loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۲۹}

جمہوری چناؤ یا حاکم کا منصوب ہونا

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

اسلامی نظام میں اکثریت کی اہمیت ہے یا نہیں؟اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دین اسلام نے اکثریت کا کاملا ََانکار نہیں کیا۔ اکثریت  جہاں پر معیار بن سکتی ہے اسے حتما معیار بننا چاہیے لیکن جس جگہ دین کی نظر میں اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں وہاں اس کو معیار نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم کلی طور پر دیکھیں تو اکثریت پوری دنیا میں سب کو ہی متاثر کرتی ہے۔ اکثریت کا معاشرے میں کردار ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اکثریت کو دیکھ کر ہی سب ایمان لے آتے ہیں۔ حتی دینی دنیا میں  دنیوی معیاروں کو مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے اور اکثریت کو ایک معیار سمجھا جاتا ہے۔

اکثریت قرآن کریم کی نظر میں

زیادہ تر موارد میں قرآن کریم نے اکثریت کے نظریے کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی بلکہ اکثریت کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ قرآن کریم نے اکثریت کو کاملا ََرد کیا ہو۔ یا ایسا کہا جاۓکہ اکثریت حق کو قبول نہ کرے ۔ لیکن یہ ضرور کہا کہ اکثریت جاہل ہے، عاقل نہیں ہے، تدبر نہیں کرتی وغیرہ۔ ایک ثابت ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم نے اکثریت کو معیار قرار نہیں دیا ۔ اس کے برعکس آج ہمارے اسلامی معاشروں میں اکثریت کو معیار قرار دیا جاتا ہے چونکہ قرآنی معیارات معاشرے میں تبلیغ نہیں ہوۓ غیر قرآنی معیار معاشروں میں پھیل گئے۔ اکثر اس مقرر اور خطیب کو درست سمجھا جاتا ہے جس کو اکثریت سننے آۓ یا اسے داد زیادہ ملے۔ جس عالم کے گرد افراد کی جمعیت موجود ہو اسے بڑا عالم سمجھتے ہیں، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت آج بھی علم کی طرف نہیں جاتی اسے سیر و تفریح اچھی لگتی ہے۔ انسانوں کی اکثریت سختی میں پڑنے سے گریز کرتی ہےانہیں آسان اورمختصر راستے اچھے لگتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے اکثریت کی طرف شہوانی اور منفی چیزوں کی نسبت دی ہے۔اکثریت کے بارے میں اس طرح کے جملات«اکثرالناس لا یعلمون»[1]   روم:۶۔ ، «اکثر الناس لا یشکرون»[2] یوسف:۳۸۔ ، «اکثر الناس لا یومنون»[3] ہود:۱۷۔ [4] غافر:۵۹۔ ، «اکثر الناس الا کفورا»،[5] اسراء:۸۹۔ قرآن میں موجود ہیں۔البتہ دوبارہ واضح کر دیا جاۓ کہ ان سب مذکورات کا یہ مطلب نہیں کہ اکثریت ہمیشہ ہی باطل ہوگی۔قرآن کریم میں سورہ نصر میں  وارد ہوا ہے۔
«إِذا جاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ في دينِ اللهِ أَفْواجاً».
ترجمہ: جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے، اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیں۔[6] نصر:۱،۲۔
اگر نصرت الہی آ جاۓ تو دین کو اکثریت قبول کر لیتی ہے۔ اگرچہ غلبہ دین کی صورت میں بھی تعقل کرنے والے اور عمل کرنے والے بہت کم ہونگے۔

اکثریت گزشتہ ادوار میں اور آج

قصص قرآنی اور تاریخ انبیاءشاہد ہے کہ اکثریت نے انبیاء کرامؑ کا ساتھ نہ دیا اور ان کی سیرت کو ترک کیا۔ اگر کچھ لوگوں نے انبیاء کرامؑ کا اقرار کیا بھی تو عمل کے مرحلے میں ان کی نصرت نہیں کی۔ بہت قلیل افراد ایمان لاتے اور نصرت کرتے۔ خود آج بھی ہم کروڑوں کی تعداد میں مسلمان پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن عملی طور پر اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت پر عمل پیر ا ہیں۔ حق کو عمل کا معیار قرار نہیں دیتے۔مثال کے طور پر آئمہ معصومینؑ کے ولادت کے ایام میں آ ج بھی ہم لوگ کیک کاٹتے ہیں۔ برتھ ڈے کے موقع پر کیک کاٹنا مغربی ثقافت ہے ، پہلے ایران اور عراق میں پھیلی اور پھر بعد میں ہند و پاکستان میں بھی آج آئمہ معصومینؑ کی ولادت کے ایام میں کیک کٹتے ہیں۔ کیک کاٹنا اسلامی ثقافت نہیں ہے۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا اسلام نےایسی کوئی رہنمائی نہیں کی کہ آئمہ معصومینؑ کے ولادت کے ایام میں کیا کریں؟ اور یہ دن کیسے منائیں؟ کیا امام کی شخصیت ہمارے عام بچوں کی طرح ہے کہ ان کی ولادت کے موقع پر مومنین آئیں اور کیک کھائیں چلتے بنیں؟جی نہیں! آئمہ معصومینؑ کی ولادت کے ایام، ایام اللہ ہیں۔ ان ایام میں دینی اور اسلامی آداب و ثقافت نظر آنی چاہیے در اصل یہی ایام ہیں جب ہم اسلامی ثقافت اور دینی آداب کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور اس خوبصورت کلچر کو پیش کرسکتے ہیں جو آئمہ معصومینؑ نے پیش کیا۔واضح رہے کہ کیک کاٹنا فقہی طور پر کوئی ممانعت نہیں رکھتا اور کسی بھی مجتہد نے اس کے حرام یا مکروہ ہونے کا فتوی نہیں دیا، یہاں پر بات کیک کاٹنے کے فقہی جواز یا عدم جواز کی نہیں ہو رہی ۔ بلکہ مدنظر یہ ہے کہ ہم مسلمان اکثریتی طور پر مغربی ثقافت سے بہت بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں اور ہور ہے ہیں۔

