loading

{مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى}

حقیقت محمدی ﷺ کا خلیفہ و قطب الاقطاب ہونا

درس: مقدمة شرح فصوص الحکم (داؤد قيصرى)
استاد: آیت اللہ حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

الفصل التاسع:

رسول اللہ ﷺ قطب الاقطاب ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقطاب متعدد ہیں۔ اسماء الہٰی میں سے ہر اسم کی دو صورتیں ہیں: ایک صورت ’’علمِ الہٰی‘‘ میں ہے اور دوسری صورت ’’عین‘‘اور خارج  میں ہے۔ اگر اسم کی صورت علمِ الہٰی میں ہو تو اس کو عرفاء ’’عینِ ثابت‘‘ کہتے ہیں جبکہ حکماء اس کو ماہیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ماہیت حکماء کی نظر میں اشیاء کی علمی صورت ہے۔اسی طرح اسم کی ایک صورت ’’خارج از ذاتِ ربوبی ‘‘ ہے جسے حکماء موجودِ امکانی سے تعبیر کرتے ہیں اور عرفاء اس کو ’’مظہر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔لہٰذا مظاہر اور موجوداتِ امکانی ایک ہی ہیں۔ عرفاء چونکہ وجودِ شخصی کے قائل ہیں اس لیے وہ مظاہر کو وجود سے تعبیر نہیں کرتے۔

پس ہر ’’اسم‘‘ دو صورت رکھتا ہے، علمی اور خارجی۔ان صورتوں کے اعتبار سے یہ اسم ان صورتوں کا ’’ربّ اور مربّی‘‘ ہے اور یہ صورتیں اسی اسم کی حاکمیت کے ماتحت اپنے آثار کو ظاہر کرتی ہیں۔ پس اسماءِ الہٰی’’اربابِ انواع‘‘ ہیں۔ اربابِ انواع حکماء کی تعبیر ہے۔ بعض اوقات ان اسماءِ الہٰی کو مُثُل افلاطونی بھی کہا جاتا ہے۔حکماء میں افلاطون کا شدت سے رب النوع کے قائل تھے۔ پس مثُل افلاطونی یا ارباب الانواع وہی اسماء الہٰی ہیں۔

اسم لفظی اور اسم واقعی میں فرق:

عرفاء کی نگاہ میں اسم لفظی اور اسم واقعی میں فرق ہے۔ یہاں اسماء سے مراد اسم لفظی نہیں ہے کیونکہ اسمِ لفظی حقیقت میں اسم الاسم ہے۔  اسمِ واقعی اس اسماءِ لفظی کا مسمّی ہے، مثلًا ’’علیم‘‘ اللہ تعالی کے اسماء میں سے ایک اسم ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علیم کا مسمّی ’’اسم حقیقی و اقعی‘‘ ہے( اور اس اسم واقعی کا ایک مسمّی ہے)۔ اسمِ علیم حضرت جبریلؑ ہیں ۔ اسی طرح ’’مُمیت‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے ۔ لفظِ مُمیت کا مسمّی حقیقت میں اسمِ واقعی ممیت ہے جوکہ جناب عزرایلؑ ہیں۔ اسی طرح ہم ’’مُحیی‘‘ کو اسماءِ الہٰیہ میں شمار  کرتے ہیں، جبکہ حقیقت میں لفظ مُحیی کا مسمّی اسم واقعی یعنی جناب اسرافیلؑ  ہیں۔اسماءِ الہٰی سے مراد وجودِ خارجی اور وجود واقعی ہے۔ اس جہاں میں ہر موجود ایک اسم کی حاکمیت کے ماتحت ہے اور وہ اسم اس موجودِ خارجی کا مربّی ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے اسم کی طرف آتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک وجود ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر وجود کسی اسم کے ماتحت ہے تو وجودِ رسول اللہ ﷺ کس اسم کی حاکمیت میں ہیں اور کونسا اسم وجودِ رسول ﷺ کا مربّی ہے؟ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ وجودِ رسول اللہ ﷺ جس اسم کی حاکمیت میں ہیں وہ ’’اسمِ اللہ‘‘ ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کا جامع ترین اسم اللہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا وجودِ اقدس اسمِ اللہ کا مظہر ہے۔ اسم اللہ تمام اسماء پر اختیار رکھتا ہے اور سب اسماءِ الہٰیہ کا جامع ہے۔ اسی طرح اسمِ اللہ کا مظہر یعنی وجودِ رسول ﷺ تمام جہانوں پر اختیار رکھتے ہیں۔ اسی لیے سورہِ حمد کے آغاز میں ہم پڑھتے ہیں : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمين‏. [1]حمد: ۲۔اس آیت کریمہ میں ’’رب العالمین‘‘ اسم جلالہ اللہ کی صفت واقع ہو رہا ہے ۔ اسم اللہ عالمین کا رب ہے اسی طرح اس کا مظہر عالمین کے کمالات کو شامل اور اس پر اختیار رکھتا ہے۔ چاہے وہ عالم ظاہری ہو یا باطنی ہر دو پر اسم اللہ کا مظہر اختیار اور قدرت رکھتا ہے۔ نیز جس طرح اسم اللہ جامع اور کامل ہے اسی طرح اس کا مظہر بھی کامل و جامع ہے، یعنی یہ مظہر علمِ کامل رکھتا ہے، قدرتِ کامل کا حامل ہےاور یہی مظہرِ اسم اللہ ’’خلیفۃ اللہ‘‘ ہے۔ ضروری ہے کہ خلیفہ مستخلف کی صفات کا حامل ہو۔ اس کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ ڈرائیور کا ایک مددگار ساتھی ہوتا ہے جس کی سیٹ پر اس کی نیابت میں ٹرک چلاتا ہے۔ ٹرک وہی نائب چلا سکتا ہے جو ڈرائیور کی صفات کا حامل ہو۔ دعائے

