loading

{فصوص الحكم فارابی}

رؤیت ِ الہٰی
درس: شرح فصوص الحکم (فارابی)
استاد: آيت الله حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

شرحِ فص ۶۲:  كل إدراك فإنه إما أن يكون … 

علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس فص کے ذیل میں اپنی تمام تحقیقات اس موضوع سے متعلق تحریر کی ہیں۔ ہم جس شیء کا ادراک کرتے ہیں وہ یا تو از قبیل خاص ہے یا از قبیل عام ہے۔ از قبیل خاص جیسے جزئی ، مثلا زید اور از قیبل عام  جیسے کلیات ، مثلا ایک مطلق شجر۔ اگر ہمارا مدرَک عام ہو تو وہ حسی طور پر مشاہدہ نہیں ہو سکتا بلکہ ہم طریقہِ استدلال اس کو درک کر سکتے ہیں۔امورِ خارجی مادی حواس کے دائرہ میں آتے ہیں لیکن امورِ عام دلیل و برہان، استدلال سے قابل درک ہوتا ہے، البتہ یہاں برہان و دلیل سے مراد برہانِ منطقی نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر دلیل ہے۔ ہم جزئی یعنی خاص کو لیں یعنی ہمارا مدرَک خاص ہو تو ہم اس کے لیے استدلال کے محتاج ہیں یا محتاج نہیں ہیں، مثلاً کعبہ جوکہ ہمارا مدرَک ہے اس کا ادراک ہم کرتے ہیں۔ ہر جگہ جہاں ہمارا مدرَک جزئی ہے اور ہم اس کے ادراک کے لیے محتاجِ استدلال ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہم سے غائب ہے اور ہر وہ مدرَکِ خاص اگر محتاجِ برہان و استدلال نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے مشاہدہ میں آ رہا ہے، مثلا ہم اسے دیکھ رہے ہیں یا سن رہے ہیں وغیرہ۔اللہ تعالی کی ذات اور اس کے کمالات خود اس سے غائب نہیں ہیں لہٰذا اسی کی ذات کے لیے مشہود ہیں اور اس سے غائب نہیں ہے۔ اسی طرح ہم اپنی ذات کے بارے میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ ہم اپنی ذات سے خود غائب نہیں ہیں ۔ ہم اگر اللہ تعالی کو اپنی نسبت سے دیکھیں تو بھی اللہ تعالیٰ ہماری نسبت سے غائب نہیں ہے بشرطیکہ توحیدِ قرآنی ہمارے لیے تحقق پیدا کر جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کو مکاشف اور مشہود کریں۔

یہاں ہماری بحث رؤیتِ الہٰی ہے جوکہ اختلافی بحث ہے اور صدرِ اسلام سے مطرح ہے خصوصا امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے زمانے میں یہ بحث اوج پر تھی۔ کیا اللہ تعالیٰ کو دیکھا جا سکتا ہے؟ بعض نے کہا کہ نہیں دیکھا جا سکتا، بعض نے کہا کہ اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے لیکن قیامت میں دیکھ سکتے ہیں، بعض نے کہا کہ ہم اپنی جان میں دیکھ سکتے ہیں۔ علامہ حسن زادہ کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں گیارہ (۱۱) اقوال موجود ہیں۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں تمام گیارہ اقوال ذکر کیے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ آخر اس مسئلہ میں اتنا کیوں اختلاف اور انتشار ہے ؟ ! اس کی اصل وجہ ولایت سے دوری ہے۔ قرآن کریم راہ ہے اور اہل بیتؑ چراغِ راہ ہیں ۔ اہل بیتؑ سب مصباح الہدی و سفینۃ النجاۃ ہیں جیساکہ روایات میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے: { سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَ فِيهَا نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِق؛ میرے اہل بیتؑ کشتی ِ نوحؑ کی مانند ہےجو اس میں سوار ہو گیا نجات پا گیا اور جو رہ گیا غرق ہو گیا}. [1]صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، ج ۱، ص ۲۹۷۔حقیقت میں یہ مسئلہ واضحات میں سے ہے کیونکہ قرآن کریم نے واضح طور پر بیان کیا ہے:{ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ وَ هُوَ اللَّطيفُ الْخَبير؛  }. [2]انعام: ۱۰۳الکافی اور دیگر کتبِ معتبرہ میں امام علیؑ کے کلمات وارد ہوئے ہیں: { عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: جَاءَ حِبْرٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حِينَ عَبَدْتَهُ قَالَ فَقَالَ وَيْلَكَ مَا كُنْتُ أَعْبُدُ رَبّاً لَمْ أَرَهُ قَالَ وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ قَالَ وَيْلَكَ لَا تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فِي مُشَاهَدَةِ الْأَبْصَارِ وَلَكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْإِيمَانِ؛}. [3]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۴۳۔ پس ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رؤیت کے قائل ہیں لیکن مجسمہ اور معتزلہ و اشاعرہ کی مانند نہیں بلکہ قلوب سے اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔ 

نصیحت۱:

نہج البلاغہ میں امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں:  >… أَلَا حُرٌّ يَدَعُ هَذِهِ اللُّمَاظَةَ لِأَهْلِهَا إِنَّهُ لَيْسَ لِأَنْفُسِكُمْ ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةَ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا <. [4]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۵۶، حکمت قصار: ۴۵۶۔  اللہ تعالیٰ نے انسان کو قیمتی خلقت بنایا ہے لہٰذا اگر وہ اپنے آپ کو فروخت کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اپنے آپ کو جنّت سے کم قیمت پر کسی صورت فروخت نہ کرے۔ ہمیں چاہیے اس طرح زندگی بسر کریں کہ ہم جنّت میں جائیں اگر ہم جنت نہ جائیں تو ہم نے بہت خسارہ کا سودا کیا ہے اور نقصان اٹھایا ہے۔ اسی لیے روزِ قیامت کا ایک نام یومِ تغابن ہے کہ اس میں غبن اور نقصان اٹھانے والے کی نسبت سے اس کا یہ نام ہے۔

منابع:

منابع:
1 صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، ج ۱، ص ۲۹۷۔
2 انعام: ۱۰۳
3 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۴۳۔
4 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۵۶، حکمت قصار: ۴۵۶۔
Views: 31

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مکاشفات کی اقسام اور مراتب
اگلا مقالہ: اللہ تعالی کا ظاہر ہونا