loading

« شرح الکافی: درس نمبر ۴ »

غیبت اللہ تعالی کا ایک راز

تدريس: آيت الله رضا عابدينی
تدوين: عون نقوی

گزشتہ دروس میں عرض ہوا کہ زمانہ غیبت امت کے رُشد و ارتقاء کا زمانہ ہے۔ اس زمانے کے مومنین ایمان کے اعلی ترین درجات پر فائز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس زمانے کے مومنین کو دیکھنے کی حسرت کی۔ امیرالمومنینؑ اور امام صادقؑ سے بھی روایات وارد ہوئی ہیں جن میں ان دو بزرگوار نے زمانہ غیبت میں زندگی بسر کرنے والے مومنین سے دیدار کی خواہش ظاہر فرمائی اور ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اگرچہ ہمیں ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ «آمنو بسواد علی بیاض» [1] صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۲۸۸۔ ہیں اور ایک کاغذ کے نوشتے کے اوپر ہم پر ایمان لائیں گے۔ دروس میں عرض ہوا کہ زمانہ غیبت امت کے زمانہ غیبت میں مومنین اپنے زمانے کی حجت پر ایمان لانے کے لیے حواس ظاہرہ پر اکتفاء نہیں کرتے، بلکہ امام کو بغیر حِس کیے اور بغیر دیکھے نظام عقول کے تحت ایمان لاتے ہیں۔ یہ مومنین نظام تن سے عبور کرچکے ہیں اور قلبی ارتباط سے امام کے ساتھ منسلک ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ یہ دور بشریت کے عظیم ترین ادوار میں سے ہے۔ اس زمانہ میں عبادات کی مقبولیت بالاترین درجے پر ہوگی۔ اس لیے تکراری طور پر ذکر ہو رہا ہے کہ خود غیبت عقاب نہیں اور امت کی غفلت کی وجہ سے غیبت قرار نہیں دی گئی بلکہ غیبت اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ لیکن غیبت کا طولانی ہونا اللہ تعالی کی طرف سے نہیں اور اس میں امت قصور وار ہے۔ بہرحال غیبت اللہ تعالی کے اسرار میں سے ایک سِر ہے جس کی حقیقت ظہور کے بعد فاش ہوگی۔ روایات کے مضامین بتاتے ہیں کہ جب ظہور ہوگا اس وقت روشن ہوگا کہ یہ غیبت کتنا عظیم امر تھا۔ بعض روایات میں غیبت کی اجمالی طور پر حکمت بیان ہوئی ہے لیکن اس کی حقیقی حکمت صرف زمانہ ظہور میں روشن ہوگی۔ خداوند متعال کی مظہریت زمانہ حضور میں ’’اسم الظاہر‘‘، زمانہ غیبت میں ’’اسم الباطن‘‘ اور زمانہ ظہور میں ’’اسم الجامع بین الباطن و الظاہر‘‘ کی جہت سے ہمارے سامنے ظاہر ہوگی۔ ان اسماء الہی کا اقتدار بشریت کے لحاظ سے ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کا ظاہر یا باطن نہیں۔ یہ ظاہر اور باطن امت کی جہت سے ہے۔ امت کے فقر اور احتیاج کی وجہ سے اللہ تعالی ظاہر اور باطن کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ ورنہ اس کے لیے کوئی شے مخفی نہیں۔ وہ «عالم الغيب و الشهادة» ہے۔ وہ واحد حقیقت ہے «هو الاول و الاخر و الظاهر و الباطن»۔[2] حدید: ۳۔ یہ نہیں کہا گیا کہ وہ دو جہات سے اول اور آخر ہے۔ بلکہ جو اول ہے وہی آخر بھی ہے۔ اور جو ظاہر ہے وہی باطن ہے۔

