loading

{ مقدمة فصوص الحكم }

مقدمہِ فصوص الحکم

مقدمة فصوص الحكم (ابن عربى)
استاد: آيت الله شيخ حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوى

فصوص الحکم کے عظیم شارح داؤد قیصری کا تحریر کردہ مقدمہ جوکہ بارہ فصلوں پر مشتمل ہے کو بتوفیق الہٰی ہم مطالعہ کر چکے ہیں۔ اب ہم اصل کتاب کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہ کتاب ۲۷ فصّ پر مشتمل ہے۔ فص کا لغوی معنی ایک شیء کا خلاصہ ہے، مثلاً مکھن خلاصہ ہے ملائی کا، یا نگینہ انگوٹھی کا خلاصہ ہے۔ شیخ اکبر نے یہ کتاب ۲۷ فص پر تحریر کی ہے جس میں ۲۳ انبیاءؑ یعنی تئیس انسان کامل کو تذکرہ موجود ہے اور ان ۲۳ کے علاوہ ۴ غیر نبی ہیں۔ قرآن کریم میں ۲۵ انبیاءؑ کا تذکرہ وارد ہوا ہے جن میں سے ۲۳ کا تذکرہ اس کتاب میں آیا ہے۔ جن دو کا تذکرہ اس کتاب میں نہیں ان میں سے ایک ذو الکفلؑ ہے اور دوسرا الیسعؑ ہیں۔ ان دو کا تذکرہ ابن عربی نے فصوص میں نہیں کیا۔ مشہور کے مطابق یہ ۲۷ ہستیاں جن کا تذکرہ کتاب میں ہوا ہے سب نبی نہیں ہیں۔ کیونکہ جناب لقمان، شیث ، خالد نبی نہیں تھے لیکن انسان کامل اور صاحبانِ ولایت تھے۔ یہاں تقدیم و تاخیر زمانی کا خیال نہیں رکھا گیا بلکہ مراتب کا خیال رکھاگیا ہے۔ اس لیے مقامِ معنوی اور رتبہ کے مطابق شیخ اکبر نے کتاب کو منظم کیا ہے۔ چنانچہ فصِ عیسیؑ کو فصِ موسیؑ پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہے کہ اس کے مطابق تو رسول اللہ ﷺ سے متعلق فص کو سب سے پہلے ذکر کرنا چاہیے تھا؟ اس کا جواب شیخ اکبر نے خود دیا ہے کہ یہ سب انبیاءؑ و انسان کامل رسول اللہ ﷺ کی حقیقی نبوت کے شئوونات اور رسول اللہ ﷺ کے شعبہ جات میں سے ایک شعبہ ہیں۔اس لیے یہ ۲۷ فص حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کے شعبہ جات ہیں جن کو ہم فص فص کی صورت میں مطالعہ کریں گے۔

کتابِ فصوص الحکم کا ایک متن ہے اور ایک مقدمہ ہے۔ شارخ داؤد قیصری نے پوری کتاب کے آغاز میں ایک مقدمہ تحریر کیا ہے جوکہ بارہ فصول پر مشتمل ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ ان بارہ فصول کو اگر کوئی خوب اور اچھے طریقے سے پڑھ سمجھ لے تو وہ عرفانِ نظری کے تمام مبانی سے آشنا ہو جائے گا۔ قیصری کے مقدمہ کے بعد اب ہم کتاب کا آغاز کرتے ہیں جس میں پہلے اصل کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ کا مقدمہ ہے اور اس کے بعد متنِ کتاب ہے۔ فصوص الحکم کا مقدمہ شروع کرتے ہیں:

مقدمہِ فصوص الحکم:

شیخ اکبر مقدمہ کا آغاز دعا سے کرتے ہیں کہ بار الہٰا میری مدد فرما اور خیر کے ساتھ اس کو تمام فرما۔شارح قیصری کہتے ہیں کہ  اللہ جوکہ رب العالمین ہے کے لیے تمام حمد ہے اور نبی محمد ﷺ اور ان کی تمام آل پر درود و صلاۃ ہے۔ شیخ اکبر نے ذکر کیا ہے کہ تمام حمد اللہ کے لیے ہے جوکہ قلوبِ کلم پر حکمتوں کو نازل کرنے والا ہے۔ شارح نے اس بیان میں پہلے’’ الحمد‘‘ کی تشریح کی ہے۔ شارح کی نگاہ میں شیخ اکبر نے کتاب کا آغاز حمد سے اس لیے کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کریم کا آغاز حمد سے کیا ہے اور اپنے بندوں کو اللہ تعالیٰ نے حمد کی تعلیم دی ہے اور ہدایت کی طرف انسان کی رہنمائی کی ہے ۔ کمالِ ذاتی فقط اللہ تعالی کے پاس ہے۔ غیر اللہ جتنا بھی کمال رکھتا ہے وہ اللہ سبحانہ کی جانب سے ہے۔ اس لیے حمدِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ بقیہ کے کمالات اور قابلیت ان کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ کی جانب سے ہے۔ پس تمام عباد اللہ پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بجائے لائیں۔ ایک حمد قولی ہے ، ایک حمد فعلی اور ایک حمدِ حالی ہے۔

وجودِ تفصیلی کے مرتبہ پر حمد:

۱۔ حمد قولی سے مراد یہ ہے کہ زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لائی جائے۔ خصوصا اس وقت جب کوئی نعمت یا توفیق کو مشاہدہ کرے، مثلاً نماز شب کی توفیق ملی کہے الحمد للہ ، نماز و روزہ کی توفیق ملی ، کہے الحمد للہ، اگر اولاد، صحت، نعمت ، رزق … ملے تو کہے الحمد للہ ۔ یہ حمدِ قولی ہے۔

۲۔ حمدِ فعلی: اللہ تعالیٰ کی خاطر بدن سے عبادات اور نیک اور خیر کے امور کو بجا لانا اور اعمال ِ صالحہ انجام دینا حمدِ فعلی ہے۔ انسان کے بدن کے اعضاء میں زبان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زبان سے بیان کی نعمت ہمیں عنایت فرمائی ہے لہٰذا زبان سے اللہ کا شکر ادا کرنے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لائیں۔پس ہم اپنے اعضاء و جوارح سے وہ کام انجام دیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔ یہ حمدِ فعلی ہے۔اسی طرح زبان سے اگر ہم وہ کلمات ادا کریں جس سے اللہ سبحانہ راضی ہے تو یہ بھی حمد کہلائے گی۔اسی طرح شکر ہے۔ شکرِ حقیقی یہ ہے کہ زبان، آنکھ ، کان وغیرہ سے ایسے اعمال انجام دیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے ، یہ اعضاء کی نعمت پر شکر ہے۔ شارح نے بیان کیا ہے کہ وجہِ الہٰی کی خاطر انسان کے اعمال انجام دینا ہے حمدِ فعلی ہے۔ وجہِ الہٰی اس لیے کہا جاتا ہے جیساکہ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ جب کسی سے راضی ہو جاتا ہے تو پورے چہرے کے ساتھ اس کی طرف رخ کیا جاتا ہے جوکہ رضایت کو مکمل طور پر بیان کرتا ہے۔ اس لیے وجہِ الہٰی سے مراد ایسا عمل انجام دینا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کامل طور پر راضی ہو، جیسے اہل بیتؑ نے فقیر و مسکین و قیدی کے سوال کرنے پر اپنی روٹیاں دیں تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: { إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُريدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا؛ ہم نے تو صرف اللہ کی خوشنودی کی وجہ سے تمہیں کھلایا ہے ، ہمیں تم سے نہ جزا چاہیے اور نہ شکریہ۔  }. [1]انسان: ۹۔ اگر کسی سے ناراض ہو تو انسان اس سے پشت کر لیتا ہے۔ پس وجہ رضایت سے کنایہ ہے۔ پس انسان فقط اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کے لیے عمل انجام دے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کیے رکھے۔یہ اوصافِ کمالیہ ہمارے نفس میں رسوخ پیدا کریں یہاں تک کہ ملکہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:  تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ.[2]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۱۲۹۔

۳۔ حمدِ حالی: روح و قلب سے حمد بجالائیں۔ حمدِ حالی سے مراد یہ ہے کہ صفتِ کمال سے اپنے آپ کو متصف کریں اور شیطانی اوصاف سے اپنے آپ کو منزّہ کریں۔ انسان کا علمی اور عملی کمالات سے متصف ہونا اور اخلاقِ الہٰی سے متصف ہونا حمدِ حالی ہے۔انسان کا الہٰی کمالات سے اپنی ظرفیت و حدود میں متصف ہونا حمدِ حالی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ ستّار ہے تو ہم بھی دوسروں کے عیوب چھپائیں اور ستّار بننے کی کوشش کریں، اگر حق تعالیٰ غفور ہے تو ہم بھی دوسروں کی زیادتیوں پر معاف کر دیں اور غفاریت میں کمال کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے ہم بھی عطا کرنے والے بنیں، ہم بھی زکات دیں، احسان کریں، عفو و درگزر کریں، حلم و بردباری سے کام لیں وغیرہ ۔ ہر شیء کی زکات اس کے مطابق ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: زَكَاةُ الْعِلْمِ نَشْرُه. [3]آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۲۷۵، رقم: ۴۹۹۷ ۔ اسی طرح دیگر اوصاف ہیں کہ انہیں اپنے اندر پیدا کریں اور ان سے اپنے آپ کو متصف کریں۔

وجودِ جمعی کے مرتبہ پر حمد:

اللہ تعالیٰ خود ان تینوں قسم کی حمد رکھتا ہےجوکہ خود حامد بھی ہے اور محمود بھی۔ ہم اللہ تعالیٰ کو دو طرح سے ملاحظہ کر سکتے ہیں : ۱۔ وجودِ جمعی یا احمالی، ۲۔ وجودِ تفصیلی ۔اجمالی وجود کے طور پرملاحظہ میں  اجمال سے مراد اصول فقہ و علم فقہ میں مذکور اجمال نہیں ہے کیونکہ علوم میں اجمال سے مراد ابہام ہوتا ہے جبکہ یہاں ابہام مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وجودِ جمعی ہے۔ یہ اجمال تفصیل سے بالاتر ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ قلم دوات لائے تو ابھی آپ نے قلم اٹھایا تو سیاہی کا قطرہ سامنے آیا ۔ پھر آپ نے اس قطرے سے کئی سطریں لکھیں۔ یہ قطرہ اجمال اور وجودِ جمعی ہے جبکہ وہ سطور تفصیلی ہے ۔ اجمال اس لیے بالاتر ہے کیونکہ یہ تفصیلی کا باعث بنا ہے اور اس کی اساس پر تفصیل ظاہر ہوئی ہے۔  اسی طرح ایک اور مثال دی جاتی ہے کہ ایک طالب علم آیا اور سالہاسال کی محنت سے اجتہاد کی صلاحیت اور ملکہ حاصل کر لیا۔ اب مرحلہ اجتہاد کے ملکہ کے بعد وہ قلم اٹھاتا ہے اور ۶ ہزار مسائل فقہی استنباط کر کے لکھ دیتا ہے۔ یہ ملکہِ اجتہاد وجودِ جمعی اور وجودِ اجمالی ہے اور یہی چھ ہزار مسائل فقہی وجودِ تفصیلی ہے۔ اسی طرح باری تعالیٰ کا وجودِ جمعی خود اس کی ذات ہے اور اس کا وجودِ تفصیلی وہی وجودِ جمعی کی تفصیل ہے۔ ہم نے حمد کی جو تین اقسام بیان کی ہیں وہ وجودِ تفصیلی کی اساس پر بیان کی ہیں۔ اسی طرح وجودِ جمعی میں بھی اس کی حمد تین اقسام میں ہیں۔ وجودِ جمعی کے طور پر تین حمد کا بیان اس طرح ہے:
۱۔ حمدِ قولی: مظاہر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ خود وجودِ جمعی کے مرتبہ پر حمدقولی بھی رکھتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی حمد بیان کی ہے۔ سورہ حشر میں ارشاد ہوتا ہے: { هُوَ اللَّهُ الَّذي لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُون }. [4]حشر: ۲۳۔علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ سورہ حدید ۱ تا ۶ اور سورہ حشر کی آخری سے پہلی والی آیت اس وقت پڑھیں جب کسی مشکل میں گرفتار ہو جائیں اور ان آیت کی تلاوت کے بعد کہیں: يا من هو كذلك. اس صورت میں اللہ تعالیٰ انسان کی مشکل حل فرمائے گا۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ملا صدرا نے سورہ حدید پہلی چھ آیات اور سورہ توحید سے متعلق جب یہ حدیث پڑھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آخر الزمان میں اس قوم کے لیے نازل کیا جو عمق اور گہرائی میں جائے گی تو ملاصدرا کی آنکھیں آنسوؤں سے جھلک گئیں  اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ نے انہیں آخر الزمان میں خلق کیا ہے اور ان آیات کے فہم کے لیے انتخاب کیا ہے۔ سورہ توحید کی معرفت ہر شخص نہیں رکھتا ۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے شہر میں پیدل جا  رہا تھا ایک بوڑھا شخص جس نے داڑھی تراشی ہوئی تھی اور شیوہ کی ہوئی تھی غصہ کی حالت میں میرے پاس آیا اور آ کر سختی سے سوال کیا کہ قرآن میں داڑھی کا کہاں تذکرہ ہے۔ اس کے سوال پر کچھ پریشانی ہوئی۔ جیب میں ایک قرآن تھا میں نے قرآن کھولا اور سورہ اعراف کی یہ آیت اس کے سامنے پڑھی:{ يا بَني آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُواري سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا }.[5]اعراف: ۲۶۔ فارسی میں ریش داڑھی کو کہتے ہیں اور عربی میں نرم آرام دہ لباس کو۔ اس کو آیت میں دکھایا کہ یہ دیکھو کہ ریش لکھا ہوا ہے ۔اس نے سر ہلایا اور مطمئن ہو کر چل دیا۔ پس لوگوں کے ذہن کے مطابق بات کرنی چاہیے۔

۲۔حمد فعلی: وجوداتِ عالم اور ہم سب کا وجود اللہ تعالیٰ کی حمدِ فعلی ہے۔ممکنات کو ایجاد کرنا ، موجودات کو وجود دینا حمدِ فعلی ہے۔ بڑی سے بڑی خلقت اور چھوٹی سے چھوٹی خلقت اللہ تعالیٰ کی فعلی حمد ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی کتنی مخلوق ہے اس کا اصلا ہمیں علم نہیں ہو سکتا۔ ابھی ایک کہکشاں دریافت ہوئی ہے جس کا زمین سے فاصلہ ایک تخمینے کے مطابق گیارہ میلیون نوری سال ہے۔ اسی دنیا کو دیکھ لیں جس کا ریشہ ’’دنئ‘‘ ہے ۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ ستاروں سے مزین کیا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزينَةٍ الْكَواكِب؛ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا}. ((صافات: ۶۔))اللہ تعالیٰ کا اپنی خلقت سے ربط ہے جوکہ مقامِ تفصیل کی صورت میں ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ہر وجود اللہ کا مظاہر ہے۔ مظاہر وہی جسے آیت کہتے ہیں جوکہ آئینہ کی مانند ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ مخلوقات اور وجودات کو مظاہر اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے جدا نہیں ہیں بلکہ اس سے مربوط ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ میرا خدا وہ ہے جس سے حسن کا تعلق ہے۔ مظہر یعنی موردِ ظہورِ حق تعالیٰ ۔ اس کو ہم اس مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہماری قوتِ باصرہ یا سامعہ ہماری تعریف کرے تو حقیقت میں یہ قوتِ باصرہ نہیں بلکہ ہمارا نفس ہے جو اپنی تعریف کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کمالاتِ جمالی و جلالی کو غیب سے شہادت میں لاتا ہے اور باطن سے ظاہر کرتا ہے اور اپنے علم کے مطابق وجودِ عینی عنایت کرتا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات میں اشیاء کا وجودِ علمی ان کے وجودِ خارجی سے مقدم ہے۔

