loading

{قرآنی  كلمات کی صرفی تحليل}

لفظ رفع کی صرفی تحلیل

تحریر:حافظ تقی رضا
05/29/2023

رفع قرآنی لفظ ہے جو قرآن کریم کی متعدد آیات میں وارد ہواہے جس کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے:

رَفَعَ اہل لغت کی نگاہ میں:

 قرونِ اولی کی اہم لغات میں سے ایک لغت مقاييس اللغۃ ہے  جس میں   احمد بن فارس متوفی ۳۹۵ھ تحریر کرتے ہیں:رفعت الشيء رفعاً، وھوخلاف الخفۡض؛ میں نےایک شی کو بلند کیا، اور رفع(بلندی)  پستی کے برخلاف  ہے۔ [1]ابن فارس،احمد بن فارس بن زکریا،مقاییس الغۃ، جلد :۲، صفحہ:۴۲۳۔ راغب اصفہانی متوفی ۵۰۲ ھ  مفردات میں لکھتےہیں: يُقال تارةً في الأَجسامِ الموضوعةِ إِذَا أَعلَيتُهَا عَن مَقَرِّهَا؛بعض اوقات نیچے پڑے ہوئے اجسام کو ان کی جگہ سے اوپر عالی جگہ پر رکھنا رفع کہلاتا ہے ۔[2]راغب اصفہانی ،حسین بن محمد ،المفردات فی غریب القرآن ،ج۱،ص۳۶۰۔ احمد بن محمد فیومی متوفی ۷۷۰ھ اپنی لغوی کتاب مصباح المنیر رقمطراز ہیں: فالرفع في الأجسام حقيقة في الحركة والانتقال ؛ اجسام میں حقیقی طور پر حرکت و انتقال برپا کرنا رفع کہلاتا ہے ۔ [3] الفیومی ،احمد بن محمد ، المصباح المنير فی غريب الشرح الکبیر، ج ۱ ،ص ۱۲۲ ۔صاحب التحقیق  حسن مصطفوی متوفی ۱۴۲۶ھ ان تمام عربی لغات کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کے تناظر میں رفع کا معنی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:ھو مَا یُقابل الخفض، وقد سبق أنّ الخفض ھو التواضع مقارناً بالعطوفة ؛رفع پستی کے مقابلے میں ہے، پہلے بیان کیا جا چکا ہے خفض ایسی تواضع کہتے ہیں جو عطوفت و مہربانی کے ساتھ ہو۔ [4] مصطفوی، حسن مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ،جلد ۴،ص۱۹۳۔

کلمہ رفع مفسرین کی نگاہ میں:

قرونِ اولیٰ کی اہم لغات میں سے ایک تفسیر التبیان فی تفسیر القرآن ہے   جس میں شیخ طوسی متوفی ۴۶۰تحریر کرتے ہیں: ونقيضُ الرفعِ الوَضعُ  ؛رفع  كی نقیض پستی ہے ۔[5]شیخ طوسی ،محمد بن حسن، التبيان في تفسير القرآن ، ج۱، ص ۴۶۰۔

رفع کے قرآنی مشتقات :

قرآن کریم میں رفع اپنے تمام مشتقات کے ساتھ ۲۲ مرتبہ وارد ہواہے۔ یہ مشتقات درج ذیل ہیں:

۱:رفع

قرآن کریم میں اس باب سے اس کا فعل ماضی پانچ آیت کریمہ میں آیا ہے :
۱۔{
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنا بَعْضَهُمْ عَلى‏ بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجاتٍ؛یہ سب پیغمبر ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا اور ان میں سے بعض کے درجے بلند کئے}[6]بقره:۲۵۳۔
۲۔{
وَهُوَ الَّذي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ في‏ ما آتاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَريعُ الْعِقابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحيم‏؛وہ (خدا) وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں (پہلوں) کا خلیفہ اور جانشین بنایا اور تم سے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے بلندی عطا فرمائی تاکہ جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا پروردگار بہت جلد سزا دینے والا اور بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا بھی ہے}[7]انعام:۱۶۵۔
۳۔{
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً وَقالَ يا أَبَتِ هذا تَأْويلُ رُءْيايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَها رَبِّي حَقًّا؛اور (دربار میں پہنچ کر) اپنے ماں باپ کو تختِ شاہی پر (اونچا) بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدہ (شکر) میں جھک گئے (اس وقت) یوسف (ع) نے کہا اے بابا یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو (بہت عرصہ) پہلے میں نے دیکھا تھا جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا ہے}[8]یوسف :۱۰۰۔
۴۔{
اللَّهُ الَّذي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها ثُمَّ اسْتَوى‏ عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْري لِأَجَلٍ مُسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآياتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُون‏؛للہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا ہے بغیر ایسے ستونوں کے جو تم کو نظر آتے ہوں پھر وہ عرش (اقتدار) پر متمکن ہوا۔ اور سورج و چاند کو (اپنے قانون قدرت کا) پابند بنایا (چنانچہ) ہر ایک معینہ مدت تک رواں دواں ہے وہی (اس کارخانۂ قدرت کے) ہر کام کا انتظام کر رہا ہے اور اپنی قدرت کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا یقین کرو}[9]رعد :۲۔
۵۔{رَفَعَ سَمْكَها فَسَوَّاها؛ور اس کی چھت کو بلند کیا پھر اس کو درست کیا}[10]نازعات :۲۸۔
صرفی تحلیل: لفظ رفع  ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ فعل ماضی مفرد مذکر غائب کا صیغہ ہے جوکہ فعل ماضی کا پہلا صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی :اس ایک شخص نے زمانہ ماضی میں بلند کیا ۔
ان سب آیات میں لفظ رفع کے  لغوی اعتبار سے معنی بلند کرنےکےہے ۔

۲:رَفَعۡنَا

یہ مشتق قرآن کریم میں ۷ مرتبہ وارد ہوا ہے ۔
۱۔{
وَإِذْ أَخَذْنا ميثاقَكُمْ وَ رَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا ما فيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون‏؛ور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے (کوہ) طور کو تم پر اٹھا کر (اور لٹکا کر) یہ عہد و پیمان لیا تھا کہ ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے (توراۃ) اسے مضبوطی سے پکڑو۔ اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو (اس پر عمل کرو) تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ}[11]بقرہ :۶۳۔
۲۔{
وَإِذْأَخَذْنا ميثاقَكُمْ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قالُوا سَمِعْنا وَعَصَيْنا وَأُشْرِبُوا في‏ قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إيمانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنين‏
؛ اور (وہ وقت یاد کرو) کہ جب ہم نے تم سے عہد و پیمان لیا اور تمہارے اوپر کوہِ طور کو بلند کیا (اور کہا تھا کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑو۔ اور جو کچھ اس میں ہے اسے غور سے) سنو تو (تمہارے اسلاف) نے زبان سے کہا کہ ہم نے سن تو لیا اور دل میں کہا ہم عمل نہیں کریں گے اور ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں گوسالہ کی محبت بیٹھ گئی تھی۔ (اے رسول) کہیے! اگر تم مؤمن ہو تو تمہارا ایمان تمہیں بہت ہی برے کاموں کا حکم دیتا ہے (یہ عجیب ایمان ہے)}[12]بقره :۹۳۔
۳۔{
وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِميثاقِهِمْ وَقُلْنا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبابَ سُجَّداً وَقُلْنا لَهُمْ لا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ ميثاقاً غَليظا؛ اور ہم نے ان سے (فرمانبرداری کا) پختہ عہد لینے کے لیے ان کے اوپر کوہ طور کو بلند کیا اور ہم نے ان سے کہا سجدہ ریز ہوکر دروازہ (شہر) میں داخل ہو جاؤ اور ان سے کہا کہ قانون سبت کے بارے میں زیادتی نہ کرو (حد سے نہ بڑھو) اور ہم نے ان سے پختہ عہد و پیمان لیا تھا}[13]نساء:۱۵۴۔
۴۔{
وَلَوْ شِئْنا لَرَفَعْناهُ بِها وَ لكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَواهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذينَ كَذَّبُوا بِآياتِنا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُون‏اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کی وجہ سے اس کا مرتبہ بلند کرتے۔ مگر وہ تو زمین (پستی) کی طرف جھک گیا۔ اور اپنی خواہشِ نفس کا پیرو ہوگیا۔ تو اب اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تب بھی ہانپتا ہے اور یونہی چھوڑ دو تب بھی ایسا کرتا ہے۔ (زبان لٹکائے ہانپتا ہے) یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا (اے رسول) تم یہ قصص و حکایات سناتے رہو شاید وہ غور و فکر کریں[14]اعراف:۱۷۶۔
۵۔{
وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا؛ور ہم نے انہیں بڑے ہی اونچے مقام تک بلند کیا تھا[15]مریم :۵۷۔
۶۔{
أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون‏؛کیا یہ لوگ آپ کے پروردگار کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟ (حالانکہ) دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی ہم نے تقسیم کر دی ہے اور ہم نے بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خد متلے سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت اس مال و دولت سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں}[16]زخرف:۳۲۔
۷۔{
وَرَفَعْنا لَكَ ذِكْرَك‏؛اور آپ(ص) کے ذکر (آوازہ) کو بلند کیا[17]شرح:۴۔
صرفی تحلیل:لفظ رفعنا   ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے  ۔ یہ فعل ماضی مفرد جمع متکلم کا صیغہ ہے جوکہ فعل ماضی کا چودوہ صیغہ ہے۔

