loading

نفس انسانی کی قوتیں

 سرح العيون في شرح العيون
(آیت اللہ حسن زادہ آملی)
استاد: شیخ حسن رمضانی
2021-08-24
تحرير:  سيد محمد حسن رضوی

 نفس کی متعدد قوتیں ہیں جن پر انسانی نفس مکمل تسلط اور ملکیت رکھتا ہے۔ بعض اوقات انسانی نفس یہ گمان کرتا ہے کہ وہ فقط ایک قوت ہے جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ انسانی نفس کئی قسم کی قوتوں کا مالک ہے جنہیں وہ اپنی مرضی اوراختیار کے ساتھ استعمال کرتا ہے ۔ ذیل میں انسانی نفس کی قوتوں کا ایک اجمالی تعارف پیش خدمت ہے:

يو) عَيْنٌ فِي تَعْدِيْدِ الْقُوَى النَّفْسَانِيَّةِ وَمَا دُوْنَهَا عَلَى سَبِيْلِ التَّصْنِيْفِ: رُبَّمَا يَتَوَّهَمُ أَنَّ النَّفْسَ قُوَّةٌ واحدةٌ تُدْرِكُ الْمُدرَكات المختلفة بِطُرُوِّ الإِضَافَاتِ وَالشُّرُوْطِ وَالإِعْدَادَاتِ عَلَيْهَا، وَالْحَقُّ أَنَّ النَّفْسَ جَوْهَرٌ وَاحِدٌ، وَلَهَا قُوَى مُنْبَعِثَةٌ عَنْهَا، بَلْ كُلَّهَا شُئُونُهَا وَإِنَ كَانَتْ مُنْبَثَّةً فِي أَعْضَائِهَا، وَهَذِهِ الْقُوَى بِمَنْزِلَةِ أَجْزِاءِ النَّفْسِ الْإِنْسَانِيَّةِ قَبْلَ أَنْ صَدَرَت وَانْبَسَطَتْ عَنْهَا وَانْفَصَلَتْ فِي أَجْزَاءِ الْبَدَنِ كُلّ قُوَّةٍ فِي مَوْضِعٍ يَلِيْقُ بِهَا. وَمَعْنَى التَّصْنِيْفِ هَيهُنَا أَنَّ هَذِهِ الْقُوَى لَا يَتَمَيَّزُ بَعْضُهَا عَنْ بَعْضٍ بِفُصُولٍ ذَاتِيَّةٍ كَمَا فِي الْأَنْوَاعِ النَّبَاتِيَّةِ وَالْحَيْوَانِيَّةِ بَلِ امْتِيَازُهَا بِعَوارِضَ إِنْسَانِيَّةٍ مِنْ تَقَدُّمِ بَعْضِهَا عَلَى بَعْضٍ، وَاسْتِخْدَامِ بَعْضِهَا قَبْلَ بَعْضٍ.[1]آملی، حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۸۔
اس عین کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض نے یہ گمان کیا ہے کہ نفس ایک ایسی قوت ہے جو مختلف مدرَکات کو درک کرتی ہے ، نفس کی طرف جب مختلف چیزوں کو اضافت دی جاتی ہے اور اس کی طرف مختلف چیزوں کو منسوب کیا جاتا ہے اور اسی طرح مختلف شروط جیسے سننا وغیرہ اور  دیگر مختلف چیز جو نفس پر طاری ہوتی ہیں تو نفس ان سب کو درک کرتا ہے۔ یہاں گمان یہ کیا گیا ہے کہ نفس ایک قوت سے ان سب چیزوں کو درک کرتا ہے۔ اس گمان کو دور کرتے ہوئے شیخ حسن زادہ آملی  فرماتے ہیں کہ نفس ایک حقیقت ہے جو متعدد قُوَی کا مالک ہے اور ان متعدد قوتوں سے مختلف طاری ہونے والی چیزوں کو درک کرتا ہے۔

نفس کا گمان

 نفس کی قُوَی نفس کے علاوہ ہیں جنہیں صنف صنف کے طور پر شمار کرنا چاہیے۔ بعض اوقات توہم کیا جاتا ہےکہ نفس ایک قوت ہے جوکہ مختلف مدرکات کو درک کرتا ہےجبکہ درست یہ ہے کہ نفس کے اعتبار سے تمام قوی صنف صنف ہیں، جیساکہ ہم توحید کے باب میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ  اللہ سبحانہ واحد ہے اور بقیہ فرشتوں اس کی نسبت سے صنف صنف ہیں۔  حق یہ ہے کہ نفس جوہرِ واحد اور اس کے لیے اس سے منعبث ہونے والی قُوَی ہیں۔ بلکہ یہ تمام شوؤنِ نفس ہیں اگرچے اعضاءِ نفس میں یہ قوی پھیلے ہوئے ہیں۔ بعض قوی مجرد ہیں اور بعض قوی مادی۔ یہ قوی حقیقت میں نفسِ انسانی کے اجزاء کی مانند ہیں۔ ہر قوت اس جگہ ہے جو اس کے لیے سازگار اور اس کے مناسب ہے۔

تصنیف کا معنی

 تصنیف کا معنی یہ ہے کہ یہ قُوَی ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی فصول کی بناء پر جدا نہیں ہوتیں جیساکہ نبات اور حیوان کی مختلف انواع ہیں اور تمام انواع ایک دوسرے سے ذاتی فصول  کی بناء پر جدا ہوتی ہیں ۔قوی ایک دوسرے لیے نوع نہیں ہیں کہ فصولِ ذاتی کی بناء پر جدا ہوں بلکہ قُوَی ایک دوسرے کی نسبت صنف ہیں۔ پس قوی تنویع نہیں تصنیف ہیں۔ قوی ایک دوسرے سے  عوارضِ انسانی کی بناء پر  ممتاز ہوتے ہیں۔ نیز بعض قوی دیگر بعض پر مقدم ہیں  ۔ الکافی میں امام جعفر صادق ×سے انتہائی خوبصورت دعا منقول ہے جس میں امام ×نے انتہائی دلکش اور جاذب ترتیب بیان کی ہے جس میں بعد والا مطلب پہلے معنی پر مترتب ہے۔ امام صادق ×فرماتے ہیں: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، عَلَيْكَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَاجْعَلِ‏ النُّورَ فِي‏ بَصَرِي‏ ، وَالْبَصِيرَةَ فِي دِينِي ،  وَالْيَقِينَ فِي قَلْبِي ، وَالْإِخْلَاصَ فِي عَمَلِي ، وَالسَّلَامَةَ فِي نَفْسِي ، وَالسَّعَةَ فِي رِزْقِي ، وَالشُّكْرَ لَكَ أَبَداً مَا أَبْقَيْتَنِي.[2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۵۵۰۔   یہ ترتیب کس قدر جاذب اور دلکش ہے۔ بصیرت مترتب ہے نورِ بصر پر ، یقین مترتب ہے بصیرت پر، اخلاص مترتب ہے اخلاص …۔ قوی کا تقدم و تأخر تصنیف کے مطابق ہے نہ کہ تنویع کے۔

فرشتوں کے بارے افراط و تفریط

نفسِ انسانی اور اسی طرح بقیہ نفوسِ حیوانی قوی رکھتے ہیں۔ قُوَی نفس سے مراد وہی خصوصیات ہیں جیسے سونگھنا، کھانا، پینا، نکالنا…۔  یہ قَوَی حقیقت میں تنزلاتِ نفس ہے۔ حقیقتِ نفس  انہی تنزلات کا مقام بالا ہے۔ اگر آپ نفس کو نیچے لے آئیں تو یہی تنزلات ہیں اور انہی تنزلات کو اوپر لے جائیں تو یہی نفس ہے۔ اللہ تعالی فرشتوں کے ذریعے سے تدبیر فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو واسطہ بنایاہے تو فرشتوں کو ہر گز مستقل قرار  نہیں دیا۔ اگر نفس کے قُوَی کے اعتبار سے اصلًا فرشتوں کے عمل دخل کی نفی کر دیں تو یہ تفریط ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ فرشتوں کو بھی مستقل اور قُوَی نفس پر کار ساز مان لیں تو یہ فرشتوں کے بارے میں افراط ہے۔ پس قُوَی کی نسبت سے فرشتوں کی نفی تفریط ہے اور اللہ تعالی کی نسبت سے فرشتوں کو مستقل ماننا  افراط ہے ۔ اگر فرشتوں کو مستقل مان لیں تو یہ غلو اور افراط ہے اور اگر فرشتوں کا انکار کر دیں تو یہ قُوَی کے اعتبارسے تفریط ہے کیونکہ فرشتوں کا دخل اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ پس قرآن کریم نے   فَالْمُدَبِّراتِ أَمْرًا [3]سورہ نازعات: آیت ۵۔    کے ذریعے  فرشتوں کے مدبر ہونے کو واضح بیان کیا ہے۔ بعض اوقات فرشتوں کے بارے میں ایسے گفتگو کی جاتی ہے کہ جیسے فرشتے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے!! یہ تفریط ہے۔ اس کے برعکس بعض اوقات سب کچھ فرشتوں کو قرار دے دیا جاتا ہے!! یہ افراط ہے۔

