loading

{شرح مناجات خمس عشر}

مناجات شاکین 
استاد: آیت اللہ حسن رمضانی
تحریر: سید محمد حسن رضوی

مقدمہ:

ماہ رمضان ایک منظم برنامہ کے تحت اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ ماہِ رمضان میں عبادتِ طمع اور عبادتِ خوف جہنم ہے۔ اس لیے اس برنامہ کے مطابق عمل نہ کیا تو انسان کے لیے جہنم ہے۔ اس کے مقابلے میں رجب و شعبان آزاد عبادت ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندگی حب و عشق کی بنیاد پر ہے۔ رجب کی دعاؤں میں امام صادق ؑ سے ایک دعا میں وارد ہوا ہے: { خَابَ الْوَافِدُونَ عَلَى غَيْرِكَ وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إِلَّا لَكَ وَضَاعَ الْمُلِمُّونَ إِلَّا بِكَ وَأَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إِلَّا مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ بَابُكَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِينَ وَخَيْرُكَ مَبْذُولٌ لِلطَّالِبِينَ وَفَضْلُكَ مُبَاحٌ لِلسَّائِلِينَ وَنَيْلُكَ مُتَاحٌ لِلْآمِلِينَ وَرِزْقُكَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ عَصَاكَ وَحِلْمُكَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاكَ عَادَتُكَ الْإِحْسَانُ إِلَى الْمُسِيئِينَ وَسَبِيلُكَ الْإِبْقَاءُ عَلَى الْمُعْتَدِينَ اللَّهُمَّ فَاهْدِنِي هُدَى الْمُهْتَدِينَ وَارْزُقْنِي اجْتِهَادَ الْمُجْتَهِدِينَ وَلَا تَجْعَلْنِي مِنَ الْغَافِلِينَ الْمُبْعَدِينَ وَاغْفِرْ لِي يَوْمَ الدِّين‏   }. [1]ابن طاووس، علی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۴۳۔  صرف دعا پڑھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ سنّت کا پابند ہوں تو کچھ حاصل ہوتا ہے۔

دعا و مناجات کے دو پہلو:

دعا و مناجات ایک جہتِ الہٰی رکھتا ہے اور ایک جہت تعلیم و تربیت ہے۔ آئمہ اطہارؑ اہل دعا و مناجات تھے جیساکہ کتب احادیث و ادعیہ اس سے بھری ہوئی ہیں۔ آئمہ اطہارؑ کی دعائیں اور مناجات بہترین افراد کی بہترین ذات کے ساتھ بہترین گفتگو ہے۔ آئمہ ؑ ہمارے معلم و مربّی ہیں جو ان دعاؤں و مناجات میں ہماری تربیت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کیسے دعا کی جائے اور کیسے ربط قائم کیا جائے ۔ بعض فقط جہتِ الہٰی کو لے لیتے ہیں اور بعض فقط تعلیم و تربیت کو جبکہ صحیح یہ ہے کہ ہر دو بُعد اور جوانب کا اہتمام کیا جائے۔ بلا شک و شبہ عبادتِ حبّی و عاشقانہ ہونی چاہیے اور یہی اصل ہے لیکن مطالب و معارف کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔ وجودِ انسان میں آگِ محبت تب ہی بھڑکتی ہے جب حقیقی معرفت کا حصول ہو جوکہ تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے دعائیں تعلیمی و تربیتی جنبہ رکھتی ہیں۔ امام موسی کاظمؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے:إِنَّهُ لَا يَنَالُ شَفَاعَتَنَا مَنِ اسْتَخَفَّ بِالصَّلَاةِ. [2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۶، ص ۲۴۔ انسان ہے جو شفاعت سے محروم رہے گا جو نماز کو ہلکا سمجھتا ہے۔ انسان نے اپنے آپ کو فیض الہٰی تک پہنچانا ہے ورنہ فیض الہی تو جاری ہے اور کسی کے لیے بند نہیں ہے ۔ بہترین خود سازی آئمہ اطہارؑ کی دعائیں اور مناجات ہیں۔

علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ان مناجات خمس عشر کو نقل کیا ہے ورنہ یہ خمس عشر مناجات صحیفہ کاملہ میں موجود نہیں ہے۔ علامہ مجلسی نے اگرچے ان مناجات کی سند ذکر نہیں کی۔ علامہ مجلسی بحار میں لکھتے ہیں: الْمُنَاجَاةُ الْخَمْسَ عَشْرَةَ لِمَوْلَانَا عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا وَقَدْ وَجَدْتُهَا مَرْوِيَّةً عَنْهُ ع فِي بَعْضِ كُتُبِ الْأَصْحَابِ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏. [3] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۱، ص ۱۴۲۔ گذشتہ سال میں ان میں سے بعض مناجات کی شرح بیان ہو چکی ہے۔ اس سال ہم مناجاتِ شاکین کی شرح کریں گے۔ ان پندرہ مناجات کی خاص ترتیب ہے۔ آغاز مناجاتِ تائبین سے ہوتی ہےکیونکہ پہلی منزل توبہ کو قرار دیا گیا ہے کہ انسان شرمندہ اور نادم ہو کر اصل کی طرف پلٹے ۔

دوسری مناجات: مناجات شاکین:

الْمُنَاجَاةُ الثَّانِيَةُ مُنَاجَاةُ الشَّاكِرِينَ لِيَوْمِ السَّبْت‏:

(بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏) إِلَهِي إِلَيْكَ أَشْكُو نَفْساً بِالسُّوءِ أَمَّارَةً وَإِلَى الْخَطِيئَةِ مُبَادِرَةً وَبِمَعَاصِيكَ مُولَعَةً وَبِسَخَطِكَ مُتَعَرِّضَةً تَسْلُكُ بِي مَسَالِكَ الْمَهَالِكِ وَتَجْعَلُنِي عِنْدَكَ أَهْوَنَ هَالِكٍ كَثِيرَةَ الْعِلَلِ طَوِيلَةَ الْأَمَلِ إِنْ مَسَّهَا الشَّرُّ تَجْزَعُ وَإِنْ مَسَّهَا الْخَيْرُ تَمْنَعُ مَيَّالَةً إِلَى اللَّعِبِ وَاللَّهْوِ مَمْلُوَّةً بِالْغَفْلَةِ وَالسَّهْوِ تُسْرِعُ بِي إِلَى الْحَوْبَةِ وَتُسَوِّفُنِي بِالتَّوْبَةِ ، إِلَهِي أَشْكُو إِلَيْكَ عَدُوّاً يُضِلُّنِي وَشَيْطَاناً يُغْوِينِي قَدْ مَلَأَ بِالْوَسْوَاسِ صَدْرِي وَأَحَاطَتْ هَوَاجِسُهُ بِقَلْبِي يُعَاضِدُ لِيَ الْهَوَى وَيُزَيِّنُ لِي حُبَّ الدُّنْيَا وَيَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ الطَّاعَةِ وَالزُّلْفَى ، إِلَهِي إِلَيْكَ أَشْكُو قَلْباً قَاسِياً مَعَ الْوَسْوَاسِ مُتَقَلِّباً وَبِالرَّيْنِ وَالطَّبْعِ مُتَلَبِّساً وَعَيْناً عَنِ الْبُكَاءِ مِنْ خَوْفِكَ جَامِدَةً وَإِلَى مَا يَسُرُّهَا طَامِحَةً ، إِلَهِي لَا حَوْلَ لِي وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِقُدْرَتِكَ وَلَا نَجَاةَ لِي مِنْ مَكَارِهِ الدُّنْيَا إِلَّا بِعِصْمَتِكَ ، فَأَسْأَلُكَ بِبَلَاغَةِ حِكْمَتِكَ وَنَفَاذِ مَشِيَّتِكَ أَنْ لَا تَجْعَلَنِي لِغَيْرِ جُودِكَ مُتَعَرِّضاً وَلَا تُصَيِّرَنِي لِلْفِتَنِ غَرَضاً ، وَكُنْ لِي عَلَى الْأَعْدَاءِ نَاصِراً وَعَلَى الْمَخَازِي وَالْعُيُوبِ سَاتِراً وَمِنَ الْبَلَايَا وَاقِياً وَعَنِ الْمَعَاصِي عَاصِماً بِرَأْفَتِكَ وَرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِين‏.

