loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۲۰}

اسلام ایک جامع نظام حیات

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

دین اسلام خاتم ہے ۔ اس لیے اس کا کامل ہونا ضروری ہے۔ دین اسلام کےبعد کسی دین نہیں آنا اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس دین میں کوئی نقص ہو۔ تمام انبیاء کرامؑ نے ایک دین تبلیغ کیا، دین شروع سے ایک ہی تھا شریعتیں بدلتی رہیں۔ یہی دین رسول اللہ ﷺ کے دور میں خاتم قرار پایا۔ دین مکمل طور پر تبلیغ کر دیا گیا ۔ لیکن کیا اس دین کو غلبہ بھی حاصل ہوا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس کو غلبہ امام مہدیؑ کے دو میں حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے دین کو بھیجا ہی اس لیے تھا کہ پوری دنیا پر اس دین کا غلبہ ہو۔ اس دین کواللہ تعالی غالب کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اس لیے کہ یہ دین کامل ہے۔ ہر دین میں عبادات، احکام اور اخلاق ہیں۔ حتی اکثر ادیان میں معاد کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ مثلا بت پرستی، زرتشت ، مسیحیت اور یہودیت وغیرہ۔ یہ سب بہت پرانے دین ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں دین رہا ہے لیکن اس کو تکمیل کی ضرورت تھی۔ لیکن جب دین تکمیل ہوا تو کچھ قومیں اسی پرانے غیر تکمیل شدہ دین پر ہی رہ گئیں۔دین اسلام کامل و خاتم دین ہیں اور آج کے انسان کا وظیفہ ہے کہ دین اسلام کے مطاق زندگی گزارے۔

اسلام کمالِ مطلق

کمال نسبی یہ ہے کہ ایک شے کو خود کوئی کمال حاصل نہیں لیکن اگر اس شے کو کسی دوسری شے کے مقابلے میں دیکھا جاۓ تو یہ بہتر لگتی ہے۔ مثلا آنکھوں سے معذور اشخاص کو جمع کیا جاۓ اور دیکھا جاۓ کہ ان میں سب سے بہتر کون ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے وہ شخص جو کانا ہوگا وہ اندھوں سے بہتر ہوگا حالانکہ کانا ہونا خود ایک نقص ہے۔ لیکن اندھوں کی نسبت ایک کمال ہے کیونکہ بہرحال اندھوں سے بہتر ہے اور کچھ نا کچھ دیکھ سکتا ہے۔ کیا دین اسلام کو بھی اسی طرح سے کمال نسبی حاصل ہے یا اسلام خود کمال مطلق ہے؟ اسلام کو کمال نسبی حاصل نہیں ہے کیونکہ اگر کمال نسبی کے قائل ہو جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اسلام کی طرح بقیہ ادیان بھی انسان کو سعادت تک پہنچا سکتے ہیں ، سب ادیان میں کچھ نقص اور کچھ اچھی باتیں۔ لیکن اسلام ان سے بہتر ہے۔ یہ بات درست نہیں بلکہ اسلام کمال مطلق ہے اور اس میں دوسرے ادیان یا مکاتب کی نسبت کسی قسم کا نقص اور عیب نہیں پایا جاتا۔ دین اسلام کی خاتمیت اور کمال کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ انسان کی تمام جہات سے سعادت چاہتا ہے ۔ اسلام کے علاوہ دنیا میں اور کوئی بھی ایسا مکتب نہیں جو انسان کو ہر جہت سے کمال تک پہنچا سکے۔

