loading

تم ہی بتاؤ … کیا ایسا نہیں
(استاد محترم کا استاد عزیز سے تمثیلی مکالمہ)

تحریر: سید محمد حسن رضوی
09/17/2022

حسن ظفر: … معانی بیان پڑھو ، پھر اچھے طریقے سے پڑھو… آپ کی گفتگو سے نہیں لگتا آپ شیعہ ہیں !! ہر وقت تنقید کرتے ہو کہ شیعہ یہ کرتا ہے ، شیعہ وہ کرتا ہے … پھر میں کیا ہوں؟! اس کا مطلب ہے کہ میں شیعہ نہیں ہوں !! … خوامخواہ کی ایک بات … خوامخواہ کی ایک بات … یہ کوئی عبادت نہیں ہے کہ صرف مومنین کی امداد کریں !! مومنین کی مدد کریں … کس نے کہا ہے ایسا !! کب کہا ہے ایسا !! ہمارے کسی عالم نے نہیں کہا ہے ایسا  !! ہم میدان کے لوگ ہیں … ہم نے کوئی تفریق نہیں کی … پوچھا ہی نہیں ہے ان کا مذہب … جس آبادی میں گئے ہیں ہم نے ان کی مدد کی ہے …کنوئیں کے اندر بیٹھے ہو کنوئیں سے باہر تمہیں معلوم ہی نہیں ہے  کہ دنیا کیا ہے !! کنواں تمہاری دنیا ہے !! آئے روز شیعہ قوم کے لیے مسائل کھڑے کر دیتے ہو !!پھر کہتے ہو کہ کچھ کہا نہ جائے … کچھ کہا نہ جائے !!کون ہو تم کہ تمہاری بات کا جواب نہیں دیا جائے گا … آپ خود نکلے ہیں حجرے سے باہر !! حجرے سے باہر نکلو تو پتہ چلے دنیا کتنی بڑی ہے !! جاؤ ان سیلاب کے میدانوں میں جاؤ ، پانچ پانچ فٹ گہرے پانی میں تمہیں پتہ چلے مظلومیت ہے کیا !! باتیں بنانا بڑا آسان ہوتا ہے … میدانِ عمل میں مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونا، اس کے لیے جگر چاہیے !! …مجبور ہو جاتا ہوں ، میں نہیں بولوں تو اور کون بولے گا پھر !! …کیا بکواس ہے یہ …کہاں لے جانا چاہتے ہو قوم کو ہماری!! کس طرف لے جانا چاہتے ہو!! کس ڈگر پر ڈالنا چاہتے ہو … کہاں ہے سامراج کے خلاف تمہاری لڑائی!! کہاں طاغوتی طاقتوں کے خلاف تمہاری لڑائی!! ساری توپوں کا رخ ہماری طرف ہے !! کہاں گیا سامراج …اب تو جن کے نام پر آئے تھے ان کے نام بھی نہیں لیتے … کام پکا ہو گیا لہٰذا تصویریں بھی ہٹا دو اور نام بھی ہٹا دو …کچھ نہیں ہوتا پھر بھی تم سے کچھ نہیں ہوتا …تشیع کی تاریخ ، معجزہ ہے تشیع کا ، دنیا جب سمجھتی ہے کہ ہم نے تشیع کو تباہ برباد کر دیا اس وقت پروردگار ایک نشانی دکھاتا ہے اور تشیع ساری دنیا سے سمٹ کر ایک جگہ آ جاتی ہے اس لیے اربعین اور چہلم کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں…۔

استاد عزیز:بعض اوقات انسان پیر بن جاتا ہے اور اس کے مرید اس کے پیر بن جاننے کے بعد اسے جانتے ہیں، لہٰذا وہ جس کے ساتھ پلا بڑھا ہے وہ اسے جانتے ہیں … ہم آپ کو شروع سے جانتے ہیں ، آپ اپنے مریدوں کے لیے پیر بن چکے ہیں … ہماری زبان کھلی تو تم باہر نہیں نکل سکو گے … چپ رہو!! حضرت آدمؑ کی توہین ، جناب مختار کی توہین ، فقہاء و مراجع کی توہین ، عزاداروں کی توہین …اہل بیتؑ کا ذکر کرنے والوں کی توہین، بس کرو ، بس کرو ، ایسے نہ کرو … بعض ایسے ہیں جن کے سروں پر عمامہ بھی ہے