loading

«دروس شرح الکافی»

زمانہ غیبت میں امت کا معنوی رُشد

تدریس: آیت اللہ رضا عابدینی
تدوین: عون نقوی (درس۲)

بیان ہوا کہ امام زمانؑ کا غیبت اختیار کرنا اللہ تعالی کی طرف سے ہے لیکن غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ امت ہے۔ اب تک امام ظاہر کیوں نہیں ہو سکے؟ اس عرصے کے طولانی ہونے میں امت قصور وار ہے۔ اللہ تعالی امتوں سے حجت کو غائب کیوں کر دیتا ہے؟ بعض روایات میں آیا ہے کہ امت کے رشد کے لیے ضروری ہے کہ حجت ان سے پوشیدہ کر دی جاۓ۔ مثلا ایک روایت میں وارد ہوا ہے:

«سَأَلْتُ سَیِّدِی مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ ع عَنْ‏ قَوْلِ‏ اللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَ‏ وَ أَسْبَغَ‏ عَلَیْکُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَ باطِنَةً قَالَ النِّعْمَةُ الظَّاهِرَةُ الْإِمَامُ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنَةُ الْإِمَامُ الْغَائِبُ ؛ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ فَیَکُونُ فِی الْأَئِمَّةِ مَنْ یَغِیبُ قَالَ نَعَمْ یَغِیبُ عَنْ أَبْصَارِ النَّاسِ شَخْصُهُ وَ لَا یَغِیبُ عَنْ قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ ذِکْرُهُ».

محمد بن زیاد ازدی کہتے ہیں کہ میں نے امام موسی کاظمؑ سے «وَ أَسْبَغَ‏ عَلَیْکُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَ باطِنَةً» کی تفسیر پوچھی۔ امام نے فرمایا: ظاہری نعمت سے مراد امامِ ظاہر ہیں۔ اور باطنی نعمت سے مراد امامِ غائب ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا آئمہ میں سے کوئی امام ہے جو غائب ہوگا؟ فرمایا: ہاں! اس کی شخصیت لوگوں میں سے غائب کر دی جاۓ گی لیکن اس کی یاد مومنین کے قلب سے غائب نہ ہوگی۔ [1] شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج ۲، ص ۳۶۸۔

اس روایت کے مطابق امامِ غائب بھی نعمت ہے۔ امام کا امت میں سے غائب ہو جانا کوئی سزا یا عقاب نہیں۔ اصل یہ ہے کہ امام مومنین کے قلوب اور ان کی یاد سے غائب نہ ہوں۔ غیبت صرف بدن کی ہے، جس طرح سے اس روایت میں بھی آیا ہے کہ شخصیتِ امام مومنین سے غائب ہو جاۓ گی، آیا خود امام بھی ان میں سے غائب ہونگے؟ ہرگز نہیں! قلوب اور ارواح مرتبط ہوں گی۔ امام کا بدن ہماری نظروں سے اوجھل ہے لیکن امامت کے تمام آثار قابل رؤیت ہیں۔

غیبت کی مخفی صدقے سے تشبیہ

صدقہ دو طرح سے دیا جاتا ہے۔ ایک وقت ہم اعلانیہ صدقہ کرتے ہیں اور ایک دفعہ ہم عام لوگوں سے چھپ کر صدقہ کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جو صدقہ چھپ کے کیا جاتا ہے وہ اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ وارد ہوا ہے کہ وہ شخص غضبِ الہی سے دور ہو جاتا ہے جو چھپ کر صدقہ کرتا ہو۔ اگر انسان خدانخواستہ کسی گناہ میں مبتلا ہو اور نجات چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ چھپ کر صدقہ کرے۔ غیبت کے بارے میں آیا ہے کہ غیبت کے دور میں امام، چھپ کے کیے جانے والے صدقے کی مانند ہیں جس کے آثار اور فوائد بہت زیادہ ہیں۔

