loading

{مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى}

عوالم خمسہ  اور پانچ حضراتِ الہٰیہ

درس: مقدمة شرح فصوص الحکم (داؤد قيصرى)
استاد: آيت الله حيدر رضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

عوالم کلیہ جس کو حضرات خمسہ الہٰیہ بھی کہتے ہیں۔ لغت میں ’’عالم‘‘ علامت کو کہتے ہیں، ما يعلم بالشيء، یعنی انسان اگر کائنات پر غور کرے وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا، کائنات کا ہر ذرہ بیان کر رہا ہے کہ میں صاحب رکھتا ہوں، مجھے کوئی باقی رکھے ہوئے ہے ۔  مباحث عرفانی میں ما سوی اللہ کو ’’عالم‘‘ کہتے ہیں۔ہر موجود کائنات میں اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی نہ کسی اسم کا مظہر ہے، حتی مچھر، شیطان، ابلیس ۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک مضل ہے جس کا مظہر ابلیس و شیطان ہے۔ کائنات میں ہر موجود اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی نہ کسی اسم کا مظہر ہے۔ مظہر یعنی محل ظہور ، یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء کو ہمارے سامنے ظاہر کرتا ہے۔ اجناس اور انواعِ حقیقیہ سے اسماء کلیہ کا علم ہوتا ہے۔ عوام کی نگاہ میں جو پست ترین چیزیں ہیں وہ کسی نہ کسی اسم کا مظہر ہیں۔ عوام الناس کی نظر میں یہ مچھر وغیرہ پست ہیں ورنہ اہل فکر و نظر اس کو عظیم شمار کرتے ہیں ۔ استاد حسن زادہ آملی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ہاتھی کو دیا ہے وہ سب مچھر کو دیا ہے۔ میں ایک دن تہران میں حضرت استاد حسن زادہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کہا میں ہر روز ہاتھ کو خارش کر رہا ہوں ، میرے ہاتھ پر یہ آ کر بیٹھا تو اس قدر چھوٹا کہ سوئی کی نوک کے برابر ، میں نے حدیث نفس یعنی اپنی نفس میں باتیں کرنا شروع کر دیں، کہ بار الہٰا ! کیا یہ سر رکھتا ہے!! آنکھیں منہ معد ہ رکھتا ہے ، نظامِ فضلہ رکھتا ہے !! یا اللہ کس قدر عظیم مخلوق تو نے خلق کیا ، اتنے میں وہ اڑ گیا اور اس سے وقت سے میں ہاتھ کھجلا رہا ہوں۔ مکھی کو عربی میں ذباب کہتے ہیں ذو یعنی مارنا اور باب کے پھر لوٹ کے آ جاتی ہے ، یہ سب اللہ تعالی کے اسماء کے مظاہر ہیں۔ دعاء جوشن کبیر میں سو بند ہیں اور ہر بند میں دس اسمِ الہٰی ہیں۔ اس طرح ایک ہزارو ایک  اسم دعائے جوشن کبیرہ میں ہیں۔ اسی لیے علامہ حسن زادہ آملی نے کتاب ’’ہزار و یک کلمہ اور ہزار و یک نکتہ‘‘ نام رکھا ہے۔

عقل اول مظہرِ اسم رحمن:

