loading

ردّ فلسفہ و عرفان اور امام عسكرى ؑ سے منسوب حديث

تحرير : سيد محمد حسن رضوى

عموما ايك سوال كيا جاتا ہے كہ  فلسفہ اور عرفان كى مذمت ميں امام حسن عسكرى عليہ السلام سے ايك روايت  حديقة الشيعة ميں نقل كى گئى ہے كيا وہ حديث صحيح اور قابل اعتماد ہے اور اگر وہ قابل اعتماد ہے تو پھر كيوں ہمارے بزرگان ان علوم كو پڑھتے پڑھاتے رہے ہيں اور اب بھى حوزات علميہ قم و نجف ميں آزادنہ طور پر تدريس كيے جاتے ہيں ؟اس كے جواب ميں عرض ہے كہ  فقہ و اصول و تفسير و علم حديث كى مانند عالم اسلام ميں ’’ فلسفہ و عرفان و تصوف‘‘ كے عنوان سے اسلامى علوم موجود ہيں جو بلا شك و شبہ قرآن و احاديث سے وجود ميں آئے ہيں اور ہر دور ميں اس مزاج اور ان علوم سے آراستہ شخصيات عالم اسلام ميں موجود رہى ہيں۔ ايك حديث بالعموم فلسفہ و تصوف كى ردّ ميں پيش كى جاتى ہے جوكہ كئى جہات سے سند و متن ہر دو لحاظ سے قابل اعتراض اور غير قابل قبول ہے ۔ ہم پہلے حديث كو پيش كرتے ہيں اور اس كے بعد اس كى سندى اور متن كا جائزہ ليتے ہيں :

حديقة الشيعة  میں امام حسن عسكرى ؑسے منسوب حديث :

مقدس اردبیلیؒ کی طرف منسوب کتاب ’’حديقة الشيعة‘‘  میں امام حسن عسکریؑ سے ایک روایت منقول ہے جسے محدث نوری نے مستدرک الوسائل میں  ذکر کیا ہےجس کا مضمون درج ذیل ہے:

الْعَلَّامَةُ الْأَرْدَبِيلِيُّ فِي حَدِيقَةِ الشِّيعَةِ، نَقْلًا عَنِ السَّيِّدِ الْمُرْتَضَى بْنِ الدَّاعِي الْحُسَيْنِيِّ الرَّازِيِّ بِإِسْنَادِهِ، عَنِ الشَّيْخِ الْمُفِيدِ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ، عَنِ الْإِمَامِ الْحَسَنِ الْعَسْكَرِيِّ ×:
أَنَّه‏ قَالَ لِأَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ يَا أَبَا هَاشِمٍ سَيَأْتِي زَمَانٌ عَلَى النَّاسِ وُجُوهُهُمْ ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ وَقُلُوبُهُمْ مُظْلِمَةٌ مُتَكَدِّرَة، السُّنَّةُ فِيهِمْ بِدْعَةٌ، وَالْبِدْعَةُ فِيهِمْ سُنَّةٌ، الْمُؤْمِنُ بَيْنَهُمْ مُحَقَّرٌ، وَالْفَاسِقُ بَيْنَهُمْ مُوَقَّرٌ، أُمَرَاؤُهُمْ جَاهِلُونَ جَائِرُونَ، وَعُلَمَاؤُهُمْ فِي أَبْوَابِ الظَّلَمَةِ [سَائِرُونَ‏]،
أَغْنِيَاؤُهُمْ يَسْرِقُونَ زَادَ الْفُقَرَاءِ، وَأَصَاغِرُهُمْ يَتَقَدَّمُونَ عَلَى الْكُبَرَاءِ، وَكُلُّ جَاهِلٍ عِنْدَهُمْ خَبِيرٌ، وَكُلُّ مُحِيلٍ عِنْدَهُمْ فَقِيرٌ، لَا يُمَيِّزُونَ بَيْنَ الْمُخْلِصِ وَالْمُرْتَابِ، لَا يَعْرِفُونَ الضَّأْنِ مِنَ الذِّئَابِ، عُلَمَاؤُهُمْ شِرَارُ خَلْقِ اللَّهِ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ؛ لِأَنَّهُمْ يَمِيلُونَ إِلَى الْفَلْسَفَةِ وَالتَّصَوُّفِ‏، وَايْمُ اللَّهِ إِنَّهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعُدُولِ وَالتَّحَرُّفِ، يُبَالِغُونَ فِي حُبِّ مُخَالِفِينَا وَيُضِلُّونَ شِيعَتَنَا وَمُوَالِيَنَا، إِنْ نَالُوا مَنْصَباً لَمْ يَشْبَعُوا عَنِ الرِّشَاءِ، وَإِنْ خُذِلُوا عَبَدُوا اللَّهَ عَلَى الرِّيَاءِ، أَلَا إِنَّهُمْ قُطَّاعُ طَرِيقِ الْمُؤْمِنِينَ وَالدُّعَاةُ إِلَى نِحْلَةِ الْمُلْحِدِينَ، فَمَنْ أَدْرَكَهُمْ فَلْيَحْذَرْهُمْ وَلْيَصُنْ دِينَهُ وَإِيمَانَهُ، ثُمَّ قَالَ :يَا أَبَا هَاشِمٍ هَذَا مَا حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ آبَائِهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ^ وَ هُوَ مِنْ أَسْرَارِنَا فَاكْتُمْهُ إِلَّا عَنْ أَهْلِه‏.[1]محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج ۱۱، ص ۳۸۰۔

