loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۱۸}

اسلام کی نظر میں اجتماعی نظام

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ اقساط میں ہم نے آزادی، عبودیت اور قانون کے بارے میں جانا۔ قانون کے بارے میں ہم نے کہا کہ اس کا الہی ہونا ضروری ہے۔ الہی قانون کے حصول کے لیے نبوت کے واسطے کو ہم نے نقلی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا۔ نبوت کی ضرورت پر ابن سیناؒ کی عقلی دلیل پر خواجہ طوسیؒ نے اعتراض کیا اورفرمایا کہ آپ نے برہان بیان کیا ہے لیکن اس میں نقص ہے کامل نہیں۔ کیونکہ جو برہان آپ نے قائم کیا ہے اس سے نبوت کی ضرورت تو ثابت ہو جاتی ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کو اسلامی حکومت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ آپ کا برہان فقط یہاں تک بتاتا ہے کہ قانون لینے کے لیے نبی کی ضرورت ہے۔ لیکن اس قانون کو لاگو کون کرے؟ معاشرے میں حاکمیت کس کی ہوگی؟ اس لیے بعد میں خواجہ طوسیؒ نے اس برہان کو کامل کیا اور فرمایا کہ انسان کو شریعت اور نبوت کی ضرورت ہے ساتھ ہی اسے اجتماعی نظام کی بھی ضرورت ہے۔[1] طوسی، خواجہ نصیرالدین، شرح اشارات و تنبیہات، ج۳، ص۳۷۴۔

قرآن کریم اور اجتماعی نظام

حوزہ علمیہ کے معروف استاد آیت اللہ یزدان پناہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی تمام آیات انسان کی اجتماعی زندگی کی بات کرتی ہیں۔ قرآن جب بھی بات کرتا ہے امت کی بات کرتا ہے، قوموں کی بات کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اصحاب کا ذکر ہوا ہے، معاشروں میں موجود دنیاوی طور پر مؤثر طبقہ جسے قرآن کریم نے «ملأ» قرار دیا ہے، ان کا ذکر ہے۔ دین کے سب احکام اجتماعی ہیں۔ ہمیں اجتماعی نظام کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کرنا چاہیے۔ تشیع نے قرآن کریم کے اس پہلو پر بہت کم توجہ کی ہے۔ لیکن انقلابِ اسلامی ایران کے بعد اس کا دروازہ کھلا اور دین کے اجتماعی پہلوؤں پر موضوعات لکھے گئے۔ ظاہر ہے جب تک انسان انفرادی سوچتا رہے گا خود بھی ڈوبے گا اور جس معاشرے میں رہتا ہے اس کو بھی لے ڈوبے گا۔ مثلا خود امام علیؑ اگر انفرادی سوچتے اور اپنی ذات کو مدنظر رکھتے کبھی بھی ان پر اتنی مصیبتیں نہ آتیں۔ سکون کی زندگی گزارتے۔ انہوں نے اپنی ذات کو قربان کیا اور اجتماعی مفاد کا سوچا۔ تمام آئمہ معصومینؑ نے یہی کیا اور خود کو قربان کر کے اسلام کے اجتماعی مفاد کو مدنظر قرار دیا۔ خواجہ طوسیؒ نے بھی ابن سیناؒ کے برہان پر یہی اعتراض کیا اور فرمایا کہ جو کلام آپ نے پیش کیا ہے اس سے تو غیر اسلامی نظام سے بھی کام چل جاۓ گا۔ ظاہری طور پر اگر آج مغربی معاشرہ دیکھیں تو رفاہی لحاظ سے ہم سے زیادہ خوشحال ہیں ان کو تمام مادی سہولیات میسر ہیں۔ لیکن آخرت سے یکسرہ طور پر جدا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اضطراب کا شکار بھی ہیں۔ اسلام نے انسان کی صرف دنیوی حاجات کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ آخرت کو بھی مدنظر رکھا ہے ۔ اگر انسان کو صرف مادی ضروریات اور دنیوی حاجات چاہییں تو پھر تو اسلام کی ضرورت نہیں، اور نا ہی ظہور کی ضرورت ہے۔ انسان کو ایک کامل، جامع قانون اور ایک اجتماعی نظام کی ضرورت ہے  جس سے اس کی دنیوی اور اخروی زندگی ہر دو آباد ہوں۔ اور اس کے لیے نبی کا آنا ضروری ہے۔

معتزلہ اور اشاعرہ کے قول کا رد

ہم نے کہا کہ اجتماعی نظام کے لیے انسان کو نبی کی ضرورت ہے۔ یہاں پر اسلامی مکاتب فکر میں ایک اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی پر واجب ہے کہ وہ نبی بھیجے؟ یہ کہنا کہ  اللہ تعالی پر واجب ہے اس سے اللہ تعالی کی ذات پر جبر لازم نہیں آتا؟ یعنی کیا اللہ تعالی مجبور ہے؟معتزلہ فرقہ اس بات کا قائل تھا کہ اللہ تعالی پر واجب ہے  کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے نبی کو بھیجے۔ یہ فرقہ اللہ تعالی کے جبر کا قائل ہے۔ اس کے برعکس اشاعرہ انسان کے مجبور ہونے کے قائل ہیں اور اس بات کے شدت سے مخالف ہیں کہ  اللہ تعالی کے لیے کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جاۓ جس سے اس کی ذات پر جبر لازم آۓ۔ یہاں پر علماء امامیہ کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالی پر کچھ لازم نہیں۔ ہم اللہ تعالی پر کچھ بھی واجب قرار نہیں دے سکتے بلکہ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو کسی عمل کو ہم پر واجب قرار دے سکتی ہے۔ ہم جب ’’واجب علی اللہ‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم نے اللہ تعالی پر لازم قراردیا ہے۔ اللہ تعالی خود حاکم ہے اس پر حاکمیت نہیں جمائی جا سکتی۔ واجب علی اللہ سے مراد یہ ہوتا ہے کہ خود خدا نے اپنی ذات پر یہ ضروری قرار دیا ہے۔ خود اس کی ذات تقاضا کرتی ہے کہ جب اس نے انسان بنایا ہے تو اس کی ہدایت کے لیے نبی بھیجے۔مؤلف نے یہی کہا کہ ابن سیناؒ نے بھی صحیح امامی نظریہ بیان کیا ہے۔ انہو ں نے اپنے برہان میں افراط کیا ہے اور نہ تفریط۔[2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۵۹تا۶۰۔

منابع:

منابع:
1 طوسی، خواجہ نصیرالدین، شرح اشارات و تنبیہات، ج۳، ص۳۷۴۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۵۹تا۶۰۔
Views: 75

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نبوت کی ضرورت پر عقلی دلیل
اگلا مقالہ: عقل کا فی نہ ہونا