loading

{فصوص الحكم فارابی}

اللہ تعالیٰ کا ظاہر ہونا
درس: شرح فصوص الحکم (فارابی)
استاد: حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

شرحِ فص ۶۳:  تفسير فلا لبس له فهو صراح فهو ظاهر… 

فصوص الحکم میں کل فصوص ۶۲ تھیں ۔ اس اعتبار سے فصوص الحکم ختم ہو گئی۔ اس کے بعد جنہیں فصوص کا نام دیا گیا ہے حقیقت میں یہ فصوص نہیں بلکہ فصوص الحکم میں بعض فصوص پیچیدہ اور دقیق معارف پر مشتمل تھیں ان مشکل معانی کی شرح فارابی نے خود کی اور آخر میں پانچ فصوص شرح کے نام سے ذکر کیں جوکہ حقیقت میں ’’فص ۱۱‘‘ کی وضاحت اور شرح ہے۔ گیارہ نمبر فص بہت مختصر لکھی گئی تھی جس کی تشریح فارابی نے فص ۶۳ میں کی ہے۔ علامہ حسن زادآملیؒ بیان کرتے ہیں کہ فصوص الحکم کے پہلے شارح خود فارابی ہی ہیں۔ ’’فص ۱۱‘‘ میں فارابی لکھتے ہیں: { واجب الوجود لا موضوع له؛ ولا عوارض له؛ فهو صراح، فهو صراح}.یہ بہت مختصر اور قلیل کلام ہے جس کی تشریح اس فص میں فارابی نے خود کی ہے۔

علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں ہر وہ چیز جو ہمیں پوشیدہ کرتی ہے وہ پانچ چیزیں ہیں۔ بعض چیزیں اس لیے پنہاں ہیں کیونکہ ان کا وجود ضعیف ہے، جیسے بعض ایسے حشرات ہیں جو سورج کی روشنی میں نہیں نکل سکتے اس لیے وہ شب نکلتے ہیں۔ بعض ایسے وجودات ہیں جو قوتِ وجود اور شدتِ وجود کی وجہ سے پنہاں ہیں نہ کہ ضعف کی وجہ سے، مثلاً سورج کو دیکھیے کہ سورج سے ہر شیء روشن اور عیاں ہے لیکن سورج ایسا روشنی کا منبع ہے کہ اصلاً اس کی طرف اس وقت نہیں دیکھا جا سکتا ہے جب وہ وسطِ آسمان پر ہو۔ اس مورد میں شدتِ روشنی کی وجہ سے ہم سورج کو نہیں دیکھ سکتے ورنہ سورج سے زیادہ روشن اور واضح و عیاں کوئی منبع روشنی نہیں۔ یہ مثالیں حسی ہیں تاکہ ان کے ذریعے معقول کو سمجھ سکیں، یعنی معقول بالمحسوس ہے۔تیسرا عامل ساتر اور حاجب ہے جو مانع بنتا ہے۔ یہ ساتر بعض اوقات مدرِک کے مباین ہے اور بعض اوقات مباین نہیں، مثلا دیوار کہ یہ ساتر اور حاجب ہے جس کی وجہ سے ہم جوکہ مدرِک ہیں اس کے ماوراء نہیں دیکھ سکتے۔ دیوار انسان کے مباین ہے۔ بعض اوقات حاجب اور ساتر مباین نہیں بلکہ مدرِک کے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ مخلوط ہے، جیسے ہمارا بدن، یہ بدن تمام معنی میں ہمارے نفس سے جدا نہیں ہےلیکن ہم اس بدن کی وجہ سے اپنی حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے۔ پانچواں عامل ِ مانع نہ مباین ہے اور نہ آمیختہ ہے بلکہ مسانخ ہے، مثلا یہ لباس حاجب ہے جوکہ ہمارے بدن کے نہ مباین ہے کیونکہ ہمارے سے چپکا ہوا ہے اور نہ آمیختہ ہے بلکہ مسانخ ہے۔

فارابی کہتے ہیں کہ ایک وجود اگر ہم سے پوشیدہ ہے تو اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ وجود یا تو ضعیف ہے یا انتہائی قوی و شدید وجود ہے یا مدرِک کے مباین ہے اور مانع ہے یا مدرِک کے ساتھ آمیختہ ہے اور مانع ہے یا مدرِ ک کے مسانخ ہے اور مانع ہے۔ان پانچ عوامل میں سے فقط شدتِ وجود اور قوت وجود کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں غائب اور پنہاں دکھائی دیتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ کا ہم سے غائب ہونا ایک حاجب اور مانع کی وجہ سے ہے اور وہ حاجب اور مانع ہمارا اپنا وجود ہے۔ معروف شعر ہے:

وإن قلت ما أذنبت قالت مجيبة

 وجودك ذنب لا يقاس به ذنب. [1]ابن عماد، شذرات الذہب، ج ۲، ص ۲۲۸۔

پس ہمارے گناہ اصل حاجب اور ساتر ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہم سے غائب ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو خود دیکھیں تو یہی سب سے بڑا حجاب ہے، اگر ہم اپنے آپ سے غائب ہو جائیں اور فناء فی اللہ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ مشہود ہے۔

جناب فاطمہؑ کے نام کی وجہ:

شہادتِ جناب زہراءؑ کی مناسبت سے مختصر تذکرہ کرنا مناسب ہے ۔جناب فاطمہؑ کے القاب متعدد وارد ہوئے ہیں۔ عموماً ایک شخصیت کے کثیر القاب نہیں ہوتے۔ جناب سیدہؑ کا نام ’’فاطمہ‘‘ تھا لیکن القاب طاہرہ، زکیہ، راضیہ ، مرضیہ، بتول وغیرہ ہے۔ ’’فاطمہ‘‘ فطم سے مشتق ہے جس کا معنی شیرخوار بچے کا ماں دودھ پینا ترک کر دیا ہے۔  اگر ہم اس معنی کو لیں تو پھر فاطمہ کیوں کہا گیا ہے؟ احادیث میں اس کی متعدد وجوہات وارد ہوئی ہیں، مثلا روایت میں آیا ہے کہ جناب فاطمہؑ کو اس لیے فاطمہ کہا گیا کیونکہ وہ شر سے محفوظ کر دی گئی ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ جناب سیدہؑ معصوم تھیں۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ فاطمہؑ کو اس لیے فاطمہ کہا جاتا ہے کیونکہ بہشت کے میوہ سے ان کی پیدائش کا سامان خلق کیا گیا ۔ اسی لیے آپؑ کو حوراء انسیہ کہا جاتا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے اس لیے فاطمہ کہا جاتا ہے کیونکہ آپؑ اور آپؑ کے شیعہ جہنم کی آگ سے محفوظ کر دیئے گئے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ اس لیے فاطمہ کہا گیا ہے کیونکہ ان کے دشمنوں میں ان کی محبت سماں نہیں سکتی۔

