loading
{تمهيد القواعد في شرح قواعد التوحيد}
علم عرفان کا موضوع
درس: تمهيد القواعد لابن تركة
استاد: آية الله سيد يوسف إبراهيميان
تحریر: سید محمد حسن رضوی

موضوعِ علم عرفان:

ہر علم کے مقدمہ میں عمومًا تین امور ذکر کیے ہیں: ۱۔ موضوع، ۲۔ مبادئ، ۳۔ مسائل۔ جہاں تک موضوع کا تعلق ہے تو علماء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ کیا ہر علم خاص موضوع کا حامل ہوتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں تین نظریات اہم ہے:
۱۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر علم خاص موضوع کا حامل ہوتا ہے اور اسی طرح اس علم کے مسائل اس علم کے ساتھ خاص ہوتے ہیں۔ مسائل ’’مسئلہ‘‘ کی جمع ہے جوکہ موضوع و محمول پر مشتمل ہوتے ہیں، مثلاً علم النحو کے مسائل الفاعل مرفوع، المفعول منصوب ہے۔ مسائل کے موضوعات ’’موضوعِ علم‘‘ کا ایک فرد ہے ۔
۲۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ہر علم موضوع نہیں رکھتا ، جیساکہ محقق محمد حسین اصفہانی اسی کے قائل تھے۔
۳۔ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ علوم دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:
الف) علم حقیقی: جیسے فلسفہ، ریاضی وغیرہ، ان کا ایک موضوع ہونا ضروری ہے۔
ب)  علم اعتباری: جیسے تاریخ، رجال، جغرافیہ وغیرہ، ان کے لیے ایک موضوع کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ایک امورِ اعتباری ایسے ہیں جنہیں فرض کیا جاتا ہے اور دوسرا وہ اعتباری ہے جس کا ریشہ تکوینیات میں ہے ۔ اس نوعِ دوم جس کی جڑ کائناتی امور میں ہے وہ امورِ تکوینی سے ممکن ہے زیادہ تاثیر رکھتے ہیں ، مثلاً ریاست اور حکومتی مسائل جوکہ تکوینی امور سے اعتبار کیے جاتے ہیں۔

تمایزِ علوم موضوع یا غرض

دوسری بحث یہ ہے کہ علوم ایک دوسرے سے کیسے جدا اور ممتاز ہوتے ہیں؟ تمایزِ علوم کیا ہے؟ اس بارے میں دو نظریہ موجود ہیں:
۱۔ تمایز علوم ہر علم کے موضوع کی بناء پر ہے، مثلاً علم النحو اور علم الصرف میں فرق موضوع کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اگرچے ہر دو کلمہ سے بحث کرتے ہیں لیکن علم النحو میں معرب اور مبنی کے اعتبار سے بحث ہے اور علم صرف میں اشتقاق اور بناوٹ کے اعتبار سے بحث ہوتی ہے اور یہی سے یہ دو علم ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
۲۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ علوم میں تمایز اغراض و اہداف کی بناء پر ہے، مثلاً اگر تصحیح کلام غرض ہے تو یہ علم النحو ہے اور اگر تصحیح فکر ہے تو یہ علم منطق کہلاتا ہے۔

