loading

اربعین كى شرعی حیثیت

تحریر: سید محمد حسن رضوى
14/09/2021

امام حسینؑ كى شہادتِ عظمىٰ كى مناسبت سے مختلف ایام و مراسم كے اہتمام کی تاکید رواىاتِ اہل بیتؑ میں وارد ہوئی ہے۔ انہیں مناسبتوں مىں سے ایک مناسبت ’’چہلمِ امام حسینؑ‘‘ ہے۔ سوال ىہ پیدا ہوتا ہے كہ آیا چہلم كى كوئی شرعى حیثیت بھی ہے یا نہیں؟
اس سوال کو ہم چار عناوین کے تحت زیر بحث لاتے ہیں اور ہر عنوان سے مختصر بحث کرتے ہیں:

• چہلم كى شرعى حیثیت
• امام حسینؑ كا چہلم روایات كى روشنى میں
• زىارتِ اربعین
• اربعین (چہلم) كے دن كى تعیین

1.چہلم كى شرعى حیثیت :

کسی میت کے سوگ منانے کے مختلف طور طریقوں معاشروں میں رائج ہوتے ہیں۔ دین اسلام نے میت پر سوگ کو ممنوع نہیں قرار دیا لیکن ایسے انداز اور طریقے اختیار کرنے کی ممانعت کی ہے جو غیر انسانی یا انسانی خلقت کے اہداف سے ٹکراتے ہوں۔ غم و سوگ میں جن مراسم کا انعقاد کیا جاتا ہے ان میں سے ایک میت کی وفات کے چالیسویں (۴۰) دن میت کی یاد منانا ہے۔ اس کی آیا شرعی حیثیت ہے یا نہیں اس بارے میں درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں:

الف۔معاشرے مىں رائج طور طریقے:

ہر معاشرے مىں خوشى وغمى كے طور طریقے اس معاشرے كے رائج رسومات كے مطابق ہوتے ہیں۔ دىنِ اسلام خوشى و غمى كے ان علاقائى ىا معاشرتى رسم و رواج كى نہ مكمل مخالفت كرتا ہے اور نہ مكمل حمایت۔ اسلام كى نظر مىں كوئى بھى رسم و رواج اس وقت حرام کہلاتا ہے جب اس مىں درج ذىل امور پائے جائیں:

1) رسم ورواج كی نسبت دین اور سنتِ رسول ﷺ وآئمہ اہل بیتؑ کی طرف دے دی جائے جبکہ دین میں یا سنت کے عنوان سے وہ امر روایات میں وارد نہیں ہوا، مثلا یہ كہا جائے كہ یہ رسم اسلام كى نظر مىں واجب ہے ىا مستحب ہے !! جیسے مہندى كى رسم جو شادى كے مواقع پر انجام دى جاتى ہے كو سنتِ رسول ﷺ کی طرف نسبت دے دی جائے۔ اس صورت میں یہ بدعت کہلائے گی اور بدعتى كا ٹھکانہ جہنم ہے۔ البتہ اگر اس رسم كو علاقائى بنىادوں پر انجام دیا جائے اور اسلام نے مباح کے عنوان سے جو وسعت دی ہے کے تحت برپا کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2) دینِ اسلام كو اس سے نقصان پہنچتا ہو۔
3) انسانیت كے خلاف عمل ہو۔
4) مسلمانوں كى توہین ، اہانت اور فتنہ و فساد كا باعث ہو۔
5) طاغوت و استعمار كے عزائم و مقاصد كو پورا كرنے اور ان کی غلبہ کے حصول کا باعث ہو۔
اسى طرح خوشى اور غمى كے طور طریقے ہىں۔ اگر كوئى انہیں صرف معاشرتى بنیادوں پر انجام دے اور اسلام و اہل بیتؑ کی طرف سے جاری حکم نہ قرار دے اور اسلام نے اس عمل سے روکا بھی نہ ہو تو ایسے عمل کو معاشرتی بنیادوں پر انجام دیا جا سکتا ہے۔ كیونكہ اگر اسلام میں یہ عمل ممنوع ہوتا تو اس کی ممانعت آ جاتی اور ہر وہ چیز جس کی ممانعت نہیں وارد ہوئی اس کو انجام دینا جائز ہے۔ اسے شرعى اصطلاح مىں ’’مباح‘‘ كہتے ہیں۔

بدعت کی تعریف:

مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے فقہاء نے بدعت کی درج ذیل تعریف بیان کی ہے: { إنّ‌ كلّ‌ ما علم كونه من الدین بالأدلة الخاصّة أو بالعمومات واُخرج منه، وكل ما علم خروجه من الدین بذلك واُدخل فیه فهو بدعة؛ ہر وہ چیز جس کے خصوصی یا عموم دلائل کی بناء پر علم ہو کہ وہ چیز دین میں داخل ہے اور اس کو کوئی دین سے خارج قرار دے دے تو یہ بدعت کہلائے گی۔ اسی طرح ہر وہ شیء جس کا دین سے خارج ہونے کا علم دلائل کی وجہ سے حاصل ہو جاتا ہے اس کو کوئی دین میں داخل قرار دے دے تو وہ بدعت کہلائے گی ہے۔} [1]ہاشمی شاہرودی، سید محمود، موسوعۃ الفقہ الاسلامی المقارن، ج ۴، ص ۳۵، ۱۴۳۲ ھ۔

ملا نراقیؒ نے عوائد الایام میں درج ذیل الفاظ میں بدعت کی تعریف کی ہے:{كلّ‌ فعل یفعل بقصد العبادة والمشروعیة وإطاعة الشارع مع عدم ثبوته من الشرع؛ ہر وہ عمل جو عبادت کی نیت سے یا شریعت کی جانب سے ہونے کی وجہ سے یا شارع کی اطاعت کی وجہ سے انجام دیا جائے جبکہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو بدعت کہلاتا ہے۔} [2]نراقی، احمد بن محمد، عوائد الایام، ص ۳۲۰، عائدہ: ۳۴۔

پس ایک عمل اس وقت بدعت بنتا ہے جب اپنی طرف سے وہ عمل ایجاد کیا جائے اور پھر کہا جائے کہ دین نے اس کا حکم دیا ہے اور اس کو انجام پانے سے اللہ تعالی خوش ہو گا جبکہ اس عمل کا کسی قسم کا ثبوت دین میں موجود نہ ہو۔ البتہ اگر کوئی عمل ایک معاشرہ یا ایک انسان انجام دیتا ہے اور دین نے اس کے انجام دینے سے اسے روکا بھی نہیں ہے اور وہ اس عمل کی نسبت بھی دین کی طرف نہیں دیتا تو اس کو انجام دینا بدعت نہیں کہلائے گا۔

ب ۔  چہلم كى شرعى حىثىت

جہاں تك چہلم كى بات ہے تو دینى نصوص میں صرف امام حسین×كے لیے چہلم کی زیارت کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ آیات و روایات میں امام حسینؑ کے علاوہ کسی اور نبی یا امام کے چہلم منانے کا تذکرہ بھی موجود نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کا چہلم منایا جائے تو یہ بدعت ہو جائے گا۔ ہاں! اگر امام حسینؑ کے علاوہ کسی میت کا چہلم منایا یہ کہہ کر منایا جائے کہ دین نے اس شخص کے چہلم ماننے کا حکم دیا ہے تو یہ دین کے نام سے اپنی طرف سے اضافہ شمار ہو گا اور بدعت کی تعریف کے دائرے میں میں یہ عمل آ جائے گا ۔  جہاں تک امام حسینؑ كے چہلم منانے کا تعلق ہے تو آپؑ کے چہلم ماننے کے بارے میں آئمہ اہل بیتؑ سے روایات وارد ہوئی ہیں۔ نیز بعض کتب میں وارد ہوا ہے کہ صحابى رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصارىؓ معروف تابعی عطیہ عوفیؓ کے ساتھ روزِ اربعین امام حسینؑ کی زیارت کی غرض سے کربلاء تشریف لے گئے۔

امام حسینؑ کے علاوہ دیگر کا چہلم:

امام حسینؑ كے علاوہ دىگر كے چہلم كو برپا كرنے كے بارے مىں اختلاف وارد ہوا ہے۔ اكثر قائل ہىں كہ اس كى نسبت اگر دین كى طرف نہ دى جائے اور کسی حرام امر کا ارتکاب لازم نہ آتے تو کسی میت کے لیے اس رسم کو برپا کرنا مباح اور جائز ہے۔ خصوصا اگر كسى كى شخصیت كا دن قائم كرنے سے دین اور اس كى تعلیمات زندہ ہوتى ہیں، جىسے امام خمینىؓ كى برسى منانا تو یہ عمل مستحسن اور حكمت سے خالى نہیں ہے۔ لیكن بعض محققین برسى، چہلم اور سوم وغىرہ كى رسومات كو منفى نگاہ سے دیكھتے ہىں جیساكہ سید محمد محسن طہرانى اپنى كتاب ’’ الأربعين فی ثقافة الشيعة ‘‘ میں لكھتے ہیں:{ نعلم أنه ليس لدينا في الإسلام شيء يسمى بـالأسبوع أو الأربعین أن الذكرى السنویة؛ لذلك یتّضح جلیا أن هذه المناسبات مخالفة لسیرة الإسلام وسنّتِه … فـالذكرى السنویة حسب التراث الشیعی الأصیل مختصّة فقط بالمعصومین؛ ولیس لدینا أی مدرك تاریخی ولا روائی یثبت أن الأئمة أمروا بتشكیل مجالس الذكرى السنویة لأحد من صحابتهم ، فالذی ورد الحثّ والتأكید علیه من تشكیل مجلس الذكرى ، مختصّ بإحیاء ذكرى أهل البیت فقط ، وأمّا مسألة الأربعین فإنها أشنع وأقبح من مسألة الأسبوع والذكرى السنویة قطعا، … فإن مسألة الأربعین (للإمام الحسین) من شعائر التشیع وخصوصیاته، وهی مختصّة فقط وفقط بحضرة أبی عبد الله الحسین أرواحناه الفداء لا غیر؛ ہم جانتے ہىں كہ اسلام مىں میت كى یاد میں ’’ہفتہ ‘‘ ىا ’’چالیسواں یا سالانہ دن منانے كا تذکرہ کسی جگہ وارد نہیں ہوا۔ پس یہاں سے واضح ہوتا ہے كہ (ایرانى و غیر ایرانى معاشروں میں میت كى وفات كى مناسبت سے) منعقد كىے جانے والے دن سیرت اور سنتِ اسلام كے مخالف ہیں۔ … ہمارے پاس كوئى ایسا تاریخى ثبوت یا روایت نہىں ہے جو ثابت كرتى ہو كہ آئمہؑ نے اپنے صحابہ} مىں سے كسى كے لیے بھى سالانہ مجالس برپا كرنے كا حكم جارى كیا ہوا۔ جن ہستیوں كى یاد منانے كى غرض سے مجالس برپا كرنے پر ابھارا گیا ہے اور اس کی تاكید كى گئى ہے وہ فقط آئمہ اہل بیت& ہیں… ۔ جہاں تك چہلم ىا چالیسواں كا مسئلہ ہے تو (میت ) کے لیے اس كا اہتمام كرنا ہفتہ یا سالانہ یاد منانے سے بھى زىادہ قبیح اور بدتر ہے، … صرف امام حسینؑ كا چہلم تشیع كے شعائر وخصوصیات میں سے ہے۔ لہذا چہلم صرف اور صرف ابو عبد اللہ الحسین (ہمارى ارواح ان پر قربان ہوں) كے ساتھ مختص ہے۔ ان كے علاوہ كسى اور كے لیے چہلم نہیں مناىا جا سكتا۔}

خلاصہِ کلام:

خلاصہِ كلام ىہ ہے كہ ’’مكتبِ تشىع‘‘ مىں برسى، چہلم اور میت كے رسمى طریقوں سے یاد منانا اور محافل برپا كرنے كے بارے میں فقہاء کرام جواز کا فتوی دیتے ہیں۔ جبکہ بعض محققین نے اس کے جواز کو فقط امام حسینؑ کے ساتھ مختص قرار دیا ہے۔ اسی طرح میت پر گریہ و آہ وبکاء اور اس کی یاد کو تازہ رکھنا امام حسینؑ کے علاوہ دیگران کے لیے تین دن تک سوگ میں مقید قرار دیا گیا ہے۔ اس پہلو سے روایات كا نچوڑ ىہ ہے كہ صرف تین دن تک غم مناىا جائے اور غیر معصوم كے غم مىں ماتم و سینہ كوبى جائز نہیں ہے۔ وفات كے تین دن بعد غم منانا عملِ قبیح ہے ۔ یہاں تك كہ خاتون كے لىے حكم وارد ہوا ہے كہ وہ شوہر كے علاوہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے۔ پس ماتم، مجالس وعزا صرف معصومؑ كے ساتھ خاص ہىں۔

ج ۔  صرف امام حسىنؑ كا چہلم

روایات كے مطابق ہرامامِ معصومؑ كى كچھ مشترک خصوصیات ہیں ، جیسے منصبِ ولایت و امامت ، علم و شجاعت … وغیرہ اور كچھ مختص خصوصیات ہیں جو صرف ایک امام كے ساتھ خاص ہیں، جیسے ’’امیر المؤمنین‘‘ كا لقب صرف امام علىؑ كے ساتھ بولا جا سكتا ہے، جبکہ باقى آئمہ طاہرینؑ كو ان كلمات كے ساتھ پكارنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اسى طرح امام مہدىؑ كے نام كو زبان سے ادا كرنى كى ممانعت وارد ہوئى ہے یا عالمى حكومت كے قیام امام مہدىؑ كے ساتھ مختص قرار دیا گیا ہے … وغیرہ۔

