loading
{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط۲}

بعثت کے معانی اور اس کی اقسام

کتاب: ولايت و حکومت
مؤلف: رهبر معظم امام خامنه ای
تحرير: عون نقوى

انسان کی خلقت ایک ہدف کے تحت ہوئی ہے۔ وہ ہدف تکامل یا لقاء الہی ہے۔ ظاہر ہے اس ہدف تک پہنچنا آسان کام نہیں۔ انسانوں کے اس ہدف تک پہنچنے کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء مبعوث فرماۓ ہیں۔ انبیاء الہی اللہ تعالی کی جانب سے مامور ہیں کہ انسانوں کی ہدایت کریں اور ان کے لیے ہدایت کے راستوں پر چلنے کے موانع دور کریں۔ بعثت انبیاء کیا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ان سوالات کے جواب اس تحریر میں اختصار کے ساتھ بیان کیے جائیں گے۔

بعثت کے لغوی معنی

بعثت کا لفظ «ب- ع- ث» کے مادہ سے ہے۔ جس کے معانی بھیجنا، ارسال کرنا، برانگیختہ کرنا یا روانہ کر دینا ہے۔[1] راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات، ص۵۲۔ [2]  فراهیدی، خلیل بن احمد، العین، ج۲، ص۱۱۲۔ [3]  مصطفوی، حسن، التحقیق، ج۱، ص۲۹۵۔ «ب- ع- ث» کے اس مادہ کو مختلف معانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان سب معانی میں ایک مشترک معنی پایا جاتا ہے۔ اور وہ ’’برانگیختہ کرنا ‘‘ہے۔[4] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱، ص۲۹۵۔

بعثت کے اصطلاحی معنی

دینی اصطلاح میں بعثت سے مراد نبی یا رسول کا اللہ تعالی کی جانب سے لوگوں کی ہدایت پر مامور ہونا ہے۔ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے:

«وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ».

 ترجمہ:  اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔[5] نحل: ۳۶۔

مصنف کے بقول ایک شخص، انسان یا پوری قوم کا خواب سے بیدار ہونا بعثت کہلاتاہے۔ اگر ایک شخص یا قوم حالت سکون سے متحرک ہو کر قیام کی حالت میں منقلب ہو جاۓاس کو بعثت کہیں گے۔ نبی کا کام معاشروں میں بیداری لانا ہے۔ بیدار کرنا ،برانگیختہ کرنا یا اس طرح سے ان کو اندر سے متحول کرنا کہ وہ قیام کے لیے آمادہ ہو جائیں۔

بعثت کی اقسام

بعثت دو قسم کی ہے۔

۱۔ درونی بعثت

۲۔ بیرونی بعثت

درونی بعثت وہ ہے جو نبی کی ذات میں ایجاد ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا نبی کی ذات میں ایک تحول ایجاد کرنا، انقلاب یا آتشفشان روشن کرنا۔ پہلے خود نبی اندر سے متحول ہوتا ہےاور اس کی ذات منقلب ہوتی ہے۔ اس درونی انقلاب کے نتیجے میں بیرونی بعثت وجود میں آتی ہے جس سے پورا معاشرہ اجتماعی طور پر تبدیل ہوتا ہے۔ اگرچہ بعثت سے پہلے نبی اسی معاشرے میں موجود ہوتا ہے اور اس معاشرے کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس کے راہ، اور اہداف جدا ہوتے ہیں۔ اسی معاشرے میں موجود رہتا ہے لیکن ناراضی ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ ۴۰ سال تک قبل از اعلان نبوت اس مشرک معاشرے میں موجود تھے۔ ان کا رہن سہن، اجتماعی تعلقات افراد کے ساتھ تھے لیکن اس معاشرے کے نظام کا حصہ نہ تھے۔ ۴۰ سال کی عمر مبارک میں اللہ تعالی نے ان کے وجود کے اندر ایک آتشفشاں روشن فرمایا۔ اس درونی بعثت کے نتیجے میں بیرونی بعثت وجود میں آئی جس سے وہ معاشرہ کچھ ہی سال بعد مکمل طور پر تبدیل ہو کر رہ گیا۔ 