ہر اسم ذات پر مشتمل ہے لیکن مقید ہے۔ ہر جگہ اسم ہے وہاں ذات ہے ، اسم میں ذات پنہاں ہے۔ رحیم وہ ذات جو رحمت سے متصف و مقید ہے، عظیم وہ ذات جو عظمت سے مقید و متصف ہے ۔الرحمن اسم محیط ہے ، سعت رکھتا ہے، > اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ‏ءٍ <، [1]طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۳، ص ۹۵۔   رحمت الہٰی ہر شیء کو گھیرے ہوئے اور کوئی شیء اس کی رحمت سے باہر نہیں ہے۔ عقلِ اوّل مظہر ہے اسمِ الرحمن کا۔ عقلِ اول عالم کے تمام حقائق کی کلیات کو شامل ہے۔ یہاں کتاب میں’’اجمال‘‘ سے مراد ابہام نہیں ہے بلکہ اجمال سے مراد ’’ملکہ‘‘ ہے ، جیسے اجتہاد ایک ملکہ ہےجس کو کھولا جائے تو وہ توضیح المسائل کے چھ یا سات ہزار مسائل کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح یہاں اجمال سے مراد ملکہ ہے  ۔ الرحمن اسم کلی اسم محیط ہے اس لیے عقل اول اس کا مظہر ہے۔ عقل اول سے مراد جناب جبریلؑ ہیں۔  پس اگر ذات ہے تو اسماء ہیں اور ہر فرد جب مظہر ہے کسی نہ کسی اسم کا تو عالم کے افراد کا ہر فرد خود ایک عالم ہے۔ اسی فرد سے تمام اسماء جانے جاتے ہیں۔ عوالم غیر متناہی ہیں۔

نفس کلی سے مراد اور پانچ جہان

نفسِ کلی تمام جزئیات جس پر عقل مشتمل ہے کو شامل ہے ، یہ اسم رحیم کا مظہر ہے۔ انسان کامل عقل اول سے بالاتر ہے ۔ انسان کامل مادون اللہ ہے لیکن مظہرِ اسم اللہ ہے۔ اللہ سے جامع تر اسم نہیں ہے اور انسان کامل سے بالاتر وجود خلقتِ الہٰی میں نہیں ۔ آج کے دور میں امام زمانؑ انسان کامل ہیں جن سے بلند تر ہستی نہیں۔ انسان کامل کے مراتب ہیں، مرتبہِ روح، مرتبہِ قلب، مرتبہ جسم۔ مرتبہِ قلب روح تفصیل ہے اور مرتبہِ قلب اجمال۔  انسان ِ کامل، حجت الہٰی مظہر ہے اسم شریف ’’اللہ‘‘ کا۔ اللہ تمام اسماء کا جامع ہے۔ اللہ تمام اسماء کو شامل ہے ، مثلا گھر میں کئی شیء آپ کی گم گئی آپ کہتے ہیں یا اللہ ، یا اللہ یعنی یا ہادی :{وَ لَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيم}. [2]سورہ لقمان: آیت ۲۷۔،مدادیعنی سیاہی ۔ زمین و آسمان او ھمین است ، سیب میں موجود کیڑا یہ سمجھتا ہے کہ پس سیب ہی زمین و آسمان ہے اس کے علاوہ کچھ حقیقت نہیں ہے۔ ہم استطاعت نہیں رکھتے کہ اللہ تعالی مخلوق کو شمار کریں لیکن کلی طور پر بیان کر رہے۔ عوالم کلی کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں۔ تمام عوالم انہی پانچ میں منحصر ہیں۔ عوالمِ کلی کو حضرات ِ کلی بھی کہتے ہیں:

  غیب مطلق:

اس سے مراد اعیانِ ثابتہ ہیں، یعنی وجودِ علمیِ اشیاء، ذاتِ ربوبی میں، مثلاوہ انجئینر جو ایک عمارت بنانا چاہتا ہے وہ نقشہ اوّلا اپنے ذہن میں رکھتا ہے، وہ نقشہ باہر نہیں آتا لیکن اس کا ایک ماڈل باہر ایجاد کرتا ہے، ذہن میں موجود نقشہ زلزلہ سے متاثر نہیں ہوتا، باہر موجود ماڈل زلزلہ سے ممکن ہے گر جائے لیکن ذہن میں موجود نقشہ اسی طرح باقی ہے۔ذاتِ ربوبی ان عوالم سے خارج ہو کیونکہ ہم نے عالم سے مراد ما سوی اللہ لیا ہے۔

