loading
{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط۱}

رہبر معظم کی کتاب ولایت و حکومت کا تعارف

کتاب: ولايت و حکومت
مؤلف: رهبر معظم امام خامنه ای
تحرير: عون نقوى

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای دام ظلہ العالی عصرِ حاضر کی معروف ترین شخصیت ہیں ۔آپ رہبر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم اسلامی مفکر بھی ہیں۔ آپ کی شخصیات کے مختلف پہلو ہیں۔ لیکن جس پہلو کی طرف بہت کم لوگ متوجہ ہیں وہ اسلامی مفکر ہونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف مسلمین توجہ نہ کریں تو یہ ان کے ساتھ ظلم ہوگا۔

رہبر معظم کا ابتدائی تعارف

آپ کا نام سید علی حسینی خامنہ ای ہے۔ شیعہ مرجع تقلید اور اسلامی انقلاب ایران کے دوسرے رہبر ہیں۔ رہبر بننے سے پہلے ایران کے صدر مملکت بھی رہ چکے ہیں۔ولادت ۱۹ اپریل ۱۹۳۹ء بمطابق ۲ صفر ۱۳۵۸ ہجری مشہد مقدس میں ہوئی۔

والد کا نام سید جواد خامنہ ای ہے۔ جو اپنے زمانے کے بزرگ عالم دین تھے۔ والدہ بانو میر دامادی، ایک زاہدہ خاتون تھیں جو شرعی احکام کی سخت پابند تھیں۔ آپ کے اجداد کا سلسلہ نسب سادات افطسی سے ملتا ہے جو پانچویں پشت میں امام سجادؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب سید محمد دیباج بن امام جعفر صادقؑ تک پہنچتا ہے۔[1] سائٹ ویکی شیعہ۔

آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو

رہبر معظم کو ہم مختلف جہات سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جہت سے وہ مرجع شیعیان جہان ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مختلف ممالک میں ان کے مقلدین موجود ہیں۔ رہبر معظم کی شخصیت کا دوسرا پہلو ان کا رہبر اسلامی انقلاب ایران ہونا ہے۔ پوری دنیا ان کو ایرانی سپریم لیڈر کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو ۳۰ سال سے ایک ایسے ملک کی مدیریت کر رہے ہیں جو شدید ترین بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ جس ملک پر پوری دنیا کی جانب سے اقتصادی پابندیاں موجود ہیں۔ مغربی طاقتیں اس کی شدید دشمن ہیں، دوسری طرف سے صیہونی غاصب ریاست اور عرب ممالک جو اس انقلاب کے دشمن ہیں لیکن یہ رہبر فقید و دانا ان سب دشمنوں کے باوجود ملک کو چلا رہا ہے۔ ایک اور پہلو جو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ان کا مجاہد ہونا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے صدام نے ایران پر جنگ مسلط کی۔ آٹھ سال تک ایران بغیر کسی ملک کی حمایت کے خالی ہاتھوں سے دفاع کرتا رہا ہے۔ اس دفاع کے ہیروؤں میں سے ایک بڑا نام سید علی خامنہ ای ہے۔ رہبریت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے جہاں آپ ایک طرف ایران کے صدر رہ چکے ہیں وہیں آپ جنگی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ بہت کم ایسے سیاستدان یا حکمران ہونگے جو بیک وقت سیاست و حکومت کا بھی تجربہ رکھتے ہوں اور ساتھ میں جنگی مہارت بھی رکھتے ہوں۔ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو مفکر ہونا ہے۔ آپ ناصرف ایک فقیہ، عالم، مرجع تقلید ہیں بلکہ مکتب تشیع کے جامع مفسر بھی ہیں جنہوں نے منظم انداز میں مکتب کے تفکر کو منطقی طور پر تجزیہ تحلیل کر کے پیش کیا ہے۔ بہت کم ایسے فقہاء گزرے ہیں جن کے اندر علمی طور پر اتنا کمال اور جامعیت پائی جاتی ہو جس طرح کی جامعیت رہبر معظم میں پائی جاتی ہے۔ ممکن ہے ایک عالم، فقہ، اصول، ادبیات عرب، کلام وغیرہ میں ماہر ہو لیکن ان کے ساتھ ساتھ علوم انسانی میں بھی مہارت حاصل ہونا بہت کم لوگ اس علمی کمال تک پہنچے ہیں۔ رہبر معظم نا صرف ان علوم میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ لمبے عرصے کا تجربہ بھی ان کو حاصل ہے۔ 