زمانہ غیبت۔اسم باطن کا دور

زمانہ غیبت میں اسم باطن کی سلطنت ہے۔ خدا کا خلیفہ جو امت کا امام ہے امت میں سے غائب ہے۔ لیکن باطنی طور پر امام اپنی امت میں موجود ہیں۔ اسم باطن کی اپنی مخصوص برکات اور نتائج ہیں جو الگ بحث ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ خوابوں کی تعبیر کے بارے میں بھی وارد ہوا ہے کہ خواب تأویل اور تعبیر رکھتے ہیں جس طرح ہر واقعے اور حادثے کی تعبیر اور تأویل ہے۔ زمانہ غیبت کی بھی تعبیر ہے۔ روایت میں آیا ہے: «الناس نیام اذا ماتوا انتبهو». [3] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴، ص۴۳۔ یہ دنیا اور اس کے تمام واقعات اور حادثات، اخروی زندگی کے مقابلے میں خواب ہیں۔ اس لیے انسان جب مرے گا تو خواب سے بیدار ہوگا اور سب حقیقت اس کے سامنے آ جائے گی۔ اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ برزخ کے مراحل گزارنے کے بعد جب انسان قیامت کے لیے تیار ہوگا تو اسے قبر، منکر اور نکیر کے سوالات وغیرہ سب خواب لگیں گے۔ قیامت کی نسبت برزخ کا عالَم پھر خواب محسوس ہوگا۔ خواب کے احکام میں وارد ہوا ہے کہ خواب میں انسان کی صرف صورت موجود ہے اس کی حقیقت بعد میں تعبیر یا تاویل ہوگی۔ انسان جب اس دنیا میں خواب دیکھ رہا ہوتا ہے جب تک خواب کی حالت میں ہے اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ بیدار ہے اور حقیقت دیکھ رہا ہے۔ انسان جب تک اس دنیا میں ہے اگر اسے برزخ کی نسبت سے دیکھیں تو وہ خواب دیکھ رہا ہے، اور جب برزخ میں ہوگا تو قیامت کی نسبت خواب میں ہوگا لیکن دنیا کی نسبت بیدار۔ ہر دور کی حقیقت اس سے اگلے آنے والے عالَم میں ظاہر ہوگی۔ ہم جو اعمال انجام دیتے ہیں ان سب کی حقیقت ہے جو آخرت میں مجسم ہو کر سامنے آ جاۓ گی۔ ایک گناہ جو ہم اس دنیا میں انجام دیتے ہیں ظاہری طور پر ایک جسمانی عمل انجام ہوا ہے، لیکن اس کی کیا حقیقت ہے اور کیا صورت ہے؟ وہ اس وقت دکھائی دے گی جب اس کام کی تعبیر اور تأویل دکھائی جاۓ گی۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا»

جو لوگ نا حق یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس آگ بھرتے ہیں۔ [4] نساء: ۱۰۔ انسان ہر عمل جو انجام دیتا ہے در اصل دانہ ہے جو اس نے کاشت کیا ہے اور اس کا پھل بعد میں آشکار ہوگا۔ ظاہری طور پر یتیم کا مال کھانے والا کیا کر رہا ہے؟ فرض کر لیں اس کے مال سے کوئی کھانا کھا رہا ہے لیکن اس کی حقیقت یہ نہیں جو نظر آ رہی ہے بلکہ وہ اپنے وجود میں آگ بھر رہا ہے۔

غیبت کی سنت

امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے:

«حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ الْعَطَّارُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِی‏ عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُتَیْبَةَ النَّیْسَابُورِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمْدَانُ بْنُ سُلَیْمَانَ النَّیْسَابُورِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِیِّ قَالَ سَمِعْتُ الصَّادِقَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ع یَقُولُ‏ إِنَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ غَیْبَةً لَا بُدَّ مِنْهَا یَرْتَابُ فِیهَا کُلُّ مُبْطِلٍ فَقُلْتُ وَ لِمَ جُعِلْتُ فِدَاکَ قَالَ لِأَمْرٍ لَمْ یُؤْذَنْ لَنَا فِی کَشْفِهِ لَکُمْ‌ قُلْتُ فَمَا وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ قَالَ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَاتِ مَنْ تَقَدَّمَهُ مِنْ حُجَجِ اللَّهِ تَعَالَى ذِکْرُهُ إِنَّ وَجْهَ الْحِکْمَةِ فِی ذَلِکَ لَا یَنْکَشِفُ إِلَّا بَعْدَ ظُهُورِهِ کَمَا لَمْ یَنْکَشِفْ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِیمَا أَتَاهُ الْخَضِرُ ع مِنْ خَرْقِ السَّفِینَةِ وَ قَتْلِ الْغُلَامِ وَ إِقَامَةِ الْجِدَارِ لِمُوسَى ع إِلَى وَقْتِ افْتِرَاقِهِمَا یَا ابْنَ الْفَضْلِ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ وَ غَیْبٌ مِنْ غَیْبِ اللَّهِ وَ مَتَى عَلِمْنَا أَنَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ حَکِیمٌ صَدَّقْنَا بِأَنَّ أَفْعَالَهُ کُلَّهَا حِکْمَةٌ وَ إِنْ کَانَ وَجْهُهَا غَیْرَ مُنْکَشِفٍ».

عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے بے شک اس امر کے صاحب کے لیے غیبت حتمی ہے۔ اس غیبت میں ہر مُبطل (جو شخص خود باطل پر ہے اور باطل کو پھیلاتا ہے) شک میں پڑ جاۓ گا، میں نے کہا میں آپ پر فدا ہو جاؤں غیبت کس لیے قرار دی جاۓ گی؟ فرمایا اس امر کو  کشف کرنے کا ہمیں اذن نہیں۔ میں نے کہا اس غیبت میں کیا حکمت چھپی ہے؟ فرمایا: اس کی غیبت میں وہی حکمت چھپی ہے جو اس سے پہلے آنے والی اللہ تعالی کی حجتوں کی غیبت میں چھپی ہے۔ اس غیبت کی حکمت آشکار نہ ہوگی مگر اس کے ظہور کے بعد۔ جس طرح حضرت خضرؑ کا، کشتی کو خراب کرنا، لڑکے کو قتل کرنا، اور دیوار کو گرانے کی حکمت، اس وقت کشف ہوئی جب دونوں جدا ہوۓ۔ اے فضل کے بیٹے! یہ امر اللہ تعالی کے امور میں سے ہے، اللہ تعالی کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالی کے غیوبات میں سے ایک غائب ہے اس لیے جب ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالی حکیم ہے پس تصدیق کریں گے اس کے تمام افعال حکمت کے ساتھ ہیں اگرچہ اس امر کی صحیح وجہ ہم پر آشکار نہ ہو۔ [5] صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۴۸۲۔

زمانہ غیبت کو سمجھنے کے لیے اس روایت کے ایک ایک کلمے پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ابتداء میں امام فرماتے ہیں کہ صاحب امر کے لیے غیبت لازم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگر حضرات معصومینؑ مثلا امام حسن عسکریؑ کو ظاہری طور پر امت اپنا امام مان لیتی اور ان کو حاکمیت مل جاتی تب بھی غیبت ہونا تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو فقط اس وجہ سے غیبت حاصل ہوئی کہ امت نے ان کو اپنا امام نہ مانا اور ان کی ظاہری حکومت تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ ہاں یہ غیبت کی ایک علت ہے لیکن علت تامہ نہیں۔ غیبت اللہ تعالی کی طرف سے ہے، لیکن اس غیبت کا طویل ہو جانا اللہ تعالی کی طرف سے نہیں جیسا کہ تکراری طور پر پہلے بھی عرض ہوا کہ غیبت کے طولانی ہونے میں امت قصور وار ہے۔ خود غیبت کی سنت گزشتہ انبیاء کرامؑ میں بھی جاری ہوئی۔