نبوتِ تشریع اور نبوت انبائی میں فرق:

دو قسم کی نبوت ہے: ۱۔ نبوت تشریعی، ۲۔ نبوتِ انبائی جس میں غیب سے خبر لیتے ہیں ۔ نبوت تشریعی خاتون کو حاصل نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل ؑ بھیجیے اور رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں جن کے بعد نبوتِ تشریعی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ پس آئمہ اطہارؑ نبوتِ تشریع نہیں رکھتے لیکن نبوتِ انبائی رکھتے ہیں۔ اسی طرح جناب زہراءؑ نبوتِ تشریع نہیں رکھتیں لیکن نبوتِ انبائی کی حامل ہیں۔ روایات میں واضح طور پر آیا ہے کہ جناب جبریلؑ جناب فاطمہؑ کے پاس آتے ہیں اور نہیں خبر دیتے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ امام علیؑ لکھتے بھی تھے۔ الکافی میں مولدِ جناب فاطمہؑ کے باب کی صحیح السند حدیث میں وارد ہوا ہے:{ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ ابْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ ع مَكَثَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص خَمْسَةً وَسَبْعِينَ يَوْماً وَكَانَ دَخَلَهَا حُزْنٌ شَدِيدٌ عَلَى أَبِيهَا وَكَانَ يَأْتِيهَا جَبْرَئِيلُ ع فَيُحْسِنُ عَزَاءَهَا عَلَى أَبِيهَا وَيُطَيِّبُ نَفْسَهَا وَيُخْبِرُهَا عَنْ أَبِيهَا وَمَكَانِهِ وَيُخْبِرُهَا بِمَا يَكُونُ بَعْدَهَا فِي ذُرِّيَّتِهَا وَكَانَ عَلِيٌّ ع يَكْتُبُ ذَلِكَ}. [2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۴۸۹ امام خمینی کی ایک سخنرانی ہے جس میں امام خمینی فرماتے ہیں کہ جناب فاطمہؑ کے بہت مقامات وارد ہوئے ہیں لیکن میری نظر میں سب سے بلند مقام یہ ہے جوکہ صحیح السند روایت میں الکافی میں آیا ہے کہ جناب جبریلؑ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔پھر امام خمینی کہتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا اثر نہیں ملا جس میں یہ آیا ہو کہ جناب جبریلؑ کسی امام معصومؑ کے پاس نہیں آئے۔ محققین کہتے ہیں کہ شیخ کلینیی نے الکافی اس طرح سے مرتب کی ہے کہ وہ ہر باب میں متعدد احادیث ذکر کرتے ہیں اور جو حدیث سند کے اعتبار سے سب سے قوی ہو وہ سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے درجے کی روایت اور اس طرح پورے باب میں احادیث انہوں نے مرتب کی ہیں۔  علامہ حسن زادہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نیند سے اٹھا تو یہ کلمات زبان پر جاری تھے جس پر مجھے بہت تعجب ہوا:«التوحيد أن تنسى غير اللّه»۔سورہ آل عمران آیت ۴۲ اور ۴۵ میں وارد ہوا ہے: {وَإِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفاكِ عَلى‏ نِساءِ الْعالَمين‏… إِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبين‏}. [3]آل عمران : ۴۲ – ۴۵۔پس نبوتِ انبائی غیر انبیاءؑ کے لیے بھی ہے اور وہ مرد کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی تاکید سے کہتے تھے کہ نبوتِ انبائی کو اگر جاننا چاہتے ہیں تو سورہ کہف کو دقت سے مطالعہ کریں۔ بعض اوقات خفی طور پر اولیاء کو بھی نبوتِ انبائی حاصل ہوتی ہے۔نبوت انبائی منقطع نہیں ہوتی بلکہ نبوتِ تشریع ختم ہوتی ہے۔جب دائرہِ ولایت کامل ہو جائے تو قیامت لازم ہو جائے گی۔