شرافتِ علم کا معیار

یہی سے یہ مطلب سامنے آتا ہے کہ شرافت علوم کس سے حاصل ہوتی ہے؟ ہر وہ علم جس کا موضوع اہم اور اشرف تر ہے وہ علم اشرف ترین اور اہم ترین ہے۔ اسی طرح اگر کوئی تمایزِ علوم اغراض و اہداف کو قرار دے تو پھر شرافت و بلندیِ علم کا معیار غرض و ہدف ہو گا کہ ایک علم کا محصول یا غرض کیا ہے؟ جس کا غرض و ہدف جس قدر بالاتر اور اشرف ترین ہے وہ علم اتنا ہی اشرف ترین اور بالاترین ہے۔ ظاہراً شارح موضوع کو شرافتِ علم کا معیار قرار دیتے ہیں اس لیے ہر وہ علم جس کا موضوع کا مفہوم کے اعتبار سے ’’أعم‘‘، مفہوم کے شمول کے اعتبار سے ’’اشمل‘‘ اور معنی کے اعتبار سے ’’اَبین اور روشن تر‘‘ ہے اور تصور اور تعقل کے اعتبار سے ’’اقدم ترین ‘‘ ہو وہ علم اتنا اشرف اور بلند ہے۔ عرفانِ نظری کا موضوع تمام علوم سے اشرف ہے کیونکہ اس کا موضوع ’’وجود‘‘ ہے جو اہم، اشمل، ابین اور اقدم  ہے۔ پس علم عرفان کا موضوع چار صفات سے متصف ہے:
۱۔ علم عرفان کا موضوع مفہوم کے اعتبار سے تمام موضوعات سے ’’عمومی تر و اعم‘‘ ہے جوکہ تمام علوم کے موضوعات کو شامل ہے۔
۲۔ علم عرفان کا موضوع مفہوم کے شمول کے اعتبار سے ’’اتم‘‘ ترین مفہوم رکھتا ہو، کیونکہ اس کے موضوع کا مفہوم اتم ترین مفہوم ہے جو تمام مفہومات کو شامل ہے۔
۳۔ علم عرفان کا موضوع معنی کے اعتبار سے ’’روشن ترین و ابین‘‘ مفہوم ہے جوکہ تمام معانی سے زیادہ واضح اور روشن ہے۔
۴۔ علم عرفان کا موضوع تصور کے اعتبار سے ’’اقدم و اسبق‘‘ ہے کیونکہ تمام مفاہیم میں سب سے اقدم و اسبق مفہوم علم عرفان کا موضوع ہے۔
یہاں موضوعِ عرفان کا ’’أعم، ابین اور اقدم‘‘ ہونے کا تعلق مفہوم کی دنیا سے ہے جبکہ دوسری صفت یعنی موضوعِ عرفان کا ’’أتم‘‘ ہونا اس کے مصداق سے مربوط ہے۔

پہلا اشکال اور جواب:

اگر کہا جائے کہ موضوعِ سافل کا موضوعِ عالی سے مطلق طور پر اخص ہونا واجب ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ موضوعِ سافل ہمیشہ موضوعِ عالی سے اخص ہو کیونکہ علم موسیقی کو اگر حساب سے مقایسہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اہل تحقیق نے تصریح کی ہے کہ موسیقی کا شمار حساب کے ماتحت ہوتا ہے جبکہ ان دونوں کے موضوع کے درمیان بالذات تباین پایا جاتا ہے !!

اس کااشکال کا جواب دیتے ہوئے شارح کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ موضوعِ سافل ہمیشہ موضوعِ عالی کے ماتحت ہو گا اور اس سے اخص ہو گا یا تو بالذات ایسا ہو گا یا اس حیثیت اور اعتبار سے جس اعتبار سے بحث کی جا رہی ہے۔ ورنہ وہ موضوع سافل نہیں کہلائے گا۔ علم موسیقی کو حساب کے ماتحت مطلق طور پر قرار نہیں دیا گیا بلکہ ایک حیثیت کے اعتبار سے موسیقی اخص ہے حساب سے۔ موسیقی میں متعدد نغمے ہوتے ہیں جن سے علم موسیقی میں بحث کی جاتی ہے ، اگرچے یہ نغمے مطلقِ کم کے اعتبار سے متاین اور متنافی کیفیات رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نغمے موسیقی کا موضوع نہیں بنتے سوائے اس صورت کے کہ ’’کمِ منفصل‘‘ کے باب سے ان نغموں پر مختلف عوارض عارض ہوتے ہیں اور اسی اعتبار سے موسیقی حساب کے ماتحت آ جاتا ہے۔

دوسرا اشکال اور جواب:

دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر عام اور خاص کے مابین نسبت کی حیثیت کفایت کرے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا موضوعِ اعلیٰ بالذات اعم ہو، بلکہ اعم بحیثیت کافی ہو گا۔ پس موضوعِ اعلیٰ کا بالذات عمومی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ کسی ایک حیثیت سے عمومی ہو جائے تو بھی صحیح ہے۔ لہٰذا آپ کا بیان تام اور مکمل نہیں ہے۔

اس کے جواب میں شارح کہتے ہیں کہ ہم اس بات کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اگر ہم اس تلازم کو قبول کر لیں یعنی حیثیتِ اخص کافی ہے تو حیثیتِ اعم بھی کافی ہو گی کو قبول کر لیں تو علم عرفان میں حیثیت موضوع سے خارج نہیں ہے بلکہ خارج من صمیمہ ہے۔ علم عرفان میں موضوع حیثیتِ بسیط ہے۔ پس حیثیت موضوع سے خارج نہیں ہے بلکہ نفسِ مفہوم موضوع ہے۔ پس ہر دو صورتوں میں لازم عموم بالذات ہے۔

تیسرا اشکال اور جواب:

اگر آپ کہتے ہیں کہ علم عرفان میں حیثیتِ موضوع نفسِ مفہوم اور طبعیتِ موضوع ہے تو اس سے لازم یہ آئے گا کہ علم عرفان میں وجود من حیث وجود بحث ہو گی جوکہ فلسفہ ہے۔ پس اس صورت میں عرفان اور فلسفہ میں فرق باقی نہیں رہ جائے گااور ہر دو ایک علم ہیں۔

اس کے جواب میں شارح بیان کرتے ہیں کہ فلسفہ میں موضوع وجودِمطلق ہے جس میں موضوع کو اطلاق کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ جبکہ عرفان میں اطلاق کی قید بھی نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر فلسفہ میں موضوع ’’وجودِ مطلق‘‘ ہے یا عرفان میں موضوع ’’مطلقِ وجود‘‘ ہے۔عرفان میں اطلاق ’’وجود‘‘ کی قید نہیں ہے جبکہ فلسفہ میں اطلاق قید ہے وجود کی۔ بالفاظِ دیگر عرفان میں وجود موضوع ہے لیکن لا بشرط مقسمی اور فلسفہ میں وجود موضوع ہے لیکن لا بشرط قسمی ۔ اس بحث کو بہترین طریقے سے مرحوم تقی آملی نے شرح منظومہ میں بیان کیا ہے۔

چوتھا اشکال:

گذشتہ سطور میں ہمارا کہنا یہ تھا کہ موضوعِ عرفان اشرف، اعم اور ابین ہے اس لیے فلسفہ اس کے ذیل میں آتا ہے۔ لیکن مستشکل یہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ موضوعِ فلسفہ وجود مطلق ہے اور اعم ہے ۔ چونکہ اعم ہے اس لیے اشرف ہے۔ابن سیناء نے الہٰیات ِ شفاء میں ذکر کیا ہے کہ موجود بما ھو موجودتمام مقولات میں امرِ مشترک ہے اس لیے اس کا موضوع سب سے اعم ہے۔

اس کے جواب میں شارح کہتے ہیں کہ انسانِ کلی اپنے افراد کو شامل ہے لیکن افراد کی خصوصیات کو شامل نہیں ہے، مثلاً مفہوم انسان ایک مفہوم کلی ہے جوکہ انسان کے تمام افراد کو شامل ہے۔ لیکن ان افراد کی خصوصیات کو مفہومِ انسان شامل نہیں ہے، مثلاً زید و عمرو و بکر کے کیف و کم و شخصی صفات کو شامل نہیں ہے۔ لہٰذا  أين زيد؟ أين بكر؟ متى جاء زيد؟ وغیرہ جیسے مفاہیم کو مفہومِ انسان شامل نہیں ہے۔لیکن عرفان جس وجودِ مطلق کا قائل ہے وہ انسان اور انسان کی تمام خصوصیات و صفات و احوال کو شامل ہے۔ پس عرفان کا موضوع اعم ہے۔کوئی شیء وجود سے باہر نہیں ہے اس لیے وجود تمام وجودات کو بھی شامل ہے اور اس کی خصوصیات کو بھی ۔جسمِ مادی لا متناہی ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُون }.[1]ذاریات: ۴۷۔ عرفان قبض و بسط کو قبول کرتا ہے ۔ سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ کائنات بڑھتی جا رہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ پھر سمٹ جائے گی۔ پس فلسفہ کا موضوع مقید ہے جبکہ عرفان کا موضوع مطلق ہے اور کسی قید کے ساتھ مقید نہیں ہے۔