انبیاء و آئمہ طاہرینؑ مىں سے صرف امام حسینؑ كے چہلم منانے كى اجازت وارد ہوئى ہے۔ اس مقام پر ہمیں ’’مجالس و میلاد‘‘ كے انعقاد اور ’’چہلم یا چالیسواں‘‘ كے اہتمام مىں فرق كرنا چاہىے۔ مجالس و عزا اور میلاد كے انعقاد كا حكم تمام اہل بیتؑ كےلیے وارد ہوا ہے۔

وہ روایات جن کے مطابق مجالس و عزا تمام اہل بیتؑ كے لیے ہے:

حدیث: ۱

’’الكافى‘‘ مىں معتبر سند سے حدیثِ موثق میں یونس بن یعقوب امام صادقؑ سے نقل كرتے ہیں :{ قَالَ لِی أَبِی : یا جَعْفَرُ ، أَوْقِفْ لِی مِنْ مَالِی كَذَا وَكَذَا لِنَوَادِبَ تَنْدُبُنِی عَشْرَ سِنِینَ بِمِنًى أَیامَ مِنًى؛ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہىں كہ میرے والد نے مجھے سے فرماىا : اے جعفرؑ ! میرى خاطر تم میرے مال میں سے اتنى رقم ان نوحہ و ندبہ كرنے والے كے لىے وقف كر دو جو ’’ مِنَى كے دنوں ‘‘ مىں دس سال تک ’’ مِنَى ‘‘ كے مقام پر مجھ پر نوحہ و ندبہ پڑھتے رہیں۔}[3]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۹، ص ۶۵۳۔

حدیث: ۲

من لا یحضرہ الفقىہ میں امام باقرؑ وصیت كرتے ہیں:{ أَنْ یُنْدَبَ فِی الْمَوَاسِمِ عَشْرَ سِنِین ؛ دس سال تک موسم حج مىں ان پر ندبہ و گرىہ و بكاء كیا جائے۔} [4]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱ ، ص ۱۸۲، حدیث: ۵۴۷۔

حدیث: ۳

’’الكافى‘‘ میں عیسى بن حریزؓ نقل كرتے ہىں :{ أَوْصَى أَبُو جَعْفَرٍ ع  بِثَمَانِمِائَةِ دِرْهَمٍ لِمَأْتَمِهِ وَ كَانَ یرَى ذَلِكَ مِنَ السُّنَّةِ ؛ لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ’ قَالَ اتَّخِذُوا لآِلِ جَعْفَرٍ طَعَاماً فَقَدْ شُغِلُوا ؛  امام باقرؑ نے وصىت فرمائى : آٹھ سو (800) درہم امامؑ كے غم میں ماتم پر خرچ كیے جائیں، امام باقرؑ اس عمل كو سنتِ رسول ﷺ قرار دیتے تھے ، كیونكہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آل جعفر كے لىے خوراک و غذا كا اہتمام كرو ، پس وہ لوگ اس میں مشغول كر دیئے گئے۔} [5]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۵۴۴۔

نتیجہ:

مختلف معتبر اسانید سے وارد ہونے والى ىہ روایات بیان كرتى ہیں كہ غم و اندوہ اور مجالس و نوحہ و بكاء كا اہتمام چہاردہ معصومینؑ كے لیے كرنا چاہیے۔ لیكن ان روایات میں ’’چہلم‘‘ كے انعقاد كا كہیں حكم وارد نہیں ہوا۔ اس لیے علماء كرام بیان كرتے ہیں كہ چہلم كا اہتمام صر ف امام حسینؑ كے ساتھ مختص ہے۔

امام حسینؑ كے چہلم و چالىسواں پر احادیث :

