loading
{ دروس شرح أصول الکافي }
زمانہِ غیبت کا سببِ کمال، لطف اور سرِّ  الہٰی ہونا
درس: باب نادر في حال الغيبة
استاد: آيت الله رضا عابدينی
تحریر: سید محمد حسن رضوی

الکافی مکتبِ تشیع کا قدیم ترین حدیثی مأخذ ہے جوکہ زمانہِ امامت کے ساتھ متصل ہے۔ الکافی امام مہدیؑ کے چار نوابِ اربعہ کے دور میں لکھی گئی اور اسی وقت عالم تشیع میں نشر ہو گی۔ مہدویت کی احادیث کا قدیمی ترین مأخذ ہمارے پاس الکافی کی احادیث ہیں۔ شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے اصولِ کافی میں متعدد ابواب امام مہدیؑ کی امامت، غیبت، ظہور اور معرفت و انتظار سے متعلق معارف پر قائم کیے ہیں جن میں سے ایک باب ’’باب نادر في حال الغيبة‘‘ ہے۔ اس باب کی پہلی حدیث مفضل بن عمر سے منقول ہے۔ ذیل میں پہلے حدیث پیش خدمت ہے اور اس کے بعد اس کی شرح دیگر احادیث کی روشنی میں پیش کی جائے گی۔

حديث:1

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ وَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ: أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَرْضَى مَا يَكُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، وَلَمْ يَظْهَرْ لَهُمْ وَلَمْ يَعْلَمُوا مَكَانَهُ وَهُمْ فِي ذَلِكَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَلَا مِيثَاقُهُ، فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَمَسَاءً فَإِنَّ أَشَدَّ مَا يَكُونُ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى أَعْدَائِهِ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّتَهُ وَلَمْ يَظْهَرْ لَهُمْ، وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَوْلِيَاءَهُ لَا يَرْتَابُونَ، وَلَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ يَرْتَابُونَ مَا غَيَّبَ حُجَّتَهُ عَنْهُمْ طَرْفَةَ عَيْنٍ وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ إِلَّا عَلَى رَأْسِ شِرَارِ النَّاسِ. [1]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص۱۳۷۔

ترجمہ:امام صادق ؑ فرماتے ہیں : اللہ جل ذکرہ سے سب سے قریب ترین وہ بندہ ہیں اور جن سے اللہ سب سے راضی ہے وہ جب بندگان اللہ جل و عز کی حجت کو کھو دیں اور وہ حجت ان کے لیے ظاہر نہ ہو اور انہیں حجت کی جگہ اور مکان کا علم نہیں اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ جل ذکرہ کی نہ حجت کا سلسلہ باطل ہوا ہے اور نہ اس کا میثاق و عہدو پیمان ساقط ہوا ہے، اس وقت وہ صبح و شام فَرَج (کشائش و ظہور) کی توقع رکھتے ہیں۔

شرح حدیث:

اصول کافی کے باب ’’باب نادر في حال الغيبة‘‘ کو ہم آغاز کر رہے ہیں جس میں پہلی حدیث مفضل بن عمر نے امام صادقؑ سے نقل کی ہے جس کو شیخ کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں نقل کیا ہے۔ یہ روایت بیان کرتی ہے کہ غیبتِ امام ؑاللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لیے ایک شرف و نعمت ہے نہ کہ تعذیب و عقاب۔ البتہ غیبت کا طولانی ہونا عقاب ہے کیونکہ وہ لوگ اور معاشرہ جو غیبت کا دور گزار رہے ہیں انہوں نے زمینہ فراہم نہیں کیا جس کی بناء پر غیبت طولانی ہوئی۔ دورانِ غیبت اللہ تعالی کا اسمِ باطن حاکم ہے ۔ اللہ تعالی کے اسماء میں سے اسم ظاہر اور اسم باطن ہے۔ اس اللہ جامع ترین اسم ہے ۔ غلبہِ باطن سے مراد یہ نہیں کہ اسم ظاہر نہیں بلکہ اسم باطن کا غلبہ ہے۔ انسان کے ربط کے مراتب ہیں جن میں سب سے ضعیف رابطہ حسی اور مادی ہے۔ اس لیے قلبی اور باطنی رابط غیبت میں زیادہ جلوہ گر ہے۔ زبانہ غیبت میں فردی طور پر انسان سے فَرَج انفسی سلب نہیں ہے بلکہ فرَج عمومی و جمعی موجود نہیں ہے۔ البتہ یہ تدریجی ہے۔ اگر انسان کا باطنی جبنہ غالب ہو جائے اس کے لیے نظامِ فرَج زیادہ آشکار ہے اور اگر اس کے لیے مادی اور ظاہری تقاضے غالب ہیں تو اس کے لیے غیبت زیادہ آشکار ہو گی۔ پس غیبت مظہرِ اسم باطن ہے اور لوگوں کے لیے ایک تشرف اور شرف ہے لیکن اس کا طولانی ہونا عقابِ الہٰی پر دلالت کرتا ہے۔  غیبت کا ربط لوگوں کے ابدان سے ہے نہ کہ ارواح سے۔ اس لیے ایک مرتبہ انسان امامؑ سے ظاہری اور حسی رابطہ قائم کرتا ہے جوکہ زمانہِ ظہور میں ممکن ہے جبکہ غیبت میں ارواح سے غیبت نہیں ہے بلکہ فقط آنکھوں سے غیبت ہے۔

امام موجود قوس نزول اور قوس صعود کے اعتبار سے:

روایت میں ہے ’’أَقْرَبُ مَا يَكُونُ‘‘ ۔ قُرب یا تو قُربِ وجودی ہے یا امکانی۔ یہاں أَقْرَبُ سے سعتِ وجود ی ہے اور اللہ تعالیٰ ان اقرب سے راضی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے کوئی قریب تر ہو اور اللہ سبحانہ اس سے راضی نہ ہو۔ اگر نیچے سے اوپر دیکھیں تو یہ ’’أَقْرَبُ‘‘ ہے اور اگر اوپر سے نیچے دیکھیں تو یہ ’’أَرضی ما يکون‘‘ ہے۔ بالفاظ دیگر قوس نزولی کے اعتبارسے ’’أَرضی‘‘ اور قوس صعودی کے اعتبار سے ’’أَقْرَبُ‘‘ ہے۔ دوسری جہت سے اگر ہم حجتِ الہٰی کو قوسِ نزول اور قوسِ صعودی کے اعتبار سے جائزہ لیں تو حجتِ الہٰی ’’قوس صعودی‘‘کے اعتبار سے واسطہِ ہدایت  اور صراط ہے ۔ اس لیے حجتؑ کا ہونا ضروری ہے۔ اگر حجت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی راہیں بند ہو جائے۔ امامؑ کا کام ایصال الی المطلوب ہے جبکہ نبی کا کام پیغام کا پہنچانا ہے۔ امامؑ ہمراہ ہے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ انبیاءؑ میں آئمہؑ تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت و رسالت ختم ہو گئی لیکن امامؑ اور صراط کی ضرورت باقی تھی اس لیے امامؑ ایصال الی المطلوب کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے امامِ حی ہونا ضروری ہے ۔ یہ امام حی اور زندہ یا تو ظاہر ہے یا حواس سے غائب ہے۔ پس امامؑ موجود ہیں لیکن ممکن ہے حواس سے غائب ہوں نہ کہ قلوب و باطنِ مومن سے۔ جہاں تک قوسِ نزول کی بات ہے تو قوس نزول کے اعتبار سے امامؑ  سماء و ارض کے درمیان سببِ متصل ہے۔ پس قوسِ نزول کے اعتبار سے واسطہِ فیض ہے اور قوسِ صعود کے اعتبار سے صراط اور سرچشمہ ہدایت ہے۔