بعثت سے پہلے اور اس کے بعد

بعثت سے پہلے یہ معاشرہ کس حالت میں تھا۔ امیرالمومنینؑ نے قبل از بعثت کے معاشرے کی توصیف اس طرح سے فرمائی:

«وَ أَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَی شَرِّ دِینٍ وَ فِی شَرِّ دَارٍ مُنِیخُونَ بَیْنَ حِجَارَهٍ خُشْنٍ وَ حَیَّاتٍ صُمٍّ تَشْرَبُونَ الْکَدِرَ وَ تَأْکُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِکُونَ دِمَاءَکُمْ وَ تَقْطَعُونَ أَرْحَامَکُمْ الْأَصْنَامُ فِیکُمْ مَنْصُوبَهٌ وَ الْآثَامُ بِکُمْ مَعْصُوبَهٌ».

ترجمہ:اے گروہ عرب! اس وقت تم بدترین دین پر اور بدترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے۔ تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان گھڑے ہوۓ تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوۓ تھے۔[6] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۶۔ لیکن بعثت کے بعد یہی لوگ پوری دنیا میں تمدن کا مرکز بنے۔ دنیا کا نقشہ انہیں لوگوں نے بدلا اور تاریخ کی سرنوشت کو بدل ڈالا۔ حجاز کے اس علاقے کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ حتی تمدن یافتہ معاشرے اس علاقے کو فتح کرنے اور اپنی مملکت میں اس کو ملانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ ایک تو سخت زمین تھی، کھیتی باڑی کا سامان تھا اور نا تجارت کے مواقع۔ صحرا اور پہاڑ جہاں انسان تو آباد تھے لیکن تمدن نامی چیز موجود نہ تھی۔ اسلام آنے کے بعد یہی حجاز کا علاقہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ آدھی دنیا کو فتح کیا۔ صرف چند قرن میں ہی مکہ و مدینہ کی یہ تہذیب پوری دنیا پر غالب آگئی۔ اور بشریت نے ان کے تمدن، علمی اکتشافات، تجربات، اور کتابخانوں سے استفادہ کیا۔ 

بعثت کے نتائج اور اس کی قیمت

صرف نصف صدی گزرنے کے بعد آدھی دنیا پر مسلمانوں کو تسلط حاصل ہو گیا۔ اس وقت کی سپر طاقتوں کو مسلمانوں نے بچھاڑ ڈالا۔ روم اور ایران کے بادشاہی سلسلے اسلام اور مسلمانوں کے آگے ڈھیر ہوۓ۔ لیکن یہ بعثت کسی بھی قوم کو مفت میں نہیں ملتی۔ جب آپ خود کو اندر سے تبدیل کرتے ہیں اور معاشرے کے اندر تحول ایجاد کرتے ہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے صدیوں سے حاکم طاغوتی نظام، ان کے اندر مرسوم جاہلی ثقافت ختم کرنے میں وقت بھی لگتا ہے اور قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ اور یہ کام رسول اللہﷺ اور ان کے اصحاب نے انجام دیا۔ اپنے اہداف کے لیے ڈٹے رہے، اپنوں اور غیروں کی دشمنیاں مول لیں، مصیبتیں برداشت کیں، حتی اپنے عزیزوں کی شہادتیں قبول کیں لیکن استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ اور جب خدا کی راہ میں ڈٹ گئے تو اللہ تعالی کا بھی وعدہ ہے جو اللہ کی نصرت کرتا ہے اللہ تعالی اس کی نصرت کرتا ہے اور اس کو غلبہ عطا کرتا ہے۔

«اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَکُمۡ».

ترجمہ: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔[7] محمد: ۷۔

رسول اللہﷺ اور ان کے اصحاب نے نصرت الہی کو جنم دیا خدا نے بھی ان کو فتح عطا فرمائی اور ان کے پیغام کو عالمی بنا دیا۔[8] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۲۱تا۲۴

Views: 29

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رہبر معظم کی کتاب ولایت و حکومت کا تعارف
اگلا مقالہ: بعثتِ انبیاء کا مقصد