شرحِ فص ۶۴تا ۶۷:  الملاصق والمباين يخفيان لتوقيفهما الإدراك … 

گذشتہ فص میں پڑھ چکے ہیں کہ ایک شیء کا مخفی اور پوشیدہ ہونا پانچ اسباب میں سے ایک کی بناء پر ہوتا ہ: ۱۔ ضعفِ وجود، ۲۔ شدتِ وجود، ۳۔ حائل ورکاوٹ مباین، ۴۔ حائل غیر مباین، ۵۔ مانع و حاجبِ ملاصق۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے کیونکہ وہ ان پانچ میں سے چار تو یقینًا نہیں رکھتا کیونکہ اللہ تعالیٰ ضعیف وجود نہیں رکھتا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ  موضوع نہیں رکھتا اور موضوع کی وجہ سے ایک شیء پنہاں اور پوشیدہ ہو جاتی ہے۔ ہیولی ٰ نہیں رکھتا ، نہ ہیولیٰ اولی اور نہ ہیولیٰ ثانیہ کہ جسم کو ہیولیٰ ثانیہ کہتے ہیں، جسم صورتِ جمادی، صورتِ نباتی، صورت حیوانی اور صورت انسانی کو قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ جسم رکھتا ہے اور نہ موضوع رکھتا ہے۔ جہاں عارض ہے وہاں قبولیت کی احتیاج ہے۔ اگر ایک شیء مادہ سے مجرد ہو جائے تو وہ تعددِ افراد نہیں رکھتے ۔علم کی قسمیں ہیں: ۱۔ علم حصولی و شہودی، ۲۔ علم اجمالی و تفصیلی، ۳۔ علم کلی و علم جزئی،  ۴۔ علم یقین و علم کا حق الیقین ہونا، علم کا عین الیقین ہونا۔اگر آپ دور سے دھواں کو دیکھتے ہیں لیکن آگ نہیں دیکھتے لیکن آگ کا علم ہے کہ آگ لگنےسے دھواں پیدا ہو رہا ہے، حکماء اس راہ سے حقائق کو جانتے ہیں ، اس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں دور سے دھواں دیکھتا ہوں اور پھر اس کی طرف جاتا ہو، یہاں تک ایسی جگہ پہنچتا ہے کہ وہ آگ کو آنکھ سے دیکھتا ہے، اس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ حکماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ موضوع نہیں رکھتا اور ایک مرتبہ عرفاء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ موضوع نہیں رکھتا تو دونوں میں فرق ہے کہ حکماء نے علم الیقین کے ذریعے سے جانا جبکہ عرفاء نے عین الیقین کے ذریعے جانا ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ دھواں دیکھا اور پھر آگ تک پہنچ گئے پھر آگ کو ہاتھ لگایا اور ہاتھ جل گیا، اس کو حق الیقین کہتے ہیں۔ بعض بزرگان نے چوتھے کا اضافہ کیا ہے ’’بَرد الیقین‘‘ کہ خود آگ میں ڈھل جائے۔ اس کو برودت اور ٹھنڈک سے اس لیے اخذ کیا ہے کہ برودت سکون اور آرام کا باعث بنتی ہےجبکہ حرارت جلن کا باعث بنتی ہے۔

ملائکہ مجرد ہیں اور گوناگون و بے شمار ہیں۔ ’’ملک‘‘ کا مطلب ہے کہ مجرد ذات۔ ملائکہ متعدد انواع رکھتے ہیں لیکن متعدد افراد نہیں رکھتے بلکہ نوع بالفرد ہیں۔ ملائکہ ایسی انواع ہیں کہ جن کا ایک سے زائد سے فرد نہیں ہے۔ ملائکہ شئوناتِ حق تعالیٰ ہیں۔ ملائکہ  چونکہ مجرد ہیں اس لیے ایسی انواع ہیں جن کے افراد نہیں بلکہ فردِ واحد ہے۔ ہر فرشتہ ایک نوع اور ایک فرد ہے۔ جناب جبریلؑ و دیگر فرشتے ایک نوع اور ایک فرد ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجرد ہے مادہ نہیں اس لیے ایک ذات ہے۔ یہاں پر اگرچے فارابی کا بیان یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرد تام ہے ۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کرتے کرتے ملائکہ اور عقول سے شباہت دے دی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک طرفہ بیان درست نہیں۔ جس طرح سے فقط شباہت درست نہیں اسی طرح فقط تنزیہ بھی درست نہیں بلکہ ہر دو سے آراستہ کرنا ضروری ہے۔ توحیدِ قرآنی یہ ہے کہ تشبیہ اور تنزیہ ہر دو سے جمع کریں۔ اللہ تعالیٰ مادی نہیں ہے اور نہ صورت و شکل ہے لیکن ان سے جدا بھی نہیں ہے۔ قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ ’’لیس کمثلہ شیء‘‘ کہ یہ تنزیہ ہے اور ’’وھو السمیع البصیر‘‘ کہ یہ تشبیہ کے ساتھ جمع کر دیا گیا۔ اس لیے یہ اشکال فارابی پر وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ’’مجردِ تام‘‘ قرار دینا تنزیہ کا نتیجہ ہے لیکن اس صورت میں فرشتوں سے شباہت پیدا ہو گئی۔ یہاں تنزیہ اور شباہت کو جمع کریں تو توحیدِ قرآنی بنتی ہے۔

مجرد مشہود ہے، اس لیے کہا جاتا ہے :ہر مجرد عقل و عاقل و معقول ہے ۔ مجرد ہو تو حجاب نہیں ہے اس لیے مجرد کو دیگر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب مجرد ہے تو وہ بقیہ کے لیے قابل مشاہدہ کیوں نہیں ہے؟ اس کا جواب دیتے ہیں کہ شدتِ وجود کی وجہ سے جیساکہ سورج کو براہ راست دوپہر کے وقت نہیں دیکھ سکتے بلکہ اس کی کرن و شعاعوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں سورج کی شدتِ نورانیت کا قصور نہیں ہے بلکہ ہماری نگاہیں ضعیف اور کمزور ہیں۔ اسی طرح ہمارے وجود ضعیف و ناقص ہیں اس لیے شدتِ وجود کو برداشت نہیں کر سکتے۔ حکماء جیسے ابن سیناء نے عقلی براہین کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے مجرد ہونے کو ثابت کیا ہے ۔ البتہ یہ براہین عرفانی مبانی کے ساتھ سازگار نہیں ہیں کیونکہ حکماء کے براہین ایک نوعِ تشبیہ رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو عقول سے مشابہ بیان کرتے ہیں جوکہ قرآن کریم کی توحید سے سازگار نہیں۔ قرآن کریم توحیدِ جامع و کامل بیان کرتے ہوئے تنزیہ اور تشبیہ ہر دو کے جمع سے عبارت ہے۔ فقط تنزیہ یا فقط تشبیہ ہر دو جامع و کامل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس کی ذات سے متصف قرار دینا بھی ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان جہانوں سے جدا نہیں اگرچے عینِ عوالم بھی نہیں ہے لیکن ان سے جدا بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ معیت رکھتا ہے اس لیے مباینت اس معنی میں کہ معیت کا انکار ہو یا معیت کا اقرار اور مباینت کو ثابت نہ کیا جائے تو یہ درست نہیں کیونکہ وہ معیت بھی رکھتا ہے اور مباینت بھی ۔ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کے لیے بسیطِ محض ہے ۔ اللہ تعالیٰ بسیط الحقیقہ ہے جو تمام اشیاء کو تنہا رکھتا ہے ورنہ وجدان و فقدان سے مرکب ہونا لازم آئے گا جوکہ شرِ ترکیب ہے۔ کل الاشیاء نہ کہیں تو بعض اشیاء کا رکھنا اور بعض کا نہ رکھنا لازم آئے گا جوکہ وجدان و فقدان سے مرکب ہونا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو رکھتا ہے لیکن ان کے نقائص نہیں رکھتا۔ اس کو تشبیہ و تنزیہ کا جمع ہونا کہتے ہیں۔