بدن کے مرحلے سے عبور کا دور

انسان کے وجود کے لیے بہت سطحی اور نچلا مرحلہ جسے حیوانی مرحلہ بھی کہا جا سکتا ہے ، یہ ہے کہ وہ بدن کے مرحلے تک خود کو محدود کر لے۔ یعنی بدن کی ضروریات کو پورا کرے جس طرح سے حیوان کھاتا ہے، پیتا ہے، کھیلتا کودتا ہے اور شہوت پوری کر کے نسل بڑھاتا ہے۔ اگر انسان کی زندگی بھی انہیں مراحل کے اردگرد گھومتی رہے اسے ہم بدن کے مرحلے تک محدود انسان کہیں گے۔ غیبت ایک ایسا دور ہے جس میں منتظرینِ امام نے بدن کے مرحلے سے عبور کرتے ہوۓ حقیقتِ وجودی امام سے مرتبط ہونا ہے۔ انسان کا کمال اس میں ہے کہ وہ بدن کے بجاۓ اپنی روح کو تقویت کرے۔ انسان اپنے امام سے ارتباط برقرار کرنے کا سوچے تو ذہن میں یہ نہ آۓ کہ ان کو جا کر جسمانی آنکھوں سے دیکھے، ان سے جا کر ملے۔ بدنی ارتباط تک محدود نہ رہے۔ کیونکہ اگر امام سے بدنی ارتباط برقرار رکھتا ہے تو اس کا مطلب ابھی بدنی مرحلے سے عبور نہیں کیا۔ مثلا انسان جب سورج کو دیکھتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک نور پیدا کرنے والی شے کو دیکھ رہا ہے۔ اس کا مطلب اس پر بدن کی حاکمیت ہے۔ لیکن اگر انسان سورج کو دیکھے اور خدا کو اصل نور کا منبع قرار دے جس سے تمام موجودات نور اور وجود لیتے ہیں تو اس وقت یہ انسان بدن کے مرحلے سے عبور کرتا ہے اور نظامِ نور تک پہنچتا ہے۔ روز قیامت جس نگاہ سے انسان حقائق کو درک کرے گا اس نگاہ کو غیبت کے دور میں آمادہ کیا جانا ہے۔ اگر انسان یہ نگاہ حاصل کر لے اور اپنے بدن سے عبور کر کے حقائق کو اس نظر سے دیکھنے لگے جس طرح سے وہ ہیں اس کے لیے غیبت معنی نہیں رکھے گی۔ اور اس سب کے لیے ضروری ہے کہ بدن کو قوی کرنے کی بجاۓ روح کو قوی کرے۔

غیبت اسم باطن کا مظہر

حضرات معصومینؑ جس دور میں لوگوں میں موجود تھے وہ ’’اسم ظاہر‘‘ کا مصداق ہے۔ غیبت ’’اسم باطن‘‘ کا دور ہے جس میں اگرچہ امام موجود ہیں لیکن لوگوں میں حاضر نہیں۔ اور ظہور کا دور ’’اسم جامع‘‘ کا دور ہوگا۔ ظہور کے دور میں اسم ظاہر اور اسم باطن ہر دو جمع ہو جائیں گے لیکن اس دور میں اسم ظاہر سے زیادہ اسم باطن کا غالب ہوگا۔ اس معنی میں کہ لوگ امام سے بدنی ارتباط برقرار بھی کریں گے لیکن اس سے زیادہ اور قوی ارتباط امام سے روحی نظام سے ہوگا۔ بدنی نظام بھی موجود ہوگا، امام کو ان کے بدن کے ساتھ بھی ظاہر طور پر دیکھا جا سکے گا لیکن اس دور میں لوگ مرحلہ بدن سے عبور کر چکے ہونگے اور امام سے روحی ارتباط برقرار کریں گے۔ کیا آج کے دور میں ہم جیسے لوگ ایسا کر سکتے ہیں؟ جی نہیں! کیونکہ ہم پر بدن ثقیل ہے ہم بدنی نظام کے تحت چلتے ہیں۔ غیبت کا دور اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ انسان بدن کے مرحلے سے عبور کریں، اس کا ایک مرحلہ کم کھانے، کم سونے اور کم ہنسنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ یہ ہے کہ انسان ارتباط برقرار کرنے کے لیے فقط حواس ظاہرہ تک محدود نہ رہے، بلکہ روحی ارتباط برقرار کرے۔ کیونکہ ارتباط برقرار کرنے کا سب سے نچلا ترین درجہ یہی حواس ہیں۔ ظہور کے دور میں لوگوں کا شہودی مرتبہ اور قلبی ارتباطات عروج پر ہوگا۔

