loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۳}

حکومت اسلامی بنیاد وحی الہٰی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

قرآن کریم میں انبیاء الہٰی و رسول اللہ ﷺ کا ایک اہم ترین وظیفہ جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء لوگوں پر حاکمیت کریں۔ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ انبیاءالہی آمروں کی طرح  اپنی مرضی کی حکومت نہیں کرتے بلکہ جو ان کو سکھایا جاتا ہے فقط اس تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوۓ حکومت کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر اسلامی حاکم اپنی مرضی سے حکومت نہیں چلاتا بلکہ قوانین الہی کے آگے خود وہ بھی سرتسلیم خم ہوتا ہے۔اس لیے حکومت اسلامی کو قانون کی حکومت کہہ سکتے ہیں۔ حاکمیت اسلامی یا ولایت فقیہ یعنی قانون کی حکومت۔

 وحی کی حکومت

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«إِنَّا أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِما أَراكَ اللهُ‌».؛ (اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں۔[1] نساء: ۱۰۵۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں پر حکومت کریں لیکن اپنے میل اور ارادے کی بنا پر نہیں بلکہ جو آپ پر وحی ہوتی ہے اس کے مطابق حکومت کریں۔کیونکہ اس جہان کا خالق اور مالک اللہ ہے۔تنہا خدا اور رب وہی خدا ہے جو ولی اور حاکم ہے۔ جس نے وحی کے ذریعے تمام انسانوں کی تدبیر اور تربیت کی ہے۔لیکن یہاں پر ایک سوال ہے یہ کتاب حق جو آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے وہ وحی کی صورت میں کیسے رسول اللہ ﷺ تک پہنچے گی؟ وحی کیا ہے اور کیا رسول اللہ ﷺ کی ہر بات حق ہے ؟ ان سوالات کا جواب دینا ضروری ہے۔

وحی کے تین مرحلے

اللہ تعالی نے انسانی معاشروں کی حاکمیت در اصل اپنے دست قدرت میں قرار دی۔ یہ حکومت کیسے قائم ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وحی کے ذریعے۔ وحی کے ذریعے اللہ تعالی اپنا حکم رسول  تک پہنچاۓ گا اور رسول من و عن اس وحی کو آگے پہنچا دیں گے۔ وحی تین مراحل میں نازل ہوتی ہے۔ ان تینوں  مراحل میں رسول اللہ ﷺ کو معصوم اور مصون قرار دیاگیا ہے۔وحی کے تین مرحلے درج ذیل ہیں۔
۱۔ مرحلہ دریافت وحی
۲۔ مرحلہ ضبط و نگہداری وحی
۳۔ مرحلہ ابلاغ و انشاء وحی
نبی اکرمﷺ وحی کو دریافت کرتے ہیں، اس کو یاد کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں، اوراس وحی کو امانت کے ساتھ درست طریقے سے امت تک پہنچاتے ہیں، ان تینوں مرحلوں میں نبی اکرمﷺ معصوم ہیں غلطی نہیں کر سکتے۔

وحی کا پہلا مرحلہ

پہلے مرحلے میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرمایا:« نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ » ؛ جسے روح الامین نے اتارا۔[2] شعراء: ۱۹۳۔ بیان ہوا کہ وحی کا فرشتہ اس وحی کو آپ ؐکے قلب مبارک پر نازل کرتا ہے اور وہ اس کام میں ہرگز غلطی نہیں کرتا۔ وحی میں کمی یا زیادتی نہیں کرتاامانت اور بغیر کسی تبدیلی کے آپ ؐتک پہنچادیتا ہے۔ اور آپ ؐبھی اس وحی میں بغیر کسی کمی و زیادتی کے امت تک پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:« وَإِنَّکَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ عَلِیمٍ » ؛ اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقینا ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔[3] نمل: ۶۔ علم لدنی سے مراد وہ علم ہوتا ہے جس کا منبع اور سرچشمہ خدا ہو۔

وحی کا دوسرا مرحلہ

دوسرے مرحلے میں رسول اللہ ﷺ وحی کو جس طرح سے نازل ہوتی ہے اسی طرح سے یاد کر لیتے ہیں اور اس کو محفوظ کر تے ہیں۔اس مرحلے میں بھی اللہ تعالی نے قرآ ن کریم میں رسول اللہ ﷺ کو معصوم قرار دیا ۔ اور بیان ہوا کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ بھی خدا کی طرف سے دریافت کرتے ہیں اپنے قلب کے حرم میں اس کو محفوظ کر لیتے ہیں  اس میں کمی و زیادتی نہیں کرتے۔ارشاد رب العزت ہوتا ہے: « سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى » ؛ (عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔[4] اعلی: ۶۔

