loading

{مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى}

روح اعظم اور عالم انسانی میں اس کے نام ومراتب

درس: مقدمة شرح فصوص الحکم (داؤد قيصرى)
استاد: شیخ حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

الفصل العاشر:

انسان سیرِ صعود میں روح اعظم کے عرض میں قرار پاتا ہے۔ انسان کے لیے راہ کھلی ہے جبکہ بقیہ تمام موجودات کے لیے بند گلی ہے حتی فرشتوں کے لیے ۔ فقط انسان ہے جس کی راہ کا تعین نہیں کیا جا سکتا جیساکہ علامہ حسن زادہ آملی نے مقام لا یقف سے اس کو تعبیر کیا ہے۔ اسی لیے انسان خلیفۃ اللہ قرار پایا ہے۔ مستخلِف یعنی اللہ تعالیٰ غیر متناہی ہے اس لیے مستخلف کے لیے بھی راہ غیر متناہی ہونی چاہیے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان استطاعت رکھتا ہے کہ ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں روح اعظم کے عرض میں انسان قرار پائے۔ روح اعظم ذاتِ الہٰی کا مظہر ہے ربوبیت کے اعتبار سے۔ جو ذاتِ الہٰی کے گرد گردش کرے وہ حیران و سرگرداں رہے گا۔ ذاتِ ربوبی کی کنہِ معرفت فقط اللہ رکھتی ہے اس کے علاوہ کوئی ذات کنہ معرفت نہیں رکھتی۔

روح اعظم انسان سے باہر یعنی عالم کبیر میں مظاہر رکھتا ہے، جیسے عقل، لوح محفوظ، نفس کلیہ وغیرہ۔ نفس صغیر یعنی انسان میں بھی روح اعظم کے مظاہر ہیں، جیسے مرتبہِ سرّ، مرتبہِ خفی، مرتبہِ روح، مرتبہِ قلب، مرتبہِ عقل، مرتبہِ فؤاد ، مرتبہ نفس۔ ان میں سے ہر ایک کے شواہد ہیں اور ہر مرتبہ کے نام و عنوان کی وجہ بھی بیان کی جاتی ہے، مثلا مرتبہِ روح کو کیوں روح کہتے ہیں؟ کیوں مرتبہ قلب کو قلب کہتے ہیں؟ …ان شاء اللہ ان کا بیان تفصیل سے آئے گا۔سورہ القدر میں جس روح کا تذکرہ وارد ہوا ہے وہ ’’روح اعظم‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر ربوبیت کے اعتبار سے روح اعظم ہے جو تمام فرشتوں سے اعظم ہے۔ یہ روح اعظم عالم کبیر اور عالم صغیر یعنی انسان میں اپنے مظاہر رکھتا ہے۔ عالم کبیر میں روح اعظم کے مظاہر میں سے ایک مظہر ’’عقلِ اول‘‘ ہے  اور قلم اعلیٰ  اور نور اور نفس کلیہ ، لوحِ محفوظ وغیرہ ہیں۔ عالم صغیر میں بھی روح اعظم کے مظاہر ہیں جوکہ سرّ، خفی، رُوح، کلمہ، رُوۡع، فؤاد، صدر، عقل اور نفس ہیں۔ یہ سب انسان کے اندرون اور داخل میں روح اعظم کے مظاہر ہیں۔ قرآن کریم میں اس کے شواہد موجود ہیں: وَ إِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَ أَخْفى‏. [1]طہ: ۷۔ایک اور آیت میں وارد ہوا ہے: قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي .[2]اسراء: ۸۵۔ ایک آیت میں ذکر ہوا ہے: إِنَّ في‏ ذلِكَ لَذِكْرى‏ لِمَنْ كانَ لَهُ قَلْب‏. [3]ق: ۳۷۔ جناب عیسیٰؑ کے لیے وارد ہوا ہے: بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَسَيِّداً وَحَصُوراً وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحين‏.[4]آل عمران: ۳۹۔ اسی طرح قرآن کریم میں وارد ہواہے: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى‏. [5]نجم: ۱۱۔ سورہ الم نشرح میں ارشاد ہوتا ہے: أَ لَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَك‏. [6]الشرح: ۱۔ روایات اہل بیتؑ میں معتبر ذرائع سے وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ قَدْ نَفَثَ فِي رُوعِي رُوحُ الْقُدُسِ أَنَّهُ لَنْ تَمُوتَ نَفْسٌ حَتّى‏ تَسْتَوْفِيَ رِزْقَهَا وَ إِنْ أَبْطَأَ عَلَيْهَا۔ [7]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۹، ص ۵۴۸۔

