loading
فرعونِ زمان بن سلمان اور شہداءِ حجاز
آل سعود كے ظالمانہ و سفاكانہ جرائم
تحریر: سید محمد حسن رضوی
03/14/2022

فرمانِ نبى اكرم ﷺ:

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِيهِ ( ابراهيم بن هاشم ) ، عَنِ النَّوْفَلِيِّ ، عَنِ السَّكُونِيِّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : فَوْقَ كُلِّ ذِي بِرٍّ بَرٌّ حَتَّى يُقْتَلَ الرَّجُلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِذَا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَيْسَ فَوْقَهُ بِرّ.
ترجمہ:  ہر نیکی کرنے والے سے بڑھ کر نیکی ہے یہاں تک کہ راہِ الہٰی میں قتل ہو جایا جائے، جب راہِ الہٰی میں قتل ہو جایا جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہے۔  [1]کلینی، محمد بن یعقوب، الكافی، ج۴، ص ۶۴، حديث ۴۔

فہرست مقالہ

اے حق کےراہیو!

سرزمین حجاز کے جلوؤں پر ذرا نگاہ تو کرو … حجاز کے صحراؤں میں آج بھی تشیع کی زرخیز زمین سے كلمہِ حق کے مؤذنوں کی تکبیریں سنائی  دے رہی ہیں … خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جَم جاتا ہے … اپنے خون سے زمین حق کو سیراب کرنے والے یہ عظیم شہداء وہ ہیں جنہوں نے مثل ابراہیمؑ ’’ نمرودِ زمان ‘‘ کی نخوت کو مٹانے کے لیے صدائے حق کو بلند کیا!!  سیرتِ مصطفی ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ’’ابو جہلِ زمان بن سلمان‘‘کے ایوانوں میں لا الہ الا اللہ کے زلزلے برپا کیر دئیے !! نقشِ حیدر کرارؑ سے الہام لیتے ہوئے ’’مرحبِ زمان بن سلمان‘‘ کے قلعوں میں اسلام کی ہیبت و رعب کو طاری کر دیا!! سیرتِ امام حسینؑ پر چلتے ہوئے ’’یزیدِ دوران بن سلمان‘‘ کی طاغوتیت کے سامنے پِیر و جوان ، کم سن و کہنہ سال اس طرح ڈٹ گئے کہ گردن بدن سے جدا ہونے پر راضی ہیں لیکن ’’فرعونِ جہان بن سلمان‘‘ کے لشکروں کے سامنے مصلحت کا نمونے بننے پر آمادہ نہیں ہیں !!

ذرا غور تو کرو!!  سرزمین حجاز میں دہشت و وحشت کے سیاہ طوفانوں میں اپنے خون سے دِیہ جلانے والا یہ ۱۱ سالہ بچہ کون ہے؟! خوف و ہراس کی سنسناٹی ہواؤں کے سامنے اپنے خون میں تَر سینہ سَپر جوان کہاں کا ہے؟! مایوسی و ناامیدی کے گرجتے بادلوں میں کلمہِ حق کی تکبیر بلند کرنے والا یہ پِیر جواں مرد کا تعارف کیا ہے؟! بے بسی و بیچارگی کی چھائی ہوئی اندھیری گھٹاؤں میں اولاد کی جدائی کا گہرا زخم کھانے والی ان زینبی کردار مائیں کے حوصلوں کی سرزمین کی تو ذرا خبر دو؟!! ہاں …  اگر جواب سننا چاہتے ہو تو روضہِ رسول ﷺ سے آتی ہو مہکتی ہواؤں کی ندا پر کان دَھرو …  جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں … اے مسلمانو! یہ شہداءِ بلند و ہمت … امتِ مصطفی ﷺ ہے …  یہ نمونہِ جرأت و رفعت عاشقِ مرتضیؑ ہیں …  یہ پیکرِ عزت و عظمت پیروِ حسن مجتبیٰ ؑ ہیں جن کی قوم ، ان کا قبیلہ ، جن کی راہ ، جن کا دین ، جن کا ایمان ، جن کا وطن … ’’حسینؑ ابن علی ؑ‘‘ ہیں۔ سرحدوں کی تنگیوں میں انہیں محدود نہ سمجھو … یہ تو ولایت کی فضاؤں میں پرواز کرنے والے وہ مقربین ہیں جو قفسِ بدن سے رہائی پا کر ولایت کی جنّتوں میں جامہِ کوثر سے سیراب ہونے کا شرف حاصل کر رہے ہیں …