عمومی فرج اور انفرادی فرج

اگر بدن کے مرحلے سے ایک انسان عبور کر لے۔ اور ارتباط برقرار کرنے میں فقط حواس ظاہرہ تک محدود نہ رہے، تو اس کے لیے غیبت معنی نہیں رکھے گی۔ با الفاظ دیگر اس بحث کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیبت اور ظہور کے مراتب ہیں۔ یعنی ممکن ہے ایک شخص کے لیے ظہور ہو اور دوسرے شخص کے لیے غیبت۔ بہرحال اگر امت اجتماعی طور پر عمومی طور پر فرج کے لیے آمادہ نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انفرادی فرج یا جسے ہم ’’فرج انفسی‘‘ کہہ رہے ہیں وہ بھی ممکن نہ ہو۔ جس نے جس مرحلے تک بدن کے مرحلے سے عبور کیا ہے اس کے لیے نسبتا ظہور ہے اور جو اس کمال کی طرف بہت سستی سے بڑھ رہا ہے اس کے لیے غیبت ہو۔ حضرتؑ کے قیام کے وقت جب عمومی طور پر فرج حاصل ہو جاۓ گی تب تو عام افراد بھی امامؑ سے مستفیض ہو سکیں گے، لیکن ابھی غیبت کے دور کی بات ہے جس میں ’’فرج انفسی‘‘ ممکن ہے۔ یعنی ہو سکتا ہے ایک فرد یا ایک گروہ مل کر اعمال انجام دیں یا عہد کریں اپنے امام سے اور اسے وفا کریں اور ان کے لیے فرج حاصل ہو جاۓ۔ انسان جتنا بدن کے مرحلے سے عبور کرتا جاۓ گا اور روح کو تقویت کرے گا اس کے لیے مرتبے کے اعتبار سے اتنی ہی غیبت کم اور ظہور حاصل ہوتا جاۓ گا۔ خود ظہور بھی اس طرح سے نہیں ہوگا کہ اچانک سب کے لیے ہی عمومی فرج حاصل ہو جاۓ اور سب کے لیے غیبت ختم ہو جاۓ۔ اس لیے روایات میں آیا ہے کہ بعض لوگ اسی رات کو ملحق ہونگے، کچھ لوگ صبح ملحق ہونگے۔ امام کے قیام سے بہت کم لوگ اسی وقت ملحق ہونگے جب اعلان ہوگا۔ بقیہ لوگوں کے لیے یہ الحاق آہستہ آہستہ حاصل ہوگا۔ ظہور کے اعلان کی صدا سنتے ہی سب افراد کے لیے فرج حاصل نہیں ہو جاۓ گا بلکہ مرحلہ بمحرحلہ حاصل ہوگا۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے لیے ’’انفسی فرج‘‘ حاصل ہو جاۓ اس کو عمومی فرج سے کوئی کمال حاصل ہوگا یا اسے جو کمال حاصل ہونا تھا ہوچکا ہے؟ اس کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا انفرادی پہلو ہے اور دوسرا اجتماعی۔ انسان کا اجتماعی پہلو خود کمالات میں سے ہے پس اگر ایک انسان اجتماعی نہیں ہے تو خود انسانیت کے تقاضے بھی اس نے پورے نہیں کیے۔ اگر کسی کے لیے ’’انفسی فرج‘‘ حاصل ہو جاۓ اور بعد میں عمومی فرج بھی حاصل ہو جاۓ تو اس کے لیے ایک اور کمال حاصل ہوگا جو کہ کلمہ توحید کا پوری دنیا میں قائم ہونے کا کمال ہے۔ اور یہ اس اجتماع کا حصہ ہوگا جس نے یہ عظیم ہدف پورا کرنا ہے۔ کیونکہ خود توحید کا پورے عالم میں غلبہ حاصل ہو جانا ایک بہت بڑا امر ہے جس کے لیے تمام انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ نے زحمات اٹھائیں۔ لہذا جب امام صادقؑ نے غیبت کے زمانے میں عبادات کا کئی گنا ثواب بیان کیا اور غیبت کے زمانے کی دیگر خصوصیات کا ذکر کیا تو راوی نے کہا کہ یہ زمانہ تو بہت بہتر ہے ہمارے لیے تو کیا ہم فرج کی دعا نہ کریں؟ امام نے فرمایا: کیا تم یہ پسند نہیں کرو گے کہ توحید کا پرچم پوری دنیا پر حاکم ہو جاۓ؟ یعنی امام فرمانا چاہتے ہیں کہ وہ لذت جو مومن کو توحید کے پوری دنیا پر حاکم ہونے سے حاصل ہوگی اس کا مقابلہ کوئی اور امر نہیں کر سکتا۔

