loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴}

آزادی کا حقیقی مفہوم

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ تحریروں میں یہ مطلب روشن ہو چکا ہے کہ آزادی کا معنی انسان کی اپنی شناخت (انسان شناسی) اور جہان بینی پر موقوف ہے۔ اور انسان شناسی کی تعریف جہان شناسی سے وابستہ ہے اگر جہان بینی یا انسان شناسی کی تفسیر جدا ہو جاۓ تو آزادی کا معنی بھی متفاوت ہو جاۓ گا۔ الہی جہان بینی کے مطابق جہان کا مبدأ اور معاد ہے۔ اس کائنات کو کسی نے خلق کیا ہے اور اسی کے حکم سے سب مخلوقات کا ایک سلسلہ ہے۔ اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے تو انسان بھی نا صرف طبیعی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس کی ایک فراطبیعی حیثیت ہے اور وہ پہلے چند عوالم سے گزر کر آیا ہے اور آیندہ بھی چند عوالم کا راہی ہے۔ انسان مرنے کے بعد نابود نہیں ہوتا بلکہ اس کی روح ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہو جاتی ہے۔

مادی جہان بینی

الہی جہان بینی کے بالمقابل مادی جہان بینی ہے جس کے مطابق جہانِ ہستی فقط یہی مادی و محسوس جہان ہے اور اس کی ابتدا اور انجام نہیں۔ مادے سے بالاتر کوئی جہان یا حقیقت نہیں مگر یہ کہ سائنس کے ذریعے اس کو ثابت کیا جا سکے یا اسے حس (touch) کر سکیں۔ انسان کی زندگی بھی ایک جگہ سے شروع ہوتی ہے اور پھر موت کے بعد انسان کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ کوئی حساب کتاب، جزا یا کیفر نہیں بلکہ جو اس جہان میں ہے بس یہی کچھ ہے اس کے ما سوا موت کے بعد کچھ نہیں۔ ظاہر ہے جب انسان کے بارے میں یہ نظریہ اختیار کر لیا جاۓ تو خواہ نخواہ انسان سوچے گا کہ جب میں نا تو مسؤول ہوں، اور نا کوئی سوال جواب ہونا ہے تو کس چیز کا ڈر اور کس چیز کا خوف؟ جو دل کرے انجام دو اور اپنے مفاد پورے کرو زندگی عیش سے جیو۔ یہی ستر اسی برس ہیں اس کے بعد تو نابودی ہے تو کیوں نہ آزاد ہو کر زندگی گزاری جاۓ۔ قرآن کریم میں اس جہان بینی کے متعلق وارد ہوا ہے:«  إِنْ هِيَ إِلاَّ حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَ نَحْيا وَ ما نَحْنُ بِمَبْعُوثين‏ » ؛  بس یہی دنیاوی زندگی ہے جس میں ہمیں مرنا اور جینا ہے۔[1] مومنون: ۳۷۔

مادی جہان بینی کے مقابلے میں الہٰی جہان بینی ہے جس کے مطابق اس کائنات کا خالق اللہ سبحانہ تعالیٰ ہے جس نے حکمت اور مطلوب ہدف کے تحت اس کائنات کو خلق کیا اور وہی اس کائنات کو چلا رہا ہے۔ الہٰی جہان بینی اور مادی جہان بینی میں سے  ہر دو نظریات انسان کی آزادی کے بارے میں جدا تفسیر کرتے ہیں۔ مادی جہان بینی کے مطابق انسان اور جہان صرف مادہ تک محدود ہے۔ اس نظریہ کے مطابق انسان کو ہر قسم کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے چاہے خود کو کسی کا غلام بھی بنا دے یہ بھی اسے حق حاصل ہے اور یہ حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ دین کے اختیار کرنے میں بھی انسان آزاد ہے چاہے قبول کرے یا نا کرے۔  کیونکہ بہرحال اس نے کسی بھی حقیقت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور اپنا آزادی کا مکمل فائدہ اٹھایا۔ لیکن اس کے برخلاف الہی جہان بینی ہے جس میں مطلق آزادی کا کوئی معنی نہیں۔ مطلق آزادی یعنی نفس کی غلامی۔ اگر کوئی اپنے ہی نفس کا غلام ہے اور اپنے ہواء و ہوس کا پجاری ہے اسے کیسے آزاد کہا جا سکتا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:« أَ فَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواه‏ »؛  کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔[2] جاثیہ: ۲۳۔