توبہ کے بعد دوسری مناجات ’’مناجاتِ شکایت‘‘ ہے۔ اس مناجات میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نسخہ برداری کرنے والوں کی طرف سے اضافہ ہے لہٰذا ظاہراً یہ اضافہ خود علامہ مجلسی کی طرف سے ہے یا کاتب کی طرف ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر سورہ کا آغاز سوائے سورہ توبہ کے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا ہے اور ہر سورہ کا یہ جزء ہےاور ہر سورہ کے معانی کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے اور اسی کے مطابق معنی لیا جائے گا۔ فقہاء کرام کی آراء اس باب میں مختلف ہے کہ بعض اس کو جزءِ سورہ سمجھتے ہیں اور بعض اس کے  بغیر بھی قراءت سورہ کو کافی سمجھتے ہیں۔ پس یہاں بسم اللہ تشریفی ہے کہ حدیث مبارک کی رعایت کرتے ہوئے بسم اللہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ورنہ یہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ اس مناجات کا جزء نہیں ہے اور بعض جگہوں میں یہ مذکور نہیں ہے۔

اس مناجات میں انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرتا ہے، اپنے لبوں پر شکوہ لے کر آئے ۔  اس مناجات میں چار اہم امور کو بیان کیا گیا ہے: ۱۔ نفس، ۲۔ شیطان، ۳، قلبِ عاصی و گناہ گار، ۴۔ چشم جامد جس سے کوئی آنسو نہیں نکلتا۔ ان چار چیزوں کی شکایت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کی ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لی گئی ہے۔آغازِ مناجات میں ہے ’’إِلَهِي إِلَيْكَ أَشْكُو‘‘ ہے جبکہ مفاتیح الجنان میں الیک کی بجائے کیف آیا ہے اور کیف زیادہ سازگار ہے۔

معنی شکایت :

شکایت میں ایک شاکی  اپنے اوپر ہونے والے ستم کو بیان کرتا ہے اور ہونے والے ظلم کی خبر دیتا ہے۔ کلمہِ ’’ش-ک-و‘‘ اصلی حروف ہیں جس کا لغوی معنی کسی شیء سے تکلیف کا ہونا ہے۔ [4]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۳، ص ۲۰۷۔ پس شکایت کا معنی تین امور سے مرکب ہے: ۱۔ شکایت کرنے والا شاکی،  ۲۔ مشکی عنہ، ۳۔ مشکی علیہ جس کی طرف شکایت کرنے والا اپنی شکایت پیش کرتا ہے جوکہ اس مناجات میں ’’اللہ سبحانہ‘‘ ہے۔ اس مناجات میں شاکی ’’حقیقتِ انسان اور ہمارا نفس الامر ہے جسے میں کہہ کر اشارہ کرتے ہیں‘‘  ہے۔ مشکی عنہ یہاں چار چیزیں ہیں: ۱۔ نفس، ۲۔ شیطان، ۳۔ قلبِ عاصی، ۴۔ آنسو نہ بہانے والی آنکھ۔ شکایت کرنے والا ان چار چیزوں کی اللہ تعالی جوکہ مشکی علیہ کی بارگاہ میں شکایت کرتا ہے۔

نفس ِ امارہ کی شکایت :

سب پہلا امر جس کی شکایت حقیقتِ انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کر رہی ہے وہ ’’نفسِ امارہ‘‘ ہے۔ نفس امارہ وہ ہے جس سے جناب یوسفؑ نے پناہ طلب کی۔ سورہ یوسف میں ارشاد ہوتا ہے: { وَما أُبَرِّئُ نَفْسي‏ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ ما رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحيم }‏. [5]یوسف: ۵۳۔ نفس امارہ اور نفس ناطقہ کو ایک جہت سے دیکھیں تو دونوں ایک ہی ہیں اور اگر دوسری طرف سے دیکھیں تو دونوں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ اس اعتبار سے کہ نفس ناطقہ کی حقیقت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ نفس امارہ ہےجس کا تعلق مادہ اور جسم و بدن سے ہے جس کی وجہ سے خاک و مٹی کی بو دیتا ہے، مثلاً ایک شخص نے شادی نہیں کی  اس لیے اس کے سر پر کسی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن جب وہ شادی کر لیتا ہے تو اب وہ دو افراد ہو گئے اور انسان پر ذمہ داریاں آ جاتی ہیں ۔ ان ذمہ داریوں کو ملاحظہ کریں تو ایک جہت سے خوب ہے لیکن دوسری طرف سے زحمت و مشقت اور ضرورت کا بار بار احساس ہےجس کی بناء پر انسان کی مشغولیت اور کام کاج بڑھ جاتا ہے۔ روح ِ انسانی کو اپنی اس کی اصل جگہ کے اعتبار سے دیکھیں تو اس بارے میں قرآن کریم کہتا ہے:{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيم‏ }. [6]تین: ۴۔ لیکن جب روح کا تعلق بدن و جسم سے ہوا تو ارشاد رب العزت ہوا ہے:{ ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلين‏ }.[7]تین: ۵۔ اگر فضائل اخلاق اختیار کرتا ہے اور ایمان و عمل کی زندگی بسر کرتا ہے تو وہ اسفل السافلین سے باہر آ جاتا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:{ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُون }.[8]تین: ۶۔یہ کامیاب انسان ہے ۔ پس انسان کے اندر اگر رذائلِ اخلاقی پیدا ہو جائیں تو یہ نفسِ انسان ’’نفس امارہ‘‘ کہلاتا ہے۔ 

