loading

{ کتاب ولایت فقیہ  ،  آیت اللہ جوادی آملی }

ولایت فقیہ اور انسان کی آزادی  

تدریس: سید محمد حسن رضوی
تحریر: سید عون نقوی
12/31/2021

سعادت اور آزادی کا حصول سب انسانوں کی آرزو ہے لیکن سعادت اور آزادی کیا ہے؟ اس مفہوم سے اجمالی طور پر سب آگاہ ہیں لیکن اس کی دقیق تفسیر روشن نہیں۔ آزادی کو سب چاہتے ہیں لیکن آزادی کیا ہے؟ اور اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟ اس کو معین کرنا اگرچے آسان نہیں لیکن اس کے باوجود اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

آزادی ایک انسانی وصف

انسان متعدد صفات کی حامل ذات ہے  ایک صفت جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے آزادی ہے۔  آزادی کا معنی انسان کی اپنی شناخت اور جہان بینی پر موقوف ہے۔ آپ انسان شناسی کی جو تعریف کریں گے اس کے مطابق آزادی کی تعریف کی جاۓ گی۔ لہذا آزادی کی جو تعریف اسلام نے کی ہے وہ اس سے مختلف ہے جو مغربی مکاتب فکر نے آزادی کی تعریف کی ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی جہان اور انسان کی سعادت کے بارے میں جو نظر ہے وہ اس سے بالکل متفاوت و مختلف ہے جو مغربی مکاتب نے جہان اور انسان کے بارے میں پیش کی ہے۔

محدود ذات کی محدود آزادی 

انسان کو مطلق اور نامحدود آزادی حاصل نہیں۔ حکماء کے عقلی ضابطے کے مطابق ہر موجود کے اوصاف خود اس موصوف کے تابع ہیں۔ اگر موجود محدود ہے تو اس کے اوصاف بھی محدود ہوں گے۔ اگر موجود نامحدود ہے تو اس کے اوصاف بھی نا محدود ہوں گی۔ صرف اللہ تعالی لا محدود ذات ہے جس کی بناء پر اس کے اوصاف بھی لا محدود ہیں۔ جبکہ انسان محدود وجود رکھتا ہے، لہذا چار ناچار اس کے اوصاف بھی محدود ہوں گی، مثلا حیات، آزادی، علم، قدرت اور ارادہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان کو لامحدود حیات حاصل ہو جاۓ اور وہ کبھی بھی نہ مرے یا اس کو لامتناہی قدرت دے دی جاۓ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ بر فرض مثال اگر ایک موجود محدود ہو اور ہم اس کے لیے نامحدود وصف قرار دے دیں تو اس سے ’’تجاوز وصف از موصوف‘‘ لازم آتا ہے جو محال ہے۔ اگر تجاوز  وصف از موصوف لازم آ جاۓ تو کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں محال ہے جواب میں کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ذات کی کوئی صفت ایک ایسی جگہ پائی جا رہی ہے جہاں خود موصوف نہیں پہنچا، جب کہ ضروری ہے کہ صفت وہاں ہو جہاں موصوف موجود ہو۔ اگر موصوف موجود نہیں تو اس پر صفت کہاں سے عارض ہو گئی؟

انسان کا آزاد خلق ہونا

اللہ تعالی نے انسان کو جب خلق کیا تو اس کو محدود ذات عطا کی۔ پس ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک محدود ذات کو نا محدود آزادی میسر آئے۔ انسان کی ذات محدود ہے لہذا اس کی آزادی بھی محدود ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کا ارادہ اور اختیار ہر دو محدود ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک فرد جو معاشرے کا حصہ ہے اسے نامحدود آزادی دے دی جاۓ، کیونکہ اگر اس کو مطلق آزادی دے دی جائے تو معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاۓ گا۔

انسانی طبع کا سرکش ہونا

تاریخ بشریت اس چیز کی شاہد ہے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبع طغیان گر ہے۔ انسانی طبع ہمیشہ اس چیز کی طرف مائل رہی ہے کہ دوسروں کے اموال اور نفوس پر تجاوز کرے۔ سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ کا زمانہ دیکھ دلیں، قابیل نبی خداؑ کا بیٹا ہے اور جانتا ہے کہ خدا نے اس کے بھائی کی قربانی قبول کر لی ہے اور اس کی قبول نہیں ہوئی واضح آیات دیکھ کر بھی اپنے بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ اسے اپنی شکست قبول نہیں اور برتری چاہتا ہے۔ اس کے اندر ’’ ھل من مزید‘‘ کا شعلہ بھڑکا ہوا ہے وہ کسی بھی مقام پر پہنچ جاۓ راضی نہیں ہوتا۔ اور قناعت پسند نہیں۔