ایک حکمتِ مشائی ہے ، ایک حکمتِ اشراقی اور ایک حکمتِ متعالیہ۔ حکمتِ مشاء متعدد وجوداتِ متباینہ کا تعارف کرواتے ہیں جن سے ایک وجود کا انتزاع ثابت کرتے ہیں۔ پس ایک وجود ہے جو متباین وجودات پر حمل ہوتا ہے اور تشکیکی طور پر وجود کا حمل ہے۔ اللہ تعالیٰ پر وجود کا حمل ہونا اولویت اور شدت رکھتا ہے جبکہ بقیہ وجودات پر ان کے مراتب کے مطابق ہے۔ مشاء فقط تنزیہ کے قائل ہیں اور اللہ تعالیٰ کو تنزیہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مشاء جب تنزیہ کرتے ہیں تو ایسا نہیں کہ تشبیہ کی طرف یعنی صفاتِ باری تعالیٰ کی طرف اشارہ نہیں ہوتا ۔ لیکن یہ تشبیہ یعنی صفات سے متصف ہونے کی طرف واضح طور پر بیان نہیں ہے بلکہ فقط تنزیہ کو بیان کر کے اشارہ کرنا ہے۔ اس کے برعکس حکمتِ متعالیہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سے زائد وجود نہیں رکھتے۔ لہٰذا وجود ایک ہے لیکن اس کے مراتب ہیں ، جیسے نور جوکہ خود روشن ہے اور دوسرے کو روشن کرتا ہے، لیکن یہی نور تفاوت رکھتا ہے  شدت اور ضعف ۔ عرفاء کہتے ہیں کہ وجود ’’واحدِ شخصی‘‘ ہے۔ کائنات میں فقط ایک وجود ہے بقیہ سب اس وجود کے مظاہر ہیں ۔ لہٰذا تمام مخلوقات مظاہر ہیں جو اس وجودِ واحد کی طرف نشاندہی کرتے ہیں، مثلا ایک کمرے میں متعدد آئینے ہیں جن کے سامنے ایک فرد کھڑا ہے، کوئی شیشہ بڑا ہے، کوئی چوڑا ہے، کوئی شیشہ لمبا ہے وغیرہ ۔ ہر شیشہ اپنے مطابق اس ایک فرد کا عکس ظاہر کر رہا ہے۔ کائنات میں وجود فقط ایک ہے اور بقیہ سب اس کے مظاہر ہیں۔ البتہ سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجرد ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کے ساتھ صفاتِ متصف ہونا بھی ثابت کریں جس کو تشبیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیز اس حقائق کو مکاشفات کے ذریعے کشف کریں اور قلب کے ذریعے سے جانیں۔ یہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ عرفاء عقل کے مخالف ہیں اور عقل کو قبول نہیں کرتے بلکہ عرفاء کا کہنا ہے کہ عقل تک محدود ہو کر نہ رہ جائے بلکہ عقل سے آگے بڑھے اور قلب کے ذریعے کشف کرے۔ شیخ بہائی کہتے ہیں کہ کب تک شفاء ابن سینا سے شفاء طلب کرتے رہو گے کیونکہ اس سے شفاء طلب کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے زہر کے پیالے سے شفاء حاصل کرنا ۔ پس عقلی استدلال سے بالاتر مرتبہِ قلب ہے اور راہِ دل سے انسان بالاترین حقائق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ دل کے ذریعے سے جو کشف ہے وہ عقل کی نسبت زیادہ شفاف اور واضح ہے اور اس کی رسائی عقل سے بالاتر ہے۔ حقائقِ جہان عقلی ادراک تک محدود نہیں بلکہ اس قلب کے ذریعے اس سے بالاتر اور کامل تر مقام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

قرآن کریم نے عقل کے ذریعے تفکر و تدبر کی تاکید کی ہے اور احادیث اس معنی پر کثیر ہیں۔بعض ہیں جو عقلی استدلال سے حقائق کو جانتے ہیں، جبکہ بعض موعظہِ حسنہ سے اللہ تعالیٰ کر راہ کی طرف آتے ہیں بعض ضدی اور ہٹ دہرم ہوتے ہیں جنہیں مجادلہِ حسنہ کے ذریعے سے قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنی تاکید اور احادیث کا اصرار پھر کس خاطر ہے؟ اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ ہم قرآن کریم اور احادیث کی اس تاکید کو قبول کرتے ہیں اور عقل کی قیمت و اہمیت اور منزلت کے قائل ہیں لیکن ہمارا موقف آیات و روایات کی بناء پر یہ ہے کہ انسان کی منازل و مراتب عقل پر تمام نہیں ہوتے بلکہ عقل کے علاوہ ادراک اور حقائق کو کشف کرنے کے لیے قلب کے مرحلہ سے گزرا جائے اور قلب کی رسائی مکاشفات کے ذریعے بالاترین مقام تک ہے۔امام صادقؑ نے مفضل بن عمر سے گفتگو کرتے ہوئے جناب ارسطو کا نام لے کر فرمایا کہ انہوں نے دنیا کے نظم سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر دلیل قائم کی۔ [2]مفضل، توحیدِ مفضل، ص ۱۸۱۔

وجودِ باری تعالیٰ محدودیت نہیں رکھتا بلکہ لا محدود وجود ہے ۔ وجودِ محدود کبھی ظاہر ہے اور کبھی غائب لیکن جو لا محدود ہو وہ کبھی غائب نہیں ہو سکتا ۔ پس اللہ تعالیٰ ظاہر ہے اور وجودِ حق تعالیٰ ظاہر ہے کیونکہ لا محدود ہے، مثلاً ہمارے سامنے سے ایک شخص اٹھ کر چلا جاتا ہے تو چونکہ وہ شخص وجودِ محدود ہے اس لیے پہلے ظاہر اور اس کے بعد غائب ہو گیا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر کیوں غائب ہے؟ اس بارے میں سابقاً پڑھ چکے ہیں کہ غائب ہونے کے پانچ اسباب ہیں جن میں سے ایک شدتِ وجود تھا۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے لیکن ہمیں اس لیے ظاہر دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وجودِ حق تعالیٰ شدید ہے اور ہم ضعیف و ناتوان ہیں۔ ہماری قوتِ باصرہ دید کی طاقت نہیں رکھتی۔ وجودِ حق تعالیٰ نہایتِ قوت ہے اور ہماری آنکھیں چمگاڈر کی مانند ضعیف ہیں۔ حکیم سبزواری اشعار میں کہتے ہیں کہ اشیاء سے انا الحق کی صدا بلند ہے لیکن کانِ موسوی نہیں ہیں۔ حلاج سے انا الحق کی صدا آئی تو اس کو تختِ دار پر چڑھا دیا ؟! علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ حلاج نے جو کچھ کہا یا ابا یزید بسطامی نے جو شطیحات کہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ادب سے سازگار نہیں اگرچے ان کلمات کی توجیہات کی جا سکتیں ہیں لیکن ادب کا تقاضا ہے کہ اس طرح کے کلمات نہ کہے جائیں۔پس موسیؑ ہی نہیں کہ صدائے انا الحق کو سنے!!

شرحِ فص 68: … 

ظہورِ جلائی اور ظہور استجلائی۔ اللہ تعالی ہر دو ظہور رکھتا ہے۔ ظہور جلائی بغیر واسطے کے ہے کیونکہ وہ بسیطِ محض ہے اور کسی قسم کی ترکیب اس میں موجود نہیں ہے ۔ جبکہ ’’ ظہور استجلائی ‘‘ واسطہ کے ہمراہ ہے۔ہم اللہ تعالیٰ ک دو طرح سے ادراک کرتے ہیں: ۱۔ بغیر واسطے کے ، ۲۔ واسطے کے ذریعے۔ واسطے کے ذریعے سے مراد ہے کہ ہم وجود کو آیتِ الہٰی قرار دیں اور تمام وجودات کو ظلِ وجود حق تعالیٰ قرار دیں۔ ہم موجودات عین نیاز و محتاج و فقر ہیں کیونکہ ہم وجودِ امکانی ہے جو وجوب باری تعالیٰ کا محتاج ہے، مثلاً میں کمرے میں داخل ہوتا ہے اور کمرے میں دوست تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوتا ہے۔ دوست کی طرف توجہ جاتی ہے تو اس کا ٹیک لگانا بھی ہماری نظر میں آتا ہے۔ کائنات میں ہر شیء اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہے اور اسی پر اعتماد کیے ہوئے ہے۔ اسی کی طرف امام علیؑ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے : ما رأيت شيئا إلّا و رأيت‏ اللّه‏ قبله‏ ومعه. [3]مازندرانی، محمد صالح ، شرح الکافی، ج ۵، ص ۱۰۳، حدیث ۲۔

شرحِ فص 69: … 

مشاءِ متأخر قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان موجودات کا علم رکھتا ہے لیکن یہ علمِ الہٰی موجودات کی صورت کی نوع سے ہے۔ یعنی اللہ تعالی کے علم میں موجودات کی صورتیں ہیں۔ یہاں ایک اشکال ہوتا ہے کہ یہ موجودات تو متغیر ہوتی ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ کا علم بھی متغیر ہوتا ہے؟! اس کا جواب مشاء دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم موجوداتِ کی صورت کے بارے میں کلی ہے۔ گویا کہ مشاء کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا علم حصولی ہے۔ اشراقی کہتے ہیں کہ علم حضور ِ معلوم یا حصولِ معلوم عند العالم ہے اس لیے اللہ تعالی کا علم اس طرح ہے کہ تمام موجودات اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضرہیں اور اللہ تعالیٰ کا علم شہودی اور حضوری ہے۔ یہ تشریح مشاء سے بہتر ہے لیکن یہ ثابت کرتا ہے کہ موجودات کی خلقت کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ تمام موجودات حاضر ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ قبل از ایجاد علم رکھتا تھا تو وہ علم کس نوعیت کا تھا؟! ملا صدرا ان سب کے آخر میں آئے اور انہوں نے ثابت کیا کہ موجودات اللہ تعالیٰ کی شئونات میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی ہے اور وہ اپنی ذات کا علم رکھتا ہے۔ یہ بہترین تشریح ہے علمِ الہٰی کے بارے میں ۔ اس نظریہ سے تمام اشکالات بھی دور ہو جاتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا علم رکھتا ہے لیکن اس طور پر علت کو اللہ تعالی جانتا ہے تو معلول کا بھی اللہ تعالی کو علم ہے۔ علم اجمالی در عین کشفِ تصویری ہے۔ اللہ تعالی جب اپنی ذات کا علم رکھتا ہے تو اپنی ذات کے تمام شئوونات جوکہ تمام موجودات ہیں کا بھی علم رکھتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا علم قبل از ایجاد ازلی ہے اور بعد از ایجاد بھی موجودات کا علم اللہ تعالیٰ کو اپنے شئونات کی بناء پر ہے۔

