loading
{شرح أصول الکافي}
زمانہِ غیبت اور افضل ترین لوگ 
درس: شرح اصول الکافي
(باب نادر في حال الغيبة)
استاد: آيت الله رضا عابدينی
تحریر: سید محمد حسن رضوی
’’باب نادر في حال الغيبة‘‘ کی دوسری حدیث عمار ساباطی سے منقول ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں: 
حديث:2

الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ × أَيُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِي السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْكُمُ الْمُسْتَتِرِ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَوِ الْعِبَادَةُ فِي ظُهُورِ الْحَقِّ وَدَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْكُمُ الظَّاهِرِ، فَقَالَ: يَا عَمَّارُ الصَّدَقَةُ فِي السِّرِّ وَاللَّهِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ فِي الْعَلَانِيَةِ، وَكَذَلِكَ وَاللَّهِ عِبَادَتُكُمْ فِي السِّرِّ مَعَ إِمَامِكُم الْمُسْتَتِرِ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَتَخَوُّفُكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَحَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَلُ مِمَّنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ذِكْرُهُ فِي ظُهُورِ الْحَقِّ مَعَ إِمَامِ الْحَقِّ الظَّاهِرِ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ، وَلَيْسَتِ الْعِبَادَةُ مَعَ الْخَوْفِ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ مِثْلَ الْعِبَادَةِ وَالْأَمْنِ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ، وَاعْلَمُوا أَنَّ مَنْ صَلَّى مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَلَاةً فَرِيضَةً فِي جَمَاعَةٍ مُسْتَتِرٍ بِهَا مِنْ عَدُوِّهِ فِي وَقْتِهَا فَأَتَمَّهَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ خَمْسِينَ صَلَاةً فَرِيضَةً فِي جَمَاعَةٍ، وَمَنْ صَلَّى مِنْكُمْ صَلَاةً فَرِيضَةً وَحْدَهُ مُسْتَتِراً بِهَا مِنْ عَدُوِّهِ فِي وَقْتِهَا فَأَتَمَّهَا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا لَهُ خَمْساً وَعِشْرِينَ صَلَاةً فَرِيضَةً وَحْدَانِيَّةً، وَمَنْ صَلَّى مِنْكُمْ صَلَاةً نَافِلَةً لِوَقْتِهَا فَأَتَمَّهَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا عَشْرَ صَلَوَاتٍ نَوَافِلَ، وَمَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ حَسَنَةً كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا عِشْرِينَ حَسَنَةً وَيُضَاعِفُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَسَنَاتِ الْمُؤْمِنِ مِنْكُمْ إِذَا أَحْسَنَ أَعْمَالَهُ وَدَانَ بِالتَّقِيَّةِ عَلَى دِينِهِ وَإِمَامِهِ وَنَفْسِهِ وَأَمْسَكَ مِنْ لِسَانِهِ أَضْعَافاً مُضَاعَفَةً ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَرِيمٌ، قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ قَدْ وَاللَّهِ رَغَّبْتَنِي فِي الْعَمَلِ وَحَثَثْتَنِي عَلَيْهِ وَلَكِنْ أُحِبُّ أَنْ أَعْلَمَ كَيْفَ صِرْنَا نَحْنُ الْيَوْمَ أَفْضَلَ أَعْمَالًا مِنْ أَصْحَابِ الْإِمَامِ الظَّاهِرِ مِنْكُمْ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ وَنَحْنُ عَلَى دِينٍ وَاحِدٍ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَى الدُّخُولِ فِي دِينِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَإِلَى الصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ وَإِلَى كُلِّ خَيْرٍ وَفِقْهٍ وَإِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ عَزَّ ذِكْرُهُ سِرّاً مِنْ عَدُوِّكُمْ مَعَ إِمَامِكُمُ الْمُسْتَتِرِ مُطِيعِينَ لَهُ صَابِرِينَ مَعَهُ مُنْتَظِرِينَ لِدَوْلَةِ الْحَقِّ خَائِفِينَ عَلَى إِمَامِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ مِنَ الْمُلُوكِ الظَّلَمَةِ تَنْتَظِرُونَ إِلَى حَقِّ إِمَامِكُمْ وَ حُقُوقِكُمْ فِي أَيْدِي الظَّلَمَةِ، قَدْ مَنَعُوكُمْ ذَلِكَ وَاضْطَرُّوكُمْ إِلَى حَرْثِ الدُّنْيَا وَطَلَبِ الْمَعَاشِ مَعَ الصَّبْرِ عَلَى دِينِكُمْ وَعِبَادَتِكُمْ وَطَاعَةِ إِمَامِكُمْ وَالْخَوْفِ مَعَ عَدُوِّكُمْ، فَبِذَلِكَ ضَاعَفَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكُمُ الْأَعْمَالَ فَهَنِيئاً لَكُمْ، قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ فَمَا تَرَى إِذاً أَنْ نَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ وَيَظْهَرَ الْحَقُّ وَنَحْنُ الْيَوْمَ فِي إِمَامَتِكَ وَ طَاعَتِكَ أَفْضَلُ أَعْمَالًا مِنْ أَصْحَابِ دَوْلَةِ الْحَقِّ وَالْعَدْلِ ؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ أَ مَا تُحِبُّونَ أَنْ يُظْهِرَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْحَقَّ وَالْعَدْلَ فِي الْبِلَادِ وَيَجْمَعَ اللَّهُ الْكَلِمَةَ وَيُؤَلِّفَ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبٍ مُخْتَلِفَةٍ وَلَا يَعْصُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَرْضِهِ وَتُقَامَ حُدُودُهُ فِي خَلْقِهِ وَيَرُدَّ اللَّهُ الْحَقَّ إِلَى أَهْلِهِ فَيَظْهَرَ حَتَّى لَا يَسْتَخْفِيَ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْحَقِّ مَخَافَةَ أَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ أَمَا وَاللَّهِ يَا عَمَّارُ لَا يَمُوتُ مِنْكُمْ مَيِّتٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي أَنْتُمْ عَلَيْهَا إِلَّا كَانَ أَفْضَلَ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ كَثِيرٍ مِنْ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَأُحُدٍ فَأَبْشِرُوا‏. [1]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص۱۳۸۔