میثاق کا وجودی تعلق:

میثاق میں اصل میثاقِ ربوبیت و مربوبیت ہے جوکہ میثاقِ نبوت و امامت تک پہنچاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے وجودی طور پر خلقت سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا تھا اور یہی اقرارِ ربوبیت میثاق سے تعبیر ہوتا ہے۔ انبیاءؑ اسی لیے امتوں پر شاہد ہیں اور ان سب شاہدوں پر رسول اللہ ﷺ شاہد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ میزان ِ امت ہیں کیونکہ شاہد جس پر شاہد ہے وہ اس کی امت شمار ہوتی ہے اس لیے روزِ قیامت تمام انبیاءؑ و اوصیاء ؑ رسول اللہ ﷺ کی امت کے اعتبار سے اٹھائے جائیں گے۔ امامؑ کا میثاق عام بات نہیں ہے بلکہ ایک حقیقتِ عینیت ہے۔ یہ میثاق انبیاء ؑ و آئمہؑ سے چلا آ رہا ہے اور یہ ایک حقیقت کا تسلسل ہے۔ لہٰذا یہ میثاق انسان کو استعداد و فعلیت کے اعتبار سے تمام انبیاءؑ و آئمہؑ سے مربوط کر دیتا ہے۔ اس لیے روئے زمین پر پہلی ہستی اللہ تعالیٰ نے حجت کو اتارا اور آخری ہستی جو زمین سے اٹھائی جائے گی حجت ہو گی۔ یہ قوس نزولی و قوس صعودی کے اعتبار سےہے۔ اقرارِ انبیاء و اوصیاءؑ حقیقت میں تجدیدِ عہد ہے ۔

معاشروں کے ارتقاء میں غیبت کا کردار

ایک مرتبہ ہم بعض احادیث میں دیکھتے ہیں جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ غیبت اللہ تعالیٰ کی جانب سے عقاب و غضب ہے۔ جبکہ دوسری طرف روایات ایسی ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ غیبت امامؑ حقیقت میں معاشروں کے تکامل اور ارتقاء کا سبب ہے۔ ایک روایت کا مضمون ہے کہ ہم کس قدر مشتاق ہیں ان لوگوں کے جن کی عقلیں اس مرتبہ تک پہنچی ہوں گے کہ وہ آنکھوں سے دیکھے بغیر حجت پر ایمان لے آئیں گے۔ ایسا زمانہ آئے گا کہ عقلیں اس قدر رشد کر لیں گے کہ وہ ظاہری طور پر حجت کو نہیں دیکھیں گے لیکن وہ حجت ؑسے عقلی رشد کی بناء پر ارتباط قائم کریں گے۔ جبکہ زمانہِ ظہور وہ ہو گا جب ظاہر بھی سلطہ اور تسلط پیدا کر لے گا اور باطن بھی یعنی عقل بھی رشد کے اعتبار سے تسلط اور سلطہ پیدا کر لے گی۔ اسی طرح ’’تمحیص‘‘ والی احادیث بھی غیبت کے زمانے کو بیان کرتی ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{وَ لِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ يَمْحَقَ الْكافِرين‏؛  اور اللہ ایمان لانے والوں کو آزمانا چاہتا ہے اور کافروں کو جدا کر کے خسارے میں مبتلا کرنا چاہتا ہے}. [2]آل عمران:۱۴۱۔ 
بشریت کے رشد اور ارتقاء کو  ایک بچہ سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ بچہ جب دنیا میں آتا ہے اور جب وہ بچہ جوانی کے مرحلہ میں پہنچ جاتا ہے تو بلوغت کے بعد مرحلہِ اشد آتا ہے۔ بشریت کی تاریخ میں یہی نسبت تکرار ہوئی ہے، بشریت کے بھی تین مراحل ہیں: ۱۔ مرحلہِ بچپنا، ۲۔ مرحلہِ بلوغت،انبیاءؑ کا زمانہ بشریت کے بلوغت کا مرحلہ ہے ۳۔ مرحلہِ اَشُدو قوت، نبی اکرم ﷺ کا زمانہ رشد اور اَشُد کا زمانہ ہے۔ بعثتِ رسول اللہ ﷺ ایک مرحلہ تک پہنچی لیکن اوجِ کمال تک بشریت زمانہِ ظہور میں پہنچے گی۔  انسان جس طرح جسمانیۃ الحدوث و روحانیۃ البقاء ہے، یعنی انسان اس دنیا میں مجرد نہیں آ سکتا بلکہ ایک سفر جسم سے تجرد کا کرے گا۔ اسی طرح معاشرہِ بشریت مراحل طے کرے گا اور اوجِ رشد تک پہنچے گا۔ اصلِ غیبت اللہ تعالی کا عقاب و غضب نہیں اگرچے طولانی ہونا اللہ کی طرف سے عقاب ہے لیکن بذاتِ خود غیبت غضبِ الہٰی نہیں ہے۔ پس ہمیں غیبت کے ہونے اور غیبت کے طولانی ہونے میں فرق کرنا ہو گا۔ کمال الدین میں شیخ صدوق نے احادیث نقل کی ہیں جن کے مطابق متعدد اقوام میں انبیاءؑ نے غیبت اختیار کی، مثلا حضرت موسیؑ کو لے لیں کہ انہوں نے چند مرتبہ اپنی قوم سے غیبت کو اختیار کیا، جب وہ کوہِ طور تورات لینے گئے تو غیبت اختیار کی، جب مدائن فرار کیا تو غیبت اختیار کی …۔ ان تمام موارد میں غیبت میں اللہ تعالیٰ کی حجت تھی۔ پس انبیاءؑ نے غیبت میں جو مراحل طے کیے وہی مراحل امام زمانؑ طے کریں گے۔ جس طرح حضرت موسیؑ اور جناب خضرؑ کے سفر کا تذکرہ قرآ ن میں آیا ہے اور سفر کے اختتام پر تمام افعال کی حکمت واضح ہوئی اسی طرح امامؑ کی غیبت کی اصل حکمت اسی وقت آشکار ہو گی جب غیبت کا زمانہ ختم ہو گا۔ جب انسانی معاشرہ ظہور کے وقت سامنے آئے گا تو اس وقت معلوم ہو گا کہ غیبت کے زمانے میں معاشروں نے کیسے رشد حاصل کیا اور کہاں تک معاشرے پہنچے اور اس ارتقاء میں غیبت کے ہونے میں اللہ تعالیٰ کی کیا کیا حکمتیں تھیں۔ روایا ت میں آیا ہے:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ ع‏ …، يَا أَحْمَدَ بْنَ إِسْحَاقَ هَذَا أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ وَ سِرٌّ مِنْ‏ سِرِّ اللَّهِ‏ وَ غَيْبٌ مِنْ غَيْبِ اللَّهِ‏ فَخُذْ ما آتَيْتُكَ‏ وَ اكْتُمْهُ‏ وَ كُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ‏ تَكُنْ مَعَنَا غَداً فِي عِلِّيِّينَ. [3]صدوق، محمد بن علی، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج ۲، ص ۳۸۴، باب ۳۸۔

