loading

{ مباحث فلسفی   }

فلسفہ کا تمام علوم سے عمومی تر ہونا

تحریر: سید محمد حسن رضوی

فلسفہ کا موضوع ’’موجود مطلق‘‘ ہے جوکہ تمام علوم کے موضوع سے اعم تر ہے کیونکہ تمام علوم کے موضوع خاص قید کے ساتھ مقید ہیں، مثلاً فزکس، کیمسٹری ، جیالوجی و بیالوجی وغیرہ جسمانی موجود سے بحث کرتے ہیں جوکہ موجودِ مقید ہے ۔ اسی طرح علم ریاضی کا موضوع کمیت ہے ، علم اخلاق کا موضوع نفس انسانی ہے ، منطق کا موضوع مقولاتِ ثانیہ منطقیہ  ہے ۔ غرض تمام علوم کا موضوع موجودِ مقید ہے جس کے مقابل موجودِ مطلق آتا ہے جوکہ فلسفہ کا موضوع ہے۔ اس بناء پر فلسفہ کا موضوع تمام علوم سے عام تر ہے اور دیگر علوم کے موضوعات یعنی موجوداتِ مقید کو شامل ہے۔ موجودِ مقید ’’وجودِ مطلق‘‘ کے تحت مندرج ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام علوم اپنے موضوع کے ثابت ہونے میں فلسفہ کے محتاج ہیں کیونکہ وجودِ مطلق تمام واقعیات کو شامل ہے۔ بالفاظِ دیگر موجود سے دو طرح سے بحث ہو سکتی ہے:
۱۔  موجود کو کسی خاص قید سے مقید کرتے ہوئے بحث کی جاتی ہے ، جیسے کہا جاتا ہے کہ یہ موجود جسم ہے ، یہ موجود کیف ہے ، یہ موجود کم ہے وغیرہ ۔
۲۔موجود سے مطلق طور پر بغیر کسی قید کو مدنظر رکھے بحث کی جائے، اس صورت میں موجودِ مطلق کو موردِ بحث قرار دیا جاتا ہے جوکہ فلسفہ کا موضوع ہے۔ اس کو علمی دنیا میں الہٰیات بمعنی اعم یا مباحثِ وجود کی کلیات یا وجودِ اعلیٰ کہا جاتا ہے۔ ملاصدراؒ بیان کرتے ہیں کہ علمِ الہٰی کا موضوع موجودِ مطلق ہے۔ موجودِ مطلق کے مسائل اور قضایا میں یا تو ہر موجودِ معلول کے اسباب سے بحث کی جاتی ہے ، مثلاً سببِ اوّل وہ ذاتِ فیّاض ہے جو ہر وجودِ معلول کو افاضہ کر رہا ہے ، یا موجودِ مطلق کے مسائل میں موجودِ مطلق کے عوارض سے بحث کی جاتی ہے یا تمام علومِ جزئی کے موضوعات سے بحث کی جاتی ہے ۔ چنانچہ باقی تمام علم کے موضوعات اس علمِ فلسفہ کے موضوع کے اعراضِ ذاتیہ قرار پاتے ہیں۔

۔

Views: 5

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ نکث کی صرفی تحلیل
اگلا مقالہ: ہشام بن الحکم