يہ حديث امام عسكرىؑ كے دور جو كہ تيسرى صدى ہجرى كا دور ہے سے سات سو سال تك كسى بھى كتاب ميں موجود نہيں تھى اور سب سے پہلے حديقة الشيعة  نامى كتاب جس كى نسبت مقدس اردبيلىؒ كى طرف اختلافی  ہے ميں مرسل و  ضعيف سند سے آئى ہے۔ نیز محدث نوری کے علاوہ کسی محدث نے اس مرسل حدیث کو اپنی کتبِ حدیث میں درج نہیں کیا۔ لہٰذا علامہ مجلسى نے  بحار الانوار اور  شيخ حر عاملى نے وسائل الشيعة ميں اس حدیث کو نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔ اگرچے شیخ حر عاملی نے اس حدیث کو اپنی کلامی کتاب إثبات الهداة بالنصوص والمعجزات [2]حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ، ج ۴، ص ۲۰۴۔ میں درج کیا ہے لیکن انہوں نے بھی اس کو کتاب حدیقۃ الشیعۃ ہی سے اخذ کیا ہے۔ محدثین کا اپنی کتبِ احادیث میں اس حدیث سے صرفِ نظر کرنا حکمت سے خالی نہیں ہے۔ یہ نكتہ بذاتِ خود انتہائى قابل دقت ہے ۔نیز اگر ہم نے سندی تحقیق کے بغیر ہی مطالب کو اخذ کرنا ہے اور بعض علماء کا اپنی کتابوں میں ایک روایت کو نقل کر دینے کو کافی سمجھنا ہے تو پھر ہمارے پاس بعض کتبِ حدیث تصوّف کے حق میں احادیث وارد ہوئی ہیں بلکہ بعض میں تو لفظ تصوُّف کو مستحسن اور معارف پر مشتمل لفظ قرار دیا ہے جیساکہ عوالی اللئالی میں ابن ابی جمہور امام علیؑ سے روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:> وَرُوِيَ عَنْهُ ×: وَقَدْ سُئِلَ عَنْ مَعْنَى التَّصَوُّفِ فَقَالَ ×: التَّصَوُّفُ‏ مُشْتَقٌ‏ مِنَ‏ الصُّوفِ‏ وَهُوَ ثَلَاثَةُ أَحْرُفٍ ص و ف، فَالصَّادُ صَبْرٌ وَصِدْقٌ وَصَفَاءٌ، وَالْوَاوُ وُدٌّ وَوِرْدٌ وَوَفَاءٌ ، وَالْفَاءُ فَقْرٌ وَفَرْدٌ وَفَنَاء ؛ امام علیؑ سے تصوُّف کا معنی دریافت کیا تو آپؑ نے فرمایا: تصوف لفظِ صُوف سے مشتق ہے جوکہ تین حروف پر مشتمل ہو: ص-و-ف، صاد (سے مراد)  صبر، صدق و سچائی اور صفاءِ (قلب) ہے، واؤ (سے مراد) محبت، وِرد اور وفا کرنا ہے اور فاء (سے مراد) فقر ، فرد اور فناء ہونا ہے <.[3]ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الاحادیث الدینیۃ، ج ۴، ص ۱۰۵۔ یہ حدیث بھی محدثین نے کتبِ احادیث میں نقل نہیں کی لیکن جس طرح مقدس اردبیلی متوفی ۹۹۳ ھ کی مرسل روایت قبول ہے تو پھر یہ روایت کیوں قبول نہیں ہے ؟! جبکہ ابن ابی جمہور زمانے کے اعتبار سے مقدس اردبیلی سے مقدم اور پہلے ہیں کیونکہ اب ابی جمہور کی وفات ۹۰۱ ھ میں ہوئی جس کا مطلب ہے کہ ان کی تمام عمر نویں صدی ہجری میں بسر ہوئی جبکہ مقدس اردبیلی کی تمام عمر دسویں صدی ہجری میں بسر ہوئی ہے۔