پس غیبت کا زمانہ معاشرہِ انسانی کے رشد کا زمانہ ہے۔ لوگ جہاں بھی ہیں وہ بدن کے مرحلہ کو طے کر روحی ارتباط کو قائم کرنے کے مرحلے کو طے کریں گے۔ اس لیے ممکن ہے کہ امامؑ ظاہری طور پر کسی کو نظر آئیں لیکن ان کے قلوب اور روحی ارتباط امامؑ سے نہ ہو جیساکہ ابو ہارون مکفوف کا واقعہ ہمیں یہ حقیقت بتاتا ہے:

مَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ‏ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ مَعَ أَبِي جَعْفَرٍ ع، وَالنَّاسُ يَدْخُلُونَ وَيَخْرُجُونَ، فَقَالَ لِي: سَلِ النَّاسَ هَلْ يَرَوْنَنِي فَكُلُّ مَنْ لَقِيتُهُ ؟ قُلْتُ لَهُ: أَ رَأَيْتَ‏ أَبَا جَعْفَرٍ فَيَقُولُ لَا وَهُوَ وَاقِفٌ حَتَّى‏ دَخَلَ‏ أَبُو هَارُونَ‏ الْمَكْفُوفُ فَقَالَ سَلْ هَذَا فَقُلْتُ هَلْ رَأَيْتَ أَبَا جَعْفَرٍ؟ فَقَالَ: أَ لَيْسَ هُوَ وَاقِفاًں قُلْتُ: وَمَا عِلْمُكَ‏ ؟ قَالَ: وَكَيْفَ لَا أَعْلَمُ وَهُوَ نُورٌ سَاطِعٌ ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ إِفْرِيقِيَا مَا حَالُ رَاشِدٍ قَالَ خَلَّفْتُهُ حَيّاً صَالِحاً يُقْرِئُكَ السَّلَامَ قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ مَاتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ مَتَى قَالَ بَعْدَ خُرُوجِكَ بِيَوْمَيْنِ قَالَ وَ اللَّهِ مَا مَرِضَ وَ لَا كَانَ بِهِ عِلَّةٌ قَالَ وَ إِنَّمَا يَمُوتُ مَنْ يَمُوتُ مِنْ مَرَضٍ أَوْ عِلَّةٍ قُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ قَالَ رَجُلٌ كَانَ لَنَا مُوَالِياً وَلَنَا مُحِبّاً ثُمَّ قَالَ لَئِنْ تَرَوْنَ أَنَّهُ لَيْسَ لَنَا مَعَكُمْ أَعْيُنٌ نَاظِرَةٌ أَوْ أَسْمَاعٌ سَامِعَةٌ لَبِئْسَ مَا رَأَيْتُمْ وَ اللَّهِ لَا يَخْفَى عَلَيْنَا شَيْ‏ءٌ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَاحْضُرُونَا جَمِيلًا وَ عَوِّدُوا أَنْفُسَكُمْ الْخَيْرَ وَ كُونُوا مِنْ أَهْلِهِ تُعْرَفُونَ بِهِ‏ فَإِنِّي بِهَذَا آمُرُ وُلْدِي وَ شِيعَتِي. [4]قطب الدين راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج والجرائح، ج ۲، ص ۵۹۶۔

احادیث میں وارد ہوا ہے کہ غیبتِ امامؑ میں جو دین پر اور دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے وہ ہزار شہید سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ یا امامؑ کی موجودگی میں ثابت قدم بھی اہمیت کا حامل ہے لیکن وہ حجت کا دیدار ظاہری طور پر بھی کر رہے تھے لیکن جو غیبت میں ثابت قدمی دکھا رہا ہے وہ اپنی بصیرت کی بناء پر اس قدر محکم ہے کہ اس کے قدموں میں لغزش نہیں آتی۔ لہٰذا اس کو بِن دیکھے ایمان لانا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانا بلا شک و شبہ ہزار شہیدوں سے افضل ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ ع أَنَّهُ قَالَ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَغِيبُ عَنْهُمْ إِمَامُهُمْ فَيَا طُوبَى‏ لِلثَّابِتِينَ‏ عَلَى أَمْرِنَا فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ إِنَّ أَدْنَى مَا يَكُونُ لَهُمْ مِنَ الثَّوَابِ أَنْ يُنَادِيَهُمُ الْبَارِئُ جَلَّ جَلَالُهُ فَيَقُولَ عِبَادِي وَإِمَائِي آمَنْتُمْ بِسِرِّي وَصَدَّقْتُمْ بِغَيْبِي فَأَبْشِرُوا بِحُسْنِ الثَّوَابِ مِنِّي فَأَنْتُمْ عِبَادِي وَإِمَائِي حَقّاً مِنْكُمْ أَتَقَبَّلُ وَعَنْكُمْ أَعْفُو وَلَكُمْ أَغْفِرُ وَبِكُمْ أَسْقِي عِبَادِيَ الْغَيْثَ وَأَدْفَعُ عَنْهُمُ الْبَلَاءَ، وَلَوْلَاكُمْ لَأَنْزَلْتُ عَلَيْهِمْ عَذَابِي، قَالَ جَابِرٌ: فَقُلْتُ: يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ فَمَا أَفْضَلُ مَا يَسْتَعْمِلُهُ الْمُؤْمِنُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ قَالَ حِفْظُ اللِّسَانِ وَلُزُومُ الْبَيْتِ. [5]صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج ۱، ص ۳۳۰، باب : ۳۲۔

غیبت کا زمانہ سر ، غیب اور امر الہٰی کا زمانہ ہے اور ہمیں اس زمانے کا قدر دان ہونا چاہیے۔ چنانچہ غیبت کے زمانہ کو خسارہ، نقصان، مصیبت اور ہلاکت تصور نہ کریں ۔ غیبت اللہ تعالیٰ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے جوکہ گذشتہ انبیاءؑ اور ان کی قوموں پر بھی جاری ہوئی اور اسی طرح اس امت پر بھی جاری ہوئی۔ اگرچے غیبت کا طولانی ہونا اللہ تعالیٰ کے غضب و قہر پر دلالت کرتا ہے۔

فَرَج انفسی اور فرَج جمعی:

غیبت امام زمانؑ انسان کے بدن پر مسلط ہے نہ کہ انسان کے باطن پر۔ انسان کا رابطہ مراتب رکھتا ہے۔  ہر کمال اور ہر معرفت اللہ تعالیٰ عنایت کرتا ہے، مقدمات ہم ایجاد کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عنایت کرتا ہے۔انسان کی سعی و کوشش ایک مقام یا جگہ تک پہنچانے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ کی عنایت و عطا ہو تو انسان پہنچنے اور حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ پس کوشش علتِ تام نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و عنایت جاری ہو تو انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اشاد ہوتا ہے: { وَلَوْ لا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ ما زَكى‏ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَداً؛  }. [6]نور: ۲۱۔  امام موسی کاظم ؑ ایک روایت میں فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ عَمِّهِ الْحَسَنِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ صَالِحٍ السِّنْدِيِّ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ×، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ (×) أَنْتَ الْقَائِمُ بِالْحَقِّ، قَالَ: أَنَا الْقَائِمُ بِالْحَقِّ، وَلَكِنَّ الْقَائِمَ الَّذِي يُطَهِّرُ الْأَرْضَ مِنْ أَعْدَاءِ اللَّهِ وَيَمْلَأُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً هُوَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِي، لَهُ غَيْبَةٌ يَطُولُ أَمَدُهَا خَوْفاً عَلَى نَفْسِهِ، يَرْتَدُّ فِيهَا أَقْوَامٌ وَيَثْبُتُ فِيهَا آخَرُونَ، ثُمَّ قَالَ ×: طُوبَى لِشِيعَتِنَا الْمُتَمَسِّكِينَ بِحُبِّنَا فِي غَيْبَةِ قَائِمِنَا الثَّابِتِينَ‏ عَلَى مُوَالاتِنَا وَالْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِنَا، أُولَئِكَ مِنَّا وَنَحْنُ مِنْهُمْ قَدْ رَضُوا بِنَا أَئِمَّةً فَرَضِينَا بِهِمْ شِيعَةً، فَطُوبَى لَهُمْ ثُمَّ طُوبَى لَهُمْ، هُمْ وَاللَّهِ مَعَنَا فِي دَرَجَتِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.[7]خزاز، علی بن محمد، كفایۃ الاثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر، ص ۲۶۹۔  

امام موسیؑ فرماتے ہیں کہ بلا شک و شبہ میں حق کو قائم کرنے والا قائم ہوں لیکن وہ قائم جو اللہ کے دشمنوں سے زمین کو پاک کو طاہر کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا وہ میری اولاد میں سے پانچواں ہو گا، اس کو غیبت طولانی عنایت ہو گی۔ طوبی وہی شجرِ جنت ہے ۔ عمل صالح بلا شک وشبہ انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے لیکن عمل صالح زمین سے جدا ہونے کا باعث ہے جس کے بعد انسان بلندی کی طرف جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں محبت اور دشمنان سے براءت و بیزاری انسان کو اہل بیتؑ میں داخل کر دیتا ہے۔ محبت اور براءت از دشمنان اس قدر انسان کو بلندی پر پہنچاتا ہے کہ انسان اللہ تعالی ٰ کی مرضی اور اہل بیتؑ کی رضایت کا مصداق بن جاتا ہے۔ انسان کی بلندی کا یہاں سے اندازہ لگائیں کہ امامؑ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ شخص روزِ قیامت میں ہمارے درجہ میں ہمارے ساتھ ہو گا۔ یہاں سے دورانِ غیبت کے شرف و بزرگی اور انسان کے ارتقاء میں اس کا کردار آشکار ہوتا ہے۔ ابو خالد امام سجادؑ کے خاص شاگرد اور صحابی تھے۔ ابو خالد مخاطب کرتے ہوئے امام سجادؑ فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الصُّوفِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَحْيَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْكَابُلِيِّ قَالَ:يَا أَبَا خَالِدٍ إِنَّ أَهْلَ زَمَانِ غَيْبَتِهِ الْقَائِلِينَ بِإِمَامَتِهِ وَالْمُنْتَظِرِينَ لِظُهُورِهِ أَفْضَلُ مِنْ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى أَعْطَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ وَالْأَفْهَامِ وَ الْمَعْرِفَةِ مَا صَارَتْ بِهِ الْغَيْبَةُ عِنْدَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشَاهَدَةِ وَ جَعَلَهُمْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِينَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ ص بِالسَّيْفِ أُولَئِكَ الْمُخْلَصُونَ حَقّاً وَشِيعَتُنَا صِدْقاً وَالدُّعَاةُ إِلَى دِينِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ سِرّاً وَجَهْراً، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع: انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ.[8]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص ۳۱۹۔  

اس روایت میں امام سجادؑ فرماتے ہیں کہ سب سے افضل ترین لوگ وہ ہیں جو امام زمانؑ کے ظہور کے منتظر ہیں اور ان کی امامت کے معتقد ہیں۔ انسان اگر مقدمات فراہم کرے تو اللہ تعالیٰ معرفت عطا کرتا ہے۔ آخری زمانے کے لوگوں کی عقول کو اللہ تعالیٰ اتنا بلندی دے گا کہ غیبت کا دور ان کے لیے دورانِ مشاہدہ کی طرح ہو گا۔ اگرچے انہوں نے آنکھوں سے نہیں دیکھا اور امامؑ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں لیکن عقول و فہم و فراست کی وجہ سے وہ اس طرح امامؑ پر قوی اعتقاد رکھیں گے گویا کہ وہ امامؑ کو دیکھ رہے ہیں۔ پس ان کے لیے امامؑ کی رؤیت شہودی ہے۔ غیبت کا تعلق بدن سے ہے نہ کہ عقل و شہود سے۔ اس لیے آخری زمانے میں معتقدِ امامت و منتظر کا تعلق اس قدر شدید امامؑ سے ہو گا کہ وہ اپنی عقل و معرفت و فراست کی وجہ سے شہودی طور پر امامؑ کو دیکھ رہے ہیں ۔غیبت کا جریان ظاہر اور ابدان پر ہے جبکہ ظاہر کو اگر ہم عبور کر لیں اور ظاہری و مادی تسلط کا غلبہ ختم کر کے ہم نے باطن کو غالب کر دیا تو پھر ایسے فرد کے لیے غیبت غیبت نہیں بلکہ وہ امامؑ کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اگرچے بدن، آنکھ ، کان آغاز میں ضروری ہے جس کے ذریعے سے انسان آغاز کرتا ہے لیکن اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ عقل کی نگاہوں سے حقائق کا جائزہ لینا شروع کر دیتا ہے۔ رابطہِ غیبت اور ظہور پر دقت کریں تو فَرَجِ انفسی مقدم ہے فرَجِ عمومی و جمعی پر۔ ہم ۳۱۳ انصار والی احادیث پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ ۳۱۳ قبل اس کے کہ امامؑ کے لیے وقتِ ظہور جمع ہوں وہ ظہور سے پہلے انفسی طور پر امامؑ سے مربوط ہیں اور امامؑ کے اذن کے منتظر ہیں اور شدید طور پر امامؑ کے ساتھ زمانہِ غیبت میں ہی ملحق ہیں۔ نداءِ امامؑ وقتِ ظہور ایسے ہو گی جیسے روزِ قیامت حشر کے لیے نداء بلند ہو گی۔ اس لیے وقتِ ظہور جب امامؑ کی نداء سب سنیں گے تو دعوت اور راہ معین ہو جائے گی اور امامؑ کے ساتھ جمع ہونا ضروری ہو جائےگا۔ پس نظام نظامِ ادراکی ہے اور یہی نظامِ ادراکی فرَج کو متحقق کرتا ہے، جیساکہ ابو خالد کو امام سجادؑ نے فرمایا کہ غیبت ان لوگوں کے لیے بمنزلہِ مشاہدہ ہو گی۔پس حس سے ادراک کرنا ایک منزلتِ ادراک ہے، عقل سے درک کرنا ایک اور منزلتِ ادراک ہے اور ایک قلب و دل سے مشاہدہ کرنا ہے۔ غیبت کے زمانے میں حس سے ادراک کے اعتبار سے فرَج حاصل نہیں ہے۔ جب ظہور ہو گا تو ہر مرحلہِ ادراک کے اعتبار سے فرَج حاصل ہو جائے گا۔پس غیبت کے زمانے میں عقل و قلب سے مشاہدہ کے دروازے کھلے ہیں۔ اسی طرح امامؑ سے عالم مثالی میں ربط اور تعلق ممکن ہے۔ عالم خیال و مثال میں ملاقاتِ امامؑ تمثل ہو سکتی ہے۔ جس سے امامؑ کی ملاقات ہو رہی ہے اس کے لیے مثل ِ حس احساس ہو رہا ہو گا لیکن بقیہ کے لیے یہ ملاقات یا تشرف قابل درک نہیں بلکہ فقط اسی کے لیے قابلِ درک ہے جس کے لیے یہ تمثل ہوا ہے۔ 