اول اور بعد یا تقدم و تأخر یا سبق و لحوق:

پس اللہ تعالیٰ سب سے پہلے اپنی ذات کا علم رکھتا ہے اور اس کے بعد موجودات کا علم رکھتا ہے۔ فارابی کا یہی کہنا ہے۔ یہاں اول اور بعد سے کیا مراد ہے ؟ کیا زمانہ مراد ہے؟ یقیناً زمانہ مراد نہیں ہے۔ اول اور بعد یا تقدم و تاخر یا سبق و لحوق سب ایک تعبیر ہے۔ اول اور بعد یا تقدم و تأخر ، یا سبق و تقدم حکماء کے مطابق پانچ قسم کا ہےجوکہ استقرائی ہے نہ کہ حصری، اس لیے ممکن ہے مستقبل میں کوئی اس میں اضافہ کرے جیساکہ حکیم سبزواری نے تقدم دہری اور ملا صدرا تقدم بالتجوہر کا اضافہ کیا ہے۔ یہ پانچ قسمیں درج ذیل ہیں:

۱۔ تقدم و تأخر زمانی: جیسے بچہ اور باپ، باپ تقدم رکھتا ہے زمانے کے اعتبارسے۔

۲۔ تقدم ذاتی یا علِّی: علت کا معلول پر مقدم ہونا، آگ نہ ہو تو حرارت نہیں ۔ اگرچے زمانے کے اعتبار سے علت و معلول ایک ہی زمان میں ہیں لیکن رتبے کے اعتبار سے فرق ہے۔ اسی طرح آپ دروازہ کا لاک کھولنے کے لیے چابی گھومتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ میں نے چابی کو حرکت دی تو چابی میں حرکت آئی۔ یہاں ایک ہی زمانے میں آپ کے ہاتھ میں اور چابی میں حرکت آئی لیکن رتبے کے اعتبار سے فرق ہے کیونکہ پہلے آپ کا ہاتھ پہلے متحرک ہوا جوکہ چابی کی حرکت کی علت ہے اور معلول یعنی حرکتِ چابی رتبے کے اعتبار سے بعد میں ہے۔

۴۔تقدم بالطبع: علتِ ناقصہ کا معلول پر مقدم ہونا۔تقدم علی میں جہاں علت ہے وہاں معلول اور جہاں معلول ہے وہاں علت ہے جبکہ اس قسم میں علت ناقصہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ علت ہو تو معلول کا ہونا ضروری نہیں ہے۔

۳: تقدم وضعی: اس کو تقدم بالرتبہ بھی کہتے ہیں، جیسے نماز جماعت میں اگر قبلہ کو ملحوظ رکھیں تو ایک امام جماعت ہے جو قبلہ کی نسبت مقدم ہے اور مأموم مؤخر۔

۵۔ تقدم بالشرف: یعنی عالم کا جاہل پر مقدم ہونا، مثلا بچہ عالم ہے اور باپ جاہل تو زمانے کے اعتبار سے باپ پہلے ہے لیکن شرف کے اعتبار سے بچہ مقدم ہے۔

فارابی نے یہاں پر جب تقدم بالشرف کی مثال دی تو خلیفہ اول اور خلیفہ دوم کی دی جس پر علامہ حسن زادہ آملی نے تحریر کیا کہ یہاں حق بنتا ہے کہ امام علیؑ کو مثال میں بیان کیا جائے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے مثال میں امام علیؑ کو لکھا تو دیکھا کہ آج ۱۳ رجب ہے لہٰذا کتاب میں علامہ حسن زادہ آملی ۱۳ رجب کی مناسبت سے فضائل امام علیؑ لے کر آئےاور اہل سنت کے بزرگان کے اقوال نقل کیے ۔ انہی بزرگان میں سے ایک ابن عربی ہے ۔ علامہ حسن زادہ آملی نے ابن عربی کا قول بیان کیا ہے کہ صادرِ اول کے لیے ایک اسم ’’ہباء‘‘ ہے اور پھر لکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ صادرِ اول کے مقام پر فقط امام العالم و اسرار الانبیاء اجمعین امام علیؑ پہنچیں ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی نےاپنی کتاب ہزار و یک کلمہ میں ۹۹ نام صادرِ اول کے درج کیے ہیں۔اسی طرح فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں بسم اللہ کی قراءت آہستہ یا اونچا پڑھنے کا مسئلہ بیان کیا ہے۔ اہل سنت بالخصوص وہابی بسم اللہ آہستہ پڑھتے ہیں جبکہ شیعہ بلند آواز میں۔ فخر الدین رازی نے اس مسئلہ کی تحقیق میں ذکر کیا ہے کہ ان کی نظر میں بسم اللہ کو اونچی آواز میں پڑھنی چاہیے اور تائید کے طور پر امام علیؑ کی سیرت سے استدلال پیش کیا اور بیان کیا کہ جس نے امام علیؑ سے تمسک کیا گویا اس نے العروۃ الوثقی کے ساتھ تمسک اختیار کیا۔ابن سیناء نے رسالہِ معراج میں ذکر کیا ہے کہ امام علیؑ صحابہ میں اسی طرح ہیں جیسے محسوسات میں معقول ہے۔ صحابہ کو محسوسات و مادیات اور امام علیؑ معقولات یعنی مجردات سے تشبیہ دی ہے۔ پس جو فرق مادیات اور مجردات اور جناب جبریلؑ اور مادی موجودات میں ہے وہی فرق صحابہ اور امام علیؑ میں ہے۔ ابن ابی الحدید معتزلی نےتصریح ہے کہ صحابہ کرام میں فقط امام علیؑ واحد ہیں جوکہ معصوم تھے۔ بقیہ صحابہ ابن ابی الحدید کی نظر میں عادل ہیں لیکن معصوم فقط امام علیؑ ہیں۔ خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ۱۷۵ ھ نے تحریر کیا ہے کہ تمام کے تمام امام علیؑ کے محتاج ہیں اور امام علی ؑ تمام لوگوں سے بے نیاز ہیں اور یہ بہترین دلیل ہے کہ امام علیؑ کل کے امام ہیں۔ملاصدرا نے دو مزید تقدم کی اقسام اضافہ کی ہیں:

۶۔ تقدم بالحقیقۃ و المجاز: جیسے ایک بس لاہور جا رہی ہے اور آگے سیٹ پر ایک شخص بیٹھا ہے جو ایک مرتبہ کہتا ہے کہ یہ بس لاہور جا رہی ہے اور دوسری مرتبہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ بیٹھا شخص لاہور جا رہا ہے۔ یہاں لاہور جانے کی نسبت بس کی طرف حقیقت ہے جوکہ مقدم ہے اور شخص کی نسبت لاہور کی طرف مجاز ہے جوکہ بس کے توسط سے جا رہا ہے۔

۷۔ تقدم بالتجوھر: اس سے مراد اجزاء ماہیت کا خودماہیت پر مقدم ہونا ہے۔ ماہیت کے اجزاء جنس و فصل ہے جوکہ ماہیت پر مقدم ہیں اور خود ماہیت مؤخر ہے جوکہ ان سے مرکب ہو کر متحقق ہوئی ہے۔