کیا ظالم بھی کبھی کامیاب ہوتا ہے !! وه تواپنی بے بسی چھپانے کےلیے دیوانہ وار ہاتھ پاؤں چلاتا ہے …  بن سلمان جیسے ظالمین حقیقت میں اندرونی خلش ، نفسانی اضطراب،نخوت و تکبر کی گردن جھکنے کی تکلیف اور عقل و قلب کے اندھے پن کا شکار ہونے کی بناء پر ظلم و ستم کے تیر چلاتے ہیں اور اپنے لیے ابدی ذلت اور رسوائی کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں ۔ ظالم کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ کسی قانون و حدود کو تسلیم نہیں کرتا۔ ممکن ہے زبان سے کسی عقیدہ کا اظہار کرتا ہو لیکن دل کے اندھے ہونے کی وجہ سے ان کا باطن ایمان سے عاری اور انسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ ظالم کا ظلم اس کی شکست کا اعلان اور مظلوم کی استقامت کا پیغام ہے۔ مظلوم گردن توکٹوا دیتا ہے لیکن حق اور مظلومیت کی نورانیت میں ڈوب کر سرخرو ہو جاتا ہے۔  

مکتب تشیع کویہ سعادت حاصل رہی ہے کہ اس نے اسلام کی حقیقی تعلیمات اور سیرتِ آئمہ اطہارؑ سے شہادت کا سبق سیکھا ہے اور ۱۴۰۰ سو سالوں سے ہر صدی میں مظلومیت کا لبادہ اوڑھے حق کا دامن پکڑے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے ہیں ۔رحلتِ رسول ﷺ کے بعد جب مسلمانوں میں حاکمیت کے مسئلہ پر اختلاف ہوا تو امام علیؑ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے تشیع کے عظیم سپوتوں نے ہر قسم کے حاکم کے غلط فیصلوں پرتنقید کرنے کو اپنا مذہب قرار دیا اور حق کی شناخت کے بعد حق کو معاشرے میں متحقق کرنے کا مطالبہ کیا ۔ پس حق کی تحقیق کرنے کے بعد حق کو متحقق کرنے کا مرحلہ آتا ہے جس کے لیے خون کا نذرانہ دینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ  سرزمینِ حق جب تک اہل حق کے پاک و طاہر خون سے سیراب نہیں ہوتی تب تک اس پر فصل گل کی ہریالی نہیں آتی۔ خلاصہِ تعلیمات اہل بیت عصمتؑ یہ ہے کہ پہلے حق کی شناخت کرو، پھر حق کو اپنے وجود اور اپنے معاشرے پر متحقق کرو، پھر حق پر عمل پیرا ہو کر لقاءِ الہٰی کے مرتبہ پر فائز ہو جاؤ۔  ۱۳ مارچ ۲۰۲۲ ، بامطابق ۱۰ شعبان ۱۴۴۳ ھ کوقطیف و احساء و یمن کے مظلوم نہتے مؤمنین کی گردن اڑ کر شہید کر دیا گیا جن میں ۱۳ سالہ عبد اللہ الزاہر بھی شامل ہے جس نے ابھی بلوغت کے بارونق ایام بھی نہیں دیکھے لیکن حق کی لذت سے آشنائی حاصل کرنے کی بناء پر اس عظیم گروہ میں شامل ہو گیا جنہوں نے وحشی اور بدترین آل سعود حکومت کے خلاف احتجاجی آواز بلند کی ۔

شہادت کی ثقافت  تشیع کو کربلا سے وراثت میں ملی ہے… شہادت سے محبت کرنے والا حقیقت وہ ’’شیعہ ‘‘ ہے جس کی آرزو رسول اللہ. ﷺ اور آئمہ اہل بیت ؑ کو تھی.. زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کاروانِ حق کمال کی طرف بڑھ رہا ہے اور ظلم و ستم پر غلبہ کا منتظر ہے … الحمد للہ اسلامی معاشرے  آوازوں کی مستی سے نکل عشق و محبت کی سرشاری میں قدم رکھ رہے ہیں جس کی علامت مثل میثم انتظار شہادت ہے.. امیر المؤمنین امام المتقین علی ابن ابی طالبؑ کی آروزِ شہادت سے ہدایت لیتے ہوئے ان شیعہ جوانوں کی تمنا یہ ہے کہ بستر اور ڈرپوں دوائیوں کی بدبو دار موت کی بجائے اپنے خون میں غلطاں ہو کر شہادت کی خوشبوؤں میں آباد ہو جائیں … ۔نہج البلاغہ میں امام علی ؑ کا فرمان ہے: ’’جنگ سے فرار کرنے والا اپنی زندگی کے دن بڑھا نہیں لیتا..‘‘ ہسپتال میں تڑپتے ہوئے ڈاکٹروں نرسوں کے رحم و کرم پر بستر کی جیل میں بیچارگی و ضعف کا بدترین نمونہ بن کر مرنے سے کئی گنا عظیم موت شہادت کی موت ہے.. شہادت بھی وہ جو اختیاری ہو نہ کہ اجباری.. اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب کو آروزئے شہادت سے پُرنور فرمائے اور مقام عمل میں سعادتِ شہادت سے ہمکنار فرمائے۔

Views: 127

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: آزادی اور حیات انسانی
اگلا مقالہ: نظم و ضبط اور قانون