وحی کا تیسرا مرحلہ

اس مرحلے میں رسول اللہ ﷺ کتبی یا شفہی صورت میں وحی ابلاغ کرتے ہیں۔ آپؐ کلام الہی بولتے جاتے ہیں اور دوسرے اس کو سنتے ہیں یا لکھ لیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ذکر ہوتا ہے:« وَالنَّجْمِ إِذا هَوى مَا ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوَى. وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى. إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحى » ؛ قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب کرے۔ تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔[5] نجم: ۱تا۴۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:« وَما هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنينٍ » ؛ اور وہ غیب (کی باتیں پہنچانے) میں بخیل نہیں ہے۔[6] تكوير: ۲۴۔ رسول اللہ ﷺ وحی کو پہنچانے میں کتمان نہیں کرتے یعنی جو نازل ہوتا ہے بیان کر دیتے ہیں کچھ بھی چھپاتے نہیں ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا کلام بھی معصوم اور مصون ہے۔ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ راوی نے پوچھا جب ہم آپ کی محضر میں ہوتے ہیں تو جو کچھ بھی دیکھنے یا سننے کو ملے لکھ لیں؟ فرمایا: ہاں! عرض کیا کہ کبھی آپ خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں اور کبھی غضبناک ۔ تو کیا ان حالات میں بھی جو کچھ ہم سنیں یا دیکھیں وہ لکھ لیں؟ فرمایا لکھ لو۔ روایت کے الفاظ ہیں کہ راوی کہتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
«يا رسول الله أكتب كلما أسمع منك؟ قال : نعمقلت : في الرضا والغضب؟ قال : نعم فإني لاأقول في ذلك كله إلا الحق» ؛  یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں جو کچھ بھی آپ کی طرف سے سنتا ہوں وہ لکھ لیا کروں؟ فرمایا: ہاں! میں نے عرض کی رضایت اور غضب  ہر دو حالتوں میں؟ فرمایا: ہاں ! میں جو کچھ بھی  ان حالات میں کہتا ہوں سواۓ حق کے کچھ نہیں ہوتا۔[7] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۲، ص۱۴۷۔ پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں پر وحی کی حکومت ہو اور انسانی معاشرہ الہی تعلیمات کے مطابق چلے تو لازم ہے کہ ایک ایسا انسان کامل اس کے لیے قرار دیا جاۓ جس کے لیے وحی ممثل ہو۔ وحی اس کے سامنےحاضر ہو۔ وہ انسان کامل جس کا قلب کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوتا ، ہرگز گناہ کا خیال تک نہیں کرتا اور یہ انسان سواۓ معصوم کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

حکومت وحی میں سب برابر

حکومت وحی میں ایسا نہیں ہے کہ جس کے پاس معاشرے کی بڑی ذمہ داری ہے تو وہ آزاد ہوگا، جی نہیں! بلکہ اس پر وظائف دیگر افراد سے زیادہ لاگو ہیں۔ اگر عام لوگوں پر اللہ تعالی نے دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنا واجب قرار دیا ہے تو وہیں رسول اللہ ﷺ کے لیے چھ نمازیں قرار دی گئیں۔ جیسا کہ وارد ہوا: « أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ » ؛ زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب و عشاء کی) نماز قائم کرو۔ [8]اسراء: ۷۸۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ نماز شب بھی وجوبا ادا کریں۔اگلی آیت میں حکم ہوا: « وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ عَسى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقاماً مَحْمُوداً » ؛ اور رات کا کچھ حصہ قرآن کے ساتھ بیداری میں گزارو، یہ ایک زائد (عمل) صرف آپ کے لیے ہے، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔[9] اسراء: ۷۹۔ اسی طرح سے سیاسی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اگر عام لوگوں پر جہاد اور طاغوت سے مبارزہ واجب قرار دیا وہیں رسول اللہ ﷺ پر بدرجہ اولی واجب قرا ردیا کہ وہ جہاد کریں۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ اگر کوئی بھی آپ کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہ ہو تو تنہا قیام کے وظیفے کو پورا کریں۔ اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے: « فَقاتِلْ في سَبيلِ اللهِ‌ لا‌تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنينَ » ؛ (اے رسول) راہ خدا میں قتال کیجیے، آپ پر صرف اپنی ذات کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے اور آپ مومنین کو ترغیب دیں۔[10] نساء: ۸۴۔ مومنین کو جنگ اور نبرد کے لیے تشویق کا حکم دیا ، اگر مومنین آمادہ نہیں ہوتے تو تنہا اس امر کو انجام دیں۔ رسول اللہ ﷺ کا وظیفہ جہاد اکبر میں بھی عام لوگوں سے زیادہ قرار دیا گیا اور جہاد اصغر میں بھی۔[11] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۴تا۹۷۔

Views: 41

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اصلاحی تحریک کے ابتدائی خدوخال
اگلا مقالہ: حق حاکمیت کا قرآنی نظریہ