نفس کے مختلف حالات

نفس کی تین حالتیں ہیں: ۱۔ نفس امارہ، ۲۔ نفس لوامہ؛ ۳۔ نفس مطمئنہ ۔اگر انسان کے اندر شہوت اور غضب رسوخ کر لے اور شہوت و غضب بے ضابطہ کسی نفس کے اندر ہو جائے یہاں تک کہ نفس میں ملکہ کی حیثیت اختیار کر لے تو اس کو نفسِ امارہ کہتے ہیں۔ اگر نفس میں شہوت مَلکہ بن جائے اوررسوخ پیدا کر لے تو اس کو حالتِ بہیمی کہتے ہیں ۔ ایسی صورت میں نفس کھانا پینا، سونا اور کھیل کود سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسے نفس کو قرآن کریم کہتا ہے:{ أُولئِكَ كَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِكَ هُمُ الْغافِلُون‏}. [9]اعراف: ۱۷۹۔رسول اللہ ﷺ سے نفسِ بہیمی و چوپائے کے بارے میں روایت منقول ہے جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں: { أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ صِنْفٌ يُشْبِهُونَ بِالْأَنْبِيَاءِ وَصِنْفٌ يُشْبِهُونَ بِالْمَلَائِكَةِ وَصِنْفٌ يُشْبِهُونَ‏ بِالْبَهَائِمِ‏ أَمَّا الَّذِينَ يُشْبِهُونَ بِالْأَنْبِيَاءِ فَهِمَّتُهُمُ الصَّلَاةُ وَالزَّكَاةُ وَأَمَّا الَّذِينَ يُشْبِهُونَ بِالْمَلَائِكَةِ فَهِمَّتُهُمُ التَّسْبِيحُ وَالتَّهْلِيلُ وَالتَّكْبِيرُ وَأَمَّا الَّذِينَ يُشْبِهُونَ‏ بِالْبَهَائِمِ‏ فَهِمَّتُهُمُ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ وَالنَّوْمُ }. [10]شعیری، محمد بن محمد ، جامع الاخبار، ص ۱۰۱۔جسم کی خوراک غذا ہے جبکہ روح کی خوراک دوسروں کو کھلانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر فقط لذت اٹھاتا ہے جبکہ مومن لذت سے دوسروں کو بہرمند کرتا ہے۔ جس کا ہم و غم فقط کھانا پینا اور سونا کھیلنا ہو یہ صورت کے اعتبار سے انسان ہے لیکن قلب و حقیقت کے اعتبار سے حیوان ہے، جیساکہ امام علیؑ سے روایت میں آیا ہے: { فَالصُّورَةُ صُورَةُ إِنْسَانٍ‏ وَالْقَلْبُ قَلْبُ حَيَوَان}.[11]آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۱۲۲، حدیث: ۲۱۱۷۔ انسان آخر کب تک اسی طرح شکم پُری کرتا رہے گا اور غفلتوں و لذتوں میں پڑا رہے گا کہ اے نفس ایک شب کے لیے بیدار ہو جا اور دولت کو سمیٹ لے ، سَحر کا اہتمام کر اور عُزلت اختیار کر …۔

اگر نفس کے اندر غضب راسخ ہو جائے تو انسان کے اندر نفس ایک درندہ صفت حیوان کی حقیقت اختیار کر لیتا ہے۔ آتشِ غضب سے جو دوسروں کو جلاتا ہے وہ خود پہلے اس آگ میں پہلے جلتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسان شہوت و غضب کو اپنے نفس میں راسخ نہ ہونے دے اور بہیمیت و درندگی سے اپنے آپ کو نکالے۔ نفس امارہ وہ پہلو ہے جس سے جناب یوسفؑ نے رحمت الہٰی کا سہارا لیا۔