انبیاء کرامؑ کا غیبت میں جانا

اگر کتاب ’’کمال الدین‘‘ کی طرف رجوع کریں تو اس میں بہت سی روایات دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بہت سے انبیاء کرامؑ کو غیبت حاصل ہوئی۔ حتی بعض انبیاء کرام کو ان کی حاکمیت کے دور میں غیبت حاصل ہوئی۔ سلیمان نبیؑ یا موسی کلیم اللہؑ کے بارے میں آیا ہے کہ ان کو غیبت اس دور میں حاصل ہوئی جب قدرت ان کے ہاتھوں میں تھی اور ان کی حاکمیت کا دور تھا۔ ایسا نہیں کہ حجتِ خدا کو غیبت صرف اس صورت میں حاصل ہوتی ہے جب اس کی محجوریت کا دور ہو، امت نے امام کو تنہا کر دیا ہو اور حجتِ خدا کے قتل کے خوف سے اسے غیبت عطا ہوئی ہو۔ غیبت اس لیے قرار دی جاتی ہے کہ امت ظاہر سے باطن کی طرف عبور کرے۔ بلکہ زمانے کی حدت کے لیے غیبت حاکمیت اور اقتدار کے دور میں زیادہ لازم ہو جاتی ہے۔ خود ’’صاحب هذا الامر‘‘ کے الفاظ بہت دقیق ہیں۔ امام فرماتے ہیں اگرچہ ہم سب اولی الامر ہیں لیکن اس امر کے ایک صاحب ایسے جن کو غیبت حاصل ہوگی حو حتمی ہے۔

ضلالت۔ ابتدائی یا جزائی

«یَرْتَابُ فِیهَا کُلُّ مُبْطِلٍ»سے مراد یہ ہے کہ زمانہ غیبت میں جس انسان کے وجود میں باطل ہوگا اور باطل کو پھیلاتا ہوگا وہ شک میں پڑ جاۓ گا۔ اس سے پہلے ایک روایت میں ہم نے پڑھا تھا کہ غیبت کی وجہ سے کوئی بھی شک میں مبتلا نہیں ہوگا۔ اس روایت میں آیا تھا کہ اگر اللہ تعالی کو علم ہوتا کہ غیبت کی وجہ سے کوئی ایک فرد بھی امرِ امامت میں شک میں پڑ جاۓ گا تو یہ غیبت کبھی بھی قرار نہ دی جاتی۔ ان دو روایات کو کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔ ایک روایت کہہ رہی ہے کہ غیبت سے کوئی شک میں نہیں پڑے گا اور دوسری روایت کہہ رہی ہے کہ ’’مبطل‘‘ شک میں پڑجاۓ گا؟ ان دو روایات کا جمع ممکن ہے۔ اللہ تعالی ابتدائی طور پر ضال نہیں ہے۔ ضلالت انسان کو اس کے اعمال کی جزاء کی صورت میں ملتی ہے، نا یہ کہ خدا کسی کو ابتدائی طور پر ضلالت میں ڈال دے۔ قرآن کریم میں جب ذکر ہوا:

«یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ».[6] رعد: ۲۷۔ اگر کسی انسان کو اس کے اعمال کی وجہ سے ضلالت حاصل ہو جاۓ تو اس کا باعث وہ خود ہے اور اس کے نتیجے میں «فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا». [7] بقرہ: ۱۰۔ بن جاتا ہے اور اس کے دل میں خدا مرض کو زیادہ کر دیتا ہے۔ یہ مرض خدا کی طرف سے نہیں تھی خود ان کے وجود کے اندر تھی اب ان کی ضلالت کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔ پس ضلالت ابتدائی نہیں ہو سکتی، ہاں! ہدایت ابتدائی ہو سکتی ہے، نتیجتا ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیبت شک اور گمراہی کا باعث نہ بنے گی مگر یہ کہ خود کسی کے وجود میں پہلے سے شک اور گمراہی موجود ہو۔ «وَ مَا یُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ». [8] بقرہ: ۲۶۔ صرف مبطل شک میں پڑے گا۔ مبطل مفسد کی مانند ہے۔ فاسد اور مفسد میں فرق ہے۔ فاسد وہ ہوتا ہے جو خود فساد میں ہے لیکن دوسروں کو فساد میں نہیں دھکیلتا۔ مفسد وہ ہوتا ہے جو خود تو فساد میں ہے دوسروں کو بھی فساد میں ڈالتا ہے۔