اقلیت کی حیثیت

اب تک ہم نے جو مذکورات بیان کیے ہیں ، معلوم ہوتا ہے اکثریت غلط ہے اور اقلیت درست۔ لیکن یہ بات بھی غلط ہے۔ حق کا معیار اکثریت ہے اور نا اقلیت۔ اگر کہیں اکثریت غلط ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حتما اقلیت ہی حق پر ہوگی۔ ممکن ہے اکثریت بھی غلط ہو اور اقلیت بھی غلط۔ مثلا حاکمیت کے انتخاب میں یا قانون بنانے میں اکثریت اور اقلیت دونوں معیار نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی نالائق حاکم کو اکثریت حاکم ما ن لے اور اقلیت نہ مانے اس سے اس حاکم کو مشروعیت حاصل نہیں ہو جاتی۔ اور نا ہی یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک حاکم کو اکثریت نہیں مانتی اور اقلیت مانتی ہے تو یقینا وہ حاکم حق پر ہے۔ اکثریت اور اقلیت صرف ان جگہوں پر معیار بن سکتے ہیں جہاں ان کے معیار بننے کامورد ہے۔ حاکم کے انتخاب اور قانون گذاری میں اکثریت اور اقلیت معیار نہیں۔ اگر کسی قانون کو اکثریت مان لے ہم اس کو دین کی نظر میں قانون نہیں بنا سکتے ۔لیکن دیگر موادر میں جہاں دین نے اکثریت اور اقلیت کو معیار بننے سے منع نہیں کیا ہم وہاں اسے معیار بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس چار عالم دین ہیں، سب کے سب سیداور سفید ریش، ایک برابر پڑھے لکھے، سب ہی عادل اور درست کار ہیں۔ ہم ان چار میں سے کس ایک کو اپنے ادارے کا مدیر بنائیں؟ ظاہری طور پر ہمارے پاس کوئی ایسا معیار بھی سامنے نہیں آرہا جس کی بنا پر ہم کسی ایک کو فوقیت دے کر اسے مدیر بنا دیں۔ یہاں پر ہم اکثریت کو معیار بنا سکتے ہیں اور کہیں گے کہ جس کو اکثریت کہےگی اس کو مدیر بنایا جاۓ گا۔ یا مثلا مومنین کو کھانا کھلانا چاہتے ہیں۔ کھانے میں کیا بنائیں؟ اقلیت کہتی ہے کہ مثلا دال ساگ بناتے ہیں،اور اکثریت کہتی ہے کہ اچھا کھانا بناتے ہیں یہاں پر بھی اکثریت کی بات مانی جاۓ گی ذاتی رجحان کی بنا پر سب مومنین پر اپنی پسند نہیں ٹھونس سکتے۔ معلوم ہوا اقلیت اور اکثریت کاملا رد نہیں کی جاسکتی اور بعض موارد میں معیار بن سکتی ہے۔

جمہور کا خلیفہ چننا

دین اسلام اور مکتب تشیع حاکمیت اور قانون کے انتخاب میں اکثریت کو معیار قرار نہیں دیتا، اہل سنت کے ہاں جمہور کا نظریہ موجود ہے۔ اہل سنت جمہور کے نظریے پر شدت سے پاپند ہیں۔ان کے مطابق جس شخص کو جمہور یعنی عوام خلیفہ بنا دے وہ خلیفہ الہی بن جاتا ہے۔ با الفاظ دیگر اہل سنت انتخاب کے قائل ہیں جبکہ اہل تشیع انتصاب کے۔ اہل تشیع کے ہاں وہ شخص خلیفہ ہوگا جو منصوب ہو اور منصوص من اللہ ہو۔ صرف وہی شخص خلیفہ بن سکتاہے جسے رسول اللہ منصوب فرمائیں اور اللہ تعالی کی طرف سے معین کیا جاۓ۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کے حکم سے امام علیؑ کی امامت و ولایت کا غدیر خم میں اعلان فرمایا۔

«مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ».[7] ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج۵، ص۶۳۳۔ [8] ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص۴۵۔ [9] كلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۲۷۔ بعض اہلسنت حضرات کہتے ہیں کہ یہاں پر امام علیؑ کی تکوینی ولایت کا اعلان ہوا نہ کہ تشریعی۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ امام علیؑ کی تشریعی ولایت کا حکم ہوا۔ اس لیے جمہور صحابہ کا حضرت ابو بکر کو خلیفہ بنانایا مان لینا درست نہیں۔

نتیجہ

ہم کہہ سکتے ہیں حاکم کا انتخاب انتصاب کی صورت میں ضروری ہے۔ اکثریت کسی حاکم کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سے ایک قانون بھی الہی ہونا ضروری ہے۔ اگر اکثریت کسی قانون کو بنا لیں یا مان لیں اس سے وہ قانون شرعی نہیں ہو جاتا،مگر یہ کہ اسلام کی کلیات سے نہ ٹکراۓ اور عقل سلیم اسے قبول کرے۔[10] جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۰تا۹۱۔

Views: 41

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: سیاست
اگلا مقالہ: حق کی بالا دستی