loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۱۹}

عقل کا فی نہ ہونا

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ہر انسان ضرر اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے اور سعادت و کمال چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعادت کیسے حاصل ہو تی ہے؟  سعادت مند کو ن ہے؟ آخرت کا سعادت مند تو وہ ہے جس نےخدا کی بندگی اختیار کی اپنی قبر اور برزخ کا اہتمام کیا اور صالح اعمال انجام دے کر جنت میں پہنچ گیا۔ لیکن دنیا میں سعادت مند کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کی ضروریات پوری ہوں  وہ شخص سعادت مند ہے۔  دین نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کو پورا ہی نہ کرے بلکہ اس شخص کو سعادت مند قرار دیا ہے جس شخص کی ضروریات زندگی پوری ہوں۔ ان ضروریات ِ زندگی کی صرف اس وقت نفی کی گئی ہے جب یہ آخرت کو نقصان دینے لگیں۔ یہی دنیا، مال اور اولاد اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں لیکن اگر دین کی راہ میں آ جائیں تو قرآن کریم نے انہیں کو انسان کا دشمن قرار دیا ہے۔ اگر ضروریات ِ زندگی انسان کے لیے آخرت کا کمال حاصل کرنے کے لیے وسیلہ بن رہے ہوں تو نعمت ہیں لیکن اگر یہی آخرت کے لیے آزمائش بن رہے ہوں تو ان کو ترک کرنا ضروری ہے۔روایت میں وارد ہوا ہے:« قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مِنْ سَعَادَةِ اَلْمَرْءِ اَلْمُسْلِمِ اَلزَّوْجَةُ اَلصَّالِحَةُ وَ اَلْمَسْكَنُ اَلْوَاسِعُ وَ اَلْمَرْكَبُ اَلْهَنِيءُ وَ اَلْوَلَدُ اَلصَّالِحُ » ؛ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاایک مسلمان مرد کی خوشبختی یہ ہے کہ اس کی ایک صالح زوجہ ہو،کھلا گھر، آرام دہ سواری اور صالح فرزند ہو۔[1] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۴،ص۱۹۸۔

انسانی سعادت کے لیے شریعت کی ضرورت

انسان چاہے دنیا میں سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے یا چاہے آخرت میں اسے عقل کے ساتھ ساتھ شریعت کی ضرورت ہے۔ مغربی مفکرین کا یہ کہنا کہ ہمیں شریعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقل ہمارے لیے کافی ہے اس بات کو اسلام نے غلط قرار دیا ہے۔ آخرت کی سعادت کے لیے تو حتما شریعت چاہیے لیکن دنیا میں بھی سعادت مند ہونے کے لیے صرف عقل کافی نہیں پھر بھی شریعت چاہیے۔ یہاں پر عقل کی نفی نہیں کی جا رہی بلکہ انسان کے لیے عقل کا استعمال کرنا بہت ضروری ہے، قرآن کریم نے بھی تفکر اور تعقل کا حکم دیا ہے۔ لیکن تعقل اور تفکر اس وقت ہے جب شریعت کے ہمراہ ہو۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« رُسُلاً مُبَشِّرينَ وَ مُنْذِرينَ لِئَلاَّ يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَي اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کانَ اللَّهُ عَزيزاً حَکيماً »؛  (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔[2] نساء: ۱۶۵۔ اس آیت سے انسانی عقل کا ناکافی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر انسانی عقل ہدایت کے لیے کافی ہوتی تو بشر پر حجت تمام ہوتی  اور  پیغمبروں کو بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ «حجة بعد الرسل» یہ نہیں کہا کہ « حجة بعد العقل »۔ایک اور آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے:« وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَىٰ »؛ اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟[3] طہ: ۱۳۴۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کےلیے عقل اور فطرت اس کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ان پر حجت تمام ہوتی۔ لیکن اس آیت میں کفار کا یہ کہنا کہ ہمارے لیے پیغمبر نہیں بھیجے گئے تھے اس لیے وہ خدا کے ہاں احتجاج کر سکتے ہیں کہ بغیر پیغمبر بھیجے وہ کیسے ہمیں عذاب دے سکتا ہے؟

یہ آیات اور ان کے علاوہ دیگر آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی عقل کفایت نہیں کرتی۔ بیرونی حجتوں کو ہونا ضروری ہے۔ عقل درونی حجت ہےاور بلا شک و شبہ بہت ضروری ہے انسان کو فہم عطا کرتی ہے۔ اور فطرت قرآن کریم اور انبیاء کرام کی باتوں کو قبول کرتی ہے۔ عقل اور فطرت ہر دو ساتھ ہوں تو تب وحی کی بات انسان کو فائدہ دیتی ہے۔ تنہا عقل نہ تو اجتماعی پہلوؤں کو سمجھ سکتی ہے اور نا جنت و جہنم سے مربوط مطالب کو درک کر سکتی ہے۔ [4] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۶۱تا۶۲۔

منابع:

منابع:
1 مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۴،ص۱۹۸۔
2 نساء: ۱۶۵۔
3 طہ: ۱۳۴۔
4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۶۱تا۶۲۔
Views: 50

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اسلام کی نظر میں اجتماعی نظام
اگلا مقالہ: اسلام ایک جامع نظام حیات