متنِ حدیث كى تحقيق:

اس روايت ميں امام عسکری ؑ سے منسوب جملات ميں درحقيقت ’’ عنوان یعنى فلسفى و صوفى ‘‘ كى مذمت نہيں ہے بلكہ اوصاف كا تذكرہ كر كے مذمت كى گئى ہے۔ سيرت اہل بيت عليہم السلام ميں يہ حقيقت عياں ہے كہ وہ كسى بھى شخص كى مذمت اس حسب نسب كى وجہ سے نہيں كرتے بلكہ اوصافِ سيئہ اور انحرافِ فكرى سببِ مذمت ہوتا ہے ۔ اس ليے اس روايت ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ وہ فلسفہ و عرفان حتى وہ فقہ و تفسير و حديث  …  جو درِّ اہل بيتؑ سے ہٹ كر اور ان كے مقابلے ميں ہے وہ باطل اور انحرافى ہے ليكن وہ علوم جو آئمہ اہل بيت عليہم السلام سے اخذ كيے گئے ہيں اور وہ فلسفہ اور عرفان جو محمد وآل محمدؑ سے ليا گيا ہے وہ قابل اعتماد اور قابل قبول ہے ۔ يہى وجہ ميں كہ رجال ميں ايك بڑى تعداد ايسے اصحاب امام ع كى ہے جو صوفى كے عنوان سے اپنے زمانوں اور بعد كے دور ميں معروف ہوئے ، جيسے ابن حيان صوفى، فضيل بن عياض جوكہ كتب اربعہ ميں سے الكافى اور من لا يحضرہ الفقيہ كے راوى ہيں اور نجاشى نے اپنى رجال كے صفحہ ۳۱۰ ، راوى نمبر ۸۴۷ كے ذيل فضيل بن عياض بصرى اور ثقہ قرار ديا ہے اور ابن داؤد نے اپنى رجال ميں انہيں عظيم المنزلة قرار ديا ہے ۔ اسى طرح اويس قرنى كى انتہائى مدح و ستائش وارد ہوئى ہے۔ پس معلوم ہوا كہ يہاں عنوان كى مذمت نہيں ہے بلكہ معيار مدح و مذمت اوصاف ہيں كہ جس ميں انحراف افكار اور پست اوصاف ہوں وہ قابل مذمت ہے ورنہ نہيں۔

 منفی عرفان و تصوف کی نفی:

مقدس اردبیلیؒ کی طرف منسوب کتاب حديقة الشيعة  میں وارد ہونے والی مرسل حدیث کی سند سے اگر صرفِ نظر کریں اور مضمونِ حدیث کا عمیق جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس فلسفہ و تصوف کی نفی کی جا رہی ہے جس میں درج ذیل انحرافی اور گمراہ کن افکار و اعمال پائے جاتے ہیں:
۱۔ ان کے چہرے ہنستے مسکراتے لیکن ان کے دل تاریک اور گناہوں سے آلودہ ہوں۔
۲۔ سنّتِ رسول اللہﷺ کو بدعت قرار دیتے ہوئے وہ ترک کرتے ہوں۔
۳۔ جبکہ بدعتوں کو انہوں نے سنّت قرار دے کر اختیار کر رکھا ہو۔
۴۔ ان کے درمیان مومن قابل تحقیر و تذلیل ہو۔
۵۔ فاسق و فاجر ان کے نزدیک قابل احترام و عزت ہو۔
۶۔ ان کے امراء اور صاحبِ مال و شرف جاہل اور ظالم و جابر ہو۔
۷۔ ان کے علماء گمراہی و گناہوں کے ہر دروازے میں سیر و سیاحت کرنے والے ہیں ۔
۸۔ ان کے غنی و ثروت مند فقراء کا مال چوری کرنے والی ہیں۔
۹۔ ان کے چھوٹے اپنے بڑوں پر چڑھائی کرنے والے ہیں
۱۰۔ ان کے نزدیک ہر جاہل اہل علم و فضل شمار ہوتا ہے ۔
۱۱۔ ہر تدبیر کرنے والا ان کی نگاہ میں فقیر ہے۔
۱۲۔ مخلص اور حیرت و شک میں مبتلا انسان میں یہ فرق نہیں کر سکتے۔
۱۳۔ اتنی پہچان نہیں رکھتے کہ بھیڑ اور بھیڑیے میں فرق کر سیکیں۔
۱۴۔ روئے زمین پر اللہ کی سب پست و بدترین خلقت  ان کے علماء ہیں۔
۱۵۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فلسفہ و تصوف کی طرف میلان و رغبت رکھتے ہیں۔
۱۶۔ یہ حق کی راہ ہٹے ہوئے اور منحرف ہیں۔
۱۷۔ ہمارے مخالفین کی محبت میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں ۔
۱۸۔ ہمارے شیعوں اور موالی کو گمراہ کرتے ہیں۔
۱۹۔ اگر کسی منصب پر آ جائیں تو رشوت سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔
۲۰۔ اگر انہیں معاشرے میں دبا دیا جائے تو ریا کاری کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔
۲۱۔ یہ راہِ حق پر چلنے والے مؤمنین کو اغواء کرنے والے ڈاکو ہیں۔
۲۲۔ گروہِ ملحدین کی طرف بلانے والے داعی ہیں۔