 اشتقاقی معنی :ہم سب نے بلند کیا۔
تبصرہ :یہ معنی سب آیات میں جدا ہے۔اس معنی سے مراد پہلی تین آیات میں خدا نےکوہ طور کو بلند کیاقوم موسیؑ پر،چوتھی آیت اس معنی سے مراد میں رتبہ بلند کرنے کےمعنی میں لیا گیا ۔
پانچویں آیت سورہ مریم ۵۷میں اس معنی سے مراد کہ اونچے مقام پے بلند کرنے کےمعنی میں استعمال کیا گیا ہے۔سورہ زخرف میں اس معنی سے مراد فوقیت ہے۔سورہ شرح میں اس معنی سے مراد  بلند کرنے کےمعنی میں لیا گیا۔

۳:یَرۡفَعُ

یہ مشتق قرآن کریم میں۳ مرتبہ وارد ہوا ہے ۔
۱۔{
وَإِذْيَرْفَعُ إِبْراهيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْماعيلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّميعُ الْعَليم‏؛اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر (خانہ کعبہ) کی بنیادیں بلند کر رہے تھے۔ (اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا کرتے جاتے تھے) اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ عمل) قبول فرمابے شک تو بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے}[18]بقره :۱۲۷۔
۲۔{
مَنْ كانَ يُريدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَميعاً إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئاتِ لَهُمْ عَذابٌ شَديدٌ وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُور؛جو کوئی عزت کا طلبگار ہے (تو وہ سمجھ لے) کہ ساری عزت اللہ ہی کیلئے ہے (لہٰذا وہ خدا سے طلب کرے) اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتا ہے (یا اللہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے) اور جو لوگ (آپ کے خلاف) برائیوں کے منصوبے بناتے ہیں (بری تدبیریں کرتے ہیں) ان کیلئے سخت عذاب ہے (اور ان کا مکر و فریب آخرکار) نیست و نابود ہو جائے گا}[19]فاطر:۱۰۔
۳۔{
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا قيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذا قيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجاتٍ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ خَبير؛اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (آنے والوں کیلئے) مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو کشادہ کر دیا کرو اللہ تمہیں کشادگی دے گااور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو اللہ ان لوگوں کے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے در جے بلند کرتا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہواللہ اس سے بڑا باخبر ہے}[20]مجادلہ :۱۱۔
صرفی تحلیل:لفظ یرفع  ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے۔ یہ فعل مضارع مفرد مذکر غائب کا صیغہ ہے  کا صیغہ جوکہ فعل مضارع  کا پہلا صیغہ ہے۔
اشتقاقی معنی :وہ بلندکرتاہے۔
تبصرہ:سورہ بقرہ ۱۲۷ میں اس معنی سے مراد  بلند کرنے کے معنی میں استعمال کیا گیا۔سورہ فاطر ۱۰ میں اس معنی سے مراد کچھ کلمات ایسے ہے جو انسان کے اعمال کو قبولیت کے درجے تک پہنچا دیتے ہے۔سورہ مجادلہ ۱۱ میں اس معنی سے مراد درجات بلند کرنے میں لیا گیا۔