نفس لوامہ وہ نفس ہے جس میں ابھی شہوات و غضب راسخ نہیں ہوا جس کی بناء پر نفس برائی پر ملامت کرتا ہے۔ اگر نفس شہوات و غضب سے نجات حاصل کر لے اور شہوات و غضب کے بے ضبط و بے قاعدہ حرکات سے اجتناب کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ نفسِ مطمئنہ کہلاتا ہے۔ نفس مطمئنہ پُر سکون، مطمئن اور رضائے الہٰی کا مقصود کا قرار پاتا ہے۔ شیخ الرئیس اسی نفس مطمئنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ومن فاز مع ذلک بالخواص النبویة کاد ان یصیر رباً انسانیاً وکاد ان تحل عبادته بعد اللّه تعالی، وهو سلطان العالم الارضی وخلیفة اللّه فیه. [12]ابن سینا، حسین، الالہیات، سیر و سلوک کے آغازو میں نفس امارہ کے مرحلہ سے گزرا جاتا ہے ۔ نفس کسی صورت بھی قابل اعتماد نہیں ہے۔ نفس کی مہلکات سے پناہ لینے کی ضروری ہے۔  اگر نفس کا بت ٹوٹ جائے تو پتھروں و لوہے و لکڑی سے بنے والے تمام بت زمین بوس ہو جائیں گے۔ کیونکہ جتنے بھی بت ہیں وہ نفس کے بت کی بناء پر قائم ہیں۔ نفس میں وہ شرر و آگ ہے جس نے سب بت بنائے ہوئے ہیں ۔ آتشِ نفس اگر رام اور ٹھنڈی ہو جائے تو شرِ نفس سے آزاد ہوا جا سکتا ہے۔ مولانا رومی مثنوی میں بیان کرتے ہیں: 

مادر بتها بت نفس شماست

زانک آن بت مار و این بت اژدهاست

آهن و سنگست نفس و بت شرار

آن شرار از آب می‌گیرد قرار

سنگ و آهن زآب کی ساکن شود

آدمی با این دو کی ایمن بود

بت سیاهابه‌ست در کوزه نهان

نفس مر آب سیه را چشمه دان

آن بت منحوت چون سیل سیاه

نفس بتگر چشمه‌ای بر آب راه

صد سبو را بشکند یکپاره سنگ

و آب چشمه می‌زهاند بی‌درنگ

بت‌شکستن سهل باشد نیک سهل

سهل دیدن نفس را جهلست جهل

صورت نفس ار بجویی ای پسر

قصهٔ دوزخ بخوان با هفت در

هر نفس مکری و در هر مکر زان

غرقه صد فرعون با فرعونیان

در خدای موسی و موسی گریز

آب ایمان را ز فرعونی مریز

دست را اندر احد و احمد بزن

ای برادر وا ره از بوجهل تن. [13]رومی، مثنوی، دفتر اول، بخش ۳۷۔

نفس جہنم کی ایک صورت ہے اور صورتِ جہنم دنیا ہے۔ معتبر حدیث میں وارد ہوا ہے کہ دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔ نفس کو جب غذا مل جاتی ہے تو جہنم کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ نفس ہے جسے جہنم کے سات دروازوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نفس کی سات قوتیں جہنم کے سات دروازے کہلاتے ہیں۔ اگر عقل غلبہ حاصل کر لے تو انسان شریعت مدار ہوتا ہے اور اگر عقل مغلو ب ہو جائے تو انسان شریعت کو ترک بیٹھتا ہے ۔ عقل کی وجہ سے انسان شر کو شر کہتا ہے اس لیے عقل کا ثمرہِ شر ہے۔  اللہ تعالیٰ مومنین کا ولی ہے جو انہیں ظلمات سے نکال کر نور میں لاتا ہے۔ ولایتِ علی ابن ابی طالبؑ اور ولایت انسان کامل ہر دور میں وہ ہستی ہیں جن کے توسط سے اللہ تعالیٰ ظلمتوں سے نکالتا ہے۔ انسانِ کامل ہے جو تجسمِ خدا ہے، اس کی شناخت اللہ کی شناخت ہے، اس کی محبت اللہ کی محبت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: { اللَّهُ وَلِيُّ الَّذينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّور }.[14]بقره: ۲۵۷۔ انسان کامل آیتِ کبری ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تک پہنچا جاتا ہے ۔ سورہ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: { إِنَّ الَّذينَ كَذَّبُوا بِآياتِنا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْها لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوابُ السَّماءِ وَلا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ في‏ سَمِّ الْخِياطِ وَ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمين‏ }[15]اعراف: ۴۰۔ پس ریاضتِ شرعی کر کے نفس کو لاغر اور ضعیف کیا جائے تاکہ اس حد کو عبور کیا جا سکے۔ نفس کا بت جب ضعیف و لاغر اور چور چور ہو جائے تو انسان ظلمتوں سے نکل آ جاتا ہے۔ نماز اور روزہ اور دیگر عبادات کے بجا لانے سے نفس لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے۔ اس لیے شریعت پر عمل نفس کی سرکشی کو دبا دیتا ہے۔پس ہر بت جس قسم اور جس نوع کا ہو وہ نفسِ امارہ سے متولد ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے : أَعْدَى عَدُوِّكَ نَفْسُكَ الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيْك‏؛ تمہارے سب سے بڑا دشمن تمہارا وہ نفس ہے جو تمہارے دونوں اطراف میں ہے۔ [16]ورام ابن ابی فراس، مسعود بن عیسی، ج ۱، ص ۵۹۔  