۸۔ تقدم بالدھر : تقدم بالسرمد، حکیم سبزواری نے اس نوع کا اضافہ کیا ہے۔

۹۔ تقدم بالحق: عرفاء نے اس تقدم کا اضافہ کیا ہے کہ شخصیِ وجود کی بناء پر یہ تقدم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر وجود پر وجودِ شخصی کے اعتبار سے تقدم رکھتا ہے۔ عرفاء عالم کو علت و معلول کی قبیل سے قبول نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مظاہر اور شئونات میں سے قرار دیتے ہیں۔تقدم بالحق کے مقابلے میں باطل قرار دیتے ہیں۔ عرفاء اللہ تعالیٰ کے وجودِ شخصی کے علاوہ بقیہ خلقت کو باطل کی مانند دیکھتے ہیں۔ لبیدبن مغیرہ  کا معروف شعر ہے:

ألا كلّ شي‏ء ما خلا اللَّه‏ باطل‏
وكلّ نعيم لا محالة زائل‏

بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں: > أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَتْهَا الْعَرَبُ كَلِمَةُ لَبِيد <. [4]مجلسی، محمد باقر، بحارا لانوار، ج ۶۷، ص ۲۹۵۔

فص ۷۰:

اللہ تعالی اپنی ذات کا علم رکھتا ہے اور تمام موجودات کا بھی علم رکھتا ہے۔ مشاء کہتے ہیں کہ ہر موجودِ مجرد عقل بھی ہے ، عاقل بھی معقول بھی ، یا علم، عالم اور معلوم ہے۔ مجرد اپنی ذات کے لیے حاضر ہے ، یہ علم کسی صورت کے واسطے سے نہیں ہے۔ انسان ہر شیء سے غافل ہو سکتا ہے لیکن اپنے آپ سے غافل نہیں ہو سکتا کیونکہ ذاتِ انسان خود اس کے لیے حاضر ہے۔ یہی سے ہم یہ معنی سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو خود جانتا ہے اور علم رکھتا ہے اور کوئی شیء اللہ تعالیٰ کے حاجب اور مانع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خود مجرد ہے اس لیے اللہ سبحانہ خود اپنے لیے عقل، عاقل و معقول یا علم عالم اور معلوم ہے۔البتہ یہاں ایک اشکال سامنے آتا ہے کہ مشاء نے تنزیہ ِ محض کو پیش کیا ہے جبکہ توحید واقعی یہ ہے کہ ہم تنزیہ اور تشبیہ میں جمع کریں۔ ہم یہ نہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ مادہ سے اصلاً کوئی ربط نہیں رکھتا ہے !! کیونکہ اللہ تعالیٰ مادہ کے ساتھ ہے لیکن اس کے نقائص سے مبرّا و منزہ ہے۔ علمِ الہٰی کا بقیہ موجودات کے علم سے نسبت کیا ہے؟ اس بارے میں مشاء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم صوری ہے جیساکہ ہم انسانوں میں دیکھتے ہیں البتہ کلی صورت میں علم ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ خواجہ طوسی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی موجودات کا علم اس طرح رکھتا ہے کہ تمام موجودات اللہ تعالیٰ کے محضر میں ہیں۔ یہ مشاء سے بہتر اور خوب ہے لیکن یہ علم جسے خواجہ نے ثابت کیا ہے یہ ایجاد کے بعد ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی علم رکھتا تھا جب ابھی کچھ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ بعد از ایجاد خواجہ کی بات درست ہے لیکن قبل از ایجاد یعنی ازل سے اللہ تعالیٰ علم رکھتا تھا تو اس کے بارے میں خواجہ کی بات ثابت نہیں ہوتی کیونکہ موجودات ازلی نہیں ہیں۔ اس کے بعد ملاصدرا آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا علم اپنی ذات کے بارے میں ہے اور اس کی ذات ہر شیء کی علت ہے اور علت کا علم اس کے تمام معلول کا علم ہے۔ بالفاظِ دیگر علم الہٰی اجمالی ہے اسی وقت علم الہٰی تفصیلی ہے۔ علت کا علم معلول کا علم ہے۔ لہٰذا اللہ تعالی کے علم کے بارے میں مبانی مختلف ہیں۔

اس عالم میں موجودات تغیر و تبدل کی حالت میں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم ثابت ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ٰ علمِ ثابت اس متغیر و تبدل ہونے والی وجودات سے کیسے مربوط ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ موجوداتِ عالم کا تغیر و تبدل واسطے کی وجہ سے ہے ۔ ملاصدرا نے اس واسطہ کو حرکتِ جوہری سے تعبیر کیا ہے۔ موجوداتِ عالم میں حرکت دائمی ہے۔

فص: ۷۱

اس فص میں معانی کلمہِ حق کی تحقیق بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالی کے ظاہر و باطن کو ذکر کیا گیا ہے۔اس فص میں فارابی نے حق کے تین معنی ذکر کیے ہیں اور تینوں معنی حق اللہ تعالیٰ کے لیے سازگار ہیں:

۱۔ حق یعنی مطابق واقع: اگر ایک قول مطابقِ واقع ہو تو اس قول کو ’’قولِ حق‘‘ کہتے ہیں۔ قول کو مطابِق اور اس قول کے مدلول کو مطابَق لیں تو یہ قولِ حق کہلائے گا۔اگر قول واقع کے اور واقع قول کے مطابق ہو تو یہ قول حق ہے۔یہاں حق کے مقابلے میں کذب ہے۔اس معنی میں حق بمعنی قول ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ سے اس طرح سازگار کریں گے کہ اگر کوئی کلام اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی خبر کرے اور وہ مطابقِ واقع ہو تو اس کو ہم قولِ حق کہیں گے۔

۲۔ حق یعنی متحقق و ثابت: اگر ایک قول ثابت و متحقق ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’هذا القول حق‘‘ یعنی قول ثابت ہے ۔قول کی خبر ’’حق‘‘ لائے ہیں جوکہ ’’زید عدل‘‘ کی مانند ہے یعنی مبالغہ اور ثبوت کے تاکیدی تحقق پر دلالت کرتا ہے۔یہ معنی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ میں تغیر ممکن نہیں ہے۔

۳۔ حق یعنی باطل نہیں۔یہاں حق کے مقابلے میں باطل ہے۔ حق یعنی جو باطل نہیں ہے۔وہ وجود کے جو ماہیت نہ رکھتا ہو۔ حکماء کے مطابق وجود جس کی ماہیت ’’اس کی انیت‘‘ ہے۔ اس کو وجود کو ’’حق‘‘ کہتے ہیں۔ وہ وجود جس میں نہ کوئی نقصان ہے اور نہ کوئی حد اس کو حق کہتے ہیں۔ اس کے مطابق ’’حق‘‘ کا اطلاق فقط واجب الوجود یعنی اللہ سبحانہ پر ہوتا ہے۔ اس معنیِ حق کے مقابلے میں بطلان ہے جس کا اطلاق ما سوی اللہ پر ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں فقر و نقص رکھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لبید شاعر گزرا ہے جس کے ایک شعر سے یہ مطلب آشکار ہوتا ہے، جیساکہ لبید کہتا ہے:

ألا كلّ شي‏ء ما خلا اللَّه‏ باطل‏
وكلّ نعيم لا محالة زائل‏

بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں: > أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَتْهَا الْعَرَبُ كَلِمَةُ لَبِيد <. [5]مجلسی، محمد باقر، بحارا لانوار، ج ۶۷، ص ۲۹۵۔لیبد کے شعر کا پہلا مصرعہ فارابی نے نقل کیا ہے لیکن دوسرا مصرعہ نقل نہیں کیا جس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کلیت اور جامعیت نہیں ہے کیونکہ دنیاوی نعمت زائل ہوتی ہے اخروی نہیں۔ذاتِ الہٰی حی ہے ، ذاتِ عالم و قدرت و ارادہ مرید و سمیع و بصیر …ہے۔اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے اللہ کی معرفت حاصل کریں ۔ کمال انسان اس میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اوصاف سے متصف کرے۔ اللہ سبحانہ کے اوصاف غیر متناہی ہے اور انسان کے اوصاف متناہی لیکن کمال اس میں ہے کہ اوصاف کے ساتھ تعلق پیدا کرے۔معلوم یعنی ذاتِ الہٰی غیر متناہی ہے اور بندہ اور ذاتِ انسان متناہی ہے۔ علم سے مراد یہ ہے کہ عالم کا وجودی احاطہ معلوم پر۔ اس کے مطابق متناہی غیر متناہی کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اللہ تعالی ٰ کی صفات سے انسان اپنے آپ کو متصف کرے ۔

