loading

{مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى}

جہان حقیقت انسانی کی صورت

درس: مقدمة شرح فصوص الحکم (داؤد قيصرى)
استاد: آيت الله شيخ حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

الفصل الثامن: في أن العالم هو صورة الحقيقة الإنسانية

واحد سے کچھ صادر نہیں ہوتا سوائے واحد کے۔ اس قاعدہ کا اطلاق فقط اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ حتی عقل اول پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ہے کیونکہ عقل اول ممکن ہے۔ بعض نے اس پر اشکال کیا ہے کہ ایک فرد متعدد افعال انجام دے سکتا ہے، جیسے زید ایک فرد ہے لیکن سونا، جاگنا وغیرہ متعدد افعال انجام دیتا ہے۔ یہ اشکال وارد نہیں ہوتا کیونکہ اس قاعدہ کا تعلق فقط اللہ تعالیٰ سے ہے۔ ملاصدرا نے اسفار میں جلد ۷ میں تفصیل سے تمام شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے بدونِ واسطہ فقط ایک چیز صادر ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے جو سب سے پہلے صادر ہوئی ہے اس کو ’’صادرِ اول، نفس رحمانی، حقیقت محمدیہ ﷺ…‘‘ کہا جاتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی نے نوے (۹۰) نام اس صادر اول کے ذکر کیے ہیں۔البتہ ہر اسم ایک مناسبت رکھتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ سے اس مناسبت سے تعلق بنتا ہے۔ اس عالم میں ہر موجود اللہ تعالیٰ کے تعینات میں سے ایک تعین ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :{ وَكُلَّ شَيْ‏ءٍ أَحْصَيْناهُ في‏ إِمامٍ مُبين‏ }. [1]یس: ۱۲۔ زیارت جامعہ کبیرہ میں اس طرح ان الفاظ میں اشارہ ہوتا ہے: > وَأَرْوَاحُكُمْ‏ فِي‏ الْأَرْوَاحِ‏ وَأَنْفُسُكُمْ فِي النُّفُوسِ وَآثَارُكُمْ فِي الْآثَار < .[2]شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۶۱۶۔ یہ صادرِ اول مظہرِ اسم شریف اللہ ہے۔ جامع ترین اسمِ الہٰی ’’اللہ‘‘ ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسم اللہ کا مظہر انسان کامل یا صادر اول ہے۔سب سے پہلے ذات  ہے پھر اسماء ہیں جن میں سب سے پہلے مرتبہِ احدیت ہے اور پھر مرتبہِ واحدیت ہے جس کے لوازم میں سب سے پہلا ’’صادرِ اول‘‘ ہے۔

اسم اللہ تمام اسماء میں متجلی ہے ج مراتب الہیہ اور اس کے مظاہر کے اعتبار سے مختلف ہے۔ تقدم کی مختلف انواع ہیں، جیسے تقدم بالحقیقۃ والمجاز، تقدم ذاتی، تقدم وضعی، تقدم بالشرف وغیرہ۔ ملاصدرا نے ’’تقدم بالتجوھر‘‘ کا اضافہ کیا ہے جس سے مراد ایک ماہیت کا دوسری ماہیت پر تقدم ہے۔ عرفاء نے ایک اور نوعِ تقدم کا اضافہ کیا ہے جوکہ ’’تقدم بالحق‘‘ ہے۔ یہ تقدم کی اقسام استقرائی ہے۔ اسم اللہ تمام اسماء پر تقدم رکھتا ہے۔ جس طرح اسمِ اللہ تمام اسماء پر تقدم رکھتا ہے اسی طرح مظہرِ اسم اللہ تمام مظاہر پر تقدم رکھتا ہے اور تمام مظاہر میں متجلی ہے جیساکہ زیارت جامعہ کبیرہ میں ہے۔ اسمِ اللہ کو ایک مرتبہ ذات کے اعتبار سے ملاحظہ کرتے ہیں اور دوسری مرتبہ اسمِ اللہ کا تمام اسماء کو شامل ہونا ہے۔

اسم اللہ اعتبار اول:

