loading

ہشام بن الحکم

تحریر:بہادر علی

آپ کا نام ہشام بن الحکم ہے ،آپ کی کنیت أبامحمد و أبا الحکم ،لقب اورنسبت الکندی ،کوفی تھی۔

ہشام بن الحکم کوفہ میں پیدا ہوئے اور کوفہ میں بنی شیبان کے ساتھ زندگی بسرکی ۱۹۹ صدی ہجری میں بغداد منتقل ہوئے اور اسی سال ان کی وفات ہوئی یہ بغداد میں تجارت کیا کرتے تھے انھوں نے بہت ساری کتابیں لکھی ۔

اقوال رجالین:

۱:نجاشی انکے بارے میں بیان کرتے ہیں (روی ہشام عن أبی عبداللہ وأبی الحسن موسی علیھماالسلام ،وکان ثفۃ فی الروایات ،حسن التحقیق بھذا الأمر )کہ ہشام امام صادقؑ اور امام کاظمؑ سے روایات نقل کرتے ہیں اور یہ روایات نقل کرنے میں ثقۃ ہیں ۔(حوالہ :رجال نجاشی ،ص ۴۳۳ ،رقم :۱۱۶۴)

۲:شیخ طوسی نے انکی توثیق خاص بیان نہیں کی ۔ شیخ طوسی بیان کرتے ہیں ہشام بن الحکم ہمارے مولا اور سردار امام موسی بن جعفرعلیھماالسلام کے خاص اصحاب میں سے تھا اور اسکے علاوہ انکی مخالفین کے ساتھ اصول اور دوسرے موضوعات میں بہت زیادہ مباحث ہیں ۔(وکان لہ اصل ،ولہ من المنصفات کتب کثیرۃ ) امام صادق ؑ اور امام کاظم ؑ نے ہشام کے بارے میں یہت سی روایات ذکر کی ہیں  اور انھوں نے ہشام کی مدح اور جلالت کے بارے میں بھی بیان کی ہے ۔ (حوالہ :فہرست شیخ طوسی ،ص ۲۵۸ ،رقم :۷۸۳)  

۳:کشی نے ہشام کی توثیق خاص بیان نہیں کی ۔

انھوں نے ہشام کی مدح اور ذم دونوں میں متعدد روایات بیان کی ہیں ۔آ یت اللہ خوئی بیان کرتے ہیں کہ کشی نے ہشام کی مدح میں جتنی روایات  بیان کی ہیں ان میں اکثر ضعیف السند ہیں مگر ان سے ہشام کے بارے میں استفاضہ و شہرت  اور عظمت وقدد کا پتا چلتا ہے اور یہ چیز ہمیں اس سے بے نیاز کر دیتی ہے کہ ہم اس سندوں کی طرف دیکھیں  جبکہ ان میں سے بعض روایات صحیح السند ہیں ۔لیکن جو روایات ہشام کی مذمت میں بیان ہوئی ہیں ان میں ایک روایت کے علاوہ باقی سب ضعیف السند ہیں  ۔

ہم معجم رجال سے ان روایات کو اور ان کے ضعیف ہونے کی وجہ کو بھی بیان کریں گے :

۱:(جعفر بن معروف ،قال :حدّثنی الحسن بن (علی بن )النعمان ،عن أبی یحیی۔  وھو إسماعیل بن زیاد الواسطی ۔،عن عبدالرحمن بن الحجّاج ،قال :سمعتہ یؤدّی إلی ھشام بن الحکم رسالۃ أبی الحسن علیہ السلام ،قال :لا تتکلّم فإنہ قد أمرنی أن آمرک بأن لا  تتکلّم ،قال :فما بال ٖھشام یتکلّم وأنا لا أتکلّم ،قال :أمرنی أن آمرک أن لا تتکلّم  وأنا رسولہ إلیک ۔ قال أبو یحیی :أمسک ھشام ابن الحکم عن الکلام  شھراً   لم یتکلّم ،ثمّ تکلّم فأتاہ عبدالرحمن بن الحجّاج ، فقال لہ :سبحان اللہ ،یا أبا محمد تکلّمت وقد نہیت عن الکلام ،قال :مثلی لا ینھی عن الکلام ،قال أبو یحیی  :فلمّا کان من قابل أتاہ عبدالرحمن بن الحجّاج ،فقال لہ :یا ھشام قال لک أیسرّک أن تشرک فی دم امریء مسلم ؟ قال :لا ،قال :کیف تشرک فی دمی ،فإن سکتّ وإ لّا فھو الذبح ، فما سکت حتی کا ن من أمرہ ما کان  صلّی اللہ علیہ وآلہ)۔

آیت اللہ خوئی بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ جعفر بن معروف موثق نہیں ہیں اور إسماعیل بن زیاد الواسطی ،مجھول ہیں ۔

۲:(علی بن محمد ، قال :حدّثنی محمد بن أحمد ،عن العبّاس بن معروف ، عن أبی محمد الحجّال ،عن بعض أصحابنا ،عن الرضا علیہ السلام ،قال :ذکر الرضا علیہ السلام  العبّاس ،فقال :ھو من غلمان أبی الحارث ۔ یعنی یونس بن عبدالر حمن ۔، وأبو الحارث من  غلمان ٖھشام ،وھشام ،من غلمان أبی شاکر ،وأبو شاکر زندیق )۔

آیت اللہ خوئی کے مطابق یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ حد اقل اس میں ارسال پایا جاتا ہے ۔

۳:(علی بن محمد ،قال : حدّثنی محمد بن أحمد ،عن یعقوب بن یزید ،عن ابن أبی عمیر ،عن عبدالرحمن بن الحجاج ،قال :قال أبو الحسن علیہ السلام : أئت ھشام بن الحکم فقل لہ :یقول لک أبو الحسن :أیسرک أن تشرک فی دم امریء مسلم ؟ فإذا قال لا ،فقل لہ ما بالک شرکت فی دمی)۔

آیت اللہ خوئی کہتے ہیں کہ یہ روایت بھٖی ضعیف ہے کیونکہ علی بن محمد موثق  نہیں ہیں ۔

۴:(علی بن محمد ،عن أحمد بن محمد ،عن أبی علی ین راشد ، عن أبی جعفر  الثانی علیہ السلام ، قال :قلت :جعلت فداک ،قد اختلف أصحابنا فأصلّی  خلف أصحاب ھشام بن الحکم ؟قال :علیک بعلی بن حدید ۔قلت :فآخذ بقولہ ؟ قال :نعم ،فلقیت  علی بن حدید فقلت : نصلّی خلف أصحاب ھشام بن الحکم ؟ قال :لا)۔

آیت اللہ خوئی بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے  اس میں بھی علی بن محمد موثق نہیں ہیں ۔

۵:(علی بن محمد ،قال :حدّثنی محمد بن موسی الھمدانی ، عن الحسن بن موسی الخشّاب ،عن غیرہ عن جعفر بن حکیم الخثمی ، قال :إ جتمع ھشام بن سالم ،وھشام بن الحکم ،و جمیل بن درّاج ، وعبد الرحمن بن الحجّاج ، و محمد بن حمران ،وسعید بن غزوان ،ونحو من خمسۃ عشر رجلاً  من أصحابنا ،فسألوا ھشام بن الحکم أن یناظر ھشام بن سالم  فیما اختلفوا فیہ  من التوحید وصفۃ  اللہ عزّوجلّ وعن غیر ذلک لینظروا أیّھم  أقوی حجّۃ  ،فرضی ھشام بن سالم أن یتکلّم عند محمد بن أبی عمیر ،ورضی ھشام بن الحکم أن یتکلّم عند محمد بن ھشام فتکا   لما وساق ما جری بینھما ،وقال :قال عبدالرحمن بن الحجّاج لھشام بن الحکم : کفرت واللہ  وباللہ العظیم والحدت فیہ ،ویحک ما قد رت أن تشبہ  بکلام ربّک إلّا العود  یضرب بہ ، قال جعفر بن محمد بن حکیم :فکتب  إلی أبی الحسن موسی علیہ السلام یحکی لہ مخاطبتھم  وکلامھم ویسألہ أن یعلمہ  ما القول الذی  ینبغی  أن یدین اللہ بہ من صفۃ الجبّار ،فأجابہ فی عرض کتابہ :فھت رحمک اللہ ،واعلم رحمک اللہ أنّ اللہ أجلّ وأعلی وأعظم من أن یبلغ  کنہ صفتہ ،فصفوہ بما وصف بہ نفسہ ،وکفّوا عما سوی ذلک )۔