ہر مفہوم جس کو آپ ملاحظہ کریں تو وہ حصرِ عقلی کے طور پر تین حالتوں سے خالی نہیں ہے: یا خارج میں مادہ میں کا محتاج ہے یا ذہن میں مادہ کا محتاج ہے یا ہر دو جگہ مادہ کا محتاج نہیں ہے، مثلاً جو ذہنی اور خارجی طور پر مادہ کی قید سے آزادہے وہ الہٰیات ہے اور اگر ذہن میں مادہ کا محتاج نہیں ہے لیکن خارج میں مادہ کا محتاج ہے تو یہ طبیعیات کہلاتا ہے اور اگر خارج میں مادہ کا محتاج نہیں لیکن ذہنی طور پر مادہ کا محتاج ہے تو یہ ریاضیات کہلاتا ہے۔تمام علوم ان تین علوم کے ماتحت مندرج ہیں اور یہ تینوں علم عرفان کے موضوع کے ماتحت مندرج ہوتے ہیں۔ پس جس مفہوم کا دائرہ عمومی ہے اس کے ماتحت وہ مفہوم آ جائے گا جو اس سے اخص ہے۔ اس اعتبار سے ثابت ہوا کہ تمام علوم اور مفاہیم ان تین علوم یعنی الہٰیات، ریاضیات اور طبیعیات کے ماتحت آتے ہیں اور یہ تینوں وجودِ مطلق کے ماتحت آتے ہیں اور مطلق طور پر تمام مفاہیم اس مفہوم کے ماتحت مندرج ہوتے ہیں اس لیے اعم ترین موضوع عرفان کا ہو گا۔

علم عرفان کا موضوع ’’وجودِ مطلق‘‘ سب سے اعم و ابین ہے اس لیے اس کے مسائل اور مبادئ بھی اعم اور اشمل ہیں۔نیز یہاں ایک مسئلہ پیش آتا ہے کہ ہم موضوعِ عرفان کو کیا نام دیں ؟ ہر اعم ابیَن ہے۔ اشیاء میں جو چیز وجود کے قریب تر ہے وہ اعم و ابین ہے اور جو ابین ہو وہ اقدم بھی ہوتا ہے۔ وجود چونکہ ابین و اعم ترین مفہوم ہے اس لیے اقدم بھی یہی ہے۔ اس کے بعد جو وجود کے جتنا قریب ہے اتنا اعم و ابیَن و اقدَم ہے۔لہٰذا جس میں زیادہ واسطے ہوں وہ اتنا غیر بیّن ہوتا ہے۔ واضح ہے کہ ہر چیز جو اصلِ وجود کے قریب ہے اس کی نسبت اصل وجود کی طرف بھی واضح اور بیّن ہو گی۔ تمام جواہر و اعراض اپنے تحقق کے لیے وجود کے محتاج ہیں۔ حق تعالیٰ سے نزدیک ترین لفظ وجود ہے اس لیے عرفان میں وجود کو موضوعِ عرفان قرار دیا جاتا ہے۔ یتحقق بنفسہ سے مراد جواہر اور ’’بشیء آخر‘‘ سے مراد اعراض ہیں۔ وجود اگر جوہر اور عرض کے مقارن ہو تو جوہر و عرض تحقق پیدا کرتے ہیں۔

 

منابع:

Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اسماء حسنی اہل عرفان کی نظر میں
اگلا مقالہ: مکاشفات کی اقسام اور مراتب