اور عبا بھی ہے لیکن زبان دشمنوں والی ہے ان کی …  اندر سے دشمن ہم پر حملہ آور ہوتا جا رہا ہے … مولانا حسن ظفر کے آباؤ اجداد برصغیر میں آئے اور لکھنؤ جیسا علمی مرکز بنایا ، غفران مآب سید دلدار علی نقوی جس نے برصغیر میں پہلی نماز جمعہ قائم کی وہ ان کا جدّ تھا !! یوں حسن ظفر بنتے ہیں …  نسل در نسل علماء اور بزرگانِ دین ہیں ان کی نسل میں، فقہاء ہیں ، مراجع ہیں…  آپ بھی اپنے آباء و اجداد کا بتاؤ کون ہیں وہ!! لہٰذا بس کرو ، بس کرو، ان یتیمانِ آل محمدؑ پر رحم کرو… بس کرو ، کرو ، ایسے نہ کرو … شیعہ مذہب وہ ہو سکتا ہے جو ہمارے ایک ہزار علماء میں سے نو سو ، نو سو پچانویں آٹھانویں فیصد کہیں گے وہ شیعہ مذہب ہو گا ، جو ایک دو کہیں گے وہ شیعہ مذہب نہیں ہو گا عزاداروں پر حملہ !! تمہارا دل ٹھنڈا نہیں ہوا ، انہوں نے بیس ہزار سے زیادہ جنازے اٹھائے ہیں … یہ ثابت قدم رہے ہیں…  عاشور پر حملہ ہوا ، یہ شہید ہوئے ، لاشے کرے ، لیکن مولا عباسؑ کا علم انہوں نے نہیں گرنے دیا … سلام ہو ان عزاداروں پر ، سلام ہو ماتمیوں پر ، سلام ہو ان حسینوں پر ، سلام ہو ان بانیان مجلس پر جو حلال کی کمائی سے اپنا پیسہ پیسہ جمع کرتے ہیں اور مولا کی عزاداری کراتے ہیں ، کسی سے مانگتے نہیں ہیں ، بھکاری نہیں ہیں اور یہ بتا سکتے ہیں کہاں سے لائے ہیں تم کیسے بتاؤ گے کہاں سے لائے ہو!! امیر مختار کے بارے میں کہتے ہو کہ وہ محمد ابن حنفیہ کو اپنے زمانے کا امام مہدی کہتا تھا!! جھوٹ جھوٹ ، تمام جید فقہاء نے اس کی نفی کی ہے ، عربی پڑھو ، عربی سیکھو، تمہیں عربی آنی چاہیے، تمہیں عربی نہیں آتی ، تمہیں أنتَ مہدی اور أنتَ المہدی میں فرق نہیں پتہ، میں پھر کہتا ہوں اس لڑائی کا راستہ رکو، علماء کا فتوی موجود ہے ، میں بیان کروں تو آپ حیران رہ جائیں، ہم اپنے سینے میں لے کر بیٹھے ہیں ہم نہیں بولتے… چھوٹے بچوں کو گمراہ کرتے ہو، بچیاں وہاں سے بھاگیں دیواریں پھلانگ کر !! …حضرت آدمؑ کی توہین کر کے تمہارا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوا؟! امیر مختار کی توہین کر کے تمہارا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوا؟! اپنے پروگراموں میں غیروں سے امیر مختار کو مرتد کہلا کر تمہارا سینہ ٹھنڈا نہیں ہو؟! فقہاء ومراجع کی توہین کر کے کہ وہ قرآن کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں تمہارا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوا؟! یہ کہنا کہ من کنت مولا فہذا علی مولاہ شیعہ سمجھتے ہیں دوستی !! علیؑ کو امام مانتے ہو یا دوست؟ بچہ بچہ امام مانتا ہے تمہارے مطابق دوستی ہے!! بارہ کی امامت کا قائل ہے بارہ کی دوستی کا قائل نہیں ہے …تہمت لگاتے ہو، تمہیں خود سمجھ ہے امامت کی !تکفیر و نفاق کے بیچ جب تن آور درخت بن گئے تو اس کے مقابلے میں ہم ٹھہرے تم کہاں مرے ہوئے تھے!! ہماری توجہ دشمن سے نہ ہٹاؤ…مسنگ پرسن کے لیے ہم بولے تم بولے ہو! کوئٹہ کے شہیدوں کے ساتھ ہم کھڑے ہوئے تم کھڑے ہوئے ہو!! پاڑا چنار محاصرے میں ہم کھڑے ہوئے تم کہاں تھے!! پنڈی پر عزاداری کا واقعہ ہوا ہم کھڑے ہوئے تم کہاں مرے ہوئے تھے…ابھی اربعینِ سید الشہداءؑ آ رہا ہے تم تو چاہتے ہو یہ گھروں میں بند ہو جائیں اور اونچی دیواروں میں بند ہو جائے …نہیں ، اس مرتبہ بھی دیکھو گے کہ کس سید الشہداءؑ کے عاشق ، رسول اللہ ﷺ کے عاشق امام حسینؑ کے چہلم کی مناسبت سے گھروں سے نکلتے ہیں ، دنیا دیکھے گی ان کے عشق کو …چھوٹے چھوٹے بچوں کی برین واشنگ کرو اور انہیں شدولے شاہ کے چوہے بناؤ …میں نے اتنے سال رہ کر دوستی کا بھرم رکھا ہے،  تعلق کا بھرم رکھا ہے …میں راجپوت ہوں سات نسلوں سے شیعہ ہوں، موسوی سادات نے ہمیں شیعہ کیا، عزادار ہوں …اس کے بعد یہ نہ سوچنا کہ اب تم کچھ کہو گے تو لوگ چپ رہیں گے …اہل تسنن ہمارے بھائی ہیں ہماری جان ہیں …ہم تمام پاکستانیوں کی مدد کرتے ہیں … کمزور چیزوں کو دلیل بنا کر اتنے بڑے آدمی کے گریبان پر ہاتھ ڈالتے ہو ، شرم کرو !! یہ دوائی کافی ہو گی ، مزید دوائی دینے کی ضرورت نہیں ہو گی … جب تو نے حضرت آدمؑ کے بارے میں کہا تھا کہ انہوں نے معصیت کی ہے  قرآن کہہ رہا ہے اور سارے شیعہ علماء کہتے ہیں کہ معصیت نہیں کی ہے اور یہ سب قرآن کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں اس وقت بعض فقہاء سے فتوی لیا گیا اور انہوں نے کہا: جو شخص بھی انبیاءؑ یا آدمؑ کی عصمت کا انکار کرتا ہے وہ دائرہ اسلام اور تشیع سے خارج ہےلیکن لوگوں نے اس کو بیان نہیں کیا …طاغوت کے پاس جا کر سائن کرنا کہ یہ کروں گا اور یہ نہیں کروں گا، طاغوت سے فائدے اٹھانا اور طاغوت کو اپنے گھر بلاکر تصویریں اتارنا یہ نہیں چلے گا…اگر ان مسائل میں کوئی مسئلہ ہے تو علماءِ پاکستان سے مناظرہ کر لو … آخرت میں نہیں جانا ، اللہ سے نہیں ڈرتے …کوئٹہ کے مسئلہ میں عمران خان سے نہیں ملا آپ اس سے فائدہ اٹھاتے رہے اور ہم اس سے نہیں ملے …دس سالہ دور ہے فریب کا ، جھوٹ کا ، تضحیک کا … محسن کش نہیں ہونا چاہیے …

استاد محترم:اے عزیز من ، اے رفیق من …یہ غصہ و غضب اور ناروا گفتگو !!نہیں معلوم کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم!! گزشتہ رفاقتوں کا پاس رکھا  نہ کسی عزت و قدر کا !! شوقِ گفتگو تھا تو کہہ دیا ہوتا تو ہم ملاقات کا بھرم رکھ لیتے … آپ نہ آتے تو ہم ہی تشریف لے آتے … کوئی غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی تو بندہ ناچیز سے استفسار کر لیا ہوتا … ایسی باتیں کہیں ہیں کہ ’’ما رأت‏ْ عَيْن‏ٌ وَلَا سمعتْ أذُنٌ وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْب‏ٍ؛نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ ہمارے وہم و گمان میں گزری ہیں !! ‘‘ حرمتِ ایمانی کے پردے بھی چاک کر دیئے جبکہ روایت کے جملے ہیں ’’ مَنِ اتَّهَمَ أَخَاهُ فِي دِينِهِ فَلَا حُرْمَةَ بَيْنَهُمَا؛ جو اپنے بھائی کو اس کے دین میں متہم کرے ان دونوں کے درمیان کوئی حرمت نہیں بچتی۔ [1]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۹۳۔ اے کاش نہ تہمتوں کا یہ بازار گرم ہوتا اور نہ زبان سے یہ شرارے نکلتے … مصیبت در مصیبت تو یہ ہے کہ اندر کا غبار بھرے مجمع میں خالی کر دیا اور اس کو میڈیا پر نشر کر کے بجھتی چنگاریوں کو بھی بھڑکا دیا !! کہنے سے پہلے کچھ تو سوچ لیا ہوتا ، بولنے سے پہلے کچھ تو تول لیا ہوتا!! الفاظ نکل جائیں تو کہاں واپس پلٹتے ہیں!! یہ تو تیروں کی طرح ہوتے ہیں جو جسموں پر نہیں روحوں میں پیوست ہوتے ہیں اور ایسا گہرا زخم لگاتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے… مجھے معلوم نہ تھا کہ سوء ظن اور غلط فہمی کی جڑ اتنی قوت پکڑ لے گی کہ زبان آگ برسانے لگے !! ان باتوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے چُن چُن کر ادھورے جملوں کا ڈھیر تمہارے سامنے لگایا   اور تم نے بھی فوراً اس کو سچ سمجھ لیا اور اس قدر اپنی نجی محفلوں میں دہرایا کہ سوء ظن کا شجر تن آور ہو گیا !! سیاق سباق سے کاٹ کر  کسی بات کو لیا جائے تو یقیناً وہ غلط فہمی کے زلزلے  برپا کرتی ہے … ہزاروں گھنٹے کی گفتگو کو ترک کر کے چھوٹے چھوٹے جملے جن میں کبھی لغزش ِ لسانی کی جھلک بھی آ جاتی ہے اور کبھی مبالغہ کے عناصر ،  جیساکہ ہر غیر معصوم متکلم ان کلامی آفات سے محفوظ نہیں ، تو کیا ایسے میں دو گھنٹے کی تمام گفتگو نظر انداز کر کے صرف ان جملات اور کلام کو پکڑ لیا جائے گا جس سے عوام میں بدظنی پیدا کی جا سکے اور شخصیت کشی کے گھناؤنے جرم کا ارتکاب انجام پائے!! محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بیٹھا ہی اس لیے ہے کہ ایسے جملے پکڑے جائیں جو عوام کو مشتعل کرنے کا باعث بنیں اور غلط فہمی ایجاد کر کے علماء و طلاب کے اذہان کو آلودہ کیا جائے !! پھر یہ بہانہ کر دیا جائے کہ عوام یہ سوالات کرتی ہے اور عوام یہ پوچھتی ہے !! بھلا عوام کو کانوں کان بھی ان مسائل کی خبر تھی جنہیں شخصیت کشی کے گھناؤنے جرم کے لیے ایجاد کیا گیا ہے!! چلو مان لیا کہ بعض جملات ایسے ہیں جو مبالغہ کے آئینہ دار ہیں یا کثرتِ کلام کا ایک اثر ، لیکن کیا اسے بندہِ ناچیز کا عقیدہ اور مذہب سمجھا جائے گا!! کیا لغزشِ لسانی کی گرفت یہ ہے کہ شخصیت اور عزت کو پامال کر کے اپنے آپ کو حسینی، پیروِ مراجع ، معتقدِ ولایت  اور شجاعت و دلیری کا عظیم نمونہ ثابت کیا جائے اور دوسرے کو طعن تشنیع کرتے ہوئے غیروں کا حُب دار اور ڈرپوک و بزدل ثابت کیا جائے !! پھر ان باتوں میں سید و راجپوت کے نسلی و نسبی اتار چڑھاؤ کہاں سے آ گئے !! دل تو تھا کہ اپنے نسب کے گیت گائے جاتے اور اپنے علم و ہنر