۴:نَرۡفَعُ

یہ مشتق قرآن کریم میں ۲ مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱۔{
وَتِلْكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهيمَ عَلى‏ قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكيمٌ عَليم‏؛یہ تھی ہماری وہ دلیل جو ہم نے ابراہیم (ع) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں آپ کا پروردگار بڑا حکمت والا، بڑا جاننے والا ہے}[21]انعام :۸۳۔
۲۔{
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخيهِ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ ما كانَ لِيَأْخُذَ أَخاهُ في‏ دينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَنْ يَشاءَ اللَّهُ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاءُ وَفَوْقَ كُلِّ ذي عِلْمٍ عَليم‏؛تب یوسف (ع) نے اپنے (سگے) بھائی کی خرجین سے پہلے دوسروں کی خرجینوں کی تلاشی لینا شروع کی پھر اپنے بھائی کی خرجین سے وہ گم شدہ کٹورا نکال لیا ہم نے اس طرح (بنیامین کو اپنے پاس رکھنے) کیلئے یوسف کے لیے تدبیر کی کیونکہ وہ (مصر کے) بادشاہ کے قانون میں اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا ہم جس کے چاہتے ہیں مرتبے بلند کر دیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر ایک عالم ہوتا ہے}[22]يوسف:۷۶۔
صرفی تحلیل:لفظ نرفع  ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ فعل مضارع  جمع متکلم کا صیغہ ہے جوکہ فعل مضارع  کا چودوہ  صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی :ہم سب بلند کرتے ہے۔
تبصرہ :ان دونوں آیات میں معنی مشترک ہے۔سورہ انعام ۸۳ ،سورہ یوسف ۷۶ میں اس معنی سے مراد کہ خدا جس کےچاہے درجات  بلند کردیتا ہے۔

۵:تَرۡفَعُوا

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱۔{
ياأَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمالُكُمْ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُون‏؛اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی(ص) کی آواز پر بلند نہ کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اونچی آواز میں کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں اورتمہیں خبر بھی نہ ہو}[23]حجرات:۲۔
صرفی تحلیل:لفظ ترفعوا   ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے۔ یہ فعل مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے کا صیغہ جوکہ فعل مضارع کا نوہ صیغہ  ہے۔’’ تَرۡفَعُوا ‘‘ (اصل میں یہ صیغہ’’ تَرۡفَعُونَ‘‘تھا شروع میں عامل آنے کی وجہ سے آخر سے نون گرگئی بن گیا ’’ تَرۡفَعُوا‘‘)
  اشتقاقی معنی :تم سب بلند کرتے ہوں۔
تبصرہ:اس  آیت میں بلند کرنے کے معنی میں استعمال کیا گیا۔

۶:رُفِعَتۡ

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱۔{
وَإِلَى السَّماءِ كَيْفَ رُفِعَت‏؛اور آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے بلند کیا گیا ہے}[24]غاشیہ :۱۸۔
صرفی تحلیل:لفظ رفعت ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فُعِلَ یُفۡعَلُ،مُنِعَ یُمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے۔یہ  فعل ماضی مجھول مفرد مؤنث غائب  کا صیغہ ہے جوکہ فعل ماضی مجھول  کا چوتھا صیغہ ہے۔
 اشتقاقی معنی  :بلند کیا گیا۔
تبصرہ :اس آیت میں بلندکرنے  کےمعنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

۷:تُرۡفَعَ

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے۔
۱۔{
في‏ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَالْآصال‏؛(ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں}[25]نور :۳۶۔
صرفی تحلیل: لفظ ترفع  ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فُعِلَ یُفۡعَلُ،مُنِعَ یُمۡنَعُ ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔یہ فعل مضارع مجھول مفرد مؤنث غائب  کا صیغہ ہے جوکہ فعل مضارع مجھول  کاچوتھا  صیغہ ہے۔’’ تُرۡفَعَ ‘‘(یہ صیغہ اصل میں ’’ تُرۡفَعُ ‘‘ تھا شروع میں حروف ناصبہ آنے کی وجہ سے آخر کا اعراب ضمہ سے فتحہ میں تبدیل ہوگیا بن گیا’’ تُرۡفَعَ ‘‘) ہے ۔
اشتقاقی معنی: ’’ بلند کئے جائے ‘‘ بنےگا۔
تبصرہ:اس آیت میں ترفع کو احترام اور تعظیم اور بلندی کےمعنی میں استعمال کیا گیاہے۔

۸:رَافِعَةٌ

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱۔{
خافِضَةٌ رافِعَة؛ وہ تہ وبالاکرنے والا واقعہ ہوگا۔}[26]واقعہ :۳۔
صرفی تحلیل: لفظ  رافعۃ ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ اسم فاعل مفرد مؤنث  کا صیغہ ہے جوکہ اسم فاعل کا چھٹا   صیغہ ہے۔
اشتقاقی معنی:
’ بلند کرنے والی(عورت)‘‘ بنےگا۔
تبصرہ :اس آیت میں بلند کرنے کےمعنی میں استعمال کیا گیا۔