آپ کا علمی اور عملی میدان میں تواضع

آج کے دور میں ایسے افراد بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب ان کو منصب کی پیشکش کی جاۓ تو وہ آگے سے انکار کر دیں۔ رہبر معظم کو جب رہبر بنایا جا رہا تھا تو آپ مسلسل انکار کرتے رہے اور فرماتے کہ میں اس منصب کے قابل نہیں ہوں، اس منصب کے لیے مجھ سے بہتر کسی اور کا انتخاب کیا جاۓ۔ لیکن مجلس خبرگان کی اکثریت کا یہ ماننا تھا کہ آپ کے علاوہ اور کوئی بھی اس منصب کے لیے مناسب تر نہیں ہیں۔ مجلس خبرگان کا اصرار جب بڑھا اور انہوں نے کہا کہ اس وقت آپ کا رہبر بننا آپ کے لیے اختیاری نہیں بلکہ آپ کا وظیفہ اور ذمہ داری ہے تو اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوۓ آپ نے رہبریت کو قبول فرمایا۔ آپ کی شخصیت میں اسی طرح کا تواضع علمی میدان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بہت سے افراد اپنا نام چمکانے، اور علمی میدان میں نام بنانے میں بہت چالاکی سے کام لیں، حتی یہاں تک بھی ممکن ہے کہ عالم نا ہوں لیکن خود کو عالم کے طور پر معاشرے میں پیش کریں، محقق نہ ہوں لیکن خود کو محقق کے طور پر پیش کریں۔ لیکن رہبر معظم جو کہ حقیقت میں مفکر، عالم دین، و محقق ہیں ایک عرصہ تک اپنے نام کے ساتھ کوئی کتاب نشر نہ کی۔ تہران یونیورسٹی کے طلاب نے ایک تحقیق میں رہبر معظم کے افکار کے ذیل میں کچھ مواد چھاپنا تھا، جب انہوں نے رہبر کے دفتر کی طرف رجوع کیا اور ان سے گزارش کی کہ ان کے افکار پر کوئی کتاب ہے تو ہمیں حوالے کے طور پر چاہیے۔ یہ جان کر ان کو حیرت ہوئی کہ رہبر کے افکار یا تقاریر کا کوئی کتابی مجموعہ موجود نہیں ہے۔ یہاں سے ایک ضرورت محسوس ہوئی اور اس کے بعد رہبر کے افکار اور تقاریر کے مجموعے آنا شروع ہوۓ اور الحمدللہ ایک بہت بڑا موسوعہ رہبر کے آثار کے عنوان سے آج مارکیٹ میں موجود ہے۔ 

کتاب ولایت و حکومت

یہ کتاب در اصل رہبر معظم کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔ یہ تقاریر انقلاب اسلامی کی کامیابی سے چند سال پہلے عوامی اجتماعات میں کی گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب شاہ ایران اپنے مکمل اقتدار کے ساتھ حاکمیت کر رہا تھا۔ ذرا سی حکومت مخالف بات کرنے پر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑتیں۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا، گھروں میں نظر بند کرنا، تبعید اور حتی قتل کر دینا اس کے لیے معمولی سی بات تھی۔ لیکن رہبر معظم ان افکار کو ایسے حالات میں بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں تھا کہ حکومت نے ان کو کچھ نہیں کہا۔ کتاب میں رہبر خود اپنی زبانی تبعید ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ آپ کو سیستان بلوچستان کے علاقے کی طرف تبیعید کیا گیا اور ایک ایسے زندان میں رکھا گیا جہاں سانس لینا بھی دشوار تھا۔ اس کمرے میں تین افراد پہلے سے موجود تھے۔ رہبر فرماتے ہیں کہ اس زندان میں ہمارا ایک دن سال کے برابر معلوم ہوتا تھا۔یہ افکار ایسے حالات میں بیان نہیں ہوۓ جب انقلاب آ گیا ہو، اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہو اور مومنین آسودہ ہوں، جی نہیں! ایک سوچ ہمارے معاشروں میں پائی جاتی ہے کہ جب سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ، حالات بالکل پرامن ہوں تب انقلابی افکار بیان کرنے چاہئیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وظیفہ تبلیغ اور اسلامی افکار کی تبیین وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتی۔ اگر وظیفہ تبلیغ بنتا ہے تو چاہے خوف ہو، ڈر ہو ہمارا کام افکار کو تبیین کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو آن پڑے اس پر صبر و استقامت دکھانی ہے۔

کتاب کی فصول

کتاب کی چھ فصلیں ہیں۔ ابتداء کتاب میں بیان ہوا ہے کہ قاری کے لیے بہتر ہے کہ اس کتاب کو بہتر سمجھنے کے لیے ان دو کتابوں کو مطالعہ ضرور کرے۔

۱۔ طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن

۲۔ حلقہ دوم انسان ۲۵۰ سالہ

کیونکہ اس کتاب کا آغاز نبوت اور امامت سے شروع ہو رہا ہے معلوم ہوا اس سے پہلے کی ابحاث بقیہ دو کتابوں میں مذکور ہیں جو قاری کو پہلے پڑھنا ہونگی۔[2] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۹تا۱۸

پہلی فصل کا عنوان بعثت و نبوت ہے۔ اس فصل میں بعثت کے معنی، بعثت کی اقسام، بعثت انبیاء کے اہداف بیان ہوۓ ہیں۔دوسری فصل کا عنوان ولایت و امامت ہے۔ اس فصل میں ولایت کے معنی، ولایت کے مراتب، امامت کے معنی، امامت کی طرف لوگوں کی احتیاج، امام کا تعارف، اور امام کی ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں۔تیسری فصل کا عنوان ولایت طاغوت ہے۔ اس فصل میں طاغوت کے معانی، اس کے مصادیق، طاغوت کا انکار در قرآن، اور یہ بحث ہوئی ہے کہ آیا طاغوت کی ولایت میں رہنے والا مسلمان حقیقی مسلمان ہے یا نہیں؟چوتھی فصل حکومت الہی کے متعلق ہے۔ چوتھی فصل میں اسلامی نظام کی اساس، فلسفہ حکومت در اسلام، عناصر حاکمیت اسلامی اور عوامی حکومت کا معنی بیان ہوا ہے۔پانچویں فصل کا عنوان حاکم اسلامی ہے۔ حاکم اسلامی کی خصوصیات، اجتماعی اور معنوی منصب پر فائز ہونے والے افراد کے معیار، امیرالمومنینؑ کے اصول حاکمیت، حاکم اسلامی کے وظائف، حقوق متقابل حاکم اور عوام، اور آخر میں حاکم اسلامی کے متقی ہونے کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے۔کتاب کی آخری فصل کا عنوان زمانہ غیبت میں ولایت کا جریان ہے۔ اس فصل میں بیان ہونے والے مباحث بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت کی ضرورت، اگر اسلامی حکومت نہ ہو تو کیا ہوگا؟
۲۔ زمانہ غیبت میں حاکمیت اور سیاست سے مسلمانوں کو کیسے دور کر دیا گیا، اور ان مباحث کی طرف دوبارہ مسلمان کب لوٹے؟
۳۔ دین کی سیاست سے جدائی کا نعرہ اور اس کی تاریخ
۴۔ حاکم کو کیسے متعین کیا جاۓ؟ حاکم کو اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہونا چاہیے، یا عوام بھی حاکم کو انتخاب کر سکتے ہیں؟
۵۔ ولایت فقیہ
۶۔ ولایت فقیہ کی تاریخ
۷۔ اسلامی نظام حکومت میں ولی فقیہ کا کردار
۸۔ ولی فقیہ کے اختیارات
۹۔ انقلاب اسلامی ایران
۱۰۔ امام خمینی کے دس بڑے کارنامے
۱۱۔ فقہ سیاسی کی تاریخ
۱۲۔ مسائل جدید کی متکفل فقہ۔[3]خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۳۷۹تا۳۸۸۔

منابع:

منابع:
1 سائٹ ویکی شیعہ۔
2 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۹تا۱۸
3 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۳۷۹تا۳۸۸۔
Views: 33

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نہضت امام حسین کے بنیادی اصول
اگلا مقالہ: بعثت کے معانی اور اس کی اقسام