غیبت کی علت

روایت کے اگلے حصے میں راوی امامؑ سے غیبت کی علت کے بارے میں پوچھتا ہے: «فَقُلْتُ وَ لِمَ جُعِلْتُ فِدَاکَ» اس کے جواب میں امام نے فرمایا کہ اس امر کو کھولنے کا ہمیں اذن نہیں۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام نے غیبت کی علت کیوں بیان نہیں فرمائی؟ کیا یہ علت قابل بیان ہے؟ یا قابل بیان ہی نہیں؟ علت بیان کرنے کی تکوینی طور پر اجازت نہیں دی گئی یا اجازت تو ہے لیکن خود امام نہیں بیان کرتے۔ روایت کے تتمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ غیبت ایک ایسا امر ہے جس کی علت کو کشف کرنا امام کے لیے تکوینی طور پر مأذون نہیں۔ یعنی بیان کرنے کا امکان نہیں بلکہ ایک ایسا امر ہے جسے شہود کیا جاۓ تو سمجھ آتا ہے ذکر و بیان سے سمجھ نہیں آتا۔

غیبت کی حکمت

راوی نے جب دیکھا کہ امام نے غیبت کی علت نہیں بتائی تو پوچھا: «قُلْتُ فَمَا وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ». اس غیبت کی حکمت کیا ہے؟ امام فرماتے ہیں: «وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ وَجْهُ الْحِکْمَةِ  فِی غَیْبَاتِ مَنْ تَقَدَّمَهُ مِنْ حُجَجِ اللَّهِ تَعَالَى ذِکْرُهُ». تمام گزشتہ امتوں نے زمانہ غیبت کو گزارا۔ اللہ تعالی نے تمام امتوں کے لیے یہ کمال قرار دیا ہے۔ ہر امت کے لیے غیبت اور ظہور قرار دیا گیا، ظہور کے بعد اس حکمت کو امت نے سمجھا۔ لہذا امام زمانؑ کی غیبت جو گزشتہ تمام انبیاء، و اوصیاء کی غیبت کی اتم اور اکمل شکل ہے، اس کی حکمت بھی ظہور کے بعد آشکار ہوگی۔ یہ ایک عینی حقیقت ہے۔ اس کو بیان کرنے کا امکان نہیں۔ باالفاظ دیگر غیبت کی حقیقت نظری نہیں بلکہ حسی ہے اس کو آنکھوں سے دیکھیں گے تو تب سمجھ آ سکتی ہے۔ جیسا کہ روح کے بارے میں فرمایا:

«وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّ».[9] اسراء: ۸۵۔ اللہ تعالی نے روح کے متعلق سوال پر فرمایا کہ اس کا امر میری طرف سے ہے۔ یعنی عالَم امر میں سے ہے۔ یہاں پر ایسا نہیں کہ روح کے متعلق سوال کو بنا جواب دیے چھوڑ دیا بلکہ یہی جواب ہے۔ غیبت اور اس کی حکمت کے متعلق سوال بھی اسی سنخ کا ہے۔ اور یہ حقائق عینیہ سے تعلق رکھتا ہے جب تک آنکھوں سے دیکھ نہ لیں حقیقت آشکار نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک امر کی ایک جزء بیان کر دی جاۓ ممکن ہوتا ہے وہ شے معلوم ہو جاۓ لیکن بعض امور ایسے ہیں جب تک ان کی آخری فصل ان سے ملحق نہ ہو جاۓ وہ شے معلوم نہیں ہو سکتی۔ غیبت کی آخری فصل جو کہ ظہور ہے، جب تک وہ اس کے ساتھ ملحق نہیں ہو جاتی تب تک اس کی علت آشکار نہیں ہو سکتی۔ لہذا ایسا نہیں تھا کہ امام فرمانا چاہتے ہوں کہ اس کی حقیقت کو میں بیان نہیں کرتا کہ تم نافہم ہو اور نہیں درک کر سکتے۔ غیبت کی حکمت اصلاََ بیان ہونے والی شے نہیں بلکہ حقیقت عینیہ ہے جسے صرف دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی حد اکثر بیان میں آنے والی مقدار یہی ہے جو امام نے بیان فرما دی اس سے زیادہ مقدار قابل بیان نہیں۔

حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کے واقعے سے تشبیہ

«کَمَا لَمْ یَنْکَشِفْ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِیمَا أَتَاهُ الْخَضِرُ ع مِنْ خَرْقِ السَّفِینَةِ وَ قَتْلِ الْغُلَامِ وَ إِقَامَةِ الْجِدَارِ لِمُوسَى ع إِلَى وَقْتِ افْتِرَاقِهِمَا».

روایت کے اگلے حصے میں امامؑ نے غیبت اور ظہور کے جریان کو حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کے اس واقعے سے تشبیہ دی جس میں حضرت موسیؑ نے حضرت خضرؑ کے تین کاموں پر اعتراض کیا۔ حضرت خضرؑ کا کشتی کو سوراخ کرنا، بچے کو قتل کرنا اور دیوار تعمیر کرنا اگرچہ ظاہری طور پر نظام تشریعی میں ایک قبیح عمل تھا لیکن ان تین کاموں کے پیچھے ایک حقیقت چھپی تھی، ایک تعبیر اور تأویل چھپی تھی جو دونوں کے درمیان جدائی کے وقت آشکار ہوئی۔ حضرت خضرؑ نے اپنے تینوں کاموں کی وجہ بیان کی اور حضرت موسیؑ قانع ہو گئے۔ غیبت کی حکمت بھی اس وقت آشکار ہوگی جب ظہور ہوگا اور سب پر واضح ہو جاۓ گا کہ غیبت نے لوگوں کے ساتھ کیا کام کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ظہور ہوگا تو حضرت تشریف لائیں گے اور ظاہری طور پر حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے جو ان کا حق ہے اور اس سے پہلے ان کے آباء کو نہ مل سکا۔ جی نہیں! فقط اتنا نہیں۔ بلکہ اس عالَم کو اپنی غایت اور انتہا تک پہنچانا ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ اللہ تعالی کے ارادات، غایات اور نہایات ہیں۔ ان سب غایات اور نہایات تک پہنچنا ہے اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ان سب ارادوں کو پورا کرے اور یہ سب ظہور کے وقت پورا ہونگے۔

غیبت۔ سر اور امر کا دور

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

«یَا ابْنَ الْفَضْلِ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى».

یہ موضوع عالَم امر سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دور اسم باطن کا دور ہے۔ جس طرح سے روح کے بارے میں فرمایا کہ وہ نظام امر سے ہے۔ روایات میں مختلف عوالم کے بارے میں وارد ہوا ہے مثلا ان میں سے ایک عالَم خلق ہے اور دوسرا عالَم امر۔

«وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ وَ غَیْبٌ مِنْ غَیْبِ اللَّهِ».

امام نے دوران غیبت کو دوران غیب قرار دیا ہے۔ یہ بہت دقیق اور غور طلب الفاظ ہیں۔ سِر اور امر کا دور ہے۔ ہم جانتے ہیں اگر سِر بیان ہو جاۓ وہ سِر نہیں رہتا، یا امر اگر بیان ہو جاۓ وہ امر نہیں۔ غیب اگر بیان ہو جاۓ وہ غیب نہیں کہلاتا۔ ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا، اگر بیان کر دیا تو ظاہر ہو جاۓ گا جبکہ یہ سب امور انسان کے درون میں مشہود ہونے والے ہیں۔ جب کہا گیا ہے کہ دوران غیبت کی حقیقت غیب، سر اور امر ہے۔ فقط دوران ظہور آشکار ہوگی اس لیے کہ ظہور کا دور اسم جامع کا مظہر ہے۔ اس وقت غیب ظاہر ہو جاۓ گا، صرف مفہومی صورت میں ظاہر نہ ہوگا بلکہ شہودی علم کی صورت میں آشکار ہو جاۓ گا۔