تکوینی طور پر انسان کا آزاد ہونا

اللہ تعالی نے انسان کو ہر دین اختیار کرنے میں آزاد قرار دیا ہے تو اس سے مراد تکوینی آزادی ہے نہ کہ تشریعی آزادی۔ ہر شخص  کسی بھی دین کو اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن تشریعی طور پر اس پر قوانین کی رعایت کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ پس جب انسان ایک دین یا مکتب کو قبول کر لیتا ہے تو وہ تشریعی طور پر پابند ہوتا ہے کہ اس دین کے تمام احکام و قوانین کی رعایت کرے۔انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ فقط حق بات کو قبول کرے اور الہٰی انسان بنے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلقت کے وقت زبردستی طور پر دیندار بنا کر نہیں بھیجا لیکن یہ ضروری قرار دیا کہ دین کو اختیار کرے لیکن اپنی مرضی اور اختیار سے کیونکہ عقل اور فطرت دے کر ہمارے اندر حق پرستی کا رجحان ڈال دیا اور پھر اپنی حجتوں سے ہدایت اور گمراہی کا راستہ بھی روشن کر دیا۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:« قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ فقد استَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‏ لاَ انْفِصامَ لَها » ؛  بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا۔[3] بقرہ: ۲۵۶۔

الہٰی جہان بینی اور  انسانی آزادی

الہی جہان بینی کے مطابق انسان کی زندگی کا ہر عمل اور ہر لمحہ اگلے جہان کے لیے ایک شکل اختیار کر رہا ہے۔ انسان ہر حالت میں کچھ نا کچھ بنا رہا ہے اور اگلے جہان کے لیے بھیج رہا ہے۔ انسان اس مادی جہان سے برزخ اور برزخ سے عالمِ قیامت میں جاۓ گا۔ اگر کفر اختیار کرے گا یا الحاد اور حق ستیزی کرے گا تو اس کا رد عمل دیکھے گا۔ اس نظریے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نا درست عمل یا سوچ انسان کی روح پر اثر گذار ہے۔ اور اللہ تعالی انسان سے ہرگز راضی نہیں کہ وہ اپنی آزادی مطلق کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوۓ تمام واضح دلیلوں کے بعد بھی حق کو ٹھکرا دے اور خود کو ہلاکت میں ڈال دے۔ اللہ تعالی نے انسان کو تکوینی طور پر آزاد خلق کیا اگر تکوینا ہی اسے دیندار یا غیر دیندار خلق کر دیتا تو بات اور تھی اور وہاں پر آزادی کی بات کرنے کی نوبت ہی نا آتی۔ اللہ تعالی نے جب انسان کو خلق کیا تو تکوینی طور پر اسے کسی خاص دین کے اوپر مجبور نہیں کیا مثلا ہم پیدا ہوتے ہی مسلمان ہوتے اور کوئی غیر اسلامی کام کرنے کا اختیار ہی نہ رکھتے ہوتے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے تشریعی طور پر انسانوں کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ مومن بنیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں دین الہی کو جو کہ مکمل حق اور حقیقت ہے، اختیار کرنے میں آزاد ہوں۔ کیونکہ اگر کوئی شخص یہ کام کرتا ہے تو اس نے دراصل فطرت انسانی، عقل اور تمام حجتوں کا انکار کیا۔