قوتِ نفس کے مختلف پہلو

قُوَی تحریکی، قُوَی ادراکی ، قُوَی حواس خمسہ … یہ تمام نفس کے شوؤن ہیں۔ حسِّ بصر، حسِّ شامہ، حسّ سماعت … یہ سب جدا جدا خصوصیت رکھتے ہیں اور سب نفس کے شوؤن ہیں۔ ان سب کے لیے اگر ایک اصطلاح بیان کریں تو وہ تصینف ہے ۔ یہاں سوال ابھرتا ہے کہ یہ سب کیسے ایک حقیقتِ نفس کے ساتھ سازگار ہو جاتے ہیں؟! یہ اس لیے سازگار ہیں کیونکہ نفس کے لیے یہ قُوَی  تنویع نہیں بلکہ تصنیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔  اگر یہ مطلب خوب سمجھ آ جائے تو توحیدِ عرفانی بہترین سمجھ آ جائے گی۔ امام علیؑ فرماتے ہیں:مَنْ‏ عَرَفَ‏ نَفْسَهُ‏ عَرَفَ رَبَّه‏ [4]آمدی، عبد الواحد، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، حدیث: ۴۶۳۷۔، معرفت ربّ کا معرفت نفس کے ساتھ جو ربط ہے اس بحث سے وہ ربط سامنے آتا ہے اور توحید ناب  اس سے سمجھ آتی ہے۔ اگراس  نوعِ معرفت نفس کو سمجھ لیں تو جہاں اللہ تعالیٰ کی معرفت ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے مُسبب الاسباب ہونے کی بھی معرفت حاصل ہوتی ہے، جیسے بیان کیا گیا ہے: ’’حق جانِ جہان است، جہان جملہ بدن،   اصنافِ ملائکہ قُوَی این تن، افلاک و عناصر و موالید، توحید ہم این است‘‘۔ اس کائنات کا جانِ جہان حق ہے اور کائنات کی مثال بدن کی سی ہے اور اس کائنات میں ملائکہ کی مثال بدن کے قُوَی کی سی ہے۔ یعنی جہان پر حاکم حق تعالیٰ کی ذات ہے اور فرشتے اس کی نسبت سے صنف صنف ہیں نہ کہ تنویع ہیں۔  موالیدِ ثلاث یعنی معدن، نبات و حیوان جوکہ اعضاء کی مانند ہے اور اعضاء کو قُوَی یعنی ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں اور یہی توحید ہے۔  اگر ہم نفس کو خوب پہچان لیں تو ربّ کو بہترین طریقے سے پہچان لیں گے۔

کتاب سرح العیون سے اقتباس 

اس کتاب میں آیت اللہ حسن زادہ آملی نے خود اس عین کی جو شرح کی ہے اس میں آغاز میں مختلف حکماء وفلاسفہ کے اقوال کو بیان کیا ہے جوکہ قائل ہیں کہ نفس کے قُوَی کو اگر نفس سے نسبت دی جائے تو یہ سب قُوَی تصنیف ہیں۔ [5]آملی، حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، عین: ۱۶، ۳۹۶۔ابن سیناء اپنی کتاب الشفاء میں حصہِ نفس کی پانچویں فصل میں ذکر کرتے ہیں کہ نفس تصنیف کے طور پر متعدد قُوَی رکھتا ہے۔ اگر ہم قُوَی نفس کو شمار کرنا چاہیں تو نفس کی قُوَی اوّلین تقسیم کے طور پر تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں:
۱) نفسِ نباتی: نفس نباتیہ اس اعتبار سے جسم طبیعیِ آلی  کے لیے پہلا کمال شمار ہوتا ہے کہ یہ متولد ہوتا ہے، نموکرتا ہے یعنی نشوو نما پاتا ہے اور غذا استعمال کرتا ہے۔ غذا خود جسم ہے جس کی شأنیت یہ ہے کہ وہ اس جسم کی طبیعت سے مشابہ ہے جس جسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غذا اس جسم کے لیے ہے۔ اس میں حل ہونے کی والی مقدار اضافہ کا باعث بنتی ہے یا اکثر مقدار یا کم مقدار۔
۲) نفسِ حیوانی: نفس حیوانیہ  اس  اعتبار سے جسم طبیعی آلی  کے لیے  پہلا کمال شمار ہےکیونکہ یہ نفس جزئیات کا ادراک کرتا ہے اور ارادہ سے حرکت کرتا ہے۔  
۳) نفسِ انسانی: نفس ِ انسانی سے مراد اس اعتبار سے جسم طبیعی آلی  کے لیے پہلا کمال ہے  کہ اس کی طرف تمام ان کاموں اور افعال کی نسبت دی جاتی ہے جو فکری اختیار اور رائے کے ذریعے استنباط ہوتے ہیں اور اس اعتبار سے جسم کے لیے کمال ہے کہ یہ نفس امورِ کلیہ کو درک کرتا ہے۔[6]آملی، حسن زادہ، النفس من کتاب الشفاء لابن سینا، ج ۱، ص ۵۵۔

التحصیل میں بہمنیار  نے نقل کیا ہے کہ نفسانیِ قُوَی تصنیف کے طور پر متعدد ہیں ۔ تصنیف کا مطلب یہ ہے کہ جو مقوِّمات کے ذریعے ایک دوسرے تمیُّز اختیار نہ کرے بلکہ عوارض کی بناء پر ایک دوسرے سے جدا ہوں۔ انسانی نفس کے لیے جو تین نفوس بیان کیے گئے ہیں یہ انسانی نفس کے لیے  اصناف ہیں نہ کہ انواع ، مثلا نفسِ انسانی تین اقسام میں تقسیم ہوتا ہے: نفسِ نباتی، نفس حیوانی، نفسِ انسانی۔ [7]آملی، حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، عین: ۱۶، ص ۳۹۹۔

Views: 76

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: معرفت نفس قرآن و برہان کی روشنی میں