ظہور امام کے وقت لوگوں کو حصولی طور پر نہیں بلکہ شہودی طور پر علم حاصل ہو جاۓ گا اور اس حقیقت کو دیکھیں گے۔ لہذا اس دور کو بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ جب اس دور کو پہنچیں گے تو علم حاصل ہو جاۓ گا۔ ان مطالب کے آگے ہم ایک گونگے بہرے انسان کی مانند ہیں جو بول سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔ ایسے حقائق ان کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں جن کے بارے میں امام فرماتے ہیں کہ ان کو کشف کرنے کی ان کو اجازت نہیں۔ لیکن ہم ان حقائق کو ہاتھ پیر مار کر کھولنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور جتنی کوشش کرتے ہیں حقیقت سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ اگر ہم اتنی مقدار میں سمجھ لیں کہ غیبت کی حقیقت بیان کرنے کی سنخ سے نہیں، مفاہیم اور ظاہر کی سنخ سے نہیں بلکہ غیب کی سنخ سے ہے تو اتنا کافی ہے۔ لذا وارد ہوا ہے کہ «یومنون بالغیب» کے مصادیق میں سے ایک مصداق یہی غیبت امام زمان پر ایمان لانا ہے۔

غیب کے مراتب

ہمارے پاس غیب کے مراتب موجود ہیں۔ ایک دفعہ از لحاظِ بدن غیبت ہے۔ اور ایک دفعہ غیبت از لحاظ نظامِ روح ہے۔ نظامِ روح، نظامِ عالم امر یا نظام عالمِ غیب ہے۔ اس کو نظام عالَم سِر بھی کہہ سکتے ہیں۔ نظام روح ہمارے لیے جو کہ عالمِ بدن اور عالمِ محسوس میں موجود ہیں وہ عالَم ہمارے لیے غائب اور باطن ہے۔ لیکن اگر کسی کا نظام روح پر تسلط حاصل ہے اس کے لیے غیبت کا دور نظامِ غیب قرار نہیں پاۓ گا با الفاظ دیگر اس کے لیے امام غیبت میں بھی آشکار ہونگے۔ امیرالمومنینؑ اور بقیہ آئمہ معصومینؑ عام لوگوں کے لیے دوران اسم ظاہر میں موجود تھے۔ ہاں کچھ خواص کے لیے اور اصحاب سِر کے لیے اسرار بیان کرتے اور غیب کو ان کے لیے آشکار کرتے۔ لیکن زمانہ غیبت میں یہی خواص عمومیت حاصل کر لیں گے، سب مخاطب اس مرتبہ کو پہنچ جائیں گے جو امام علیؑ کے دور میں صرف چند خواص کو حاصل تھا۔ اس لیے ہم نے گزشتہ دروس میں بھی عرض کیا کہ امام زمانؑ بقیہ آئمہ معصومینؑ کی نسبت زیادہ فعال تر ہیں۔ آئمہ معصومینؑ کے دور میں عام افراد امام سے جسمانی ارتباط برقرار کرتے لیکن امام زمانؑ سے لوگوں کا ارتباط جسمانی نہیں بلکہ نظام روح سے سب کا ارتباط ہے۔ سب سورج کے نور کو محسوس کر رہے ہیں اور محضر میں ہیں، اس طرح سے نہیں کہ سورج کی ٹکیہ ابھی فلاں جگہ پر ہے تو اسی سے نور ہم تک پہنچ رہا ہے بلکہ سورج کی ٹکیہ ظاہری طور پر غائب ہے لیکن پھر بھی اس کا نور سب تک پہنچ رہا ہے۔ سروج کی ٹکیہ نظر نہیں آ رہی ایسا نہیں کہ خود سورج بھی چلا گیا ہو۔ ظہور کے زمانے میں بدن بھی ہوگا اور نظام روح بھی لیکن بدن روح کے نظام کے تابع ہوگا۔

Views: 35

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: زمانہ غیبت میں امت کا معنوی رُشد درس۲
اگلا مقالہ: عمل صالح اور غیبت امام مہدیؑ