ترجمہ:عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے اما صادقؑ سے دریافت کیا : کونسی   عبادت افضل ہے ؟ آیا وہ عبادت جو آپؑ میں سے ایک امام کے ساتھ پوشیدگی میں کی انجام دی جائے وه زیادہ افضل ہے یا وہ عبادت جو حق ظاہر ہونے کی صورت میں آپ ؑ میں سے ایک امامؑ  کے ساتھ ان کی دولت و حکومت میں انجام دی جائے؟ امامؑ نے فرمایا: اے عمار! قسم بخدا  پوشیدگی میں دیا گیا صدقہ علانیہ صدقہ دینے سے افضل ہے۔ اسی طرح باطل حکومت میں اور تمہارے اپنے دشمنوں سےخوفزدہ ہوتے ہوئے اور صلح کی حالت میں تم لوگوں کی اپنے امامِ غائب کے ساتھ مخفی عبادت  اس شخص کی عبادت سے زیادہ افضل ہے جو حق کے غلبہ کے ساتھ امامِ حقؑ کے ظاہر ہونے  کی صورت میں انجام دیتا ہے۔باطل حکومت میں خوف کے عالم میں انجام دی گئی عبادت کی مانند وہ عبادت نہیں ہے جو حق کی حکومت میں امن و امان کے ساتھ انجام دی جائے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آج تم میں سے جس نے ایسی جماعت کے ساتھ واجب نماز ادا کی ہے جو اپنے دشمن سے پوشیدہ تھی اور اپنی نماز کو اس نے تمام کیا اللہ اس کے لیے اس جماعت میں اس شخص کے لیے پچاس نمازیں لکھ دے گا ۔ 