صورت انسانی اور صورت حیوانی:

اس دنیا میں صورت انسانی ہے لیکن دوسرے جہاں میں صورتِ حیوانی ہو سکتی ہے مثلا صورتِ خنزیر۔ بحار الانوار میں دیگر کتبِ احادیث سے روایت نقل ہے رسول اللہ ﷺ سے جس میں سورہ نبأ آیت ۱۸ کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:{عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ جَالِساً قَرِيباً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ فِي مَنْزِلِ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ فَقَالَ مُعَاذٌ يَا رَسُولَ أَ رَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى‏ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْواجاً الْآيَاتِ فَقَالَ: يَا مُعَاذُ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيمٍ مِنَ الْأَمْرِ ثُمَّ أَرْسَلَ عَيْنَيْهِ ثُمَّ قَالَ تُحْشَرُ عَشَرَةُ أَصْنَافٍ مِنْ أُمَّتِي أَشْتَاتاً قَدْ مَيَّزَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَبَدَّلَ صُوَرَهُمْ فَبَعْضُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقِرَدَةِ وَ بَعْضُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْخَنَازِيرِ وَبَعْضُهُمْ مُنَكَّسُونَ أَرْجُلُهُمْ مِنْ فَوْقُ وَوُجُوهُهُمْ مِنْ تَحْتُ ثُمَّ يُسْحَبُونَ عَلَيْهَا وَبَعْضُهُمْ عُمْيٌ يَتَرَدَّدُونَ وَبَعْضُهُمْ بُكْمٌ لَا يَعْقِلُونَ وَبَعْضُهُمْ يَمْضَغُونَ أَلْسِنَتَهُمْ يَسِيلُ الْقَيْحُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ لُعَاباً يَتَقَذَّرُهُمْ أَهْلُ الْجَمْعِ وَبَعْضُهُمْ مُقَطَّعَةٌ أَيْدِيهِمْ وَ أَرْجُلُهُمْ وَ بَعْضُهُمْ مُصَلَّبُونَ عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَارٍ وَبَعْضُهُمْ أَشَدُّ نَتْناً مِنَ الْجِيَفِ وَبَعْضُهُمْ يَلْبَسُونَ جِبَاباً سَابِغَةً مِنْ قَطِرَانٍ لَازِقَةٍ بِجُلُودِهِمْ فَأَمَّا الَّذِينَ عَلَى صُورَةِ الْقِرَدَةِ فَالْقَتَّاتُ مِنَ النَّاسِ وَأَمَّا الَّذِينَ عَلَى صُورَةِ الْخَنَازِيرِ فَأَهْلُ السُّحْتِ وَ أَمَّا الْمُنَكَّسُونَ عَلَى رُءُوسِهِمْ فَأَكَلَةُ الرِّبَا وَ الْعُمْيُ الْجَائِرُونَ فِي الْحُكْمِ وَالصُّمُّ الْبُكْمُ الْمُعْجَبُونَ بِأَعْمَالِهِمْ وَ الَّذِينَ يَمْضَغُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ فَالْعُلَمَاءُ وَ الْقُضَاةُ الَّذِينَ خَالَفَتْ أَعْمَالُهُمْ أَقْوَالَهُمْ وَ الْمُقَطَّعَةُ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ الَّذِينَ يُؤْذُونَ الْجِيرَانَ وَالْمُصَلَّبُونَ عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَارٍ فَالسُّعَاةُ بِالنَّاسِ إِلَى السُّلْطَانِ وَالَّذِينَ هُمْ أَشَدُّ نَتْناً مِنَ الْجِيَفِ فَالَّذِينَ يَتَمَتَّعُونَ بِالشَّهَوَاتِ وَاللَّذَّاتِ وَيَمْنَعُونَ حَقَّ اللَّهِ فِي أَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ يَلْبَسُونَ الْجِبَابَ فَأَهْلُ التَّجَبُّرِ وَالْخُيَلَاءِ}. [4]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۷، ص ۸۹۔