شہادت مطلق:

موجوداتِ عالم طبیعت ، یہ گھر، یہ دیوار، یہ آسمان، یہ زمین، یہ حجر و شجر، موجوداتِ مادی شہادت مطلق ہیں۔اس کو عالم ناسوت بھی کہتے ہیں۔

غیبِ مضاف(عالم عقول):

اس سے مراد عقول ہیں جسے عالم جبروت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو مضاف اس لیے کہتے ہیں چونکہ یہ ما دون  کی نسبت سے’’غیب‘‘ ہیں ورنہ بالا کی نسبت سے ’’شہادت‘‘ ہیں۔ یہ غیبِ مطلق سے قریب تر ہے۔  بعض کتابوں میں شبہ بیان ہوا کہ عقول کو مجردِ محض نہ کہو کیونکہ فقط اللہ تعالی مجردِ محض ہے، ہم ان کو جواب دیتے ہیں کہ ملائکہ و فرشتے اور اس طرح دیگر مادہ اور مقدار نہیں رکھتے لیکن ماہیت رکھتے ہیں۔ مجرد کہنے سے اللہ نہیں بن جاتا ۔  اللہ تعالی ماہیت نہیں رکھتا اور کسی قسم کی حد نہیں رکھتا وہ لا محدود ہے۔ اللہ تعالی مجرد از مقدار، مجرد از مادہ اور مجرد از ماہیت ہے جبکہ بقیہ فقط مجرد از مادہ اور مجرد از مقدار ہیں نہ کہ ماہیت۔  اس عالم میں ہر نقص کا جبران ہے۔ عقل یعنی ملک (فرشتہ)، فرشتوں کو عرفاء و حکماء عقول کہتے ہیں، عقول ذاتًا مجرد ہیں اور فعلًا بھی مجرد ہیں۔ارواحِ انسانی بدون بدن نہیں ہو سکتے، ان دنیا میں بدنِ مادی کے ساتھ، برزخ میں بدنِ برزخی کے ساتھ اور مقامِ عقل میں اس بدن کے ساتھ ہیں جو اس کے ساتھ سازگار ہے۔ روح سیرِ صعودی میں اس مقام تک پہنچ سکتی ہے کہ عقول کے ردیف میں قرار پائے بلکہ ملائکہ سے بالاتر قرار پائے۔ لیکن اس کے باوجود بدونِ بدن نہیں حتی عقول کے ردیف میں ہو تو بھی بدونِ بدن نہیں۔

شہادت مضاف(عالم مثال):

اس سے مراد موجوداتِ عالم مثال ہے۔ موجوداتِ عالم مثال موجوداتِ مادی کے اعتبار سے ’’غیب‘‘ ہیں لیکن عقول کے اعتبار سے ’’شہادت‘‘ ہیں۔یہ شہادتِ مطلق سے قریب تر ہے۔  صاحب کتاب نے غیب مضاف اور شہادتِ مضاف کو ایک جگہ بیان کیا ہے اور اسی جگہ دونوں طرف اشارہ کیا ہے۔اس کو عالم ملکوت بھی کہتے ہیں۔موجودات مثالی مادہ نہیں رکھتا لیکن صورت و شمائل رکھتے ہیں۔ اس کو آئینہ سے تشبیہ دے سکتے ہیں کہ آئینہ میں صورت نظر آتی ہے لیکن اس میں مادہ نہیں ہے اس لیے آئینہ کی تصویر میں کوئی وزن نہیں ہے۔ موجودِ مثال مادہ نہیں رکھتا لیکن مقدار رکھتا ہے جبکہ موجودِ عقلی نہ مادہ نہ مقدار ہر دو سے مجرد ہے۔  پس ہمارے پاس دو قسم کا عالم مثال ہیں: عالمِ مثالِ متصل اور عالمِ منفصل۔ ہمارا قوہِ خیال عالم مثال ہے جوکہ ہمارے ساتھ متصل ہے جبکہ عالمِ مثال منفصل ہم سے جدا ہے۔ 