پس فرَج کو جو چیز متحقق کرتی ہے وہ انسان کی نگاہ اور کمالِ دید ہے۔ اگر طہارت و تزکیہ کی بناء پر ملکوت اعلیٰ تک انسان رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اس طرح امامؑ کی خدمت میں حاضر ہو سکتا ہے۔ اگر انسان تزکیہ نفس نہ کرے تو پھر تخیلات اور وسوسہ کی ظلمتوں میں انسان گرفتار رہ جاتا ہے اور ممکن ہے کہ شیطانی تصورات کا شکار ہو جائے۔ اگر انسان کی دید بلند ہوتی جائے اتنی مقدار کی فرَج اسے حاصل ہوتی چلی جائے گی۔

يَا عَلِيُّ أَعْجَبُ النَّاسِ إِيمَاناً وَأَعْظَمُهُمْ يَقِيناً قَوْمٌ يَكُونُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ لَمْ يَلْحَقُوا النَّبِيَّ وَحُجِبَ عَنْهُمُ الْحُجَّةُ فَآمَنُوا بِسَوَادٍ عَلَى بَيَاضٍ.[9]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۳۶۶۔  

امام مہدیؑ کی غیبت تمام انبیاءؑ کی غیبت کے کمالات و محاسن کو شامل ہے ۔ بعض انبیاء ؑ کی متعدد غیبتیں تھیں اور بعض انبیاءؑ کی ایک غیبت، مثلاً حضرت موسیؑ کے لیے متعدد غیبتیں متحقق ہوئیں، جیسے مدائن میں غیبت، کوہِ طور پر غیبت کہ نظامِ ظاہر معاشرے پر غالب آ گیا اور نظامِ باطن دب گیا جس کی بناء پر معاشرے نے گوسالہ کی عبادت شروع کر دی۔ امام مہدیؑ میں ان تمام انبیاءؑ کی غیبت کے کمالات جمع ہیں۔ ابو بصیر امام صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں جس میں امام صادقؑ فرماتے ہیں: 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْكُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ النَّخَعِيُّ عَنْ عَمِّهِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ النَّوْفَلِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ× يَقُولُ: إِنَّ سُنَنَ الْأَنْبِيَاءِ ^ بِمَا وَقَعَ بِهِمْ مِنَ الْغَيْبَاتِ حَادِثَةٌ فِي الْقَائِمِ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ وَالْقُذَّةِ بِالْقُذَّةِ، قَالَ أَبُو بَصِيرٍ فَقُلْتُ: يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَمَنِ الْقَائِمُ مِنْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ؟ فَقَالَ: يَا أَبَا بَصِيرٍ هُوَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِ ابْنِي مُوسَى ×، ذَلِكَ ابْنُ سَيِّدَةِ الْإِمَاءِ يَغِيبُ غَيْبَةً يَرْتَابُ فِيهَا الْمُبْطِلُونَ، ثُمَّ يُظْهِرُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَيَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدِهِ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا وَيَنْزِلُ رُوحُ اللَّهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ع، فَيُصَلِّي خَلْفَهُ وَتُشْرِقُ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَلَا تَبْقَى فِي الْأَرْضِ بُقْعَةٌ عُبِدَ فِيهَا غَيْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا عُبِدَ اللَّهُ فِيهَا وَيَكُونُ { الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ‏} [10]توبہ: ۳۳۔.[11]صدوق، محمد بن علی، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج ۲، ص ۳۴۵۔  

غیبت امام مہدیؑ میں زمانہ بنی اسرائیل کے مشابہ ہو گا اور جو کچھ گذشتہ غیباتِ انبیاءؑ میں واقع ہوا تھا وہی امام مہدیؑ کی غیبت میں ظاہر ہو گا یہاں تک کہ نعل بالنعل کہ جو قدم سابقہ دور میں اٹھایا گیا تھا وہی قدم غیبتِ امامؑ میں اٹھایا جائے گا اور جو حوادث سابقہ غیبات میں ہوئے وہی اس غیبتِ امامؑ میں ہو گا، مثلاً اگر حضرت موسیؑ کی غیبت میں نظامِ ظاہر معاشرے پر غالب آ گیا اور باطنی نظام مغلوب ہو گیا یہی امام مہدیؑ کی غیبت میں ہو گا۔ جس طرح غیبات ِ انبیاءؑ جاری ہیں اسی طرح انبیاءؑ کی سنن بھی جاری ہوگی، اسی لیے عصائے موسیؑ امام زمانؑ کے پاس ہے، حضرت سلیمانؑ کی انگشتر امام زمانؑ کے پاس ہے …  امام مہدیؑ جب ظہور فرمائیں گے تو انہی انبیاءؑ کی سنن کو تکرار کریں گے۔

ابو بصیر نے اما م صادقؑ سے دریافت کیا کہ آپ اہل بیتؑ میں سے قائم ؑ کون ہوں گے؟ امامؑ نے فرمایا: کہ میرے فرزند موسیؑ کے پانچویں فرزند، ان کو اللہ تعالیٰ غیبت عنایت فرمائے گا اور اہل باطل امامؑ کی غیبت میں ان کی امامت و مہدویت پر شک کریں گے۔ اولیاءِ الہٰی اور امامت کا معتقد شک کا شکار نہیں ہو گا۔ غیبت حقیقت میں سببِ رشد و کمال ہے، غیبت سببِ جدائی اہل باطل و شک ہے۔ پس غیبت سے نہ اولیاءِ الہٰی شک و شبہ کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی امامت کے معتقد جو امامؑ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اگر غیبت اولیاء و پیروانِ امامؑ کے لیے شک و حیرت کا باعث بنتی تو اللہ تعالیٰ ہر گز امامؑ کو غیبت عنایت نہ فرماتا ، جیساکہ مفضل بن عمر سے امام صادق×روایت نقل کرتے ہیں:

وَرَوَوْا عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ×:  أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَرْضَى مَا يَكُونُ عَنْهُ وَأَرْضَى مَا يَكُونُ عَنْهُ إِذَا افْتَقَدَ حُجَّةَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ فَلَمْ يَظْهَرْ لَهُ وَلَمْ يَعْلَمْ مَكَانَهُ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ تَعَالَى وَبَيِّنَاتُهُ، فَعِنْدَهَا تَوَقَّعُوا الْفَرَجَ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَوْلِيَاءَهُ لَا يَرْتَابُونَ وَلَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ يَرْتَابُونَ مَا غَيَّبَهُ عَنْهُمْ طَرْفَةَ عَيْنٍ وَلَا تَكُونُ الْغَيْبَةُ إِلَّا عَلَى رُءُوسِ شِرَارِ النَّاسِ. [12]ابو صلاح حلبی، تقی بن نجم، تقریب المعارف، ص ۴۳۰۔

پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتے اور غیبت کی حکمت شریر لوگ ، اہل باطل اور شک و حیرت میں گرفتار ہو کر گمراہ ہونے والوں سے جدائی ہے ۔ اسی لیے غیبت کو چھلنی سے تشبیہ دی گئی ہے۔  غیبت کی اصل حکمت ظہور کے بعد آشکار ہو گی جیساکہ بعض روایات میں بیان ہوا ہے۔ اگرچے غیبت کی بعض حکمتیں بعض احادیث میں وارد ہوئی ہیں لیکن اصل حکمت بعد از ظہور آشکار ہو گی۔اللہ تعالیٰ کے اسماء میں ظاہر و باطن ہے ۔ ظاہر و باطن ہمارے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر و باطن تقسیم نہیں بلکہ ہر شیء اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر ہے ، وہ عالم بالغیب و الشہادۃ ہے۔ پس دورانِ غیبت اسم باطن حاکم ہے جبکہ ظہور کے وقت اسم ظاہر حاکم اور سلطنت کا حامل ہو گا۔

خواب کی تعبیر اور تأویل:

ہم جو خواب دیکھتے ہیں وہ تعبیر اور تأویل رکھتے ہیں۔ تأویل یعنی حقیقت، روایات میں وارد ہوا ہے: > النَّاسُ نَيَامٌ إذا ماتوا انتبهوا <. [13]مجلسی، محمد باقر،مرأۃ العقول، ج ۸، ص ۲۹۳۔دنیا برزخ کے مقابلے میں خواب ہے اور برزخ قیامت کے اعتبار سے خواب ہے، امام صادقؑ سے روایت ہے:  > ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ نَوْمَةَ الْعَرُوسِ عَلَى فِرَاشِهَا، أَبْشِرْ بِرَوْحٍ وَ رَيْحَانٍ، وَجَنَّةِ نَعِيم <. [14]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۳۴۷۔برزخ دنیا کے اعتبار سے بیداری ہے لیکن قیامت کے اعتبار سے خواب ہے۔ پس ایک تعبیر ہے اور ایک تأویل ہے۔ قرآن کریم جب کہتا ہے کہ :{ إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ‏}۔،[15]نساء: ۱۰۔ یہ تأویل ہے کیونکہ حقیقت ہے۔

ضروری نہیں کہ اگر حجت موجود ہو اور ظاہر ہو تو اس کو غیبت حاصل نہ ہو! بلکہ غیبت تب بھی ممکن ہے جب حکومت اور سلطنت حاصل ہو کیونکہ غیبت باطن کا سفر طے کر کے ظہور دینا ہے۔ اس لیے حضرت موسیؑ ظاہر ہوتے ہوئے غیبت اختیار کر گئے تاکہ معاشرہ یہ مرحلہِ ارتقاء طے کرے۔ ہدایت ابتدائی ہے اور جزاء کے طور پر مزید ہدایت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضلالت ابتدائی نہیں بلکہ جزائی ہے ۔ اس لیے غیبت میں کوئی شخص اگر کہے کہ غیبت کی وجہ سے میں گمراہ ہو گیا تو وہ اہل باطل میں سے ہو گا تو گمراہ ہو گأ۔ ورنہ غیبت کسی کی گمراہی کا سبب نہیں ہو سکتا جیساکہ اوپر ایک حدیث میں ذکر ہو چکا ہے۔ امام صادق ؑ سے کمال الدین میں انتہائی پُر معنی روایت گزری ہے:  > قَالَ سَمِعْتُ الصَّادِقَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ع يَقُولُ: إِنَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ غَيْبَةً لَا بُدَّ مِنْهَا يَرْتَابُ فِيهَا كُلُّ مُبْطِلٍ فَقُلْتُ وَلِمَ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ لِأَمْرٍ لَمْ يُؤْذَنْ لَنَا فِي كَشْفِهِ لَكُمْ قُلْتُ فَمَا وَجْهُ الْحِكْمَةِ فِي غَيْبَتِهِ قَالَ وَجْهُ الْحِكْمَةِ فِي غَيْبَتِهِ وَجْهُ الْحِكْمَةِ فِي غَيْبَاتِ مَنْ تَقَدَّمَهُ مِنْ حُجَجِ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ إِنَّ وَجْهَ الْحِكْمَةِ فِي ذَلِكَ لَا يَنْكَشِفُ إِلَّا بَعْدَ ظُهُورِهِ كَمَا لَمْ يَنْكَشِفْ وَجْهُ الْحِكْمَةِ فِيمَا أَتَاهُ الْخَضِرُ ع مِنْ خَرْقِ السَّفِينَةِ وَ قَتْلِ الْغُلَامِ وَ إِقَامَةِ الْجِدَارِ لِمُوسَى ع إِلَى وَقْتِ افْتِرَاقِهِمَا يَا ابْنَ الْفَضْلِ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ وَ غَيْبٌ مِنْ غَيْبِ اللَّهِ وَ مَتَى عَلِمْنَا أَنَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ حَكِيمٌ صَدَّقْنَا بِأَنَّ أَفْعَالَهُ كُلَّهَا حِكْمَةٌ وَ إِنْ كَانَ وَجْهُهَا غَيْرَ مُنْكَشِفٍ <. [16]صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج ۲، ص ۴۸۲۔