سرّ:

روح اعظم کو ہر کوئی ادراک نہیں کر سکتا ، صرف وہ لوگ روح اعظم کو درک کر سکتے ہیں جو اربابِ قلوب اور راسخون فی العلم ہیں۔ چونکہ یہ عام افراد کے ادراک سے پوشیدہ ہے اس لیے اس کو سر کہتے ہیں۔

خفی:

روح اعظم کو اس لیے خفی کہتے ہیں کیونکہ اس کی حقیقت عرفاء اور غیر عرفاء سب سے مخفی ہے۔

روح:

روح اعظم بدن کی ربوبیت کرتی ہے اور حسی حیات کا یہ مصدر ہے اور زندگی و حیات کے فیضان و فیض کا منبع ہے تمام نفسانی قُوی میں اس لیے اس کو روح کہا جاتا ہے۔

قلب:

قلب کا مطلب دگرگون ہونا ہے ۔ وہ جانب جو حق تعالی کے بعد ہے اور وہ جانب جو نفس حیوانیت کے بعد ہے اس کے درمیان دگرگون رہتا ہے۔

کلمہ:

کلمہ نفسِ رحمانی میں ظہور رکھتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کلمات نفسِ انسانی میں ظہور رکھتے ہیں۔ جیساکہ انسان کے نفس میں کلمات ہیں جن کا تعین اور ترکیب نہیں ہے لیکن جیسے فضائے منہ سے ادا ہوتے ہیں تو متعین ہو جاتے ہیں۔ نفسِ رحمانی متعین نہیں ہے ۔ وجودات اسی نفس رحمانی سے نکلتے ہیں تو متعین ہوتے ہیں اور نفس رحمانی میں غیر متعین ہیں۔

فؤاد:

روح اعظم عالم کبیر یعنی انسان سے خارج عالم میں مظاہر رکھتا ہے جس کا ایک مظہر عقل اول ہے اور ایک مظر قلم اعلیٰ ہے اور ایک مظہر نفس کلیہ ہے اور ایک مظہر لوح محفوظ ہے۔ روح اعظم عالم صغیر یعنی عالم انسانی میں مظاہر رکھتی ہے، جیسے مرتبہِ سر وغیرہ۔ انہی مظاہر میں سے ایک فؤاد ہے۔ان سب میں روح اعظم ایک حقیقت ہے لیکن مظاہر مختلف ہیں۔فؤاد اس اعتبار سے ہے کہ علت سے متاثر ہو ۔ اگر انسان اپنی علت ، اپنے مُبدِع یعنی اپنے خالق سے متاثر ہو تو اسی حقیقت انسانی کو فؤاد کہتے ہیں۔ لغت میں ہے کہ فأد کا معنی جرح اور تأثر ہے۔

صدر:

صدر سے مراد ظاہری بدن کا سینہ نہیں ہے۔ بلکہ صدر حقیقت انسانی ہے جو وجودی طور پر وسعت حاصل کرے۔ وسعتِ وجودی کا حصول نفس میں صدر کہلاتا ہے۔ صدرِ رسول اللہ ﷺ اس قدر وسعت اور انشراح رکھتا ہے کہ ایک رات میں تمام حقیقتِ قرآن کو حاصل کر لیتا ہے۔ مقامِ فعل میں نفس بدن کا محتاج ہے ، مثلاً نفس دیکھتا ہے لیکن آنکھ کے ذریعے۔ پس بدن محل ہے جس پر نفس کے انوار صادر ہوتے ہیں۔ کام تمام نفس کے ہیں لیکن آلاتِ بدن کے ذریعے سے۔ مصدر یعنی محل صدور ، یعنی انسان کے انوار صادر ہوتے ہیں اور محلِ بدن سے ظاہر ہوتے ہیں۔ نفس بدن پر سلطنت رکھتا ہے۔ بدن مرتبہِ نازلہ ہے نفس کا اس لیے نفس بدن پر احاطہ ، سلطہ اور ریاست رکھتا ہے۔ بدن کے تمام اعضاء و جوارح نفس کے حکم کے مطابق کام کرتے ہیں۔

رُوع:

حقیقتِ انسانی خوف اور ڈر کے اعتبار سے رُوع کہلاتا ہے۔ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے انسان خشیت کا اظہار کرے ۔ حقیقت انسانی جب اپنے مبدِع یعنی خالق کی قہاریت سے ڈرتی ہے تو رُوع کہلاتی ہے۔ جس طرح ہم نے جہل کی دو قسمیں کی ہیں یعنی جہل بسیط و جہل مرکب۔ جہل بسیط انسان کو علم پر ابھارتا ہے۔ اسی طرح علم کی بھی دو قسمیں ہیں: ۱۔ علم بسیط ، ۲۔ علم مرکب۔کافر و ملحد اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم بسیط رکھتے ہیں لیکن علم مرکب نہیں رکھتے، جیساکہ قرآن کریم میں مذکور ہے:   فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي‏ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها. [8]روم: ۳۰۔

عقل:

حقیقت انسانی درک کرتی ہے اور جسے درک کرتی ہے اس کو محفوظ رکھتی ہے ، اپنے مدرَکات کی نگہداری کے اعتبار سے عقل کہتے ہیں۔عقل مادہِ عقال سے ہے جس کا مطلب وہ رسی ہے جس سے اونٹ کو باندھا جاتا ہے۔ اسی طرح عرب سر پر ایک کپڑا رکھتے ہیں ایک سیاہ رنگ کی پٹی سے سر پر  اس کپڑے کو باندھتے ہیں تاکہ ہوا سے کپڑا نہ اڑے اس پٹی کو عقال کہتے ہیں۔

نفس:

حقیقتِ انسانی جب بدن کی تدبیر کرتی ہے تو اس کو نفس کہتے ہیں۔ پس نفس وہی عقل و قلب ہے لیکن اعتبار مختلف ہونے کی بناء پر اس کو نفس کہتے ہیں۔نفس بعنوان مدیر کے متعدد مراتب ہیں: ۱۔ نفس نباتی، ۲۔ نفس حیوانی، ۳۔ نفس انسانی۔ ہر ایک کے اپنے آثار ہیں۔

نفس نباتی کی تین خصوصیات ہیں: ۱۔ تغذیہ، ۲۔ نمو، ۳۔ تولید نسل۔ درخت و بوٹیاں و پودے تغذیہ رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ نمو کرتے ہیں اور تولید نسل بھی کرتے ہیں اس لیے ایک درخت سے کئی درخت پیدا ہوتے ہیں۔ نباتات حرکت رکھتے ہیں لیکن حرکتِ ارادی کے حامل نہیں ہیں۔ نفس حیوانی نفس نباتی کی تمام خصوصیات رکھتا ہے اور اس کے علاوہ ایک اور خصوصیت کا مالک ہے جوکہ ارادہ کے ساتھ ادراکِ حسی رکھتا ہے۔ نفس انسانی ان دونوں کی تمام خصوصیات رکھتا ہے اور اس کے علاوہ ایک اور خصوصیت رکھتا ہے جوکہ کلیات کا ادراک اور قوتِ عاقلہ ہے۔