تمام عوالم میں جنت و جہنم کا ہونا:

جنت اور دوزخ تمام عوالم میں متحقق ہوتی ہے۔ ابھی ہم جنت و جہنم کے الفاظ سنتے ہیں تو فورا ہمارے ذہن میں قیامت میں موجود جنت و جہنم کا تصور آتا ہے جبکہ اس دنیا اور برزخ میں بھی جنت و جہنم ہے۔ کتاب میں پانچ جنت و جہنم ذکر کی ہیں: ۱۔ اعیانِ ثابتہ میں جنت و جہنم، ۲۔ قیامت کی جنت و جہنم، ۳۔ برزخی جنت و جہنم، ۴۔ دنیا کی جنت  و جہنم، ۵۔ انسانی جنت و جہنم۔

قیامت کی جنت و جہنم تو معروف ہے جیساکہ کثیر آیات میں وارد ہوا ہے۔ برزخی جنت و جہنم کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ امام سجادؑ اور اما صادقؑ سے منقول حدیث ہے: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ لِلْقَبْرِ كَلَاماً فِي كُلِّ يَوْمٍ يَقُولُ أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ ، أَنَا بَيْتُ الْوَحْشَةِ ، أَنَا بَيْتُ الدُّودِ ، أَنَا الْقَبْرُ ، أَنَا رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ‏ حُفَرِ النَّارِ. [5]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۹۷۔اسی طرح دنیا کے بارے میں آیا ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے ، امام صادقؑ فرماتے ہیں: أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ الدُّنْيَا سِجْنُ‏ الْمُؤْمِنِ‏ فَأَيُّ سِجْنٍ جَاءَ مِنْهُ خَيْرٌ. [6]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۶۳۰۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مومنین جو رفاہ میں ہیں اور غنی و ثروت میں ہے اور وہ کافر جو فقر و فاقہ کا شکار ہے اس کے لیے دنیا کیسے جنت ہے اور اس غنی مؤمن کے لیے کیسے دنیا سجن ہے؟! امامؑ جواب دیتے ہیں کہ آخرت میں مومن کو جو نعمات ملیں گی اس کے مطابق دنیا کی تمام ثروت کچھ حیثیت نہیں رکھتی اور آخرت میں جو عذاب ہے اس کے مقابلے میں کافر کا فقر و فاقہ مثل جنت ہے۔ پس یہاں سے ثابت ہوا کہ جنت و جہنم دنیا میں بھی ہے، برزخ میں بھی ہے اور قیامت میں بھی ہے۔ اسی طرح ایک چوتھی قسم ’’جنت و جہنم انسانی‘‘ ہے۔ اس سے مراد انسان کے وجود میں ’’روح و قلب جنت‘‘ اور نفس امارہ جہنم ہے۔ مرتبہِ روح اجمال اور مرتبہِ قلب تفصیل ہے جیسے ملکہِ اجتہاد مجتہد میں اجمال اور رسالہِ عملیہ اسی ملکہِ اجتہاد کی تفصیل ہے۔جہنم مظہرِ دنیا ہے۔البتہ یہ جنت و جہنم ہر عالم میں اسی عالم کے مطابق ہے اور جنت و جہنم کی ماہیت بھی اسی عالم کے مطابق ہے۔ منشاءِ جنت آرام و نعمت اور منشاءِ جہنم تکلیف و عذاب ہے اس لیے ہر عالم میں یہ منشاء موجود ہے۔قبرستان میں جائیں تو سب کی قبریں ایک جیسی ہیں جن میں مومن فاسق سب ایک جیسی قبروں میں ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ قبرستان کی قبریں انسان کی نہیں بلکہ جسدِ انسان کی ہیں ۔ ظاہرِ انسان چونکہ یکساں ہیں اس لیے ظاہری قبریں بھی ایک جیسی ہیں لیکن باطن انسان مختلف ہے اس لیے حقیقی قبر ایک جیسی نہیں ہے۔قیامت کے ناموں میں سے ایک ’’ساعت‘‘ ہے جیساکہ قرآن کریم میں آیا ہے۔
۔قیامت کی اقسام ہیں

