loading

{فصوص الحكم فارابی}

فرشتوں کی حقیقت
درس: شرح فصوص الحکم (فارابی)
استاد: آيت الله حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

شرحِ فص ۵۷: للملائكة ذوات حقيقية , ولها ذوات بحسب القياس الى الناس…

یہ ايك طولانی فص ہے جس میں ملائکہ کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں تین امور کو بیان کیا گیا ہے جس میں پہلا امر ہے حقیقتِ ملائکہ ۔ حکماء ملائکہ کو عقول کہتے ہیں۔ دوسرا ملائکہ کا تمثل انسان کے لیے کس طرح کا ہے، مثلاً جناب جبریلؑ حضرت مریمؑ کے لیے مُتَمَثِّل ہوئے تو اس سے کیا مراد ہے؟ تیسرا امر وحی سے مربوط ہےکہ وحی سے کیا مراد ہے ؟

حقیقتِ ملائکہ:

فرشتہ ایک مجرد مخلوق ہے ۔ مجرد کے مراتب ہیں۔ بعض گمان کرتے ہیں کہ فرشتہ کو مجرد نہ کہو ورنہ اس سے اس کو اللہ کہنا لازم آئے گا!! حقیقت یہ ہے کہ مجرد کہنے سے ایسا کچھ لازم نہیں آتا۔ تجرد کے مراتب ہیں: ۱۔ تجرد جس میں مادہ نہیں ہے لیکن مقدار مثل شکل و شمائل ہے، جیسے عالم مثال، عالم الذر وغیرہ۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوں تو آپ کو اپنی تصویر نظر آتی ہے۔ یہ تصویر شکل و شمائل رکھتی ہے لیکن اس کا وزن نہیں ہے لہٰذا آپ کی آئینے میں تصویر منعکس ہونے سے  شیشہ کے وزن میں اضافہ نہیں ہو گا۔ تجرد کی دوسری قسم ہے کہ جس میں نہ مادہ ہے اور نہ مقدار، جیسے ملائکہ۔ ملائکہ مقدار اور مادہ ہر دو سے مجرد ہیں اس لیے حقیقت میں ان کی نہ کوئی شکل ہوتی ہے اور نہ کوئی صورت۔ البتہ ملائکہ کی ماہیت ہے کیونکہ یہ ممکن الوجود ہے۔ ماہیت سے مراد یہ ہے کہ ان کا وجود لا محدود نہیں ہے بلکہ محدود ہے۔ تجرد کی تیسری قسم ہے کہ نہ مادہ رکھتا ہے نہ مقدار اور نہ محدودیت و ماہیت ، تجرد کی یہ قسم  اللہ تعالیٰ کے ساتھ  خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ تین چیزوں سے مجرد ہے: مادہ ، مقدار اور محدودیت۔ علامہ حسن زادہ آملی حقیقت ملائکہ اور ان اقسام کو بیان کرنے کے لیے کثیر آیات و روایات استدلال اور تشریح کے طور پر لائے ہیں۔ ہم ان میں سے بعض آیات و روایات کو پڑھیں گے بقیہ ان کی اس کتاب ’’نصوص الحکم فی فصوص الحکم‘‘ میں خود مطالعہ کیجیے۔ علامہ حسن زادہ آملی ہر سورہ سوائے سورہ براءت کے بسم اللہ کو جزو سورہ سمجھتے تھے۔ ہر سورہ سے پہلےاللہ تعالیٰ نے  ’’بسم اللہ‘‘نازل کی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{وَ لَقَدْ جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهيمَ بِالْبُشْرى‏ قالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ فَما لَبِثَ أَنْ جاءَ بِعِجْلٍ حَنيذ فَلَمَّا رَأى‏ أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَ أَوْجَسَ مِنْهُمْ خيفَةً قالُوا لا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنا إِلى‏ قَوْمِ لُوط؛ اور ہمارے رسل (فرشتے) بشارت لے کر ابراہیمؑ کے پاس لے کر آئے تو انہوں نے کہا : سلام، ابھی کچھ دیر نہیں ٹھہرے تھے کہ ایک بھنا ہوا گوسالہ لے آئے، پس جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہے تو انہوں نے اس کو ناپسندیدہ جانا اور ان سے ایک خوف کا احساس کیا ، انہوں نے کہا: مت گھبراؤ ہم قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے}. [1]ہود:۶۹-۷۰۔

علامہ حسن زادہ آملی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں فرشتوں کو ’’رسل‘‘ کہا گیا ہے کیونکہ ملائکہ ’’ أُلُوكَةٌ ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی رسول ہے۔ نیز ملائکہ مجرد ہیں اس لیے انہوں نے کھانا نہیں کھایا۔ اسی طرح ایک روایت وارد ہوئی ہے جس میں عبد السلام یہودی جس نے بعد میں اسلام قبول کیا نے رسول اللہ ﷺ سے مختلف سوالات کیے۔ ان سوالات میں سے ایک جناب جبریلؑ کے بارے میں سوال تھا کہ جناب جبریلؑ مؤنث ہیں یا مذکر، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبریلؑ مذکر ہیں ، اسی طرح ان کے کھانے پینے وغیرہ کا پوچھا تو بیان کیا کہ جناب جبریلؑ کا مشروب لا الہ الا اللہ ہے۔  یہ روایت واضح بتاتی ہے کہ ملائکہ کا جسم نہیں ہوتا اس لیے ان کی خوراک اس طرح کی ہے۔ امام سجادؑ صحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں:« … وَقَبَائِلِ الْمَلَائِكَةِ الَّذِينَ اخْتَصَصْتَهُمْ لِنَفْسِكَ، وَأَغْنَيْتَهُمْ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ بِتَقْدِيسِكَ، وَأَسْكَنْتَهُمْ بُطُونَ أَطْبَاقِ سَمَاوَاتِك‏  <. [2]امام سجادؑ، صحیفہ سجادیہ، ص ۴۶، دعا: ۳۔ اس جگہ امام سجادؑ واضح بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کھانے، پینے سے مستغنی و بے نیاز رکھا ہے اور اسی کو مجرد ہوناکہتے ہیں۔ صحیفہ سجادیہ کے شارح ’’علی خان مدنی‘‘ریاض السالکین میں بیان کرتے ہیں کہ فرشتے صمدی ہیں۔ موجوداتِ مجرد کامل ہیں جبکہ موجوداتِ مادی ناقص ہیں جو کمال کی طرف بڑھتے ہیں۔ جناب جبریلؑ فرشتے ہیں لیکن بقیہ فرشتوں سے ایک فرق رکھتے ہیں، اسی طرح جناب اسرافیلؑ ، جناب عزرائیلؑ وغیرہ فرشتے ہیں لیکن سب ایک دوسرے سے فرق بھی رکھتے ہیں۔ یہ فرق عوارض کی وجہ سے ہے نہ کہ ان کی اصل حقیقت سب مختلف ہے۔ موجوداتِ مادی بھی اسی طرح عوارض کی بناء پر ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ حکماء نے ذکر کیا ہے عقول نوع منحصر بہ فرد ہیں۔ اس کو ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہر فرشتہ ایک جداگانہ نوع ہے۔