  کونِ جامع:

اس سے مراد انسان کامل ہے۔  عقول نفس مجردہ رکھتا ہے اور عالم مثالی کو بھی شامل ہے۔   انسان کو اللہ تعالی نے خلقتِ عظیم بنایا ہے، انسان مادی جنبہ بھی رکھتا ہے اور مثالی و عقلی بھی۔ 

عوالم کا طولی ہونا:

ہر بالا حقیقت ہے ہر پائین رقیقت ہے، ہر بالا ظاہر ہے اور پأئین مظہر ہے، آپ جب آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو آپ ظاہر اور جو شیشہ میں عکس ہے وہ آپ کا مظہر ہے۔ پس عالم ناسوت(عالم ملک) مظہرِ عالم ملکوت ہے، عالمِ ملکوت مظہر عالم جبروت ہے اور عالمِ جبروت مظہر عالم اعیان ثابتہ ہے، اعیانِ ثابتہ مظہرِ اسماءِ تفصیل یعنی واحدیت اور واحدیت مظہرِ احدیت یعنی مظہر اسماءِ اجمال ہے۔ہر عالم کلماتِ کا مجموعہ ہے۔ کلمات دو قسم کے ہوتے ہیں: ۱۔ کلماتِ تدوینی، ۲۔ کلماتِ تکوینی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جناب عیسیؑ کو کلمہ کہا ہے:{إِذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجيهاً فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبين}. [3]سورہ آل عمران: آیت ۴۵۔ عالم میں کلماتِ وجودی ہیں اس لیے یہ وجودی کتاب ہے۔ کتابِ  وجودی کلمات سے پُر ہوتی ہے۔ صرف عالمِ ملک (ناسوت) کو ہی لیں تو کس قدر کلماتِ وجودی موجود ہیں!! اس عالم کا نام اللہ تعالی نے دنیا رکھا ہے جوکہ اللہ تعالی کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز مخلوقات و وجودات سے پُر ہے۔ انسان کامل کتابِ جامع الہٰی ہے۔ انسان کامل آئینہ تمام جہانِ ہستی ہے۔ پس انسان کامل جامع ترین اللہ کی کتاب ہے۔پس ہر عالم ایک کتابِ الہٰی ہے لیکن کتابِ تکوینی نہ کہ تدوینی۔ کلی اور جزئی عرفان میں سعہِ وجودی ہے۔ وہ موجود جو ضعیف ہے وہ موجودِ جزئی ہے جبکہ جو قوی ہے وہ موجودِ کلی ہے۔ موجودِ نباتاتی جزئی ہے بنسبتِ حیوان۔

علم عرفان میں اجمال یعنی ملکہ:

تمام وجوداتِ امکان اجمالی طور پر اجمال یعنی وجودِ جمعی، وجودِ فشردگی، یعنی ملکہِ اجتہاد، ملاکات کو اجمال کہتے ہیں۔ یہ توضیح المسائل وہی ملکہ اجتہاد ہے ، توضیح المسائل وجودِتفصیل ہے اس ملکہ ِ اجتہاد کا اور ملکہِ اجتہاد وہی توضیح المسائل ہے لیکن اجمالی طور پر۔ عقل اول تمام حقائق رکھتا ہے لیکن بالاجمال۔ ہرموجود استعدادِ خاص رکھتا ہے کہ وہ جس کو قبول کرے۔ موجوداتِ سماوی مؤثر ہیں موجوداتِ ارضی کی پیدائش کے لیے، یہ اسرار آج بھی آشکار نہیں ہو سکے، جب چاند آسمان پر ہو تو سمندر کا پانی اوپر ہوتا ہے اور جب چاند روشن نہ ہو تو پانی نیچے ، ہزاروں مثالیں ہیں کہ سماوی موجودات ارضی موجودات پر مؤثر ہیں۔ لا مؤثر فی الوجود الا اللہ ، یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کیونکہ ہر شیء اللہ تعالی کے ماتحت مؤثر ہے۔ نظامِ الہٰی سبب و مسبب ہے  اور مسبب الاسباب [4]ابن طاووس، علی بن موسی، المجتنی من الدعاء المجتبی، ص ۴۰۔ اللہ سبحانہ ہے۔ انسان عالمِ کبیر کا نسخہ ہے۔ امام علیؑ سے منسوب کلمات شرح فصوص میں نقل کیے گئے ہیں۔ علامہ حسن زادہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اشعار امام علیؑ کے نہیں بلکہ ایک بزرگ شخصیت تھی جن کا نام علی بن ابی طالب قیروانی کے ہیں جس کو امام علیؑ کی طرف منسوب کر دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح بہت کلمات ایسے ہیں سید حمیری کے ہیں لیکن ان کی نسبت امام علیؑ کی طرف دے ان کا فرمان بنا دیا گیا ہے۔ وہ جو یقینی طور پر امام علیؑ کے کلمات ہیں وہ رجز ہیں جو میدانِ جنگ میں امامؑ نے فرمائے تھے، جیسے سمتنی امی حیدرہ ۔بہرحال امام علیؑ سے منسوب اشعار اس طرح سے وارد ہوئے ہیں:

دواؤك فيك وما تشعر
وداؤك منك وما تبصر
وتزعم أنك جرم صغير
وفيك انطوى العالم الأكبر
وأنت الكتاب المبين الذي
بأحرفه يظهر المضمر. [5]مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول، ج ۳، ص ۲۷۲۔

 موجوداتِ عالم آیت الہٰی ہے اور سب سے بڑی آیت انسان کامل ہے۔ شیخ اکبر محی الدین کہتے ہیں: ’’انا القرآن وسبع المثانی‘‘ یعنی انسان کامل کی زبان سے ترجمانی کر رہے ہیں کہ انسانِ کامل قرآن ہے اور سبعِ مثانی ہے۔یہ کلمات ابن عربی کے اپنے بارے میں نہیں ہے جیساکہ آگے ابن عربی نے ذکر کیا ہے کہ لست ننبی ولا رسول۔ بعض نے اگرچے یہ اعتراض کیا ہے کہ ابن عربی نے اپنے آپ کو قرآن اور سورہ فاتحہ کہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کامل کو قرآن اور سبع مثانی کہا ہے۔ سبع مثانی کے بارے میں مختلف اقوال ہیں اور ان میں سب سے معروف قول سبع مثانی سورہ حمد ہے جیساکہ احادیث میں بھی یہی آیا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ سب سورہ حمد میں ہے اور جو سورہ حمد میں ہے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں وہ باء کے نیچے نقطہ میں ہے اور نقطہ امام علیؑ ہیں۔ نقطہ اس لیے کہا ہے کیونکہ کتاب کلمات سے پر ہے اور کلمات کا منشأ نقطہ ہے۔

عقل، روح اور قلب:

روحِ بخاری مادی ہے جبکہ روحِ انسانی مجردات میں سے ہے۔ روحِ بخاری جسم لطیف ہے جو تمام اعضاء و جوارح میں سریان رکھتی ہے اور خون کو گرم کرنے کا باعث ہے ورنہ خون جم کر توتھڑا بن جائے گا۔ روح بخاری خون کو گرم کیے رکھتا ہے ۔ اس لیے روحِ بخاری جسم کی قبیل سے ہے اور مادی ہے ۔ چونکہ روحِ بخاری لطیف ہے اس لیے بھاپ کی مانند غائب ہو جاتی ہے۔ فؤادي عند مشهودي؛  میرا دل اللہ کا مشاہدہ کر رہا ہے جبکہ میرا جسم کوچہ و بازار میں ہے  <۔قرآن کریم اس کو اس طرح سے بیان کرتا ہے: {رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّه ؛ وہ مرد ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی} [6]سورہ نور: آیت ۳۷۔عقل وروح اور قلب میں فرق یہ ہے کہ عقول و روح مقامِ اجمال ہے اور قلب مقامِ تفصیل ہے۔ہماری روح کو عقل یا روح کہتے ہیں جمعی اور اجمال طور پر کہا جاتا ہے اور  تفصیل کو قلب کہتے ہیں۔ پس عقل و روح اور قلب میں اجمال و تفصیل کا فرق ہے۔  قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {لَا يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُون‏َ ؛ کوئی اس کو مس نہیں کر سکتا سوائے جنہیں پاک و طاہر کر دیا گیا ہے} [7]سورہ واقعہ: آیت ۷۹۔  ضروری ہے ظاہری طہارت ہو ، بعض قرآنی معارف قوتِ خیال سے ادراک کیے جاتے ہیں ضروری ہے قوتِ خیال طاہر ہو، اسی طرح بعض معارف عقل سے درک کیے جاتے ہیں ضروری ہے وہ بھی طاہر ہو۔ تمام کلمات عقل اول کے پاس ہیں اور تفصیل طور پر نفسِ کلی کے پاس ہیں۔

ماہیت کے دو معنی ہے: ۱۔ حدِ وجود، ۲۔ حقیقتِ شیء۔ اللہ تعالی اصطلاحی ماہیت نہیں رکھتا لیکن حقیقتِ شیء یا بما ھوھو کے معنی میں ماہیت کا حامل ہے۔ لہٰذا جو مستشرق نے اشکال کیا ہے اس نے ماہیت کے معنی میں اشتباہ کیا ہے۔ یہاں ماہیت کا اصطلاحی معنی مراد نہیں ہے۔ پس بنی آدم متحد ہیں اپنی نوع اور ماہیات اپنی ذوات کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ پس ماہیات کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ حکیم جس کو ماہیت کہتے ہیں اس کو عارف اس کو اعیانِ ثابتہ کہتے ہیں یعنی وجودِ علمی۔ 

{ والتميز العقلي بين العالم والمعلوم… }

یہ اشکال دوم کی طرف اشارہ ہے۔ اشکال کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر عقل اول تمام امکانات کا مالک ہے ، اگر عقل اول تمام حقائق کو حاضر رکھتا ہے تو وہ عالم بھی ہے اور معلوم  اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی ذات عالم بھی اور معلوم بھی کیونکہ واضح ہے کہ عالم اور معلوم کا ایک دوسرے سے جدا ہونا عقلی طور پر ثابت ہے؟ اس کا جواب دیتے ہیں کہ مغایرت اعتباری ہے اور تعدد کے لیے اس کا اعتباری ہونا کافی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ عالم اور معلوم دو چیزیں ہیں لیکن ان کا آپس میں مغایر اور جدا ہونا اگر اعتباری ہو تو بھی کافی ہے کیونکہ اس مورد میں دویت کے لیے اعتباری ہونا کفایت کرتا ہے، جیسے ہم عالم ہیں اپنے آپ پر، ہم عالم بھی ہیں اور معلوم ہیں، حاکی ہونے کی نسبت سے عالم اور محکی ہونے کے اعتبار سے معلوم۔ تعددِ حیثیت کفایت کرتی ہے۔ کتابوں میں ایک اور مثال آئی ہےکہ ایک مریض ہے اور ایک طبیب، طبیب معالج ہے اور مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات طبیب خود مریض ہو جاتا ہے، اس صورت میں وہ کسی اور طبیب کے پاس نہیں جائے گا بلکہ اپنا علاج خود کرے گا۔ اس صورت میں یہی طبیب معالج ہے اور طبیب ہی کا علاج بھی کیا جا رہا ہے۔ یہاں حیثیت کے اختلاف سے طبیب معالِج اور معالُج کہلائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ عالم ہے حاکی ہونے کے اعتبار سے اور محکی ہونے کے اعتبار سے معلوم۔ ہر عالم میں حاصل ہونے والی صورتیں برابر ہیں، چاہے وہ منتزعہ ہوں جیسے حواس کے ذریعے سے خارج سے صورتیں منتزع ہوتی ہیں جسے علم انفعالی بھی کہتے ہیں اور بعض اوقات ہم خیالی طور پر ایک صورت کشی کرتے ہیں جیسے عقلی ادراکات، ذہنی ادراکات یا خیالی تصورات، جیسے ہیرے کا پہاڑ ، اس کو انتزاع ہمارے نفس کے اندر سے ہوا ہے، ان تینوں کو علمِ فعلی بھی کہتے ہیں یا غیر منتزعہ ہوں…