یہ وہ صفات ہیں جو اس حدیث میں وارد ہوئی ہیں۔ مذکورہ بالا اوصاف کسی فیلسوف یا عارف یا صوفی میں پائے جائیں تو بلا شک و شبہ گمراہ اور قابل براءت شمار ہو گا۔ نیز یہ اوصافِ مذموم اگر  کسی فقیہ یا متکلم یا مفسر و محدث میں بھی پائے جائیں تو وہ بھی قابل مذمت شمار ہو گا اور اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔ حقیقت میں ان اوصاف پر مشتمل فلسفہ و عرفان کا نام لیوا سے براءت اور بیزاری کا حکم ہے۔ لیکن وہ فلسفہ وعرفان جو قرآن اور احادیثِ اہل بیتؑ کے نور سے کسبِ فیض کیے ہوئے اور سنت و شریعت کے عین مطابق زندگی بسر کرتا رہا ہو وہ یقیناً قابل مذمت نہیں۔ بالفاظِ دیگر فلسفہ و عرفان کے لفظ کی مخالفت احادیث میں وارد نہیں ہوئی بلکہ اس نام پر ان پست اور گمراہ کن اوصاف کو اختیار کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور ان سے بچنے کا حکم ہے۔ اس پر ہمارے پاس واضح دلیل درج ذیل نکات ہیں:

مکتبِ اہل بیتؑ سے تعلق رکھنے والے عرفاء :

مکتب اہل بیتؑ سے متمسک عرفاء جنہوں نے حقیقی عرفان و تصوف کی منازل طے کیں اور تصوف کے حقیقت تک رسائی حاصل کر کے اہل یقین و معرفت کہلائے ان اوصاف کے حامل تھے جن کا تذکرہ قرآن کریم کی آیات اور روایات بالخصوص نہج البلاغہ میں خطبہِ متقین میں وارد ہوا ہے۔ لہٰذا مکتب تشیع میں عرفان و تصوف سے وابستہ جید فقہاء و محدثین و علماء اعلام اوپر بیان کردہ ۲۲ اوصاف کے برعکس صفات کے مالک تھے۔ لہٰذا شیعہ اور اہل علم عرفاء و اہل تصوف سنت و شریعت کے شدید پابند، بدعات سے کنارہ کش  ، مومن کی عزت کرنے والے ، فاسق کو تبلیغ کرنے والے، ان کے امیر راہِ الہٰی میں مال خرچ کرنے والے، علم و فقہ سے آراستہ، ان میں غنی و ثروت مند فقیروں پر مہربان ، چھوٹے بڑوں کی عزت و توقیر کرنے والے ، جاہل سے اعراض کرنے والے، کسبِ حلال اور معاش کی تدبیر کو وظیفہ سمجھنے والے، مخلص اور منافق میں دقیق فرق کرنے والے، بھیڑ اور بھیڑیے کی عمیق شناخت رکھنے والے، روئے ارض پر اللہ کے بہترین بندوں میں شمار ہونے والے اور اسلامی و الہٰی فلسفہ و عرفان کی طرف میلان و رجحان رکھنے والے ہیں، جیساکہ تاریخ میں جناب سلمان محمدیؓ ، حضرت اویس قرنیؓ ، جناب کمیل بن زیادؓ ، ابن فہد حلیؒ ، شہید ثانیؒ ، علامہ تقی مجلسیؒ ، شیخ حیدر آملیؒ ، ملا صدراؒ ، ملا محسن فیض کاشانیؒ ، حکیم سبزواریؒ ، آیت اللہ بہجتؒ ، سید علی قاضی طباطبائیؒ ، سید محمد حسین طباطبائیؒ ، امام خمینیؒ، جواد ملکی تبریزیؒ، محمد حسین قلی ہمدانیؒ اور کئی نامور فقہاء ، مفسرین و محدثین کا مشرب عقلی یا ذوقی یا عقلی و ذوقی ہر دو رہا ہے۔

آئمہ اطہارؑ کے اصحاب میں اہل تصوف:

۔

حدیث کی سندی تحقیق:

حدیث کی سندی تحقیق کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کے اختتام پر قواعدِ حدیث و رجال کے مطابق حکم کی صراحت پیش کی جائے گی:
۱۔ کتاب کی نسبت پر کلام
۲۔ سندِ حدیث کے راویوں کا جائزہ

۱۔ حديقة الشيعة مقدس اردبیلی کی نہیں  ملا معز اردستانی کی کتاب:

احمد بن محمد اردبیلی نجفی متوفی ۹۹۳ ھ دسویں صدی ہجری کے معروف فقیہ و بلند پایہ متقی و پرہیز گار شخصیت تھی۔ [4]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواۃ، ج ۲، ص ۱۱۔مقدس اردبیلی کی متعدد تالیفات ہیں جن میں سے ایک حدیقۃ الشیعۃ شمار کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کتاب مقدس اردبیلی کی نہیں بلکہ ملا معزّ اردستانی کی کتاب ہے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ کتاب علامہ مجلسی کے ایک شاگرد کی کتاب ہے جسے مقدس اردبیلی کی طرف نسبت دے دی گئی ہے۔ محققین کی نظر میں اس کتاب کی نسبت محقق اردبیلی کی طرف ثابت نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ درج ذیل ہے:
۱۔ قدیمی خطی نسخوں کا مختلف اور متفاوت ہونا اور ان کے مختلف ناموں سے پایا جانا، مثلاً کاشف الحق، کاشف الاسرار، ہدایۃ العالمین، فوز الجناح وغیرہ۔
۲۔ اس کتاب کے مضامین میں تناقض گوئی  کا ہونا، مثلاً کہیں غزالی کو ناصبی تو کہیں مردِ مومن کہنا، قرآن کریم کی آیات میں تحریف کا ظاہر ہونا جبکہ مقدس اردبیلی شدت سے تحریفِ لفظی کے منکر تھے، زوجاتِ رسول اللہ ﷺ کبھی نو(۹) کہنا تو کبھی اٹھارہ (۱۸) کہنا!!
۳۔  بعض مطالب کا غیر علمی اور عوامی سطح کا ہوناجوکہ ایک فقیہ بزرگوار اور بلند پایہ شخصیت سے انتہائی بعید ہے۔
۴۔ اس کتاب میں بڑی تعداد میں غیر معتبر روایات کا پایا جانا
۵۔ مقدس اردبیلی کے بعد آنے والے اکابر محدثین جیسے شیخ حر عاملی، علامہ تقی مجلسی، علامہ باقر مجلسی کا اس کتاب پر اعتماد نہ کرنا اور صوفیہ کے مخالف ہونے کے باوجود اس کتا ب سے کسی حدیث کو قبول نہ کرنا۔ 

اس کتاب کی شہرت کی بنیادی وجہ سے اس میں صوفیہ کی مذمت میں وارد ہونے والی احادیث کی جمع آوری ہے۔ دسویں سے بارہویں صدی ہجری میں مکتب تشیع میں تصوف و عرفان کی شاخیں قوی ہونا شروع ہو گئیں تھیں جس کی بنیادی وجہ آٹھویں صدی میں سید حیدر آملی ؒ کی محققانہ تصانیف کا منظر عام پر آنا ابن فہد حلیؒ جیسی بزرگ شخصیت کا برملا تصوفِ حقیقی و عرفان سے وابستگی کو ظاہر کرنا تھا۔ اسی طرح علامہ تقی مجلسیؒ عرفانِ عملی کی وادی میں شہرت رکھتے تھے۔ حوزہ جات علمیہ میں ہمیشہ فلسفہ و عرفان کو تنقید اور تحقیر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ لہٰذا جب بعض بڑی شخصیات نے قرآن و اہل بیتؑ کی اساس پر عرفان کو مطالعہ کیا اور اسے متعارف کروانا شروع کیا تو عرفان مخالف گروہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں اور خود ساختہ احادیث کی جمع آوری کر کے یا منحرف اور فاسد افکار کے حامل صوفیہ کے ردّ میں آنے والی احادیث کو بنیاد بنا کر خود ایک نوشتہ تحریر کیا اور اسے مقدس اردبیلی کی طرف منسوب کر دیا گیا۔ اگرچے بعض علماء آج بھی اس کو مقدس اردبیلی کی کتاب قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ عرفان مخالفین نے اس بزرگ شخصیت کے نام کو استعمال کرتے ہوئے ان کی طرف اس کتاب کو منسوب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارہویں صدی کے مایہ ناز محدثین شیخ حر عاملیؒ اور علامہ باقر مجلسیؒ اگرچے فلسفہ و عرفان کے مخالف تھے لیکن انہوں نے فلسفہ و عرفان کی ردّ میں اس کتاب پر اعتماد نہیں کیا اور بحار الانوار میں اس کتاب سے کسی حدیث کو نقل نہیں کیا جوکہ ایک بڑی دلیل ہے کہ اس دور کی بڑی شخصیات اس کتاب پر اعتماد نہیں کرتی تھیں۔اس سلسلہ میں کئی تحقیقی مقالہ جات تحریر کیے گئے ہیں جن کی طرف رجوع کر کے تفصیلات سے آگاہ ہوا جا سکتا ہے۔ [5]جعفری ، محمد عیسی، مقالہ انتساب حدیقۃ الشیعۃ بہ مقدس اردبیلی، فصلنامہ معارف عقلی، ش ۱۲۔

