loading

میدان کربلا کے عظیم مجاہد امام سجادؑ

تحریر : سید محمد حسن رضوی
07/27/2023

امام حسین علیہ السلام کے بعد کاروانِ حسینی کی سب سے عظیم اور شجاع ترین شخصیت امام سجاد علیہ السلام تھے۔ ہمارے معاشروں میں امام سجاد علیہ السلام کی شخصیت کو عموما مسخ اور تحریف کر کے پیش کیا جاتا ہے اور بعض اوقات ایسی تصویر کشی سامنے آتی ہے جیسے امام سجاد علیہ السلام مریض ، بیمار اور لاچار تھے جنہیں فقط عبادت و دعا سے غرض تھی اور وہ نعوذ باللہ نہ جنگی مہارتوں سے زیادہ واقف تھے اور نہ جرأت و شجاعت کے ساتھ مقابلہ کر سکتے تھے ، اس لیے ہر وقت روتے رہتے تھے اور ساری عمر گوشہ نشین ہو کر امام حسینؑ پر گریہ کرتے رہے!! حقیقت اس کے کاملاً برخلاف ہے۔ امام سجادؑ میں جہاں امام علیؑ اور امام حسینؑ کے تمام اوصافِ عالیہ کو درجہِ کمال تک حاصل کیے ہوئے تھے وہاں امام سجادؑ کربلا میں مبارزہ اور جنگ میں حصہ لینے والی شخصیت بھی تھیں۔

امام سجادؑ کا کربلا میں جنگ میں شرکت کرنا:

لشکر امام حسینؑ میں امام حسینؑ کے بعد تمام امور کی زمام امام سجادؑ کے دست مبارک میں تھی۔ جب یزیدی لشکر نے آل رسول ص کا محاصرہ کر لیا اور ۷ محرم الحرام کو شہادت کا سلسلہ شروع ہوا تو قدیمی کتبِ تاریخ کے مطابق امام سجادؑ نے جنگ میں باقاعدہ شرکت کی، جیساکہ فضیل بن رسان جوکہ امام باقر و امام صادق علیہما السلام کے اصحاب میں سے ہیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: و ارتثّ يومئذ، و قد حضر بعض القتال فدفع اللّه عنه؛ اور اس دن انہیں معرکہ جنگ سے زخمی حالت میں اٹھا کر لایا گیا، امام سجادؑ نے کربلا میں بعض معرکوں میں شرکت لیکن اللہ نے انہیں دشمنوں سے محفوظ رکھا۔ [1]ابن رسان، فضیل بن زبیر، تسمیۃ من قتل مع الحسین علیہ السلام، ص ۲۴۔

کربلا میں امام سجادؑ کے بیمار ہونے کی وجہ:

امام سجادؑ کے بارے میں خیال باطل ہے کہ آپؑ بیمار و لاچار عابد ہیں اور اسی بے بسی روتے ہوئے زندگی بسر کر دی۔ امام سجادؑ نے حالات کے مطابق مکمل امامت کی ذمہ داری کو ادا کیا اور اللہ تعالیٰ کے قوانین کی حاکمیت اور اجراء کے ذریعے عدل و انصاف کے نفاذ کی کوشش کرنے والوں میں سے تھے۔ جس طرح دیگر انبیاءؑ و آئمہؑ مختلف طبیعی اور غیر طبیعی حوادث سے رُوبرو ہوتے تھے اسی طرح امام سجادؑ بھی حادثاتی طور پر کچھ دنوں کے لیے مریض ہوئے اور شفایاب ہو کر اموی تختہ الٹ کر عدل و انصاف کی حکومت کے قیام کی تدبیر کرنے لگے رہے اور دین الہٰی کے غلبہ کے لیے کوشاں رہنے لگے۔ معتبر کتبِ تاریخ میں امام سجادؑ کی کربلا بیماری کی وجہ وارد ہوئی ہے ۔ ابن شہر آشوب اپنی کتاب المناقب میں تحریر کرتے ہیں:كَانَ سَبَبَ مَرَضِ زَيْنِ الْعَابِدِينَ ع فِي كَرْبَلَاءَ أَنَّهُ كَانَ لَبِسَ دِرْعاً فَفَضَلَ عَنْهُ فَأَخَذَ الْفَضْلَةَ بِيَدِهِ وَ مَزَّقَهُ؛میدانِ کربلامیں امام زین العابدینؑ کے مریض ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپؑ جنگ کے لیے زرّہ پہن رہے تھے ، اسی دوران زرّہ سے ایک لوہے کے نکلے ہوئے ٹکڑے پر آپؑ کا ہاتھ لگا اور اس لوہے کے ٹکڑے نے گہرا زخم لگا دیا۔ [2]ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج ۴، ص ۱۴۳۔ یہاں سے امام سجادؑ کی شجاعت اور میدانِ کربلا میں جنگی تیاری و شرکت کا علم ہو جاتا ہے ۔ اس گہرے زخم کے بگڑنے کی وجہ سے امام سجادؑ بیمار ہو گئے اور ایک سے دو دن میں اتنی طبیعت خراب ہوئی کہ آپؑ کے لیے اٹھنا دشوار ہو گیا۔ یقیناً استمرارِ امامت کےلیے اس میں حکمتِ الہٰی پوشیدہ تھی۔ چنانچہ امام حسینؑ نے آپؑ کو بیمار حالت میں میدانِ جنگ کی طرف جانے نہیں دیا اور یہی ممنوعیت امام سجادؑ کی حیاتِ طیبہ کے تحفظ کا سبب بن گئی۔

امام سجادؑ کے یزید کے بیٹے کے بارے میں عزائم:

کربلا کے سانحہ کے بعد کربلا سے بھی سخت ترین مرحلہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹیوں اور دیگر خواتین کو قیدی بنا کر کوفہ و شام میں پھرانا ہے۔ کربلا میں دشمن کے ساتھ حریّت اور آزادی کا احساس کرتے ہوئے شمشیر و نیزےکی جنگ تھی لیکن کوفہ و شام میں ناموسِ رسالت کو  زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر قیدی بنا کر دشمن کے نرغے میں رکھا گیا ۔عموماً قیدی انسان اپنے حوصلہ اور امید ختم کیے ہوئے ہوتا ہے اور کمزوری و لاچاری و بے بسی کا شکار ہوتا ہے خصوصاً ایسے افراد جن کے کنبے اور دلاور ساتھیوں کو دشمن نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سفاکیت و بربریت کی تاریخ رقم کی ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے گھرانے کا انداز یکسر جدا تھا۔ اپنے عزیز اقرباء کے مظالم کو اپنے آنکھوں سے مشاہدہ کرنے والا یہ قافلہِ حسینی ایمان کی نورانیت سے ایسا لبریز تھا کہ ذرا برابر خوف و ڈر کا گزر نہیں تھا۔ امام سجادؑ کے علاوہ بچے اور خواتین بھی کمال شجاعت اور دلیری کے ساتھ منافق اور ظالم معاشرے کا سامنا کر رہے تھے۔مرحوم طبرسی متوفی ۵۸۸ ھ اپنی معروف کتاب احتجاج طبرسی میں نقل کرتے ہیں کہ   دربار کے واقعات کے بعد یزید اپنے گھر چلا گیا تو  اس نے امام سجادؑ کو گھر بلوایا اور اور امام سجادؑ کو اپنے بیٹے خالد بن یزید سے کشتی کرنے کی پیشکش کی ۔ تاریخ میں یزید لعین کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: يَا عَلِيُّ أَ تُصَارِعُ ابْنِي خَالِداً ؟ قَالَ ع: وَمَا تَصْنَعُ بِمُصَارَعَتِي، إِيَّاهُ‏ أَعْطِنِي‏ سِكِّيناً وَأَعْطِهِ سِكِّيناً، فَلْيَقْتُلْ أَقْوَانَا أَضْعَفَنَا فَضَمَّهُ يَزِيدُ إِلَى صَدْرِهِ ، ثُمَ‏ قَالَ : لَا تَلِدُ الْحَيَّةُ إِلَّا الْحَيَّةَ أَشْهَدُ أَنَّكَ ابْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع‏؛اے علی (بن حسین سجادؑ)! کیا میرے بیٹے خالد سے کشتی لڑو گے؟ امام سجادؑ نے دلیری سے جواب دیا: میری کشتی سے تم کیا کرو گے ، بھلا تم مجھے اپنے بیٹے کے لیے ایک چھری دو اور ایک چھری اسے دو، پھر مقابلہ کراؤ اور  ہم میں سے جو قوی ہے اسے چاہیے کہ وہ ضعیف کو قتل کر دے ، یہ سننا تھا کہ یزید نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور کہنے لگا: سانپ سانپ ہی کو پیدا کرتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں تم علی بن ابی طالبؑ کے فرزند ہو۔[3]طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج ۲، ص ۳۱۱۔ امام سجادؑ کا جنگی اسلحہ کے ساتھ ہر وقت آمادہِ قتال رہنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امام ؑ شجاعت اور جرأت میں مثلِ امام حسینؑ تھے ۔