شرح حدیث:

امامؑ کی غیبت تشکیکی ہے یعنی بعض اوقات غیبت شدید تر ہے اور بعض اوقات غیبت میں شدت نہیں بلکہ کم ہے، مثلاً امامؑ ظاہر ہیں لیکن ان کے لیے اتنی مشکلات کھڑی کی گئی ہیں کہ ان سے ارتباط ممکن نہیں ہے، یہ بھی ایک نوعِ غیبت ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ غیبت شدید تر ہے کہ اصلاً امامؑ کسی کے لیے ظاہر نہیں ہیں۔ اس روایت میں امامؑ غیبت کے زمانے میں انجام پانے والی عبادات اور بعد از غیبت یعنی ظہور کے زمانے میں برپا ہونے والی عبادات میں مقایسہ کرتے ہوئے زمانہِ غیبت کی عبادات کو افضل قرار دیتے ہیں ، جیسے سرّی صدقہ اعلانیہ صدقہ سے افضل ہے۔بالکل اسی طرح جیسے حضرت موسیؑ کا فرعون کے دربار میں جادوگروں کے ساتھ ٹکراؤ ہوا تو جادوگروں نے سختی میں ایمان قبول کیا اور بے دردی سے مارا جانا قبول کر لیا لیکن فرعون کی اتباع کرنا قبول نہیں کیا۔ ایسی سختیوں میں ایمان کی بلندیاں جادوگروں کو حاصل ہوئی۔ حضرت یوسفؑ کو کنویں میں فرشتہ سے رابطہ اور ملاقات عطا ہوئی۔ حضرت موسیؑ جب مدائن فرعون کے مظالم سے نجات پا کر نکلے اور دس سال جناب شعیبؑ کی خدمت کی تو وہاں سے واپسی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت عنایت کی۔ پس مشکلات کی صورت میں اعمال کی پہنچ بلند ترین مراتب تک ہوتی ہے۔ 
اسلام چاہتا ہے کہ ہر وجود کو فعلیت تک پہنچائے۔ ہمارا دین انبیاءؑ کے بعثت کے فلسفے کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انسان کو فقط بشر ہونے کے اعتبار سے نہ دیکھیں کیونکہ انسان کے ساتھ مختصات ایک قانون نہیں رکھتا لیکن اگر انسان ایک حقیقت کے پہلو سے دیکھیں تو یہاں ایک قانون کلی کے تحت انسان کو مندرج کر سکتے ہیں۔ بدنِ انسان زمان و مکان کے ساتھ خاص ہے لیکن اس کی روح ان چیزوں کی محتاج ہے۔ نظامِ بدن مقام کثرت ہے جبکہ روح نظامِ وحدت ہے۔ بدنِ انسانی نظام کے وسط میں ہے جس کے ذریعے سے نظامِ روح کو ارتقاء دیا جاتا ہے۔ نظامِ جسمی میں اختلاف عرض میں ہے جبکہ نظامِ روحی میں تفاوت و اختلاف طولی ہے۔ نظامِ روحی کا زمان و مکان سے تعلق ہے لیکن اس کے باوجود زمان مکان اس مقید و متعین نہیں کرتے۔ اگر بدن کی آنکھ مقید اور محدود ہے اور آنکھ سے امامؑ دکھائی نہیں دیتے تو روح کی نگاہ اور قلبی آنکھ سے مشاہدہ ممکنہ ہے۔ اگر ملاک بدن کو قرار دیں تو پھر حجاب حائل ہیں لیکن روح استعداد رکھتی ہے ۔   :{وَ لِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ يَمْحَقَ الْكافِرين‏؛  اور اللہ ایمان لانے والوں کو آزمانا چاہتا ہے اور کافروں کو جدا کر کے خسارے میں مبتلا کرنا چاہتا ہے}. [2]آل عمران:۱۴۱۔ 

وَمَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ حَسَنَةً 

غیبت امامؑ میں عبادت افضل ترین عبادت ہے ۔اگر غیبت میں ایک عمل صالح انجام دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جزاء بیس (۲۰) حسنات عنایت فرماتا ہے۔ اس دنیا میں انجام پانے والا عمل اسی وقت انسان کے لیے نتیجہ دینا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں بیس (۲۰) حسنات حد اقل جزاء ہے لیکن حد اکثر کتنا ہے؟ اس کا انسان کو علم نہیں ہے۔ پس ایک عملِ حسنہ آغاز میں بیس حسنہ اجر ہے اور جتنا یہ بہترین عمل ہو گا اس کی جزاء اسی عمل کے بہترین اور حُسن کے مطابق دو برابر ہوتی جائے گی۔ 
جبکہ غیبت میں انجام پانے والا گناہ کی وہ شدت نہیں جو امامؑ کے زمانہِ حضور میں گناہ انجام پاتا ہے۔ اگرچے گناہ کے اعتبار سے دونوں کی ہی قبیح ہیں لیکن حضورِ امامؑ میں گناہ کا برپا کرنا اور غیبت ِ امامؑ میں گناہ کا انجام پانا فرق کرتا ہے، مثلاً اگر ایک خاتون حضورِ امامؑ میں بے حجابی کرتی ہے اور ایک غیبتِ امامؑ میں بے حجابی کرتی ہے تو ظاہراًعمل ایک ہے لیکن شقاوت یکساں نہیں ہے۔ کیونکہ ایک مرتبہ معصیت کو انجام دینا انتہائی سخت ہے جیساکہ اہل ایمان کے معاشرے میں اعلانیہ گناہ کرنے کے لیے اس کو مضبوط ارادہ اور قوی قدم اٹھانا پڑتا ہے اور مقاومت کرناپڑتا ہے جبکہ ایسے ماحول میں ایمان اختیار کرنا راحت تر ہے۔ اس کے مقابلے میں کفار و فاسد معاشرے میں معصیت انجام دینا آسان ہے کیونکہ ہر طرف فساد پھیلا ہوا ہے۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے جائزہ لینا ہے۔

وَدَانَ بِالتَّقِيَّةِ عَلَى دِينِهِ وَإِمَامِهِ وَنَفْسِهِ

’’دان‘‘ کا مطلب قریب ہونا ہے کیونکہ یہ ’’دُنُو‘‘ سے مشتق ہے۔ تقیہ اصلِ دینداری ہے۔پس اس فقرے میں تین مراتب بیان کیے گئے ہیں: ۱۔تقیہ کے ذریعے دین کے قریب ہونا، کیونکہ اگر اعلانیہ عمل کاانجام دے یا اپنے دین کا اظہار کیا تو دین پر دشمن حملہ کرے گا، ۲۔ امامؑ کو خطرہ ہے اس لیے تقیہ کیا جائے، ۳۔ اپنی جان خطرے میں ہے اس لیے تقیہ ہے۔ شیخ مفید نے اپنی سند سے محمد بن مسلم کا واقعہ اس طرح نقل کیا ہے: 

 أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ هِلَالٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: شَهِدَ أَبُو كُدَيْنَةَ الْأَزْدِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الثَّقَفِيُّ عِنْدَ شَرِيكٍ بِشَهَادَةٍ وَهُوَ قَاضٍ وَنَظَرَ فِي وَجْهِهِمَا مَلِيّاً، ثُمَّ قَالَ: جَعْفَرِيِّينَ فَاطِمِيِّينَ، فَبَكَيَا، فَقَالَ لَهُمَا: مَا يُبْكِيكُمَا؟ فَقَالا: نَسَبْتَنَا إِلَى أَقْوَامٍ لَا يَرْضَوْنَ بِأَمْثَالِنَا أَنْ نَكُونَ مِنْ إِخْوَانِهِمْ لِمَا يَرَوْنَ مِنْ سُخْفِ وَرَعِنَا وَنَسَبْتَنَا إِلَى رَجُلٍ لَا يَرْضَى بِأَمْثَالِنَا أَنْ نَكُونَ مِنْ شِيعَتِهِ فَإِنْ تَفَضَّلَ وَقَبِلَنَا، فَلَهُ الْمَنُّ عَلَيْنَا وَالْفَضْلُ قَدِيماً فِينَا فَتَبَسَّمَ شَرِيكٌ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا كَانَتِ الرِّجَالُ فَلْتَكُنْ أَمْثَالَكُمْ ، يَا وَلِيدُ أَجِزْهُمَا هَذِهِ الْمَرَّةَ وَلَا يَعُودَا قَالَ فَحَجَجْنَا فَخَبَّرْنَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع بِالْقِصَّةِ فَقَالَ وَمَا لِشَرِيكٍ شَرَكَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشِرَاكَيْنِ مِنَ نَار. [3]علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۷، ص ۳۹۳۔

ترجمہ:زرارہ کہتے ہیں کہ ابو کدینہ ازدی اور محمد بن مسلم ثقفی گواہی دینے کےلیے شریک جوکہ قاضی تھا کے پاس حاضر ہوئے۔ شریک نے ان دونوں کے چہروں کی طرف نگاہیں گاڑ کر دیکھا اور کہا: دونوں جعفری و فاطمی ہو،یہ سنا تو ہر دو گریہ کرنے لگے، شریک نے ان سے کہا: تمہیں کس چیز نے رُلا دیا؟ انہوں نے کہا: تم نے ہمیں اس گروہ کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ ہم جیسوں کے بارے میں راضی نہیں ہیں کہ ہم ان کے بھائیوں میں سے شمار کیے جائیں کیونکہ انہوں نے ہمارے اندر پستی دیکھی ہے۔ تم نے ہماری نسبت ایک ایسے شخص کی طرف دی ہے جو ہم جیسوں کے بارے میں راضی نہیں ہے کہ ہم ان کے شیعوں میں سے قرار پائیں ، اگر وہ ہم پر فضل کریں اور ہمیں قبول کر لیں تو یہ ان کا ہم پر احسان ہے اور قدیم سے ہم پر فضل و عنایت ہے۔ شریک نے یہ سنا تو مسکرایا پھر کہا: اگر اشخاص ہوں تو انہیں تم جیسا ہونا چاہیے ، اے ولید ! ان دونوں کو اس مرتبہ اجازت دو، دوبارہ یہ پلٹ کر نہ آئیں۔ زرارۃ کہتے ہیں کہ ہم حج کے لیے مکہ تشریف لائے اور ہم نے امام جعفر صادقؑ کو اس پورے قصہ کی خبر دی، امامؑ نے فرمایا: شریک کے لیے کیا ہے؟! اللہ روزِ قیامت اس کوجہنمی دو شریک کا شریک قرار دے۔

اس روایت میں امامؑ فرماتے ہیں کہ دولتِ حق کے منتظرین جو امام مستترؑ کے مطیع ہیں اور اپنے دشمنوں سے بچ کر عبادات انجام دیتے ہیں انہوں نے اللہ عزوجل کے دین میں داخل ہونے میں ان سے سبقت اختیار کی جو حضورِ امامؑ کے دور میں آئیں گے۔ یہ دینِ الہٰی میں سبقت اختیار کرنے والے نماز، روزہ، حج ، ہر خیر اور اس کو سمجھنے میں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں آگے بڑھنے والے ہیں۔

منابع:

منابع:
1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص۱۳۸۔
2 آل عمران:۱۴۱۔
3 علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۷، ص ۳۹۳۔
Views: 40

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: زمانہ غیبت کا لطف اور سر الہی ہونا
اگلا مقالہ: امام علی کے ہاتھ پر بیعت