loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۲۷}

غربی الحادی معاشرہ کی کمزوریاں

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ایک معاشرہ اپنے اہداف، اصول اور ان خطوط سے بنتا ہے جس پر گامزن ہوتا ہے۔ ہر معاشرے کی ماہیت اس معاشرے کے افراد کی جہان بینی سے مستقیم طور پر مرتبط ہوتی ہے۔ اس لیے ہم معاشرے کو الہی اور الحادی میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

غربی الحادی معاشرے کی خصوصیات

الحادی معاشرہ اندر سے کھوکھلا اور کمزور معاشرہ ہے جس کی بنیادیں انسانیت کی بجائے حیوانی خصلتوں اور پست اصولوں پر قائم ہیں۔ الحادی معاشرہ اپنے مادی افکار کی تاریکی اور اخلاقیات سے عاری طرزِ زندگی کی وجہ سے انتہائی اضطراب اور کرب کی زندگی میں مبتلا ہے۔ اگرچے اس کا ظاہر خوش نما اور آسائش و لذت کا آئینہ دار ہے لیکن اس خوش نما چہرے کے پیچھے تاریک اور مضطرب و بے چین روح تڑپ رہی ہے۔ ذیل میں الحادی معاشرے کی اہم کمزوریاں اجمالی طور پر بیان کی جاتی ہیں:

۱۔ مادی سوچ

الحادی معاشرے میں جہان اور دنیا کی شناخت مادیات کی اساس پر ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس معاشرے میں مسلمان رہتے ہوں یا ان پر اسلامی حکومت قائم ہو لیکن اگر معاشرہ مادی سوچتا ہے، حکومت کی شناخت، حاکم کی شناخت ، حتی حق کی شناخت بھی مادی اساس پر کرتے ہوں یہ معاشرہ الحادی معاشرہ ہے۔ باالفاظ دیگر اس معاشرے کے لوگ اس شے سے مرتبط ہوتے ہیں جس میں ان کو مادی فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ اگر کسی امر میں مادی فائدہ نہ دیکھ رہے ہوں تو اسے ترک کر دیتے ہیں۔ یہ انسان اور جہان ہستی کو محسوس (حس کے دائرے میں آنے والی شے) اور مادی دیکھتے ہیں۔ دل کی گہرائیوں سے مان چکے ہیں کہ یہی زندگی ہے اور پھر مر جانا ہے تو جتنے دن ہیں عیش و عشرت سے گزارے جائیں۔ اس جہان بینی کے تحت یہ معاشرہ باور کر بیٹھتا ہے کہ انسان کی رفتار اور اس کے اعمال اس کے آیندہ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ وہ تو کسی آیندہ یا قیامت اور حساب کتاب کا قائل ہی نہیں۔ لذا خود کو دنیوی زندگی میں کسی عقیدے، اخلاق اور اعمال کا پابند نہیں سمجھتا اور نا خود کو کسی قانون کا تابع سمجھتا ہے۔

۲۔ اخلاقیات سے خالی

الحادی معاشرے میں لوگ خود کو کسی اخلاق کا پابند نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ الحادی معاشرے کا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ کون سی چیز اخلاق کے مطابق ہے یا اقدار انسانی کے مطابق ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس کی آزادی میں کوئی چیز مانع بن رہی ہے تو اسے ہٹا دینا چاہیے۔ اب اگر یہ مانع کوئی دینی امر ہو، اخلاقی امر ہو یا انسانی قدر۔غربی الحادی معاشرہ خود غرضی، مفاد پرستی، حرص اقتدار و مال اور قومیت و لسانیت کے اخلاقی امراض کی بدنما تصویر ہے۔

۳۔ غلامانہ آزادی

الحادی معاشرے انسان کو کسی حد و مرز کا پابند نہیں سمجھتے۔ انسان کی آزادی اور اس کی رہائی کے قائل ہیں۔ یہ معاشرے خدا مدار، یا اقدار کے پابند نہیں ہوتے بلکہ ان باتوں کو دقیانوسی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان آزاد ہے، اس لیے ان کے ہاں مرد کی کسی مرد سے شادی، بغیر عقد کے جنسی تعلقات، یہ سب باتیں کوئی حرج نہیں رکھتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ جنسی ارتباط برقرار کرتا ہے تو ہمیں اس سے کیا؟ اس لیے اکثر یورپی ممالک میں ہمجنس پرستی کو قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔

اجراء قانون کی اساس مفاد پرستی

غربی الحادی معاشرہ میں قانون مفاد اور مادی لذات و شہوات کے آسان حصول کا ذریعہ ہے ، اس سے زیادہ قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ الحادی معاشرے کا انسان اگرچے مادی سوچ کا حامل ہے اور اخلاقیات کو اپنے مفاد کا ذریعہ سمجھتا ہے اور حیوانی شہوت و لذت کے طور طریقوں کی وجہ سے غلامانہ آزادی کے قالب میں ڈھل چکا ہے لیکن یہ معاشرہ قانون کے اجراء کا قائل ہے ۔اگرچے یہ غربی قوانین انسانیت کش قوانین ہیں لیکن ان کے اجراء کی وجہ سے ظاہری طور پر معاشرے کا نظام چلنے لگتا ہے اور زندگی کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلامی اور غربی الحادی معاشرہ میں روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہر دو نظام اور معاشرے انسان کی ابتدائی ضرورتِ زندگی کے وسائل پورے کرتے ہیں ۔ اصل فرق انسانیت اور حیوانیت کی بالادستی اور انسانی معاشروں کا مادی ظلمتوں کا سفر طے کرتے ہوئے اپنے آپ کو عذاب کا شکار کرنا ہے اور آخرت کی زندگی کا انکار کر کے تنگ و ضیق زندگی کے تصور کے اضطراب کا شکار ہونا ہے۔ چنانچہ غربی الحادی معاشرے میں ظاہری طور پر قانون کی بالادستی کا حُسن نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہ دنیا کی نابودی ہونے والی زینت اور عذاب الہٰی کو تدریجاً دعوت دینے کے مترادف ہے، جیساکہ قرآن کریم نے اسی مادی الحادی تفکر کو اس طرح سے بیان کیا ہے: « مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا ».؛ اور ہماری زندگی تو فقط یہی دنیاوی زندگی ہے۔ [1] جاثیہ: ۲۴۔ کا قائل ہے ۔

غربی الحادی معاشرہ صرف ایسے قانون کو تسلیم کرتا ہے جو اس لذت، غلامانہ آزادی اور مفاد کو مہیا کرے !! چنانچہ اس نوعیت کا معاشرہ زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کرنے کے درپے رہتا ہے ۔  انسان شناسی اور جہان بینی کا اثر معاشرے پر گہرے طور پر نمایاں ہوتا ہے، جیساکہ مادی جہان بینی مادی مفادات کی دوڑ کو اصل ہداف قرار دیتا ہے اور ہر ایسے قانون اور اصول و آئیڈیالوجی کا منکر ہو جاتا ہے جو اس کے ظاہری مفاد کے نقصان کا باعث بنے !!  بقول ان کے قانون انسان کے لیے ہے نا کہ انسان قانون کے لیے۔ اب اگر کسی الحادی معاشرے کے انسان کا قانون کی وجہ سے مادی فائدہ حاصل نہ ہو رہا ہو، قانون کی وجہ سے اس کی آزادی محدود ہو رہی ہو تو وہ یہاں پر کیا کرے گا؟ قانون کو فوقیت دے گا یا خود کی ذات کو؟ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ الحادی معاشرے میں قانون کے اجراء کی کوئی ضمانت موجود نہیں۔ اور الحادی معاشرہ قانون کو درست طور پر اجراء نہیں کر سکتا۔

