loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۵}

عقیدے کی آزادی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

عقیدہ کا اجبار

دین مخصوص اعتقادات کا مجموعہ ہے جن کو زبردستی کسی سے نہیں منوایا جا سکتا۔ با الفاظ دیگر ہم اپنا عقیدہ کسی پر ٹھونس دیں تو نا صرف اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ زور زبردستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اعتقاد اصلا قبول بھی نہیں۔ پس اگر کسی شخص کے لیے دین کے مبانی واضح نہیں دین اس کو عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچاۓ گا۔ قرآن کریم کی معروف آیت میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«لا اکراہ فی الدین»؛ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں۔[1] بقرہ: ۲۵۶۔ دین کو کسی پر جبرا تحمیل نہیں کیا جا سکتا۔ دین کے اختیار کرنے میں سب کو اختیار ہے، البتہ یہاں پر اختیار بمعنی تکوینی اختیار ہے نا تشریعی، کہ اس مطلب کی پچھلی قسط میں وضاحت گزری ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کی خلقت ہی کچھ اس طرح کے انداز میں کی ہے کہ اسے سواۓ برہان (عقلی دلیل) کے کوئی بھی چیز قائل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اول سے آخر تک سارا دین برہان پر قائم ہے اگر کوئی امر عقل کے برخلاف ہو تو دین اسے قبول نہیں کرتا۔ حتی فطرت انسان اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«ان الظن لا یغنی من الحق شیئا»؛ ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا۔[2] یونس: ۳۶۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو غیر منطقی اور یقینی دلیل دیے بغیر قانع نہیں کیا جا سکتا۔ تب ہی انسان کسی بات کو عقیدہ بناتا ہے جب اسے یقین حاصل ہو اور یقین صرف عقلی دلیل سے حاصل ہوتا ہے۔ اس آیت سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ ظن و گمان والی باتیں نہیں کرنی چاہیئں۔ بلکہ وہ بات کریں جو قطعی اور یقینی ہو کیونکہ اگر ایسی بات کہیں جس کا خود ہمیں یقین نہ ہو اس کا کسی دوسرے پر بھی اثر نہ ہوگا۔  لیکن اگر کسی کے دل میں آپ نے ایک مطلب کے مبادی اور مقدمات فراہم کر دیے ہیں تو اس پر عقیدہ بننا چاہیے کیونکہ بہرحال عقیدہ علم حاصل ہونے پر بنتا ہے۔ اگر انسان کے افکار برہان اور دلیل کی بنا پر نہ بنے ہوں تو نا تو خود حالت اطمینان میں ہوتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو اس بات کا قائل کر سکتا ہے۔

عقیدہ کا عقلی دلیل سے بننا

کسی عقیدے کو ایک انسان سے سلب کر لینا یا ایک عقیدہ اسے عطا کرنا ہمارے بس میں نہیں مگر یہ کہ اس انسان کے فطری تقاضے کو پورا کیا جاۓ اور اسے برہان سے قانع کیا جاۓ۔ عقیدہ کا لفظ ’’عقد‘‘ یعین گرہ لگانا سے ہے۔ اگر ایک مطلب علم اور یقین سے گرہ کھا جاۓ تو عقیدہ بنتا ہے۔ منطقی زبان میں اعتقاد کے حصول کے لیے دو گرہ لگانا لازم ہے۔ ایک یہ کہ موضوع اور محمول کے درمیان گرہ ہو یعنی گہرا ربط، کہ یہی وجہ ہے کہ قضیہ کو عقد بھی کہا جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ قضیہ کے محصول اور نفس انسان میں گرہ لگائی جاۓ جسے اعتقاد کہا جاتا ہے۔

ان مقدمات کے نتیجے میں ہم پر واضح ہو گیا کہ عقیدے کے حصول میں انسان تکوینا آزاد ہے۔ کسی سے جبرا عقیدہ نہیں منوایا جا سکتا مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان کو اسلحہ کے زور پر یہ کہا جاۓ کہ وہ یہ بات مان لے کہ اللہ تعالی وجود نہیں رکھتا، تو اگر وہ بالفرض اسلحے کے زور پر یہ بات مان بھی لے تو کیا دل سے اس کے ایمان کو سلب کیا جا سکتا ہے؟ یعنی جس طرح سے آپ نے اسلحہ کے زور پر اس کی زبان سے یہ مطلب نکلوایا ہے کیا اس کے دل سے بھی خدا کو نکال دیا ہے؟ جی نہیں! عقیدے کو اسلحہ کے زور پر نہیں منوایا جا سکتا، یا اگر کسی کو اسلحہ کے زور پر یہ کہا جاۓ کہ آپ یہ عقیدہ بنا لیں کہ دو خدا وجود رکھتے ہیں، اگر آپ من گھڑت دلیلوں یا جبر سے اس سے منوا بھی لیں تب بھی دل کے اندر اثر نہیں کر سکتے مگر یہ کہ برہان اور عقلی دلیل سے اس کو قانع کریں۔ انسان فطری طور پر برہان اور دلیل کو قبول کر لیتا ہے جہاں پر دنیا جہان کی کوئی چیز اسے قانع نہیں کر سکتی اسے ایک دلیل قانع کر لیتی ہے۔