آیت اللہ خوئی کے مطابق یہ روایت بھی اوپر والی روایت کی طرح ضعیف ہے  کیونکہ علی بن محمد موثق نہیں ہیں اور محمد بن موسی الھمدانی بھی ضعیف ہیں اور یہ روایت مرسلۃ  بھی ہے ۔

لیکن یہاں پے ایک روایت صحیح السند ہے جو ھشام بن الحکم کی مذمت پے دلالت کرتی ہے  اور وہ یہ ہے :

رواہ محمد بن نصیر ،قال :حدّثنی   أحمد بن محمد بن عیسی ،عن الحسین بن سعید،عن أحمد بن محمد ،عن أبی الحسن الرضا علیہ السلام ،قال :أما کان لکم فی أبی الحسن علیہ السلام عظۃ ،ما تری حال ھشام بن الحکم فھو الذی صنع بأبی الحسن علیہ السلام ما صنع ،وقال لھم :وأخبر ھم أتری اللہ أن یغفر لہ ما رکب منا ۔

لیکن کہتے ہیں کہ اس روایت    کو ہم اس کے اھل کی طرف پلٹا  ئیں گے جو اس کا علم رکھتے ہیں  ،   وہ  روایات کثیرۃ جن میں بعض پہلےگزر چکی ہیں اور بعض  آئیں گیں ان میں جوصحیح ہیں انکی جگہ نہیں لے سکتی   ،وہ روایات جو ہشام بن الحکم کی جلالت اور عظمت پر دلالت کرتی ہیں   ،بذات خود اس روایت کا مضمون باطل ہے بے شک اس کا علم ہمیں خارج سے ہو جاتا ہےکہ موسی بن جعفر  علیہ السلام  کےقتل کا سبب ہشام کے مناظرات نہیں  ہیں بلکہ اس کے مناظرات اس کی اپنی ذات کے لیے ضرر کا باعث  بنتے  بلکہ جب امام ؑ نے ہشام کو مناظرات سے منع فرما یا تو پھر اس نے مناظرات نہیں کیے    ،اور اس میں کوئی شک نہیں  کہ معاشرے میں شیعوں کے امام ہونے اور مختلف  علاقوں سے اموال کا    ان تک آنا  یہ ان کے قتل کا سبب بنا اور یہ بات  علی بن اسماعیل  کے حالات زندگی  میں گزر چکی ہے  کہ انھوں نے امام ؑ کے قتل کی       کوشش کی ۔

کیسےیہ روایت تصدیق کے قابل نہیں ہو سکتی پس ضر وری ہے کہ اس روایت کے علم کو اس کے اہل کی طرف پلٹایا جائے ۔

اس کے علاوہ  دوسری روایات بھی ہیں جو ہشام کی جلالت اور عظمت پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض کاکشی نے ہشام بن سالم  کے حالات زندگی میں ذکر کیا ہے ۔