کے جوہر خوب بیان کیے جاتے اور قوتِ بیان و شجاعت کی تجلیات بکھیری جاتیں لیکن ہمارے اور تمہارے مولا ؑ کا فرمان ہے:’’وَلَوْ لَا مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ مِنْ تَزْكِيَةِ الْمَرْءِ نَفْسَهُ‏ لَذَكَرَ ذَاكِرٌ فَضَائِلَ جَمَّةً تَعْرِفُهَا قُلُوبُ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَا تَمُجُّهَا آذَانُ السَّامِعِين‏؛ اگر اللہ نے اپنی تعریف کرنے سے منع نہ کیا ہوتا  تو بیان کرنے والا بھی وہ فضائل بیان کرتا کہ مومنین کے دل ان کا اعتراف کرتے ہیں اور سننے والوں کے کان انہیں اپنے سے الگ نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ [2]سید رضی، نہج البلاغہ ، ج ۵، ص۸۹۴، مکتوب ۲۸۔ لہٰذا  ان باتوں پر سکوت ہی بہتر ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ہی تقاضائے ہوش مندی ہے۔اب کچھ مسائل پر علمی پہلو سے روشنی ڈال لیتے ہیں :

فہرست مقالہ

مسئلہ عصمتِ آدمؑ:

سچ سچ بتاؤ کیا تم میرے عقیدے سے واقف نہیں ہو !! تم ہی بتاؤ کیا ایسا نہیں ہے کہ عصمت کے موضوع کو کئی مجالس میں میں نے تبلیغ کیا۔ ذرا بندہِ ناچیز کی حوزوی زندگی پر ہی نگاہ ڈالو اور پرانی یادوں کو کبھی یاد کرو تو نظر آئے گا کہ کئی حوزوی دروس میں عصمت کے نظریہ پر ہم نے استدلالی گفتگو پیش کی اور اس  کے لغوی و اصطلاحی معانی ذکر کیے ،  قم مقدسہ میں سطوحِ عالی کے طلاب کو تفسیر و کلام کی تدریس کے دوران عصمت کے اصل نظریے کو کھول کر بیان کیا … لیکن ان سب کو چھوڑ کر چند سیکنڈوں پر مشتمل جملے کو ’’عقیدے اور مذہب سے نسبت دینا ‘‘ کیا نا انصافی نہیں ہے !! پھر کہاں عصمت ِ آدمؑ کا انکار کیا گیا ہے !!  بندہِ ناچیز نے تو اس کو آیات متشابہ میں سے قرار دیا ۔ آیت اگر متشابہ ہو تو اس سے مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا جبکہ اس کے معنی اپنی جگہ پر محفوظ مانے جاتے ہیں یا کسی اور آیت کے ساتھ اس کی تفسیر کی جاتی ہے جیساکہ علوم قرآنی میں بیان ہوا ہے اور بندہِ ناچیز نے متشابہ کو تفسیر میزان کی تدریس کے مقدمے میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور وہ مجلہ بنام ’’عروۃ الوثقی ‘‘ میں چھپ بھی چکا ہے۔ تم تو جانتے ہو کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں عقائدی اور کلامی موضوعات مختلف روشوں سے زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔ کبھی انہیں کلامی روش کے تحت مطالعہ کیا جاتا ہے تو عصمت کے برخلاف نصوص کی ’’ترکِ اولی‘‘ کے ضابطے کے تحت تاویل کر دی جاتی ہے، جیساکہ اکثر مفسرین نے قرآن کریم کی انہی آیات کی توجیہ بھی ترکِ اولی سے کی ہے۔ ہماری نظر میں بہتر روش یہ ہے کہ قرآن کریم کو قرآن کریم سے ہی سمجھا جائے اور بقول علامہ طباطبائی اہل بیتؑ نے بھی اسی روش کی تعلیم دی ہے۔ اگر عصمت کے مسئلہ کو قرآن بالقرآن کے تحت دیکھا جائے تو ترکِ اولیٰ کا ضابطہ کہاں قرآن میں آیا ہے ؟! کس حدیث میں ترکِ اولیٰ کا قاعدہ بیان کیا گیا ہے؟! آیا عصمتِ انبیاءؑ کی گواہی قرآن نہیں دیتا !! اگر قرآن کریم عصمت کو ثابت کرتا ہے تو پھر قرآن کریم کی ان آیات کو ہم کیا کہیں گے: ’’وَ عَصى‏ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى‏؛ اور آدمؑ نے اپنے رب کی معصیت کی پس وہ اغوا ہو گئے ‘‘۔ [3]طہ: ۱۲۱۔ آیا قرآن بالقرآن کی روش کے تحت اس آیت کریمہ کو کوئی عنوان دیا جا سکتا ہے؟! اگر ہم کہیں اس کی تأویل کی جائے تو قرآن کریم کی روشنی میں لفظِ تأویل کلامی تأویل سے کاملاً جدا ہے۔ قرآن کریم میں خارجی مصداق تأویل سے عبارت ہے اس لیے کلامی تأویلات سے قرآنی معانی کے لینے پر ہم نے نقد کی۔ کیونکہ کلامی طرز کی تأویلات بعض اوقات تفسیر بالرائے کے زمرے میں داخل ہو جاتی ہیں۔ پس یہاں آدمؑ کی معصیت کی خود ساختہ تاویل کریں تو یہ روشِ قرآنی کے خلاف ہے اور اگر ترکِ اولی جوکہ عقلی ضابطہ ہے اور عصمت کے باب میں کئی مفسرین کی نظر میں جاری ہوتی ہے سے تفسیر کریں تو  یہ کلامی ضابطوں کا قرآن میں جاری کرنا ہے جبکہ قرآن کریم متکلمین کی اصطلاح پر نازل نہیں ہوا۔ ضروری ہے کہ یہاں ’’عصی‘‘ کے لغوی معنی مراد لیا جائے جیسے اکابر مفسرین نے ذکر کیا ہے اور اس معنی کا جو تعارض قرآن کریم کے پیش کردہ عصمت کے معنی سے ہو رہا ہے اس کی بناء پر اس کو متشابہ قرار دے دیا جائے۔  چنانچہ ہم نے اپنی گفتگو میں اس کے متشابہ ہونے کی طرف اشارہ کیا تھا جسے آپ نے بھی نظر انداز کر دیا!! شیخ طوسی نے التبیان میں عصی کا معنی ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: {وقوله: > وَعَصى‏ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى معناه خالف ما أمره اللَّهُ بِهِ فَخَابَ ثوابه. وَالمعصيةُ مخالفةُ الأمْرِ سواء كَانَ وَاجِباً أَوْ نَدبًا؛ اللہ کا یہ فرمان: > اور آدم نے اپنے ربّ کی معصیت کی تو وہ خطاء سے دوچار ہو گئے <، اس کا معنی ہے : اللہ نے جس چیز کا انہیں حکم دیا تھا اس کی انہوں نے مخالفت کی، بس اس کاثواب چلا گیا۔ معصیت یعنی حکم کی مخالفت، فرق نہیں پڑتا وہ حکم واجب ہو یا مستحب} [4]طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن ، ج ۷، ص ۲۱۸۔ عصی کے یہ معنی میرے اپنے ایجاد کردہ تو نہیں ہیں اور نہ یہ میرا کلام ہے کہ لفظ کے استعمال پر کوئی اعتراض کیا جائے !! جدید تفسیری مباحث میں مختلف مفسرین اور محققین نے اس آیت کو متشابہ کہا ہے، اسی طرح کئی علمی مقالات انٹرنٹ پر موجود ہیں جن میں صراحت کے ساتھ اس آیت کو آیت متشابہ کہا گیا ہے۔ [5]آیات متشابہ در عصمت۔پس یہاں سے ثابت ہوا کہ

Views: 65

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: امامت و خلافت اہل سنت کی نظر میں
اگلا مقالہ: امامت و خلافت مکتب تشیع کی نظر میں