اللہ تعالیٰ ظاہر و باطن ہے یعنی اصل یہ ہے کہ وہ ظاہر ہے ۔ لیکن ہمیں اس لیے ذاتِ الہٰی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ہماری دید کمزور ہے مثل چمگاڈر اور وجودِ حق انتہائی شدید اور ظاہر ہے کہ شدتِ نورانیت کی وجہ سے ہم سے مخفی ہے۔حکیم سبزواری اپنے شعر میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مخفی نہیں بلکہ ہماری نگاہ دید کی قوت نہیں رکھتی، صدائے أنا الحق تو درخت میں منحصر نہیں بلکہ سماعتِ موسوی نہیں کہ جو اس صدا کو سن سکے۔

فص: ۷۳

اول سے مراد ابتداء نہیں ہے بلکہ اول سے مراد یہ ہے کہ وہ جس کی ابتداء نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ اول ہے یعنی اللہ تمام کائنات کی پیدائش کا مبدأ ہے ۔ حکماء کے مطابق علت ِ علل ہے اسی کو ’’اول‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آخر سے مراد غایت الغایۃ ہے۔پس  اول یعنی جس کی ابتداء نہ ہو اور آخر جس کی انتہاء نہ ہو۔ عوام الناس سمجھتے ہیں کہ اول سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تھا اور اس زمانے میں کوئی غیر اللہ نہیں تھا!! اس پر سوال کریں کہ زمانہ کیا غیر اللہ نہیں ہے؟!! اس پر وہ جملہ تبدیل کر کے کہتے ہیں کہ ایسا لحظہ تھا کہ اللہ تھا جب غیر اللہ نہیں تھا۔ اس پر کئی اشکالات لازم آتے ہیں ، مثلا اس سے لازم آتا ہے کہ متعدد آیات کے معانی اس سے سازگار نہیں ، جیسے جہاں رخ کرو اللہ کو پاؤ گے وغیرہ۔ اشکال دوم یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی لحظہ تھا جب اللہ تھا اور غیر اللہ نہیں تھا تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ علتِ تامہ نہیں ہے کیونکہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ علت تامہ سے معلول جدا نہیں ہو سکتا۔ اشکال سوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لحظہ میں تھا کہ جب کچھ نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ نے خلقت کو خلق کرنا شروع کیا۔ یہاں سوال کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کیوں خلق کیا ؟ اس سے پہلے کیوں خلق نہیں کیا؟ اس کے بعد کیوں خلق نہیں کیا؟ پس ترجیح بلا مرجح لازم آئے گا۔ ممکن ہے جواب دیا جائے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ارادہ نہیں کیا تھا۔ یہاں ہم سوال کریں گے کہ اس سے ارادہ کازائد پر ذات ہونا لازم آتا ہے۔ اسی طرح یہ اشکال لازم آتا ہے کہ اگر ایسا لحظہ یا مرحلہ تھا کہ اللہ تعالی تھا لیکن کوئی اور موجود نہیں تھا تو اس سے لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کا فیض دائمی نہیں ہے۔ اسی طرح ایک یہ اشکال لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی نہیں ہیں یعنی عین ذات نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ قادر ہے اور قدرت عین ذات ہے اور پھر یہ تصور کریں کہ اللہ تھا اور کچھ نہ تھا تو اس وقت قدرت کے کوئی آثار نہیں تھے؟!! اس سے تو قدرت کا اس کی ذات سے جدا ہونا لازم آتا ہے۔ اسی طرح متعدد محالات اور اشکالات لازم آتے ہیں۔ ان میں اساسی اشکال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علم رکھتا تھا تو معلوم یا تو مسبوق العدم از لحاظ زمان ہے یا از لحاظ ذات ہے۔ یہاں حکماء حادثِ زمانی اور حادث ذاتی کو ذکر کرتے ہیں۔ حادث زمانی جیسے ہمارا اس دنیا میں وجود اور حادث ذاتی جیسے فرشتے کیونکہ فرشتے حادث زمانی نہیں ہیں ۔ اگر ہم اول سے مراد یہ لیں کہ پہلے نہیں تھا پھر متحقق ہوا تو یہ حادثِ ذاتی یعنی مسبوق بالعدم ہو گا ۔ اس لیے اول اس معنی میں نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ’’اللہ تعالیٰ کا آخر ہونا‘‘ کا یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اختتام !! بلکہ آخر سے مراد غایۃ الغایۃ ہونا ہے کیونکہ وہی تمام کمالات کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے ہر شیء کمال کے پیچھے ہے اور کمال ِ مطلق اللہ تعالیٰ ہے۔ جب شیء کمالِ مطلق سے مربوط ہو جاتی ہے تو اس میں اضطراب ختم ہو جاتا ہے۔ انسان بھی اسی طرح ہے کہ وہ کمال مال کو سمجھتا تھا، منصب اقتدار وغیرہ لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور ھل من مزید کی خواہش رکھتا ہے ۔ اس کا اضطراب بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کمالِ مطلق یعنی اللہ تعالیٰ سے مربوط ہو جائے یہاں اس میں اضطراب ختم ہو جاتا ہے کیونکہ کمال مطلق سے تعلق قائم کر لیا۔

علتِ غائی اور غایت میں فرق ہے اور یہ فرق اعتبار ہے۔ علتِ غائی وجودِ علمی ہے اور فاعل کے فعل کو متعین کرتا ہے جبکہ غایت وجودِ عینی و خارجی ہے اور فعل کا آخر ہے، مثلاً اگر ہم آج شب یہاں جمع ہوتے ہیں ۔ قبل اس کے کہ ہم یہاں درس کے لیے آئیں ہم نے پہلے درس کا تصور کریں گے۔ یہ تصور کرنا علتِ غائی ہے اور درس میں شرکت کرنا غایت ہے۔ پس تصور ’’علت غائی اور علم‘‘ ہے جس کی بناء پر ہم نے فعل انجام دیا ۔ لیکن غایت ہمارا درس میں شرکت کرنا ہے۔ پس علت غائی اور غایت ایک چیز ہے لیکن اعتبار کا فرق ہے کہ اگر علمی ہو تو علتِ غائی اور اگر وجودِ عینی ہو تو غایت کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ طالب ہے جو طلب کرتا ہے کہ تمام موجودات اس کی طرف کھچے چلے آئیں۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان فرماتے ہیں کہ رجب کے مہینے میں ہمارے سروں پر شور شرابہ ہے اور اللہ تعالی و فرشتے شدت سے کہہ رہے ہیں کہ اوپر آؤ ، اوپر آؤ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی طرف طلب کرتا ہے۔ اگرچے فقیر غنی کو تلاش کرتا ہے، ضعیف قوی کو ڈھونڈتا ہے لیکن طالب کی جہت سے ایسا نہیں ہے بلکہ غنی دینے کے لیے فقیر کو صدا دے رہا ہے، قوی ضعیف کو ضعف سے نکالنے کے لیے قدم بڑھا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جوّاد ہے جو ہمیں عطا کرتا ہے۔ جس طرح پیاسا چشمے کے لیے تڑپتا ہے تو اسی طرح چشمہ چاہتا ہے کہ پیاسا مجھ سے سیراب ہو۔ پس اللہ تعالی کے اسماء میں سے ایک اسم ’’طالب‘‘ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو احتیاج ہے اس لیے ہمیں طلب کرتا ہے !! ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ’’صمد‘‘ ہے۔ صمد یعنی جو خالی نہ ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ کی اصلاً ضرورت نہیں ہے اور وہ بے نیاز و مستغنی ہے۔ جو بالاتر اور عالی ہے وہ پستی اور سافل کی احتیاج نہیں رکھتا : العالی لا یلتفت الی السافل۔قرآن کریم نے اللہ تعالی کو غنی حمید قرار دیا ہے اور اللہ کے مقابلے میں تمام خلقت فقیر ہے۔ اللہ تعالی اس لیے طلب کرتا ہے تاکہ ہمیں کمال اور بلند تک پہنچائے۔