اسم اللہ کا مظہر انسان کامل ہے اور تمام اسماء کے مظاہر حقیقت میں انسان کامل کا مظہر ہیں۔ کیونکہ ’’ظاہر اور مظہر ‘‘اصلِ وجود میں ایک ہیں، جس میں نہ کوئی کثرت ہے اور نہ کوئی تعدد ہے، مثلا ہم کہتے ہیں کہ خارج میں ماہیت اور وجود ایک ہیں ، لیکن ذہن وجود اور ماہیت کو الگ الگ اعتبار کرتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ کونسا اس میں اصیل ہے اور کونسا اس میں اعتباری ہے۔ کوئی حکیم ہر دو کے اصیل ہونے کا قائل نہیں ہے۔ ایک ما بإزاء ہے اور ایک ما بانتزاع ہے۔ وجود اور ماہیت خارج میں ایک ہیں۔ ’’ظاہر اور مظہر‘‘ وجود کے لحاظ سے ایک ہیں لیکن عقل یعنی ذہن ایک کو ظاہر اور ایک کو مظہر قرار دیتا ہے۔ اس لیے ’’اسم اللہ‘‘ تمام اسماء کو شامل ہے اور یہ شمول ایک حقیقتِ واحد کا اپنے تمام متنوع و متعدد افراد کو شامل ہونا ہے۔ حاشیہ ملا عبد اللہ میں تحریر ہے کہ کلی طبیعی معنی کے اعتبار سے خارج میں موجود ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کلی طبیعی عینی طور پر خارج میں موجود ہے۔

اعتبارِ ثانی:

اسم اللہ مرتبہِ الہٰی یعنی مرتبہِ واحدیت جوکہ احدیت نیچلا مرتبہ ہے پر تمام اسماء کو شامل ہے۔ مرتبہِ احدیت اور مرتبہ واحدیت ہر دو اسماء و صفات کے مراتب ہیں لیکن مراتبِ احدیت وجودِ اجمالی رکھتا ہے جبکہ واحدیت وجودِ تفصیلی رکھتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں وہی فرق ہے جوکہ قرآن اور فرقان میں ہے کیونکہ قرآن ایک رات نازل ہوا جبکہ فرقان ۲۳ سال میں نازل ہوا۔قرآن کے بارے میں باب افعال ’’انزال‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے جوکہ دفعی نزول کو بیان کرتا ہے جبکہ فرقان تدریجی نزول ہے جسے باب تفعیل ’’تنزیل‘‘ سے بیان کیا جاتا ہے۔ پس مرتبہِ واحدیت مرتبہ تفصیل ہے۔ اسمِ اللہ اس مرتبہِ الہٰیہ (مرتبہ واحدیت) میں اسی طرح تمام اسماء کو شامل ہے جیسے کل تمام اجزاء کو شامل ہوتا ہے۔ کلِ مجموعی جیسے بدنِ انسان کا تمام اس کے اجزاء کو شامل ہونا ہے۔ جب ہمیں اسمِ اللہ میں ظاہر اور مظہر کے واحد ہونے کا علم ہو گیا تو یہاں سے معلوم ہو گیا کہ تمام عوالم کے حقائق ’’علم اور عین یعنی خارج ‘‘ میں حقیقتِ انسانی (حقیقت محمدیﷺ ) کے مظاہر ہیں اور حقیقتِ انسانی اسمِ اللہ کا مظہر ہیں۔ پس تمام عوالم کی ارواح ’’روحِ اعظم انسانی‘‘ کی جزئیات ہیں، چاہے وہ روحِ فلکی ہو یا روحِ عنصری یا روحِ حیوانی۔ ان حقائق کی صورتیں اس حقیقتِ انسانی کی صورت ہے اور ان حقائق کے لوازم اس حقیقت انسانی کے لوازم ہیں۔ اس لیے عالمِ مفصل جو ہم سے خارج عالم ہے کو عرفاء ’’انسان کبیر‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ حقیقتِ انسانی اور اس کے لوازم اس میں ظاہر ہیں۔امام علیؑ سے منسوب کلمات ہیں کہ تم اپنے آپ کو جِرم صغیر سمجھتے ہو جبکہ تم میں عالم اکبر پنہاں ہے۔ چنانچہ تمام اسرار الہٰی ظہور اور اشتمال اسی حقیقت انسانی میں ہے نہ کہ اس کے غیر میں ؛ اس لیے یہی تمام حقائق میں خلافت کا مستحق فقط یہی حقیقتِ انسانی قرار پائی۔شیخ طوسی نے مصباح المتہجد رجب کے مہینے میں ہر روز پڑھی جانے والی  دعا توقیع مبارک سے یہ دعا نقل کی ہے: > اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَانِي جَمِيعِ مَا يَدْعُوكَ بِهِ وُلَاةُ أَمْرِكَ الْمَأْمُونُونَ عَلَى سِرِّكَ الْمُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ الْوَاصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ الْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ أَسْأَلُكَ بِمَا نَطَقَ فِيهِمْ مِنْ مَشِيَّتِكَ فَجَعَلْتَهُمْ مَعَادِنَ لِكَلِمَاتِكَ وَأَرْكَاناً لِتَوْحِيدِكَ وَآيَاتِكَ وَمَقَامَاتِكَ الَّتِي لَا تَعْطِيلَ لَهَا فِي كُلِّ مَكَانٍ يَعْرِفُكَ بِهَا مَنْ عَرَفَكَ لَا فَرْقَ‏ بَيْنَكَ‏ وَبَيْنَهَا إِلَّا أَنَّهُمْ عِبَادُكَ وَخَلْقُكَ فَتْقُهَا وَرَتْقُهَا بِيَدِكَ بَدْؤُهَا مِنْكَ وَعَوْدُهَا إِلَيْك‏ <. [3]شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ج ۲، ص ۸۰۳۔پس اللہ تعالیٰ مالک ہے اور آئمہؑ و حقیقتِ محمدیﷺ مملوک، وہ رب یہ مربوب ہیں۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ ہمیں ’’ربّ‘‘ نہ کہو۔ علامہ حسن زادہ آملی ایک شعر میں کہتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ غالی کہتے ہیں کہ حقیقتِ محمدیﷺ رب ہیں اور سُنی کہتے ہیں کہ خدا جدا ہے اور نورانی (یعنی شیعہ) کہتے ہیں کہ آئمہ ؑ نہ خدا ہیں اور نہ اس سے جدا ہیں۔

حقیقتِ انسانی کا ظہور عقلِ اول کی صورت میں سب سے پہلے ہوا۔ عقلِ اول پہلا مرتبہِ ظہور ہے صادرِ اول کا۔ صادر اول مقدم ہے عقلِ اول سے کیونکہ عقلِ اول پﷺلا ظہور ہے جسے اللہ تعالی نے خلق کیا ہے جبکہ اس سے پہلے صادرِ اول ہے۔ صادرِ اول کے مراتب میں سے ایک مرتبہ عقل اول ہے۔ صادرِ اول کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ’’مرتبہِ عمائِیَّہ‘‘ ہے۔ عماء کا مطلب لغت میں رقیق و نازک بادل کے ہیں جوکہ ہمارے اور آسمان کے درمیان واسطہ ہےجس کے نیچے ہم ہیں اور اوپر ہوا ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی مراد عماء سے مادی نہیں ہے ۔

نقطہ باء:

حقیقتِ انسانی ایک اسم ہے صادرِ اول کا۔ امام علیؑ سے منسوب خطبہ ہے جسے عرفاء نے فقط نقل کیا ہے اور محدثین نے نقل نہیں کیا۔ اس خطبہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں : أنا نقطة باء بسم اللّه، أنا جنب اللّه الّذي فرطتم فيه، وأنا القلم، وأنا اللّوح المحفوظ، وأنا العرش، وأنا الكرسي، وأنا السماوات السّبع والأرضون‏. [4]خوئی، میرزا حبیب اللہ ، منہاج البراعۃ، ج ۱۹، ص ۳۲۴۔ احادیث میں آیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ُ كُنْتُ نَبِيّاً وَ آدَمُ بَيْنَ‏ الْمَاءِ وَ الطِّين‏۔ [5]ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج ۱، ص ۲۱۴۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ امام علیؑ اس وقت ولی تھے جب آدمؑ پانی اور خاک کے مابین تھے ، جیساکہ امام علیؑ سے منسوب فرمان ہے: كنت‏ُ وَليّا وآدم بين الماء والطين‏. [6]آملی، جامع الاسرار، ص ۳۸۲۔ اس روایت کو فقہاء و محدثین امامیہ قبول نہیں کرتے لیکن متعدد اہل سنت عرفاء قبول کرتے ہیں۔ انسان کامل تمام موجودات میں سریان رکھتا ہے اسی طرح جیسے حق تعالیٰ موجودات میں سریان رکھتا ہے۔ کتابِ تکوینی کا آغاز جس نقطہ سے ہے وہ باء کے نیچے نقطہ ہے جس کے ایک مصداق امام علیؑ ہیں۔اس مثال میں جہتِ مقرِّب کو ہم نے ملاحظہ کرنا ہے بقیہ پہلوؤں کو نہیں۔ سالک کے سفر میں سے تیسرے سفر میں من الحق الی الخلق بالحق ہے اس میں تیسرے سفر میں یہ سریان پایا جاتا ہے۔ یہ سفر خود انسان کامل کے کمال کو تمام کرتا ہے اور انسان کامل مخلوق کو اللہ کی طرف کھینچتا ہے۔ اس سفر کے ذریعے سے حق الیقین حاصل ہوتا ہے اور یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آخر عین اول ہے اور یہی سے اس آیت کریمہ کا راز ظاہر ہوتا ہے: هُوَ الْأَوَّلُ وَ الْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْباطِنُ وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ عَليم‏. [7]حدید: ۳۔ اول و آخر کا بھی اس انسان کامل کے سریان سے علم ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ حقیقتِ انسانی ظاہر اور باطن ہے۔

کَونین میں تطابق:

جہانوں میں جو کچھ ہے وہ سب اجمالی طور پر آدم میں موجود ہے۔ ہمارے پاس دو کَون ہیں: ۱۔ ایک کَون ’’عالم‘‘ ہے ، ۲۔ دوسرا کَون آدم یعنی انسان کامل ہے۔ ’’عالم‘‘ مظاہرِ حقیقتِ انسانی کو واجد ہے تفصیلی طور پر اور آدم ان مظاہر کو اجمالی طور پر رکھتا ہے۔عالم میں پہلا مرتبہ عقل اول ہے جبکہ اسی کے مطابق آدم میں صورتِ روح مجرد ہے۔  عالم میں نفسِ کلیہ ہے اور اس کے مطابق آدم  میں صورتِ قلبی ہے۔ عالم میں طبیعتِ کلی ہے اور اس کے مطابق آدم میں نفس طبیعی ہے۔ عالم میں ہیولیٰ کلی ہے اور اس کے مطابق آدم میں روحِ بخاری ہےجوکہ انسان کے جسم مادی سے تعلق رکھتی ہے۔ عالم میں جسم طبیعی ہے اور آدم میں صورت دموی ہے۔ عالم میں اجسام ہے اور آدم میں اعضاء و جوارح ہے۔ پس دو جہاں ہیں ایک ’’عالم‘‘ اور دوسرا ’’آدم‘‘۔ ہر وہ چیز جو عالم میں ہے وہ آدم میں ہے اس فرق کے ساتھ کہ عالم میں تفصیل کے ساتھ ہے اور آدم میں اجمال کے ساتھ۔ اسی لیے انسان کو خلیفۃ اللہ کہا جاتا ہے اور انسان عالم کبیر ہے۔ نہ فرشتہ خلیفہِ الہٰی ہے اور نہ کوئی اور خلقت۔شیخ اکبر نے اس موضوع کی تفصیل پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ہے: التدبيرات الإلهية في المملكة الإنسانية۔

 

 

منابع:

منابع:
1 یس: ۱۲۔
2 شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲، ص ۶۱۶۔
3 شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ج ۲، ص ۸۰۳۔
4 خوئی، میرزا حبیب اللہ ، منہاج البراعۃ، ج ۱۹، ص ۳۲۴۔
5 ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج ۱، ص ۲۱۴۔
6 آملی، جامع الاسرار، ص ۳۸۲۔
7 حدید: ۳۔
Views: 19

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اسماء حسنی اہل عرفان کی نظر میں
اگلا مقالہ: حقیقت محمدی کا خلیفہ اور قطب الاقطاب ہونا