loading

{مباحث قرآنی و عرفانى}

اسماءِ حسنی اہل عرفان کی نظر میں

تحرير: سيد محمد حسن رضوی
12/12/2021

اہل لغت نے تصریح کی ہے کہ کلمہِ اسم یا تو ’’س-م-و‘‘ یعنی سمو سے بنا ہے یا ’’و-س-م‘‘ یعنی وسم سے مشتق ہے۔’’ سِمُوٌّ‘‘کا مطلب علوّ و بلندی ہے جبکہ ’’ وَسم‘‘ کا مطلب علامت کے ہیں۔ اکثر اہل لغت قائل ہیں کہ اسم ’’ سِمُوٌّ‘‘سے مشتق ہے کیونکہ جب ہم اسم کی تصغیر بناتے ہیں تو ’’ سُمَيّ‘‘بنتی ہے اور اسم کی جمع اسماء آتی ہے۔ [1]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۳، ص ۹۹۔ راغب نے ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ ہے جس سے ذاتِ شیء پہچانی جاتی ہے۔[2]راغب اصفہانی، حسین محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج ۱، ص ۲۴۴۔پس اسم کی مسمّی پر دلالت ہوتی ہے اور اسم اصل ذات سے جدا ہوتا ہے، جیساکہ ہم اکثر ناموں کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ ناموں کے ذریعے سے ہمیشہ ایک ذات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ اہل بیتؑ کی معتبر و صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جس نے اللہ اور اس کے اسم کی عبادت کی اس نے شرک کیا اور جس نے اللہ اور معنی ہر دو کی عبادت کی تو یہ بھی شرک ہے اور جس نے فقط معنی یعنی ذات کی عبادت کی یہ توحید ہے۔[3]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۱۸۔یہاں سے ہمارے لیے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء میں فرق کرنا ضروری ہے۔

اسماء حسنی عرفاء کی نظر میں

صدر الدین قونوی نے تحریر کیا ہے کہ حق سبحانہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے حجابِ عزّ میں ہے۔ اس کے  اور اس کے ماسواہ کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس جہت سے اس کی ذات میں غور و خوض کرنا اور اس کو طلب کرنے کا شوق  رغبت وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ۔

Views: 40

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: کیا عید غدیر معتبر احادیث سے ثابت ہے؟
اگلا مقالہ: جہان حقیقت انسانی کی صورت