تمثل:

تمثل ایک نوعِ ادراک ہے جوایک شخص کے ساتھ مختص ہے جس کے لیے تمثل ہوا ہے۔ شخص کے باطن میں فرشتہ متمثل ہوتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے خواب میں ہم دیکھتے ہیں۔ اگر ایک کمرے میں متعدد افراد ہوں تو ان میں سے ایک سو جاتا ہے تو وہ خواب میں کچھ دیکھتا ہے۔ بقیہ نے وہ نہیں دیکھا جو اس سونے والے نے دیکھا ہے۔ پس یہ سب اس کے اندرون سے مربوط ہے نہ کہ بیرون سے تعلق رکھتا ہے ورنہ سب وہ افراد دیکھتے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے لیے جناب جبریلؑ دحیہ کلبی کی صورت میں متمثل ہوتے تھے جس کو بقیہ صحابہ کرام نہیں دیکھتے تھے۔ پس تمثل ایک نوعِ ادراک ہے جو شخص کے اندرون سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجاباً فَأَرْسَلْنا إِلَيْها رُوحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِيًّا؛ }. [3]مریم:۱۷۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے تھے کہ اس آیت کریمہ میں ’’لھا‘‘ پر توجہ کریں یہاں لام ملکیت کے معنی میں ہے۔ یعنی فقط جناب مریمؑ کے لیے تمثل ہوا۔ 

تمثل میں تجافی محال ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جب فرشتے نے جناب مریمؑ کے لیے ایک سالم انسان کی شکل میں تمثل اختیار کیا تو ایسا نہیں ہے کہ فرشتہ نے اپنی حقیقت کو ترک کر دیا ہو۔ اسی طرح جناب جبریلؑ جب دحیہ کلبی کی صورت میں مُتَمَثِّل ہوتے تھے تو ایسا نہیں ہے کہ اپنی جگہ خالی کر کے اور اپنی حقیقت کو ترک کر کے متمثل ہوں!! ایسا نہیں ہے۔ فرشتوں کا تمثل بارش کے قطرات کی طرح نہیں ہے کہ جو اپنی جگہ ترک کر کے نزول کرتے ہیں بلکہ جناب جبریلؑ اپنی جگہ پر ہوتے ہوئے اور اپنی حقیقت اور منزلت کو محفوظ رکھتے ہوئے تمثل کرتے اور اس شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتے۔ تجافی یعنی اپنے مقام، اپنے مرتبہ یا اپنی جگہ کو چھوڑ دینا۔ تمثل میں فرشتہ اپنے آپ کو نیچے لاتا ہے اپنے مرتبہ اور مکان کو محفوظ رکھتے ہوئے نہ کہ اس کو اوپر لے جاتا ہے جس کے لیے مُتَمَثِّل ہو رہا ہے۔امہاتِ مسائل فلسفی حقیقت میں دین سے لیے گئے ہیں۔ کیونکہ فلاسفہ ملائکہ کو عقول کہتے ہیں اور ان کے مجرد ہونے کے قائل ہیں اور یہی نتیجہ آیات و روایات سے سامنے آتا ہے۔ پس فلاسفہ نے یہ معارف دین اور شریعت سے اخذ کیے ہیں۔ علامہ طباطبائی نے تمام امہاتِ مسائل فلسفہ کو شمار کیا ہے اور تحقیق کی اور اس وقت ثابت ہوا ہے کہ فلسفہ کے مسائل سات سو (۷۰۰) ہیں جن میں سے دو سو یونان سے آئے ہیں اور ۵۰۰ دین اور شریعت سے آئے ہیں۔ ملا صدرا نے اسفار میں دو جگہ اس فلسفہ سے براءت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے ’’تبًا‘‘ کہا ہے جو شریعت اور دین کے مطابق نہیں ہے۔ پس معارف کی اصل بنیاد دین اور شریعت ہے۔