 حدیث کے راویوں کی تحقيق :

اس حديث ميں اگر تمام ان افراد كو ملاحظہ كريں جو حديث كو نقل كرنے كى فہرست ميں آتے ہيں تو يہ كل آٹھ ۸ افراد ہيں، جن ميں سے تين علماء معروف ہيں جوكہ مقدس اردبيلى ، مرتضى بن داعى اور شيخ مفيد ہيں۔ جبكہ بقيہ پانچ راوى حضرات ہيں جن كے حالات كتب رجاليہ سے جاننا ضرورى ہيں ۔ ان كى تفصيل درج ذيل ہے :
۱۔  الْعَلَّامَةُ الْأَرْدَبِيلِيُّ فِي حَدِيقَةِ الشِّيعَة: جہاں مقدس اردبيلى كا تعلق ہے تو آپ دسويں صدى ہجرى (وفات ۹۹۳ ھ) كى مايہ ناز شخصيت گزرى ہيں ۔ حديقة الشيعة آپ كى طرف منسوب كتاب ہے جس كى نسبت آپ سے ثابت نہيں ہے كيونكہ اس ميں كثير ضعيف روايات ہيں اور بعض ايسے قرائن ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ كتاب آپ كى نہيں ہے ۔ بہتر ہے اس سلسلہ ميں اس كتاب كى تحقيق ميں لكھے گئے مقالہ جات كى طرف رجوع كيا جائے ۔
۲۔ السَّيِّدِ الْمُرْتَضَى بْنِ الدَّاعِي الْحُسَيْنِيِّ الرَّازِيِّ: آپ چھٹى صدى ہجرى ميں گزرے ہيں اور آپ كے حالات كتب ميں وارد نہيں ہوئے سوائے معروف رجالى ’’ شيخ منتجب الدين جوكہ ساتويں صدى ہجرى سے تعلق ركھتے ہيں نے ان كو اپنا شيخ اور استاد قرار ديا ہے ۔ علماء كے نزديك يہ شيخ منتجب الدين كى وجہ سے قابل قبول شخصيت شمار ہوتے ہيں ۔
۳۔ الشَّيْخِ الْمُفِيدِ: آپ كى عظمت و جلالت اور شہرت ہى آپ كى تصديق كے ليے كافى ہے ۔ شيخ مفيد پانچويں صدى ہجرى كے محدث و متكلم و فقيہ ہيں ۔ ان كے اور مقدس اردبيلى كے درميان ۵ سو سال كا جبكہ مرتضى بن داعى كے درميان ۱ صدى كا فاصلہ ہے ۔
۴۔ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْوَلِيدِ: آيت اللہ خوئى نے ان كو مجہول قرار ديا ہے اور ان كے سلسلہ سند سے آنے والى روايت كو ضعيف قرار ديا ہے ۔ آپ شيخ مفيد كے شيخ تھے ۔ان كے حالات كے بارے ميں آيت اللہ خوئى كى عبارت ملاحظہ كیجیے : > أحمد بن محمد بن الحسن بن الوليد… من مشايخ الشيخ المفيد- قدس سره- … فنحصل: أنه لم تثبت وثاقة الرجل بوجه، و كيف كان، فلا ينقضي تعجبي من عدم تعرض الشيخ لحاله في رجاله، مع أنه من المعاريف، وكثير الرواية؛ احمد بن محمد بن حسن بن ولید…شیخ مفید قدس سرہ کے شیوخ میں سے ہیں، پس ہمارے لیے تمام اقوال کا ماحصل یہ ہے کہ اس شخص (احمد بن محمد بن حسن بن ولید) کی وثاقت ثابت نہیں ہے ، اور کیسے وثاقت ثابت ہو سکتی !! لہٰذا میرے لیے یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ شیخ طوسی نے اپنی رجال میں ان  کے احوال بیان نہیں کیےجبکہ وہ (احمد بن محمد بن حسن بن ولید) معروف اور جانی پہچانی شخصیت اور کثرت سے روایت کو نقل کرنے والے  ہیں    <.[6]خوئی، سید ابو القاسم معجم رجال الحدیث وتفصیل طبقات الرواۃ، ج ۳، ص ۴۴۔  پس آیت اللہ خوئی اور کئی دیگر اکابر علماء رجال کی نظر میں احمد بن محمد بن حسن ولید کی وثاقت و عدالت ثابت نہیں ۔