لِمَ لَا يَسْقُطُ السَّمَاءُ عَلَى الْأَرْضِ لِمَ لَا تَنْحَدِرُ الْأَرْضُ فَوْقَ طِبَاقِهَا وَ لَا يَتَمَاسَكَانِ وَ لَا يَتَمَاسَكُ مَنْ عَلَيْهَا قَالَ الزِّنْدِيقُ أَمْسَكَهُمَا اللَّهُ رَبُّهُمَا وَ سَيِّدُهُمَا قَالَ فَآمَنَ الزِّنْدِيقُ عَلَى يَدَيْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ لَهُ حُمْرَانُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنْ آمَنَتِ الزَّنَادِقَةُ عَلَى يَدِكَ فَقَدْ آمَنَ الْكُفَّارُ عَلَى يَدَيْ أَبِيكَ فَقَالَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي آمَنَ عَلَى يَدَيْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع اجْعَلْنِي مِنْ تَلَامِذَتِكَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ يَا هِشَامَ بْنَ الْحَكَمِ خُذْهُ إِلَيْكَ وَ عَلِّمْهُ فَعَلَّمَهُ هِشَامٌ فَكَانَ مُعَلِّمَ أَهْلِ الشَّامِ وَ أَهْلِ مِصْرَ الْإِيمَانَ وَ حَسُنَتْ طَهَارَتُهُ حَتَّى رَضِيَ بِهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ.

امام صادق ؑکے ہاتھ پر بعض زندیق ایمان لائے تو  انھو ں نے  امام سے انھی اپنے شاکردوں میں شامل کرنے کو کہا تو امامؑ نے ہشام  کو انھیں تعلیم دینے کو کہا ہشا م اہل شام اور اہل مصر کےمعلم تھےاور  وہ بہت پاکیزہ انسان تھے حتی کہ امام ؑ بھی ان سے راضی تھے  ۔[1] حوالہ :الکافی :الجزء ۱  ،کتاب التوحید ،باب حدوث العالم  ۱ ،الحدیث ۱ ۔

اسی سند سے ایک اورحدیث میں ہشام نے امام صادقؑ سے اللہ کےاسماء اور انکے اشتقاق کے بارے میں سوال کیاتو امامؑ نے جواب دینے کے بعد فرمایا : اے ہشام تم اسے اچھی طرح سمجھ گئے ہو اسےہمارے دشمنوں کےسامنے بحث ومباحثےمیں نقل کر و جو خدا کے علاوہ اس کے غیر سے لیتے ہیں؟تو ہشام نے کہا سمجھ گیا ہوں تو امامؑ نے فرمایا اللہ تمہیں اسکا نفع دے اوراس پر ثابت قدم رکھے ۔[2] الکافی :الجزء  ۱،باب المعبود ۵،الحدیث ۲،وباب معانی الاسماء واشتقاقھا من ھذاالجزء ۱۶،الحدیث ۱ ۔

اسی سند سے ایک اور حدیث ہے (عن یونس بن یعقوب ،قال : کان عندأبی عبداللہ علیہ السلام ،جماعۃ من أصحابہ ،منھم حمران بن أعین ،ومحمد بن النعمان ،وھشام بن سالم ،والطیّار،وجماعۃ فیھم ھشام بن الحکم ، (ہشام ان میں سب سے جوان تھے )  پھر امام صادقؑ نے فرمایا اے ہشام مجھے بتاؤ کہ تم نے کس طرح سے عمر بن عبید سے کے ساتھ معاملہ کیااور کس طرح اس سے سوال کیا؟ توہشسام نے کہا اے رسولﷺ کےفرزند مجھے آپؑ کے سامنے حیاء آتی ہے اورمیری زبان آپ کے سامنےکچھ نہیں بول سکتی  تو امام صادقؑ نے فرمایا تمہیں جیسا کرنے کا امر کیا جائے ویسا کرو یہاں تک کہ امامؑ  مسکرائے اور فرمایا :اےہشام کس نے تمہیں اسکا علم دیا ہے ؟  توہشام بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا جو کچھ آپ سے حاصل کیا اسے میں نے لکھ لیا ،تو امام ؑنےفرمایا اللہ کی قسم یہ ابراہیمؑ اور موسی ؑ   کے صحف میں لکھا ہوا ہے ۔[3] حوالہ :الکافی :ھذاالجزء ، باب الاضطرار الی الحجۃ ۱، الحدیث۴ ۔