اس روایت کا ہر جملہ دقیق انداز میں سمجھنے کے قابل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاءؑ کو غیبت دی تاکہ وہ مرحلہِ باطن سے مرحلہِ کشف کی طرف آئیں۔ بقیہ امتیں جزوی طور پر یہ ارتقاء رکھتے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ کی امت امام مہدیؑ کے دور میں مطلق طور پر ارتقاء پائے گی۔ راوی نے امامؑ سے غیبت کا سبب دریافت کیا تو امامؑ نے فرمایا کہ اس کے آشکار کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دی۔ اس کی اصل حکمت اسی وقت ظاہر ہو گی جب امامؑ کا ظہور ہو گا ۔ دورانِ غیبت ہمیں نہیں معلوم ہو گا کہ غیبت نے لوگوں اور معاشروں کے ساتھ کیا کیا ۔ سنخِ غیبت سنخِ حقائقِ عینی ہے۔ غیبت حقائق میں سے ایک حقیقت ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ غیبت فقط ایک مفہوم ہے بلکہ غیبت ایک حقیقت ہے جو ہمارے سامنے امام مہدیؑ کے ظہور کے وقت ظاہر ہو گی، بالکل اسی طرح جیسے جناب خضرؑ کے ساتھ حضرت موسیؑ کا جو سفر تھا اس میں تین افعال جناب خضرؑ نے انجام دئیے جس کی حکمت سفرکے بعد ظاہر ہوئی ۔ اگر ظاہرِ شریعت کو مدنظر رکھیں تو حضرت موسیؑ کے اعتراضات جناب خضرؑ پر درست تھے لیکن اگر ہم تعبیر و تأویل یعنی حقیقت کو مدنظر رکھیں تو یہ تین حقائق ہیں جوکہ دورانِ سفر آشکار نہیں کیے جا سکتے تھے، اس لیے جب سفر اختتام پذیر ہوا تو اس وقت یہ حقائق سامنے آئے۔ پھر امامؑ فرماتے ہیں اس حدیث میں کہ غیبت کا تعلق عالم امر اور عالم غیب سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے امر کا تعلق عالم امر، عالم غیب اور عالم سر ہے۔ اگر غیب اور سر اگر بیان ہو جائے تو وہ ظاہر ہو جائے گا۔ اگر غیبت سرّ ہے تو بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بیان ہو جائے تو پھر سرّ سے نہیں ہے۔ غیبت کا تعلق غیب سے ہے جوکہ باطن میں شہود کیا جاتا ہے۔ اس لیے غیب مفہومی طور پر بیان نہیں ہو سکتا بلکہ ضروری ہے کہ غیب کو علم حضوری اور شہودی طور پر ودیعت کیا جائے۔ پس غیبت مفہومی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس حقیقت کا تعلق عالمِ امر ہے، ایک ایسی حقیقت جس کا تعلق عالمِ غیب سے ہے، جس کا تعلق عالمِ سر سے ہے۔ جب یہ سنخِ مفہوم و بیان سے نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے یہ سنخِ غیب سے ہے اور اسی کو ایمان بالغیب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ’’غیب‘‘ مراتب رکھتا ہے، غیب بدن کے اعتبار سے غائب اور غیب ہے لیکن روح کے اعتبار سے ظاہر ہے ۔ پس غیب کو اگر بدن کے اعتبار سے دیکھیں تو غیب ’’غیب‘ ‘ ہے لیکن اگر روح اور باطن کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ ظاہر اور منکشف ہے۔ اسی طرح غیبت کو اگر حواس اور بدن کے اعتبار سے دیکھیں تو غیبت میں حجت غائب ہے لیکن اگر باطن اور روح کے اعتبار سے دیکھیں تو حجت حاضر ہے، حجت ظاہر ہے۔

روایت میں امر، غیب اور سر بیان ہوا ہے۔ یہ تینوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن سب کا مصداق واحد ہے۔ عالم امر جدا ہے، غیب جدا ہے اور سرّ جدا ہے لیکن ان سب کا مصداق ایک ہے، جیسے اسماء مختلف ہیں لیکن سب کا مصداق اور ان کی ذات واحد ہے۔غیبت چونکہ معاشرے اور امت کو ایک ارتقاء دیتا ہے تاکہ حقیقت کو درک کر سکیں اس لیے امام مہدیؑ غیبت میں فعال اور متحرک ترین ہستی ہیں۔ حتی بقیہ آئمہؑ اپنے حاضر ہوتے ہوئے جتنا متحرک تھے اس سے زیادہ تحرک اس وقت امام مہدیؑ کا ہے۔ کیونکہ امام مہدیؑ کی مثال سورج کی سی ہے جو بادلوں کے پیچھے ہو جوکہ بادلوں کے پیچھے سے ضوء فشانی کر رہا ہے۔ اسی طرح پردہِ غیبت میں امام مہدیؑ ضوء فشانی کر کے اس ارتقاء کا باعث بن رہے ہیں۔ پس غیبت اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جس کو ہم نہیں سمجھ نہیں سکتے مگر جب ظہورِ امامؑ ہو جائے۔ امام نقیؑ سے روایت منقول ہے: >عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَيُّوبَ بْنِ نُوحٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الثَّالِثِ ع قَالَ: إِذَا رُفِعَ عَلَمُكُمْ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِكُمْ فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ مِنْ تَحْتِ أَقْدَامِكُمْ <. [17]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۱۶۳۔ پس فرَج عمل کے ذریعے اس کو متحقق کر سکتا ہے۔ فرَج کا عملِ صالح سے تعلق اہمیت کی حامل بحث ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صالِحاً وَ لا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَدا ‏}۔،[18]کہف: ۱۱۰۔

امام سجادؑ سے کمال الدین میں روایت منقول ہے:

>حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الصُّوفِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَحْيَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْكَابُلِيِّ قَالَ: … وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ×: انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ <. [19]صدوق، محمد بن علی، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج ۱، ص ۳۲۰۔

انسان کسی مورد میں امامؑ سے باہر ہے۔ عمل صالح مقدمہ ہے ملاقات کے لیے اور دوسرا عمل صالح خود لقاء ہے۔ چونکہ عملِ صالح انسانِ صالح کے ساتھ اتحاد رکھتا ہے اس لیے عملِ صالح کی مقدار میں امامؑ سے مربوط ہیں۔ امام مہدیؑ کی کنیت ابا صالح ہے جس سے مراد صالحین کا سرپرست ہے اگرچے ممکن ہے کہ کسی فرزندکی وجہ سے ابا صالح کہا جائے ۔ ان دونوں میں تعارض نہیں ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کی کنیت ابو القاسم تھی، ایک ان کے فرزند کی مناسبت سے اور دوسرا  جنت اور جہنم کی تقسیم کی وجہ سے قاسم کہا جاتا تھا۔ امام موسی کاظمؑ سے روایت منقول ہے:

> عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عِيسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِيهِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ × … قَال‏: فَقُلْتُ يَا سَيِّدِي مَنِ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِ السَّابِعِ ؟ فَقَالَ: يَا بُنَيَّ عُقُولُكُمْ تَصْغُرُ عَنْ هَذَا وَأَحْلَامُكُمْ تَضِيقُ عَنْ حَمْلِهِ وَلَكِنْ إِنْ تَعِيشُوا فَسَوْفَ تُدْرِكُونَهُ <. [20]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۱۴۵۔ اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَ إِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ الَّذينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجاباً مَسْتُورا  ‏}. [21]اسراء: ۴۵۔

روایت نُوَمہ اور درایت حدیث کی تلقین:

احادیث میں روایات کو سمجھنے اور درک کرنے کی خصوصی تلقین کی گئی ہے۔غیبت نعمانی میں امام صادقؑ سے روایت منقول ہے:

> أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ بَعْضِ رِجَالِهِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏‏: خَبَرٌ تَدْرِيهِ خَيْرٌ مِنْ عَشْرٍ تَرْوِيهِ إِنَّ لِكُلِّ حَقٍّ حَقِيقَةً وَلِكُلِّ صَوَابٍ نُوراً ثُمَّ قَالَ إِنَّا وَاللَّهِ لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مِنْ شِيعَتِنَا فَقِيهاً حَتَّى يُلْحَنَ لَهُ، فَيَعْرِفَ اللَّحْنَ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع قَالَ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَناً مُظْلِمَةً عَمْيَاءَ مُنْكَسِفَةً لَا يَنْجُو مِنْهَا إِلَّا النُّوَمَةُ، قِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا النُّوَمَةُ ؟ قَالَ: الَّذِي يَعْرِفُ النَّاسَ وَلَا يَعْرِفُونَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَيُعْمِي خَلْقَهُ عَنْهَا بِظُلْمِهِمْ وَجَوْرِهِمْ وَإِسْرَافِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ خَلَتِ الْأَرْضُ سَاعَةً وَاحِدَةً مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا وَلَكِنَّ الْحُجَّةَ يَعْرِفُ النَّاسَ وَلَا يَعْرِفُونَهُ كَمَا كَانَ يُوسُفُ يَعْرِفُ النَّاسَ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ثُمَّ تَلَا يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُن‏ <. [22]نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، ص ۱۴۲۔

روایت میں امامؑ فرماتے ہیں کہ خبر کو درایت تک پہنچاؤ اور اس کا فہم حاصل کرو۔ خبر نقل کرنے سے بہتر اس کا فہم حاصل کرنا ہے۔ یہ وہی مطلب ہے جو تکراراً ذکر کیا کہ ظاہر سے باطن کا سفر کرے، تن سے باطن تک کا سفر طے کرے، یعنی الفاظ سے معنی تک پہنچے ۔ہر حق کی ایک حقیقت ہے اور ہر درستگی کا ایک نور ہے۔ یہ دو طرف کو بیان کرتا ہے: ۱۔ عمل شاکلہ اور نیت سے نشوونما پاتا ہے، ۲۔ لیکن عمل سبب ہےنیت کے آمادہ ہونے کے۔ لہٰذا اگر کسی کی نیت صالح اور قوی ہو اور وہ عمل انجام دے تو وہ ایسے عمل کو انجام دیتا ہے جس سے مزید قوت حاصل ہوتی ہے۔ مومن زیرک، کیّس اور ہوشیار ہو نہ  کہ جلد بازی اور ظاہر پر متوقف ہو۔  جب فتنے آئیں تو اس میں مومن ہو گا جو بچا رہے گا لیکن کونسا مومن؟ امام علیؑ اس روایت میں فرماتے ہیں کہ وہ جو ’’النُّوَمَةُ‘‘ ہے۔ امامؑ سے پوچھا گیا کہ یہ ’’النُّوَمَةُ‘‘کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: وہ جسے لوگ نہیں جانتے ہوں گے لیکن وہ سب کو جانتا ہو گا، یہ وہی مطلب ہے جو بیان کیا کہ مومن زیرک، بیدار، کیّس اور ہوشیار ہوتا ہے ۔اسی حدیث میں امامؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کے لیے حجت رکھی ہے لیکن لوگوں کے ظلم و جور اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھتا ہے۔ غیبت اصل کمال ہے کیونکہ ظاہر سے باطن کی طرف ارتقاء و کمال ہے لیکن اس کا طولانی ہونا اللہ کا عِقاب ہے۔ اگر زمین ایک لحظہ کے لیے حجت سے خالی ہو تو زمین اپنے اہل سمیت دھنس جائے گی۔امامؑ تمام لوگوں کو جانتے ہیں لیکن لوگ بعنوان حجت ان کو نہیں جانتے ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے برادرانِ یوسف جناب یوسفؑ کو حجت کے اعتبار سے نہیں جانتے تھے۔غیبت کی ایک وجہ خالص کو جدا کرنا ہے۔  الکافی میں امام باقرؑ سے روایت منقول ہے: 

> أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ وَالْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْكَابُلِيِّ قَالَ:‏‏ سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى { فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنا  ‏}، فَقَالَ يَا أَبَا خَالِدٍ: النُّورُ وَاللَّهِ الْأَئِمَّةُ ع يَا أَبَا خَالِدٍ لَنُورُ الْإِمَامِ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ أَنْوَرُ مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِيئَةِ بِالنَّهَارِ وَهُمُ الَّذِينَ يُنَوِّرُونَ قُلُوبَ الْمُؤْمِنِينَ وَيَحْجُبُ اللَّهُ نُورَهُمْ عَمَّنْ يَشَاءُ فَتُظْلِمُ قُلُوبُهُمْ وَيَغْشَاهُمْ بِهَا <. [23]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۴۷۹۔

امامؑ مومنین کے قلوب میں دن کے وقت چمکتے سورج سے زیادہ نور افشانی کر رہے ہیں۔ امامؑ ہیں جو ہمیں نورانی کرتے ہیں، ہم عمل تک پہنچ پاتے ہیں …لیکن ہم امامؑ سے جفا کرتے ہیں۔ ہم نماز پڑھتے ہیں ، دعائیں پڑھتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ امام ؑ کہاں ہیں ؟ ! امامؑ کہاں ہیں؟! جبکہ امامؑ ہی باعث ہے اس نورِ ایمان، نورِ عمل کے۔ اس روایت کو اوپر والی حدیث کے اختتام سے ملحق کریں تو مطلب کامل ہو جاتا ہے۔

۔

منابع:

منابع:
1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص۱۳۷۔
2 آل عمران:۱۴۱۔
3 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج ۲، ص ۳۸۴، باب ۳۸۔
4 قطب الدين راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج والجرائح، ج ۲، ص ۵۹۶۔
5 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج ۱، ص ۳۳۰، باب : ۳۲۔
6 نور: ۲۱۔
7 خزاز، علی بن محمد، كفایۃ الاثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر، ص ۲۶۹۔
8 صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص ۳۱۹۔
9 صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۳۶۶۔
10 توبہ: ۳۳۔
11 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج ۲، ص ۳۴۵۔
12 ابو صلاح حلبی، تقی بن نجم، تقریب المعارف، ص ۴۳۰۔
13 مجلسی، محمد باقر،مرأۃ العقول، ج ۸، ص ۲۹۳۔
14 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۳۴۷۔
15 نساء: ۱۰۔
16 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج ۲، ص ۴۸۲۔
17 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۱۶۳۔
18 کہف: ۱۱۰۔
19 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج ۱، ص ۳۲۰۔
20 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۱۴۵۔
21 اسراء: ۴۵۔
22 نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، ص ۱۴۲۔
23 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۴۷۹۔
Views: 156

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رد فلسفہ و عرفان اور امام عسكرىؑ سے منسوب حديث
اگلا مقالہ: زمانہِ غیبت اور افضل ترین لوگ