loading

{قاعدہ فقہی: ۴}

اصالت طہارت

 تحریر: عابدحسین
2021-10-11

اصالت طہارت فقہی قواعدمیں سے ایک قاعدہ ہے جس سے متعدد فقہی ابواب میں استنباط کیا جاتا ہے ۔بالخصوص باب صلاۃ ،باب حج اور جہاں جہاں طہارت شرط ہےوہاں اس قاعدہ سے  استفادہ کیا جاتا ہے ۔ قاعدہ طہارت یاقاعدہ اصالت طہارت علم فقہ کے مشہور قواعد میں سے ایک ہے ۔

قاعدہ میں طہارت سے مراد:

طہارت سے ایک مرتبہ بحث علم اخلاق میں ہوتی ہے جس میں طہارت سے مراد انسانی نفس کا باطنی امراض سے پاک و طاہر ہونا ہے۔ اسی طرح علم فقہ میں طہارت سے بحث کی جاتی ہے جس میں یا تو حدث سے طہارت حاصل کی جاتی ہے یا خبث سے پاک ہونا طہارت کہلاتا ہے۔   حدث سے مراد مکلف یا شبہ مکلف ( مجنون یا ممیز بچے وغیرہ) کو حاصل ہونے والا وہ اثر ہے جو وضو یا غسل کے اسباب میں سے کسی ایک سبب کے عارض ہونے کی بناء پر حاصل ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی جا سکتی اور اس اثر کا زائل ہونا نیت پر موقوف ہے۔ خبث سے مراد نجاسات ہیں۔ [1]شہید ثانی، زین الدین ، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج ۱، ص ۲۵۱۔ حدث میں بدن ظاہر طور پر پاک ہوتا ہے لیکن معنوی طور پر ایک اثر حاصل ہو جاتا ہے جس کو زائل کرنے کے لیے طہارت مطلوب ہے۔ حدث میں نجاسات حواس سے حس نہیں ہوتی ، مثلاً پیشاب پاخانہ کرنے کے بعد انسان اپنے بدن کو پاک کر لیتا ہے لیکن اس کے باوجود نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اس عمل کی وجہ سے معنوی ایک اثر قائم ہو گیا ہے جو وضو کے ذریعے سے زائل ہو گا۔ اس کے مقابلے میں ظاہری نجاسات کو خبث کہتے ہیں جوکہ حواس سے قابل ادراک ہے۔ قاعدہ طہارت میں طہارت  سے مراد خبث سے پاک ہونا ہے۔

قاعدہ طہارت کے جاری ہونے کی شرائط :

اگر ایک شیء کے بارے میں شک ہو جائے کہ یہ نجس ہے یا پاک اور اس شیء کی سابقہ حالت بھی معلوم نہ ہو تو وہ شیءپاک ہے اور اس سے اجتناب کرنا ضروری نہیں ہے۔ سب سے پہلے محقق حلیؒ نے اس قاعدہ کو المعتبر کتاب میں اصل کے طورپرپیش کیا ۔[2]محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، ج۱،ص۴۱۴-جس  طرح صاحب جواہر نے سب سے پہلے اس اصل کو قاعدہ طہارت سے تعبیر کیا۔[3]جواہری نجفی، شیخ حسن، جواہر الکلام ج۱،ص۷۵-

قاعدہ کی دلیل:

اس قاعدہ  کو متعدد مختلف دلائل کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :

 پہلی دلیل :                                                                                 احادیث  مبارکہ

کتب احادیث میں قاعدہ طہارت سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ ذیل میں چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:

پہلی روایت:

شیخ حرعاملی ؒنے کتاب وسائل الشیعۃ میں امام صادقؑ سے موثق روایت نقل کی ہے جس میں عمارِ ساباطی امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں:  وبإسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى ، عن أحمد بن الحسن ، عن عمرو بن سعيد ، عن مصدق بن صدقة ، عن عمار ، عن أبي عبد الله عليه السلام (في حديث) قال: كل شئ نظيف حتى تعلم أنه قذر، فإذا علمت فقد قذر، وما لم تعلم فليس عليك.      [4]حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج ۲، ص ۱۰۵۴۔

دوسری روایت:

شیخ صدوق ؒنے المُقنِع کتاب میں  مرسل روایت نقل کی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ تمام اشیاء اس وقت تک پاک شمار ہوں گی جب تک ان کے نجس ہونے کا یقین نہ ہو جائے۔ گویا کسی چیز کے نجس ہونے کا شک ہو تو وہ چیز پاک اور طاہر شمار ہو گی ۔ اس کو اصطلاحی زبانی میں قاعدہ طہارت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 