۳۔ حمدِ حالی: اللہ تعالیٰ کے کمالاتِ جمالیہ یعنی صفات ثبوتی ہیں اور کمالات جلالیہ یعنی صفات سلبیہ ہیں۔ اللہ سبحانہ کی ذات میں فیض اقدس کی صورت میں تجلیات ہیں۔ ایک فیض اقدس ہے اور ایک فیض مقدس ہے۔ فیض اقدس اشیاء کا علمی وجود ذاتِ الہٰی میں۔ فیض مقدس اشیاء کا وجودِ خارجی ہے۔ کلام الہٰی میں وارد ہوا ہے : الحمد للہ رب العالمین۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں الحمد للرحیم یا للرحمن نہیں آیا؟!  اسمِ اللہ دو قسم کا ہے: ۱۔ اللہ ذاتی جوکہ ذات کو بیان کرتا ہے، ۲۔ اللہِ صفاتی جوکہ مرتبہِ ذات سے تنزل کر گیا ہے۔ اس صورت میں اسم اللہ تمام صفاتِ کمالات کا جامع ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ سورہ حمد میں اسم اللہ تکرار نہیں ہوا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اللہ’’ذاتی ‘‘ ہے جبکہ الحمد للہ رب العالمین میں اللہ ’’صفاتی‘‘ ہے جوکہ تمام کمالات کا جامع ہے۔شاعر کا کہنا ہے:
لقد كنتُ دهراً قبل أن يكشف الغطا
أخالك إني ذاكرٌ لك شاكر
فلما أضاء الليل أصبحتُ شاهدا
بأنك مذكورٌ وذكرٌ وذاكر
حجاب برطرف ہونے سے پہلے میں تھا جس میں یہ خیال کرتا تھأ کہ میں تیرا ذاکر ہوں اور شکر کرنے والا ہوں لیکن جب رات ڈھل گئی اور میں آشکار ہوا اور حجاب ہٹا تو دیکھا کہ اے اللہ تیرا ذکر کیا جا رہا ہے اور تو ہی ذکر ہے اور تو ہی ذکرکرنے والا ہے ۔

منزّل الحِکَم:

’’منزل‘‘ کو باب تفعیل کی صورت میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور باب افعال کی صورت میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہر دو طرح سے وارد ہوا ہے۔ باب تفعیل تدریحی نزول پر دلالت کرتا ہے اور باب افعال یکبارگی اور دفعۃً نازل ہوا۔ پس قرآن کریم دو صورتوں میں نازل ہوا ہے: ۱۔ ایک مرتبہ دفعی اور یکبارگی نازل ہوا ہے جسے قرآن کریم نے اکثر و بیشتر جگہ انزال کے لفظ کے ساتھ نزولِ قرآن کو ذکر کیا ہے اور بعض جگہوں پر باب تفعیل سے نزول قرآن کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں حکمتوں کے نزول کو باب تفعیل کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے کیونکہ یہ نزول قلب پر ہوا ہے اور قلب مقامِ تفصیل ہے جوکہ وجودِ جمعی کے مقابلے میں ہے۔ تفصیل کے ساتھ تدریج سازگار ہے اس لیے منزِّل الحکم پڑھنا بہتر ہے۔ شیخ اکبر کی کتابوں میں ’’اسم اللہ‘‘ نہیں لکھا ہوتا بلکہ ’’الاسم اللہ‘‘ لکھا ہوتا ہے کیونکہ اللہ کا اسم دوسروں کی مانند نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ’’اللہ‘‘ ذات کے لیے ہے اور ایک مرتبہ ’’اللہ ‘‘ کہہ کر وہ ذات جو تمام اسماء و صفات کا احاطہ کیے ہوئے ہے ہوتا ہے۔ سب سے بہترین حمد وہ ہے جو اللہ نے اپنی حمد کی ہے۔ اس کے بعد وہ حمد ہے جو انسانِ کامل مکمل جوکمہ خلافتِ عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اس سے صادر ہونے والی حمد ہے۔

قلب انسانی حقیقت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے ، اسی طرح روح بھی مراتبِ انسانی میں سے ایک مرتبہ ہے۔ مرتبہِ روح مرتبہِ اجمال اور وجودِ جمعی ہےجبکہ قلب وجودِ تفصیلی ہے۔ روح کا مقام بالا اور بلند تر ہے جبکہ قلب کا مرتبہ اس سے کم تر ہے۔ وجودِ اجمالی وجود تفصیلی سے بالاتر ہے۔ وجودِ اجمالی جیسے ملکہِ اجتہاد اور وجودِ تفصیلی جیسے توضیح المسائل کہ یہ مسائل فقہی وہی ملکہِ اجتہاد ہے لیکن تفصیلی طور پر ۔ روح میں حقائق اجمالی اور وجود جمعی کے مرتبہ میں ہے اور اسی وجودِ اجمالی کی تفصیل قلب کے مرتبہ پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تدریجی نزول کا تعلق قلب سے قائم کیا گیا ہے۔ مرتبہِ روح کا مرتبہِ قلب سے عالی اور بلند ہونا علوِ مکانی نہیں ہے بلکہ علوِ رتبی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بلند اور عالی ہونا بھی علوِ مکانی نہیں بلکہ رتبی ہے۔ علوِ رتبی کے بھی مراتب ہیں بالکل ایسے ہی جیسے سیڑھی کے پلے ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ کی ایک ذات ہے جو سب سے عالی اور بلند تر ہے جس سے بلند کر کوئی شیء نہیں ہے۔ اس کے بعد اسماء و صفات کا مرتبہ ہے۔ اس کے بعد موجودِ اول ہے اور پھر اس کے بعد عقول ہیں اور اس کے ارواح اور اس کے بعد اجسام اور اس میں سب سے آخر میں ہیولی ہے۔ ہر ما فوق حقیقت اور ما دون رقیقت ہے۔ ہر مافوق علم ہے اور اس کے مادون صفر ہے۔ پس علم و صفر نسبی ہے۔ ایک علوِ مطلق ہے جوکہ ذات الہٰی ہے اورصفرِ مطلق ہے جوکہ سب سے کمتر ہے جوکہ ہیولا اولیٰ ہے۔ انزال پڑھیں یا تنزیل پڑھیں ہر دو صورت میں علوّ کا یہ تقاضا کرتا ہے۔ علوّ میں ایک سب سے بالاتر اور بلند تر  علوِّ مطلق ہے اور  سب سے کمتر صفرِ مطلق ہے۔علامہ حسن زادہ آملی ؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ جہان دارِ تدریج ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم تدریجی طور پر جانیں۔ اسی طرح اس دنیا میں تدریجاً علم حاصل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’جذبۃ‘‘ ہے جس میں ایک لحظہ میں سفر طے ہوتا ہے جیساکہ جذباتِ رحمن کا تذکرہ کتبِ عرفانی و فلسفی میں رسو ل اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ روحِ دفعی مقام ہے اور قلب تدریجی مقام ہے۔ روح مقامِ دفعی اور اجمالی و جمعی ہے جس کی تفصیل مقامِ قلب پر ہے۔ کلی کا تعلق اجمال سے ہے اس لیے روح سے ہے جبکہ اس کی تفصیل کا تعلق قلب کے ساتھ ہے۔

حکمت و علم و معرفت میں لغوی فرق:

اہل لغت کے مطابق حکمت اور علم کا آپس میں فرق ہے۔ حکمت سے مراد حقائقِ اشیاء کا علم اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ حکمت میں فقط علمی پہلو کا حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اس کو عملی طور پر اختیار کریں تو حکمت کہلائے گا۔ علم سے مراد اشیاء کے حقائق کا جاننا اور ان کے لوازم کا جاننا ہے۔ معرفت سے مراد ہے کہ ایک شیء کا علم حاصل کیا اور پھر نسیان یا غفلت کا شکار ہو گیا اور اس کے بعد دوبارہ اس نے یاد کیا یا اس کی طرف توجہ گئی، اس کو معرفت کہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ کو عارف نہیں کہہ سکتے جبکہ عالم اور حکیم کہہ سکتے ہیں۔ شیخ اکبر نے منزّل الحکم میں حکمت کا انتخاب کیا ہے جبکہ علم اور معرفت کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ حکمت اور حکیم میں علم کے ساتھ عمل کا تقاضا بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی علم کے مطابق عمل نہ کرے تو وہ عالم ہے لیکن حکیم نہیں ہے۔معرفت علم یا نسیان کے بعد جاننے کو کہتے ہیں۔ اگر انسان کے علم میں تھا پھر بھول گیا اس کے بعد یاد آیا تو یہ معرفت کہلائے گی۔ علم مسبوقیتِ نسیان نہیں رکھتا بلکہ ابتداء سے جاننا علم کہلاتا ہے۔یہ لغت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اصطلاح کے اعتبار سے۔ ہم جب عرفاء کو عرفاء کہتے ہیں تو اس سے مراد اصطلاحی معرفت ہے۔ اگر تینوں کا باہمی مقایسہ کریں تو حکمت ہر دو یعنی علم و معرفت سے بالاتر ہے اس لیے مصنف نے حکمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ابن عربی نے انبیاءؑ کو اسمِ حکیم کا مظہر قرار دیا ہے۔ پس انبیاءؑ اسم حکیم کے مظاہر ہیں۔

ایک عرشِ معنوی یا روحانی ہے جس سے مراد فلک الافلاک ہے جس میں ستارہ نہیں ہے ۔ اس کو اطلس بھی کہتے ہیں ۔ اسی طرح ایک عرشِ جسمانی ہے ۔ اسی طرح کرسیِ روحانی معنوی  ہے جس سے مراد فلکِ ہشتم اور ثوابت میں سے ہے جبکہ  ایک کرسیِ جسمانی اہے۔جہات چھ ہیں جن میں اصل دو جہت ہیں ، اوپر اور نیچے جبکہ باقی جہات قیاسی ہے جوکہ مقایسہ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ فلکِ محدد جہات فلکِ نہم ہے ۔ایک ظاہر ہے اور ایک مظہر ، جیسے آئینہ کے سامنے والی ذات ظاہر اور آئینہ میں دکھأئی دی جانے والی شیء مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور ہر موجود غیر اللہ اس کا مظہر ہے۔ کرسی ِ روح ظاہر ہے اور افلاکِ ثوابت کرسیِ روح کا مظہر ہیں۔
اس کتاب میں ۲۷ فصّ بیان کی گئی ہیں۔ہر نبی جامع شخصیت ہے اور متعدد فصوص کا حامل ہے لیکن ہر نبی کے زمان و مکان کے اعتبار سے ایک فص بقیہ کی نسبت زیادہ نمایاں ہے جس کی بناء پر اس فص کو اس نبی سے مختص کیا گیا ہے۔ یہ فصوص اللہ تعالیٰ کی حکمت کا مظہر ہے اس لیے شیخ اکبر نے حکمت اور فص کے کلمات استعمال کیے ہیں۔ کتاب شروع کرنے سے پہلے ہم نے شارح داؤد قیصری کے ۱۲ مقدمات مطالعہ کیے ۔ کتاب شروع کرنے سے پہلے جن مبادئ کی ضرورت تھی وہ سابقہ سطور میں گزر چکے ہیں۔

کلمہ اور کلِم:

کلِم جمع ہے جس کی مفرد کلمہ ہے۔ شیخ اکبر نے کلِم سے مراد انبیاءؑ کی شخصیات مراد لی ہیں۔ اس لیے قلوب کے لفظ کو کلِم کی طرف مضاف کیا ہے جس کا معنی بنتا ہے کہ اللہ تعالی نے حکمتوں کو کلمِ یعنی انبیاءؑ کے قلوب پر نازل کیا ۔ کلِم سے بعض اوقات مراد مجردات یعنی ملائکہ اور ارواح بھی لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ }. [6]فاطر: ۱۰۔  قرآن کریم نے جناب عیسیٰ ؑ کو کلمہ کہا ہے: { إِنَّمَا الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُه؛اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اور اللہ کے بارے میں نہ کہو مگر سچی بات جناب عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ جسے اس نے مریم کی طرف بھیجا۔ اور اللہ کی طرف سے ایک خاص روح ہیں۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور تثلیث (یعنی تین خداؤں) کے قائل نہ ہو۔ (اس سے باز آجاؤ) (یہ) تمہارے لئے بہتر ہے۔ اللہ تو صرف ایک ہے۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ سب اسی کا ہے اور اللہ کارسازی کے لئے کافی ہے۔ }. [7]نساء: ۱۷۱۔ سورہ کہف میں ہر شیء چاہے انسان ہو یا غیر انسان اس کو کلمہ کہا ہے:{ قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِماتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَدا }. [8]کہف: ۱۰۹۔  اگر سب سمندر مل کر سیاہی بن جائیں اور میرے ربّ کے کلمات کو لکھنے لگ جائیں تو سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن کلمات کا بیان ختم نہیں ہو گا۔ اللہ کی نعمات کو شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ سورہ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَلَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيم }. [9]لقمان: ۲۷۔

عوالم میں موجودات کو کلمات کہنے کی تین وجوہات بیان کی گئی ہے :
۱۔ عوالم میں موجودات کلمات کی مانند ہیں ، جیساکہ انسان جب کسی کلمہ کو ادا کرتا ہے تو جب منہ سے ہوا حلق سے نکلتی ہے اور  دانتوں تک پہنچتی ہے  اور ہونٹوں سے مخارج سے ٹکرا کر نکلے تو کلمہ کہلاتا ہے جوکہ معنی رکھتا ہے۔ پھر لفظ معنی پر دلالت کرتا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خلقت کو خلق کیا تو اللہ سے سب سے پہلے جو مخلوق صادر ہوئی جسے صادرِ اول کہتے ہیں وہ غیر متناہی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وجودات کو خلق کیا۔ یہاں موجودات کو کلمہِ لفظی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس صورت میں کلمہ سے مراد انسان کامل اور حقیقتِ محمدیہ ﷺ ہے۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کلمہ معنی پر دلالت کرتا ہے اسی طرح ہر موجود کی دلالت ایک خالق و ربّ پر ہے۔ پس جیسے کلمہ معنی پر دلالت کرتا ہے اسی طرح ہر وجود معنی پر دلالت کرتا ہے جوکہ ربّ اور خالق ہے۔
۳۔ تیسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کن فیکون کا سورہ یس میں ذکر ہوا ہے۔ ان عوالم کے موجودات کلمہِ کن سے وجود میں آئے ہیں اس لیے وجودات کو کلمات کہتے ہیں۔انسان کامل کو بھی کلمہ کہتے ہیں اور ہر موجود کو بھی کلمہ کہتے ہیں جیساکہ سورہ کہف اور سورہ لقمان میں مذکور ہے۔

بأحديۃ الطریق الاَمم:

طریقِ اَمم کی دو تفسیر ہیں :۱۔ تفسیرِ ظاہری، ۲۔ تفسیرِ باطنی۔
اَمم کی تفسیر ظاہری:
تفسیر ظاہری بیان کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ  اَمم سے مراد مستقیم اور سیدھی راہ ہے۔ طریقِ اَمم یعنی صراطِ مستقیم، جوکہ ایک سے زائد نہیں ہے۔ قرآن کریم میں سبیل کی جمع سُبُل وارد ہوئی ہے لیکن صراط کی جمع وارد نہیں ہوئی ۔ سبیل اور صراط میں فرق ہے۔ صراط کی نسبت اللہ سبحانہ نے ہر جگہ اپنی طرف دی ہے اور ہمیشہ اس کا مثبت استعمال کیا ہے۔ جبکہ سبیل کا مثبت و منفی ہر دو استعمال قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔طریقِ اَمم یعنی صراطِ مستقیم کی اطاعت و اتباع کریں جوکہ ایک اور واحد ہے تو انسان گمراہی اور اغواء ہونے سے بچ سکتا ہے۔ یہاں حرفِ باء میں چار احتمالات شارح نے دیئے ہیں: ۱۔ باء بمعنی سبب، ۲۔ باء بمعنی فی ،۳۔ باء بمعنی صلہ جوکہ ما بعد کو ماقبل سے متصل کرنے کے لیے ہے، ۴۔ باء بمعنی ملابسہ یعنی متلبس ہونا۔

اللہ تعالیٰ سے ہمارا رابطہ:

ہمارا اللہ تعالیٰ سے رابطہ دو طرح کا ہے: ۱۔ تکوینی، ۲۔ تشریعی۔
۱۔ تکوینی ربط: تکوینی ارتباط سے مراد ہے کہ ہمارے اللہ تعالیٰ سے ہماری خلقت و تکوین میں تعلق ہے ۔ یہ صرف انسان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر مخلوق کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ ہے۔ یہ ربط ٹوٹ نہیں سکتا ۔ طریقِ تکوینی عمومیت رکھتا ہے۔ ہمارا وجود اللہ تعالیٰ کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { ك‏ما مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا }. [10]ہود: ۵۶۔ ہمارا ارادہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے طول میں ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: { لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَ مِنْهاجاً }. [11]مائدہ: ۴۸۔ شرع سے مراد وہ نالی یا کنال ہے جس کے ذریعے بہنے والا پانی دریا کے ساتھ پیوست ہو جاتا ہے۔ ہر شیء کا اللہ تعالیٰ سے رابطہِ وجودی ہے اس شرعۃ کے ذریعے سے جس کے ذریعے سے وہ وجودِ حق تعالیٰ سے مربوط ہو رہا ہے۔یہاں شرعۃ سے مراد شریعت نہیں ہے بلکہ وہ تکوینی راہ اور طریق ہے جس کے ذریعے وجودِ حق تعالیٰ سے ربط ہورہا ہے۔شرعۃ میں شیء کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے ربط ہے۔ ایک مرتبہ اللہ سبحانہ کی جانب سے تمام موجودات سے رابطہ ہے اور ایک موجودات کی جانب سے ہم اللہ سبحانہ کی طرف جاتے ہیں۔

۲۔ تشریعی ربط: دوسرا رابطہ تشریعی ہے جوکہ عمومی نہیں ہے بلکہ انسان کے ساتھ خاص ہے۔ اس ربط کے بارے میں سورہ حمد میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے: { اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ صِراطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم }. [12]حمد:۶-۷۔ صراط پر ’’ ال‘‘ داخل ہے جوکہ ال عہدی ہے جس سے مراد راہِ توحید اور دینِ حق ہے۔ صراطِ مستقیم کی تفسیر خود سورہ حمد میں اس سے اگلی آیت کر رہی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کن لوگوں کا صراط یہاں مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر انعام کیا ہے ان کا تذکرہ سورہ نساء میں اس طرح سے ہوا ہے: { مَعَ الَّذينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحيْنَ وَحَسُنَ أُولئِكَ رَفِيْقًا }. [13]نساء:۶۹۔ طریقِ اَمم میں صراطِ مستقیم مراد ہے اور صراط مستقیم میں تشریعی ربط کو بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے انبیاءؑ پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے اور ہر نبی اپنے سے پہلے والی نبی کی تصدیق کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تشریع ہر زمانے کے لوگوں اور ان کے حالات کے مطابق نازل کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ خاتم الانبیاء ﷺ پر ختم ہوتا ہے جوکہ تمام شریعتوں کی اکمل و اتم صورت ہے۔ تمام طرق اور انبیاء و اولیاءؑ کے پیرو اسی ایک صراطِ مستقیمِ محمدی ﷺ پر منتہی ہوتے ہیں۔ شریعتِ محمدی ﷺ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کا انتخاب ہے۔ یہ تمام تفسیر ’’ظاہری‘‘ تھی۔ اس کے بعد شارح نے طریقِ اَمم کی باطنی تفسیر کی ہے۔

۲۔ اَمم کی تفسیرِ باطنی:

تفسیر باطنی دو طرح سے ہو سکتی ہےاور دونوں طریق مستقیم اور قابل قبول ہے۔ تفسیرِ باطنی کے یہ دو طریق فقط نبی و رسول و امامؑ کے ساتھ مختص نہیں ہے اگرچے سب سے بلند مرتبہ پر انبیاء و رسلؑ اور آئمہ اطہارؑ فائز ہیں لیکن فیض الہٰی سب کے لیے کھلا ہے اور ہر کوئی اپنی ظرفیت اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ سے فیوض حاصل کرتا ہے۔فیاض تعالیٰ اپنے فیض سے اپنے بندوں کو ہر دو طریق سے مستفید کرتا ہے۔ طریق ایک ہی ہے لیکن وصل ہونے کی راہ مختلف ہے بالکل اسی طرح جیسے سورج کی روشنی مختلف کھڑکیوں سے جھلک کر کمرے میں داخل ہو رہا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فیض ایک سے زائد نہیں ہے لیکن ہماری قابلیت اور ہماری استعداد اس کو مختلف کر رہی ہے۔ پس نور ایک ہے لیکن کھڑکیاں مختلف ہیں جن کی وجہ سے نور ہمیں مختلف طور پر نظر آ رہا ہے۔ 

اس مرحلہ میں ہم استاد کے کردار کا انکار نہیں کر سکتے کیونکہ استاد کی مدد سے سفر محکم اور تیز ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر استاد نہیں ہے تو راہِ الہٰی کا سالک نہیں بن سکتا !! قرآن کریم واضح بیان کرتا ہے کہ قرآن سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے قرآن اور احادیث اہل بیتؑ کے ذریعے ہم سالک بن سکتے ہیں۔ اگرچے استاد کی مدد سے سفر محکم تر اور بہترین ہوتا ہے۔’’سالکِ مجذوب‘‘ خلق سے حق تعالیٰ کا سفر طے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے۔
۱۔ عقول اور نفوس مجردہ کے طریق سے ہم تعقل اور تفکر کر کے اَمم کی تفسیر جان سکتے ہیں۔ یہاں عقول سے مراد فرشتے نہیں بلکہ قوتِ عقل ہے جوکہ نفسِ انسانی کو حاصل ایک قوت ہے۔ تعقل کے ذریعے حجابِ ظلمانی کو برطرف کریں جوکہ عالمِ اجسام برزخی ہے اور حجابِ نورانی کو برطرف کریں جوکہ عالمِ مجردات ہے۔ اس طریقے سے ہم اللہ سبحانہ کے قریب ہوں۔ یہ طریقہ عمومی رکھتا ہے اور ہر کوئی اختیار کر سکتا ہے اور مرحلہ بہ مرحلہ طے کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس کو اصطلاح میں سالکِ مجذوب کہتے ہیں۔ اس مورد میں سالک قدم بہ قدم اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے یہاں تک کہ فیضِ الہٰی اور تجلیِ رحمانی سالک کے قلب کو عنایت ہوتی ہے۔ حجبِ ظلمانی سے مراد برزخی اجسام ہیں جبکہ حجبِ نورانیہ سے مراد روحانی جواہر ہے۔ انسان کثرتِ ریاضات و مجاہدات کے ذریعے سے ان حجابوں کو دور کر سکتا ہے۔  البتہ ضروری ہے کہ ان ریاضات و مجاہدات کا اللہ سبحانہ کے ساتھ مناسبت و مسانخت ہونی چاہیے کیونکہ گناہ کی اللہ تعالی سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ قلیل افراد ہیں جو اس طریق سے مقصد تک پہنچ جائے کیونکہ یہ طریق بہت دشوار گزار اور سخت زحمت و کوشش سے بھر پور ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا طریق شیرین اور دلکش ہے جس میں ایک جذبہ سے اللہ سبحانہ اپنے قریب کر لیتا ہے۔
۲۔ بغیر کسی واسطے کے ہم خود اپنے عینِ ثابت کے طور پر اللہ سبحانہ کے ساتھ مرتبط ہوں۔ ہمارا وجودِ عینِ ثابت اسماء الہٰی ہے۔ عینِ ثابت سے مراد علمِ الہٰی میں وجودِ علمی کا ہونا ہے۔ اس کو طریقِ سرّ بھی کہتے ہیں۔ یہ عمومیت نہیں رکھتا اور بعض افراد کے ساتھ مختص ہےجس میں اللہ اور سالک کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم میں ’’عارفِ ربانی‘‘ سے مراد امام علیؑ ہیں۔ کتبِ عرفانی میں امام علیؑ سے منقول ہے: {
حَدَّثَنِي قَلْبِي عَنْ رَبّي } [14]زاد ہوش، محمد رضا، احادیث نبوی در متون کہن فارسی، ص ۳۶۸۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ منقول ہے جسے علامہ تقی مجلسی نے روضۃ المتقین میں درج کیا ہے: { لِي مَعَ اللهِ وَقْتٌ لَا يَسَعَنِي مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ }. [15]مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۲۱۸۔ یہاں حدیث میں ’’لی وقت‘‘ کہا ہے نہ کہ ’’مقام‘‘ کہا ہے کیونکہ مقام استمرار اور دوام کا تقاضا کرتا ہے جبکہ ’’وقت‘‘ عدم استمرار اور کبھی کبھی پر دلالت کرتا ہے۔ جس کو جذبہِ الہٰی عنایت ہو جائے اور وہ ایک لحظہ میں ایک مقام تک پہنچ جائے تو اس کو اصطلاح میں ’’مجذوبِ سالک‘‘ کہتے ہیں۔ ایک جذبہ دو عالم کی عبادت سے بہتر ہے جیساکہ بعض منسوب احادیث میں وارد ہوا ہے: إن جذبة من جذبات الحق توازى عمل الثقلين‏. [16]ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، شرح اصول کافی، ج ۱، ص ۳۷۴۔  اگر معلول سے علت کی طرف جائیں تو اس کو کہتے ہیں ’’اِنِّی‘‘ اورا گر علت سے معلول کی طرف آئیں تو اس کو لِمِّی کہتے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر طریقِ لمّی کی جانب سے آئیں تو انسان کو یقین کی منزل حاصل ہوتی ہے کیونکہ علت تمام کی تمام معلول کے احوال جانتی ہے اور اس کی خبر دیتی ہے جبکہ معلول چونکہ رتبہ میں علت سے کمتر ہے اس لیے علت کی تمام خبر سے واقف نہیں ہوتی، مثلاً اگر ہمیں آگ کا علم ہو تو ہمیں حرارت کا علم ہو جائے گا لیکن برعکس اگر حرارت کا علم ہو تو نہیں معلوم یہ آگ کی وجہ سے ہے یا بلب کی وجہ سے یا بجلی کی وجہ سے وغیرہ۔ پس طریقِ اِنِّی میں ہمیں آثارِ علت کا علم ہوتا ہے بذاتِ خود علت کی تمام خبر نہیں ہوتی۔ برہانِ لمی مفیدِ یقین ہے لیکن برہانِ اِنِّی یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ اگر ہم روشنی دیکھیں تو نہیں جان سکتے کہ یہ روشنی سورج کی ہے یا بلب کی یا کسی اور شیء کی ۔ لیکن اگر ہم سورج کو دیکھ لیں تو اس کی روشنی کی تصدیق کریں گے۔ اللہ سبحانہ مسبب الاسباب اور علۃ العلل ہے جس کی کنہِ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ مجذوبِ سالک کے مرحلہ میں اللہ تعالیٰ ایک جذبہ میں اپنی طرف قریب کر لیتا ہے اور پھر اس پر عنایات فرماتا ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ اپنی طرف جذب کرتا ہے اور پھر اس کو مراحلِ سیر طے کراتا ہے۔چار قسم کے سفر ہیں:
۱۔ مخلوق سے حق تعالیٰ تک۔
۲۔ حق تعالیٰ سے حق تعالیٰ تک حق تعالیٰ کے ساتھ، اس کو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی معرفت کا حصول ہے۔
۳۔ حق تعالیٰ سے مخلوق کی طرف سفر لیکن حق تعالیٰ کے ساتھ ، تاکہ خود کو جس بلندی تک پہنچایا ہے وہاں دوسروں کو پہنچائے۔
۴۔ مخلوق سے مخلوق تک لیکن حق تعالیٰ کے ساتھ، اس مرحلہ میں شریعت کی حکمتوں سے واقف ہوتا ہے کہ فلاں چیز کیوں حلال ہے اور فلاں کیوں حرام ہے۔

مِن المقام الأقدم:

مقامِ اَقدم سے مراد ذاتِ احدیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکمتوں کو قلبِ عبد پر نازل کیا تو یہ کہاں سے نازل ہوا؟ ذاتِ احدیت سے نازل ہوا۔ یہ مقام چونکہ ہر شیء سے پہلے اور مقدم ہے اس لیے اس کو مقامِ اَقدم کہتے ہیں۔ وجود کے مراتب ہے : ۱۔ سب سے نیچلا مرتبہ جسے وجودِ ناسوتی کہتے ہیں، ۲۔ اس کے اوپر وجودِ ملکوتی ہے، ۳۔ اس سے بالاتر وجودِ جبروت ہے ، ۴۔ اس سے بالاتر وجودِ لاہوتی ہے۔ یہ تقدم اور بالاتری زمانی نہیں ہے بلکہ رتبی ہے ۔ ہر وجود جو شدید اور قوی ہے وہ بالاتر ہے اس سے جو وجود ضعیف ہے، مثلاً آپ کہتے ہیں: میں نے چابی کو ہلایا تو تالا کھل گیا ۔ یہاں رتبے میں ہاتھ کی حرکت پہلے ہے یا چابی کی حرکت؟ یقیناً یہاں تقدم زمانی نہیں ہے بلکہ ہاتھوں کی حرکت چابی کی حرکت پر رتبی تقدم رکھتی ہے کیونکہ چابی کی حرکت موقوف ہے ہاتھ کی حرکت پر ۔ پس وجودِ ملکوتی بالاتر ہے وجودِ ناسوتی سے لیکن وجودِ جبروتی سے کمتر ہے۔ وجودِ لاہوتی ہر وجود سے بالاتر ہے کیونکہ اس سے بالاتر کوئی اور وجود نہیں ہے۔ کلمات پر حکمتوں کا نزول ذاتِ احدیت سے ہوا جوکہ مراتب کے اعتبار سے اقدم ترین اور بالاترین مقام ہے۔ یہاں قدیم نہیں کہا بلکہ اَقدم کہا کیونکہ یہ بیان کیا جا سکے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے بالاتر کوئی وجود نہیں ہے۔

مرتبہِ احدیتِ ذاتی افاضہ کرتی ہے جس کی وجہ سے تمام خلقت سامنے آتی ہے۔ البتہ یہ افاضہ دو مرحلہ میں ہے:
۱۔ افاضہِ علمیِ مخلوقات: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات میں تمام خلقت کا علمی وجود رکھتا تھا جس کو عرفاء عینِ ثابت کہتے ہیں۔
۲۔ افاضہِ خارجی مخلوقات:اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد اسی خلقت کے وجودِ علمی کو خارج میں وجود اور تحقق دیا ۔ خارجی وجودات کو عینِ خارجی کہتے ہیں۔
اس کو ہم اس مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک انجینئر پہلے ذہن میں ایک گھر کے وجود کا نقشہ بناتا ہے ۔ ذہن میں موجود گھر کا وجود ’’وجودِ علمی‘‘ ہے جبکہ وہی گھر جب زمین پر بن جاتا ہے تو یہ اسی علمی وجود کی خارجی تصویر ہے۔ تمام موجودات کا وجودِ علمی ذات الہٰی کے پاس تھا جہاں سے تنزل کیا مرحلہِ مجردات جسے عالم عقول یا جبروت کہتے ہیں اور وہاں سے تنزل کیا اور وجودِ مثالی اختیار کیا اور اس کے بعد وجودِ ناسوتی ۔ پس یہ وجودات کے مراتب ہیں۔ مرتبہِ عقلی بلندتر ہے مرتبہِ ملکوتی کی نسبت سے اور مرتبہِ علمی بالاتر ہے مرتبہِ عقلی سے اور مرتبہِ علمی سے بالاتر ذاتِ احدیت ہے اس لیے اس مقام کو ’’اَقدم‘‘ کہا گیا۔ان مراتبِ وجودی میں ہر مافوق علت اور حقیقت ہے اور مافوق کے نیچے ماتحت معلول اور رقیقت ہے۔ ہر مافوق شاخص ہے اور ہر ماتحت ظل اور سایہ ہے۔

اسم اور صفات میں فرق اور مراتب:

اسم اور صفت میں فرق ہے۔ صفت کا جب تعین کیا جائے تو اسم سامنے آتا ہے۔ علیم اسم ہے لیکن علم صفت ہے۔ حیات صفت ہے حی اسم ہے۔ قدرت صفت ہے اور قدیر اسم ہے ۔ یہ سب صفات و اسماء ہم مرتبہ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے طول میں ہیں۔ بالاتر صفات کے اسماء بھی بالاتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ اسماء و صفات قدیم ہیں۔ البتہ ذات ان صفات و اسماء میں بالاتر اور اَقدم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک حی ہے ، ایک علیم ہے، ایک قدیر ہے، ایک مرید ہے … ۔یہ سب اسماء مراتب کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں کیونکہ جو حی نہیں وہ علیم و قدیر نہیں ہو سکتا چنانچہ اسمِ حی تمام اسماء سے بالاتر ہے۔ اگر ایک ذات حی ہو اور علیم ہو تو قدرت کو استعمال کرتی ہے اور جب قدرت رکھتا ہو تو مرید ہے۔ اس لیے مرید متأخر رتبہ ہے اسماءِ الہٰی میں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک ذات مرید یعنی ارادہ کرنے والی ہو لیکن قادر نہ ہو، ایسا نہیں ہو سکتا جو قادر ہو لیکن حی نہ ہو !! چنانچہ اسم حی ان سب پر بالاتر ہے اور ان سب اسماء پر سب سے جامع اور بالاتر ’’اسمِ اللہ‘‘ ہے۔ اسمِ ’’اللہ‘‘ سب اسماء پر حاکم اور جامع ہے اس کے بعد جب نیچے آئیں تو پھر حی ہے۔

وإن اختلفت الملل والنحل لاختلاف الاُمم:

ملل جمع ہے جس کی مفرد ’’ملت‘‘ ہے۔ عربی زبان میں ملت سے مراد دین ہے اور نحل سے مراد مذہب ہے ، مثلاً اسلام دین ہے یعنی ملتِ اسلام اور اس میں مذاہب کا ہونا ہے جیسے جعفری، حنفی ، مالکی ، شافعی وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسلؑ کا سلسلہ جاری کیا اور پے درپے انبیاءؑ بھیجے اور ان کے ساتھ شریعتیں نازل کیں۔ تمام انبیاءؑ ایک دین کے حامل اور مبلغ تھے اگر کوئی فرق تھا تو ان کے زمانے کے اعتبار سے شریعت کے جزوی مسائل میں اختلاف تھا۔ پس تمام انبیاءؑ اصول دین میں متحد اور متفق تھے صرف فروعی جزوی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے۔ چنانچہ سب ایک دین کے پیرو تھے اور فرق شریعت کے اعتبار سے تھا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلام‏ }. [17]آل عمران: ۱۹۔اس آیت کریمہ میں اسلام اصطلاحی معنی میں اسلام نہیں بلکہ اپنے لغوی معنی میں ہے جس سے مراد اللہ کے سامنے سرتسلیم خم ہونا ہے۔ دین وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم ہوا جائے۔ تمام انبیاءؑ اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم تھے۔ یہ شریعتیں معاشروں کے ارتقاء کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے نازل کی۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں معاشرے اس سطح تک پہنچ گئے کہ آخری شریعت جو جامع ترین شریعت ہے کو حمل کر سکے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدی ﷺ نازل کر کے بقیہ تمام شریعتوں کو منسوخ کر دیا۔ پس ضروری ہے کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ معاشرے مسلسل ترقی اور ارتقاء کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ہم جس زمانے میں ہیں بعد والے ہم سے زیادہ کامل تر زمانے میں ہوں گے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی چھوٹے ہوتے سکول گئے لیکن آج جو بچے سکول جا رہے ہیں وہ سیاسی تحلیل کر لیتے ہیں جوکہ معاشرے کے ارتقاء کی دلیل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاءؑ کو معجزات بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق عنایت فرمائے۔ حضرت موسیؑ کے دور میں جادو کا دور دورہ تھا اس لیے ان کے زمانے کے تقاضے کے مطابق انہیں جادو کا توڑ کرنے والے معجزات عنایت فرمائے جس کو کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔ جناب عیسیؑ کے دور میں طبابت اور حکمت اوج پر پہنچی ہوئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے زمانے کے تقاضے کے مطابق انہیں معجزات عنایت فرمائے۔ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں اوج کی شاعری و بلاغت تھے کہ بازار عکاظ میں بڑے بڑے شاعر اپنی شاعری کے گوہر ظاہر کرتے اور ایک دوسرے پر تفاخر و برتری فصاحت و بلاغت کو معیار بنا کر ظاہر کرتے۔ فصاحت و بلاغت کی اوج بلندی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اہل بیتؑ کو بھی عنایت فرمائی جس کی وجہ رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ فی البدیہہ خطبات دیا کرتے اور کلام فرماتے تھے۔ وہ نہ جملوں کی ترتیب بندی کے لیے وقت گزارتے اور نہ خطاب سے پہلے آمادگی و تیاری کے لیے کہیں سے موادِ علمی پڑھتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اہل بیتؑ فصیح و بلیغ ترین ہستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو قرآن کریم کا معجزہ اوجِ فصاحت و بلاغت و حکمت و معارف پر مشتمل صورت میں عنایت فرمایا۔اسی طرح زمانے کے اختلاف سے شریعتیں مختلف ہیں جیساکہ معجزات مختلف ہیں۔ شریعت میں اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب انبیاءؑ نے توحید و معاد اور نبوت و انزال کتب کی تبلیغ کی۔ ہر زمانہ استعداد اور قابلیت کے اعتبار سے خاص شرائط اور مزاج کا حامل تھا جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انبیاءؑ پر شریعت کو نازل کیا ۔ چنانچہ سب انبیاءؑ نے دین حق کی طرف تبلیغ کی اور معجزات معنی کے اعتبار سے اگرچے ایک ہے لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار سے زمانے کے تقاضوں سے ہمآہنگ ہے۔عیون اخبار الرضاؑ میں امام رضاؑ سے یہی فلسفہ منقول ہے جس میں امامؑ نے ابن سکیت کو معجزاتِ انبیاءؑ میں اختلاف کا فلسفہ بیان کیا ہے۔ شیخ صدوق روایت نقل کرتے ہیں :{ عَنْ أَبِي يَعْقُوبَ الْبَغْدَادِيِّ قَالَ: قَالَ ابْنُ السِّكِّيتِ لِأَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع لِمَا ذَا بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ بِالْعَصَا وَ يَدِهِ الْبَيْضَاءِ وَ آلَةِ السِّحْرِ وَ بَعَثَ عِيسَى ع بِالطِّبِّ وَ بَعَثَ مُحَمَّداً ص بِالْكَلَامِ وَ الْخُطَب فَقَالَ لَهُ أَبُو الْحَسَنِ ع إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَمَّا بَعَثَ مُوسَى ع كَانَ الْأَغْلَبُ عَلَى أَهْلِ عَصْرِهِ السِّحْرَ فَأَتَاهُمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِمَا لَمْ يَكُنْ عِنْدَ الْقَوْمِ وَ فِي وُسْعِهِمْ مِثْلُهُ وَ بِمَا أَبْطَلَ بِهِ سِحْرَهُمْ وَ أَثْبَتَ بِهِ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ وَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بَعَثَ عِيسَى ع فِي وَقْتٍ ظَهَرَتْ فِيهِ الزَّمَانَاتُ وَ احْتَاجَ النَّاسُ إِلَى الطِّبِّ فَأَتَاهُمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِمَا لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ مِثْلُهُ وَ بِمَا أَحْيَا لَهُمُ الْمَوْتَى وَ أَبْرَأَ لَهُمُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى وَ أَثْبَتَ بِهِ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ وَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّداً ص فِي وَقْتٍ كَانَ الْأَغْلَبُ عَلَى أَهْلِ عَصْرِهِ الْخُطَبَ وَ الْكَلَامَ وَ أَظُنُّهُ قَالَ وَ الشِّعْرَ فَأَتَاهُمْ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَوَاعِظِهِ وَ أَحْكَامِهِ مَا أَبْطَلَ بِهِ قَوْلَهُمْ وَ أَثْبَتَ بِهِ الْحُجَّةَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ ابْنُ السِّكِّيتِ تَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ مِثْلَكَ الْيَوْمَ قَطُّ فَمَا الْحُجَّةُ عَلَى الْخَلْقِ الْيَوْمَ فَقَالَ ع الْعَقْلُ يُعْرَفُ بِهِ الصَّادِقُ عَلَى اللَّهِ فَيُصَدِّقُهُ وَ الْكَاذِبُ عَلَى اللَّهِ فَيُكَذِّبُهُ فَقَالَ ابْنُ السِّكِّيتِ هَذَا وَ اللَّهِ الْجَوَابُ }.[18]صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۷۹۔

وصلی اللہ علی ممدّ الھمم:

شیخ اکبر نے رسول اللہ ﷺ کو ’’ممدّ الھمم‘‘ کے وصف سے متصف کرتے ہوئے ان پر اللہ کا درود بھیجا ہے۔ ممد الھمم سے مراد بلند ہمت کے مالک ہیں۔’’ھِمم‘‘ میں الف لام یا استغراق کا ہے جس سے مراد تمام قسم کی ہمت ہے ، یا الف لام عہدی ہےجوکہ مصنف کے ذہن میں نوع یا مرتبہِ ہمت ہے جس کی طرف الف لام کے ذریعے سے اشارہ کیا ہے۔ ہمت کا ایک معنی لغوی ہے جوکہ کلمہِ ھَم سے مشتق ہے جس کا معنی قصد و ارادہ ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَ هَمَّ بِها لَوْ لا أَنْ رَأى بُرْهانَ رَبِّه}. [19]یوسف: ۲۴۔  اس آیت کریمہ میں ھَمّ اپنے لغوی معنی میں ہے کہ زلیخا نے یوسفؑ کا قصد و ارادہ کیا اور جناب یوسفؑ نے زلیخا کا ارادہ کیا ۔ یوسفؑ کا ارادہ روایت کے مطابق زلیخا کو قتل کا تھا۔ اصطلاح میں ہمت سے مراد قلبی توجہِ تام ہے۔ توجہِ تام سے مراد تمام کی تمام توجہ اللہ سبحانہ کی جانب ہونا ہے۔ عرفان میں ہمت سے مراد ’’کامل و تام توجہ کا اللہ سبحانہ ‘‘ کی جانب ہونا ہےتاکہ اپنے لیے کمال حاصل کرے یا اپنے غیر کے لیے کمال حاصل کرے، جیساکہ جناب عیسیؑ توجہ کے ذریعے پیدائشی نابینا کو بینا کرتے تھے، مردے کو زندہ کرتے ، پرندے میں پھونکتے تو وہ اڑنے لگتا۔ یہ سب وہ ہمت کے ذریعے انجام دیتے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہِ تام کر کے جناب عیسیؑ یہ امور انجام دیتے۔ یہاں اپنے غیر کی خاطر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہِ تام کی تاکہ دوسرے کو زندگی یا شفاء عنایت کریں۔ رسول اللہ ﷺ ہمتیں دینے والے اور ہمتوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ آنحضرت ﷺ ہیں جو سب انبیاء و مرسلین ؑ کی ارواح کی ہمتوں کو قوت اور مدد عنایت فرمانے والے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ تمام اولیاء و مومنین کی ہمتوں کو تقویت و مدد پہنچاتے ہیں تاکہ ہم اپنے کمال تک پہنچ سکیں۔

من خزائن الجود و الکرم:

’’مِن‘‘ جار اور مجرود متعلق ہو رہے ہیں ممد الھمم کے۔ خزائن سے مراد حقائقِ الہٰی ہیں جوکہ اسماء و صفاتِ الہٰی سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔ جود و کرم میں الف لام داخل ہے جوکہ مضاف الیہ کے بدلے میں ہے۔ اصل عبارت اس طرح سے تھی : ’’من خزائن جودہ وکرمہ‘‘ ۔ مضاف الیہ حذف کر کے اس کو الف لام کی شکل میں لے آئے۔صفتِ جواد اس وقت کہلاتی ہے جب عطا کرنے والے مدمقابل کی قابلیت و استعداد کو مدنظر رکھےبغیر عنایت کرتا ہے چاہے مدمقابل مستحقِ عطا ہے یا نہیں جبکہ ’’وصفِ کریم و کرم‘‘ اس کے لیے بولا جاتا ہے جو اس وقت دیتا ہے جب مدمقابل مانگے اور استحاق رکھتا ہو۔ اگر مستحق نہ ہو یا سوال نہ کرے تو صفت کرم کا تقاضا ہے کہ عنایت نہ کیا جائے۔ ’’ جواد‘‘  ہر ایک کو دیتا ہے چاہے مستحق ہے یا نہیں جبکہ کریم استحقاق کے مطابق عطا کرتا ہے ، بالکل اسی طرح جیساکہ رحمن اور رحیم میں فرق کیا جاتا ہے کہ رحمن عمومی رحمت کو بیان کرتا ہے اور رحیم مختص ہے مومنین کے ساتھ۔ رسول اللہ ﷺ  اللہ سبحانہ سے تمام کے تمام اوصاف اور خزائنوں کو اخذ کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے واضح بیان فرمایا ہے کہ مفاتح الغیب اللہ سبحانہ ہے۔ مفاتح حقیقت میں ’’مفتح‘‘ کی جمع ہے۔ مفتاح کی جمع مفاتیح آتی ہے ۔ آیت میں مفاتیح نہیں مفاتح کا تذکرہ ہے جوکہ مفتح کی جمع ہے۔ مفتح کا مطلب خزانہ ہوتا ہے۔ مفاتح یعنی خزائن ، غیب کے سب خزانے اللہ سبحانہ کے قبضہِ قدرت میں ہے۔ آنحضرتﷺ قطب عالم آفرینش ہیں ۔ قطب سے مراد وہ مرکز و دائرہ ہے جس کے گرد تمام چیزیں گردش کر رہی ہیں۔ خزانہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے جن پر اختیار اس کی ذات ِ اقدس نے آنحضرتﷺ کو عطا کی ہے ۔ پس خزائن اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ان خزائن پر تصرف کی قدرت رسول اللہ ﷺ کو عنایت ہے۔

رسول اللہ ﷺ کو فصل الخطاب کے وصف سے بھی متصف کیا جاتا ہے۔ یہاں صفت کو موصوف کی طرف اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ اصل خطاب الفصل تھا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر کلام میں جہاں اختلاف اور بحث چھڑ جائے وہاں رسول اللہ ﷺ کا کلام فیصلہ کنندہ ہے اور جب ان کا کلام سامنے آ جائے تو اس کے سامنے سب کلام خاموش ہو جاتے ہیں۔ پس رسول اللہ ﷺ انتہائی بلند ہمت کے مالک تھے اور جو ان کے طریق پر چلنا چاہتا ہے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ہمت کو بلند کرے اور استقامت کو اختیار کرے۔ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ اور تمام خلقت کے درمیان علمی اور عینی طور پر واسطہِ فیض ہے۔ علمی سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ سے علمی طور پر اخذ کرتے ہیں اور خلقت کو عنایت کرتے ہیں اور عینی سے مراد ہے کہ وجود و عین کو اللہ تعالیٰ سے اخذ کرتے ہیں اور موجودات کو عنایت کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ رب الارباب اور عوالم کے درمیان علمی و عینی واسطہ فیض ہیں۔ اصل ثمرہ آنحضرت ﷺ ہیں جوکہ اصل مقصود ہیں کیونکہ درخت سے مقصود پھل ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تمام خلقت میں اصل مقصودِ نظر آنحضرتﷺ ہیں۔

صلوات و درود کا معنی اور اقسام:

شارح اس کے بعد آل پر صلوات کی شرح بیان کرتے ہیں۔ آل کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ آل ظاہری، سادات جو رسول اللہ ﷺ سے نسبی تعلق رکھتے ہیں۔
۲۔ آل معنوی، ممکن ہے کوئی شخص رسول اللہ ﷺ سے نسبی تعلق نہیں رکھتا لیکن ایمان و تقوی کی بناء پر آنحضرت ﷺ کی آل شمار ہو گا۔ اس کا تذکرہ متعدد احادیث میں ہےکہ ہر تقی و نقی میری آل میں سے ہے۔
۳۔ ظاہر و باطن ہر دو اعتبار سے آل ہونا، یہ آئمہ اطہارؑ ہیں جوکہ نسبی طور پر بھی آل ہیں اور ایمان و تقوی میں ان سے برتر کوئی نہیں ہے۔
پس قرآن کریم میں ارشاد رب العالمین ہوتا ہے:
{ إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا }. [20]احزاب: ۵۶۔رسول اللہ ﷺ پر ایک مرتبہ اللہ سبحانہ درود بھیجتا ہے ، ایک مرتبہ فرشتے اور ایک مرتبہ بندگان۔ تینوں کے درود کے معنی میں فرق ہے۔ صلوات اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو یہ افاضہِ رحمت ہےاور اگر صلوات و درود فرشتوں کی طرف سے ہو تو طلبِ غفران ہے اور اگر بندہ کی جانب سے ہو تو طلبِ رحمت ہے۔ اللہ تعالی ٰ کی جانب افاضہِ رحمت ہے اور بندوں کی جانب سے طلبِ رحمت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ درود میں ان کی آل بھی ہے۔ آل سے مراد فقط آئمہ اطہارؑ نہیں بلکہ ہر تقی اور نقی و پاکیزہ ان کی آل کہلائے گا۔ ہر کوئی درود بھیجتا ہے تو ہر متقی و پاکیزہ اس دعا میں شامل ہے۔اللہ تعالیٰ کے بعض اسماء وسیع ہیں اور بعض وہ وسعت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے وسیع اور جامع اسم ’’اللہ‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شیء کو اس کی ظرفیت اور استعداد کے مطابق عطا کیا ہے۔ دینے والی ذات جواد مطلق ہے، رحیم و کریم مطلق ہے ، اصل مشکل لینے والے کی ہے کہ اس میں مزید کی ظرفیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درخت حیوان نہیں ہے اور حیوان انسان نہیں ہے ۔ اسی طرح انسانوں میں سب نبی اور امام نہیں ہو سکتے۔ اللہ سبحانہ سب کو عطا کر رہا ہے اور اس کا فیض جاری ساری ہے لیکن لینے والا اپنے وجود کی ظرفیت کے مطابق وصول کرتا ہے۔ سورج کی روشنی پر غور کریں تو کمرے سے باہر ایک نور ہے لیکن کمرے کے اندر کھڑکی کے سوراخوں اور دیگر رنگوں کے اعتبار سے بکھرے میں متعدد نور ہیں۔

بعض سوال کرتے ہیں کہ سید کون ہے؟ کیا نبی اکرم ﷺ کی نسل سید کہلاتی ہے؟ کیونکہ اگر نسلِ رسول اللہ ﷺ سید کہلاتی ہے تو پھر نہ امام علیؑ سید ہیں اور نہ مسلم بن عقیل ؓ سید ہیں؟ سید کون ہے جو خمس لے سکتا ہے اور فطرانہ غیر سید کا نہیں لے سکتا ؟ فقہی طور پر سید وہ کہلاتا ہے جو جناب ہاشم کی نسل سے آیا ہے۔ جناب ہاشم عبد مناف کی اولاد تھے اور ان کی اولاد عبد المطلب تھے جن کے گیارہ بیٹے تھے۔ جو بھی جناب ہاشم کی نسل سے آیا ہے وہ فقہی و شرعی طور پر سید ہے۔ اس ضابطہ کے تحت امام علیؑ اور ان کے والد جناب ابو طالبؑ سید تھے ۔ اسی طرح جناب عباس بن  عبد المطلب اور ان کی اولاد، جناب عقیل اور ان کی اولاد سب سید تھے۔ البتہ جناب فاطمہؑ کی نسل ہر دو طرف سے سید ہے۔ فقہی سید کا اطلاق ہارون جوکہ امام موسی کاظمؑ کا قاتل تھا پر بھی ہوتا ہے، اسی طرح متوکل و معتصم جیسے بدترین ناصبیوں پر بھی فقہی سید کا اطلاق ہوتا ہے چونکہ یہ سب جناب عبد المطلب کی اولاد سے تھے۔

یہاں جب ہم آل کہتے ہیں تو آل سے مراد تمام عمومی معنی میں سید نہیں ہیں بلکہ ظاہری طور پر رسول اللہ ﷺ کی نسل سے ہیں بالخصوص وہ افراد جو حدیث کساء اور آیت تطہیر کا مصداق حقیقی ہیں وہ آل کا سب سے پہلے مصداق ہیں۔ اسی طرح اس شخص پر بھی آل کا اطلاق ہوتا ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اہل بیتؑ کا تابع اور پیرو رہا ہے۔ نیز آل سے مراد ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے آل ہونا ہے ، یہ معیار فقط آئمہ اطہارؑ پر سب سے پہلے مکمل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے بعض ایسے مصداق ذکر کیے ہیں جو معنوی  بنیاد پر آل کے دائرہ میں آتے ہیں، جیسے آل فرعون میں سے دو مومنین کا ہونا، پہلے مومن آل فرعون کے عنوان سے قرآن کریم میں مذکور ہیں اور دوسرے صاحبِ یس ہیں۔ پہلے مومن آل فرعون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حببیب نجار ہیں جوکہ ظاہری طور پر فرعون کے آل میں سے تھے۔ اسی طرح قرآن کریم میں سورہ یس آیت ۲۰ میں رجل کا ذکر ہے جس سے مراد احادیث کے مطابق مومن آل فرعون ہےجو اپنی قوم کو رسولوں کی اتباع کا حکم دیتے تھے۔

رحمت الہٰی کا شیء کے مطابق ہونا:

اللہ تعالیٰ کی رحمت جاری ساری ہے لیکن ہر شیء اپنی ظرفیت اور وجودی استعداد کے مطابق رحمتِ الہٰی کو حاصل کرتی ہے۔ سب سے بڑی رحمت خود وجود ہے ۔ جو شیء بھی وجود رکھتی ہے وہ وجود کی رحمت سے بہرہ مند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت عمومی ہے جسے رحمانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی عمومی رحمت کی بدولت ہر شیء کو وجود عطا ہوا ہے۔ جبکہ ایک رحمتِ الہٰی خاص اور مختص ہے جسے رحیمیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رحیمیت میں رحمتِ الہٰی بلندی کر طرف لے کر جاتی ہے، مثلاً شمر ، ابلیس وغیرہ کا وجود رحمانیت کی بناء پر عنایت ہوا لیکن یہ سب اشرار رحمانیت کی رحیمیت سے محروم ہیں ۔ حقیقتِ رحمت سے کوئی باہر نہیں ہے لیکن رحیمیت سب پر نچھاور نہیں ہے۔ پس فیض رحمت الہٰی ہر شیء کے لیے اسی شیء کے مطابق ہے۔ اس بارے میں ہم مختلف گروہوں پر دقت کر کے رحمتِ الہٰی کا فیض ملاحظہ کر سکتے ہیں:
۱۔ ایک گروہ عاصین کا ہے جس میں عاصی کے لیے فیض رحمتِ الہٰی غفران ہے ۔
۲۔ دوسرا گروہ صالحین کا ہے جس میں صالح  اس کے لیے فیض رحمت الہٰی جنت و بہشت ہے۔ انہی میں سے ایک ولی اللہ ہے اس کے لیے رحمت فیض الہٰی تجلیات ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے صالح بندوں کے لیے کیا کیا نعمت آمادہ رکھی ہے اس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے خیال میں گزرا ہے۔ سورہ سجدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {
فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ ما أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزاءً بِما كانُوا يَعْمَلُون }. [21]سجدہ: ۱۷۔
۳۔ تیسرا گروہ عارفین و موحدین ہیں جنہیں علومِ یقینی اور معارفِ حقیقی عنایت ہوتے ہیں جن کے لیے عوالم کے حقائق کشف ہوتے ہیں۔
۴۔ چوتھا گروہ محققینِ کاملین مکمل کا ہے جوکہ خود بھی بلندی پر گئے ہیں اور دوسروں کو بھی بلندی کر طر ف لے جاتے ہیں ، مثلاً انبیاء و رسل ؑ اور آئمہ اطہارؑ ۔ ان کے لیے رحمتِ الہٰی کا فیض تجلیات کی صورت میں جاری ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی معرفت انہیں کراتا ہے اور اپنی ذات کے علاوہ اسماء و صفات کی معرفت عنایت کرتا ہے۔ یہ محققین کاملین جنت کے اعلیٰ ترین مراتب ہیں ، مثلاً جناتِ اعمال، جنت ذات و صفات، ان میں بالاترین جنت جنتِ ذات و صفات الہٰی ہے جس میں لذت نہیں ابتہاج ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہر اسم اس شیء کے اعتبار سے حاکم ہے جیسی وہ شیء ہے۔ ہر اسم جوکہ حاکم ہے اس اسم سے اس کے ماتحت شیء فیض کسب کرتی ہے۔ اسماءِ الہٰی میں اسمِ جامع ’’اللہ‘‘ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا جو فیض جاری ہوا ہے وہ اسمِ جامع سے فیض جاری ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ربّ اللہ سبحانہ ہے۔ سورہ احزاب آیت ۵۶ میں لفظِ اللہ آیا ہے نہ کہ رحمن یا رحیم۔ اللہ تعالیٰ نے واسطہِ فیض وجودِ رسول اللہ ﷺ کو قرار دیا ہے جوکہ اللہ تعالیٰ اور خلقت کے درمیان واسطہ ہیں۔ ایک درخت کو جب کاشت کیا جاتا ہے اور وہ نشوونما پا کر پھل دینے لگتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس میں درخت اصل اور پھل فرع ہے یا نہیں بلکہ درخت فرع ہے اور پھل اصل ہے؟ ہر دو صورتیں اور ہر دو جواب درست ہیں ، فرق فقط جہت اور اعتبار کا ہے۔ وہ جو درخت کو اصل اور پھل کو اس کا فرع قرار دیتے ہیں وہ ظاہر بین ہیں ۔ دوسری طرف سے دیکھیں تو زمین کو ہموار کر کے درخت کو کاشت کرنے اور سب محنت و زحمت کے ماوراء اصل مقصد یہی پھل تھا ۔ چنانچہ ثمر اور پھل اصل مقصود ہے اور اس کے علاوہ بقیہ سب امور فرع ہیں اس پھل کے۔ اللہ سبحانہ کے پیش نظر ثمرِ ہستی وجود آنحضرت ﷺ ہے اور انہی کے واسطے سے بقیہ وجودات کو فیض عنایت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ظہور و بروز سے پیش نظر وجود رسول اللہ ﷺ تھا جبکہ بقیہ تمام موجودات رسول اللہ ﷺ کے طفیل موجود ہیں ۔اللہ کے اسماء متعدد ہیں جو قابل شمار نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ ﷺ اور آل پر سلام بھیجنا:

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک ’’سلام ‘‘ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی پر سلام بھیجے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کے درود میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلام موجود ہے تو یہ اسمِ سلام اس ذات کے لیے تجلی ہے ۔اللہ تعالی کا رسول اللہ ﷺ پر سلام بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رسول اللہ ﷺ پر تجلی یعنی ظہورِ حق تعالیٰ ہونا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اسمِ سلام کی تجلی کے طور پر آنحضرت ﷺ کے لیے اس طرح سے ظاہر ہوا کہ ذاتِ روبوبی رسول اللہ ﷺ کو ہر نقص و عیب و قباحت سے سالم اور محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ سلام کا مطلب سلامتی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر قسم کے عیب و نقص و قباحت سے سالم و محفوظ رکھتا ہے۔

تجلیات کی دو قسم کی ہے:
۱۔ تجلیِ جمالی:جمالی سے مراد اللہ تعالیٰ کا رحیم و کریم ہونا اور عطا کرنے والا ہونا ہے۔ ہر اسم جو اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت و شوق اور محبت کو پیدا کرے وہ تجلیِ جمالی ہے۔
۲۔ تجلی جلالی: اللہ تعالیٰ کا قاہر ہونا، عذاب دینے والا ہونا ہے۔ ہر اسمِ الہٰی جو اللہ تعالیٰ سے خوف کو ایجاد کرے وہ اسماء الہٰی ہے۔

اگر سلام و تسلیم ہماری طرف سے ہو تو یہ دُعا ہے جوکہ طلب سلامت ہے ۔یہ دعا کہ اللہ تعالی ان ہستیوں کو ہر قسم کے عیب و نقص و قباحت سے سالم و محفوظ رکھے۔تسلیم اختیاری اور رغبت کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ مجبوری اور کراہت کے طور پر۔ نیز سلام ایک مرتبہ قولی ہے اور ایک مرتبہ فعلی ہے۔ قولی کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ سلامِ فعلی یہ ہے کہ ہمارا عمل رسول اللہ ﷺ کے تابع ہو۔ اگر ہمارا عمل آئمہؑ کے مطابق نہیں ہوتا تو ہمارا سلام فقط آئمہؑ پر زبانی کلامی سلام بھیجنا ہے جبکہ عمل میں ہم تسلیمِ عملی سے کنارہ کش ہیں۔ اگر تسلیم ِ عملی موجود نہ ہو تو یہ بیان کرتا ہے کہ تسلیمِ قولی کاذب اور فقط زبانی کلامی دعوی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { فَلا وَ رَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوا تَسْلِيماً }.[22]نساء: ۶۵۔

فصوص الحكم لكھنے کی وجہ:

ابن عربی کہتے ہیں کہ میں دمشق میں تھا اور محصورہِ دمشق میں تھا ۔ محصورہ سے مراد ہے کہ دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اس شہر کو محفوظ رکھنا۔ ابن عربی کہتے ہیں کہ میں نے ایک خواب میں  رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جو انہوں نے یہ کتاب مجھے عنایت کی اور فرمایا کہ اس کو پکڑو اور لوگوں کے درمیان اس کتاب کو نشر و بیان کرو۔ عموماً اولیاء الہٰی جب مکاشفات یا کرامات میں سے کچھ حاصل کرتے ہیں تو اس کو لوگوں سے مخفی رکھتے ہیں اور اگر کوئی شاگرد ان سے آگاہ ہو جائے تو وہ شاگرد کو خصوصی تلقین کرتے ہیں کہ اس کو کسی کے سامنے کسی صورت آشکار نہ کرو۔ یہاں ابن عربی نے کتمان اور پوشیدہ نہیں رکھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کتاب کو دیگر لوگوں کے درمیان آشکار اور بیان کیا جائے۔ اس وجہ سے ابن عربی نے فصوص الحکم کتاب لکھی اور لوگوں میں اس کو نشر کیا۔ فصوص الحکم کے لکھنے کی وجہِ اصلی یہی وؤیا صادقہ تھی۔          اولیاءِ الہٰی اللہ تعالیٰ کے امین ہوتے ہیں اس لیے جو کچھ وہ اپنے ولی سے حاصل کرتے ہیں اس امانت کی حفاظت کرتے ہیں اور اسے منتشر نہیں کرتے ۔لوگوں نے مجنوں سے کہا کہ لیلیٰ کے بارے میں ہمیں بتاؤ تم لیلیٰ کے راز دار ہو، مجنوں نے جواب دیا :

يقولون خَبِّرْنَا فَأَنْتَ أمينُهَا
وَمَا أَنَا إِذْ خَبَّرْتُهُمْ بِأَمِيْنِ
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں خبر دو تم اس کے امین ہو
اگر میں انہیں بتا دوں تو میں امین نہیں رہو گا

یہ کتاب اگر میں نے منتشر کی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کتاب کو منتشر کرنے کا حکم مجھے دیا تھاتاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں اور لوگوں کے حجاب برطرف ہوں۔ حجاب ظلمانی و نورانی ہر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ کتاب کی عبارات شیخ اکبر سے ہیں لیکن اس کتاب کے حقائق آنحضرتﷺ کی جانب سے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے جو مطالب و معارف دریافت کیے تھے انہیں شیخ اکبر نے اپنی عبارات میں پرو کر کتاب صورت میں ڈھالا۔ فصوص جمع ہے فص کی ۔ فص کا مطلب اس مکھن کے ہیں جو دودھ میں مسلسل مدانی چلنے کی وجہ سے اوپر آ جاتی ہے۔ یہ مکھن حقیقت میں وہی دودھ اور اور جوکچھ دودھ میں تھا وہی ہے لیکن ہمارے سامنے سب اجزاء مختصرطور پر سامنے آ گئے۔ فص کا ایک معنی نگینہ کے ہیں ۔ انگوٹھی میں نگینہ کو فص کہتے ہیں جسے بچانے کے لیے اسے چاندی میں پرویا جاتا ہے اور اصل قیمت پوری انگوٹھی میں فص یعنی نگینے کی ہی ہوتی ہے ۔عالمِ وجود انگوٹھی کے گرد حلقے کی مانند ہے اور اس عالم وجود کا نگینہ اس کتاب کے معارف اور مطالب ہیں۔

          شیخ اکبر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ۶۲۷ ھ محرم کے آخری ایام میں مبشرہ میں دیکھا ۔ مبشرہ سے مراد سچا خواب ہے۔ ہر خواب کاذبہ نہیں ہے بلکہ بہت سے خواب صادق ہوتے ہیں۔ سچا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔ شیخ اکبر کا کہنا ہے کہ میرا یہ خواب سچا خواب تھا اس لیے میں نے خواب میں جو مطالب آنحضرتﷺ سے اخذ کیے انہیں اپنی عبارات اور اسلوب میں تحریر کیا ہے۔ شیخ اکبر کہتے ہیں کہ یہ معارف مجھے میرے ارادہ کے بغیر مجھے عنایت کیے گئے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ جو مطالب یا حکمت ارادہ کے بغیر عنایت ہو اسے بہت بڑی غنیمت قرار دینا چاہیے جوکہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ شیخ اکبر کہتے ہیں کہ میرے ذہن میں نہیں تھا کہ میں نے کوئی کتاب ان معارف مشتمل لکھنی ہے۔ لیکن مجھے حق تعالیٰ نے بغیر کسی ارادہ، محنت زحمت اور فکر و تأمل کے یہ مطالب عطا کیے تاکہ اس میں میرے نفسانی اغراض اور شیطانی خیالات داخل نہ ہوں۔ میں محروسۃ دمشق میں تھا۔ محروسہ سے مراد حراست میں ہونا ہے۔ جب ایک شہر چاروں طرف سے امن اور حفاظت و نگہداشت میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کے نتیجے میں دشمن سے یہ محفوظ ہو تو اس کو محروسہ کہتے ہیں۔ محروسہ ایک قسم کی دعا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اس شہر کو دشمن کی ستم گیری سے بچائے رکھتا ہے۔ شیخ اکبر کہتے ہیں میں محروسۃ دمشق میں تھا اور خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ایک کتاب لیے ہوئے ہیں ۔یہ کتاب اسرار اور حکمتوں کا مجموعہ تھا جس کے تمام معارف رسول اللہ ﷺ کی ملکیت اور ان کے تصرف میں تھے۔ اس بیان میں ’’ید‘‘ سے مراد تصرف و عطاء و اخذ ہے کیونکہ ید مظہرِ تصرف و عطاء ہے۔ آنحضرت ﷺ نے وہ کتاب میرے حوالے کی اور فرمایا کہ یہ فصوص الحکم ہے جسے پکڑ لو اور لوگوں میں نشر کرو۔ میں نے کہا کہ میں اللہ ، رسول ﷺ اور اپنے میں سے اولی الامر کا حکم سننے والا اور حکم کی تعمیل کرنے والا  اطاعت گزار ہوں ۔ 

          اس کتاب کا نام فصوص الحکم خود رسول اللہ ﷺ نے رکھا ہے۔ فصوص الحکم اسم ہے اور مسمی یہ کتاب اور اس کے مطالب ہیں۔ اسم اور مسمی میں تناسب و سازگاری ہونی چاہیے۔ یہ اسم بیان کرتا ہے کہ اسرار اور حکمتوں کا یہ خلاصہ ہے جو انبیاءؑ کی ارواح پر نازل ہوئیں اور اس اسم کا مسمی یہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں حکمت کے زبدہ اور خلاصہ وارد ہوا ہے۔ عرفاء نظامِ جہان کو دو نیم دائرہ قرار دیتے ہیں جنہیں ملایا جائے تو ایک کامل دائرہ بن جاتا ہے۔ ایک نیم دائرہ قوس نزول کہلاتا ہے اور دوسرا نیم دائرہ قوس صعود کہلاتا ہے۔ قوس نزول میں بالاتر فلاسفہ کے مطابق عقلِ اول ہے اور عرفاء اس کو حقیقتِ محمدیہ ﷺ کہتے ہیں۔ یہاں سے نزول شروع ہوتا ہے اور عالم طبیعت میں ہیولیٰ پر ختم ہوتا ہے۔ پست ترین موجود مادہ اور ہیولیٰ ہے ، واپسی کا سفر سب سے پست ترین وجود یعنی مادہ اور عیولیٰ سے شروع ہوتا ہے اور اوپر کی طرف سفر کرتے کرتے عالم عقل میں پیوست ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ مظہرِ اول و آخِر ہیں ۔ عرفاء ’’عالم‘‘ کو دو تا قوس یعنی دو نیم دائرہ کی صورت میں تصور کرتے ہوئے قرآن کریم سے استدلال قائم کرتے ہیں:{ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ في يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّون }‏. [23]سجدہ: ۵۔ اسی طرح انگوٹھی دائرہ کی شکل میں ہوتی ہے جوکہ دو نیم دائرہ میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ انگوٹھی کے دائرہ سے مراد نظامِ عالم ہے اور اس میں نگین جسے عربی میں فصّ کہتے ہیں سے مراد قلب انسان کامل ﷺ ہے۔ اس لیے اس کتاب کا نام فصوص الحکم قرار دیا ہے۔اس کتاب میں ۱۲۰ انسان کامل کی وضاحت بیان کی گئی ہے۔ شیخ اکبر نے انسان کامل کے قلب کو نگینہ سے تشبیہ دی ہے اور قوس نزول و قوس صعود کو انگوٹھی کے دائرہ شکل سے تشبیہ دی ہے۔ کتاب میں موجود ہر فص ایک حکمت سے متعلق ہے اور ہر حکمت کا تعلق کلمہ یعنی انسان کامل سے ہے۔فصوص الحکم کی سو سےاوپر  شروحات لکھی جا چکی ہیں جن میں سے ایک قیصری کی فصوص الحکم ہے۔ فصوص الحکم کی آخری شرح خود آیت اللہ علامہ حسن زادہ آملیؒ نے لکھی ہے جس کا نام ممد الھمم ہے۔ سب سے پہلی شرح بابا رکن الدین نے لکھی۔

          برازخ سے مراد عالمِ اجسام ہیں یعنی عالم طبیعت۔ اولیاء یا تو بصر سے دیکھتے ہیں یا بصیرت سے۔ کمَّل تمام عوالم میں مشیت الہٰی کے مطابق سیر کرتے ہیں کیونکہ وہ برازخ اور عالم اجسام میں مقید نہیں رہتے۔ شیخ اکبر نے متنبہ کیا ہے کہ انہوں نے سچا خواب ہے۔ الکافی میں امام جعفر صادق ؑ سے معتبر حدیث میں وارد ہوا ہے:{ عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: رَأْيُ الْمُؤْمِنِ وَ رُؤْيَاهُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ عَلَى سَبْعِينَ جُزْءا مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ؛ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ آخری زمانے میں مومن کی رائے اور اس کا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ستّرواں جزء ہے }. [24]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۸، ص ۹۰۔

          شیخ اکبر اس کتاب میں معصوم نہیں ہیں ۔ اگرچے اس کتاب کے مطالب رسول اللہ ﷺ سے اخذ شدہ ہیں جنہیں شیخ اکبر نے اپنے اسلوب میں کتابی شکل دی ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ شیخ اکبر نے اس کتاب میں کہیں سہو و نسیان یا اشتباہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کسی جگہ شیخ اکبر کو کسی جگہ اشتباہ ہوا ہے۔ جو ہستی معصوم نہیں ہے وہ اشتباہات سے مبرّا نہیں ہو سکتی ہے۔ جس طرح اکابر محدثین جن میں سے بعض مثل شیخ صدوق امام زمانؑ کی دعا سے پیدا ہوئے لیکن اس کے باوجود شیخ صدوق کی عصمت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ شیخ صدوق اپنی تمام قابلیت اور رفعتِ عظمت کے باوجود سہو بمعنی اسہاء النبیﷺ کے قائل تھے!! اسی طرح محدث نوری نے تحریف القرآن پر فصل الخطاب فی تحریف کلام رب الارباب کتاب لکھی!! یہ بزرگ شخصیات اشتباہات سے مبرّا نہیں تھیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ نے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں جو قرآن تھا اور آج جو قرآن ہے اس میں ایک واؤ تک کی کمی نہیں ہے۔ پس جو عصمت کے مقام پر ہے وہ لغزش سے دوچار ہو سکتا ہے۔ فصوص الحکم کے اگرچے مطالب لسانِ عصمت سے صادر ہوئے لیکن لینے والا اور تحریر کرنے والا غیر معصوم ہے اس لیے اشتباہات سے دوچار ہو سکتا ہے۔

          ہر نبی اپنے زمانے کے قطب تھے اور رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء کے قطب ہے اس لیے آنحضرت ﷺ کو قطب الاقطاب کہا جاتا ہے۔ اولی الامر سے مراد خلفاء مراد ہیں۔ یہاں شیخ اکبر نے اشتباہ کیا ہے اور اولی الامر کا اطلاق سلاطین و بادشاہوں پر بھی کیا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صوفیہ ظاہری اور باطنی خلافت کے قائل ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ باطنی خلافت کے پہلے خلیفہ امام علیؑ ہیں جبکہ ظاہری خلافت کے پہلے خلیفہ ابو بکر ہیں۔ یہ بات درست نہیں کیونکہ خلیفہ ظاہری و باطنی نہیں ہوتا ہے ۔ خلیفہ ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے ایک ہی ہوتا ہے نہ کہ دو۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخین غاصب تھے جنہوں نے امام علیؑ سے خلافت کو غصب کیا ۔          رسول اللہ ﷺ ظاہر کے اعتبار سے ہمارے میں سے ہیں یعنی بشر ہیں۔ اس لیے جب کہا جائے کہ ’’مِنَّا‘‘ تو اس سے مراد ظاہری اور بشری مشابہت ہے اور اگر کہا جائے ’’ کما اُمِرنا‘‘ تو یہ اللہ ، رسول ﷺ اور اولی الامر کی اطاعت کی طرف اشارہ ہے۔ اولی الامر کی اطاعت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی حقیقت ہے۔

اظہار تین طرح کا ہوتا ہے: ۱۔ ایک مرتبہ اظہار ِ قال ہے ، ۲۔ ایک مرتبہ اظہار بلسان حال ہے، ۳۔ ایک مرتبہ اظہار استعداد کے اعتبار سے ہے، مثلاً ایک فقیر زبان سے پیسے طلب کر رہا ہے ،یہ فقر کا اظہارِ قولی ہے، اس کے مقابلے میں ایک فقیر سر جھکائے ہاتھ آگے کیے ہوئے ہے ، یہ لسانِ حال سے فقر کا اظہار کر رہا ہے اور بھیک مانگ رہا ہے۔ اظہار استعداد کی مثال اس ایک لیٹر بوتل سے دی جا سکتی ہے جس میں کوئی ایک لیٹر سے زیادہ پانی ڈالنا چاہے تو وہ بوتل اپنی استعداد سے بتا رہی ہے کہ مجھے میں مزید پانی کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں شیخ اکبر نے اظہارِ استعداد سے فصوص الحکم کو رسول اللہ ﷺ سے طلب کیا ہے۔

وأن یخصنی فی جمیع ما برقمہ ….

          ابن عربی نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ بار الہٰا میرے وجودخارجی عینی، وجود ذہنی، وجود  لفظی و کتبی ، وجودِ عبارات و اشارہ کو القاءات رحمانی میں سے قرار دے۔بارالہٰا شیطان میرے اوپر مسلط نہ ہونے پائے اور مجھے خطورات شیطانی سے محفوظ فرما۔ شارح بیان کرتے ہیں کہ وجودِ کتبی کو دیگر پر مقدم کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وجودِ لفظی استمرار اور بقاء نہیں رکھتا ، منہ سے ادا ہوتا ہے اور پھر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وجودِ کتبی استمرار اور بقاء میں وجودِ عینی سے قریب تر ہے۔ اسی طرح وجودِ ذہنی کو سب سے مؤخر ذکر کیا ہے کیونکہ یہ اعتبار سے وجودِ ذہنی سب سے آخری مرتبہ ہے۔ ’’باعتبارہ‘‘  اس لیے کہا کہ وجودِ ذہنی ایک جہت سے سب سے آخری مرتبہ ہے تو دوسری جہت سے سب سے پہلا مرتبہ بھی ہے کیونکہ متکلم جب کچھ بیان کرنا چاہتا ہے اور اپنی بات دوسروں تک منتقل کرنا چاہتا ہے تو  کلمات کی ادائیگی سے پہلے ان کلمات و معانی کا تصور کرتا ہے۔ پس مطالب کو بیان کرنے اور عرض کرنے میں وجودِ ذہنی سب پر مقدم ہے ۔ البتہ دریافت اور حصول کے اعتبار سے سب سے مؤخر ہے کیونکہ ایک شیء خارج میں متحقق ہوتی ہے اس کے بعد معلومات ذہن کے پاس  منتقل ہوتی ہیں۔

بالإلقاء السبُّوحى و النَّفْث الروحي‏…

          القاء میں باء داخل ہے جس کا متعلق سابقہ عبارت ’’أن یخصنی‘‘ ہے۔ انسان اللہ سبحانہ سے القاءات وصول کرتا ہے۔ ہر شخص اپنے کانال اور اپنی ظرفیت و استعداد کے مطابق حاصل کرتا ہے۔ القاءات دو قسم کے ہیں: ۱۔ القاءات رحمانی، ۲۔ القاءات شیطانی۔ اکثر بیشتر ہمیں القاءات شیطانی سے سامنا کرتے ہیں۔ القاءات رحمانی کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ بدونِ واسطہ، ۲۔ بالواسطہ۔ اللہ تعالیٰ سے بعض براہِ راست لیتے ہیں جبکہ بعض عقل اول اور اسی طرح مراتبِ نزولی طے کرتے ہوئے ایک معنی کو حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح القاءات شیطانی کی بھی دو قسمیں ہیں: ۱۔ بدون واسطہ ، ۲۔ بالواسطہ۔ جو بدونِ واسطہ القاءات شیطانی سے وابستہ ہیں وہ براہ راست ابلیس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جبکہ بقیہ جن و انسِ شیطانی کے توسط سے القاءات سے تعلق جوڑتے ہیں۔ پس بعض تک شیطان اپنی القاءات براہ راست پہنچاتا ہے اور بعض تک جن و انس میں موجود شیاطن کے توسط سے۔

اللہ تعالیٰ سے جو براہ راست القاءات ہوتے ہیں انہیں القاءات سبوحی کہتے ہیں۔ ہر وجود اپنے کانال اور اپنے طریق سے اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہوئے سبحان اللہ کہتے ہیں۔ تو یہاں ہر ایک کا اپنے مطابق حق تعالیٰ سے ربط ہے اور وہ اپنی ظرفیت و استعداد کے مطابق سبحان اللہ کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انسان اور اپنی مخلوقات سے کبھی بھی تعلق نہیں ٹوٹتا ۔ اگرچے خالق اپنی مخلوق سے جدا ہے لیکن اس معنی میں جدا نہیں ہے کہ ہمارا اس سے تعلق نہیں ہے۔ مفارقتِ بینونۃ ممکن نہیں ہے۔ درخت ، چرند پرند غرض ہر شیء اللہ تعالیٰ سے وصل ہے۔ القاءِ سبوحی سے مراد القاءِ رحمانی ہے جوکہ اسم مضل سے منزہ ہے ۔ دوسری قسم القاءات بالواسطہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے القاءات سے تعلق واسطہ کے ساتھ ہے۔ پہلے یہ القاءات عقل اول کو حاصل ہوتے ہیں، اس کے بعد ارواحِ قدسیہ یعنی پاک نفوس کو منتقل ہوتی ہیں، اس کے بعد نفوسِ حیوانی میں منطبع ہوتے ہیں۔ منطبع ہونے مراد قوتِ خیال کے حوالے ہونا ہے۔ پس یہ القاءات رحمانی جب واسطے کے ذریعے میسر آئیں تو سب سے آخر میں قوت خیال کے پاس منتقل ہوتے ہیں۔ شیخ اکبر کے کلام میں نفثِ روحی سے مراد وہ چیزیں ہیں جو روح القدس سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اشارہ ہے رسول اللہ ﷺ سے منقول اس حدیث کی طرف کہ میرے نفس میں روح القدس نے میرے نفس و روح میں نفث کیا، کوئی نفس اس وقت تک موت سے ہمکنار نہیں ہوتا جب تک وہ اپنا رزق مکمل وصول نہ کرلے۔ نفث سے مراد نَفَس کا بھیجنا ہے جوکہ استعارہ ہے روح کی جانب سے افاضہ ہونے سے۔ یعنی روح القدس کی جانب سے فیض جاری ہوتا ہے اور وہ عنایت کرتا ہے۔