خیالی زندگی بسر کرنے والا انسان

یہاں پر ایک مطلب کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان عقل اور برہان کی بجاۓ اپنے خیالی تصورات کے تحت زندگی گزارنے لگ جاتا ہے۔ بغیر دلیل اور برہان کے ایک چیز کو اختیار کر لیتا ہے، مثلا انسان بچپن میں غالب طور پر خیالی زندگی بسر کرتا ہے۔ البتہ بچہ حکمت الہی کے تقاضے اور اپنی کمسنی کے تحت ایسا کرتا ہے لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بعض افراد بڑے ہو کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک امر رواج (fashion) ہے۔ رواج پر چلنے والے لوگوں کے پاس کوئی عقلی دلیل یا برہان نہیں ہوتا کہ اس نے یہ امر فلان دلیل کی وجہ سے اختیار کیا ہے۔ چونکہ اس نے مثلا ایک مشہور شخصیت (celebrity) کو پھٹی ہوئی شلوار پہنے دیکھا ہے اس نے بھی پھٹا ہوا لباس پہننا شروع کر دیا۔ اب اگر اس سے پوچھیں کہ یہ چیز آپ کی شأن انسانیت کے برخلاف ہے اور آپ ایسا مت کریں تو آگے سے کہتے ہیں کہ آج کل یہ فیشن ہے۔ ایسے لوگ خیالی زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی قوت عقل سے استفادہ کرنے کی بجاۓ قوت خیال پر اکتفاء کیے ہوۓ ہیں۔ علمی اصطلاح میں ایسے افراد کو ’’متخیل بالفعل‘‘ اور ’’عاقل بالقوہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انسان کا کمال اس امر میں ہے کہ جو چیز اختیار کرے اسے عقل و دلیل سے قبول کرے۔ اکراہ اور اجبار انسان سے اختیار کی قوت کو سلب کر لیتے ہیں اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنے اختیار اور کاملا معرفت کے ساتھ ایک راستے کا انتخاب کرے۔ اس لیے دینی تفکرات، عقائد کے حصول میں اکراہ اور جبر کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ انبیاء کرام کا بھی وظیفہ قرار دیا کہ وہ فقط دین کو بہتر انداز میں ابلاغ کر دیں کسی سے زبردستی دین قبول نہیں کروانا۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«و ما علینا الا البلاغ المبین»؛ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔[3] یس: ۱۷۔ رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا:«لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین ان نشأ ننزل علیهم  من السماء أیة فظلت أعناقهم لها خاضعین»؛ شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔[4] شعراء،: ۴،۳ رسول اللہﷺ جب تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے جب دیکھتے کہ لوگ تمام حجتوں کے سامنے پھر بھی اپنے طبیعی میلان کی طرف راغب ہیں اور خود کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں تو بہت غمگین ہو جایا کرتے تھے اور چاہتے کہ یہ خود کو نجات دیں۔ لوگ راہ راست پر کیوں نہیں آ جاتے اس چیز کا آپ بہت غم اٹھاتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آیت نازل کی اور فرمایا کہ آپ اس غم میں اپنی جان نہ کھو بیٹھیں، اگر کوئی خود اپنی مرضی اور اختیار سے ہلاکت کا انتخاب کرتا ہے تو آپ اس کا غم مت اٹھائیں بعض لوگ ہیں جو تمام دلیلوں کے آ جانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتے۔ اگر سب کو ہی حق قبول کروانا ہے تو یہ کام تو ہمارے لیے بہت آسان تھا۔ آسمان سے کوئی ایسی نشان لاتے یا عذاب کی دھمکی دیتے اور ان سب کی گردنیں جھک جاتیں اور حق قبول کر لیتے۔ لیکن اللہ تعالی کو ایسا ایمان نہیں چاہیے جو اجباری طور پر کسی پر تحمیل کیا جاۓ، اس طرح سے انسان سعادت کو حاصل نہیں کر سکتا مگر یہ کہ اپنے اختیار سے ایک عقیدے کو حاصل کرے۔[5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۱تا۳۴۔

منابع:

منابع:
1 بقرہ: ۲۵۶۔
2 یونس: ۳۶۔
3 یس: ۱۷۔
4 شعراء،: ۴،۳
5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۱تا۳۴۔
Views: 260

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: عقیدے کی آزادی اور جہاد ابتدائی