشف و شہود متعدد انواع رکھتے ہیں جیساکہ بعض جگہوں میں واردات لفظ آیا ہے جو وہی کشف ہے: ۱۔ ملکی، ۲۔ رحمانی، ۳۔ جنّی، ۴۔ شیطانی۔سب مکاشفات برحق نہیں ہوتے بلکہ بعض ان میں سے بعض شیطانی ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مکاشفہ میں دیکھے کہ اس سے تکلیف شرعی ساقط کر دی گئی ہے تو سمجھ لے کہ یہ مکاشفہ شیطانی ہے۔ پس مکاشفہ برحق ہونے کا معیار ہے۔ ایک معیارِ عام یہ ہے کہ اگر مکاشفہ ایسا ہو جس کی وجہ سے انسان اپنے وجود میں احساس بشاشت کرے اور احساس سرور کرے اور بلندی کی طرف انسان کو لے کر جائے تو یہ مکاشفہ برحق ہے ۔ اس کے مقابلے میں اگر انسان مکاشفہ میں احساس تنگی و پریشانی کرے تو یہ وارداتِ شیطانی ہیں۔ ایک معیار خاص ہے، یعنی اگر مکاشفہ میں دعوتِ خیر ہے تو یہ رحمانی یا ملکی ہے لیکن اگر مکاشفہ میں دعوتِ شر کیا جائے تو یہ شیطانی ہے۔

بعض مکاشفات ’’جنی‘‘ ہیں ،یعنی بعض مکاشفات تصرفات کے باب سے ہیں، جیسے کوئی دیوار کے شق کیے بغیر دیوار سے اندر کمرے میں آ جائے تو یہ جنّ ہے جوکہ مختلف شکل و شمائل اختیار کر کے ہمارے سامنے آتا ہے۔ اسی طرح جنات مکان و زمان کو طے کرتے ہیں اور دیواروں میں نفوذ کر جاتے ہیں بغیر اس کے کہ دیوار شق ہو ۔اسی طرح کی خصوصیات ملائکہ کی بھی ہیں۔  اگر کمّل ان میں سے کسی کو انجام دیتے ہیں تو ملائکہ کی معاونت سے ان امور کو انجام دیتے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ خدا کرے کہ آپ کو شکار کا موقع ملے، شکار سے مراد یہی کشف و شہود ہے جو خیرو عبادت سے مرکب ہو اور اس کی لذت مکاشف کے وجود میں رہ جائے ۔ انسان ایسے مکاشفہ کے بعد عبادات اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کے لیے مزید تگ و دو کرنے لگتا ہے۔ بعض نے ایک یہ معیار بھی ذکر کیا ہے کہ ہر مکاشفہ جو دائیں طرف دکھائی دے وہ رحمانی ہے اور جو بائیں طرف ہے وہ شیطانی ہے  ۔ لیکن یہ معیار درست نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم نے ذکر کیا ہے کہ شیطان چاروں طرف سے انسان پر حملہ آور ہو سکتا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْديهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ أَيْمانِهِمْ وَ عَنْ شَمائِلِهِمْ وَ لا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شاكِرين‏ }. [8]اعراف: ۱۷ وہ کشف و شہود ملکی کبھی دنیاوی امور سے متعلق ہوتے ہیں جوکہ بد نہیں ہے لیکن اس سے بالاتر مرتبہ بھی موجودہے اور وہ امورِ اخروی سے مربوط ہونا ہے۔ امورِ دنیاوی سے جن مکاشفات کا تعلق ہے اس کی مثال غائب شیء کا مکاشف کے سامنے حاضر ہونا ہے، یا سردیوں میں گرمیوں کے پھلوں کا حاضر کرنا، کسی کے مستقبل میں آنے کی خبر کو معلوم ہونا۔ قرآن کریم میں جناب مریمؑ کے بارے میں وارد ہوا ہے:{ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَ أَنْبَتَها نَباتاً حَسَناً وَ كَفَّلَها زَكَرِيَّا كُلَّما دَخَلَ عَلَيْها زَكَرِيَّا الْمِحْرابَ وَجَدَ عِنْدَها رِزْقاً قالَ يا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هذا قالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِساب‏ }. [9]آل عمران : ۳۷۔ اہل اللہ کے نزدیک اس طرح کے مکاشفات کوئی رغبت و کشش نہیں رکھتے ۔

دنیاوی امور سے مربوط مکاشفات کے مقابلے میں و ہ مکاشفات ہیں جو آخرت سے مربوط ہے۔ پس آخرت سے مربوط مکاشفات بھی ہوتے ہیں، جیسے ضمائر سے باخبر ہو جانا، خیالات کو پڑھ لینا، یہ مکاشفات ملکی ہیں کیونکہ جنّ یہ قدرت و صلاحیت نہیں رکھتے۔اگر مکاشفات جو آخرت سے متعلق ہیں ۔

 

 

منابع:

منابع:
1 انفال: ۲۹۔
2 اسراء: ۱
3 قمی، علی بن ابراہیم، تفسير قمی، ج‏۲، ص ۲۴۴۔
4 مثنوی، گنج نور، دفتر اول، بخش ۱۵۸۔
5 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۸، ص ۳۶۰۔
6 بقرہ: ۲۵۵
7 آل عمران: ۳۰
8 اعراف: ۱۷
9 آل عمران : ۳۷۔
Views: 22

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: علم عرفان کا موضوع
اگلا مقالہ: رؤیت الہی