اسی طرح ہشام بن الحکم کی طرف قول تجسیم کی طرف نسبت دی ہے انھی میں سے  چند روایات  بیان کریں گے : محمد بن یعقوب اسی سند سے بیان کرتے ہیں ،عن علی ابن أبی حمزۃ، وہ بیان کرتےہیں کہ میں نے أبی عنداللہ ؑ سے کہا میں نے ہشام بن الحکم سے سنا ہے وہ آپؑ سے بیان کرتاہے کہ اللہ جسم صمدی  نوری  ہے۔۔۔۔۔تو امامؑ نے فرمایا منزہ ہے وہ ذات جس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کیسا ہے سوائے اسکی اپنی ذات کے ،کوئی بھی شی  اسکی مثل نہیں ہے ۔۔۔۔۔اور نہ ہی حواس اسکو درک کرسکتے ہیں اور نہ اشیاء اسکا احاطہ کرسکتی ہیں، اس کا نہ جسم ہےاور نہ ہی صورت ہے ۔ [4] حوالہ :الکافی :الجزء۱ ،کتاب التوحید ۳،باب النھی عن الجسم والصورۃ ۱۱ ،الحدیث ۱ ۔

وروی عن محمد بن أبی عبداللہ ،عمّن ذکرہ ،عن علی بن العباس ،عن أحمد بن محمد بن أبی نصر ،عن محمد بن الحکیم ،قال : میں نے أبی ابراھیم ؑ سے ہشام بن سالم الجوالیقی کا قول بیان کیا اور ہشام بن الحکم سے حکایت کی کہ اللہ جسم ہے ،تو امام ؑ نے بیان فرمایا :بے شک  کوئی بھی شی اللہ کے شبیہ نہیں ہے                                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [5] حوالہ :الکافی :الجزء ۱،ذاک الباب ،الحدیث ۴ ۔

وروی عن علی بن محمد ،رفعہ عن محمد بن الفرج الرخجی ،قال :کتبت ألی أبی الحسن علیہ السلام   ان سے سوال کیا کہ ہشام بن الحکم کہتا ہے کہ اللہ جسم ہے اورہشام بن سالم کہتا ہے کہ وہ صورت ہے تو امامؑ نے لکھا :اپنی حیرت کو حیرانگی سے باہر نکالو اور اللہ کی پنا مانگو  ایسی کوئی بات اللہ کے بارے میں نہیں جوان دونوں ہشاموں نے کہا ہے ۔[6] حوالہ :الکافی :الجزء ۱،ذاک الباب ،الحدیث ۵ ۔

وروی عن محمد بن أبی عبداللہ ،عن محمدبن اسماعیل ،عن الحسین بن الحسن ،عن بکر بن صالح ،عن الحسن بن سعید ،عن عبداللہ بن المغیرۃ ،عن محمد بن زیاد ،قال:بیان کرتا ہےکہ میں نے  یونس بن ظبیان سے سنا ہے وہ کہ رہا تھا کہ میں علی أبی عبداللہ علیہ السلام کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ہشام بن الحکم بہت بڑی بات کہہ رہا تھا میں آپکو مختصر بیان کرتا ہوں  وہ گمان کرتا ہے کہ اللہ جسم رکھتا ہے ۔۔۔۔ پھر أبو عبداللہ ؑ نے فرمایا ویح ہو اس پر اسے پتا نہیں کہ جسم محدود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[7] حوالہ:الکافی ،الجزء ۱،ذاک الباب ،الحدیث ۶ ۔

وروی عن محمد بن أبی عبداللہ ،عن محمد بن اسماعیل ، عن علی بن العباس ،عن الحسن بن عبدالرحمان الحمانی ،قال :میں أبی الحسن موسی بن جعفر ؑ سے کہا ہشام بن الحکم گمان کرتا ہے کہ بے شک اللہ کا جسم ہےاور اس کی طرح کوئی شیء نہیں یہاں تک کہ امام ؑ نے فرمایا اللہ اسکو قتل کرے کیا اس کو پتا نہیں کہ جسم محدود ہے ۔[8] حوالہ :الکافی :الجزء  ۱،ذاک الباب ،الحدیث  ۷ ۔