مكتبِ تشیع میں امام حسینؑ كے غم مىں چالیسواں یا چہلم كے اہتمام كے بارے روایت وارد ہوئى ہے جو كہ امام حسن عسكرىؑ سے منقول ہے۔ شیخ طوسىؒ نے اپنى كتاب ’’ تہذیب الاحكام ‘‘ میں امام حسن عسكرىؑ سے اس روایت كو نقل كیا ہے۔ امام حسن عسكرىؑ فرماتے ہیں: { عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْخَمْسِینَ وَ زِیارَةُ الْأَرْبَعِینَ وَ التَّخَتُّمُ فِی الْیمِینِ وَ تَعْفِیرُ الْجَبِینِ وَ الْجَهْرُ بـ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ؛ مومن كى علامات پانچ ہىں:
• پچاس نمازیں۔
اربعین(چہلم ىا چالىسواں) كى زیارت
• دائیں ہاتھ میں انگوٹھى پہننا۔
• پیشانى كو مٹى سے ملنا۔
• دورانِ نماز اونچى آواز میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا۔} [6]طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۵۲، حدیث: ۳۷۔

اكابر علماء و محدثین نے اس روایت سے استدلال كرتے ہوئے امام حسینؑ كى شہادت كے چالیسوىں یعنى چہلم كا اہتمام كرنے كو ’’ مستحب ‘‘ قرار دیا ہے۔ زمانہ قدیم سے مراجع عظام اور علماءِ اعلام بڑے پیمانے پر ’’اربعین‘‘ كا اہتمام كرتے آ رہے ہیں اور آج بھى نجف اشرف سے كربلا تک پا پیادہ سفر كرتے ہیں جس كا مشاہدہ ہر سال ’’20 صفر ‘‘ كو كیا جاتا ہے كہ دنیا كے كونے كونے سے عاشقانِ امام حسىنؑ ’’ امام حسن عسكرىؑ‘‘ كى آواز پر لبیک كہتے ہوئے كربلا جمع ہوتے ہیں اور اپنے مومن ہونے كا ثبوت دیتے ہیں۔

زىارتِ اربعىن :