نزول اور صعود کے مراتب

جب بھی فساد اور شر بڑھ جاۓ سمجھ لیں کہ کمال کی طرف بڑھنے کی سیر بھی تیز ہو گئی ہے۔ کیونکہ نزول کے مراتب صعود کے مراتب کے مطابق ہیں۔ لہذا روایت میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عیسیؑ کی آمد سے پہلے شیطان کو ساتوں آسمانوں تک رسائی حاصل تھی لیکن حضرتؑ کی ولادت کے بعد اس کی رسائی کو فقط چار آسمانوں تک محدود کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاۓ تو مجموعی طور پر ساتوں میں سے کسی ایک میں بھی رسائی حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔ شیطان کی رسائی ہر دور میں اس دور کی بشریت کے کمال کے مطابق ہے۔ اگر کسی دور میں بشریت میں شیطنت بہت زیادہ نظر آ رہی ہے تو حتما وہاں پر کمال کی سیر بھی تیز تر ہو جاۓ گی۔ کیونکہ بشریت میں اصل یہ ہے کہ وہ سعادت کی طرف بڑھے۔ یہ جو ہم شقاوت اور شر دیکھتے ہیں ہر طرف اور ظلم و ستم، اس طرح سے نہیں کہ سب کی سب بشریت اہل جہنم ہو گئی ہے۔ بلکہ ان میں سے فقط وہ افراد اہل جہنم ہیں جو دینِ خدا سے دشمنی کرتے ہیں اور علم رکھتے ہوۓ دینِ خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی سب جاہل یا قاصر ہیں اور اہل نجات۔ البتہ ان کو بھی مفت میں نجات نہیں ملے گی بلکہ دنیا میں، مرتے وقت، یا قیامت میں ان پر شدید وقت آۓ گا بالآخر نجات پا جائیں گے۔

قرآن کریم میں جب وارد ہوتا ہے: «أَکْثَرَهُمْ لَا یَشْکُرُونَ»[2] نمل: ۷۳۔ ، «أَکْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُونَ»[3] عنکبوت: ۶۳۔ ، «قَلِیلٌ مِنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ»[4] سبأ: ۱۳۔ ان آیات کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کی اکثریت اہل جہنم ہے۔ بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اس کمال تک نہیں پہنچ سکے جس تک ان کو پہنچنا چاہیے۔ ان میں سے صرف وہی اہل نار ہے جو دشمنی کرتا ہے۔ ہمارا کام اس کمال کی طرف حرکت کرنا ہے۔ عطا کرنا خداوند متعال کا کام ہے۔ جس طرح سے ہم معرفت کے حصول کے بارے میں کہتے ہیں کہ معرفت کے حصول کے لیے مقدمات ہم کو فراہم کرنا ہوتے ہیں لیکن اس کا حصول اللہ تعالی کی عطا پر ہے۔ نتیجہ اللہ تعالی پر چھوڑ دینا ہے۔ یوں نہیں کہ ہم مقدمات ہی فراہم نہ کریں اور کہیں کہ اللہ نے عطا کیوں نہیں کیا۔ ہم کوشش اور طلب کریں لیکن اس کو علت تامہ بھی نہ سمجھ لیں بلکہ علت تامہ رب کی عطا کو قرار دیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَکَىٰ مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا».[5] نور: ۲۱۔ اس آیت کا معنی بھی یہی بنتا ہے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالی کی رحمت، فضل اور عنایت کے بغیر پاکی اور طہارت تک نہیں پہنچ سکا۔ اور اللہ تعالی کا کام ہے کہ ہر شخص کی کوشش کے مطابق اسے عطا کرے۔

کمال الدین میں وارد  ہوا ہے:

«حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِیَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِیُّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ إِبْرَاهِیمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِیهِ عَنْ صَالِحِ بْنِ السِّنْدِیِّ عَنْ یُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع فَقُلْتُ لَهُ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَنْتَ‏ الْقَائِمُ‏ بِالْحَقِ‏ فَقَالَ أَنَا الْقَائِمُ بِالْحَقِّ وَ لَکِنَّ الْقَائِمَ الَّذِی یُطَهِّرُ الْأَرْضَ مِنْ أَعْدَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ یَمْلَؤُهَا عَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً هُوَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِی لَهُ غَیْبَةٌ یَطُولُ أَمَدُهَا خَوْفاً عَلَى نَفْسِهِ یَرْتَدُّ فِیهَا أَقْوَامٌ وَ یَثْبُتُ فِیهَا آخَرُونَ ثُمَّ قَالَ ع طُوبَى لِشِیعَتِنَا الْمُتَمَسِّکِینَ بِحَبْلِنَا فِی غَیْبَةِ قَائِمِنَا الثَّابِتِینَ عَلَى مُوَالاتِنَا وَ الْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِنَا أُولَئِکَ مِنَّا وَ نَحْنُ مِنْهُمْ قَدْ رَضُوا بِنَا أَئِمَّةً وَ رَضِینَا بِهِمْ شِیعَةً فَطُوبَى لَهُمْ ثُمَّ طُوبَى لَهُمْ وَ هُمْ وَ اللَّهِ مَعَنَا فِی دَرَجَاتِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ».