دنیا اور آخرت میں تمثیل

محدثین نے ایک روایت نقل کی ہے جوکہ الکافی اور دیگر کتب احادیث کی کتب جیسے بحار الانوار میں آئی ہے جس میں امام علیؑ فرماتے ہیں:  > وَعَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ قَالَ: إِنَّ ابْنَ آدَمَ إِذَا كَانَ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنَ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ وَعَمَلُهُ، فَيَلْتَفِتُ إِلَى مَالِهِ فَيَقُولُ: وَاللَّهِ إِنِّي كُنْتُ عَلَيْكَ لَحَرِيصاً شَحِيحاً فَمَا لِي عِنْدَكَ ؟ فَيَقُولُ: خُذْ مِنِّي كَفَنَكَ، ثُمَّ يَلْتَفِتُ إِلَى وَلَدِهِ فَيَقُول: وَاللَّهِ إِنِّي كُنْتُ لَكُمْ لَمُحِبّاً وَإِنِّي كُنْتُ عَلَيْكُمْ لَمُحَامِياً فَمَا ذَا لِي عِنْدَكُمْ ؟ فَيَقُولُونَ: نُؤَدِّيكَ إِلَى حُفْرَتِكَ وَنُوَارِيكَ فِيهَا، ثُمَّ يَلْتَفِتُ إِلَى عَمَلِهِ فَيَقُولُ: وَاللَّهِ إِنِّي كُنْتُ فِيكَ لَزَاهِداً وَإِنَّكَ كُنْتَ عَلَيَّ لَثَقِيلًا فَمَا ذَا عِنْدَكَ، فَيَقُولُ: أَنَا قَرِينُكَ فِي قَبْرِكَ وَيَوْمِ حَشْرِكَ حَتَّى أُعْرَضَ أَنَا وَأَنْتَ عَلَى رَبِّكَ، فَإِنْ كَانَ لِلَّهِ وَلِيّاً أَتَاهُ أَطْيَبَ النَّاسِ رِيحاً وَأَحْسَنَهُمْ مَنْظَراً وَأَزْيَنَهُمْ رِيَاشاً، فَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِرَوْحٍ مِنَ اللَّهِ وَرَيْحَانٍ وَجَنَّةِ نَعِيمٍ قَدْ قَدِمْتَ خَيْرَ مَقْدَمٍ فَيَقُولُ مَنْ أَنْتَ؟ فَيَقُولُ: أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ ارْتَحِلْ مِنَ الدُّنْيَا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّهُ لَيَعْرِفُ غَاسِلَهُ وَيُنَاشِدُ حَامِلَهُ أَنْ يُعَجِّلَهُ فَإِذَا أُدْخِلَ قَبْرَهُ أَتَاهُ مَلَكَانِ وَهُمَا فَتَّانَا الْقَبْرِ يَجُرَّانِ أَشْعَارَهُمَا وَ يَبْحَثَانِ الْأَرْضَ بِأَنْيَابِهِمَا وَأَصْوَاتُهُمَا كَالرَّعْدِ الْقَاصِفِ وَأَبْصَارُهُمَا كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ وَمَنْ نَبِيُّكَ وَمَا دِينُكَ ؟ فَيَقُولُ: اللَّهُ رَبِّي وَمُحَمَّدٌ نَبِيِّي وَالْإِسْلَامُ دِينِي، فَيَقُولَانِ: ثَبَّتَكَ اللَّهُ فِيمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا الْآيَةَ، فَيَفْسَحَانِ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ وَيَفْتَحَانِ لَهُ بَاباً إِلَى الْجَنَّةِ وَ يَقُولَانِ لَهُ نَمْ قَرِيرَ الْعَيْنِ نَوْمَ الشَّابِّ النَّاعِمِ وَ هُوَ قَوْلُهُ أَصْحابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا وَإِذَا كَانَ لِرَبِّهِ عَدُوّاً فَإِنَّهُ يَأْتِيهِ أَقْبَحَ خَلْقِ اللَّهِ رِيَاشاً وَأَنْتَنَهُ رِيحاً فَيَقُولُ لَهُ أَبْشِرْ بِنُزُلٍ مِنْ حَمِيمٍ وَ تَصْلِيَةِ جَحِيمٍ وَ إِنَّهُ لَيَعْرِفُ غَاسِلَهُ وَيُنَاشِدُ حَامِلَهُ أَنْ يَحْبِسَهُ فَإِذَا أُدْخِلَ قَبْرَهُ أَتَيَاهُ مُمْتَحِنَا الْقَبْرِ فَأَلْقَيَا عَنْهُ أَكْفَانَهُ ثُمَّ قَالا لَهُ: مَنْ رَبُّكَ وَمَن‏ نَبِيُّكَ وَمَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دَرَيْتَ وَلَا هَدَيْتَ فَيَضْرِبَانِهِ بِمِرْزَبَةٍ ضَرْبَةً مَا خَلَقَ اللَّهُ دَابَّةً إِلَّا وَتُذْعَرُ لَهَا مَا خَلَا الثَّقَلَيْنِ، ثُمَّ يَفْتَحَانِ لَهُ بَاباً إِلَى النَّارِ، ثُمَّ يَقُولَانِ لَهُ: نَمْ بِشَرِّ حَالٍ فَهُوَ مِنَ الضَّيْقِ مِثْلُ مَا فِيهِ الْقَنَا مِنَ الزُّجِّ حَتَّى إِنَّ دِمَاغَهُ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ ظُفُرِهِ وَلَحْمِهِ، وَيُسَلِّطُ اللَّهُ عَلَيْهِ حَيَّاتِ الْأَرْضِ وَعَقَارِبَهَا وَهَوَامَّهَا فَتَنْهَشُهُ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ قَبْرِهِ وَإِنَّهُ لَيَتَمَنَّى قِيَامَ السَّاعَةِ مِمَّا هُوَ فِيهِ مِنَ الشَّرِّ‏ <. [4]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۶، ص ۲۲۶۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۷۳۔

حقیقتِ وحی  اور روح القدس سے ارتباط:

وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے۔ ہر کوئی وحی کو دریافت نہیں کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ روحِ قدسی ہو تو وہ وحی لے سکتی ہے۔ انسان متعدد روحیں رکھتا ہے: روح نباتی، روحِ حیوانی جوکہ احساس اور ارادہ سے حرکت کو رکھتا ہے۔ پس روحِ حیوانی نباتی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس کے بعد روحِ انسانی ہے جوکہ نباتی و حیوانی تمام خصوصیات کی مالک ہے۔ روح انسانی کے روحِ قدسی ہے ۔ یہ چار جدا روحیں نہیں ہیں بلکہ ایک روح ہے لیکن اس روح کے مراتب ہیں۔ ایک مرتبہ نباتی عمل انجام دیتی ہے، ایک مرتبہ حیوانی و انسانی اور ایک مرتبہ میں روح ’’روحِ قدسی‘‘ ہے جس مرتبہ پر انسان وحی کو دریافت کر سکتا ہے۔ پس ایک مناسبت مرتبط اور مرتبط بہ ہونی چاہیے۔ مرتبہِ قدسی کی بناء پر روحِ القدس سے ارتباط قائم کر سکتا ہے۔ وحی کو دو طرح سے روحِ قدسی لیتی ہے:
۱۔ ایک مرتبہ معنی کی صورت میں وحی لیتی ہے اور اپنے الفاظ میں اس کو ذکر کرتی ہے جسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔
۲۔ روحِ قدسی معنی بھی دریافت کرتی ہے اور الفاظ بھی، جیسے قرآن کریم کہ رسول اللہ ﷺ نے الفاظ بھی اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیے۔
پس وحی میں روحِ قدسی روح القدس کے توسط سے اللہ تعالیٰ سے وحی لیتی ہے۔ لیکن یہ سفیر وحی یعنی روح القدس ایک مرتبہ متمثل ہوتا ہے اور وحی کو ابلاغ کرتا ہے اور دوسرا بدونِ تمثل اپنی اصل حقیقت میں وحی کو ابلاغ کرتا ہے۔ تمثل میں تجافی قبول نہیں ہے۔ اگر فرشتہ تمثل اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی حقیقت اور مرتبہِ وجود کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی حقیقت میں قائم رہتا ہے۔ پس فرشتہ کا تمثل بارش کی طرح نہیں ہے کیونکہ بارش تجافی کی صورت میں ہوتی ہے کہ جب ایک قطرہ نزول کرتا ہے تو جہاں پہلے ہوتا ہے مثلا آسمان پر تو پھر وہاں سے منتقل ہوتا ہے زمین پر۔ اگر جبریلؑ آنحضرت ﷺ کے سامنے تمثل کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی حقیقت سے تنزل کیا بلکہ وہ اپنی حقیقت میں قائم رہتے ہیں اور تمثل کرتے ہیں۔ تمثل کے بغیر وحی سنگین تر ہے جبکہ وحی تمثل کی صورت میں اس کی نسبت کم سنگین ہے، جیساکہ احادیث میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پر وحی آتی تھی تو پسینے کے قطرے ان کے جسم اقدس پر ظاہر ہو جاتے۔ یہ وہی صورت ہے جب جبریلؑ اپنی اصل حقیقت میں ابلاغِ وحی کرتے تھے۔صورت از قبیل کثرت ہے۔ تمثل میں صورت ہے اور کثرت ہے اور کثرت کی صورت میں وحی راحت تر ہے جبکہ بدونِ تمثل یعنی بدونِ صورت از قبیل وحدت ہے جس کی وجہ سے سنگینی کا احساس رسول اللہ ﷺ کو ہوتا تھا۔

فص ۵۸:لوح و قلم سے مراد فرشتہ

اس فص میں بعض چیزوں کے بارے میں ہم بحث کریں گے: ۱۔ قلم کیا ہے؟ لوح کیا ہے؟ کتاب کیا ہے؟ آسمان کیا ہے؟ زمین کیا ہے؟ ملائکہِ آسمان کونسے ہیں؟ زمین کے ملائکہ کونسے ہیں؟ قضاء و قدر کیا ہے؟  ’’قلم‘‘ ملائکہ میں سے ایک فرشتہ ہے اور لوح بھی فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔ قلم نہ لکڑی و پلاسٹک سے بنا ہے اور نہ ہی لوح کسی کاغذ سے بنا ہے۔ اگر قلم و لوح ملائکہ ہیں تو یہ مخلوقِ امری ہیں۔ ملائکہ چونکہ مجرد ہیں اس لیے مخلوقاتِ امری میں سے ہے۔ قلم وہ فرشتہ ہے جس کا کام فاعلیت  اور نقشہِ کاتبیت ہے، جیسے ہم قلم سے لکھنے کو ایجاد کرتے ہیں۔ لوح وہ فرشتہ ہے جس کا کام اس کاتبیت کو قبول کرناہے۔ ملائکہ مراتب رکھتے ہیں اس لیے قلم بالاتر ہے لوح سے۔ قلم فیض کو جاری کرتا ہے اور لوح قبول کرنے کا عمل انجام دیتا ہے۔ آسمان سے مراد آسمان طبیعی و ظاہری نہیں ہے ۔ سماء سے مراد ماوراء طبیعت ہے اور ارض سے مراد طبیعت ہے۔ سماء سے مراد قوسِ نزول ہے اور ارض قوس صعود ہے۔ پس آسمان سے مراد آسمانِ ظاہری نہیں ہے بلکہ آسمان نشاتِ طبیعت سے بالاتر ہے۔ اسی طرح یوم سے مراد ظاہری یوم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اشیاء کا ظہور ہے اور لیل سے مراد اشیاء کا غائب ہونا ہے۔ یوم قوس نزول سے ظاہر ہونا ہے جو بالا سے نیچے آتا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {وَ إِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَ ما نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم‏؛ }. [5]حجر:۲۱۔ لیل قوسِ صعود کے اعتبار سے کیونکہ یہ جہانِ ظاہری بالا کی نسبت مخفی و پنہاں اور غائب ہے ۔قضاء و قدر میں ’’قلم‘‘ قضاء ہے اور ’’لوح‘‘ قدر ہے۔ قضاء اشیاءِ کلی ہے اور قدر اس کی نسبت جزئی ہے۔ قضاء حکمِ کلی ہے اور ’’قدر‘‘ جزئی ہے، مثلا ہر آگ جلاتی ہے تو یہ قضاء ہے اور یہ میرے سامنے آگ جلا رہی ہے یہ قدر ہے۔ مرتبہِ ’’ن‘‘ مقدم ہے اور قلم مرتبہِ مؤخر ہے۔ قلم نون سے استفادہ کرتا ہے اور لوح پر ایجاد کرتا ہے۔ قلم نحوِ کلی و اجمالی ایجاد کرتا ہے اور لوح پر نحوِ تفسیری ہے ۔’’ن‘‘ صادرِ اول ہے ۔ عرفاء اولین مخلوق ’’ن‘‘ کو نہیں کہتے کیونکہ اوّلین مخلوق ’’عقل ‘‘ ہے اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عقل ہیں۔ البتہ یہ عقل ایک مرتبہِ رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ پہلا مرتبہ نہیں بلکہ اس سے بالا مرتبہ بھی ہے اور وہ مرتبہ ’’ن‘‘ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا وجود صادرِ اول کے عرض میں ہے۔ صادرِ اول کا اللہ تعالیٰ سے فرق ’’ظل‘‘ اور ’’ذو ظل‘‘ کا ہے۔ اس وقت امام مہدیؑ سلطان ہیں اس لیے وہ ’’ظلِ الہٰی‘‘ ہے کیونکہ صادرِ اول کے عرض میں ہیں۔ صادرِ اول وجود غیر متناہی ہے۔ قلم تعین عطا کرتا ہے حروف کو تاکہ معنی پیدا ہو۔ اس لیے معنی جب حروم سے منجسم ہوں تو ایجاد ہوتےہیں۔ یہ سب امورِ وجودی ہیں نہ کہ امورِ اعتباری ہیں کہ ہم قلم و لوح وغیرہ کا ترجمہ لکڑی پلاسٹک یا کاغذ وغیرہ لینا شروع کر دیں۔