عقیدہ کی آزادی پر اشکال

قرآن کریم میں عقیدہ کی آزادی کے بارے میں مکمل تبیین وارد ہوئی ہے، ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: « فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ- فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَه‏ » ؛  پس آپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے، جو بات کو سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔[4] زمر: ۱۸،۱۷۔ ایک اور آیت میں « قول احسن» کو بھی واضح کیا ہے کہ اس سے مراد کیا ہے: « وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعا إِلَى اللَّهِ وَ عَمِلَ صالِحاً وَ قالَ إِنَّني‏ مِنَ الْمُسْلِمين‏ » ؛  اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا: میں مسلمانوں میں سے ہوں۔[5] فصلت: ۳۳۔ قرآن کریم نے انسانوں کو سب کی باتوں کو سننے کا حکم دیا ہے لیکن ساتھ ہدایت کی ہے کہ ان باتوں میں سے صرف اس بات کو قبول کرے جو فطرت کے مطابق ہو۔ اور ایسا مسلمان بنے جو نیک کام کرتا ہے اور اللہ تعالی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔ یہاں پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے قرآن کریم کی بعض آیات اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو دین کے اختیار کرنے میں اختیار دیا ہے۔ چاہے دین کا راستہ اختیار کرے چاہے نا کرے دین میں تو کوئی جبر نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں جو ہمیں دین حق کو انتخاب کرنے میں مجبور کر رہے ہیں؟مثلا قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: « إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبيلَ إِمَّا شاكِراً وَ إِمَّا كَفُورا » ؛  ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔[6] انسان: ۳۔ سورہ کہف میں وارد ہوا ہے: « وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَ مَنْ شاءَ فَلْيَكْفُر » ؛  اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔[7] کہف:۲۹۔

اعتراض اور جواب:

ممکن ہے یہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ  اللہ تعالی نے تو انسان کو آزاد خلق کیا ہے، لہٰذا اس کی مرضی ہے کہ وہ شکر گزار بنے یا کفر انجام دے ؟ اس کی مرضی ہے کہ ایمان لائے یا نہ لائے ؟اس کے  جواب میں عرض کیا جائے گا کہ ایمان لانے یا شکرگزار بننے میں بلا شک و شبہ انسان تکوینی طور پر آزاد ہے۔ لیکن ہر گز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان تشریعی طور پر بھی مکمل آزادی ہے اور کسی قانون و ضابطہ کا پابند نہیں !! ان آیات کا معنی یہ ہے کہ آپ کے لیے راستہ اور چارہ کار واضح کر دیا گیا ہے لیکن اب انتخاب آپ نے خود کرنا ہے، چاہے تو حقیقت کا راستہ انتخاب کر کے کامیاب ہو جائیں اور چاہے انحرافی راستوں پر چل پڑیں۔ ان دونوں راستوں کو انتخاب کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں، مجبور نہیں۔ عملی طور پر جو بھی اختیار کرنا چاہیں آپ کو مجبور نہیں کیا جاۓ گا لیکن یہ یاد رکھنا کہ اگر حق پر چلے تو سعادت نصیب ہوگی اور باطل پر چلے تو عذاب۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ اگر ایک انسان کے سامنے دو پیالے رکھے جائیں اور اس کو صاف الفاظ میں بتا دیا جاۓ کہ ایک میں شہد کا شربت ہے اور دوسرے میں زہر۔ تکوینی طور پر وہ آزاد ہے چاہے تو زہر پی لے اور خود کو ہلاکت میں ڈال دے یا عقلمندی کا مظاہرہ کرے اور شہد کا شربت پی لے۔ یہاں پر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری مرضی بھائی! چاہے تو میں زہر پیوں چاہے میں شربت۔ اس کو کہا جاۓ گا کہ بالکل آپ آزاد ہیں لیکن ان دونوں میں جو بہتر ہے اس کو اختیار کرو۔ یہاں پر عقل اور شریعت نے رہنمائی کی ہے کہ انسان فطرت، حقیقت اور صحیح راستے پر چلے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالے اور نجات والا راستہ اختیار کرے۔[8] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۰تا۳۱۔

منابع:

منابع:
1 مومنون: ۳۷۔
2 جاثیہ: ۲۳۔
3 بقرہ: ۲۵۶۔
4 زمر: ۱۸،۱۷۔
5 فصلت: ۳۳۔
6 انسان: ۳۔
7 کہف:۲۹۔
8 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۰تا۳۱۔
Views: 229

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: آزادی کی حدود کا معین ہونا
اگلا مقالہ: عقیدے کی آزادی