اسم الہٰی میں سے ایک اسم ’’غالب‘‘ ہےجس کے یہاں دو معنی بیان کیے گئے ہیں۔ غالب  یعنی اعدامِ عدم۔ اللہ تعالیٰ عدم کو اعدام و تمام کرتا ہے۔ اعدامِ عدم سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اشیاء کو وجود عطا کرتا ہے۔ نفی بر نفی مثبت ہوتا ہے اسی طرح اعدامِ عدم یعنی وجود عطا کرنا۔ ممکنات خود وجود نہیں رکھتے بلکہ مبدأِ وجود ان کو وجود دیتا ہے۔ اسمِ غالب کو دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سلبِ بطلان کرتا ہے۔ یہ پہلے سے مشابہ ہے لیکن لحاظ فرق کرتا ہے۔ موجودات میں سے ہر وجودِ ممکن ماہیت رکھتا ہے۔ ماہیت باطل ہے کیونکہ ماہیت من حیث ھی لیست إلا ھی۔ ماہیت وجودکی بدولت متحقق ہوتی ہے۔ ذات کے اعتبار سے ماہیت باطل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے افاضہِ وجود کی وجہ سے یہ بطلان سلب ہوتا ہے اور ماہیت ظہور پیدا کرتی ہے۔
ہر وجود جو متعدد اوصاف رکھتی ہے وہ بیان گر ہے کہ اوصاف سے متصف وجود قوی تر ہے، مثلاً ایک شخص فقط خطاط ہے، لیکن ایک شخص خطاط بھی ہے ، بڑھئی بھی ہے، انجینئر بھی ہے وغیرہ تو یہ دوسرا پہلے سے قوی ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں جو ذات متضاد اوصاف کی مالک ہو وہ پہلے دو سے مراتب کے اعتبار سے قوی تر ہے ۔اس کا پہلا مصداق اللہ سبحانہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’اول و آخر‘‘، ’’ظاہر و باطن‘‘ ، ’’شاکر و مشکور‘‘، ’’محب و محبوب‘‘، ’’رافع و خافض‘‘ ، ’’ہادی و مُضل‘‘، ’’معزّ ومُذِلّ‘‘ …ہے اور یہ سب اوصاف متضاد ہیں ۔ اسی طرح آئمہ اہل بیتؑ کے اوصاف بھی متضاد تھے۔ صفی الدین حلی جوکہ محقق حلی کے شاگرد ہیں انہوں نے امام علیؑ کی شان میں اشعار کہیں جس میں بیان کرتے ہیں کہ امام علیؑ میں متضاد اوصاف جمع کر دیئے گئے ہیں:

جُمِعَتْ في صفاتِكَ الأضدادُ،

فلهذا عَزَّتْ لكَ الأندادُ

زاهدٌ، حاكمٌ، حليمٌ، شُجاعٌ،

ناسكٌ، فاتكٌ، فقيرٌ، جوادُ

شِيَمٌ ما جُمعنَ في بَشرٍ قَطّ،

ولا حازَ مثلهنّ العبادُ

خُلُقٌ يخجِلُ النّسيمَ من العَطفِ،

وبؤسٌ يَذوبُ منهُ الجَمادُ

فلهذا تعمقتْ فيكَ أقوامٌ

بأقوالهمْ، فزانُوا وزادُوا

وغلَتْ في صِفاتِ فضلِك ياسينُ

وصادٌ وآلُ سينٍ وصادُ

ظهرتْ منكَ للورَى معجزاتٌ،

فأقرتُ بفضلِكَ الحسادُ

إن يكذِّب بها عداكَ فقد كذّ

بَ مِن قَبلُ قومُ لُوطٍ وعادُ

أنتَ سرُّ النبيّ، والصّنوُ، وابنُ الـ

ـعمّ، والصهرُ، والأخُ المستجادُ

لو رأى غيرَكَ النّبيُّ لآخاهُ،

وإلا فأخطأ الانتقادُ

بكمْ باهلَ النبيُّ ولم يُلْـ

ـفِ لَكُمْ خامِساً سِواهُ يُزادُ

كنتَ نفساً له، وعرسُك وابناك

لديهِ النساءُ والأولادُ

جَلّ مَعناكَ أن يُحيطَ به الشّعرُ،

وتُحصي صِفاتِهِ النقّادُ

إنّما اللهُ عنكمُ أذهبَ الرجسَ،

فردّتْ بغيظشها الأحقادُ

ذاكَ مدحُ الإلهِ فيكم، فإن فُهتُ

بمَدحٍ، فَذاكَ قَولٌ مُعادُ. [6]صفی الدین حلی، عبد العزیز بن سرایا، دیوان ، عصر مملوکی۔

انسان کی زندگی ایک حیاتِ ممتد ہے جس کی وجہ سے اس کو خلیفۃ اللہ کہتے ہیں۔ انسان جو ادراک کرتا ہے تو ادراک کرنے والی ذات اس کی کی حقیقت ہے نہ کہ اس کے اعضاء و جوارح۔ اگرچے ہم اپنے محاوراتِ روز مرہ میں کہتے ہیں کہ میری آنکھ نے دیکھا لیکن حقیقت میں ذاتِ نفس نے دیکھا کیونکہ نفس کے بغیر آنکھ اصلاً نہیں دیکھ سکتی۔ حقیقتِ انسان اصل مدرِک ہے نہ کہ اس کے قُوی و اعضاء۔ انسان کھاتا پیتا ہے، ذائقہ چکھتا ہے وغیرہ یہ سب نفسِ انسانی انجام دے رہا ہے اور وہی حقیقت میں کھاتا پیتا اور چکھتا وغیرہ ہے۔ اس لیے جب انسان سے بدن جدا ہوجاتا ہے اور میت بن جاتا ہے تو بدنِ انسانی ان میں سے کسی ایک کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔  حقیقتِ انسانی ان سب کو علم حضوری کے طور پر درک کرتا ہے نہ کہ علم حصولی کے طور پر۔ علم حصولی میں صورتِ اشیاء انسان کے پاس متحقق ہوتی ہے نہ کہ بذاتِ خود اشیاء، مثلاً ہم ایک کتاب دیکھتے ہیں تو کتاب کی صورت ہمارا معلومِ اول ہے اور خارج میں موجود کتاب معلومِ دوم اور ثانی و بالعرض ہے کیونکہ اگر اس کتاب کی صورت ہمارے ذہن میں نہ ہوتی تو ہمیں اس کتابِ خارجی کا علم نہ ہوتا اور نہ اس کی طرف ہماری توجہ ہوتی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خودِ صورت کتاب جو ذہن میں ہے اس کو بھی کسی اور صورت کے توسط سے نفس جانتا ہے یا براہ راست جانتا ہے؟! یقیناً براہ راست نفس اس صورت کا علم رکھتا ہے ورنہ تسلسل لازم آئے گا۔ اس لیے صورت کتاب کا علم حضوری طور پر نفس کو ہوتا ہے۔ پس نفس حقیقی مدرِک ہے نہ کہ اعضاء و جوارح۔ عینک لگا کر ہم دیکھتے ہیں تو عینک نہیں دیکھتی بلکہ عینک کے توسط سے ہم یعنی نفس دیکھتا ہے۔ اس اعتبار سے انسان کے تمام ادراکات حضوری ہیں نہ حصولی۔ کیونکہ حصولی میں جو صورت منتقل ہوئی ہے اس صورت سے نفس کا تعلق حضوری ہے نہ کہ حصولی۔

نصیحت ۱: زندگی اجتماعی

انسان اجتماعی زندگی رکھتا ہے کیونکہ اس کی زندگی متنوع اور کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے برخلاف بقیہ مخلوقات۔ امام علیؑ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: لَا يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاهُ فِي ثَلَاثٍ فِي نَكْبَتِهِ وَغَيْبَتِهِ‏ وَوَفَاتِه‏. [7]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۹۴، حکمت قصار ۱۳۴۔ انسان اپنی اس اجتماعی زندگی میں دوستی کا محتاج ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی کے کئی پہلوؤں ہیں ، مثلا ایک طرف انسان قبائلی تعلقات رکھتا ہے، دوسری طرف کسی نہ کسی شعبہِ زندگی سے وابستہ ہے، تیسری طرف سے مختلف امور میں مشغول ہے، چوتھی طرف کئی وظائف رکھتا ہے وغیرہ۔ حقیقی دوست وہ ہے جو مصیبت اور مشکل میں تمہارے ساتھ رہے اور تمہارا سختی مشکل و مصیبت میں تمہارا ساتھ دے، دوسرا غائب ہونے کی صورت میں حفاظت کرے اور وفات پر ساتھ دے۔یہ تین خصلتیں موجود ہوں تو یہ دوستِ حقیقی ہے۔

