loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۲۸}

الہٰی معاشرہ کی بنیادیں

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ قسط میں ہم نے جانا کہ الحادی معاشرے میں ہمارے پاس قانون کے اجراء کی کوئی اخلاقی ضمانت موجود نہیں۔ الحادی معاشرہ خود کو قانون پر فوقیت دیتا ہے اس لیے جب بھی معاشرے اور قانون میں ٹکراؤ پید ہو وہ قانون کو پائمال کر کے فورا معاشرتی مفاد پورا کرتے ہیں۔ لیکن الہی معاشرے میں قانون فرد اور معاشرے پر فوقیت رکھتا ہے۔ اگر معاشرے کا مفاد کسی امر میں موجود ہے لیکن قانون اس کی اجازت نہیں دیتا یہاں پر قانون کو معاشرے پر مقدم سمجھا جاۓ گا۔ 

الہی معاشرے کی اساس

الہی معاشرہ، الحادی معاشرے کے برعکس الہی جہان بینی کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ الہی جہان بینی کے مطابق وہ خود کو اس مادی عالم میں مقید نہیں سمجھتا اور نا ہی خود کو فانی سمجھتا ہے۔ وہ حیات جاویدانی کا قائل ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ اس کو حاصل ہوگی۔ اس لیے وہ اپنی رفتار، اخلاق اور عقائد کو دنیا میں اہمیت  دیتاہے۔ جبکہ الحادی معاشرے میں تربیت ہونے والا انسان خود کو اسی مادی جہان میں محدود سمجھتا ہے اور اسے کسی دوسرے عالم کی فکر نہیں اس لیے وہ کسی اخلاق، رفتار یا عقیدے کا خود کو پابند نہیں سمجھتا۔ الہی معاشرے کا انسان اس مادی سوچ کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے اور اسی کی طرف اس نے جانا ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
«إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ».
ترجمہ:  ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔[1] بقرہ: ۱۵۶۔

انسان قانون کا محتاج

الحادی معاشرے میں قانون کو ایجاد کیا جاتا ہے۔ قانون دانشور افراد تولید کرتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں باہمی اختلافات سے بچنے کے لیے وہ یہ کام انجام دیتے ہیں، اس لیے خود قانون ان کے لیے ہدف نہیں ہوتا بلکہ قانون سے جو مفاد حاصل ہوتا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوۓ قانون ایجاد کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن الہی معاشرے میں انسان کسی بھی صورت میں قانون سے بے نیاز نہیں۔ الہی جہان بینی کے مطابق حتی اگر انسان  اکیلا بھی زندگی گزارنا چاہے اسے قانون کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بالآخر انسان نے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر انسانیت کے کمال کے راستے کو طے کرنا ہے اسی اساس پر کائنات کے اولین انسان حضرت آدمؑ کو اللہ تعالی نے قانون کے ہمراہ اور نبوت کا منصب دے کر بھیجا۔ تاکہ کسی بھی دور میں کوئی بھی انسان بغیر قانون کے سعادت سے محروم نہ ہو ۔

قانون اور حجت کا ہر دور میں موجود ہونا

امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے:
«لَوْ كَانَ اَلنَّاسُ رَجُلَيْنِ لَكَانَ أَحَدُهُمَا اَلْإِمَامَ وَ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَنْ يَمُوتُ اَلْإِمَامُ لِئَلاَّ يَحْتَجَّ أَحَدُهُمْ عَلَى اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ تَرْكَهُ بِغَيْرِ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَلَيْهِ » ؛ اگر لوگوں میں صرف دو افراد باقی رہ جائیں تو ان میں سے ایک حتما امام ہوگا۔ اور امام نے فرمایا: ان دو میں سے جو آخر میں مرے گا وہ امام ہوگا تاکہ کوئی شخص خدا کے خلاف احتجاج نہ کرے کہ اسے بغیر حجت کے چھوڑ دیا گیا۔[2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۸۰۔ معلوم ہوتا ہے الہی نظام میں انسان نا توقانون کے بغیر ہو سکتا ہے اور نا ہی قانون گذار کے بغیر۔ کیونکہ انسان ایک ہدفمند مخلوق ہے۔ قانون اسے ہر صورت میں چاہیے ۔ اگر قانون اور اس کا مجری نہ ہو تو وہ اپنے راستے سے ہٹ سکتا ہے اور اس صورت میں وہ اللہ تعالی سے شکایت کر سکتا ہے۔دین کی نگاہ میں انسان مسافر الی اللہ ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:« يا أَيُّهَا الْإِنْسانُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحاً فَمُلاقيهِ »؛ اے انسان! تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، پھر اس سے ملنے والا ہے۔[3] انشقاق:۶۔ کوئی چاہے یا نا چاہے بہرحال وہ اللہ تعالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جب انسان اس الہی جہان بینی کے تحت جا کر معاشرہ تشکیل دیتا ہے اس کا ہدف « إِنْ هِيَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَنَحْيا ».[4] مومنون:۳۷۔ نہیں ہے کہ اس دنیا سے جتنا فائدہ اٹھانا چاہے اٹھا لے بلکہ اس کی زندگی اس بناء پر « الْمالُ وَالْبَنُونَ زينَةُ الْحَياةِ الدُّنْيا وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَواباً وَخَيْرٌ أَمَلاً ».[5] کہف:۴۶۔ قائم ہے۔ وہ صرف دنیوی مفادات کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ اخروی سعادت کا بھی طلبگار ہے۔ اس کا ہدف مادی رفاہ و ضروریات پورا کرنا نہیں بلکہ وہ لقاء اللہ کا بھی طلبگار ہے۔ اس کی حرکت کے اصول اور مبانی وہی ہیں جو انبیاء الہی نے از طرف اللہ تعالی مقرر فرماۓ ہیں۔ 