راوی کہتا ہے کہ میں موسی بن جعفرؑ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول آپ قائم بالحق ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں قائم بالحق ہوں لیکن وہ قائم جو زمین کو دشمنان خدا سے پاک کر دیں گے اور دنیا کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح سے وہ اس سے پہلے ظلم و ستم سے بھری پڑی ہوگی، وہ میرے فرزندوں میں سے پانچویں ہونگے۔ ان کے لیے اس خطرے کی بنا پر کہ جو ان کی جان کو لاحق ہے، طولانی غیبت ہوگی۔ یہ غیبت اتنی طویل ہو جاۓ گی کہ ان میں سے چند گروہ دین سے پھر جائیں گے اور ان میں سے کچھ ثابت قدم رہیں گے۔ اور پھر امام نے فرمایا: سعادت ہو ہمارے شیعوں کے لیے جو ہمارے قائم کی غیبت کے زمانے میں ہم سے متمسک ہیں، ہماری ولایت پر ثابت قدم اور ہمارے دشمنوں سے بیزار ہیں۔ وہ ہم میں سے اور ہم ان میں سے ہیں۔ ہم سے بعنوان امام خوش ہیں اور ہم ان سے بعنوان اپنے شیعہ خوش ہیں۔ پس سعادت ہو ان کے لیے سعادت ہو ان کے لیے۔ اللہ کی قسم! روز قیامت وہ مقامات اور درجات میں ہمارے ساتھ ہونگے۔ [6] شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۳۶۱۔

اس روایت میں تولا اور تبرا کا ذکر ہوا ہے۔ تولّا اور تبرّا دین کے دو بہت اہم رکن ہیں جو انسان کو کمال حاصل کرنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔ آیت اللہ بہحتؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اعمال بہت سے آداب اور شرائط رکھتے ہیں۔ بہت سخت ہوتا ہے کہ ہمارا عمل تمام آداب اور شرائط کے ساتھ انجام پا جاۓ۔ لیکن محبت اور بغض ایسے عمل ہیں جن کے آداب کم اور مقدمات بہت سادہ ہیں۔ لہذا ہمیں بہت تیزی سے کمال کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

حب اور بغض

حب اور بغض انسان کے عمل میں تیزی یا سستی لے آتے ہیں۔ حب انسان کے عمل میں تیزی لے آتی ہے اور بغض انسان کے عمل میں سستی۔ محبت انسان کے وجود میں کمال کی طرف بڑھنے کا شوق پیدا کرتی ہے۔ اور بغض انسان کو نقص سے نفرت کرواتا ہے۔ لہذا انسان کے اندر حب اور بغض ہر دو کا ہونا ضروری ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«إِلَیْهِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهُ».[7] فاطر: ۱۰۔