وروی عن علی بن ابراھیم ،عن محمد بن عیسی ،عن یونس ،عن محمد ابن حکیم ،قال :میں نے أبی الحسن ؑ  سے ہشام الجوالیقی کا قول بیان کیا اور میں نے  ہشام بن الحکم کا قول بھی بیا ن کیا تو امام ؑ نے فرمایا  :بے شک اللہ کی کوئی بھی شیء شبیہ نہیں ہے ۔[9] الکافی :ذاک الباب ،الحدیث ۸ ۔

ورواھا الصدوق ۔قدّس اللہ نفسہ ۔فی باب أنّ اللہ عزّوجلّ لیس بجسم ولا صورۃ فی کتاب التوحید :الحدیث ۶۔

آیت اللہ خوئی بیان کرتے ہیں کہ بے شک یہ تمام روایات ضعیف ہیں اور ان کے اوپر اعتماد کرنا ممکن نہیں اوران کے ضعف کی وجہ ان کے علاوہ ان سے پہلے ذکر کی گئی روایات سے ظاہر ہوتا ہے  اگرچہ پہلے والی روایات بھی ضعیف ہیں۔

فقد روی محمد بن یعقوب ،عن علی بن ابراھیم ،عن أبیہ ،عن العبّاس ابن عمرو الفقیمی ،عن ھشام بن الحکم ،عن أبی عبداللہ علیہ السلام ،انھوں نے زندیق سےکہاجب اس نے سوال کیا اور کہا آپ کہتے ہیں کہ وہ سمیع اور بصیر ہے ،امامؑ نے فرمایا وہ سمیع اور بصیرہے ،وہ سمیع ہے بغیر اعضاء کے اور بصیر ہے بغیر آلۃ کے بلکہ وہ بذات خود سمیع ہے اور بذات خود بصیر ہے ۔(الخبر )۔الکافی :الجزء ۱،باب اطلاق القول بأنہ شیء ۲،الحدیث ۶،وباب آخر بعد باب صفات الذات ۱۳،الحدیث ۲۔ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ بے شک ہشام نے اللہ کی طرف لفظ جسم کو اللہ پراطلاق کیا ہے وہ اطلاق میں خطاپر تھے اورلفظ معنی کے خلاف استعمال کیا ہے یہ انکےاعتقادمیں خطا ہے ۔

أبوالحسن الأشعري بيان كرتےہیں کہا گیا ہے کہ ہشام اللہ کےجسم ہونے کے قاٸل تھے،جس میں ہشام کہتے ہیں کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کا جس ہے بے شک وہ موجود ہے اور وہ بذات خود قاٸم ہے۔(مقالات الاسلامیین:المجلدالثانی،ص٦)۔

آیت اللہ خوٸی بیان کرتے ہیں ہیں میرےخیال میں جو روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ہشام یہ کہ کہتا کہ اللہ کا جسم ہے یہ سب گڑی گٸی ہیں اور یہ نسبت اس سے حسد کی وجہ سے ہیں جیساکہ کشی کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے۔اسی سند سے سلیمان بن جعفرالجعفری بیان کرتے ہیں کہ میں نے اباالحسن الرضاعلیہ السلام سے سوال کیا ہشام کے بارے میں تو امام علیہ السلام نے بیان فرمایااللہ اس پر رحم کرے وہ عبد ناصح تھا ان سے پہلے والے اصحاب نے انھیں اذیت کی اور وہ ان سے حسد کرتے تھے۔