{ والانسان لكونه نسخة العالم الكبير … }

انسان یعنی انسان کامل نسخہِ عالم کبیر ہے جو تمام کے تمام حقائق کو شامل ہے۔ جب انسان کونِ جامع اور تمام حقائق کا حامل ہے تو تمام حقائق کا کوئی نہ کوئی نمونہ انسان میں متحقق ہونا چاہیے۔ پس انسان قوتِ عقل کے اعتبار سے مجرد ہے، قوتِ خیال کے اعتبار سے مجردِ ناقص ہے اور جسم کے اعبتار سے مادی ہے۔ پس انسان میں تمام حقائق کے نمونے آشکار طور پر موجود ہیں، مثلا جمادات ، نباتات اور حیوانات کی خصوصیات انسان کے جسم میں موجود ہیں۔ مولوی بیان کرتے ہیں :

از جمادی مردم و نامی شدم
وز نما مردم به حیوان برزدم

مردم از حیوانی و آدم شدم
پس چه ترسم کی ز مردن کم شدم

حملهٔ دیگر بمیرم از بشر
تا بر آرم از ملایک پر و سر

وز ملک هم بایدم جستن ز جو
کل شیء هالک الا وجهه

بار دیگر از ملک قربان شوم
آنچ اندر وهم ناید آن شوم

پس عدم گردم عدم چون ارغنون
گویدم که انا الیه راجعون۔
[8]مولوی، مثنوی معنوی، دفتر سوم، بخش ۱۸۷۔

علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ الہٰی ! لوگ موت سے ڈرتے ہیں جبکہ حسن خود حسن سے ڈرتا ہے۔مالک حقیقی وہ ہے تمام ہستی اس کی ملکیت ہے جبکہ بقیہ تمام کے پاس ملکیت اعتباری ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے۔ ہم اپنی عام زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ہم اپنی ملکیت جوکہ اعتباری ہے کے ذیل میں جو شیء آتی ہے اس پر کتنے مہربان اور رؤوف ہوتے ہیں، جیسے گاڑی، گھر وغیرہ۔ 