قیامت کی پانچ قسمیں ہیں جوکہ عوالم کی پانچ قسموں ’’غیب مطلق، غیب مضاف، شہادت مضاف، شہادت مطلق، کَونِ جامع‘‘ کی ترتیب سے ہے۔ قیامت یعنی مردے کا زندہ ہونا، اگر اس کو قیامت کہیں تو ہر آن قیامت ہے کیونکہ موجودات ہر آن مرتے اور زندہ ہوتے ہیں۔ اہل سنت متکلمین کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ موجودات حدوث میں موجِد کے محتاج ہیں لیکن بقاء کے لیے نہیں جیساکہ عمارت بنانے میں مزدور کی ضرورت ہے لیکن اس کی بقاء میں مزدور کی ضرورت نہیں!! علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں اس نظریے کے اختیار کرنے کی اصل وجہ ولایتِ امام علیؑ سے دوری کا ہونا ہے۔ موجودات کو ہر لحظہ ہر آن فیض کی ضرورت ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ یہ مثال باطل ہے بلکہ اگر مثال دینی ہے تو سورج اور کرن کی مثال دیں کہ کرن کا وجود بھی سورج سے اوربقاء بھی سورج کی جانب سے ہے۔ اگر ایک آن کے لیے فیضِ الہٰی منقطع ہو جائے تو وجودات باقی نہیں رہیں گے۔ پس ایک قیامت ہر آن ہر لحظہ ہے جس کی اساس حرکتِ جوہری ہے۔ حرکتِ جوہری موجوداتِ مادی میں مطرح ہے لیکن مجردات میں تعددِ مجددات سے تعبیر کرتے ہیں۔ مجردات کے لیے حرکت جوہری کی تعبیر استعمال نہیں کرتے کیونکہ حرکت نقص سے کمال کی طرف جانے کو کہتے ہیں۔ اس لیے مجردات میں حرکت کو تج۔ملاصدرا حرکتِ جوہری کے مؤسس نہیں ہیں بلکہ رومی ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں ذکر کیا۔ ملا صدرا نے اس نظریہ کو پروان چڑھایا۔ اس نوعِ قیامت کی مثال بلب سے دی جاتی ہے کہ خاموش ہوتا ہے اور جلتا ہے اگر لائٹ پیچھے سے ہلائی جائے۔  دوسری قیامت ’’موت‘‘ ہے۔ انسان جیسے ہی مرتا ہے جزا و سزا شروع ہو جاتا ہے، جیساکہ روایت میں وارد ہوا ہے: مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِيَامَتُهُ.[7]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۷۔  البتہ یہ برزخ کی حدود کے دائرہ میں ہے۔  تیسری قسم قیامت کی موتِ اختیار ی و ارادی ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ مُوتُوا قَبَلَ أَن تَمُوتُوا. [8]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۶۹، ص ۵۹۔اس سے مراد یہ ہے کہ راہِ الہٰی کے سالک جب حق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو موتِ طبیعی سے پہلے موت کی طرف بڑھتے ہیں اور اپنے ہوائے نفس کو کچل دیتے ہیں اور نفس کی لذات سے اجتناب کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ نوعِ موت ’’حیات‘‘ ہے۔ جو موتِ ارادی رکھتا ہے اس کی چشمِ بازی کھل جاتی ہے اور اس کے لیے حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ موتِ ارادی کو عرفاء قیامتِ صغری کہتے ہیں۔ اس نوعِ قیامت کو حاصل کرنے کے لیے امام علیؑ کی مثال دی جا سکتی ہے جیساکہ امام علیؑ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے شیعہ و سنی کتب میں حدیث وارد ہوئی ہے: رَسُولِ اللَّهِ ص أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى آدَمَ فِي عِلْمِهِ وَ إِلَى نُوحٍ فِي تَقْوَاهُ وَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ فِي حِلْمِهِ وَإِلَى مُوسَى فِي هَيْبَتِهِ وَإِلَى عِيسَى فِي عِبَادَتِهِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع. [9]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۳۹، ص ۳۹۔ قیامت کی ان تین اقسام کی طرف شبستری نے ان الفاظ میں تصریح کی ہے:

سه گونه نوع انسان را ممات است **** یکی هرلحظه، وان برحسب ذات است

دوم زانها ممات اختیاری است **** سوم مردن مراو را اضطراری است

چو مرگ و زندگی باشد مقابل **** سه نوع آمد حیاتش در سه منزل

جهان را نیست مرگ اختیاری **** که آن را از همه عالم تو داری. [10]شبستری، شرح گلشن راز، سہ نوع موت۔

بعض نے یہ گمان کیا ہے کہ موت ارادی ’’قیامتِ وسطی‘‘ ہے کیونکہ یہ موتِ طبیعی اور قیامتِ کبری کے درمیان حاصل ہوتی ہے!! صحیح یہ ہے کہ موتِ ارادی موتِ طبیعی سے پہلے ہے نہ کہ بعد میں۔ قیامت کی چوتھی قسم وہی ہے جو قیامت کے عنوان سے معروف ہے اور متدینین کے درمیان مشہور ہے۔ قیامت کی پانچویں  قسم اولیاء کے ساتھ خاص ہے۔ وہ اولیاء الہٰی جو فناء کی منزل تک پہنچے تو ان میں سے بعد ترقی کرکے بقاء بعد از فناء تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ پس ایک منزل فناء فی اللہ ہے اور ایک بقاء باللہ بعد الفناء ہے۔ عرفاء پانچویں قسم یعنی بقاء باللہ بعد الفناء کو قیامتِ کبریٰ کہتے ہیں جبکہ عوام الناس چوتھی قسم کو قیامتِ کبریٰ کہتے ہیں۔قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے: أَ فَعَيينا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ في‏ لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَديد. [11]ق: ۱۵۔ یہ آیت کریمہ مطلق طور پر قیامت کو بیان کر رہی ہے۔ ہر قیامت کے اپنے آثار اور لوازم ہیں جن کو قرآن کریم کی آیات اور احادیثِ صحیحہ صریح اور اشارۃ بیان کرتی ہیں۔

۔

منابع:

منابع:
1 حمد: ۲۔
2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۴۸۹
3 آل عمران : ۴۲ – ۴۵۔
4 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۷، ص ۸۹۔
5 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۹۷۔
6 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۶۳۰۔
7 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۷۔
8 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۶۹، ص ۵۹۔
9 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۳۹، ص ۳۹۔
10 شبستری، شرح گلشن راز، سہ نوع موت۔
11 ق: ۱۵۔
Views: 124

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: جہان حقیقت انسانی کی صورت
اگلا مقالہ: رسول اللہ کا امام علی کو جنگوں کی خبر دینا