فی الروع النفسی:

          شیخ اکبر نے اس کتاب میں حقائق رسول اللہ ﷺ سے اخذ کیے لیکن ان حقائق کو اپنے الفاظ اور عبارات میں ڈھالا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیخ اکبر نے کسی جگہ کسی قسم کا اشتباہ نہیں کیا!! کیونکہ شیخ اکبر معصوم نہیں ہے اس لیے ہم معصوم قرار دیتے ہوئے اس کتاب کو مطالعہ نہیں کرتے ۔ امام خمینی نے فصوص پر جو تعلیقہ میں کئی جگہوں پر شیخ اکبر پر جزوی اعتراضات کیے ہیں اور ان سے اختلاف کیا ہے۔ اسی طرح  علامہ حسن زادہ آملیؒ نے ممد الہمم میں شیخ اکبر اور قیصری سے متعدد جگہوں پر اختلاف کیا ہے، مثلاً اسی جگہ قیصری کا نظریہ تھا کہ انبیاءؑ پر شیطان کی تمنائیں داخل ہو جاتی ہیں جنہیں اللہ سبحانہ زائل کر دیتا ہے جبکہ علامہ حسن زادہ نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور انبیاءؑ کو مطلق طور پر معصوم قرار دیا ہے۔ پس شیخ اکبر معصوم نہیں ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے تمام فقہاء اور علماء اصول معصوم نہیں ہیں۔ ان کے اشتباہات ہیں اور علمی اختلاف ان سے بزرگان کا موجود تھا لیکن اس صورت میں تعصب برتتے ہوئے ان کتابوں اور مؤلفین کو ہم مختلف تہمات سے متہم کر کے ترک نہیں کریں گے کیونکہ علمی دنیا میں علمی اختلاف ہو سکتا ہے اور غیر معصوم اشتباہ کر سکتا ہے۔ شیخ صدوق کی مثال لے لیں کہ وہ سہو النبیﷺ کے قائل تھے یا محدث نوری جن کی کئی کتابوں میں سے ایک مستدرک الوسائل ہے لیکن انہوں نے قرآن کریم کی تحریف پر کتاب لکھ دی جس کی مخالفت تمام علماء نے کی ۔ اب ان کے نظریات کو اشتباہ قرار دیا گیا۔ ان سے کیوں اس طرح کے اشتباہات ہو گئے کیونکہ یہ معصوم نہیں تھے۔ پس شیخ اکبر بھی معصوم نہیں ہیں اور اگر کسی مورد میں ہمارے سامنے ان کا اشتباہ آ جائے تو ہم اس اشتباہ کو اشتباہ ہی قرار دیں گے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم تعصب نہیں برتیں گے کہ شیخ اکبر کی مثبت پہلوؤں کو بھی موردِ تنقید قرار دے دیں۔پس جہاں قرآنی مبانی اور تعلیمات اہل بیت عصمتؑ کے مطابق ہے تو ہم وہ معانی و معارف لے لیں گے اور جہاں قرآن و اہل بیتؑ کے برخلاف ہے وہاں ہم اس مطلب کو ترک کر دیں گے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نو(۹) سال تقویم یعنی علم نجوم اور کیلنڈر لکھتا رہا جوکہ متعدد جلدوں پر آتا ہے اور ایک سخت زحمت اور مشتقت آور کام ہے۔ لیکن اس دوران میں نے سوچا کہ آخر میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں اور اس کا کیا مطلب ہے جبکہ باہر کیلنڈر چھپا ہوا ہے۔ ایک کیلنڈر میں نے باہر سے لیا اس میں ماہِ رمضان کے تیس دن لکھے تھے لیکن میں نے جو حساب لگایا وہ ۲۹ دن کا ماہ رمضان بنتا تھا۔ اتفاق سے اس سال ۲۹ دن کا ماہ رمضان ہوا اور بقہی سب نے جو کچھ لکھا وہ غلط ثابت ہوا۔ اسی اثناء میں آیت اللہ کاشانی کو ایک یونیورسٹی میں مہمان کے طور پر دعوت دی گئی تھی جس میں یونیورسٹی کے تمام اساتیذ اور ماہرین ریاضی موجود تھے۔ خطاب کے دوران آیت اللہ کاشانی نے بیان کیا کہ آپ سب ماہرین علم نجوم و ماہرین ریاضی نے جو اندازہ لگایا وہ غلط ثابت ہوا اور ہمارے ایک ادنی سے طالب علم نے جو حساب لگایا وہ درست ثابت ہوا۔ اس وقت ریاضی کے پروفیسر نے ایک شعر پڑھا جس میں آیت اللہ حسن زادہ آملیؒ کے خلاف جسارت کی گئی اور انہیں چھوٹا بچہ جس کا غلط چلایا ہوا تیر نشانہ پر لگ گیا سے تعبیر کیا گیا ۔ نیز وہ شعر اخبار میں بھی چھپ گیا ۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ اگرچے ان اہل علم سے اشتباہ ہوا ہے اور غلط حساب لگایا لیکن یہ اشتباہات اہل علم سے ہو جاتے ہیں ، انہیں یہ بات بیان کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے تعصب اور جسارت کی۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ نے پھر تقویم اور کیلنڈر کا حساب اور اس پر محنت ترک کر دی کیونکہ اتنے سال محنت میں صرف ایک سال اس کا ثمرہ نکلا جوکہ وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس لیے انہوں نے اس کو ترک کیا تاکہ علمی مباحث اور مفید کتب کو تحریر کیا جا سکے ۔ پس تعصب اور جسارت بھی غلط ہے۔

’’          رُوع‘‘ سے مراد نفس ہے ۔ یہاں اس سے مراد وہ مرتبہ ہے جو قلب کے بعد ہے یعنی اہل علم کی اصطلاح کے مطابق جسے ’’صدر‘‘ کہتے ہیں۔ حقائق مرتبہِ روح میں  وجودِ جمعی رکھتے ہیں اور حقائق قلب کے مرتبہ تفصیلی صورت میں ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے صدر کا تذکرہ کیا ہے ۔’’روع‘‘ کو نفس کی طرف شیخ اکبر نے نسبت دی ہے ، اس کی وجہ روعِ شیطانی سے احتراز کرنا ہے۔ القاءاتِ شیطانی مظہرِ اسم مضل ہے یا القاءات شیطانی کی وجہ سے ہوائے نفسانی ہے جسے قرآن کریم نے نفس امارہ کہا ہے۔

بالتأیید:

          بالتأیید میں جار و مجرود کا متعلق گذشتہ سطور میں يخصنی ہے ۔ شیخ اکبر یہاں بارگاہِ الہٰی میں دعا گو ہیں کہ میرے پر اللہ تعالیٰ کی ایسی تائید ہو جو اعتصامی ہو ۔ اعتصامی یعنی اشتباہ اور خطاء سے محفوظ رہنا، اسی سے عصمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی تائید میسر آئے جس کی وجہ سے میں اشتباہ اور خطاء سے محفوظ ہو جاؤں ۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاءؑ و آئمہ ؑ کو معصوم قرار دیا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے اسم ’’عاصم‘‘ اور ’’حفیظ‘‘ کی بناء پر ہے۔ عصمت مظہر ہے اسمِ عاصم و حفیظ کی بناء پر ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: « وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً » و قال: « وَ مَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ »۔

حتی أکون مترجما:

          شیخ اکبر کہتے ہیں کہ الہٰی عنایات کی بناء پر میں مترجم بنو نہ کہ متحکم اور حکم جاری کرنے والا ۔ اہل کشف و شہود کو عرفاء اہل اللہ اور اصحابِ قلوب کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ کتاب’’فصوص الحکم‘‘ ایک مقدس کتاب ہے جوکہ اغراضِ نفسانی سے پاک و منزہ ہے جس میں تلبیس کا دخل نہیں ہے۔ تلبیس کے مقابلے میں تقدیس ہے۔ تلبیس سے مراد ناپاک اور اشتباہات کی ملاوٹ ہے۔          قیصری شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کتاب کی عبارات شیخ اکبر کی جانب سے ہے جبکہ اس کتاب میں موجود حقائق اور مطالب عالم روحانی یعنی رؤیا صادقہ میں جو رسول اللہ ﷺ سے شیخ اکبر نے وصول کیا کی بناء پر ہیں۔ شیخ اکبر کو فصوص الحکم کے معانی و حکمتیں کو حق تعالیٰ نے الہام کیا ہے اور ان کے لیے ان معانی و حکمتوں کو متجلی کیا ہےجنہیں شیخ اکبر نے اپنے الفاظ اور عبارات میں ڈھال کر کتابی شکل دی ہے۔ مترجم ہونے کی خواہش شیخ اکبر نے اس لیے کی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نے معانی اورحکمتوں سے شیخ اکبر کو نوازا ہے اور ن پر الہام کیا ہے اس کو اسی طرح شیخ اکبر ہمارے سامنے ظاہر کریں اور اس میں اپنی نفس کی طرف سے کچھ اضافہ نہ کریں۔ اس لیے شیخ اکبر نے متحکم بننے سے بچنے کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کی ہے کیونکہ اس میں اضافہ یا کمی بیشی کارِ شیطانی ہے یا نفسانی اغراض کی دخل اندازی ہے جس سے اجتناب کرتے ہوئے شیخ اکبر نے اس کتاب کو تحریر کیا۔

اہل اللہ اور مرتبہِ قلبی سے مراد:

اہل اللہ سے مراد انسانِ کامل و اہل کشف و شہود ہیں جوکائنات کو پڑھ لیتے ہیں اور فناء فی اللہ ہیں۔ درویش کو اہل اللہ نہیں کہتے بلکہ فناء فی اللہ ہیں، مکاشفات رکھتے ہیں ، کائنات کے باطن کو پڑھ لیتے ہیں انہیں اہل اللہ کہتے ہیں۔ جو خود دعویدار ہو اور اپنے آپ کو عرفاء و صوفی کے عنوان سے متعارف کرواتا ہے اسے اہل اللہ نہیں کہتے بلکہ مرتبہِ جمع الجمع تک پہنچنے والے کو اہل اللہ کہتے ہیں ۔ ایک مقامِ جمع ہے جوکہ مقامِ واحدیت ہے اور ایک مقامِ جمع الجمع ہے جسے مقامِ احدیت کہتے ہیں۔ مقامِ احدیت میں اسماء و صفات الہٰی اجمالی بمعنی جمعی، غیر متمایز  اور اندماجی ہے اور مقامِ واحدیت میں اسماء و صفاتِ الہٰی بطور تفصیلی ہیں۔ اس کی مثال متعدد مرتبہ عرض کی جا چکی ہے کہ ایک مجتہد استبناطِ فقہی کا ملکہ رکھتا ہے اور پھر چھ ہزار فقہی احکام رسالہِ عملیہ میں لکھتا ہے۔ یہ رسالہ عملیہ میں موجود چھ ہزار احکام وہی ملکہِ اجہتاد ہے لیکن فرق یہ ہے کہ نفس میں موجود ملکہ مقامِ احدیت ہے جہاں جمعی اور اجمالی طور پر ہے اور اس کی تفصیل تنزل کرنے کی صورت میں چھ ہزار فقہی مسائل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

’’اہل اللہ‘‘ صاحبِ قلب ہوتے ہیں جو مقامِ جمع سے مقامِ قلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس کی بناء پر انہیں اصحابِ قلوب کہتے ہیں۔ مقامِ قلب مقامِ جمع سے نیچے کا مقام ہے۔ سب سے اوپر جمع الجمع ہے، اس کے بعد مقامِ جمع اور اس کے بعد مقامِ قلب ہے۔ یہ قوس نزول کے اعتبار سے ہے۔ قوس صعود کے اعتبار سے پہلے مقامِ قلب آئے گا اور پھر مقامِ جمع اور پھر مقامِ جمع الجمع ۔ انسان اس وقت صاحبِ قلب بنتا ہے جب اس کے لیے غیب متجلی ہو جائے۔ غیب کا تجلی کرنے سے مراد چشمِ برزخی کا کھل جانا ہے اور بزرخی حقائق کو جان لے اور سرّ کو پڑھ لے۔ صاحبِ قلب کے لیے اسرار کھل جاتے ہیں اور حقیقتِ امر اس کے سامنے آشکار ہوجاتا ہے اور انوارِ الہٰیہ اس کے لیے متحقق ہو جائیں اور وہ اطوارِ ربوبیت میں تقلب کرتا ہے ۔مرتبہِ قلبیہ سے مراد دوسری مرتبہ ولادت کا ہونا ہے جس کی طرف عیسیؑ کا فرمان اشارہ کرتا ہےجسے بعض حکماء نے نقل کیا ہے:{ لَن يَلِجَ مَلَكُوتِ السَّماواتِ مَن لَمۡ يُوۡلَدۡ مَرَّتَيۡن؛ آسمانوں اور زمین کے ملکوت میں ہر گز وہ شخص داخل نہیں ہو سکتا جو دو مرتبہ متولد نہ ہو }.[25]ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، ج ۱، ص ۳۶۱۔ دوسری مرتبہ متولد ہونے سے مراد ہے کہ اپنی ماں کے شکم سے تعلق توڑ دے۔ انسان کے لیے یہ دنیاوی آلائش و لذات و شہوات ماں کی مانند ہے جس سے تعلق توڑنے کی صورت میں انسان دوسری مرتبہ متولد ہو جاتا ہے۔ اہل اللہ ہی مقامِ تقدیس پر فائز ہوتے ہیں۔

مقامِ تقدیس سے مراد مقامِ جمع الجمع پر فائز ہونا ہے اور حقیقت اور یقین کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ شیخ اکبر کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اور اس کے معانی و معارف مقامِ تقدیس سے نازل ہوئے ہیں ۔ مقامِ تقدس سے مراد مقام احدیت یعنی جمع الجمع ہے۔ پس یہ کتاب مقامِ تقدیس سے نازل ہوئی ہے۔تقدیس اور تنزیہ سے مراد یہ ہے کہ یہ مقامِ احدیت اور مقامِ تقدیس میں یہ کتاب اور اس کے معانی غیر اللہ کی آمیزش سے پاک ہے  اور اس مقامِ احدیت سے یہ نازل ہوئی اور پھر مقامِ تفصیل و کثرت میں بھی کسی بھی قسم کی غیریت سے پاک ہے جس میں شیطنت اور نفسانی اغراض کی تلبیس و ملاوٹ نہیں ہے۔ تلبیس سے مراد سرِ حقیقت اور اس کا حقیقت کے خلاف ظاہر کرنا ہے۔ اس کتاب کو بیان کرنے میں تبلیس یعنی حقیقت کو اس کے برخلاف بیان کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔

اولیاء الہٰی جانتے ہیں کہ کیا چیز متحقق ہو گی اور کیا نہیں لیکن آدابِ الہٰی رعایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ارشادہوتا ہے : اُدعونی، ہم اللہ تعالیٰ سے اس لیے دعا کرتے ہیں تاکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہو اور گناہ و لغزشیں معاف ہوں۔ لیکن آئمہ اطہار ؑ کا ہدف اور مقصد یہ نہیں ہوتا بلکہ وہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے امر کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس سے تقاضا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ عطا کرے یا نہ کرے اس سے ان کو غرض نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے امر کی تعمیل کی خاطر بارگاہِ الہٰی میں عرض دعا کرتے ہیں جیساکہ صحیفہ کاملہ کی دعاؤں میں نظر آتا ہے۔ ورنہ آئمہ اطہارؑ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم سے سب حوادث کا علم رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کیا متحقق ہو گا اور کیا نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے نظام کے سامنے سرتسلیم خم ہوتے ہوئے اور اس کی بارگاہ میں طلب کرتے ہوئے اپنے آپ کو سرخرو کرتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ بچوں سے آپ کس طرح بات کرتے ہیں ! بچوں سے علمی اور دقیق اصطلاحی گفتگو نہیں کرتے بلکہ ان کے مطابق بات کرتے ہیں جبکہ معاملے کی خبر آپ رکھتے ہیں۔ ہم بھی خلقت کے اعتبار سے اس کائنات میں بچے ہیں اس لیے ہم سے گفتگو ہمارے مطابق کی گئی ہے اور ہمیں ابھارا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ ایک ہماری دعا ہے اور ایک آئمہ اطہارؑ کی دعا ہے ۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، ہمارا دعا کرنا لینے کی خاطر ہے جبکہ آئمہ ؑ کی دعا اللہ تعالیٰ کے امر ’’اُدعونی‘‘ پر لبیک کہنا ہے ، چاہے اللہ سبحانہ عطا کرے یا نہ کرے کیونکہ اللہ سبحانہ کے سامنے وہ سر تسلیم خم اور اس کی مشیت سے راضی محض ہیں۔

و أرجو أن يكون الحق تعالى‏ٰ لما سمع دعائی

وسیلہ قرآنی نظریہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے وسیلے قرار دیئے ہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:{ وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَريبٌ أُجيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعان‏ }. [26]بقرۃ: ۱۸۶۔بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جواب دیتا ہے اور اس کی دعا پوری کرتا ہے۔   اجابت دو قسم کی ہے: ۱۔ اجابتِ لبیکی: اجابت جس میں اللہ تعالیٰ بندے کو لبیک کہتا ہے، یہ دعا کبھی ردّ نہیں جاتی، ۲۔ اجابت بمعنی درخواست کا متحقق ہونا: اجابت کی دوسری قسم یہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ سے بندہ دعا اور درخواست کرتا ہے ، یہی درخواست کرنا ہی خود اہمیت کا حامل ہے۔ ممکن ہےاللہ تعالیٰ اس درخواست و دعا کو  اجابت کرے اور ممکن ہے نہ کرے، کیونکہ اللہ سبحانہ بندے کے نفع کو ملاحظہ کرتے ہوئے اجابت فرماتا ہے، مثلاً اگر کوئی مریض ہے اور وہ صحت کی دعا کرتارہتا ہے لیکن شفایاب نہیں ہوتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شفایابی میں اس مریض کے لیے زیادہ نقصان ہے جو اللہ تعالیٰ کو قبول نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دلسوز ماں سے اس کا بچہ سلگتا کوئلہ طلب کرے تو ماں کسی صورت نہیں دے گی چاہے بچہ کتنا شور مچائے اور تقاضا کرے لیکن اگر وہ بسکٹ یا ٹافی مانگے تو ماں فورا دے دے گی۔ ہمیں نہیں معلوم ہمارے لیے کونسی چیز فائدہ مند اور نفع بخش ہے ۔ اللہ سبحانہ ہمارے فائدہ کے مطابق ہمارے دعاؤں کی اجابت فرماتا ہے۔ بعض اوقات اجابت اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جا رہا ہے اس میں معاشرے اور دیگر لوگوں کا نقصان ہے، مثلاً ایک شخص بارش طلب کرتا ہے تاکہ بنجر زمین آباد ہو جائے اور دوسرا سورج نکلنے کو طلب کرتا ہے تاکہ اس کی فصل پک جائے ۔ یہاں کسی کے نقصان کی دعا قبول نہیں ہوتی۔

فما أُلقى إلا ما يُلْقِىَ إلىّ 

شیخ اکبر بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس کتاب میں فقط وہ معانی ذکر کیے ہیں جو حضرتِ محمدی ﷺ کی جانب سے مجھے پر القاء کیے گئے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی جانب سے انبیاءؑ اور ان ہستیوں سے مختص حکمتوں میں سے جو کچھ مجھ پر القاء کیا گیا ہے وہ میں نے ذکر کیا ہے۔ احکامِ وجودی تابع ہیں احکامِ معنوی غیبی کے ۔ میں نہ نبی ہوں اور نہ رسول ہوں ، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے وسیلہ سے مجھے یہ عنایت ہوئی ہے۔شیخ اکبر نے اس کتاب کو جب آنحضرت ﷺ سے اخذ کیا ہے تو لازم ہے کہ اس زمانے میں شیخ اکبر کی کوئی نہ کوئی ایسی مناسبت آنحضرت ﷺ سے تھی جس کی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے یہ کتاب انہیں عطا فرمائی۔ جو چیز بھی خارج میں متحقق ہوتی ہے اس کی اعیانِ ثابتہ سے مناسبت ہوتی ہے۔ جب شیخ اکبر کو یہ معلوم تھا کہ حق سے محجوب اور حجاب میں رہنے والے شیخ اکبر کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت دیں گے جو غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہیں ۔ اس لیے شیخ اکبر نے پروپیگنڈہ کو دور کرنے کے لیے تصریح کر دی میں نبی نہیں ہوں اور نہ رسول ہوں  ۔نبوت کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ نبوتِ تشریعی ، ۲۔ نبوتِ انبائی جس میں غیب سے خبر دی جاتی ہے۔ پہلی نبوت جو شریعت اور احکامِ حلال و حرام سے تعلق رکھتی ہے وہ  اختصاصِ الہٰی ہے جسے اللہ سبحانہ اپنی رحمت کے ساتھ جس کے لیے چاہتا ہے مختص کر دیتا ہے۔ بالاصالۃ رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت اور سالت ہر دو کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہ ہوتا ہے:{ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي }.[27]مائدہ: ۳۔ بالاصالۃ سے مراد اصل میں نبوت و رسالت کا حامل ہونا ہے کیونکہ آئمہ اہل بیتؑ بھی مشرِّع تھے لیکن بالاصالۃ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے شریعت کے پیرو اور اس کو بیان کرنے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ بالأصالہ مشرِّع تھے اور نبوتِ تشریعی سے ہمکنار تھے۔ البتہ نبوتِ انبائی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا کیونکہ غیب سے خبر دی جاتی ہے اگرچے شریعت تمام ہو چکی ہے اور نئی شریعت نہیں اتری گی لیکن فرشتہ شریعت سے ہٹ کر بھی گفتگو کر سکتا ہے۔ جناب فاطمہؑ نبوتِ انبائی رکھتی تھیں اور آئمہ اہل بیتؑ نبوتِ انبائی سے ہمکنار ہے۔

و لكني وارث و لآخرتي حارث‏

شیخ اکبر کہتے ہیں کہ میں انبیاءؑ کا وارث ہوں نہ کہ نبی یا رسول۔ انبیاءؑ کے حقیقی وارث آئمہ اطہارؑ ہیں کیونکہ انبیاءؑ کا علم ’’وہبی‘‘ تھا نہ کہ کسبی ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ علمِ انبیاءؑ کا وارث کون ہے کیونکہ ان کا علم تو وہبی تھا ؟ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو وہبی علم رکھتا ہے حقیقت میں وہ انبیاءؑ کا وارث ہے۔ اس اعتبار سے آئمہ اطہارؑ انبیاءؑ کے وارث تھے کیونکہ ان کا علم بھی وہبی تھا ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بقیہ وارثِ انبیاء ؑ نہیں ہو سکتے!! بلکہ سب سے پہلے وارثِ انبیاءؑ کے مصداق اور قدرِ متیقن آئمہ اطہارؑ ہیں ۔ اس کے بعد امت اسلامیہ کے علماء جو اپنے اندر وراثت کی شرائط اور معیار پیدا کر لیں یعنی علم وہبی سے ہمکنار ہوں تو وہ بھی وارثِ انبیاءؑ کہلائیں گے جیسے جناب زینب بنت علیؑ کو امام سجادؑ نے عالمہ غیر معلمہ کا لقب عنایت فرمایا کیونکہ جناب بنت علیؑ علم وہبی سے ہمکنار تھیں اس لیے انہوں نے علم کسبی کی صورت میں علم حاصل نہیں کیا۔  تقویِ الہٰی علم وہبی کے حصول کا سبب ہےجیساکہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں  تقویِ الہٰی کے نتیجہ میں اللہ سبحانہ فرقان عنایت کرتا ہے جس کی بدولت حق و باطل کا علم ہو جاتا ہے۔ یہ قرآن کریم کی آیات میں وارد ہوا ہے ۔ یہ بھی علم وہبی کی طرف اشارہ ہے۔ سورہ کہف میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا آتَيْناهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنا وَ عَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْما۔؛ پس ان دونوں نے ایک ہمارے بندوں میں سے ایک عبد دیکھا جسے ہم نے اپنی جانب سے رحمت عنایت کی اور اپنی جانب سے اسے ہم نے علم کی تعلیم دی   }. [28]کہف: ۶۵۔ روایات کے مطابق حضرت موسی ؑ اور جناب یوشع بن نونؑ باہم سفر کر رہے تھے انہوں نے ایک عبد کو پایا ۔ روایت میں یہ عبد جناب خضرؑ تھے۔ [29]شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۱، ص ۶۰۔ ہر وارث اپنے مورِّث سے میراث لیتا ہے۔ انبیاءؑ کا اموال علومِ الہٰی اور احوالِ ربانی و مقامات و مکاشفات و تجلیات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاءؑ سے اکمل تھے علم کے اعتبار سے اور حال و مقام کے اعتبار سے ، اس لیے آنحضرت ﷺ کے ورثاء بھی بقیہ تمام انبیاءؑ کے ورثاء سے افضل و اکمال ہیں۔پس ہر کوئی اپنی استعداد اور قابلیت کے مطابق میراثِ علمی و حالی و مقامی وصول کرتا ہے۔ ارث تملیکِ قہری ہے چاہے وارث چاہے یا نہ چاہے۔

فمن أخذہ أخذا :

ہم میں سے ہر شخص کسی نے کسی اسمِ الہٰی کا مظہر ہے۔ رسول اللہ ﷺ اسم اللہ کے مظہر ہیں جن کا ربّ اللہ سبحانہ ہے کیونکہ اسم اللہ کے مظہر کا  ربّ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہے ۔ اس جگہ شیخ اکبر بیان کرتے ہیں کہ جس نے بھی علم ِ الہٰی کو اللہ سے اخذ کیا  ، وہ اللہ جو رسول اللہ ﷺ کے باطن کی  ربوبیت کر رہا ہے  وہ شخص سعادت مند ہے اور شکوک و شبہاتِ وہمیہ سے پاک و منزہ ہے۔ جب بھی انبیاءؑ کے علوم، احوال اور مقامات جذب اور وہبی صورت میں ’’تجلیاتِ اسمائیہ و ذاتیہ‘‘ کی جانب سے حاصل ہوں اورانہیں کسی قسم کا تأمل، کسب اور زحمت و مشقت اٹھانا نہیں پڑتی تو اسی طرح ان کے وارث کے علوم اور احوال و مقامات کو بغیر کسب و تعمل کے ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ بَلْ هُوَ آياتٌ بَيِّناتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْم‏؛ }. [30]عنکبوت: ۴۹ پس اولیاء اور کمُّل کے علوم عقل سے کسب نہیں کیے جاتے اور نہ ہی علومِ نقلیہ سے کسب کیے گئے ہوتے ہیں۔ اگر کمّل اور اولیاء آیات و روایات ذکر کرتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ انہوں نے علومِ نقلیہ سے استفادہ کیا ہے بلکہ ہمیں بیان کرنے کے لیے اور ہم تک ہدایت و رہنمائی پہنچانے کے لیے آیات و روایات کو شاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حقیقت میں ان اولیاء الہٰی اور کمَّل نے جو کچھ اخذ کیا ہے وہ اللہ سبحانہ کی جانب سے علم وہبی کے طور پر اخذ کیا گیا ہے اور ان کا منبعِ معدن و انوار اور منبع ِ اسرار ذاتِ اقدس الہٰی ہے۔ منقولات کو وہ بطورِ شاہد لے کر آتے ہیں اور علومِ عقلی کا استعمال محجوبین کو متنبہ کرنے کے لیے اور ان پر رحمت و عطوفت کی خاطر ہے۔ کیونکہ ہر کوئی کشف و شہود کی قدرت و استطاعت نہیں رکھتا  اور نہ ہی اسرارِ وجود کا ادراک ان کے لیے ممکن ہے ۔ چنانچہ نبوتِ تشریعی  تو اولیاءِ الہٰی اور کمَّل کو  حاصل نہیں ہے ، البتہ نبوتِ انبائی کا دروازہ کھلا ہے اور اسی باب سے وارثِ انبیاءؑ کے حکم میں یہ آ سکتے ہیں۔اس لیے بالاصالۃ انبیاءؑ کے لیے علومِ وہبی اور مقاماتِ عالی و نبوتِ تشریع ہیں جبکہ اولیاءِ الہٰی اور کمّل کے لیے بالاصالہ یہ امور نہیں ہے ، بالکل اسی طرح جیسے مجتہدین کے لیے شریعت بالاصالۃ نہیں ہے بلکہ بالتبع مجتہدین شریعت سے مربوط ہوتے ہیں ۔ اس لیے مجتہدین ہمیشہ غیبی معانی اور الہٰی اسرار سے خبر دینے والے ہوتے ہیں۔
شیخ اکبر اپنےآپ کو دوسرا عنوان ’’حارث‘‘ کا دیتے ہیں جس سے مراد کسان یا بیج بونے والے کے ہیں۔ کسان بیج بونے کی زحمت اٹھاتا ہے لیکن اللہ سبحانہ ایک خوشے میں ۱۰۰ دانے بنا دیتا ہے۔ اسی طرح ہمارا وظیفہ حرث یعنی کھیتی باڑی کرنا ہے جس کا اجر و ثمرہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ شیخ اکبر حارث بننا چاہتےہیں لیکن ان کے نزدیک یہ ہے کہ میں جنت کے لالچ میں اعمال انجام نہیں دینے والا نہیں ہوں اور نہ جہنم کے خوف سے اعمال انجام دینا چاہتا ہوں  بلکہ اللہ تعالیٰ لائق عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ ہی مطلوب و مقصود ہے اس لیے اس کی خاطر عبادت انجام دینا چاہتا ہوں۔علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ زاہد کیوں بہشت کو ہدف بنائے ہوئے ، اگرچے بہشت زیبا اور خوبصورت ہے لیکن بہشت کو بنانے والا خالق کس قدر زیبا اور خوبصورت ہے۔ شیخ اکبر حارث بن کر فناء فی الحق تعالیٰ اور بقاء باللہ کے مقام کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حارث بننے سے مراد فناء فی اللہ اور بقاء باللہ ہے۔ اولیاءِ الہٰی اور کمّل اللہ تعالیٰ کی عبادت بہشت یا جہنم کے خوف کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ فناء فی اللہ اور بقاء باللہ کی خاطر انجام دیتے ہیں۔

 

منابع:

منابع:
1 انسان: ۹۔
2 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۱۲۹۔
3 آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۲۷۵، رقم: ۴۹۹۷ ۔
4 حشر: ۲۳۔
5 اعراف: ۲۶۔
6 فاطر: ۱۰۔
7 نساء: ۱۷۱۔
8 کہف: ۱۰۹۔
9 لقمان: ۲۷۔
10 ہود: ۵۶۔
11 مائدہ: ۴۸۔
12 حمد:۶-۷۔
13 نساء:۶۹۔
14 زاد ہوش، محمد رضا، احادیث نبوی در متون کہن فارسی، ص ۳۶۸۔
15 مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۲۱۸۔
16 ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، شرح اصول کافی، ج ۱، ص ۳۷۴۔
17 آل عمران: ۱۹۔
18 صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۷۹۔
19 یوسف: ۲۴۔
20 احزاب: ۵۶۔
21 سجدہ: ۱۷۔
22 نساء: ۶۵۔
23 سجدہ: ۵۔
24 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۸، ص ۹۰۔
25 ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، ج ۱، ص ۳۶۱۔
26 بقرۃ: ۱۸۶۔
27 مائدہ: ۳۔
28 کہف: ۶۵۔
29 شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۱، ص ۶۰۔
30 عنکبوت: ۴۹
Views: 44

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: لفظ اللہ کا معنی
اگلا مقالہ: الحاد ایک باطل نظریہ