loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳}

آزادی کی حدود کا معین ہونا

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

حکماء کے عقلی ضابطے کے مطابق انسان ایک محدود ذات ہے اور اس کی صفات بھی محدود ہیں. لذا انسان کو آزادی بھی محدود ہی میسر آ سکتی ہے۔ سوال يہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کی حدود کو معین کون کرے؟ خود انسان یا اللہ تعالی؟ اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ فقط اللہ تعالی ہی انسان کی حدود و قیود کو مشخص کر سکتا ہے۔

اسلامی اور مغربی تفکرمیں فرق

مغربی تفکر کے مطابق انسان اپنی آزادی کی حدود کو خود مشخص کر سکتا ہے۔ کسی دین یا اخلاقی ضابطے کو ہماری زندگی کے بارے میں یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ہمیں مقيد کر کے رکھ دے۔اس برعکس اسلامی تفکر کے مطابق انسانی آزادی کی حدود کو خود انسان معین نہیں کر سکتا بلکہ وہ ذات اس کی زندگی کی حدود معین کرے گی جس نے اسے حیات بخشی ہے۔ اللہ سبحانہ انسان کے بارے میں تمام معلومات رکھتا ہے اور اس کے نفع و نقصان سے باخبر ہے. چنانچہ وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ انسان کی آزادی کی حدود کو معین کرے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد فرمانا ہے:« إِنَّا كُلَّ شَيْ‏ءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَر » ؛ ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔[1] قمر: ۴۹۔ اللہ سبحانہ انسان کے وجود اور اس کی حدود کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے پس وہی  اس کی آزادی کی حدود کو معین کر سکتا ہے۔ انسان نہ کامل طور پر اپنے نفع و نقصان کو جانتا ہے اور نہ ہی اپنے تمام حدود سے واقف ہے اس لیے وہ خود اپنی زندگی کے لیے آزادی کی حدود متعین نہیں کر سکتا۔

آزادی کا مالک

اگر آزادی کا درست تصور ہمیں حاصل ہو جاۓ تو معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ خود اپنی آزادی کا مالک نہیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وجود اور جسم کو بطور امانت استعمال کر سکتا ہے. اگرچے اللہ تعالی نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اس کی بیان کردہ راہ ہدایت کو اختیار کریں یا گمراہی کی راہ لیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ فطرت،  انبیاء کرام ع کی بعثت، عقل و شعور کا عنایت کرنا اور کائنات میں اپنی نشانیاں رکھ کر ہدایت کے مینار قائم کئے ہیں تاکہ اختیاری زندگی میں حقیقت کے مطابق زندگی بسر کریں. اس کے باوجود اگر انسان اپنی مرضی کے مطابق قدم بڑھاتا ہے اور گمراہ ہو جاتا ہے  تو اس کا نقصان بھی اسی کو اٹھانا ہو گا۔اللہ تعالی نے جبری اور زور زبردستی سے کسی کو راہ ہدایت پر نہیں ڈالا، مثال کے طور پر اگر آپ کو خودکشی کرنے اور نا کرنے میں اختیار دیا جاۓ تو کوئی بھی عقل مند خودکشی نہیں کرے گا۔ ہدایت کے راستوں پر چلنا یا نا چلنا انسان کے اختیار میں ہے لیکن اختیار کا مطلب یہ نہیں کہ ہدایت کو چھوڑ کر باطل راستوں پر چلے پڑے۔ [2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۲۹تا۳۱۔

منابع:

منابع:
1 قمر: ۴۹۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۲۹تا۳۱۔
Views: 184

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: انسانی طبع کی سرکشی
اگلا مقالہ: آزادی کا حقیقی مفہوم