قانون کا مجری معصوم

دینی معاشرے میں الہی نظام کو چلانے والا اور قانون گذار صرف معصوم ہے جو ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے۔ وہ منفعت طلب اور سودجو نہیں۔ وہ کوئی ایسا قانون نہیں بناتا جو صرف اس کے مفاد میں ہو اور بقیہ لوگوں کے لیے ضرر رساں ہو۔ غیر الہی نظاموں میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ حاکم کی طغیانی سے کیسے بچا جاۓ؟ موازنہ قوا ہمیشہ سے ہی پولیٹیکل سائنس (political Science)کا پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ ہر دور میں جب بھی کسی انسان کو قوت او ر اقتدار ملا اس نے اس کا ناجائز استعمال کیا۔ افلاطون نے اس کا ایک حل یہ پیش کیا کہ حاکم کو کسی شے کا مالک ہی نہ بننے دیا جاۓ۔ وہ کسی شے کا مالک نہیں، حتی اسے شادی نہیں کرنی چاہیے تاکہ نہ اس کے بچے ہوں او رنا ہی بیوی تاکہ ان کے لیے مال بنانے کانہ سوچے۔ لیکن دین اسلام نے اس مسئلے کا سب سے بہترین حل دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ حاکم یا قانون کا رکھوالا معصوم ہو۔ معصوم کے لیے اپنے رشتہ دار یا قوم کے افراد اہمیت نہیں رکھتے، اس کے نزدیک قانون کے اجراء میں سب ہی برابر ہیں۔ اس کی سب سے عمدہ ترین مثال امیرالمومنینؑ کی حاکمیت کا دور ہے۔الہی جہان بینی کے مطابق کسی قوم کو نژادی برتری حاصل نہیں۔ جیسا کہ  رسول الله ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: « وَلَيْسَ لِعَرَبىٍّ عَلى عَجَمِىٍّ فَضْلٌ » ؛ اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔[6] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۷۳، ص۳۵۰۔ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرماتے ہیں : « اُرسِلتُ إلَى الأبيَضِ والأسوَدِ والأحمَرِ »؛ میں سفید ،سیاہ اور سرخ کی طرف بھیجا گیا ہوں۔[7] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۶، ص۳۲۴۔ اسلام کی نظر میں  سب انسان یکساں اور مساوی ہیں۔امام صادقؑ سے منقول ہے:« اَلنَّاسُ سَوَاءٌ كَأَسْنَانِ اَلْمُشْطِ » ؛ لوگ کنگھے کے دانتوں کی مانند برابر ہیں۔[8] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۷۵، ص۲۵۱۔

زمانہ غیبت میں قانون کا اجراء

جب تک امام معصوم موجود ہو وہی قانون گذار اور اس کو اجراء کرنے والا ہے۔ لیکن زمانہ غیبت میں بھی صرف وہی افراد حکومت دینی میں کارگزار ہو سکتے ہیں جن کے اندر قانون کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کا انگیزہ موجود ہو، اور یہ انگیزہ اسی اعتقاد، اخلاق اور عبادت سے حاصل ہوتا ہے۔ الہی معاشرے میں اگر کوئی شخص غفلت یا دنیا طلبی کی بنا پر اپنی آخرت کا دنیا سے معاملہ کرتا ہے، دین کی نظر میں اس کے خلاف متعہد مومنین کا قیام ضروری ہے۔ مومنین کو چاہیے کہ فورا اسے مقام سے معزول کریں۔ 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وظیفہ

اسلام نے نظام الہی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ کرنے کے لیے لوگوں پر بطور ناظر ضروری قرار دیا ہے کہ وہ بھی آئیں اور قانون کے اجراء میں حکومت دینی کا ساتھ دیں۔ الہی معاشرے میں اس طرح سے نہیں کہ لوگ صرف قانون پر عمل کرتے ہیں، بلکہ ان پر ضروری ہے کہ اجراء قانون میں بھی ساتھ دیں۔ اسلام الہی قانون کے اجرءا کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب قرار دیتا ہے۔ یہ صرف حکومتوں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ معاشرے میں معروف کو ایجاد کریں اور منکر کو ختم کریں بلکہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں۔ اور اگر کہیں قانون ٹوٹ رہا ہے ان پر واجب ہے کہ اس اقدام کو روکیں۔ حتی بعض فقہاء امامیہ نے اسے واجب عینی قرار دیا ہے۔ مثلا مرحوم محقق حلی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب عینی قرار دیا ہے۔[9] جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۶تا۸۹۔

Views: 48

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: غربی الحادی معاشرہ کی کمزوریاں
اگلا مقالہ: جمہوری چناؤ یا حاکم کا منصوب ہونا