{ بل هي عينه من وجه بعين ما مر … }

اگر انسان تمام حقائق کے نمونے رکھتا ہے اور تمام حقائق کو شامل ہے تو پھر کیوں بھول جاتا ہے اور کیوں اس کو یہ حقائق یاد نہیں ؟!! اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا نشأتِ عنصری یعنی وجودِ مادی و دنیاوی حجاب بن جاتا ہے اور انسان کو خبر نہیں ہوتی حقائق کی۔ انسان کو جتنا ان حجاب کو چیرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اتنا ہی حقائق کو درک کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ عقل اول تمام حقائق رکھتا ہے تو انسان ضروری ہے کہ تمام حقائق کا حامل ہو کیونکہ انسان کامل عقل اول سے بالاتر ہے۔ انسان خلیفۃ اللہ ہے ۔ یہاں انسان سے مراد انسان کامل ہے نہ کہ عام انسان، مثلاً ایک انسان قم سے مشہد بس چلاتا ہے، وہ انسان ہے جس کے بدن کو نیند، کھانا پینا، آرام سب چاہیے ۔ اگر بس چلاتے ہوئے اس کو شدید نیند آئے تو وہ چار ناچار ایک اور ڈرائیور کا محتاج ہو گا تاکہ اپنی تھکاوٹ اتار سکے۔ دوسرا ڈرائیور  پہلے ڈرائیور کے تمام کاموں کو انجام دے گا اور دونوں میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پہلا ڈرائیور اس بس کا مالک ہے جبکہ دوسرا ڈرائیور بس کا مالک نہیں ہے۔ رجب کی دعاؤں میں وارد ہوا ہے:  اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَانِي جَمِيعِ مَا يَدْعُوكَ بِهِ وُلَاةُ أَمْرِكَ‏ الْمَأْمُونُونَ عَلَى سِرِّكَ الْمُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ الْوَاصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ الْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ أَسْأَلُكَ بِمَا نَطَقَ فِيهِمْ مِنْ مَشِيَّتِكَ فَجَعَلْتَهُمْ مَعَادِنَ لِكَلِمَاتِكَ وَأَرْكَاناً لِتَوْحِيدِكَ وَآيَاتِكَ وَ مَقَامَاتِكَ الَّتِي لَا تَعْطِيلَ لَهَا فِي كُلِّ مَكَانٍ يَعْرِفُكَ بِهَا مَنْ عَرَفَكَ لَا فَرْقَ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا إِلَّا أَنَّهُمْ عِبَادُكَ وَخَلْقُكَ فَتْقُهَا وَ رَتْقُهَا بِيَدِكَ بَدْؤُهَا مِنْكَ وَعَوْدُه.[9]طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ج ۲، ص ۸۰۳، اول یوم من رجب۔

تم خود ہی حجاب ہو اور اگر حجاب کو اگر برطرف کر لو تو حقائق کا مشاہدہ کر لوگے۔  انسان سات مراتبِ انسانی رکھتا ہے ، مرتبہِ عقل میں انسان کا علم کسبی اور مرتبہِ روح میں انسان کا علم فعلی ہے۔ عطار کا شعر ہے کہ ’’ہفت شہر عشق را عطا گشت‘‘۔ شاید یہ سب معلومات قبول کرنا مشکل ہو لیکن جس کے لیے حقیقتِ فعالیہ ظاہر ہو اور مراتبِ شہود میں وحدتِ وجود اس کے لیے ظاہر ہو تو اس کے لیے یہ قبول کرنا مشکل نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا علم اس کی عینِ ذات ہے اور اس کی معلومات بھی اسی طرح عینِ ذات ہے اور امتیاز و جدائی اس کی تجلیاتِ معینہ کی بناء پر ہے۔ عالم اور معلوم میں اتحاد ہے۔ البتہ عالم اور معلوم کے اتحاد کے بارے میں گذشتہ سال تفصیلی بحث ہم کر چکے ہیں۔ عالم اور معلوم سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان اور خارج میں موجود گائے بھینس وغیرہ متحد ہیں !! نہیں معلوم ِ خارجی جوکہ بالعرض معلوم ہے وہ مراد نہیں ہے بلکہ عالم و معلوم اتحاد سے مراد صورتِ معلوم خارجی ہے جوکہ نفس کے ساتھ بالذات موجود ہے ۔ ہمارے پاس چھ مورد آتے ہیں: وجود عالم، ماہیت عالم، معلوم بالعرض در خارج، جیسے وجودِبقر اور ماہیت بقر، معلوم بالذات یعنی حاصل ہونے والی صورت بقر اور وجودِ صورت۔

Views: 88

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رد فلسفہ و عرفان اور امام عسكرىؑ سے منسوب حديث
اگلا مقالہ: انسانی حواس فارابی کی نظر میں