اسی طرح نجاشی ذکر کرتے ہیں کہ ہشام 199ہجری میں بغداد کی طرف منتقل ہو گۓ اور وہ اسی سال وفات پاگۓ ۔یہ بات کشی کی بات کے منافی ہے جیسا کہ انھوں نے پہلے بیان کیا ہےالفضل بن شاذان سے کہ ہشام 179میں رشید کے زمانے میں کوفہ میں وفات پا گۓ تھے۔جیسا شیخ نے پہلے اپنی رجال میں بیان کیا کشی کی بات سےٹکراتی ہےکہ ہشام أبی الحسن علیہ السلام کے بعد بھی تھا اور اباالحسن علیہ السلام 183ہجری یا اسکے بعد وفات پاۓ تھے۔

پہلے گزر چکا ہے کشی کی روایت میں جو انھوں نے یونس سے بیان کی ہے وہ بیان کرتے ہیں میں عشإ کے وقت ہشام کے ساتھ انکی مسجد میں تھا اتنے میں ان کے پاس مسلم صاحب الحکمة آۓ وہ ان سے کہتا ہےبے شک یحیي بن خالد کہتا ہےرافضیوں کا دین فاسد ہےرافض کی وجہ سے اتنے میں یحیي بن ھارون آۓ میں نے انھیں خبر دی اگلے دن اس نےاسکی تلاش میں بھیجا انھوں نے اسے اسکے گھر میں تلاش کیا لیکن اسے نہیں پایااور ان تک خبر پہنچی کہ اس نےدو مہینوں سے زیادہ زندگی گزاری اور وہ محمدوالحسین الحنّاطین کےگھر میں مر گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ھارون نے193ہجری میں وفات پاٸی، اس روایت سے ہمیں یہ مطلب حاصل ہوتا ہے کہ ہشام اس سے پہلے وفات پا گیا تھا واللہ العالم بحقیقةالحال۔

جیسابھی ہوشیخ صدوق کا طریق ہشام تک پہنچتا ہے :أبوہ ومحمدبن الحسن رضی اللّہ عنھما، عن سعدبن عبداللّہ،والحمیری، جمیعا ،عن أحمدبن محمدبن عیسی،عن علی بن الحکم،ومحمدبن أبي عمیر،جمیعاعن ھشام بن الحکم۔ 

شیخ صدوق انکےبارے میں بیان کرتے ہیں کہ انکی کنیت أبو محمد مولی بني شیبان بیّاع الکوابیس،جو بغداد سے کوفہ کی طرف منتقل ہوۓاور وہاں پر ہی وفات پاٸی ۔یہ طریق بھی شیخ کے طریق کی طرح ان تک صحیح ہے۔

ہشام بن الحکم کا تذکرہ بہت ساری اسناد اور روایات میں آیا ہے وہ روایات جو ہشام سےآٸی ہیں انکی تعداد تقریبا 167تک پہنچتی ہے۔

منابع:

منابع:
1 حوالہ :الکافی :الجزء ۱  ،کتاب التوحید ،باب حدوث العالم  ۱ ،الحدیث ۱
2 الکافی :الجزء  ۱،باب المعبود ۵،الحدیث ۲،وباب معانی الاسماء واشتقاقھا من ھذاالجزء ۱۶،الحدیث ۱
3 حوالہ :الکافی :ھذاالجزء ، باب الاضطرار الی الحجۃ ۱، الحدیث۴
4 حوالہ :الکافی :الجزء۱ ،کتاب التوحید ۳،باب النھی عن الجسم والصورۃ ۱۱ ،الحدیث ۱
5 حوالہ :الکافی :الجزء ۱،ذاک الباب ،الحدیث ۴
6 حوالہ :الکافی :الجزء ۱،ذاک الباب ،الحدیث ۵
7 حوالہ:الکافی ،الجزء ۱،ذاک الباب ،الحدیث ۶
8 حوالہ :الکافی :الجزء  ۱،ذاک الباب ،الحدیث  ۷
9 الکافی :ذاک الباب ،الحدیث ۸
Views: 1

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: فلسفہ کا تمام علوم سے عمومی تر ہونا
اگلا مقالہ: الحاد ایک باطل نظریہ