عالم طبیعت میں ہم جو لفظ اور اشیاء خارجی کو استعمال کرتے ہیں وہ اظلال ہیں ماوراء طبیعت کے یعنی ذو ظل ماوراء طبیعت میں ہے اور جو کچھ عالم طبیعت میں وہ ظل ہے اس ذو ظل کا۔ عالم طبیعت مثلا لوح ہیں۔ عالم طبیعت میں میزان سے تعلق رکھتے ہیں اور موازین ماوراء طبیعت ہے۔ روایات میں اہل بیتؑ فرماتے ہیں کہ ہم موازین ہیں۔ ہم عالم طبیعت میں پھونک مارتے ہیں اور اس کو استعمال کرتے ہیں ، مثلا آگ بجانے کے لیے یا آگ جلانے کے لیے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نفخ کیا اپنی روح کو۔ یہاں نفخ سے مراد عالم طبیعت والی پھونک نہیں ہے۔ قرآن کریم میں جناب عیسیؑ کو کلمہ کہا گیا ہے لیکن یہ کلمہ نہیں جو زبان میں استعمال ہوتا ہے اور ہم اس کو لکھتے ہیں بلکہ جو ہم لکھتے ہیں وہ کلمہ ظل ہے۔اسی طرح قرآن کریم میں ’’مداد‘‘ کا تذکرہ ہے اس سے مراد سیاہی یا فارسی والا مداد نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:  {قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِماتُ رَبِّي وَ لَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَدًا‏؛ }. [6]کہف: ۱۰۹۔یہاں آیت میں مداد سے مراد مادی سیاہی نہیں ہے جو قلم میں ڈالی جاتی ہے اور تحریر کیا جائے۔ سورہ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:  {وَ لَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيم‏؛ }. [7]لقمان: ۲۷۔یہاں ’’کلمہ‘‘ اور ’’مداد‘‘ پر دقت کریں۔ ہم جب یہاں معنی کریں تو وجودی اعتبار سے معنی کریں۔ پس لوح و قلم فرشتے ہیں اور یہی بات شیخ صدوق نے الاعتقادات میں لکھی ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ لوح و قلم سے مراد دو فرشتے ہیں۔ [8]صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، ص ۴۴۔ پس قلم اپنے بالا سے امور لیتا ہے اور اپنے ماتحت لوح کی طرف منتقل کرتا ہے۔ ’’ن‘‘ قلم سے بالاتر ہے۔ تمام کلماتِ وجودی حقیقتِ رسول اللہ ﷺ میں جمع کر دیئے گئے ہیں۔

انزال اور تنزیل میں فرق:

انزال اور تنزیل میں فرق ہے۔ انزال باب افعال سے ہے اور تنزیل باب تفعیل سے ہے۔ بعض آیات میں قرآن کے لیے انزال آیا ہے اور بعض میں تنزیل کا لفظ آیا ہت۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ انزال دفعی اور یکبارگی  اور یکجائی ہے جبکہ تنزیل تدریجی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن دو مرتبہ نازل ہوا ہے۔ ایک مرتبہ ایک مرتبہ تمام حقائق قرآن رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئے اور جو یکبارگی نازل ہوا پھر مختلف مناسبتوں سے اس کو دوبارہ نازل کیا گیا ہے۔ پس وجودِ انزالی ایک شب میں اور وجودِ تنزیلی ۲۳ سالوں میں نازل ہوا۔ یہ قرآن جو ہمارے سامنے ہے یہ وجودِ انزالی و دفعی ہے اس لیے آغاز میں مدنی سور اور اختتامِ قرآن میں مکی سورتیں ہیں جبکہ نزولِ تدریجی کے مطابق تو مکی سورتیں پہلے ہونے چاہیے تھیں۔ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے اور اس سورہ کے ساتھ مختص ہے سوائے سورہ توبہ کے اور سورہ نمل میں دو مرتبہ بسم اللہ ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی چونکہ ہر سورہ میں سوائے سورہ براءت کے بسم اللہ کو اس کا حصہ شمار کرتے تھے اس لیے علامہ حسن زادہ آملی کی کتب میں آیات کا حوالہ میں آیت کا نمبر ایک آگے ہے، مثلا عام قرآن میں اگر آیت ۲۰۰ ہے تو علامہ کی کتب میں ۲۰۱ لکھی ہو گی کیونکہ وہ بسم اللہ کو ہر سورہ کا جزء شمار کرتے ہیں۔ پس انزال دفعہِ قرآن اورتنزیل تدریجیِ قرآن ہے۔

’’امامِ مبین‘‘ سے قرآن میں مراد انسانِ کامل ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:  {وَكُلَّ شَيْ‏ءٍ أَحْصَيْناهُ في‏ إِمامٍ مُبِينٍ‏؛ }. [9]یس: ۱۲۔انسان کامل تمام حقائقِ ممکنات تک رکھتا ہے۔ کیا کوئی اس مرتبہ تک پہنچ سکتا ہے؟ بالکل پہنچ سکتا ہے اگرچے مرتبہ رسول اللہ ﷺ و آئمہؑ تک نہیں پہنچ سکتا ۔ فرق دونوں میں وجودی ہے۔ کیونکہ ہم وجود کو تشکیکی سمجھتے ہیں۔

نصیحت۱:

علامہ مجلسی نے روایت نقل کی ہے کہ امام باقرؑ فرماتے ہیں:  >… وَعَنْ أَبِي جَعْفَرٍ × قَالَ: قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ × لِلْحَارِثِ الْأَعْوَرِ لَيَنْفَعَنَّكَ حُبُّنَا عِنْدَ ثَلَاثٍ: عِنْدَ نُزُولِ مَلَكِ الْمَوْتِ وَعِنْدَ مُسَاءَلَتِكَ فِي قَبْرِكَ وَعِنْدَ مَوْقِفِكَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ  <. [10]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۷، ص ۱۶۴۔  تین جگہوں میں محبتِ اہل بیتؑ نفع و فائدہ دے گی، ان میں سے پہلا وہ وقت ہے جو انسان پر سخت ترین وقت سکرات اور ملک الموت کا قبضِ روح کا وقت ہے۔ اس کے بعد اہم ترین وقت قبر میں سوال ہے ۔تیسرا اللہ کے سامنے مختلف مواقف میں پیش ہوں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’حُب‘‘ کیا ہے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان کسی سے محبت کا دعوی کرے اور شب و روز اس کی مخالفت کرتا رہے؟! مخالفت اور محبت ایک دوسرے کے مقابلے میں ہے۔ یہ عنایات تب ہیں جب حُبّ اہل بیتؑ ہو۔ اگر محبت ہو تو انسان محبوب کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اگر انسان لا پرواہ اور مخالف ہو تو وہ لقلقہ زبانی کر رہا ہے۔ پس محب تو وہ ہوتا ہے جو اپنی جان محبوب کو دے دیتا ہے، جیسے ماں اپنے جان خطرات میں ڈال دیتی ہے لیکن اپنے فرزند کو محفوظ رکھتی ہے۔ پس محبت کا ثبوت عمل سے ظاہر ہونا چاہیے نہ کہ فقط زبان سے دعوی ہی دعوی ہو۔

نصیحت۲:

ایک شخص امام علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے اور  آپؑ سے چار سوال کے بارے میں دریافت کیا ۔ امامؑ نے فرمایا کہ سول کرو اگرچے چالیس ہی کیوں نہ ہوں۔ روایت کے الفاظ اس طرح سے ہیں:  > جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ×، فَقَالَ: جِئْتَ لِأَسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَةِ مَسَائِلَ، فَقَالَ ×: سَلْ وَإِنْ كَانَتْ أَرْبَعِينَ، فَقَالَ: أَرْبَعِينَ ! أَخْبِرْنِي مَا الصَّعْبُ وَمَا الْأَصْعَبُ ؟ وَمَا الْقَرِيبُ وَمَا الْأَقْرَبُ ؟ وَمَا الْعَجِيبُ وَمَا الْأَعْجَبُ؟ وَمَا الْوَاجِبُ وَمَا الْأَوْجَبُ ؟ فَقَالَ ×: الصَّعْبُ هُوَ الْمَعْصِيَةُ وَالْأَصْعَبُ فَوْتُ ثَوَابِهَا، وَالْقَرِيبُ كُلُّ مَا هُوَ آتٍ وَالْأَقْرَبُ هُوَ الْمَوْتُ، وَالْعَجَبُ هُوَ الدُّنْيَا وَغَفْلَتُنَا فِيهَا أَعْجَبُ، وَالْوَاجِبُ هُوَ التَّوْبَةُ وَتَرْكُ الذُّنُوبِ هُوَ الْأَوْجَبُ <. [11]شعیری، جامع الاخبار، ص ۱۳۸۔  

امامؑ نے سائل کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ معصیت و گناہ سخت ہے لیکن انتہائی سخت گناہ کو ترک کرنا ہے۔ ہر وہ جو آنے والی ہے وہ قریب ہے لیکن اقرب موت ہے۔ عجب دنیا ہے اور اس میں ہماری غفلت اور حب الدنیا عجیب تر ہے۔ توبہ کرنا واجب ہے لیکن اوجب گناہوں کو ترک کرنا ہے۔

نصیحت۳:

امام علیؑ نے امام حسنؑ کو وصیت کی جو نہج البلاغہ میں درج ہے ۔ اس عظیم معارف پر مشتمل وصیت کے بارے میں امام علیؑ فرماتے ہیں :  > وَذَكِّرْهُ بِمَا أَصَابَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَسِرْ فِي دِيَارِهِمْ وَآثَارِهِمْ فَانْظُرْ فِيمَا فَعَلُوا وَعَمَّا انْتَقَلُوا وَأَيْنَ حَلُّوا وَنَزَلُوا فَإِنَّكَ تَجِدُهُمْ قَدِ انْتَقَلُوا عَنِ الْأَحِبَّةِ وَحَلُّوا [دَارَ] دِيَارَ الْغُرْبَةِ وَكَأَنَّكَ عَنْ قَلِيلٍ قَدْ صِرْتَ كَأَحَدِهِم‏ <. [12]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۹۲، مکتوب: ۳۱۔  

قرآن کریم نے مختلف اقوام اور انبیاءؑ کے قصص و واقعات بیان کیے ہیں تاکہ ان سے عبرت حاصل کی جائے۔ اسی طرح امام علیؑ اس وصیت میں امام حسنؑ کے توسط سے ہمیں نصیحت فرماتے ہیں کہ جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں ان کی زندگی پر دقت کرو اور دیکھو کہاں وہ منتقل ہو گئے ؟! وہ کہاں چلے گئے ؟! وہ جنہوں نے غفلتوں میں زندگی بسر کر دی وہ کہاں پہنچے اور وہ جنہوں نے تقوی و راہِ الہٰی میں زندگی بسر کی انہوں نے کیا کیا حاصل کیا ؟ پس ماضی میں گزری ہوئے لوگوں نے کیا کیا کام کیے اور اس کی پاداش میں انہیں کیا کیا نصیب ہوا اس پر دقت کریں اور اس سے عبرت حاصل کریں۔

نصیحت۴:

امام علیؑ فرماتے ہیں:  > وَبِالْبُكَاءِ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ تُمَحَّصُ الذُّنُوب؛ اللہ کی خشیت کی وجہ سے گریہ کرنے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں <. [13]آمدی، عبد الواحد، تصنیف غرر الحکم، ص ۱۹۲، ۳۷۲۳۲۔    قلب میں سوز پیدا کرنے سے قلب روشن ہوتا ہے۔ بارگاہِ الہٰی میں گریہ کرنا چاہیے تاکہ اپنے مطلوب کو اللہ تعالیٰ سے حاصل کر سکیں۔ شیرخوار بچے پر دقت کریں کہ بچہ جب بیدار ہوتا ہے اور گریہ کرتا ہے تو ماں اس کو دودھ دیتی ہے۔ گریہ قلب کو جلاء دیتا ہے، دھو ڈالتا ہے یہاں تک کہ معنوی فیوضات جاری ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ سے منقول ہے:  > الْبُكَاءُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ مِفْتَاحُ الرَّحْمَةِ وَعَلَامَةُ الْقَبُولِ وَبَابُ الْإِجَابَة؛ اللہ کی خشیت سے گریہ کرنا رحمت کی کلید، قبولیت کی علامت اور بابِ اجابت ہے۔ <. [14]محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۲۰۷۔ اگر انسان کسی عبادت میں گریہ کرتا ہے تو یہ اس کی قبولیت کی علامت ہے۔ دعا اور عبادات میں اگر انسان اپنی بیچارگی اور فقر پر دقت کرے تو اس کا دل نرم پڑ جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر انسان اپنی موت اور اختتام کی طرف توجہ کرے تو دل ٹوٹ جائے گا اور گریہ جاری ہو سکتا ہے۔ انسان ضعیف مخلوق ہے جب وہ اپنے ضعف و کمزوری کی طرف توجہ کرتا ہے تو قلب نرم پڑ جاتا ہے، جیساکہ امام علیؑ نے دعا کمیل میں بیان کیا ہے۔ بعض دعاؤں اور مناجات کو حفظ کرنا چاہیے ، جیسے مناجاتِ امیر المؤمنینؑ کہ مولای یا مولای کی صدا انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔لقلقہِ زبانی نہیں ہونی چاہیے ، کم ہو لیکن با توجہ ہونا چاہیے۔ قلب میں اگر جلاء پیدا ہو جائے تو فیوضاتِ الہٰی اس پر جاری ہو جاتے ہیں۔

شرحِ فص ۵۹: كل مالم يكن فكان فله سبب …

علامہ حسن زادہ آملی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ فص بعض فصوص الحکم کے نسخوں میں نہیں آئے۔ہر وجود جو مسبوق بالعدم ہے وہ سبب کا محتاج ہے۔ مسبوق العدم یا تو رتبہ کے اعتبار سے یا تو اصلا نہیں تھی لیکن ہر دو سبب کا محتاج ہے۔حادث دو طرح سے ہے: ۱۔ حادثِ زمانی، جیسے ہم کچھ سال پہلے نہیں تھے، جیسے زمین آسمان وغیرہ جو پہلے نہیں تھے پھر متحقق ہوئے، ۲۔ حادثِ ذاتی: ہر موجود جس کا وجود خود نہیں تھا بلکہ محتاجِ موجد تھا۔ ممکن ہے کہ ازلی ہو لیکن خود سے وجود نہیں رکھتے تو یہ حادثِ ذاتی کہلاتے ہیں، جیسے ملائکہ، جبریلؑ کیونکہ یہ زمانہ نہیں رکھتے کہ ہم انہیں حادثِ زمانی کہیں بلکہ یہ حادثِ ذاتی ہیں کیونکہ خود ان کا وجود نہیں ہو سکتا بلکہ اپنے وجود کے لیے یہ محتاج ہیں۔ ہم یعنی انسان حادثِ زمانی بھی رکھتے ہیں اور حادثِ ذاتی بھی۔ ملائکہ فقط حادثِ ذاتی رکھتے ہیں۔ وہ جو قدیمِ ذاتی ہے وہ کون ہے اور کتنے ہیں؟ قدیمِ ذاتی فقط اللہ تعالیٰ ہے جو وحدہ لا شریک لہ ہے ۔ اللہ سبحانہ کے علاوہ کوئی وجود قدیمِ ذاتی نہیں ہے اور فقط اللہ تعالیٰ قدیمِ ذاتی ہے۔ ہر حادث سبب اور علت کا محتاج ہے۔ بلحاظِ ذات ہر ممکن معدوم ہے اور وجود کے لیے محتاجِ علت ہے۔ اگر سببیت ذاتی ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جس کا وجود خود ہے اور محتاج نہیں ہے۔ فخر رازی کہتے ہیں کہ خدا مخفف ہے ’’خود آ‘‘ سے یعنی خود متحقق ہے اور غیر اللہ ’’خدا‘‘ نہیں ہے یعنی خود سے نہیں ہے۔ پس خود وجود ہی اپنا سبب  ہے اگر سبب ذاتی ہے یعنی ذات کا تقاضا ہے کہ وہ موجود ہو تو یہ واجب الوجود بالذات ہےجوکہ مسبب الاسباب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا غیر ’’محتاجِ سبب‘‘ ہے اس لیے حادث ہے۔ تمام موجوداتِ حادث اور ان کے اختیارات ’’سبب کا محتاج ‘‘ ہے اور ایک اصل سبب پر منتہی ہوتے ہیں جوکہ اللہ سبحانہ ہے۔ 

