loading

{عرفان اسلامی از قرآن و اہل بیتؑ}

حقائق اور تمثلِ اعمال کے  چند واقعات
تحرير: سيد محمد حسن رضوی
12/29/2021

لفظِ تمثل قرآنی لفظ ہے جوکہ سورہ مریم آیت ۱۷ میں ذکر ہوا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{  فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا  }[1]مریم: ۱۷۔ امام باقرؑ سے روایت میں وارد ہوا کہ جب جناب مریمؑ محراب میں عبادت کے لیے تشریف لے گئیں تو ان کے لیے جناب جبریلؑ ایک کامل بشر کی صورت میں متمثل ہوئے۔ [2]قطب الدین راوندی، سعید، قصص الانبیاء، ص ۲۶۳۔ روایاتِ اہل بیتؑ میں یہ لفظ کثرت سے وارد ہوا ہے۔ علماءِ عرفان نے اس لفظ کو تحقیقی طور پر بیان کیا ہے اور انسان کے مختلف عوالم میں مراحلِ ارتقاء سے تمثل کا گہرا تعلق جوڑا ہے۔ علماء عرفان کی تشریحات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک عالمِ مثال یا عالم خیال خلق کیا ہے جس کو عالم ملکوت یا عالم برزخ بھی کہتے ہیں۔ اس عالم ملکوت یا عالم خیال میں حقائق اور انسانی اعمال متمثل ہوتے ہیں۔ عالم مثال دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے: ۱۔ عالم مثال متصل، ۲۔ عالم مثال منفصل۔ [3]مزید تفصیلات کے لیے اس مقالہ کو مطالعہ کیجیے۔ عالم مثال متصل سے مراد انسان کے نفس سے متصل قوتِ خیال ہے جس میں تمثل واقع ہوتا ہے۔ جبکہ عالم منفصل ہماری ذات اور ہمارے نفس سے جدا ایک جہاں ہے جس کو قوس صعودی کے اعتبار سے عالم برزخ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی اشیاء’’ مُتَمَثِّل ‘‘ہوتی ہیں۔ [4]ابن عربی، محی الدین، فصول الحکم، ج ۲، ص ۱۰۵۔ اس حقیقت کی تائید قرآن کریم کی متعدد آیات اور کثیر روایات اہل بیتؑ سے ہوتی ہے۔ اس تحریر میں ہم اس امر کی حقیقت کو آئمہ اطہارؑ سے نقل ہونے والے مختلف واقعات کے ذیل میں ملاحظہ کریں گے۔ البتہ ان واقعات کو بیان کرنے سے پہلے تمثل کے لغوی اور اصطلاحی معانی پیش خدمت ہیں۔

فہرست مقالہ

تمثل کے لغوی معانی:

تمثل عربی زبان کا لفظ ہے جس كے اصلی حروف ’’م-ث-ل‘‘ ہے ۔ لغت میں اس کا لغوی معنی ایک شیء کا دوسری شیء کے مناظر اور مشابہ ہونا ہے۔ اسی سے یہ لفظ مختلف صرفی ابواب میں استعمال ہوتا ہے۔ کلمہِ مثال بھی اسی سے مشتق ہے کیونکہ مثال میں اصل معنی کو کسی خاص پہلو اور جہت سے کسی دوسرے معنی سے مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ [5]ابن فارس، احمد معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۲۹۶۔ تمثل قرآنی لفظ ہے جس کا معنی بیان کرتے ہوئے راغب اصفہانی ذکر کرتے ہیں کہ تمثل یعنی تصور، صورت کشی ہونا۔ [6]راغب اصفہانی، حسین ، المفردات فی غریب القرآن، ص ۴۶۲۔ پس ’’مثل‘‘ ایک شیء کی دوسری شیء سے شباہت اور مماثلت کے لیے آتا ہے اور اسی سے جب کلمہِ تمثل استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ایک شیء کا صورت و شکل اختیار کرنا اور تصویر میں ڈھلنا ہے۔ 

Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اللہ تعالی کا ظاہر ہونا
اگلا مقالہ: جہان حقیقت انسانی کی صورت