نفس انسانی متعدد عناوین رکھتا ہے مختلف اعتبارات سے، مثلانفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ۔ ان تین کا ربط نبات و حیوان سے نہیں بلکہ یہ فقط انسان کے ساتھ مختص ہیں جس کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ سورہ یوسف میں ارشادہ ہوتا ہے: وَ ما أُبَرِّئُ نَفْسي‏ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ ما رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحيم‏. [9]یوسف: ۵۳۔ اگر قُوَی حیوانی غالب ہو جائیں قُوی الہٰی پر تو اس صورت میں نفس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔ اگر برعکس ہو یعنی قُوی الہٰی غالب ہو جائیں قُوی حیوانی پر تو اس نفس کو نفس مطمئنہ کہتے ہیں۔ اگر نفس انسانی ناروا اور برا کام کرے اور پھر نادم و پشیمان ہو جائے اور عذابِ وجدان کا شکار ہو اور اپنے آپ کو ملامت و سرزنش کرے کیونکہ غیب سے قلبِ نور اس پر ضوء فشانی کرے تو اس کو نفس لوامہ کہتے ہیں۔لوامہ کہنے کی وجہ نفس کا اپنے آپ کو ملامت اور بُرا بھلا کہنا ہے۔ عذابِ وجدان بعض اوقات اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو مار ڈال دیتا ہے۔ خودکشی گناہ کبیرہ ہے اور اس پر عذاب کا وعدہ ہے۔ خودکشی اس لیے گناہ کبیرہ ہے کہ ہم اپنے بدن و نفس سے خود فائدہ اٹھانے والے واحد موجود نہیں ہیں بلکہ ہمارا معاشرتی تعلق کئی افراد سے ہے جس کی بناء پر خود کشی کی صورت میں حق تلفی جنم لیتی ہے۔ وہ شخص جو گناہ کرتا ہے اور بے خیال و لاپرواہ ہے وہ انتہائی گمراہی میں ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص بہت بہتر ہے جو گناہ کرے اور پشیمان و نادم ہو  کیونکہ یہ رحمتِ الہٰی کے نزول کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ مرتبہِ لوامہ مقدمہ بنتا ہے نورِ قلبی کے ظاہر ہونے کا ۔ جب نورِ قلبی ظاہر ہوتا ہے تو نفس مطمئنہ بنتا ہے۔ ہر بالقوۃ جب بالفعل ہو اور فعلیت تک پہنچ جائے تو اس کو قلب کہتے ہیں۔قلب کی بہت قیمت ہے اور حق تعالیٰ نے حدیث قدسی میں اس طرف اشارہ کیا ہے:لَمْ يَسَعْنِي سَمَائِي وَلَا أَرْضِي وَ وَسِعَنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ. [10]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۵، ص ۳۹۔ قلب مجمع بحرین اور عالمین کے التقاء کا مقام ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول روایت ہے:  أَنَّ قَلْبَ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ الرَّحْمَنِ. [11]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۵، ص ۳۹۔ یہ تمام مراتب و مقامات ایک حقیقت ہیں اور اگر اعتبارات مختلف ہوں تو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

تنبیہ: روح اور بدن کا تعلق

روح جوہراً یعنی ذاتًا مجرد ہے لیکن مادی جہاں میں کام انجام دینے کے لیے بدن کی محتاج ہے اور روح کا بدن سے تعلق تدبیریت کا ہےکیونکہ روح بدن کی مدبریت کرتی ہے۔ روح بدن کے توسط سے اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور صورت دیتی ہے۔ صورت دینے سے مراد ہے کہ روح اپنے آپ کو بدن کے ذریعے ظاہر کرتی ہے۔ پس روح ظہور اور آثار میں بدن کی محتاج ہے ۔ روح کسی عالم میں بدن کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس کے مقابلے میں عقل جسے شریعت کی زبان میں فرشتہ و ملائکہ کہتے ہیں ذاتًا و فعلًا ہر دو لحاظ سے مجرد ہے اور اس دنیا میں فعل انجام دینے کے لیے کسی بدن کا محتاج نہیں ہے۔

اس تنبیہ میں فرماتے ہیں کہ روح اپنی وجودو بقاء میں کسی آلہ کی محتاج نہیں لیکن اپنے آثار کے لیے بدن کی محتاج ہے۔ روح بدن کے تمام اعضاء و جوارح میں سریان رکھتی ہے۔ روح اور بدن ایک حقیقت ہے لیکن دو مرتبہ ہیں ۔ مرتبہِ عالی میں روح کہتے ہیں اور مرتبہِ نازلہ میں بدن کہتے ہیں ، جیساکہ علامہ حسن زادہ آملی اپنی کتب میں بیان کرتے ہیں کہ بدن مرتبہِ نازلہ ہے نفس ناطقہ کا۔ ہمارے معاشرے میں روح و بدن کے حوالے سے جو باتیں پھیلی ہوئی ہیں وہ درست نہیں، مثلا بدن کشتی اور روح کشتی چلانے والا ہے ، بدن ریاست اور روح سلطان ہے وغیرہ۔

بدن اور روح ظرف و مظروف نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ بدن ظرف ہے جس میں روح ہے!! یہ غلط ہے۔ ہاں اگر غلط تعبیر ہی کرنی ہے تو حقیقت کے قریب سے تعبیر یہ ہے کہ روح ظرف ہے جس میں بدن ہے۔ روح بدن میں سریان رکھتا ہے لیکن یہ سریانِ حلولی نہیں ہے۔ جس طرح آبِ گل سریان رکھتا ہے پھول میں ، اس طرح سے روح بدن میں نہیں ہے کیونکہ آب پھول میں حلول رکھتا ہے۔ اسی طرح روح بدن کے ساتھ ایسی ترکیب نہیں رکھتی جیسے لیموں اور چینی پانی میں مل کر ایک تیسری شیء یعنی اسکنجین بن جاتی ہے !!