۵۔ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ان كى توثيق تمام كتب رجاليہ ميں واضح الفاظ كے ساتھ وارد ہوئى ہے ۔
۶۔ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ:  ان كى  توثيق كتب رجاليہ ميں وارد ہوئى ہے ۔
۷۔ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ:  سند ميں دقت کرنے سے معلوم ہو گا کہ  سعد بن عبد اللہ كے بعد جو راوى ہيں جن سے وہ روايت نقل كر رہے ہيں وہ ’’ محمد بن عبد اللہ ‘‘ ہيں جو كہ متعدد راويوں ميں مشترك نام ہے ۔اس نام سے تين شخصيت كا احتمال ديا جا سكتا ہے جن سے سعد بن عبد اللہ سے ملنے والے ديگر سلسلوں ميں ان كا نام آيا ہے ، يہ تين نام درج ذيل ہيں :
۱۔ محمد بن عبد اللہ بن أبى خلف
۲۔ محمد بن عبد اللہ الرازى
۳۔ محمد بن عبد اللہ المسمعى
سعد بن عبد اللہ جن ’’ محمد بن عبد اللہ ‘‘ نامى راويوں سے روايت نقل كرتے ہيں وہ سب كے سب ضعيف ہيں ، يہ تين قسم كے محمد بن عبد اللہ ہيں :
🔹 محمد بن عبد اللہ بن ابى خلف : يہ مہمل اور مجہول راوى ہيں نہ ان كا نام رجال كى كتب ميں آيا ہے اور نہ ہى ان كے احوال ۔
🔹 محمد بن عبد اللہ الرازى: سعد نے محمد بن عبد اللہ سے روايت نقل كى ، اس طرح كا سلسلہ سند تہذيب الأحكام ميں وارد ہوا ہے ليكن اس نام كى كوئى شخصيت گزرى ہے يا نہيں ؟ آيت اللہ خوئى نے واضح تحرير كيا ہے كہ محمد بن عبد اللہ الرازى نامى كوئى شخصيت وجود نہيں ركھتى ۔ اس ليے محمد بن عبد اللہ جن سے سعد بن عبد اللہ روايت كرتے ہيں كا كتب رجاليہ ميں كوئى وجود نہيں ہے ۔ آيت اللہ خوئى كے نزديك محمد بن أبى عبد اللہ الرازى نامى راوى موجود ہے اور ان كے نزديك ظاہرا محمد بن عبد اللہ اصل ميں محمد بن ابى عبد اللہ تھا۔پس محمد بن عبد اللہ الرازى نامى كوئى شخصيت كتب رجاليہ ميں موجود نہيں ہے ۔
🔹 محمد بن عبد اللہ المسمعى:محمد بن عبد اللہ ميں تيسرا احتمال يہ ہے كہ يہ محمد بن عبد اللہ المسمعى ہيں كيونكہ سعد بن عبد اللہ كى نے مسمعى نامى محمد بن عبد اللہ سے بھى روايت نقل كى ہے ۔ ليكن محمد بن عبد اللہ مسمعى كو بھى قبول كريں تو وہ بھى ضعيف ہيں اور محمد بن الحسن بن الوليد نے مسمعى كو ضعيف قرار ديا ہے۔ كتب رجاليہ ميں مجہول الحال راوى ہيں جن كى توثيق نہ توثيق عام اور نہ توثيق خاص كتب رجاليہ ميں وارد ہوئى ہے ۔ نيز ابن وليد كى تضعيف كى وجہ سے بھى يہ ضعيف شمار ہوں گے ۔ [7] خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحديث و تفصيل طبقات الرواة، ج۱۷، ص  ۲۷۷۔
۸۔ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ: يہ امام تقى و نقى و عسكرى ^كے صحابى اور قابل اعتماد ہيں ۔

نتیجہِ بحث:

مذكورہ روايت درج ذيل اسباب كى بناء پر ضعيف السند ہے اور جب سند ثابت نہ ہو تو اس كو امام معصوم عليہ السلام كى طرف جزمى نسبت نہيں دے سكتے ۔ اگر كسى كے پاس ان اشكالات كا جواب ہے  تو اخلاق كے دائرے ميں رہتے ہوئے اور علمى خيانتوں سے بچتے ہوئے جواب پيش كرے۔ اعتراضات درج ذيل ہيں :