عملِ صالح جدائی کا باعث بنتا ہے۔ یعنی کیسے ہم بدن کے غلبے کو کم کر سکتے ہیں؟ اس بحث کا ربط بھی اسی امر سے ہے۔ عمل صالح کیا کرتا ہے؟ عمل صالح انسان کے بدن کے غلبے کو کم کر دیتا ہے۔ مثلا روزہ رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی بدن کی ضروریات کو کم سے کم کر دینا۔ بدن کے غلبے کو روک لینا۔ یا مثلا صبح کے وقت پرسکون نیند سے جاگ کر نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ اس لیے کہ جسم کے غلبے کو کم کیا جا سکے۔ اعمال صالحہ کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جسم کے غلبے کو کم کیا جاۓ۔ اگر انسان دیکھنا چاہتا ہو کہ اس کے اعمال قبول ہو رہے ہیں یا نہیں وہ دیکھے کہ اس کا جسم پر غلبہ ہے یا جسم کی ضروریات اس کو ڈھیر کر دیتی ہیں؟ اگر دیکھے کہ جسم کی ضروریات اور اس کے تعلقات سے اس کا ربط بہت کم ہے تو سمجھ لے کہ اس نے جسم پر غلبہ کر لیا ہے۔ عملِ صالح در اصل انسان کو زمینی اور جسمانی ارتباط سے جدا کرتا ہے۔ اگر یہ امر حاصل ہو جاۓ تو تب انسان «أُولَئِکَ مِنَّا وَ نَحْنُ مِنْهُمْ»کا مصداق بنتا ہے۔ وہ لوگ جو زمانہ غیبت میں تولی کرتے رہے، دشمنان اہلبیتؑ سے تبرا کرتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا کہ «حُسَیْنٌ مِنِّی وَ أَنَا مِنْ حُسَیْنٍ» یا «عَلِیٌ مِنّی و أنا مِن عَلِی» حضرت سلیمانؓ کے بارے میں «سلمان منّا اهل البیت» [8] شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۷۰۔ ان تعبیرات کا آنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اور اس روایت میں «أُولَئِکَ مِنَّا» آیا ہے۔ یہ بہت بھاری لفظ ہے یعنی اس فضیلت کے ساتھ بہت بھاری ذمہ داری بھی ہے جو ان افراد پر آتی ہے جو اس کا مصداق بنیں گے۔

«قَدْ رَضُوا بِنَا أَئِمَّةً وَ رَضِینَا بِهِمْ شِیعَةً».

یہ لوگ ہماری امامت پر راضی ہیں اور ہم ان کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہونا کہ:

«رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ».

کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالی سے راضی، اس آیت کا حقیقی معنی بھی اسی زمانے میں سب پر واضح ہوگا۔ زمانہ غیبت کے لوگوں سے ظاہری طور پر حجت اٹھا لی گئی، اتمام حجت اس طرح سے نہیں جس طرح سے پہلے زمانے میں تھی لیکن یہ لوگ اس رشد اور قوی ایمان کے ساتھ ثابت قدم ہیں کہ راضی ہیں خدا سے اور خدا بھی ان سے راضی ہے۔ اور پھر امام کا یہ فرمانا:

«فَطُوبَى لَهُمْ ثُمَّ طُوبَى لَهُمْ وَ هُمْ وَ اللَّهِ مَعَنَا فِی دَرَجَاتِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ».

امام نے قسم کھا کر فرمایا ہے۔ جس سے اس امر کی تاکید معلوم ہوتی ہے۔ انسان کو یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ اسے کتنی عظیم فرصت اور اللہ تعالی کی طرف سے انعام ملا ہے۔ اس دور کی فضیلت کے بارے میں اگر اس روایت کے علاوہ اور کوئی روایت بھی وارد نہ ہوئی ہوتی تب بھی یہی ایک روایت کافی تھی۔ اس روایت کے ساتھ ہمیں زمانہ غیبت میں بہت زیادہ متمسک ہونا چاہیے۔ اور اس درک تک پہنچنا چاہیے کہ زمانہ غیبت ہمیں کس عروج تک لے جا سکتا ہے۔

اس لیے زمانہ غیبت میں انسان پر ضروری ہے کہ فرج حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ انسان جب انفرادی فرج حاصل کر لیتا ہے تو یہ فرج انسان کو یہیں ٹھہرا نہیں دیتا بلکہ اس کو متحرک کر دیتا ہے کہ اس فرج کو وہ عمومی تر کر دے۔ وہ انسان چاہتا ہے کہ سب کے لیے فرج مہیا ہو جاۓ۔ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان کے لیے فرج مہیا ہو اور وہ عمومی فرج کے لیے دل میں حسرت نہ رکھتا ہو۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان کے لیے بہت سخت تھا کہ کوئی ایمان کی نورانیت سے محروم رہے اور اسلام قبول نہ کرے۔ یہی وجہ تھی کہ دن رات لوگوں کی ہدایت کے لیے متحرک رہتے۔ انسان کے لیے بھی جب انفرادی فرج حاصل ہوجاۓ وہ معاشرے میں خلل کا احساس کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جس کمال تک وہ پہنچا ہے باقی سب بھی اس کمال کو حاصل کرلیں۔

Views: 66

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: امام علی کے ہاتھ پر بیعت
اگلا مقالہ: عمل صالح اور غیبت امام مہدیؑ