’’تہذىب الاحكام‘‘ میں امام جعفر صادقؑ سے ’’چہلمِ امام حسینؑ ‘‘ كے دن كى زیارت نقل كى گئى ہے جسے بعض علماء نے صحیح السند بھى قرار دیا ہے۔ صفوان بن مہرانِ جمالؓ بیان كرتے ہىں كہ مىرے مولا و آقا امام صادقؑ نے اربعین كى زیارت كے حوالے سے مجھ كو مخاطب كرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب دن چڑھ جائے تو تب زیارت کرو اور یہ پڑھو:{ السَّلَامُ عَلَى وَلِيِّ اللَّهِ وَحَبِيبِهِ ، السَّلَامُ عَلَى خَلِيلِ اللَّهِ وَ نَجِيبِهِ ، السَّلَامُ عَلَى صَفِيِّ اللَّهِ وَ ابْنِ صَفِيِّهِ ، السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ ، السَّلَامُ عَلَى أَسِيرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيلِ الْعَبَرَاتِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْهَدُ أَنَّهُ وَلِيُّكَ وَ ابْنُ وَلِيِّكَ ، وَ صَفِيُّكَ وَ ابْنُ صَفِيِّكَ ، الْفَائِزُ بِكَرَامَتِكَ ، أَكْرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ وَ حَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ ، وَ اجْتَبَيْتَهُ بِطِيبِ الْوِلَادَةِ وَ جَعَلْتَهُ سَيِّداً مِنَ السَّادَةِ وَ قَائِداً مِنَ الْقَادَةِ وَ ذَائِداً مِنَ الذَّادَةِ ، وَ أَعْطَيْتَهُ مَوَارِيثَ الْأَنْبِيَاءِ وَ جَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلَى خَلْقِكَ مِنَ الْأَوْصِيَاءِ ، فَأَعْذَرَ فِي الدُّعَاءِ وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلَالَةِ ، وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَيْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْيَا وَ بَاعَ حَظَّهُ بِالْأَرْذَلِ الْأَدْنَى وَ شَرَى آخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْأَوْكَسِ ، وَ تَغَطْرَسَ وَ تَرَدَّى فِي هَوَاهُ وَ أَسْخَطَ نَبِيَّكَ وَ أَطَاعَ مِنْ عِبَادِكَ أَهْلَ الشِّقَاقِ وَ النِّفَاقِ وَ حَمَلَةَ الْأَوْزَارِ الْمُسْتَوْجِبِينَ النَّارَ ، فَجَاهَدَهُمْ فِيكَ صَابِراً مُحْتَسِباً حَتَّى سُفِكَ فِي طَاعَتِكَ دَمُهُ وَ اسْتُبِيحَ حَرِيمُهُ ، اللَّهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْناً وَبِيلًا وَ عَذِّبْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ سَيِّدِ الْأَوْصِيَاءِ ، أَشْهَدُ أَنَّكَ أَمِينُ اللَّهِ وَ ابْنُ أَمِينِهِ ، عِشْتَ سَعِيداً وَ مَضَيْتَ حَمِيداً ، وَ مِتَّ فَقِيداً مَظْلُوماً شَهِيداً ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ مُنْجِزٌ مَا وَعَدَكَ وَ مُهْلِكٌ مَنْ خَذَلَكَ وَ مُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَك‏ ، وَأَشْهَدُ أَنَّكَ وَفَيْتَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ جَاهَدْتَ فِي سَبِيلِهِ حَتَّى أَتَاكَ الْيَقِينُ ، فَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ قَتَلَكَ وَ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ظَلَمَكَ وَ لَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَرَضِيَتْ بِهِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي وَلِيٌّ لِمَنْ وَالاهُ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُ ، بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ، أَشْهَدُ أَنَّكَ كُنْتَ نُوراً فِي الْأَصْلَابِ الشَّامِخَةِ وَ الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ لَمْ تُنَجِّسْكَ الْجَاهِلِيَّةُ بِأَنْجَاسِهَا وَ لَمْ تُلْبِسْكَ الْمُدْلَهِمَّاتُ مِنْ ثِيَابِهَا ، وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ مِنْ دَعَائِمِ الدِّينِ وَ أَرْكَانِ الْمُسْلِمِينَ وَ مَعْقِلِ الْمُؤْمِنِينَ ، وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ الْإِمَامُ الْبَرُّ التَّقِيُّ الرَّضِيُّ الزَّكِيُّ الْهَادِي الْمَهْدِيُّ ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِكَ كَلِمَةُ التَّقْوَى وَ أَعْلَامُ الْهُدَى وَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقَى وَ الْحُجَّةُ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا ، وَ أَشْهَدُ أَنِّي بِكُمْ مُؤْمِنٌ وَ بِإِيَابِكُمْ مُوقِنٌ بِشَرَائِعِ دِينِي وَ خَوَاتِيمِ عَمَلِي وَ قَلْبِي لِقَلْبِكُمْ سِلْمٌ وَ أَمْرِي لِأَمْرِكُمْ مُتَّبِعٌ وَ نُصْرَتِي لَكُمْ مُعَدَّةٌ حَتَّى يَأْذَنَ اللَّهُ لَكُمْ ، فَمَعَكُمْ مَعَكُمْ لَا مَعَ عَدُوِّكُمْ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَ عَلَى أَرْوَاحِكُمْ وَ أَجْسَادِكُمْ وَ شَاهِدِكُمْ وَ غَائِبِكُمْ وَ ظَاهِرِكُمْ وَ بَاطِنِكُمْ آمِينَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ؛ اللہ كے ولى اور اس كے حبیب پر سلام ہو ، خلیلِ الہٰى اور نجیبِ خدا پر سلام ہو ، صفىِ خدا اور فرزندِ صفى الہٰى پر سلام ہو … زیارت کے بعد دو رکعت نماز پڑھو اور اس کے بعد جو دعا مانگنا چاہتے ہو وہ دعا مانگو۔} [7]طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۱۱۳، حدیث: ۱۷۔

 صحابى رسول اور چہلم امام حسینؑ:

بعض دعاؤں اور تاریخى كتب كے مطابق سانحہ كربلا كے بعد امام حسینؑ كے پہلے زائر ’’صحابى رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصارىؓ‘‘ تھے جنہوں نے شہادتِ’’ امام حسینؑ‘‘ كى زیارت كى غرض سے حجاز سے كربلا تک كا سفر كیا اور’’20 صفر‘‘ روزِ اربعین یعنى چہلم كو كربلا پہنچے اور امام حسینؑ كى زیارت كا شرف حاصل كیا۔ جنابِ جابر بن عبد اللہ انصارىؓ بڑھاپے اور كبیر السنّ ہونے كے باوجود سفر كى زحمتوں و صعوبتوں كو برداشت كرتے ہوئے چہلم كے لیے كربلا میں وارد ہوئے۔[8]مجلسی ، محمد باقر، ملاذ الاخیار فی فہم تہذیب الاخبار، ج ۹، ص ۳۰۲، حدیث ۱۶۔ شیخ طوسی نے کتاب المصباح میں تحریر کیا ہے کہ لوگوں میں جابر بن عبد اللہ انصاریؓ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے امام حسینؑ کی زیارت کی۔[9]طوسی ، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ص ۷۸۷۔