انسان اور توحیدِ فطری 

طبیعتِ انسان اور اس کی طغیان گری، انسان کی ذات کا ایک پہلو ہے۔ اسی انسان کے اندر فطرت بھی اللہ تعالی نے رکھ دی ہوئی ہے۔ انسان فطری طور پر توحید پرست، دین خواہ اور حق و عدل کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے آپ چاہے ملحد ترین معاشرے کا انسان بھی لے آئیں وہ بھی سچ کو پسند کرے گا اور جھوٹ سے متنفر ہوگا، حقیقی اور درست باتوں کو ماننا پسند کرے گا اور بے بنیاد غلط باتوں کو ماننے سے انکار کرے گا۔ ظلم سے نفرت کرتا ہوگا اور عدل و انصاف کو پسند کرتا ہوگا۔ اگر اس کی فطرت ابھی باقی ہے اور آلودہ نہیں ہوئی تو یقینا حق قبول کرے گا۔ مگر یہ کہ فسق و فجور اور طبیعت انسانی کا اس پر اتنا تسلط ہو گیا ہے کہ فطرت دب گئی ہے اور اسے آسانی سے نہیں بیدار کیا جا سکتا۔ فطرت انسانی کے حوالے سے قرآن کریم میں وارد ہوا: { فَأَقِمْ وَجْهَك  لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي‏ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّهِ  ؛ پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے }.  [1]روم: ۳۰۔

انسانی طبع کی مذمت

قرآن کریم میں انسان کے ہر دو پہلو، فطری اور طبیعی کو ذکر کیا گیا ہے۔ طبیعت انسانی کے متعلق پچاس مرتبہ یا اس سے بھی زائد جگہ پر ذکر ہوا ہے۔ یعنی جہاں پر بھی انسان کی بری صفات ہلوع(کم حوصلہ)، جزوع(گھبرانے والا)، منوع(بخیل)، قتور(تنگ دل)، ظلوم(ظالم)، جہول(نادان)، عجول(جلد باز) وغیرہ کی طرف اشارہ ہوا ہے یہ سب طبعِ انسانی کی طرف اشارہ ہے جس کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ لیکن جہاں پر فطرت انسان کا ذکر ہوا تو ارشاد ہوا: {  وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي‏ آدَمَ ؛  اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا }. [2]  اسراء: ۷۰۔

انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد

نہج البلاغہ میں امیرالمومنینؑ کا فرمانا ہے کہ انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ وہ آئیں اور عقل کے دفینوں کو ابھاریں۔ [3]سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۴۳، خطبہ۱۔ انسانوں کے اندر فطرت کا خزینہ دفن ہے۔ انبیاء کرامؑ آ کر کوئی نئی چیز نہیں سکھاتے بلکہ جو چیز انسان کے اندر پہلے سے موجود ہے اس کی طرف متوجہ کراتے ہیں اگر کوئی اس کی طرف متوجہ ہو جاۓ تو وہ الہی انسان بن جاتا ہے لیکن اگر فطرت کے اوپر گناہوں کی تہیں بچھ گئی ہیں تو وہاں پھر نبی چاہے معجزے بھی دکھائیں آگے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

طبیعتِ انسان کے غالب ہو جانے کی صورت

ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر انسان فطرت کی بجاۓ اپنے طبیعی میلان کی طرف بڑھتے ہیں، انسان پر فطرت کی بجاۓ طبیعت حاکم ہے اور طبیعت کی کوئی حد اور باؤنڈری نہیں جو انسان کو محدود کر سکے اس کی طبیعت کو اصلا راضی نہیں کیا جا سکتا وہ جتنا زیادہ حاصل کر لے پھر بھی اسے مزید چاہیے۔ اور اگر انسان کی طبیعت کاملا اس پر حاکم ہو جاۓ تو دنیا کا کوئی بھی قانون یا شرع اسے محدود نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبعِ طغیان گر کو دیکھتے ہوۓ دنیا کے ہر معاشرے میں انسان کے لیے محدودیتیں قرار دی جاتی ہیں اور اسے مقید کیا جاتا ہے کہ آپ نے اس حد میں رہنا ہے اگر اس حد سے باہر نکلے تو آپ کو مقرر قانون کے مطابق جوابدہ ہونا پڑے گا۔ چاہے مشرقی معاشرہ ہو یا مغربی، ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں یا جہانِ سوم کے ممالک، حتی الحادی ترین معاشرے میں بھی انسان کو قانون کا تابع ہونا پڑتا ہے۔

محدود ذات کی محدود آزادی

اسلامی فلاسفہ نے عقلی قاعدہ ذکر کیا ہے کہ جو محدود ذات کے اوصاف اور تمام خصوصیات محدود ہوں گی جبکہ لا محدود ذات کی خصوصیات اور اوصاف بھی لا محدود ہوں گے۔ پس  انسان چونکہ کے ایک محدود ذات ہے لہذا اس کی خصوصیات و اوصاف بھی محدود ہیں۔انہی انسانی خصوصیات میں سے ایک آزادی ہے جو ذاتِ انسانی کی محدودیت کی وجہ سے محدود ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ پس انسان مطلق آزادی سے آراستہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچے انسان کی طغیان گر طبع اور نفسانی میلان مطلق آزادی کا خواہاں ہے لیکن محدود ذات کسی صورت مطلق اور لا محدود آزادی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ سوال يہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کی حدود کو معین کون کرے؟ مکتبِ اسلام میں اس کا واضح جواب یہ ہے کہ فقط اللہ تعالی ہی انسان کی حدود و قیود کو مشخص کر سکتا ہے۔

انسان کی آزادی کی حدود

اللہ تعالیٰ  نے انسان کومطلق آزادی عطا نہیں کی اور نہ ہی اس کو یہ حق  دیا ہے کہ جو اس کا دل کرے وہ کر گزرے۔ پس آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ مکمل طور پر اسے رہا کر دیا جاۓ،!!  ایسی آزادی کو نہ تو عقل مانتا ہے، فطرت مانتی ہے، دین مانتا ہے اور نہ انسانی معاشرے۔ انسان آزاد ہوتے ہوۓ بھی اخلاقی طور پر، حقوقی، اقتصادی، سیاسی، اور عسکری قید و قیود کا پابند ہوتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی تقاضے پورے نا کرے یا کسی بھی معاشرے میں سیاسی حقوق یا دوسروں کے اقتصادی حقوق کا خیال نہ کرے اسے مجازات کیا جاتا ہے۔ اور اگر اسے سزا نہ دی جاۓ ایسا معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاتا ہے۔

مغربی تفکر کے مطابق آزادی کی حدود

مغربی تفکر کے مطابق انسان اپنی آزادی کی حدود کو خود مشخص کر سکتا ہے۔ کسی دین یا اخلاقی ضابطے کو ہماری زندگی کے بارے میں یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ہمیں مقيد کر کے رکھ دے۔ اسلامی تفکر کے مطابق انسانی آزادی کی حدود کو خود انسان معین نہیں کر سکتا بلکہ وہ ذات اس کی زندگی کی حدود معین کرے گی جس نے اسے حیات بخشی ہے۔ اللہ سبحانہ انسان کے بارے میں تمام معلومات رکھتا ہے اور اس کے نفع و نقصان سے باخبر ہے۔ چنانچہ وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ انسان کی آزادی کی حدود کو معین کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد فرمانا ہے: {  إِنَّا كُلَّ شَيْ‏ءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَر؛ ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے }.[4] قمر: ۴۹۔  اللہ سبحانہ انسان کے وجود اور اس کی حدود کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے پس وہی  اس کی آزادی کی حدود کو معین کر سکتا ہے۔ انسان نہ کامل طور پر اپنے نفع و نقصان کو جانتا ہے اور نہ ہی اپنے تمام حدود سے واقف ہے اس لیے وہ خود اپنی زندگی کے لیے آزادی کی حدود متعین نہیں کر سکتا۔

انسان اپنی آزادی کا مالک نہیں

اگر آزادی کا درست تصور ہمیں حاصل ہو جاۓ تو معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ خود اپنی آزادی کا مالک نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وجود اور جسم کو بطور امانت استعمال کر سکتا ہے۔ اگرچے اللہ تعالی نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اس کی بیان کردہ راہ ہدایت کو اختیار کریں یا گمراہی کی راہ لیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ فطرت،  انبیاء کرام ؑ کی بعثت، عقل و شعور کا عنایت کرنا اور کائنات میں اپنی نشانیاں رکھ کر ہدایت کے مینار قائم کئے ہیں تاکہ اختیاری زندگی میں حقیقت کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس کے باوجود اگر انسان اپنی مرضی کے مطابق قدم بڑھاتا ہے اور گمراہ ہو جاتا ہے  تو اس کا نقصان بھی اسی کو اٹھانا ہو گا۔ اللہ تعالی نے جبری اور زور زبردستی سے کسی کو راہ ہدایت پر نہیں ڈالا۔مثال کے طور پر اگر آپ کو خودکشی کرنے اور نا کرنے میں اختیار دیا جاۓ تو کوئی بھی عقل مند خودکشی نہیں کرے گا۔ ہدایت کے راستوں پر چلنا یا نا چلنا انسان کے اختیار میں ہے لیکن اختیار کا مطلب یہ نہیں کہ ہدایت کو چھوڑ کر باطل راستوں پر چلے پڑے۔[5] جوادی آملی، عبد اللہ، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، ص ۲۶ تا ۲۹

منابع:

منابع:
1 روم: ۳۰۔
2   اسراء: ۷۰۔
3 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ص ۴۳، خطبہ۱۔
4 قمر: ۴۹۔
5 جوادی آملی، عبد اللہ، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، ص ۲۶ تا ۲۹
Views: 200

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: انسان اور آزادی