روایت کامرسل ہونا:

يہ روايت مرسلہ ہے  جس كے اسباب درج ذيل ہيں :
🔹 أولا يہ كتاب ’’ حديقة الشيعة ‘‘ ميں روايت آئى ہے اور اس كے علاوہ كسى كتاب ميں موجود نہيں ہے ۔ حديقة الشيعة كتاب مقدس اردبيلى كى طرف منسوب ہے اور اس كى نسبت جناب اردبيلى سے ثابت نہيں ہے۔
🔹 اگر بالفرض مان ليا جائے كہ يہ كتاب جناب مقدس اردبيلى كى ہے تو مقدس اردبيلى دسويں ہجرى كے ہيں اور يہ روايت امام حسن عسكرى ؑسے منسوب ہے ۔ مقدس اردبيلى نے اس كو السيد مرتضى بن الداعى سے نقل كيا ہے جو چھٹى صدى ہجرى كے ہيں ۔ پس مقدس اردبيلى اور المرتضى بن الداعى كے درميان ۴ سو سال كا فاصلہ كيسے طے كيا جائے گا؟!

روایت کا کسی دیگر کتاب میں نہ ہونا:

🔹 مقدس ارديبلى سے پہلے يہ روايت كسى ايك بھى كتاب ميں موجود نہيں ہے، نہ كسى معروف كتاب ميں اور نہ كسى غير معروف كتاب ميں۔ مقدس اردبيلى كے بعد صرف محدث نورى ہيں جنہوں نے اس روايت كو اپنى كتاب المستدرك ميں نقل كيا ہے اس كو نہ علامہ مجلسى نے بحار ميں نقل كيا ہے اور نہ محدث حر عاملى نے وسائل الشيعة۔ پس جب يہ سات سو سال تك كسى كتاب ميں موجود ہى نہيں تھى اور اس كے بعد بھى حديقة الشيعة كے علاوہ كسى محدث نے نقل نہيں كى سوائے معاصر معروف شخصيت محدث نورى كے تو كيسے اس پر اعتماد كيا جا سكتا ہے ؟!!
🔹 يہ روايت شيخ مفيد رح اور ان كے شاگردان ميں سے كسى ايك نے بھى نقل نہيں كى اور نہ كسى كى كتاب ميں صحيح يا ضعيف سند سے وارد ہوئى ہے ۔ اگر يہ شيخ مفيد كے سلسلہ سے آئى ہے تو پھر شيخ مفيد كى كتابوں ميں اس كا وجود ہونا چاہيے جبكہ كسى كتاب ميں اس كا وجود موجود نہيں ہے ۔يہ اعتراضات تھے اس حديث كے مرسلہ ہونے كے اور مرسلہ حديث ضعيف اور نا قابل قبول شمار ہوتى ہے ۔

روایت کا مجہول راویوں پر مشتمل ہونا:

 اس حديث كى سند ميں بعض راوى ايسے ہيں جن كى وثاقت قابل اعتراض ہے اور بعض كى اصلا وثاقت وارد ہى نہيں ہوئى ، مثلا أحمد بن محمد بن الحسن بن الوليد آيت اللہ خوئى كے نزديك مجھول الحال ہيں اور ان كى وثاقت ثابت نہيں ہے ۔ پس ان كى وجہ سے يہ روايت ضعيف قرار پائے گى۔

مشترک راوی کی عدم تشخیص :

 محمد بن عبد اللہ : يہ نام متعدد راويوں ميں مشترك ہے  اور تين راوى اس نام سے منسوب ہيں اور ان ميں سے ايك كو ضعيف قرار ديا گيا ہے جبكہ بقيہ كے حالات رجال كى كتب ميں وارد نہيں ہوئے۔ پس اس مجہول يا مہمل راوى كى وجہ سے بھى روايت ضعيف السند ہے ۔اس روایت کی سند کا ایک حصہ علل الشرائع میں وارد ہے جس ميں شيخ صدوق كے والد براہ راست سعد بن عبد اللہ سے روايت نقل كرتے ہيں ۔ جبکہ امام عسکریؑ کی سے منسوب اس حدیث کی کڑی شیخ مفید کے سلسلہ سے ذکر ہوئی ہے !! نيز علل الشرائع ميں بھى روايت صحيح السند نہيں ہے ۔پس ان وجوہات كى بناء پر يہ روايت سند كے اعتبار سے قابل قبول نہيں ہے اور متعدد وجوہات كى بناء پر ضعيف السند ہے ۔

Views: 83

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: شیطان کے حربے
اگلا مقالہ: زمانہ غیبت کا لطف اور سر الہی ہونا