شرحِ فص ۶۰:  السبب اذالم يكن سببا ثم صار سببا فلسبب صار سببا …

واجب الوجود یا حق تعالیٰ باصطلاحِ عرفاء اللہ تعالی ہے۔ اللہ تعالیٰ ذات و صفات کے اعتبار سے واجب الوجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اوصاف تین طرح کے ہیں: ۱: صفات حقیقہ ذاتیہ ، جیسے حیات یعنی حیّ، اس میں غیر کو اصلاً ملاحظہ نہیں کیا جاتا ۔ ہر وہ صفت جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات بغیر کسی مقایسہ یا اضافت ملاحظہ کی جائیں وہ حقیقیہ محضہ ہیں۔ ۲: حقیقیہ ذاتِ  اضافہ : اللہ سبحانہ کو دوسرے کی اضافت کے اعتبار سے ملاحظہ کیا جائے، جیسے اللہ تعالیٰ عالم ہے جوکہ معلوم کے اضافت سے ہے، مرید بھی اسی طرح ہے، خالقیت، رازقیت وغیرہ۔ ۳: صفاتِ اعتباری محضہ: ان صفات کے ما بإزاء خارجی نہیں رکھتے لیکن منشاءِ انتزاعِ خارجی رکھتے ہیں جنہیں ہمارا ذہن درک کرتا ہےیعنی معقولات ثانویہ، مثل عالمیت، اس کو ہمارا ذہن اعتبار کرتا ہے۔ اسی طرح فوقیت و تحتیت ہے۔

شرحِ فص ۶۱:  فان ظن ظان انه يفعل مايريد و يختار مايشاء …

گذشتہ فص میں بیان ہوا تھا کہ ہمارے سارے افعال و اعمال عرض ہیں جو ایک علت و سبب کے محتاج ہیں۔ یہ علت اور سبب ذاتی نہیں ہے اور اس طرح سے ہم سلسلہِ اسباب پر دقت کریں تو وہ اللہ تعالیٰ پر منتہی ہوتا ہے ۔ اس لیے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر پر موقوف ہے۔ ہم نہ مفوضہ مثل معتزلہ ہیں کہ تمام اختیارات کے حامل سمجھنے لگ جائیں اور نہ مثل اشاعرہ اپنے آپ کو مجبور قرار دے دیں۔ ہمارا اختیار ایک امرِ حادث ہے اور ہر حادث کا ایک سبب ہے جوکہ ذاتی نہیں۔ پس نہیں تھا پھر علت نے اس کو حادث کیا۔ لہٰذا ہمارا اختیار ہمیشہ نہیں تھا بلکہ کسی ذات نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں بعض سے امور میں اپنے آپ کو صاحبِ اختیار ملاحظہ کرتے ہیں۔ یہ اختیار اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے کیونکہ ہمارا اختیار نہ ذاتی ہے اور نہ دائمی۔ اس لیے ہمارا اختیار جس ذات پر موقوف ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ اختیار حدوث کیا ہے۔ ہمارے اختیار کا منشا اللہ تعالیٰ ہے۔ ہم اس اختیار لینے میں مجبور ہیں۔

ہمیں ارادہ اور قدرت پر دقت کرنا چاہیے۔ ہر وجود اور ہر مرتبہِ وجودی کو ان اوصافِ ارادہ و قدرت کے ساتھ سازگار کرنا ضروری ہے۔ ہم افعال میں مختار ہیں لیکن اس اختیار کو لینے میں مجبور ہیں۔ پس اوصاف کو موصوف کے مرتبہِ وجودی سے سازگار کرتے ہوئے معنی لیں گے۔ ہم بھی علم و ارادہ رکھتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ بھی ارادہ و قدرت رکھتا ہے لیکن مرتبہِ وجودی کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ہمارے افعال استناد کے اعتبار سے ہم پر مستند ہیں اور باعتبارِ ایجاد منسوب ہیں باری تعالیٰ سے۔ اس لیے استناد اور ایجاد میں فرق کرنا ضروری ہے۔ ہم نماز میں پڑھتے ہیں کہ ’’اقومُ و اقعدُ‘‘ لیکن ’’بحول اللہ وقوتہ‘‘ ۔ استناد اور ایجاد میں فرق یہ ہے ، مثلا چھت پر دو برتن رکھنے کی جگہ ہے، ایک برتن میں صاف پانی ہے اور ایک میں شراب ہے۔ یہاں مولیٰ ہمیں کہتا ہے کہ اگر شراب کا انتخاب کیا تو عذاب ہے اور اگر صاف پانی کا انتخاب کیا تو اجر ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ چھت تک اصلًا میری رسائی نہیں ہے کیونکہ میرا قد چھوٹا ہے اور چھت بلند ہے ۔یہاں مولیٰ کہتا ہے کہ میں تمہیں اوپر لے جاتا ہوں  اور پھر تم اختیار کرو۔ پس ہمارا چھت پہنچنا ایجاد ہے اور وہاں فعل خود انجام دینا استناد ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں قدرت، علم و مہلت دی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا قدرت  و وسائل مہیا کرنا ایجاد ہے اور فعل کو انجام دینا فاعل کی طرف نسبت اور مستند ہے۔ پس اللہ تعالی ٰکی ذات ہے جو رکاوٹ کو ہٹاتی ہے اور وسائل کو مہیا کر کے دیتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایجاد نہ کرے یعنی رکاوٹ ہٹا کر وسائل مہیا نہ کرے تو انسان فعل انجام نہیں دے سکتا، مثلاً حضرت موسی ؑ اور ان کے اصحاب دریائے نیل پار کر گئے جبکہ فرعون اور اس کا لشکر ڈوب کر غرق ہو گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ایجاد کرنا ضروری ہے۔

منابع:

منابع:
1 ہود:۶۹-۷۰۔
2 امام سجادؑ، صحیفہ سجادیہ، ص ۴۶، دعا: ۳۔
3 مریم:۱۷۔
4 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۶، ص ۲۲۶۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۷۳۔
5 حجر:۲۱۔
6 کہف: ۱۰۹۔
7 لقمان: ۲۷۔
8 صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، ص ۴۴۔
9 یس: ۱۲۔
10 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۷، ص ۱۶۴۔
11 شعیری، جامع الاخبار، ص ۱۳۸۔
12 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۹۲، مکتوب: ۳۱۔
13 آمدی، عبد الواحد، تصنیف غرر الحکم، ص ۱۹۲، ۳۷۲۳۲۔
14 محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج ۵، ص ۲۰۷۔
Views: 149

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عالم مثال اور اس کی اقسام
اگلا مقالہ: اسماء حسنی اہل عرفان کی نظر میں