loading
{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی: قسط۷}

ولایت کے مراتب

کتاب: ولايت و حکومت
مؤلف: رهبر معظم امام خامنه ای
تحرير: عون نقوى
 

حقیقی ولایت کا مالک اللہ تعالی ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی طرف سے یہ ولایت انبیاء کرام اور اپنے اولیاء کرام کو عطا کی ہے۔ پس اللہ تعالی اور نبی کی ولایت قابل مقائسہ نہیں ہے۔ ایک کی ولایت ذاتی ہے اور دوسرے کی ولایت ذاتی نہیں بلکہ ان کو نیابت میں عطا ہوئی ہے۔

رسول اللہﷺ کی ولایت کا مرتبہ

اللہ تعالی کی ذات تمام دیگر مخلوقات کی خالق ہے۔ اس لیے دیگر مخلوقات اس کی محتاج ہیں۔ حتی رسول اللہﷺ کی ذات بھی اللہ تعالی کی عظمت کے آگے سر تسلیم خم ہے۔ درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ ولی ہیں لیکن ان کی ولایت اللہ تعالی کے مقابلے میں نہیں ہے۔ جب ہم رسول اللہﷺ یا امیرالمومنینؑ کو ولی کہتے ہیں تو اللہ تعالی سے جدا طور پر ان کو ولی نہیں کہتے۔یا اللہ تعالی کی ولایت میں ان دونوں کو شریک قرار نہیں دیتے۔بلکہ ان کی ولایت اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ جب ہم نے مان لیا کہ ان کی ولایت ذاتی اور مستقل طور پر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو پس شرک بھی لازم نہین آۓ گا۔ اگر ان کو اللہ تعالی کی ولایت سے جدا کر کے مستقل طور پر ولی مانا جاتا تو یہ شرک ہوتا۔

ولایت یعنی سرپرستی و مدیریت

ہم نے گزشتہ اقساط میں ولایت کے تین معنی بیان کیے۔[1] رجوع کریں۔ ہم یہاں پر جس معنی سے بحث کر رہے ہیں وہ مدیریت و سرپرستی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:

«قُلِ الْأَنْفٰالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُولِ».

ترجمہ: کہدیجئے! یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں۔[2] انفال: ۱۔

یہاں پر رسول کو الگ سے کیوں بیان کیا گیا ہے؟ یہ بھی تو کہا جا سکتا تھا کہ انفال صرف اللہ تعالی کے لیے ہیں؟ کیا رسول یہاں پر انفال کی مالکیت میں اللہ تعالی کے شریک ہیں نعوذ باللہ؟ جی نہیں! اگر یہ کہا جاتا کہ انفال اللہ تعالی کے لیے ہیں تو پھر سب کو یہ حق مل جاتا کہ وہ انفال میں تصرف کرے۔ ہر کوئی یہ کہنے کا مجاز ہوتا کہ یہ مال اللہ کا ہے اور ہم اللہ کے بندے ہیں لذا ہم اس مال میں تصرف کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ہرج مرج حتمی تھا۔ ضروری تھا کہ ان اموال کا کوئی صاحب ہو اور اسے عادلانہ طور پر تقسیم کرے۔ اس لیے جدا کر کے رسول اللہﷺ کو یہ تصرف دیا گیا ہے۔ امت کی مرکزیت ان کو عطا کی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالی کی طرف سے یہ نمائندہ اور اجتماعی امور کا قیّم موجود نہ ہو معاشرہ عدل سے نہیں چل سکتا۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہﷺ کو نبوت اور رسالت کی جہت سے پیش نہیں کیا گیا بلکہ ان کا تعارف حاکم الہی کی جہت سے کروایا گیا ہے۔ بیت المال کی مدیریت و سرپرستی کرنے کے عنوان سے رسول اللہﷺ کا تعارف کروایا گیا۔جب تک رسول اللہﷺ موجود ہیں انفال کے مالک ہیں اور جب اس دنیا سے رخصت ہو گئے ، ایسا نہیں کہ دوبارہ اموال کے مسئلے میں امت پھر سے مشکلات کا شکار ہو جاۓ ۔ اللہ تعالی نے اب بھی امت کے لیے رہنما مقرر کیا ہے اور وہ جانشین رسول یا امام ہے۔ جب امام آ جاۓ اس کو بھی وہی حق حاصل ہے جو رسول اللہﷺ کو حاصل ہے۔ کوئی دوبارہ اس شبہہ کا شکار نہ ہوکہ اچھا جی ! تو آپ نے امام کو رسول کے ساتھ ملا دیا؟ جی نہیں! ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ رسول اللہﷺ کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے اور اس پر بحث نہیں ہو رہی بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی موجود گی میں امت کی سرپرستی و اموال کی مدیریت رسول اللہﷺ کرتے تھے اور اب وہی ذمہ داری امام کے کاندھوں پر آن پڑی ہے اور دوسروں کا مقام اپنی جگہ پر محفوط ہے۔[3] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۴۵تا۴۶۔

منابع:

منابع:
1 رجوع کریں۔
2 انفال: ۱۔
3 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۴۵تا۴۶۔
Views: 30

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مسئلہ ولایت کی اہمیت