مغربی معاشرہ اور اندرونی اضطراب

یہی وجہ ہے کہ آج مغرب میں بسنے والا انسان اضطراب کا شکار ہے۔ نفسیاتی امراض کا شکار ہے اور خود کی شناخت کو کھو بیٹھا ہے۔ ان کے پاس صنعتی ترقی ہے، علوم میں بھی خوب ترقی کی ہے لیکن پھر بھی یہ حالت ہے؟ مادیات کو پورا کرنے، ہر قسم کے اخلاق اور اقدار کی رسم کو توڑ ڈالنے اور بے حد و مرز آزادی کا مزہ چکھ لینے کے بعد بھی اس کو سکون حاصل نہیں ہوا؟ مغربی انسان سکون کی تلاش میں خودکشی کرنے کو تیار ہے۔ کیوں؟ کیسے ایک انسان جس کے پاس خوب رفاہ اور مادیات موجود ہیں وہ اپنی جان لینے پر تیار ہے؟ اس لیے کہ انہوں نے جس چیز میں انسان کے کمال کو قرار دیا، اس میں انسان کا کمال نہیں۔ انہوں نے شعار دیا کہ ہم معاشرے میں رفاہ اور مادیات کا مکمل طور پر اہتمام کریں گے جبکہ انسان کو صرف مادیات نہیں چاہیے۔

غربی معاشرہ پابندِ قانون ایک شبہ

یہاں پر کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آپ نے کہا کہ الحادی معاشرے میں انسان خود کو قانون پر فوقیت دیتا ہے اور کسی قانون کا پابند نہیں سمجھتا لیکن پھر بھی وہاں کے لوگ ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں، اور ہمارے معاشروں میں سب سے زیادہ قانون ٹوٹتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ الحادی معاشرے میں افراد قانون پر بھی اس لیے عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کی ضروریات پوری ہوں، مادی مفاد کے حصول کے لیے قوانین پر عمل کرتے ہیں لیکن اگر اسی قانون کا ان کے کسی مادی مفاد سے ٹکراؤ ہو جاۓ تو آپ دیکھیں گے کہ اس نے کس چیز کو فوقیت دی؟ اگر مسلمان ممالک میں افراد قانون پر عمل نہیں کرتے تو ایسا نہیں کہ وہ بے قصور شمار ہونگے ہم کہیں گے کہ انہوں نے شرعی اور قانون جرم کا ارتکاب کیا۔ اور ہواۓ نفس کا شکار ہوتے ہوۓ غلط کام کام کا ارتکاب کیا۔ لیکن یہ کہنا کہ الحادی معاشروں میں قانون نہیں ٹوٹتا تو یہ سراسر غلط بات ہے۔ درست ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے ممالک میں اپنے شہریوں کی زندگی کے مادی مفادات کے لیے قوانین سخت بناۓ ہوۓ ہیں اور عوام بھی سزا کے ڈر سے قانون توڑتے ہوۓ ڈرتے ہیں لیکن سب سے زیادہ قانون الحادی معاشروں نے توڑے ہیں۔ اپنے ممالک میں تو قانون کے پیرو ہیں لیکن عالمی سطح پر سب سے زیادہ قانون انہیں معاشروں نے توڑے ہیں۔ انہیں معاشروں کے حکمرانوں نے دنیا میں ویرانی اور تباہی پھیلائی، ضعیف ممالک پر چڑھائی، ان کے ذخائر اور معدنیات کی لوٹ مار، استعمار اور بردہ داری ان کی جانب سے زیادہ ہوئی۔ جنگ عظیم اول اور اور دوم انہیں کے ذاتی مفادات کی بنا پر تھی۔ انہوں نے ہی لاکھوں لوگوں کو ذاتی مفاد کی بنا پر انسانیت کو جنگ کی آگ میں دھکیلا۔ اور آج بھی اسلامی ممالک میں انہیں الحادی معاشروں کے افراد کی سوچ کارفرما ہے کہ کئی دہائیوں سے فلسطین، کشمیر، یمن، لیبیا، عراق، شام اور افغانستان میں لوگوں کو آوارہ اور بدبخت کیا لیکن اپنے ممالک میں پینٹ اور ٹائی پہن کر مہذب بن کر مثلا ٹریفک لائٹ کے اشاروں کی پابندی کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔[2] جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۴تا۸۷۔

منابع:

منابع:
1 جاثیہ: ۲۴۔
2 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۴تا۸۷۔
Views: 111

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اسلامی حکومت اور الحادی حکومت میں فرق
اگلا مقالہ: سیاست