پولیٹیکل سائنس کا سائنس ہونا

اسلام کے بالمقابل دیگر مکاتب انسان کو سعادت تک پہنچانے کے دعوے دار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مشاہدہ اور تجربے سے انسانوں پر تجربہ کرتے ہیں اور نتائج حاصل کرتے ہیں اس لیے ہمارا دیا ہوا راہ حل بہتر ہے۔ پولیٹیکل سائنس کو سائنس اسی بنا پر کہا جاتا ہے۔ سائنس ہر اس علم کو کہتے ہیں جس میں مفروضہ، مشاہدہ ، تجربہ اور نتیجہ لیا جاتا ہے۔ ان مراحل سے جو علم گزرتے ہیں اس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ اگر پولیٹیکل سائنس کو سائنس قرار دیں تو جواب دینا پڑے گا کہ کیا آپ نے انسانوں پر تجربہ کیا ہے؟ وہ لیبارٹری کہاں ہے جہاں آپ نے ان مراحل سے اس علم کو گزارا ہے جس کے نتیجے میں اسے سائنس قرار دیا ہے؟ جواب میں کہا جاتا ہے کہ معاشرہ لیبارٹری ہے، مشاہدہ ہمارا تاریخ ہے۔ ہم ایک معاشرے پر تجربہ کرتے ہیں اور پچاس سال بعد جب معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے تو اس سے نتیجہ لیتے ہیں ک یہ ٹھیک ہوا یا غلط ہوا۔ اس لیے ہمارا انسانی نجات کا دیا ہوا فارمولا بہتر ہے ہم آپ کو کامل حل دیتے ہیں۔

اسلام ایک کامل نظام حیات

یہاں پر سوال ابھرتا ہے کہ اسلام کے پاس بشریت کی نجات اور اس کو سعادت تک پہنچانے کا کیا منصوبہ ہے؟ کیا اسلام نے بھی آزمائش کی ہے کسی معاشرے پر اور اس کو سعادتمند کیا ہے؟ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی حکومت کا دس سالہ دور امام علیؑ کے پانچ سال نمونے کے طور پر موجود ہیں ۔ کیا ان ادوار میں بشریت کے تمام مسائل حل ہو ۓ؟ کیا آپ کے پاس عملی دلیل یا تجربہ اور اس کا نتیجہ ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین اسلام نے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ نا صرف اس مادی عالم کو حاصل ہے بلکہ برزخ اور عالم قیامت کے حقائق تک کو شامل ہے کیونکہ یہ دین کامل ہے۔ دین اسلام صرف اس عالم کی مشکلات کو حل نہیں کرتا بلکہ قبر، قیامت تک کے مسائل کو حل کرتا ہے۔ صرف وہی مکتب کالم ہونے کا دعوی کر سکتا ہے جس نے تمام عوالم کو دیکھا ہو اور ان کے نفع نقصان کو جانتا ہو۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ کو کامل ترین وجود عطا کیا اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں وارد ہوا کہ وہ مقام «لقاء اللہ» سے ہمکنار ہوۓ۔ «دنا فتدلی» اور پھر «فکان قاب قوسین او ادنی» [1] نجم: ۹۔  کے مقام تک پہنچے۔ لوح محفوط، ام الکتاب، اور کتاب مبین کا علم ان کو عطا ہوا۔رسول اللہ ﷺ کی وجود بلند ترین کمال تک پہنچا ہوا وجود ہے۔ ان کی اتباع کر کے ہی معاشرے کمال حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم لوگ جو ذاتا کمال نہیں رکھتے اگر اس باکمال ذات سے متصل اور ان کے تابع ہو جائیں کمال حاصل کر سکتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ عمل بنانا ہوگا۔ سب انسانوں کے پاس برابر فرصت موجود ہے سب ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اگر اسوہ قرار دے کر ان کی اتباع کی تو کمال حاصل ہوگا ورنہ نہیں۔ [2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت،فقاہت و عدالت، ص ۶۴تا۶۵۔

منابع:

منابع:
1 نجم: ۹۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت،فقاہت و عدالت، ص ۶۴تا۶۵۔
Views: 31

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عقل کا فی نہ ہونا
اگلا مقالہ: اسلامی نظام سے متعلق تین اہم نظریات