روح کا سریان بدن میں اسی طرح ہے جیسے اللہ سبحانہ کا اشیاء میں سریان ہےاور اشیاء وجودِ الہٰی کے مظاہر و ظہور ہیں۔ بدن نفسِ ناطقہ کا ظہور ہے نہ کہ ظرف و مظروف ۔ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ مخلوق میں حلول یا اتحاد نہیں رکھتا کیونکہ یہ باطل نظریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوقات میں ظاہر ہے اور مخلوقات مظہر ہیں۔ ایک کمرے میں چاروں طرف شیشہ لگا ہوا ہے لیکن ہر شیشہ دوسرے لمبائی و چوڑائی اور کوالٹی کے اعتبار سے مختلف ہے ، بعض آئینے میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں، اس کمرے کے درمیان میں بندہ کھڑا ہے، ہر آئینہ میں اس بندے کی تصویر بن رہی ہے ۔ ہر آئینہ اپنے ساخت اور صلاحیت و اوصاف کے مطابق بندے کو ظاہر کر رہا ہے۔ جو چھوٹا آئینہ ہے وہ بندے کو چھوٹا اور جو لمبا ہے وہ لمبا دکھا دے رہا ہے ۔ پس بندہ ظاہر ہو رہا ہے اور جہاں ظاہر ہو رہا ہے وہ مظہر یعنی آئینہ میں آشکار ہونے والی تصویر۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ظاہر ہے اور تمام اشیاء مظہر ہے لیکن ہر شیء اپنی صلاحیت، استطاعت اور کمال و نقص کے مطابق ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود و اوصاف کو ظاہر کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اشیاء سے بینونیت نہیں رکھتا اور نہ ہی تمام معنی میں جدائی بلکہ اللہ تعالیٰ اشیاء کے ساتھ ربط اور تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اشیاء سے مغایرت ہے بھی اور نہیں بھی۔ اللہ تعالیٰ کا اشیاء سے مغایرت وجود کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ مغایر ظاہر اور مظہر کے اعتبار سے ہے۔ اسی طرح روح اور بدن میں نسبت ظہور اور مظہر کی ہے۔ اشیاء اصل وجود کے اعتبار سے عینِ حق تعالیٰ ہیں لیکن تعین کے اعتبار سے حق تعالیٰ سے مغایرت رکھتے ہیں۔ جو شخص اس بات کو جان لے وہ روح اور بدن میں ربط کی کیفیت کو جان لے گا۔ کیونکہ رُوح بدن کا رَبّ ہے بالکل اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ تمام خلقت کا رب ہے۔ رب کا مربوب سے جو تعلق ہے وہی تعلق روح اور بدن کا ہے اور یہی معنی روح کا بدن میں سریان کا ہے۔

اگر طوفانی ہوائیں ہو اور ساحل سمندر میں ہم ہوں تو دیکھیں کہ طرح طرح کی موجیں سمندر میں اٹھ رہی ہیں ، کوئی بہت طولانی ، کوئی متوسط وغیرہ۔ لیکن جب ہوائیں تھم جائیں تو وہ موجیں ختم ہو جاتی ہیں اور سمندر پُر سکون ہو جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ موجیں کہاں گئیں؟ ! موجیں خود سمندر سے اٹھتی ہیں اور سمندر سے جدا نہیں ہیں ۔ یہی موجیں واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں۔ یہی نسبت خلقت کی اللہ تعالیٰ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تمام خلقت ہے اور خلقت اسی نے وجود دی ہے اور پھر اسی خلقت نے اللہ تعالیٰ کی طرف واپس چلا جانا ہے۔انا للہ وإنا الیہ راجعون یہی ہے۔  اسی طرح ایک اور مثال ہے کہ گرمی میں پانی بھاپ بن کر اڑتا ہے اور بادل بن کر دوبارہ برستا ہے۔ انا للہ وإنا الیہ راجعون یہی ہے۔

منابع:

منابع:
1 طہ: ۷۔
2 اسراء: ۸۵۔
3 ق: ۳۷۔
4 آل عمران: ۳۹۔
5 نجم: ۱۱۔
6 الشرح: ۱۔
7 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۹، ص ۵۴۸۔
8 روم: ۳۰۔
9 یوسف: ۵۳۔
10, 11 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۵، ص ۳۹۔
Views: 119

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حقیقت محمدی کا خلیفہ اور قطب الاقطاب ہونا
اگلا مقالہ: مسائل علم عرفان