ایک واقعہ:

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملاصدرا حمام میں غسل فرما رہے تھے اور ان کے ساتھ میر باقر داماد کے دیگر شاگرد تھے۔ اس دور میں حمام باہر اور کافی بڑے ہوتے تھے۔ اس حمام کی دوسری طرف میر باقر داماد غسل فرما رہے تھے۔ملا صدار اس سے بے خبر تھے۔ میر باقر داماد کے شاگردوں نے ملا صدرا سے پوچھا کہ آپ میر باقر داماد کو بہت بزرگ سمجھتے ہیں اور بہت محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ بزرگ اور عظیم ہیں نہ کہ میرے کہنے پر ان کی عظمت موقوف ہے۔ شاگردان نے سوال پوچھا کہ اگر ابن سینا اور میر باقر داماد میں معاملہ دائر ہو جائے تو آپ کس کو بالاتر قرار دیں گے؟ ملا صدرا نے جواب دیا: میر، شاگردوں نے پوچھا کہ اگر فارابی اور میر داماد کے درمیان معاملہ دائر ہو جائے تو ؟ جواب دیا: میر، اس طرح وہ حکماء کا پوچھتے رہے یہاں تک بات ارسطو تک پہنچی تو اس وقت بھی ملا صدرا نے میر کا نام لیا۔ پھر شاگردوں نے افلاطون کا تذکرہ کیا تو یہاں ملا صدرا نے توقف کیا کیونکہ وہ افلاطون کو بہت بزرگ اور عظیم سمجھتے تھے۔ اس توقف پر میر باقر دداماد جو دیوار کی دوسری طرف تھے وہیں سے با آوازِ بلند کہا: تب بھی میر بالاتر ہے اس لیے کہو میر ، میر ۔ میر باقر داماد نے مزید کہا کہ اگر فقط یہی فضیلت میرے لیے ہو تو کافی ہے کہ میرا تعلق اس امتِ مرحومہ سے ہے رسو ل خاتم ﷺ کی امت ہے جبکہ افلاطون کو یہ فضیلت حاصل نہیں۔

۔ 

 

منابع:

منابع:
1 ابن طاووس، علی، اقبال الاعمال، ج ۲، ص ۶۴۳۔
2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۶، ص ۲۴۔
3 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۱، ص ۱۴۲۔
4 ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۳، ص ۲۰۷۔
5 یوسف: ۵۳۔
6 تین: ۴۔
7 تین: ۵۔
8 تین: ۶۔
9 اعراف: ۱۷۹۔
10 شعیری، محمد بن محمد ، جامع الاخبار، ص ۱۰۱۔
11 آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۱۲۲، حدیث: ۲۱۱۷۔
12 ابن سینا، حسین، الالہیات،
13 رومی، مثنوی، دفتر اول، بخش ۳۷۔
14 بقره: ۲۵۷۔
15 اعراف: ۴۰۔
16 ورام ابن ابی فراس، مسعود بن عیسی، ج ۱، ص ۵۹۔
Views: 47

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: علامہ حسن زادہ آملی کے نصائح
اگلا مقالہ: شرح چہل حدیث امام خمینی