دربار یزید میں امام سجادؑ کا بلیغ خطبہ:

کتبِ تاریخ و سیر میں وارد ہوا ہے کہ یزید نے نمازِ ظہر سے پہلے شام کی جامع مسجد میں امام سجادؑ کو حاضر کیا اور لوگوں کو جمع کیا اور خطیب کو حکم دیا کہ وہ امام علیؑ و امام حسینؑ پر طعن تشنیع کرے اور  معاویہ و ابو سفیان کی تعریفیں کرے۔ خطیب نے حمد و ثناء کے بعد یزید کے حکم پر عمل کرتے ہوئے طولانی گفتگو کی جس میں امام علی و حسین علیہما السلام پر طعن تشنیع اور معاویہ و یزید کے گُن گانا شروع کیے۔ اس دوران اچانک امام سجادؑ بلند آواز میں بولے : اے بولنے ! تو نے مخلوق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خالق کی ناراضگی مول لی ہے ، تیرا ٹھکانہ جہنم ہو۔ اس کے بعد یزید سے لکڑیوں کے ڈھیر (منبر)   پر آنے کا مطالبہ کیا جسے یزید نے اس لیے ردّ کر دیا کہ امام سجادؑ یزید اور آل ابو سفیان کی مذمت کریں گے اور رسول اللہ ﷺ اور امام علی و حسین علیہما السلام کے فضائل بیان کریں گے۔ لیکن اس موقع پر شور اٹھ گیا اور لوگوں نے یزید سے شدید اصرار کیا کہ امام سجادؑ کو منبر پر آنے دیا جائے۔ یزید مجبور ہوا اور اسے امام سجادؑ کو آنے کی اجازت دینا پڑی ۔ امام سجادؑ نے طولانی خطبہ دیا جس میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے اپنا تعارف کروایا اور امامؑ کے بلیغ کلمات اور دین اسلام میں رسالت و گھرانہ رسالت کی عظمت سے متعارف کروانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں میں ایک کہرام برپا ہو گیا اور یزید کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ یہاں ایسا ہنگامہ برپا ہو سکتا ہے جس سے اس کا تخت الٹ دیا جائے چنانچہ فورا مؤذن کو حکم دیا کہ وہ آذان دینا شروع کرے۔ امام سجادؑ نے آذان کے کلمات سے امام حسینؑ کی حقانیت کو ثابت کیا۔ یہ واقعہ امام سجادؑ کا قیدی ہونے کے باوجود عظیم شجاعت اور جرأت پر دلالت کرتا ہے اور اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ ان حالات میں آپؑ بیمار نہیں بلکہ صحت یاب ہو چکے تھے اور کامل ذمہ داری کے ساتھ قافلہِ حسینی کی سالاری فرما رہے تھے   ۔[4]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۵، ص ۱۳۸۔

Views: 222

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رجال کشی کی مختار کے بارے پہلی حدیث