بعض  تارىخى كتب كے مطابق بھی سانحہ كربلا كے بعد امام حسىن ؑكے پہلے زائر ’’صحابى رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصارىؓ‘‘  اور معروف تابعی جناب عطیہ عوفیؒ تھے جنہوں نے شہادتِ ’’امام حسىن ؑ ‘‘ كى زىارت كى غرض سے حجاز سے كربلا تك كا سفر كىا اور’’20 صفر‘‘  روزِ اربعىن ىعنى چہلم كو كربلا پہنچے اور امام حسىنؑ كى زىارت كا شرف حاصل كىا۔ جنابِ جابر بن عبد اللہ انصارىؓ بڑھاپے اور كبىر السن ہونے كے باوجود سفر كى زحمتوں و صعوبتوں كو برداشت كرتے ہوئے چہلم كے لىے كربلا مىں وارد ہوئے اور امام حسینؑ کی زیارت کی اور گریہ  آہ و بکاء کیا۔چھٹی صدی کے معروف محدث عماد الدین طبری متوفی ۵۵۳ ھ نے اپنی کتاب بشارۃ المصطفی ﷺمیں ان الفاظ کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے:{ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقْرِي ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَيَادِي ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُدْرِكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زِيَادٍ الْمَلَكِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ زَائِرَيْنِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَلَمَّا وَرَدْنَا كَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ شَاطِئِ الْفُرَاتِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ اتَّزَرَ بِإِزَارٍ وَارْتَدَى بِآخَرَ ثُمَّ فَتَحَ صُرَّةً فِيهَا سُعْدٌ فَنَثَرَهَا عَلَى بَدَنِهِ ثُمَّ لَمْ يَخْطُ خُطْوَةً إِلَّا ذَكَرَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَ الْقَبْرِ قَالَ أَلْمِسْنِيهِ فَأَلْمَسْتُهُ فَخَرَّ عَلَى الْقَبْرِ مَغْشِيّاً عَلَيْهِ فَرَشَشْتُ عَلَيْهِ شَيْئاً مِنَ الْمَاءِ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ يَا حُسَيْنُ ثَلَاثاً ثُمَّ قَالَ حَبِيبٌ لَا يُجِيبُ حَبِيبَه،ُ ثُمَّ قَالَ: وَأَنَّى لَكَ بِالْجَوَابِ وَقَدْ شُحِطَتْ أَوْدَاجُكَ عَلَى أَثْبَاجِكَ، وَفُرِّقَ بَيْنَ بَدَنِكَ وَرَأْسِكَ؛  عطیہ عوفى & کہتے ہیں کہ میں جابر بن عبد اللہ انصاریؓ کے ساتھ حسین بن علی بن ابی طالبؑ کی زیارت کےلیے نکلا، ہم جب کربلا میں وارد ہوئے تو جابرؓ فرات کے کنارے گئے اور وہاں غسل کیا، پھر انہوں نے تہبند باندھا اور دوسرا لباس پہنا ، پھر ایک ڈبیا نکالی جس میں ایک جڑی بوٹی سے آمادہ خوشبو تھی جسے ’’سُعد‘‘ کہا جاتا ہے، اس کو آپ نے اپنے بدن پر بکھیر دیا ، پھر امام حسینؑ کی قبر کی طرف چل دیئے اور وہ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے، جب وہ قبرِ امام حسینؑ کے قریب پہنچے تو مجھ کہا : (اے عطیہ) مجھے پکڑو، میں نے انہیں تھاما ، پھر وہ قبر پر منہ کے بل گر گے اور ان پر غشی و بے ہوشی طاری ہو گی ، میں نے تھوڑا سا پانی ان پر چھڑکا، جب انہیں افاقہ ہوا تو انہوں نے تین مرتبہ یا حسین ؑ کہا، پھر کہا: حبیب اپنے حبیب کو کیوں جواب نہیں دےو رہے؟!  پھر کہا: آخر کیسے جواب دے سکتا ہے جبکہ حبیب کی پشتِ گردن سے اس کی رگوں کو کاٹ کر خون خون کر دیا گیا ہ اور اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ہوں اور سر کو جدا کر دیا گیا ہو۔
اس كے بعد جناب جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ نے امام حسینؑ کی زیارت کے جملات اس طرح ادا کیے: { فَأَشْهَدُ أَنَّكَ ابْنُ خَاتِمِ النَّبِيِّينَ وَ ابْنُ سَيِّدِ الْمُؤْمِنِينَ وَ ابْنُ حَلِيفِ التَّقْوَى وَ سَلِيلُ الْهُدَى وَ خَامِسُ أَصْحَابِ الْكِسَاءِ وَ ابْنُ سَيِّدِ النُّقَبَاءِ وَ ابْنُ فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ النِّسَاء…؛میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ خاتم النبین ﷺ کے فرزند ہیں اور سید المؤمنینؑ کے بیٹے ہیں، آپ اہل تقوی اور ہدایت نشر کرنے والے کے فرزند ہیں، آپ اصحابِ کساءکے پانچویں فرد ہیں اور سید النقباء (امام علیؑ) کے فرزند ہیں اور فاطمہؑ جو سید النساء ہیں کے فرزند ہیں…۔} [10]طبری آملی، محمد بن ابی القاسم،بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص ۱۲۵۔