اجماع:

قاعدہ طہارت کے بارے میں اجماع ہے کہ یہ قاعدہ ثابت ہے ۔

قاعدہ طہارت کا شبہ موضوعیہ اور حکمیہ میں جاری ہونا:

قاعدہ طہارت آيا شبہات موضوعیہ میں جاری ہوتا ہے یا شبہات حکمیہ میں یا ہر دو ؟ اس بارے میں فقہاء کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شبہ موضوعیہ سے مراد موضوعِ حکم کے بارے میں شک کا ہونا ہے،مثلا انسان کو شک ہوجائے کہ یہ انگورکاپانی شراب بنا گیا ہے یا نہیں؟  یا مثلا نجاست لگنے سے کپڑا نجس ہوا ہے یا نہیں؟  اگر موضوع متحقق نہ ہو حکم شرعی جاری نہیں ہوتا۔ شبہ موضوعیہ کے مقابلے میں شبہ حکمیہ آتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ موضوع معلوم ہے لیکن حکمِ شرعی میں شک ہے ، مثلا یہ معلوم ہے کہ فلاں شخص حرام عمل کی بناء پر مجنب ہوا ہے لیکن آیا عملِ حرام سے مجنب ہونے والے کا پسینہ نجس ہے یا نہیں؟

اکثر متأخرین فقہاء قائل ہیں کہ قاعدہ طہارت شبہات حکمیہ و موضوعیہ ہر دو میں جاری ہوتا ہے ۔محقق خوئی بیان کرتے ہیں:  >طهارة ما يشكّ في طهارته ونجاسته من الوضوح بمكان ولم يقع فيها خلاف لا في الشبهات الموضوعية ولا في الشبهات الحكمية؛  ہر وہ چیز پاک اور طاہر شمار ہو گی کی جس کی طہارت اور نجاست کے بارے میں شک کیا گیا ہو ، یہ واضحات میں سے ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف موجود نہیں ہے، فرق نہیں پڑتا شک کا تعلق شبہ موضوعیہ سے ہو یا شبہ حکمیہ سے < ۔[5]خوئی،سیدابوالقاسم ،موسوعۃ امام خوئی،ج۳،ص۱۴۸-محدث امین استرآبادی نے کتاب الفوائد میں تحریر کیا ہے کہ قاعدہ طہارت  فقط شبہات موضوعیہ میں جاری ہوتا ہے۔[6]بحرانی،شیخ یوسف،الحدائق الناضرۃ،ج۱،ص۱۳۵-

قاعدہ طہارت کی چند فقہی مثالیں:

صاحب عروۃ الوثقی نے فقہی حکم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایک شخص کوکسی برتن یا کسی جگہ موجود پانی کے نجس ہونے کا علم تھا لیکن بعد میں وہ شک کرتا ہے کہ آیا اب بھی برتن یا فلاں جگہ پر موجود پانی نجس ہی ہے یا پاک ہو گیا ہے؟ اس صورت میں یہ مشکوک پانی نجس کہلائے گا۔ [7]طباطبائی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، ص ۱۰۸۔ اس کی ایک اور مثال کسی شخص کے مسلمان یا کافر ہونے کی ہے کہ اگر ہمیں کسی شخص کے مسلمان ہونے کا علم ہے لیکن بعد میں شک ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہے کہ پاک سمجھا جائے یا کافر ہے کہ نجس سمجھا جائے ! اس صورت میں اس شخص پر پاک اور طاہر ہونے کا حکم لاگو ہو گا ۔[8]طباطبائی،سیدمحمدکاظم طباطبائی،  العروۃ الوثقی ص ۱۴۶-

قاعدہ استصحاب کا قاعدہ طہارت پرمقدم ہونا :

جب ایک شیءکے نجاست یاطہارت کے بارے میں شک ہوجائے تو اس شیءکے سابقہ حالت پر بناءرکھی جائے گی یعنی اگروہ شیءپہلے پاک تھی توابھی بھی پاک ہوگی اگروہ شیء پہلے نجس تھی توابھی بھی نجس ہوگی۔لیکن اگر اس کی سابقہ حالت معلوم نہ ہو تو اس صورت میں قاعدہ استصحاب کے بجائے قاعدہ طہارت جاری ہوگا۔[9]سبزواری،شیخ علی زارعی،القواعد الفقہیۃ فی فقہ الامامیۃ،ص۴۲-

Views: 115

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اربعین کی شرعی حیثیت
اگلا مقالہ: قاعدہ لاحرج