۹:رَافِعُکَ

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے۔
۱۔{
إِذْ قالَ اللَّهُ يا عيسى‏ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذينَ كَفَرُوا وَجاعِلُ الَّذينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذينَ كَفَرُوا إِلى‏ يَوْمِ الْقِيامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فيما كُنْتُمْ فيهِ تَخْتَلِفُون‏؛ (اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ نے کہا (اے عیسیٰ) میں تمہیں پورا قبض کرنے والا اور تمہیں اپنی جانب اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو کافروں پر قیامت تک غالب اور برتر کرنے والا ہوں۔ پھر تم سب کی بازگشت میری طرف ہے تو اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے[27]آل عمران:۵۵۔
صرفی تحلیل:لفظ  رافعک ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ اسم فاعل مفرد مذکر  کا صیغہ ہے جوکہ  اسم فاعل کا پہلا   صیغہ ہے۔لفظ  رَافِعُکَ‘‘( اصل میں یہ صیغہ دو چیزوں سے مل کربنا ہے ’’ رَافِعُ+ک‘‘ رافع اسم فاعل مفرد مذکر اور ک ضمیر ہے ) ہے۔
اشتقاقی معنی:
جس کےمعنی ’’ بلند کرنےوالا‘‘ بنےگا۔
تبصرہ:اس آیت میں اس معنی سے مراد اٹھا لینا لیا گیاہے۔

۱۰:رَفِیعُ

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱مرتبہ وارد ہواہے۔
۱۔{
رَفيعُ الدَّرَجاتِ ذُوالْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلى‏ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلاق‏؛(وہ) بلند درجوں والا (اور) عرش کا مالک ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح (وحی) کو نازل کرتا ہے تاکہ وہ بارگاہِ الٰہی میں حضوری والے دن سے ڈرائے[28]غافر:۱۵۔
صرفی تحلیل: صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔
معنی اشتقاقی:
’’ بلند کرنے والا‘‘ بنے گا۔جب بھی کسی معنی میں  شدت بیان کرنا ہو تو اس کے لیے صفت مشبہ کا صیغہ بیان کیا جاتا ہے۔
تبصرہ:اس آیت میں اس معنی سے مراد  خدانے یہ معنی اپنے لیے استعمال کیا ہےکہ بہت بلند درجے والا اور عرش کا مالک ہے۔

۱۱:مَرۡفُوعٌ

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے۔
۱۔{
والسَّقْفِ الْمَرْفُوع؛ اور اس چھت کی جو بلند ہے[29]طور:۵۔
صرفی تحلیل:لفظ مرفوع   ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ اسم مفعول مفرد مذکر کا صیغہ ہے جوکہ اسم مفعول  کا پہلا   صیغہ ہے۔
اشتقاقی معنی:’ ’’ جس کو بلند کیا گیا‘‘ بنےگا۔
تبصرہ:اس آیت میں بلند کرنے کےمعنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

۱۲:مَرۡفُوعَة

یہ مشتق قرآن کریم میں ۳مرتبہ وارد ہواہے۔
۱۔{
وَفُرُشٍ مَرْفُوعَة؛اور اونچے فرش  ہوں گے}[30]واقعہ:۳۴۔
۲۔{
مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَة؛بلند مر تبہ (اور) پاک و پاکیزہ ہیں }[31]عبس :۱۴۔
۳۔{
فيهاسُرُرٌ مَرْفُوعَة؛اس میں اونچے اونچے تخت (بچھے ہوئے) ہوں گے}[32]غاشیۃ :۱۳۔
صرفی تحلیل:لفظ مرفوعۃ ثلاثی مجرد کے ابواب میں  سے  ’’ فَعَلَ یَفۡعَلُ،مَنَعَ یَمۡنَعُ‘‘کےوزن پر آتا ہے ۔ یہ اسم مفعول مفرد مؤنث  کا صیغہ ہے جوکہ اسم مفعول چوتھا   صیغہ ہے۔
 
اشتقاقی معنی:جس کو بلند کرے گے۔

 

نتیجہ غور و فکر:

لغویین و مفسرین کی نگاہ سے   ہمارے لیے کلی معنی یہ نکلتا ہےکسی شی ء کو بلند کرنے کو رفع سےتعبیر کیا ہے ۔اگر ہم رفع کو قرآن کی نگاہ سے دیکھے تو رفع  کی دو اقسام  ہے ایک رفعت معنوی ہوتی ہے ،ایک رفعت مادی ہوتی ہے۔جو رفعت معنوی وہ ہے جو کمال تک پہنچائے ،رفعت مادی کسی بھی شی ء کو بلند کرنا رفعت مادی کہلاتاہے ۔

Views: 32

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ   فَصَل کی صرفی تحلیل
اگلا مقالہ: کلمہ رمضان کے قرآنی معنی