 روزِ چہلم كے انعقاد كى وجہ:

روایات میں چہلم كے دن كا اہتمام كرنے كى وجہ و سبب بىان نہیں كیا گیا ۔ لیكن تاریخى حقائق كو مدنظر ركھتے ہوئے ساتویں صدى ہجرى كے بزرگ ترین عالم دین ’’سید بن ابى طاووس‘‘، كفعمى اور علامہ مجلسى اور دىگر علماءِ اعلام نے تین احتمالات بیان كیے ہیں جن كى بناء پر چہلمِ امامؑ كا اہتمام كیا جاتا ہے:
1. روزِ چہلم 20 صفر كو امام سجادؑ قافلے سمیت دوبارہ كربلا وارد ہوئے اور تمام شہداء كے سر مبارک كو ان كے اجسادِ كریمہ كے ساتھ ملحق فرمایا۔
2. 20 صفر كو قافلہ حسینى ’’ امام سجادؑ اور بنت علىؑ ‘‘ كے ہمراہ شہرِ رسول ﷺ ’’مدینہ منورہ ‘‘ میں وارد ہوا ۔
3. بزرگ صحابى رسول ’’ جناب جابر بن عبد اللہ الانصارىؓ‘‘ 20 صفر كربلا پہنچے اور چہلم كى بنیاد ركھى۔[11]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۸، ص ۳۳۵۔

تحقیقی رائے:

علامہ مجلسىؒ ان اقوال كو نقل كرنے كے بعد لكھتے ہیں كہ پہلے دو احتمال ٹھیک نہیں ہیں كیونكہ قافلہ حسینى شام سے لوٹ كر كربلاء نہیں آیا۔ نہ ہى ایسا ہوا ہے كہ اس قدر مختصر دنوں میں قافلہ حسینى ’’شام سے مدینہ منورہ‘‘ پہنچ گیا ہو كیونكہ ابن زیاد لعین اور یزیدىِ لشكر نے اتنے مختصر دنوں میں ’’قافلہ حسینى‘‘ كو رہا نہیں كیا بلكہ وہ ایک مہینہ تک قیدو بند كى صعوبتوں كو برداشت كرنے كے بعد شام سے رہا ہوئے ۔ اس لیے ممكن نہیں ہے كہ اتنے قلیل مدت میں قافلہ حسینى مدینہ منورہ پہنچ گیا ہو۔ پس تیسرا قول زىادہ ترجیح ركھتا ہے كہ صحابى رسول جناب جابر بن عبد اللہ انصارىؓ ’’ امام حسینؑ كى زیارت غرض سے كربلا تشرىف لے گئے اور چہلم كے دن وہاں پہنچے۔ [12]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۸، ص ۳۳۴۔

نتىجہ بحث:

امام حسین ؑ كے چہلم كا اہتمام كرنا روایاتِ اہل بیتؑ اور صحابى رسول جابر بن عبد اللہ انصارىؓ كے طریق كى پیروى كى بناء پر ہے۔ اگر مكتبِ تشیع مىں اہل بیتؑ كے طریق سے روایت وارد نہ ہوتى اور صحابہ كرام كى سیرت ثابت نہ ہوتى تو كسى صورت اس قدر جم غفىر دكھائى نہ دیتا ۔ كیونكہ ’’شیعہ‘‘ كا ہم و غم اور حقىقى لگاؤ صرف اور صرف قرآنِ كرىم كى اس آىت مباركہ كے ساتھ ہے:{ یا أَیهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللَّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ؛ اے اىمان لانے والو ! اللہ كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو اور تم مىں سے جو اولى الامر (بارہ آئمہ طاہرىن ) ہىں كى اطاعت كرو۔ } [13]نساء: ۵۹۔

  • لہٰذا چہلم ’’شیعوں‘‘ كى من گھڑت رسم نہیں ہے بلكہ اطاعتِ امام ؑاور سیرتِ صحابہ كرام ہے۔

Views: 461

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قطع کی اقسام
اگلا مقالہ: اصالت طہارت