نصیحت۲:

غرر الحکم میں امام علیؑ فرماتے ہیں : > قَلِيلٌ‏ يَدُومُ‏ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ مُنْقَطِع‏؛ وہ قلیل عمل جو تسلسل اور دائمی طور پر انجام دیا اس کثیر عمل سے بہتر ہے جو منقطع کر دیا جائے <. [8]آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم و درر الکلم، ص ۴۸۱، رقم: ۱۱۰۸۲۔ایسا عمل جو کبھی کبھی انجام دیا جائے اس سے بہتر وہ قلیل عمل ہے جو دائمی طور پر انجام دیا جائے، مثلاً اگر آپ ہر روز قلیل آیات تلاوت کرتے ہیں تو یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ آپ اصلاً قرآن نہ پڑھیں یا کچھ دنوں بعد پورا ایک جزء یا کئی سو آیات تلاوت کریں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئلے کے نیچے آگ جلانی ہو تو مسلسل چنگاری اس کی آگ کا باعث بن جاتی ہے۔

نصیحت 3: علم کے بغیر کلام نہ کرو

امام علیؑ سے روایت منقول ہے جسے شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں اور سید رضی نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے۔ اس روایت میں امام علیؑ  اپنے فرزند محمد بن حنفیہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لَا تَقُلْ‏ مَا لَا تَعْلَمُ‏ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ [سُبْحَانَهُ قَدْ] فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَة؛  اے بیٹے ! جو تم نہیں جانتے وہ مت کہو، بلکہ جو جانتے وہ سب بھی مت بیان کرو، کیونکہ اللہ سبحانہ تمہارے تمام جوارح پر فرائض عائد کیے ہیں جن کے بارے میں روزِ قیامت تم سے پوچھ گوچھ کی جائے گی۔ [9]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۴۴، کلمات قصار: ۳۸۸۔انسان انتہائی قلیل علم رکھتا ہے۔علامہ حسن زادہ آملی بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک کمرے میں تمام نابغہ روزگار شخصیات مثل ارسطو ، افلاطون، فارابی و ابن سینا و ملاصدرا وغیرہ کو جمع کریں اور رسول اللہ ﷺ اس کمرے میں داخل ہوں تو رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں یہ سب اُمی ہیں جوکچھ نہیں جانتے ۔ انسان جتنا علم حاصل کرلے اس کا علم قلیل ہے۔ خیام بیان کرتا ہے:

هرگز دل من ز علم محروم نشد
کم ماند ز اسرار که معلوم نشد

هفتاد و دو سال فکر کردم شب و روز
معلومم شد که هيچ معلوم نشد. [10]خیام، رباعیات، شمارہ ۹۳۔

اگر کچھ نہیں جانتے تو آشکار واضح بغیر کسی شرمندگی کے اقرار کرو کہ نہیں جانتا اور اگر کچھ جانتے ہو تو اس کے بتانے میں بھی رعایت کرو۔الکافی میں امام صادقؑ سے روایت منقول ہے: جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَا كَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْعِبَادَ بِكُنْهِ‏ عَقْلِهِ‏ قَطُّ ، وَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُكَلِّمَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمْ. [11]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۵۱۔

عامر شعبی کہتا ہے کہ امام علیؑ کے نو (۹)جملات ایسے ہیں جو فی البدیہ ہیں اور ان نو جملات نے بلاغت کی آنکھیں نابینا کر دی ہیں اور حکمت کے جواہر کو یتیم کر دیا ہے ۔ وہ نو جملات درج ذیل ہیں: تَكَلَّمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ × بِتِسْعِ كَلِمَاتٍ ارْتَجَلَهُنَّ ارْتِجَالًا فَقَأْنَ عُيُونَ الْبَلَاغَةِ وَأَيْتَمْنَ جَوَاهِرَ الْحِكْمَةِ وَقَطَعْنَ جَمِيعَ الْأَنَامِ عَنِ اللِّحَاقِ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ: ثَلَاثٌ مِنْهَا فِي الْمُنَاجَاةِ، وَثَلَاثٌ مِنْهَا فِي الْحِكْمَةِ، وَثَلَاثٌ مِنْهَا فِي الْأَدَبِ، فَأَمَّا اللَّاتِي فِي الْمُنَاجَاةِ فَقَالَ: إِلَهِي كَفَى لِي عِزّاً أَنْ أَكُونَ لَكَ عَبْداً، وَكَفَى بِي فَخْراً أَنْ تَكُونَ لِي رَبّاً، أَنْتَ كَمَا أُحِبُّ فَاجْعَلْنِي كَمَا تُحِبُّ، وَأَمَّا اللَّاتِي فِي الْحِكْمَةِ فَقَالَ: قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ، وَمَا هَلَكَ امْرُؤٌ عَرَفَ قَدْرَهُ، وَالْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ، وَأَمَّا اللَّاتِي فِي الْأَدَبِ فَقَالَ: امْنُنْ عَلَى مَنْ شِئْتَ تَكُنْ أَمِيرَهُ، وَاحْتَجْ إِلَى مَنْ شِئْتَ تَكُنْ أَسِيرَهُ، وَاسْتَغْنِ عَمَّنْ شِئْتَ تَكُنْ نَظِيرَهُ؛ امیر المؤمنینؑ کے نو جملات ہیں جو انہوں نے فی البدیہ کہے تھے اور ان کلمات نے بلاغت کی آنکھوں کو پھوڑ کر رکھ دیا اور جواہرِ حکمت کو ان جملات نے یتیم کر کے رکھ دیا اور تمام لوگوں ان میں سے ایک جملہ کو لانے قطع کر کے رکھ دیا ہے۔ ان نو جملات میں سے تین مناجات کے بارے میں ہے کہ اور تین حکمت سے متعلق ہیں اور تین ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ جملات جو مناجات سے تعلق رکھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ۱۔ بارِ الہا ! میرے لیے یہی باعث عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں، ۲۔ میرے لیے قابل فخر ہے کہ تو میرا ربّ ہے، ۳۔ بارالہا! تم ویسا ہے جیسا میں چاہتا ہوں، پس مجھے ویسا بنا دے جیسا تو چاہتا ہے، اور وہ کلمات جو حکمت سے متعلق ہیں وہ تین یہ ہیں: ۱۔ ہر انسان کی قیمت وہ ہے جسے وہ اچھے طور پر انجام دیتا ہے، ۲۔ جو شخص اپنی قدر جانتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا ، ۳۔ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ وہ جملات جو ادب سے متعلق ہیں وہ تین جملات یہ ہیں: ۱۔ . [12]شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج ۲، ص ۴۲۰، حدیث: ۱۴۔
امام علیؑ کے تین جملات مناجات میں بلاغت کی اوج پر ہیں جس نے بقیہ بلغاء کو گنگ کر کے رکھ دیا ہے وہ یہ ہے کہ بار الہا! میرے لیے یہ باعث عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔ دوسرا جملہ بارالہا  ! میرے لیے سب باعث فخر یہ ہے کہ تو میرا ربّ ہے۔ تیسرا جملہ امام علیؑ کا یہ ہے کہ بارالہا! تو اسی طرح ہے جیسا میں چاہتا ہوں پس مجھے ویسا بنا دے جیسا تو چاہتا ہے۔

 

منابع:

منابع:
1 ابن عماد، شذرات الذہب، ج ۲، ص ۲۲۸۔
2 مفضل، توحیدِ مفضل، ص ۱۸۱۔
3 مازندرانی، محمد صالح ، شرح الکافی، ج ۵، ص ۱۰۳، حدیث ۲۔
4, 5 مجلسی، محمد باقر، بحارا لانوار، ج ۶۷، ص ۲۹۵۔
6 صفی الدین حلی، عبد العزیز بن سرایا، دیوان ، عصر مملوکی۔
7 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۹۴، حکمت قصار ۱۳۴۔
8 آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم و درر الکلم، ص ۴۸۱، رقم: ۱۱۰۸۲
9 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۴۴، کلمات قصار: ۳۸۸۔
10 خیام، رباعیات، شمارہ ۹۳۔
11 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۵۱۔
12 شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج ۲، ص ۴۲۰، حدیث: ۱۴۔
Views: 150

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رؤیت الہی
اگلا مقالہ: قدیم اور حادث کے معنی