loading

WARNING: unbalanced footnote start tag short code found.

If this warning is irrelevant, please disable the syntax validation feature in the dashboard under General settings > Footnote start and end short codes > Check for balanced shortcodes.

Unbalanced start tag short code found before:

“  نهج البلاغة السيد الشريف الرضي ، جلد1 ، صفحه 815 )) ترجمہ: مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔ شرح حدیث: والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرمات…”

{حدیث یوم}

اطاعت والدین واجب ہونے کے مواقع

تدوين:بلال حسين

امام علی ؑ فرماتےہیں:

لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ  ((  نهج البلاغة السيد الشريف الرضي ، جلد1 ، صفحه 815 ))

ترجمہ:

مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔

شرح حدیث:

والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرماتِ الٰہی کے مقابل کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ مثلاً والدین اگر اولاد کو شراب پینے کا حکم دیں یا اُس کو واجب نماز روزے سے روکیں تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت ممنوع ہے۔ چنانچہ سورہٴ لقمان کی پندرھویں آیت میں اس کی تصریح فرمائی ہے:

وَاِنْ جَاھَدَکَ عَلٰے اَنْ یُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُعِطھُمَا ((  سورہ لقمان آیت۱۵ ))

اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔

یہ حدیث شریف اس آیت کریمہ کی تائید کرتی ہے:

لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ

مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔

ان دو صورتوں کے علاوہ تمام مستحبات و مکروہات اور مباحات بلکہ وجوب کفائی انجام دینے کی صورت میں والدین کی رضایت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اگر یہ عمل والدین کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا تکلیف کا موجب ہوں تو ان کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ اس اسی مخالفت کو عاق کہتے ہیں۔ مثلاً بیٹا غیر واجب سفرپر جانا چاہتا ہو لیکن والدین جانی و مالی ضرر کے اندیشے سے یا اس کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر جدائی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے سفر پر جانے سے منع کریں اور بیٹا منع کرنے کے باوجود سفر پر جائے تو اس صورت میں معصیت کا سفر ہوگا اور حرام ہوگا۔ ایسے سفر میں نماز و روزہ قضا نہیں ہو گا۔

مختصر یہ کہ ہر وہ مخالفت جو والدین کی ناراضگی ، رنجش اور اذیت کا سبب بن جائے، حرام ہے۔مگر یہ کہ ان کی اطاعت اولاد کے لیے ناقابل برداشت ہو یا دینی و دنیوی ضرر کا موجب ہو۔ مثلاً والدین اولاد کو شادی کرنے سے منع کریں، جبکہ شادی کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہو یا عسر و حرج در پیش ہوتا ہو یا یہ کہ والدین بیٹے سے کہیں کہ بیوی کو طلاق دے دو جبکہ یہ حکم دونوں میاں بیوی کے لیے نقصان کا باعث ہو۔ ایسی صورت میں والدین کی اطاعت واجب نہیں لیکن ایسے امور جن میں والدین مخالفت کے باوجود ناراض نہ ہوتے ہوں اور ان کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی ہو، ایسے موقعوں پر مخالفت کا حرام ہونا یا اطاعت کا واجب ہونا میرے علم میں نہیں ہے۔

بہتر ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ تا حد امکان ان اوامر کو بجا لائیں اور مخالفت سے پرہیز کریں۔ خصوصاً جبکہ والدین اولاد کی مصلحت ملحوظ خاطر رکھ کر امر و نہی کریں اور اس میں ان کی ذاتی غرض نہ ہو۔

والدین کے امرو نہی میں تضاد

جب کبھی والدین کے احکام میں تضاد واقع ہو جائے مثلاً باپ کہے کہ فلاں کام کرو، ماں کہے کہ وہ کام نہ کرو تو ایسی صورت میں کوشش کی جائے کہ دونوں کو راضی رکھا جا سکے اور اگر کوئی دونوں کو راضی نہ کر سکے تو ماں کی خوشنودی کو ترجیح دے۔ چونکہ ابتدائے خلقت میں باپ سے پہلے ماں کے حقوق انسان پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ ماں زیادہ تکالیف سہتی ہے خصوصاً ایّامِ حمل، وضعِ حمل اور دودھ پلانے کی زحمات ماں ہی برداشت کرتی ہے۔ ماں اس لیے بھی زیادہ نیکی کا استحقاق رکھتی ہے کہ عورت پیدائشی طور پر مرد کی نسبت نازک مزاج ہوئی ہے۔ وہ اولاد کی معمولی سی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے، بیتاب ہو جاتی ہے مامتا اُسے بے قابو کر دیتی ہے۔

اس کے برعکس باپ کی عقل و ہوش مضبوط اور مزاج سنجیدہ ہوتا ہے وہ اولاد کی تکلیف سے کم متاثر ہوتا ہے۔ باپ احساس کر لیتا ہے کہ بیٹا میری مخالفت ذاتی دشمنی کی بنا پر نہیں بلکہ ماں کی خاطر داری کی بنا پر کر رہا ہے۔ اس لیے وہ مخالفت سے ناراض نہیں ہوتا۔

Views: 27

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم